نظامِ تعلیم کا جائزہ

User Rating: 5 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar ActiveStar Active
 
نظامِ تعلیم کا جائزہ
مولانا محمدمبشربدر
تعلیم کا انسان کی تربیت و سوچ پر گہرا اثر پڑتا ہے۔انسان کو جس قسم کی تعلیم دی جاتی ہے ویسے اثرات اس پر مرتب ہوتے ہیں اور ویسی ہی تربیت کا ظہور ہوتا ہے۔ صدیوں سے انسان میں تہذیب و شعور کی شمع فروزاں کرنے کے لیے مختلف طریقہائے تعلیم وضع کیے جاتے رہے ہیں۔ اسلام نے آکر تعلیم کی اہمیت کو بہت زیادہ اجاگر کیا ، حتیٰ کہ پہلی وحی تعلیم و تعلم سے متعلق ہے۔
ہمارے پیارے نبی ﷺ نے بھی علم کے حصول پر زور دیا ہےاور ہر مرد و عورت پر علم حاصل کرنا فرض قرار دیا، خود اپنے بارے آقاﷺ نے فرمایا: ’’ مجھے معلم بنا کر بھیجا گیا ہے۔‘‘
انسان اس وقت تک انسانیت کی معراج کو نہیں پہنچ سکتا جب تک تعلیم یافتہ نہ ہو جائے۔ تعلیم زندگی کے لیے ہی نہیں بلکہ خود زندگی ہے، آج اکیسویں صدی میں تعلیم کی اہمیت کو پہلےسے زیادہ محسوس کیا جارہا ہے۔ نہ صرف یہ معاشرتی بلکہ سب سے زیادہ اہم اقتصادی مسئلہ ہے۔
پاکستان ایک آزاد اور خود مختار ملک جانا جاتا ہے۔پاکستانی قوم میں وہ تمام تر صلاحتیں موجود ہیں جو ترقی کی اوجِ ثریا تک پہنچاسکتی ہیں ، لیکن اس سب کے باوجود ہمارے ہنر مند افراد کی ایک بڑی مقدار بیرون ممالک میں اپنے فن کے جوہر دکھلارہی ہے۔ اس کی بنیادی وجہ ناسازگار ماحول اور منصوبہ بندی کا نہ ہونا ہے۔ حکومتِ پاکستان کی ذمہ داری بنتی ہے کہ بروقت اور مناسب منصوبہ بندی کرکے پاکستان میں روزگار کے بہتر سے بہتر مواقع فراہم کرےتاکہ قابل اور ہنرمند افراد پاکستان میں ہی اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لاسکیں۔
ہمارا نظامِ تعلیمی اتنا ناقص اور ناکارہ ہے کہ ہنر مند افراد پیدا کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا جس کی بنا پر ہمارے پاکستانیوں کی ایک بڑی تعداد مغربی ممالک کے تعلیمی اداروں میں تعلیم حاصل کرتی ہے۔ہمارے نظامِ تعلیم کی ناقص کارکردگی کی اصل وجہ یہ ہے کہ ہم ایک آزاد ملک میں رہ کر بھی غلامی کی زندگی گزار رہے ہیں۔پاکستان ایک اسلامی ملک ہے لیکن اس کے باوجود تعلیمی نظام میں اسلام کو محض ایک مضمون کی حیثیت دے رکھی ہے، جب کہ اسلام ایک مکمل آئین اور ضابطۂ حیات ہے۔ یہ انسانی زندگی کے تمام گوشوں کی مکمل رہنمائی کرتا ہے۔
کوئی شعبۂ زندگی بھی مذہب سے مستغنی نہیں ہے ، اس کے باوجود اعلیٰ سطح پر اسلام کی ہمہ گیری اور انصاف پسندی کو تسلیم نہیں کیا جارہا۔
ہمارے تعلیمی نظام کی ناقص کارکردگی کی ایک وجہ طبقاتی نظام کی کشمکش بھی ہے۔ طلبا میں تحقیق و جستجو ، صحیح فکر و سوچ ناپید ہوتے جارہے ہیں، اساتذہ کی کمی اور ذہنی جمود کے علاوہ تعلیمی اداروں میں تربیت کا فقدان ہے۔ طوطے کی طرح چند الفاظ رٹادیئے جاتے ہیں اور عملی زندگی میں وہ اعلیٰ و عمدہ صفات ناپید ہوتی ہیں جن کی معاشرے کو اہم ضرورت ہے۔
ایک بڑا مسئلہ جو ہمارے تعلیمی اداروں کو درپیش ہے وہ پرائمری سطح پر اساتذہ کی اپنے فرائضِ منصبی میں غفلت ہے، دور دراز پسماندہ دیہی علاقوں میں اس چیز کا کھلی آنکھوں مشاہدہ کیا جاسکتا ہے۔ سکولوں کی خستہ اور شکستہ عمارتیں جو اپنی بوسیدگی پر نوحہ کناں ہیں ، ان کی تعمیرِ نو کی طرف مسلسل عدمِ توجہی برتی جارہی ہے۔تعلیم کو ایک کاروبار بنا لیا گیا ہے ، گلی گلی سکولوں اور اکیڈمیوں کی بھرمار ہے ، جس کی وجہ سے تعلیم کا معیار گھٹتا جارہا ہے۔
ایک بنیادی اہم مسئلہ ہمارا مغربیت سے متاثر ہونا اور ان کے نظام کو بند آنکھوں قبول کرنا ہے ، جس کی وجہ سے انگریزی زبان کو لازم کیا جارہا ہے۔ یہاں دوہرے معیار کی تعلیم دی جارہی ہے :انگلش میڈیم اور اردو میڈیم ، جب کہ آہستہ آہستہ تمام تعلیمی اداروں کو انگلش میڈیم بنایا جارہا ہے، حالانکہ سبھی جانتے ہیں کہ انسان جو بات اپنی مادری زبان میں جلد سمجھ پاتا ہے وہ دوسری زبانوں میں نہیں سمجھ پاتا، ہمارے لیے یہ بہت بڑی کنفیوژن پیدا کردی گئی ہے، ایک تو سائنس کے ذیلی مضامین جن کو اردو میں سمجھنا اور ان کے فارمولوں اور کلیوں کو یاد کرنا بذاتِ خود جان گسل کام ہے، دوسرا اسے انگلش میں پڑہانے سے وہ مزید پیچیدہ اور مشکل صورت اختیار کرلیتے ہیں۔
ہمارے لیے چین ایک ماڈل کی حیثیت رکھتا ہے جس نے نہ صرف اپنے تعلیمی اداروں میں سب مضامین چینی زبان میں لاگو کیے ہیں بلکہ انگریزی کو بھی پاس نہیں بھٹکنے دیا، اس کے باوجود وہ معیشت میں بہت آگے ہے اور عالمی سطح پر اپنی برتری کا لوہا منوا چکا ہے۔ہماری ناکامی کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ ہم آزاد ہوکر بھی غلامی کی زندگی گزار رہے ہیں اسی لیے ہم تعلیم سے لے کر معیشت تک سب میدانوں میں سب سے پیچھے ہیں ، جب کہ دیگر ترقی یافتہ اقوام کسی کی ذہنی غلامی اور مرعوبیت تیاگ کر اپنی مادری زبان میں اپنا نام و مقام پیدا کرتی ہیں۔
پاکستان ایک اسلامی ملک ہے جسے اسلام کے نام پر حاصل کیا گیا، چاہیے تو یہ تھا کہ یہاں کے سرکاری تعلیمی اداروں قرآن و سنت کو بطورِ نصاب پڑہایا جاتا ، جب کہ الٹا رہے سہے اسلامی مضامین کو ہی نکالا دیا جارہا ہے۔تمام مسلمانوں کا ایمان ہے کہ انسان اللہ کی بنائی ہوئی مخلوق ہے ، جسے اللہ نے اشرف المخلوقات بنا کر کائنات میں بھیجا ہے، اسی نے ہی اس کی دنیوی و اخروی زندگی کی فلاح کے لیے آسمانی علوم نازل فرمائے ہیں ، تاکہ ان علوم کی روشنی میں یہ اپنی حیات کا مقصد جان لے اور اپنے خالق کو پہچان کر اس کی اطاعت بجالائے ، اسی وجہ سے اہلِ ایمان کے نزدیک سب سے بنیادی اور ضروری علم وہ ہے جسے خالقِ کائنات نے انسانیت کے لیے آسمان سے نازل فرمایا، جو اس وقت قرآن و سنت کی صورت میں ہم میں موجود ہے۔
یہ اصل علم ہے جو انسانوں کو انسانیت سکھاتا ہے۔انسان کی تربیت کرتا اور اس کے باطن کو سنوارتا ہے، لیکن اس سے غفلت برتی جارہی ہے۔ مادیت کی دوڑ میں مغربیت کی نقالی کی جارہی ہے۔پھر امتِ مسلمہ کا درد رکھنے والے نیک دل مشرقی روایات کے حامل افراد کیوں کر پیدا ہوں۔
ہمیں اپنی غلطیاں ڈھونڈ کر ان کی اصلاح کرنی چاہیے، اپنی بنیاداور اصل کے ساتھ تعلق و ربط جوڑنا چاہیے، تاکہ ہمیں اپنے شاندار ماضی کو لوٹا سکیں