ہاں میں ایک بیٹی ہوں

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
ہاں میں ایک بیٹی ہوں !
سعدیہ خانم
صنف نازک کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ ہر روپ میں ابر رحمت ہے۔ پیا ر ، محبت کا بے لو ث خزانہ ہے ، خو شبو کا جھونکا ہے ، نرم نازک کلی کی مانند ہیں ، ایثار و قربانی کا نمونہ ہے۔ جس گھر میں بیٹی پیدا ہو تی ہے اس گھر کے مکیں پر رحمت کے دروازے کھو ل دیے جا تے ہیں۔ وہی بیٹی جب ماں بنتی ہے تو پر وردگار عالم اس ماں کے قدموں تلے جنت رکھ دیتا ہے۔ لیکن قابل غو ر اور قا بل افسوس بات یہ ہے کہ اسی عورت ، اسی بیٹی کا ہم اپنے معاشرے میں کیا حا ل کر دیتے ہیں۔ کس طرح اسے حقیر جانتے ہیں اور قتل بھی کر دیتے ہیں۔ اللہ تبارک و تعا لیٰ کا ارشاد ہے :
ولا تقتلوا اولادکم من خشیۃ املاق ، نحن نرزقھم و ایاکم ان قتلھم کان خطاءً کبیرا
( الا سرا ء :۳۱)
”اپنی اولاد کو مفلسی کے اندیشہ سے قتل نہ کرو۔ ہم ان کو بھی رزق دیتے ہیں اور تم کو بھی۔ بے شک ان کا قتل بہت بڑا گناہ ہے۔ “ آگے اللہ تبا رک و تعا لیٰ کا ارشاد ہے :
و اذا لمو ؤ د ۃ سئلت ، بای ذنب قتلت
)التکویر :۸۔۹)
”اور جب زندہ در گو ر کی ہو ئی لڑکی سے پو چھا جا ئے گا کہ وہ کس قصور میں ماری گئی ؟ “
اس منکر کا داعیہ خواہ اختصادی ہو یا مفلسی کا ڈر اور رزق کی تنگی یا غیر اقتصادی ہو مثل لرکی پیدائش کو اپنے لئے با عث عار سمجھنا وغیرہ۔ اس وحشیانہ فعل کو ہر صورت اسلام میں شدید حرام ٹھہرایا ہے۔ کیوں کے یہ فعل قتل ، قطع رحمی اور کمزو ر نفسی پر ظلم جیسے منکرا ت پر مشتمل ہے۔ بیٹیاں تو رحمت ہو تی ہیں ، باپ کا درد سمیٹتی ہیں ، ماں کے آنسو پوچھتی ہیں ، بھا ئی کے دکھ لےکر ان پر اپنے سکھ لٹا دیتی ہیں۔
حدیث نبوی ہے ! ”حضرت ابو سعید خدری ؓ سے روایت ہے کہ رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جس بندے نے تین بیٹیوں یا تین بہنوں یا دو ہی بیٹوں یا بہنوں بوجھ اٹھا یا اور ان کی اچھی تربیت کی اور ان کے ساتھ اچھا سلوک کیا اور پھر ان کا نکاح بھی کر دیا تو اللہ تعا لیٰ کی طرف سے اس بندے کیلئے جنت کا فیصلہ ہے۔
( ابو داؤد و ترمذی (
بیٹیاں پھولوں کی مانند ہو تی ہیں ان پھولوں کی قدر کیا کرو کیوں کہ یہ پھو ل تمہارے گھر کی زینت ہیں اگر یہ پھول نہ ہو تی تو تمہارا گھر ایک ویران کھنڈر جیسا نظر آئے گا ل۔ بقول شاعر !
بہت چنچل بہت خوشنما سی ہوتی ہیں بیٹیاں
نازک سا دل اٹھتی ہیں خاموش سی ہوتی ہیں بیٹیاں
بات بات پر روتی ہیں نادان سی ہوتی ہیں بیٹیاں
ہے رحمت سے بھر پور اللہ کی نعمت ہیں بیٹیاں
گھر بھی مہک اٹھتا ہے جب مسکراتی ہیں بیٹیاں

ہوتی ہے عجب سی کیفیت جب چھوڑ کے جاتی ہیں بیٹیاں [

 
افسو س صد افسوس ہمارے معاشرے میں حوا کی بیٹی کی پیدا ئش پر افسو س کیا جاتا ہے ، رونا ، پیٹنا ہو تا ہے ، بعض باپ بیٹی کی پیدائش سنتے ہی پاؤں پٹختے ہو ئے بیٹی کا چہرا دیکھے ، گھر یا اسپتا ل سے چلے جا تے ہیں اور بعض گھر انے کی بیٹی کی پیدا ئش پر بھی جشن منا تے ہیں اور اپنے رب کا شکر ادا کرتے ہیں اور یہی لوگ اللہ تعا لیٰ کے پسندیدہ بندے ہیں۔
بعض گھرانوں میں اس عو رت کو منحو س کہا جاتا ہے جو لڑکیوں کو جنم دیتی ہیں ، یہاں تک کہ شو ہر بیوی کو دھمکی دیتا ہے کہ اگر بیٹی پیدا ہو ئی تو طلاق دے دوں گا ذرا سو چئے ! کیا کسی عو رت کے اختیا ر میں ہیں کہ وہ بیٹا پیدا کرے یا بیٹی۔ اللہ تعا لیٰ کا فرمان ہے :”اللہ ہی کی ہے سلطنت آسمانوں کی اور ازمین کی وہ جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے جس کو چاہتا ہے بیٹیاں عطا فرماتا ہے اور جس کو چا ہتا ہے بیٹے عطا فر ماتا ہے یا ان کو جمع کر دیتا ہے کہ بیٹے بھی دیتا ہے اور بیٹیاں بھی اور جس کو چا ہے بے اولاد رکھتا ہے بے شک وہ بڑا جاننے والا بڑی قدرت والا ہے۔
)سو رۃ شوریٰ : ۴۹۔۵۰(
اسلام کی نظر میں لڑکا اور لڑکی دونوں کی زندگیاں یکساں طور پر محترم ہیں۔ بہت سے ایسے بھی ہما رے معاشرہ میں بیٹی کو بو جھ سمجھ کر بیوی پر ، بہو پر لعن طعن کی جا تی ہے۔ یہ رویہ صرف جاہل لوگوں تک محدود نہیں ہیں بلکہ پڑھے لکھے لو گ بھی ایسی سو چ رکھتے ہیں۔ بہت سے پڑھے لوگ بھی زیادہ بیٹی نہ ہوں اس ڈر سے آپریشن بھی کر وا دیتے ہیں۔ بیٹی کو بوجھ سمجھتے ہیں ، منحو س سمجھتے ہیں اس سے تو بہتر جا ہل ہو تے ہیں جو بیٹی کو بو جھ یا منحو س نہیں سمجھتا۔
رسو ل ﷺ نے فر مایا : جو شخص بیٹیوں کی وجہ سے آ ز مایا گیا ، پھر وہ ان کی اچھی تربیت کرے تو قیامت کے دن یہ بیٹیاں اس کے لئے جہنم سے آر بن جائیں گی۔
( صحیح البخاری (
مسلمانوں کی شان یہ ہونی چا ہئے کہ وہ اللہ تعا لیٰ کے اس عطیہ کا خو شی خو شی شکر کرتے ہو ئے استقبال کرے نہ کی بڑ اسا منہ بنا ئے ہو ئے نا راضگی کا اظہار کرے جیسے قرآن کریم میں جا ہل کا فروں کی عادت و طبیعت یہ بتلائی گئی ہے کہ جب ان کو لڑکی کی خبر سنا ئی جا تی ہے تو غم کے مارے ان کا چہرہ کا لا سیاہ ہو جاتا تھا ، تو معلوم ہو ا کہ لڑکیوں کو بڑا سمجھنا بد ترین خصلتوں میں سے ہے۔ بیٹیا ں ہو نا خوش قسمتی اور سعادت کی بات ہے۔
بیٹیاں سب کے مقدر میں کہاں ہوتی ہیں

گھر خدا کو جو پسند آئے وہاں ہوتی ہیں ]