اللہ والوں کی صحبت

User Rating: 3 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar InactiveStar Inactive
 
اللہ والوں کی صحبت
کاشف الرحمان، پبی
مولانا رومی رحمہ اللہ ارشاد فرماتےہیں: لومڑی کی بزدلی مشہور ہے لیکن جس لومڑی کی کمر پر شیر کاہاتھ ہو کہ تم گھبر انا مت ،میں تیرے ساتھ ہوں تو بزدلی کے باوجود شیرکے فیض سے اس قدر باہمت ہوتی ہے کہ چیتوں کے ساتھ ٹکر کھانے کے لیےتیار ہوجاتی ہے۔
یہی حال حق تعالیٰ کے خاص بندوں کاہوتاہے کہ وہ مال کے نہ ہونے کے باوجو دکسی قسم کے باطل سے نہیں ڈرتے،نہ خوف زدہ ہوتے ہیں۔ اس وجہ سے کہ ان اولیاءاللہ کے دلوں میں ،دماغ میں اللہ تعالی ہوتاہے اور اللہ جس کے ساتھ ہوتاہے اسے کوئی شخص چاہے پوری دنیاکابادشاہ ہووزیرہوجوبھی ہواسے کسی قسم کانقصان نہیں دے سکتا۔
بھائیوا،بہنو! یہ دنیا اللہ کی ایک عظیم نعمت ہےاوریہ نعمت تب بنے گی جب ہم اپنےآپ کواللہ والوں کےسپردکریں گے ان کی خدمت کو سعادت سمجھیں ،اگر انسان سرسےپاؤ ں تک، پاؤں کے ناخن سے لے کر عرش تک گناہ کرلے اور ایک مرتبہ اہل اللہ کی صحبت میں آکر توبہ کریں تو اس کے لیے آقائے نامدار ،سروردوعالم ،امام الانبیاء،سیدالانبیاء،خاتم الانبیاء حضرت محمد ﷺکا فرمان ہے کہ جب کوئی بندہ اپنے گناہ سےتوبہ کر نے اللہ والوں کے پاس آتاہے اور توبہ کرتاہے۔ کیونکہ نیک بستی میں جاکر یانیک بندوں پاس جاکر توبہ کر ے، تو جلدی قبول ہوتی ہے۔
آج مسلمان جتنابھی اولیاءاللہ کے صحبت سے دورہوتے جاتے ہیں اتنازیادہ شیطان کے قریب پہنچ رہا ہے شیطان اس پر جلد حملہ آور ہو تاہے اگر انسان نیک عمل نہ بھی کرسکے توان اولیاءاللہ کی صحبت کی برکت سے اللہ تعالی اس کوبخشتاہے۔
صحیح بخاری میں روایت ہے کہ گناہگاروں کی ایک بستی کانام ”کفرہ “تھاوہاں ایک آدمی نے سو قتل کر دیے تو وہ ایک عالم کے پاس گیا اور کہا کہ میں نے سو قتل کیے ہیں کیا میری توبہ قبول ہو سکتی ہے تواس عالم نے کہا کہ فلاں بستی میں جاؤوہاں صالحین رہتے ہیں جس کانام ”نصرہ “ہے وہاں تمہاری توبہ قبول ہوگی ابھی وہ شخص راستے میں تھاکہ عزرئیل علیہ السلام نے اس کی روح قبض کرلی۔ لیکن جب اس کی روح نکل رہی تھی تو اپنے سینے کو اس علاقے کی طرف گھسیٹ دیاتھا تاکہ قریب ہوجاؤں اور اسی حال میں وہ شخص مرگیا۔ تونیک اور بددونوں قسم کے انسانوں کی روح کو لےجانے والے فرشتے آگئےاور آپس میں جھگڑنے لگےان کی روح ہم لے جائیں گے توفوراًاللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ تم زمین کو ناپ لواگر زمین کفرہ کے قریب ہے توبرے آدمی کی روح لے جانے والے فرشتے اس کی روح لائیں اور اگر صالحین کی بستی کے قریب ہے تو نیک آدمی کی روح والےفرشتے اس کی روح لائیں،جب فرشتے زمین ناپنے لگے تو اللہ نے زمین کو حکم دیاکہ نیکوںوالی بستی کی زمین قریب ہوجاؤ اور جوگناہوں والی بستی تھی اس زمین کوحکم دیا تودور ہوجاؤ۔جب فرشتوں نے زمین ناپ لی تو بروں کی بستی کفرہ سے اس کا فاصلہ زیادہ نکلا اورصالحین کی بستی نصرہ سے اس کا فاصلہ کم تھاچنانچہ نیک لوگوں کی روح والے فرشتے اس کی روح کوہاتھوں ہاتھ لے کرآسمان پر گئے۔
)بخاری ج۱ص۴۹۳ باب حدیث الفار(
محدثین فرماتے ہیں کہ کم تواللہ نے کردیا پھر پیمائش کاکیافائدہ ،اس کاجواب یہ ہے کہ
ھذا فضل فی صورۃعدل
۔عدل کی صورت میں فضل پو شیدہ تھا یعنی فرشتوں کے ذریعہ سے زمیں کی پیمائش کرناعدل ہے اپنے حکم سے زمین کوقریب کرنافضل ہے تو اللہ کی یہ شان ہے۔