اصحاب الُاخدُود کون تھے ؟

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
اصحاب الُاخدُود کون تھے ؟
مہتاب بشیر کشمیری
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے صحیح مسلم کی ایک حدیث میں منقول ہے اور وہ یہ کہ پچھلی کسی امت میں ایک بادشاہ تھا جو ایک جادو گر سے کام لیا کرتا تھا ،جب وہ جادوگر بوڑھا ہوگیا تو اس نے بادشاہ سے کہا کہ میرے پاس کوئی لڑکا بھیج دیا کرو جسے میں جادو سکھاؤں تاکہ میرے بعد وہ تمہارے کا م آسکے، بادشاہ نے ایک لڑکے کو بادشاہ کے پاس بھیجنا شروع کردیا، یہ لڑکا جب جادوگر کے پاس جاتا تو راستے میں ایک عبادت گذار شخص کے پاس سے گزرتا جو عیسی علیہ السلام کے اصلی دین پر تھا (ایسے شخص کو راہب کہتے تھے )اور توحید کا قائل تھا یہ لڑکا اس کے پاس بیٹھ جاتا اور اس کی باتیں سنتا تھا جو اچھی لگتی تھیں ،ایک دن وہ جارہا تھا تو راستے میں ایک بڑا جانور نظر آیا جس نے لوگوں کا راستہ روکا ہوا تھا (بعض روایتوں میں آتا ہے کہ وہ جانور شیر تھا )
لڑکے نے ایک پتھر اٹھایا اور اللہ تعالی سے دعا کی کہ یا اللہ ! اگر راہب کی باتیں آپ کو جادو گر کی باتوں سے زیادہ پسند ہے تو اس پتھر سے اس جانور کو مروادیجئے ، اب جو اس نے پتھر اس جانور کی طرف پھینکاتو جانور مرگیا ،اور لوگوں کا راستہ کھل گیا ، اس کے بعد لوگوں کو اندازہ ہوا کہ اس لڑکے کے پاس کوئی خاص علم ہے۔ چنانچہ ایک اندھے شخص نے درخوست کی کہ اس کی بینائی واپس آجائے ،لڑکے نے اس سے کہا کہ شفاء دینے والا اللہ تعالی ہے اس لئے اگر تم وعدہ کرو کہ اللہ کی توحید پر ایمان لے آؤگے تو میں تمہارے لئے اللہ سے دعا کروں گا، اس نے یہ شرط مان لی لڑکے نے دعا کی تو اللہ تعالی نے اس کی بینائی عطا کردی ،اور توحید پر ایمان لے آیا۔ ان واقعات کی خبر جب بادشاہ کو ہوئی تو اس نے اس نابینا کو بھی گرفتار کرلیا اور لڑکے اور راہب کو بھی ،اور ان سب کو توحید کے انکار پر مجبور کیا جب وہ نہ مانے تو اس نے اس نابینا شخص اور راہب کو توآری سے چروادیا ،اور لڑ کے کے بارے میں اپنے نوکروں کو حکم دیا کہ اسے کسی اونچے پہاڑ پر لے جاکر نیچے پھینک دیں ،لیکن جب وہ لڑکے کو لے کر گئے تو اس نے اللہ تعالی سے دعا کی پہاڑ پر زلزلہ آگیا جس سے وہ لوگ مرگئے اور لڑکا زندہ رہا۔
پھربادشاہ نے حکم دیا کہ اسی کشتی میں لے جاکر سمندر میں ڈبودیا جائے، لڑکے نے پھر دعا کی ،جس کے نتیجے میں کشتی الٹ گئی وہ سب ڈوب گئے اور لڑکا پھر سلامت رہا۔ بادشاہ جب عاجز آگیا لڑکے نے کہا اگر تم مجھے واقعی مارنا چاہتے ہوتو اس کا ایک ہی طریقہ ہے اور وہ یہ کہ تم سب لوگوں کو ایک میدان میں جمع کرکے مجھے سولی پر چڑھاؤ، اور اپنے ترکش سے تیر نکال کر کمان میں چڑھاؤ ،اورکہو :اس اللہ کے نام پر جو اس لڑکے کا پروردگار ہے پھر تیر سے میرا نشانہ لگاؤ، بادشاہ نے ایسے ہی کیا اور تیر اس لڑکے کی کنپٹی پر جاکر لگا اور اس سے وہ شہید ہوگیا۔ لوگوں نے جب یہ نظارہ دیکھا تو بہت سے ایمان لے آئے، اس موقع پر بادشاہ نے ان کو سزادینے کے لئے سڑکوں کے کنارے پر خندقیں کھدواکر ان میں آگ بھڑکائی اور حکم دیا کہ جو کوئی دین حق کو نہ چھوڑے اسے ان خندقوں میں ڈال دیا جائے ،چنانچہ اس طرح ایمان والوں کی ایک بڑی تعداد کو زندہ جلادیا گیا۔