مولانا عبیداللہ کی اسلامی خدمات

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
مولانا عبیداللہ کی اسلامی خدمات
ریاض احمد چوہدری
جامعہ اشرفیہ لاہور کے مہتمم اور ملک کے نامور بزرگ عالم دین حضرت مولانا محمد عبیداللہ علالت کے بعد لاہور کے مقامی ہسپتال میں 95 سال کی عمر میں وفات پا گئے۔ آپ جامعہ اشرفیہ لاہور کے نائب مہتمم و متحدہ علماء بورڈ حکومت پنجاب کے چیئرمین مولانا حافظ فضل الرحیم کے بڑے بھائی قاری احمد عبید، قاری ارشد عبید، امجد عبید، حافظ اسعد عبیداور حافظ اجود عبید کے والد تھے۔
مولانا محمد عبیداللہ دارالعلوم دیوبند کے فاضل اور 55 سال سے جامعہ اشرفیہ لاہور کے مہتمم کے منصب پر فائز رہے۔ آپ نے مولانا اشرف علی تھانوی، مولانا سید حسین احمد مدنی، علامہ انور شاہ کاشمیری، مولانا اعزاز علی اور مفتی محمد شفیع جیسی عظیم شخصیات سے احادیث اور مختلف علوم و فنون کی کتب پڑھیں۔
نماز جنازہ جامعہ اشرفیہ لاہور میں نماز جمعہ کے بعد آپ کے بیٹے جامعہ اشرفیہ لاہور کے ناظم اعلیٰ مولانا قاری ارشد عبید نے پڑھائی جس میں قاری حنیف جالندھری، مولانا صوفی محمد سرور، مفتی محمد حسن، سپیکر سردار ایاز صادق، مجیب الرحمن شامی،راقم الحروف، ڈاکٹر شہریار، جسٹس (ر) خلیل الرحمن، مولانا انوارالحق، مفتی حمید اللہ جان، جامعہ اشرفیہ کے اساتذہ و طلبا سمیت تمام شعبہ ہائے زندگی سے وابستہ ہزاروں افراد نے شرکت کی۔ مرحوم کو مقامی قبرستان شیر شاہ اچھرہ لاہور میں سپرد خاک کر دیا گیا۔
وزیراعلیٰ شہباز شریف نے مولانا محمد عبیداللہ کے انتقال پر گہرے دکھ اور افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ مرحوم کی وفات سے علمی، دینی حلقے ایک محقق عالم دین سے محروم ہو گئے ہیں۔ مرحوم کی دینی، ملی خدمات مدتوں یاد رہیں گی۔ آپ کی تمام زندگی قال اللہ و قال الرسول کی صدائیں بلند کرتے اور اشاعتِ دین میں گذری۔
آپ علم و عمل ، زہد و تقویٰ کے پیکر تھے آپ کا تعلق اْن علماء حق کے ساتھ ہے جن کے آباؤ اجداد نے تحریک پاکستان میں بھرپور حصہ لیا۔ آپ کے والد گرامی بانی جامعہ اشرفیہ حضرت مولانا مفتی محمد حسن نے اپنے پیر و مرشد مولانا اشرف علی تھانوی کے حکم پر شیخ الاسلام علامہ شبیر احمد عثمانی ، مولانا ظفر احمد عثمانی ، مفتی اعظم پاکستان حضرت مولانا مفتی محمد شفیع رحمہم اللہ اور دیگر علمائے دیوبند کے ہمراہ تحریک پاکستان میں بھرپور حصہ لیا جس کے نتیجہ میں پاکستان بننے کے بعد مشرقی و مغربی پاکستان پر آزادی کا پرچم لہرانے کی سعادت ''بزم اشرف'' کے روشن چراغ اور دارالعلوم دیوبند کے قابل فخر سپوت حضرت مولانا علامہ شبیر احمد عثمانی اور مولانا ظفر احمد عثمانی کو حاصل ہوئی۔
حضرت مولانا محمد عبیداللہ 1921ء میں امرتسر میں مولانا مفتی محمد حسن صاحب کے گھر میں پیدا ہوئے آپ نے ابتدائی قاعدہ سے لیکر حفظِ قرآن تک کی تعلیم قاری رحیم بخش سے حاصل کی اور 9سال کی عمر میں قرآنِ کریم مکمل حفظ کر لیا جس کے بعد صرف و نحو اور فارسی کی کتابیں مولانا محمد یوسف اور دور حدیث تک کی کتابیں اپنے والد محترم حضرت مفتی محمد حسن سے پڑھیں اور پھر حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی کے حکم اور مشورہ سے عالَم اسلام کے عظیم دینی ادارہ دارالعلوم دیوبند میں دور حدیث کے لیے تشریف لے گئے۔ اس سے قبل حضرت مولانا اشرف علی تھانوی نے تمام فنون و احادیث کی کتب کی ابتداء مولانا محمد عبیداللہ کو خود کروائی۔
1941ء کو دارالعلوم دیوبند سے سندِ فراغت حاصل کی جس کے بعد افتاء کا کورس کرنے کے ساتھ ساتھ پنجاب یونیورسٹی سے عربی فاضل کا امتحان امتیازی حیثیت کے ساتھ پاس کرتے ہوئے ڈگری حاصل کی۔ فراغت کے بعد اپنے والد ماجد کی سرپرستی میں مدرسہ نعمانیہ امرتسر میں درس و تدریس کا آغاز کیا اور قیام پاکستان تک یہ سلسلہ جاری رہا اور پھر جامعہ اشرفیہ کے قیام میں آنے کے ساتھ ہی آپ نے درس و تدریس کا دوبارہ سلسلہ شروع کیا اور دورانِ تدریس ہی شیخ التفسیر دارالعلوم دیوبند مولانا رسول خان سے فلسفہ و منطق کی کتابیں بطور اتصالِ سند پڑھیں۔
1953ء سے 1961ء تک جامعہ اشرفیہ لاہور میں درس و تدریس کے ساتھ ساتھ ناظمِ تعلیمات کے عہدہ پر بھی فائز رہے۔ اس دوران حضرت مفتی محمد حسن نے اپنی زندگی ہی میں آپ کو جامعہ اشرفیہ لاہور کے مہتمم کا عہدہ تفویض فرمادیا۔ آپ کی وفات تک یہ سلسلہ55 سال تک جاری رکھا اور آپ نے اس منصب کا حق ادا کیا۔ آپ کے اخلاص و للہیت کی وجہ سے جامعہ اشرفیہ لاہور بڑی تیزی کے ساتھ ترقی اوراپنی علمی و دینی منازل طے کرتے ہوئے آج پوری دنیا میں ثانی دارالعلوم دیوبند کی حیثیت سے مشہور و معروف ہے۔
اس وقت پوری دنیا میں جامعہ اشرفیہ لاہور کے فیض یافتہ دین حنیف کی خدمت میں مصروف ہیں اور حرمین شریفین میں بھی جامعہ کے فضلاء درس و تدریس کے فرائض سرانجام دینے کی سعادت حاصل کر رہے ہیں۔
جامعہ اشرفیہ سے تعلیمی فراغت پانے کے بعد سینکڑوں طلبہ نے ایم فل ،پی ایچ ڈی ، ایم بی بی ایس، انجینئرنگ اور قانون کی ڈگریا ں حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ تحقیق و تصنیف ،صحافت و خطابت اور دعوت و ارشاد کے میدانوں میں قابل قدر خدمات انجام دے رہے ہیں۔
آپ کی خوبصورت ، باوقار اور ایمان پرور شخصیت کو اللہ تعالیٰ نے بے شمار خوبیوں سے نوازا تھا۔آپ ذہانت و ظرافت ، حاضر جوابی اور نفاست طبع کے حسین مرقع تھے۔ آپ نے کم و بیش 55 سال تک جامعہ اشرفیہ لاہور میں درس و تدریس کے ساتھ ساتھ مسجد الحسن جامعہ اشرفیہ لاہور میں جمعتہ المبارک کا خطبہ دیتے ہوئے نماز پڑھاتے جس کے بعد انتہائی رقت آمیز دْعا کراتے ہوئے حاضرین سے روتے ہوئے ایک جملہ ہمیشہ فرمایا کرتے تھے”آپ لوگوں کا مجھ ناچیز پر احسان عظیم ہوگا کہ میرے لئے بھی دعاکریں کہ اللہ تعالی میرا خاتمہ بالایمان فرمائیں“آپ تمام زندگی عہدہ اور منصب سے دور بھاگتے،لیکن اس کے باوجود اللہ تعالیٰ نے مولانا محمد عبیداللہ کو بے پناہ محبوبیت و مقبولیت سے نوازا۔
اللہ تعالیٰ نے حضرت مولانا محمد عبیداللہ کو انتہائی نیک و صالح اولاد سے نوازاجن میں پانچ بیٹے قاری احمد عبید، قاری ارشد عبید، امجد عبید، راقم حافظ اسعد عبیداور حافظ اجود عبید اور دو بیٹیوں سے نوازا۔ ان میں سے ہر کوئی شب و روز دین کی اشاعت اور جامعہ اشرفیہ کی خدمت میں مصروف عمل ہیں اور آگے ان کی اولادیں بھی تعلیم و تدریس کی خدمت سرانجام دے رہی ہیں۔
آپ جامعہ اشرفیہ لاہور کے مہتمم کے منصب پر فائز رہنے کے ساتھ ساتھ ممبراسلامی نظریاتی کونسل آف پاکستان،ممبر سلیکشن بورڈ و سنڈیکیٹ یونیورسٹی آف پنجاب ، وائس چیئرمین انجمن حمایت اسلام، صدر مجلس صیان المسلمین پاکستان، مرکزی نائب صدر وفاق المدارس العربیہ پاکستان، مدیر اعلیٰ ماہنامہ الحسن بھی رہے اور حکومت پاکستان نے آپ کی قومی و ملی خدمات پر آپ کو تمغہ ستارہ امتیاز سے بھی نوازا۔
آپ اپنی زندگی کے آخری لمحات تک دین کی خدمت اور درس و تدریس میں مصروف رہے۔مولانانے غیر منقسم ہندستان اور پاکستان دونوں خطوں میں علم و عمل کا چراغ روشن کیے رکھااور اس وقت سرحد کے دونوں طرف ان سے علمی اور اصلاحی استفادہ کرنے والے علما اور صلحا کی بہت بڑی تعداد علم و عمل کی لائن سے قوم و ملت کی خدمت اور نسل نو کی تعلیم و تربیت میں مصروف کار ہے۔ وہ عجز و انکساری اور تواضع و خوش مزاجی کا پیکر تھے۔ ایسے وقت میں جب کہ ہر طرف کفر و شرک اور بدعت و ضلالت کے اندھیرے پھیلتے جارہے ہیں،امت مسلمہ پر ہر طرف سے مسائل کی بارش ہورہی ہے، ان کی وفات سے علم و عمل اور اصلاح و تربیت کی دنیا میں بہت بڑا خلا محسوس ہورہا ہے۔ ان کے اٹھ جانے سے علم و عمل اور تعلیم و تدریس کی دنیا میں سناٹا چھا گیا ہے۔مدارس و مکاتب کی فضا مغموم ہے۔
وہ طلبہ، عوام و خواص میں بہت ہی مقبول عالم دین تھے، اس لیے ان کے انتقال پر ملال پر صرف پاکستان ہی نہیں، بلکہ پورا ہندستان اور پورا بر صغیر سوگوار ہے۔ اللہ انہیں جنت الفردوس میں اعلی مقام عطا فرمائے۔ پسماندگان کو صبر جمیل کی توفیق دے اور امت مسلمہ کو ان کا نعم البدل عطا فرمائے۔