احساس

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
احساس
شہباز بلوچ
اس نے ایک مانگنے والے کو جھٹ سے کچھ نکال کر دے دیا۔ مَیں نے کہا کہ بھائی دیکھ بھال کر دینا چاہئے یہ فراڈ لوگ ہوتے ہیں اور عام انسان کے جذبہ نیکی کو ایکسپلائٹ کرتے ہیں! فرمانے لگے آپ نے بجا فرمایا، مَیں پہلے ایسا ہی کیا کرتا تھا، پھر ایک واقعے نے میری دُنیا بدل کر رکھ دی۔
مَیں دھرم پورہ لاہور میں اپنے گھر سے سائیکل پہ نکلا تھا کہ ٹھیکیدار سے اپنے بقایا جات وصول کر لوں، مَیں سٹیل فکسر تھا اور ایک کوٹھی کے لینٹر کے پیسے باقی تھے مگر ٹھیکیدار آج کل پر ٹرخا رہا تھا۔ مَیں سائیکل پہ جا رہا تھا کہ ایک شخص اپنا بچہ فٹ پاتھ کے کنارے لٹائے ہسپتال پہنچانے کے لئے کسی ٹیکسی کا کرایہ مانگتا پھر رہا تھا۔
وہ کبھی کسی پیدل کا بازو پکڑ کر ہاتھ جوڑ دیتا، میرا بچہ بچا لیں مجھے ٹیکسی کا کرایہ دے دیں تو کبھی موٹر سائیکل والے کو ہاتھ دے کر روکتا، کبھی کسی کار والے کے پیچھے بھاگتا کہ وہ کار میں اس کے بچے کو ہسپتال پہنچا دے، کوئی رکتا تو کوئی نہ رکتا، جو رکتا وہ بھی اسے گھور کر دیکھتا اور آپ والی سوچ۔۔۔ سوچ کر اسے ڈانٹتا، کام کر کے کھانے کی نصیحت کرتا اور آگے نکل جاتا۔
مَیں سائیکل سائیڈ پر روکے ایک پاؤں زمین پر ٹیکے اس کا تماشہ دیکھ رہا تھا، اچانک اس کی نظر مجھ پر بھی پڑی اور اس نے میری سائیکل کا ہینڈل پکڑ لیا، بھائی جان خدا کے لئے میرے بچے کی زندگی بچا لیں اس کو سخت بخار ہے۔
آپ نیچے اُتر کر اس کو دیکھ تو لیں آپ کو یقین آ جائے گا۔ آپ دیں گے تو شاید کسی اور کو بھی اعتبار آ جائے۔
مگر مَیں بھی آپ کی طرح سوچ رہا تھا، پھر جس جارحانہ انداز میں اس نے میری سائیکل کا ہینڈل پکڑ رکھا تھا لگتا تھا کہ ادھر مَیں سائیکل سے اترا اور ادھر وہ سائیکل پکڑ کے بھاگ جائے گا، مَیں نے بھی اسے کام کر کے کھانے کی تلقین کی اور پچھلے جمعے میں نے سنی ہوئی حدیث اس کو بھی سنا دی کہ، الکاسب حبیب اللہ، کما کر کھانے والا للہ کا دوست ہوتا ہے اور اپنا ہینڈل چھڑا کر بڑبڑاتا ہوا آگے چل پڑا’’خوامخوا ہمیں بے وقوف سمجھتے ہیں۔“
دو تین گھنٹے کے بعد جب مَیں بقایا جات وصول کر کے واپس آیا تو وہ ابھی اسی جگہ کھڑا مانگ رہا تھا، بچے کو اب وہ سڑک کے پاس لے آیا تھا اور اس کے چہرے سے کپڑا بھی اُٹھا رکھا تھا، وہ دھاڑیں مار مار کر رو رہا تھا۔ اب بچے کے کفن دفن کے لئے مانگ رہا تھا۔
مَیں نے سائیکل روک کر پاؤں نیچے ٹیکا اور میت کے چہرے کی طرف دیکھا۔۔۔ پھول کی طرح معصوم بچہ۔۔۔زندگی کی بازی ہار گیا تھا، میرے رونگٹے کھڑے ہو گئے۔
مَیں نے جیب میں جو کچھ تھا بقایا جات سمیت سب بغیر گنے نکال باہر پھینکا اور اس سے پہلے کہ اس کا باپ میری طرف متوجہ ہو، سائیکل اس تیزی سے چلا کر بھاگا گویا سارے لاہور کی بلائیں میرے پیچھے لگی ہوئی ہیں۔
مَیں گھر پہنچا تو میرا بُرا حال تھا، تھوڑی دیر کے بعد مجھے بخار نے آ گھیرا، بخار بھی کچھ ایسا تھا گویا میرے سارے گناہوں کا کفارہ اسی بخار سے ہونا تھا، گھر والے مجھے ہسپتال کے لئے لے کر نکلے اور مَیں چار پائی سے چھلانگ لگا دیتا، مجھے ہسپتال نہیں جانا تھا،مَیں اسی بچے کی طرح ایڑیاں رگڑ کر مرنا چاہتا تھا۔
دن گزر گئے تھے اور بچے کا نام سکول سے کٹ گیا تھا۔ وائف نے اپنے بھائی سے بات کی جو دبئی کی ایک کمپنی میں کیشئر تھا، اُس نے مجھے باہر بلانے کے لئے پاسپورٹ بنانے کو کہا، مگر ایک تو مَیں شناختی کارڈ بھی پیسوں کے ساتھ نکال کر بچے کی میت پر پھینک آیا تھا، دوسرا میں خود بھی بچے کو اکیلا چھوڑ کر باہر نہیں جانا چاہتا تھا۔ وہ پچاس دن قیامت کے پچاس دن تھے۔
پچاسویں دن دس بجے کے لگ بھگ ہمارے گھر کا دروازہ بجا، دروازہ مَیں نے خود ہی کھولا اور سامنے اس بچے کے باپ کو دیکھ کر مجھے چکر آگئے مجھے لگا جیسے ہم دونوں آمنے سامنے کھڑے خلا میں چکر کاٹ رہے ہیں، درمیان میں بچے کا چہرہ بھی آ جاتا۔
میری کیفیت سے بے خبر اس باپ نے مجھے دبوچ لیا اور پھوٹ پھوٹ کر رونا شروع کر دیا۔
وہ کچھ کہنے کی بجائے میری ٹھوڑی کو ہاتھ لگاتا اور اسے چوم لیتا، جبکہ مَیں پتھر کا بت بنے اس کی گرفت میں تھا، کہ اچانک مجھے جھٹکا لگا اور میری چیخ کچھ اس طرح نکلی جیسے کسی کو پانی پیتے وقت اچھو لگ جاتا ہے اور پانی اس کے مُنہ اور ناک سے بہہ نکلتا ہے۔
مَیں اس بچے کے باپ کو سختی کے ساتھ سینے سے لگائے یوں رو رہا تھا گویا اس کا نہیں، میرا بچہ مر گیا ہے، ہمارے رونے سے گھبرا کر پورا محلہ اکٹھا ہو گیا تھا۔ آہستہ آہستہ50دنوں کا غبار نکلا، اس کو مَیں گھر میں لے کر آیا، محلے والے بھی آ گئے تھے، جنہوں نے اس آدمی سے بہت افسو س کیا۔
کچھ دیر بعد اس نے اپنی جیب سے میرا شناختی کارڈ نکالا اور مجھے واپس کیا، پھر جیب میں ہاتھ ڈال کر کچھ پیسے نکالے اور میرا شکریہ ادا کر کے کہنے لگا کہ آپ کے پیسے بڑے برکت والے تھے۔
شاید آپ کے خلوص کی برکت تھی کہ میرے بہت سارے کام ہو گئے ، سارے اخراجات کے بعد کچھ پیسے بچ گئے تھے،ان میں کچھ پیسے مَیں نے ادھار لے کر ڈالے ہیں۔ یہ آپ قبول کر لیجئے، باقی مَیں بہت جلد واپس کر دوں گا۔مَیں نے پیسے واپس لینے سے سختی کے ساتھ انکار کر دیا اور منت سماجت کر کے اسے پیسے رکھنے پر راضی کر لیا، اس کے بعد مَیں یہاں بطور سٹیل فکسر آ گیا۔ مَیں جی جان سے کام کرتا تھا چند ماہ میں ترقی کر کے فورمین بن گیا، تین سال بعد مَیں نے اپنی کمپنی بنا لی آج وہ میری کمپنی میں فورمین ہے، بچے کے بعد اللہ نے اسے دو بیٹوں اور ایک بیٹی سے نوازا ہے! مَیں اسے آپ سے ملواؤں گا مگر اس سے سائیکل والا قصہ مت بیان کیجئے گا وہ آج تک نہیں پہچانا کہ میری سائیکل روک کر اس نے مجھ سے سوال کیا تھا! وہ مجھے ولی اللہ سمجھتا ہے جس نے اس کے بچے کی لاش دیکھ کر سب کچھ نکال کے دے دیا۔ اس دن کے بعدمیں کسی کا ہاتھ خالی نہیں لوٹاتا، تھوڑا سا دینے سے نہ وہ امیر ہوتا تھا اور نہ مَیں غریب ہوتا ہوں، بس دِل کو تسلی ہوتی ہے کہ مَیں اس بچے کا خون بہا ادا کر رہا ہوں۔
رہ گئی لوٹنے کی بات تو قاری صاحب ہمیں کون نہیں لوٹتا؟ جوتے والا ہمیں لوٹتا ہے، کپڑے والا ہمیں لوٹتا ہے، سبزی اور گوشت والا ہمیں لوٹتا ہے، اتنا لٹنے کے بعد اگر کوئی ہمیں اللہ کے نام پہ لوٹ لے تو شاید حشر میں ہماری نجات کا سامان ہو جائے کہ یہ بندہ میری خاطر میرے نام پہ لٹتا رہا ہے۔