اُم المؤمنین سیدہ خدیجۃ الکبریٰ حیات و خدمات

User Rating: 5 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar ActiveStar Active
 
اُم المؤمنین سیدہ خدیجۃ الکبریٰ حیات و خدمات
محترمہ سعدیہ الیاس گھمن
منتظمہ : مرکز اصلاح النساء
ایک بہت ہی خوبصورت صبح مکہ کی عورتیں خانہ کعبہ خداتعالیٰ کے گھر جمع ہیں، خوش گپیوں میں مصروف ہیں، قہقہے لگ رہے ہیں۔ اِدھر اُدھر کی باتیں ہو رہیں ہیں لیکن وہیں ایک عورت باوقار، مہذب شخصیت کی حامل، طواف سے فارغ ہوئی وہ اپنی شخصیت سے ہی ایک بڑے سلجھے خاندان کا چشم وچراغ معلوم ہوتیں ہیں۔ ایک خاص قسم کا ٹھہراؤہے۔ مالی آسودگی اور ذہانت ان کے چہرے سے ظاہر ہے۔ اسی اثناءمیں ایک آدمی نمودار ہوا سب کو مخاطب کیا :
”اے مکے کی عورتو “!
سب دم بخود ہو کر سوالیہ نظروں سے اسے دیکھنے لگیں۔
وہ بولا:
”تمہارے ہاں ایک نبی آنے والا ہے جس کا نام احمد ہو گا تم عورتوں میں سے جس کو اس کے نکاح کا پیغام ملے بغیر سوچے سمجھے رشتہ کے لیے” ہاں“ کر دو۔ “
یہ سننا تھا کہ عورتیں غصے سے لال پیلی ہو گئیں اور اسے کوسا کہ اس بات کے لیے ہمارا اتنا وقت ضائع کر دیا۔ کسی نے دیوانہ کہا، کسی نے پاگل۔ اور پھر اپنی باتوں میں مشغول ہو گئیں۔
وہ باوقار خاتون بھی یہ سب سن رہی تھی وہ اجنبی شخص دراصل ایک یہودی عالم تھا اپنی مقدس کتاب کے علم کی بنیاد پر جو انکشاف کیا تھا وہ در حقیقت انہیں قابل عزت خاتون کے لیے تھا یہ طیبہ طاہرہ خاتون کوئی اور نہیں مکے کی بڑی تاجرہ امیر خاتون ام المومنین حضرت سیدہ خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا تھیں۔
حضرت خدیجۃ الکبریٰ 555 ء میں مکہ میں پیدا ہوئیں، ایک معروف تاجر خویلدبن اسد کے آنگن میں آنکھیں کھولیں۔ ابابیلوں کے ذریعے ابراہ کی بربادی کے واقعے کے وقت پندرہ برس کی تھیں اور پانچ پشتوں کے بعد ان کا نسب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جا ملتا ہے۔
حضرت خدیجہ کے والد عرب کی طویل جنگ حرب فجار میں قتل ہوئے تو ان کی ذمہ داری ان کے چچا عمر بن سعد نے سنبھال لی۔ ان کے قریبی عزیزوں میں حضورصلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کو پہلے پہچاننےوالے ورقہ بن نوفل اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے قریبی حکیم بن حزام شامل ہیں۔
حکیم بن حزام عقل مند انسان تھے 120 برس کی عمر پائی جس کا نصف حصہ جاہلیت میں اور نصف اسلام کے سائے میں گزرا۔معروف صحابی زبیر بن عوام حضرت خدیجۃ الکبریٰ کے بھتیجے تھے، حضرت خدیجہ کے دادا اسد بن عبدالعزیٰ کے گھر کو خانہ کعبہ کا جوڑی دار کہا جاتا تھا۔ وہ خانہ کعبہ سے محض نوفٹ کے فاصلے پر تھا اور دن کے مختلف اوقات میں دونوں گھر ایک دوسرے کے سائے میں آجاتے تھے۔
حضرت خدیجہ ایسے لوگوں میں شامل ہیں جنیں اللہ نے پاکیزہ فطرت ،نرم دل، شریں زبان، کشادہ ہاتھ اور اجلے کردار سے نوازا۔ وہ اسلام سے پہلے ہی بتوں اور شرک وبدعت سے نفرت کرتی تھیں اور سچائی کے متلاشوں میں شامل رہتی تھیں، ان کی پاک دامنی کی وجہ سے مکہ کے جاہل معاشرے جہاں عورت کی جانور سے زیادہ عزت نہیں تھی لیکن وہ قریشی خواتین میں” سیدہ“ کہلاتی تھیں۔ انہیں ان کی حاضر جوابی ذہانت کی وجہ سے ”جیّدہ“ بھی کہا گیا جبکہ پاک دامنی کی وجہ سے ”طاہرہ“ کے لقب سے نوازا گیا۔
حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے اپنے چچا زاد بھائی ورقہ بن نوفل سے آنے والے آخری نبی کے بارے میں بہت کچھ سن رکھا تھا، عرب میں ان کی آمد کے بارے میں گفتگومعمول کا حصہ تھی۔ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا ان خوش خبریوں میں دلچسپی رکھتی تھیں اور اس نبی کی آمد کی منتظر تھیں۔ ادھر اللہ انہیں اپنی مشیت سے اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے تیار کر رہا تھا۔ اس کا ایک ذریعہ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے وہ خواب تھے جنہیں سچ ثابت ہونا تھا۔
ایک خواب میں انہوں نے سورج ،چاند جیسی زبردست روشنی دیکھی جو ان کے گھر میں داخل ہو کر ان کی آغوش تک پہنچتی ہے پھر اس سے ساری کائنات روشن ہو جاتی ہے وہ گھبرا کر ورقہ بن نوفل کے پاس گئیں انہیں خواب سنایا تو انہوں نے کہا مبارک سلامت کا شور مچا دیا اور بولے جلد تمہارے گھر کو خدا روشنی سے منور کر دے گااور یہ روشنی ایک نبی کی ہو سکتی ہے وہ نبی دنیا میں تشریف لا چکے ہیں آپ ان پر ایمان لانے والی ہو گیں۔
یہ سن کر ان کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ رہا۔ ہوتا بھی کیسے ؟خواب جو حقیقت بننے جا رہا تھا۔ حضرت کے پہلے شوہر ابویالہ بن زرارہ تھے مگر وہ دو بیٹیوں ہندہ اور یالہ کی پیدائش کے بعد جلد ہی فوت ہو گئے ،ان کے بعد نکاح ثانی عتیق ابن آلہ سے ہوا ان سے ایک بیٹی ہند پیدا ہوئیں پھر عتیق نے بھی دنیا سے منہ موڑ لیا۔
پھر انہوں نے یتیم بچوں کی تربیت کو اپنی زندگی کا مقصد بنالیا اور شادی نہ کرنے کا ارادہ کرلیا ،ابو جہل کا بھی رشتہ آیا لیکن انہوں نے قبول نہیں کیا۔ کئی معززین کا پیغامِ نکاح آیا مگر سیدہ طاہرہ کیلئے رب نے ایک عظیم اعزاز کا انتظام کر رکھا تھا اس لیے انہوں نے ان رشتوں سےانکار کردیا۔
یہی وجہ جب ان کا نکاح نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ ہوا تو ابو جہل نے جل کر کہاکہ
” اسے مکے کے یتیم کے علاوہ کوئی نہیں ملا تھا۔؟“
دمشق کی طرف قافلہ تجارت کی روانگی کا مرحلہ تھا، سامان تجارت اور اسے لےجانے کےافرادتیار کیےجارہےتھے،تین ماہ کےسفر کا آغاز تھا گرمیوں اور سردیوں کے اس تجارتی سفر پر ہی اس آبادی کا انحصار تھا۔ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا تجارت کے ایک بڑے حصے کی مالک تھیں ،حضرت خدیجہ خاتون ہونے کے ناتے خود تو جا نہیں سکتی تھیں اس لئے انہوں نے رائج طریقے کے مطابق مکے میں اعلان کروایاجو مال لے کر جائے گا اسے تجارت کیلئے دو اونٹ دیے جائیں گئے۔
تو بہت سے نوجوان متوجہ ہوئے ان میں ایک ابو طالب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا بھی تھے اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم معاوضے پر لوگوں کی بکریاں چراتے تھے، خواجہ ابو طالب نے کہا بھتیجے !میرا دل نہیں چاہتا تمہیں خود سے جدا کروں لیکن یہ قیمتی موقع ہے مالی حالات بہتر کرنے کا اور تجارت میں تجربات حاصل کرنے کا۔ تم حضرت خدیجہ سے جا کر بات کرو آپ کی پھوپھی اور حضرت خدیجہ کی بھابھی حضرت عاتکہ بنت عبد المطلب زوجہ عوام بن خویلد بولیں یہ مناسب نہیں آپ خود بات کریں۔
خواجہ ابو طالب خود چل پڑے بات کرنے اپنے بھتیجے کے مستقبل کیلئے لیکن کسے معلوم تھا کہ یہ فیصلہ حضور کی زندگی میں انقلا ب لانے والا ہے، قدرت اپنی حکمت سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو تجارت کے تجربات سے گزارنا چاہتی ہے اور ایک باوقار بیوی کا تحفہ دے کر اس کی زندگی کو خوشیوں سے بھرنا چاہتی ہے۔ خواجہ ابو طالب نے حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہاسے بات کی اور چار اونٹوں کا مطالبہ کیا حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کو تو گویا گوہر مقصود ملنے لگا ہے وہ پہلے ہی حضور کی صفات اور عادات مطہرہ کے متعلق صادق امین ہونے کے متعلق سن چکی تھیں فورا مان گئیں۔ بلکہ کہا :ابو طالب آپ نے ایک آسان معاوضے کا مطالبہ کیا اگر تم اس سے زیادہ کا سوال کرتے تو میں دے دیتی۔
قبیلہ بنو سعد کی بکریوں کی دیکھ بھال کرنے والا نوجوان جسے کل ساری انسانیت کی رہنمائی کرنی تھی تاجر بننے جارہے تھے ،دمشق کا طویل سفر انہیں درپیش تھا اب قدر ت ان کی نئی تربیت کرنا چاہتی تھی۔ انسانوں اور ان کے مزاج کو سمجھنا روپے پیسے کا حساب وکتاب لوگوں سے بھاؤ تاؤ میل جول مارکیٹ کے حالات کوسمجھ کر درست فیصلہ اور دیانت امانت کو مد نظر رکھنا، کسی طرح کسی کو نقصان پہنچائے بغیر فائدہ حاصل کرنا، کس طرح آپس کے تعلقات کو متاثر کیے بغیر معاملہ کرنا۔
حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو پہلے جانتی تھیں اب وہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی کاروباری خوبیاں پرکھنا چاہتیں تھیں انہوں نے غلام میسرہ کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا معاون بنا کر ساتھ کردیا اس نے آ پ صلی اللہ علیہ وسلم میں ایسی باتیں دیکھیں جو دنیا کے کسی انسان میں نہ دیکھی تھیں۔ میسرہ نے جھوٹے بتوں کی قسمیں کھاکر مال بیچنےوالا نسطورا راہب کو دیکھا کہ وہ آپ کو پہچان کر آپ کے قدموں میں گرگیا ، بادلوں کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر سایہ کرتے دیکھا میسرہ کے واپس آ کر ساری تفصیل حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کو بتائی۔
حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا آپ کی شخصیت کی اور زیادہ معترف ہوگئیں انہوں نے یہ باتیں ورقہ بن نوفل کو بتائیں تو وہ چیخ اٹھے اس نے کہا کہ یہ وہی خاتم الرسل ہے جس کا ذکر تورات اور انجیل میں ہے۔ اب سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کے پاس تردد کی کوئی وجہ باقی نہیں رہی تھی اور وہ اس نتیجہ پر پہنچی کہ یہ ہستی جلد اعزاز اور شرف کی بلندیاں پانے والی ہے انہوں نے اعتراف کرلیا کہ یہی ان کا جیون ساتھی بن سکتا ہے ان کے یتیم بچوں کا سر پرست بن سکتا ہے۔
دو ماہ ہو چکے تھے سفر سے واپسی کے حضرت خدیجہ کو یقین ہو چکا تھا محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہی وہ ہستی ہیں جن کی رفاقت سے بڑا اعزاز دنیا و آخرت میں کوئی نہیں، ایسے میں انہوں نے دل کی یہ بات اپنی سہیلی نفیسہ سے کرڈالی وہ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے احساسات فوراًسمجھ گئی، انہوں نے اس معاملہ میں مدد کا یقین دلایا۔
ایک دن انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو شادی کی طرف متوجہ کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے معاشی حالات کا ذکر کیا بات یہاں سے شروع ہو کر بڑوں اور بزرگوں تک جاتی ہے، دونوں یتیم ہیں اس لئے دونوں کے خواجہ ابوطالب اور عمرو بن سعد شادی کی بات چیت کرتے ہیں بالآخر خوشیوں کا وہ لمحہ آن پہنچتا ہے سب کو دعوتیں دی جاتیں ہیں حتی کہ دائی حلیمہ کو بھی دعوت دی گئی وہ اس شادی سے خوش ہوتیں ہیں اور حضرت خدیجہ کی طرف سے چالیس بھیڑوں کا تحفہ پاتی ہیں۔
شادی کی تقریب ختم ہوئی حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا رخصت ہو کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر آجاتی ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر پچیس برس اور حضرت خدیجہ کی عمر چالیس برس۔ باہمی محبت اور خلوص کے ایسے سفر کا آغاز کرتے ہیں جس کو اب کبھی ختم نہیں ہونا، دنیا کے بعد رب کی جنتوں میں بھی اکٹھے رہنا ہے ، اگرچہ عمروں میں بڑا واضح فرق ہے لیکن حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے کبھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ذہنی نفسیانی اور جذباتی سطح پر یہ فرق محسوس نہیں ہونے دیا۔
کچھ دنوں بعد حضور صلی اللہ علیہ وسلم حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے گھر منتقل ہوجاتے ہیں وہ اپنا سب مال و دولت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کردیتی ہیں اور اپنے آپ کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت کیلئے وقف کر لیتی ہیں۔ انہیں وفا شعار بیویوں کی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا کام کرنا اپنے ہاتھ سے اچھا لگتا ہے، اپنے عزیزا ز جان شوہر کی چھوٹی سے چھوٹی ضرورت کو بھی نظر انداز نہیں کرتیں، انہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو معمولی سی تکلیف بھی پہنچانا گورا نہیں۔
اس سفر میں ان کے بچے بھی ساتھ تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا زاد بھائی حضرت علی رضی اللہ عنہ اور زید رضی اللہ عنہ منہ بولے بیٹے کے طور پر موجود ہیں اور اُمِّ ایمن بھی موجود ہیں۔
وقت گزرتا ہے کاشانہ نبوت میں پھول کھلتے ہیں؛ قاسم ،عبداللہ، ام کلثوم رقیہ، زینب اور فاطمہ رضوان اللہ علیہم اجمعین بھی آنکھ کھولتے ہیں اور یوں یہ گھرانہ مکمل ہوتا چلاجاتا ہے۔
دونوں کتنی اچھی زندگی گزار رہے تھے خواجہ ابو طالب کے غلام کی زبانی سنئے: شادی کے بعد شفیق چچا ابوطالب کےاپنے غلام کو بھیجتے ہیں جاؤ دیکھ کر آؤ کہ میرے بھتیجے کے ساتھ کیا سلوک ہورہا ہے؟ واپسی پر وہ اتنے خوبصورت لفظوں میں منظر کشی کرتے ہیں کہ ابوطالب کا دل خوشیوں سے بھر جاتا ہے۔
غلام کہتا ہے:
” خدیجہ رضی اللہ عنہا نے جب محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو گھر میں آتے دیکھا تو سارے کام چھوڑ کر دروازے پر ان کا استقبال کیا، محبت سے ہاتھ تھام کر اندر لائیں اور بولیں میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سوا کسی اور کیلئے یہ سب کچھ کبھی نہ کرتی کیونکہ آپ ہی وہ پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم ہیں جن کا انتظار کیا جارہا ہے جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس مقام پر پہنچیں تو مجھے اپنے دل سے مت بھلا دیجئے گا ،میرے لئے اللہ سے دعا کیجئے گا۔“
)فتح الباری (
حضرت سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کے محبت والفت میں ڈوبے الفاظ سن کر نبی مہربان صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں خدا کی قسم اگر میں وہی شخص ہوں تو میں آپ سے وعدہ کرتا ہوں کہ کبھی آپ کو نہ بھلاؤں گا۔آپ نے میری خاطر بہت قربانیاں دیں ہیں۔
حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی روحانی بیٹیوں کیلئے کتنا پیارا سبق ہے کہ گھر میں داخل ہوتے ہوئے شوہر کا استقبال کیسے کرنا ہے؟ کیسے اچھے جملوں سے اس کی توجہ حاصل کرنی ہے؟ کس طرح ہر موقع کو چھوٹی چھوٹی خوشیوں اور تعلق کی مضبوطی کو ذریعہ بنا لیناہے؟ وقت گزرا اور تاریخ گواہ ہے کہ کس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کو آخری سانس تک اپنی محبتوں کا مرکز بنائے رکھا۔
) طبرانی المعجم ص 23(
کیا ان جیسا کوئی ہوسکتا ہے میرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ایک موقع پر فرماتے ہیں خدا کی قسم !اس ذات نے مجھے ایسا کوئی مہربان عطاء نہیں کیا جیسے حضرت خدیجہ تھیں۔
ان لفظوں کا اماں خدیجہ رضی اللہ عنہا کے اعزاز کیلئے بھلا اور کون کس پیرائے میں اس سے زیادہ خوبصورت اور میٹھی بات کہہ سکتا ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مزید فرماتے ہیں: جب لوگوں نے میرا انکار کیا انہوں نے مجھ پر یقین کیا ،جب لوگوں نے مجھ پر جھوٹ بولا انہوں نے میری تصدیق کی ،جب لوگوں نے مجھے محروم کیا انہوں نے اپنی جائیداد سے میری مدد کی۔ خدا نے مجھے ان کے ذریعے ہی اولاد دی۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کی شان میں رطب اللسان تھے ان کا ایک ایک عمل گنوا رہے تھے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کا کیا مقام ہے؟ اللہ خود بھی زبان رسالت سے اس عظیم خاتون کا مقام و مرتبہ قیامت تک کی امت پر کردینا چاہتا تھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سب سے پہلی بیوی وحی کو سب سے پہلے سنا تھا، سب سے پہلے ایمان لائیں تھیں، سب سے پہلے وضو کا طریقہ سیکھا، سب سے پہلے نماز سیکھی، سب سے پہلے باجماعت نماز پڑھی، میرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پہلے بیٹے اور بیٹی کی ماں بنی ،ان ڈھیروں اعزازات کے ساتھ بھلا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی محبوب کیوں نہ ہوتیں۔
میرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نظر میں حضرت خدیجہ کی وفاداری اتنی عزیز تھی کہ ان کے انتقال کے بعد بھی ان کے رشتہ داروں اور سہیلیوں کا خیال فرماتے۔ انہیں اپنی بیٹھنے کی جگہ پر بٹھاتے پوچھنے پر فرماتے میں کیوں نہ ان سے محبت کروں جن سے خدیجہ رضی اللہ عنہا محبت کرتی تھیں۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت جوسیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا سے تھی اس پر رشک کرتی تھیں۔
غزوہ بدر کے قیدی مستقبل کے فیصلے کے منتظر تھے ایسے میں ایک تھیلا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آتا ہے۔ کہا جاتا ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹی زینب نے اپنے شوہر ابو العاص کا فدیہ دیا ہے، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم تھیلا کھولتے ہیں، فضا اداس ہو جاتی ہے،تھیلے سے ہار نکلتا ہے جو بڑی چاہتوں سے حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے حضرت زینب رضی اللہ عنہا کی رخصتی میں ان کے گلے میں ڈالا تھا۔
اپنے گلے سے اتار کر وہی ہار انہوں نے اپنے والد کو بھیجا شوہر کی آزادی کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے فرمایا اگر آپ کی رضا ہو تو قیدیوں کو آزاد کر دیا جائے ؟ بھلا صحابہ کو کیا اعتراض جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بات کو ٹال دیں؟؟
چنانچہ ابوالعاص وہ ہار ہاتھ میں اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا احسان دل میں لے کر مکہ روانہ ہوئے آج اسی ہار نے ان کو بچا لیا، مکہ جاتے ہی زینب کو مدینے روانہ کر دیا خود بھی کچھ عرصہ بعد اسلام قبول کر لیا۔ اماں خدیجہ نے حضور کا دل کچھ اس طرح محبت سے بھر لیا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بار پہلے انگلی سے اشارہ کیا اور فرمایا :حضرت مریم جنت کی بہترین خاتون اور حضرت خدیجہ زمین پر بہترین خاتون۔
)صحیح بخاری(
حضرت خدیجہ دنیا میں اس حال میں رہیں کہ کبھی ان کے شوہر رسول صلی اللہ علیہ وسلم ان سے ناراض نہ ہوئے ،کسی عمل سے نبی کی دل آزاری کا معمولی سا حوالہ بھی موجود نہیں۔
امت کی بیٹیوں کے ان پچھلے 25 سالوں میں کتنا خوبصورت سبق ہے۔ مکہ سے میلوں دور ویران راستے کا دشوار سفر، 866 میٹر کی مشکل چڑھائی یہ اماں خدیجہ رضی اللہ عنہا کی میرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ والہانہ محبت تھی جو انہیں خود آمادہ کرتی تھی کہ خود ہی اپنے شوہر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے کھانے پینے کا سامان لے کر غار حرا میں جاتیں۔ محبت کرنے والے کئی کئی دن دور چلے جاتے ہیں ان کی تلاش میں مگر وہ خود کو حرف شکایت زبان پر لائے بغیر خود ہی ان کی تلاش میں روانہ ہو جاتیں اور غار حرا چلی جاتیں۔
یوں بھی ہوا کہ غار میں وہ تین میں سے تیسری تھیں یعنی نبی صلی اللہ علیہ وسلم حضرت خدیجہ اور اللہ کا بھیجا ہوا فرشتہ جبرائیل۔ ایک دفعہ انہوں نے اپنے اللہ کا سلام بھی دیا۔ کیا شرف ہے کبھی کبھی آپ پہاڑ کے دامن میں بھی رات گزارتیں اسی جگہ پر مسجد عجاب بنی ہوئی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم غار حرا چلے جاتے اور یہ گھر لوٹ جاتیں۔
اللہ اپنے بندے کو وحی کے لیے تیار کر رہا تھا ایک دفعہ انہوں نے جبرائیل کی آواز سنی اس موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا دل ہل گیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی مضبوط اور طاقتور اعصاب کی مالکہ اپنی اہلیہ محترمہ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے پاس آئے اور فرمایا: خدا کی قسم بے چینی ہے کچھ ہونے والا ہے۔ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہانے فرمایا: آپ کیا کہہ رہے ہیں ہم خدا سے پناہ طلب کرتے ہیں کیا خدا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو تنہا چھوڑ سکتا ہے ؟جبکہ آپ مسکینوں کو کھانا کھلاتے ہیں ،اہل وعیال کا خیال رکھتے ہیں، اپنے فرائض کو ادا کرتے ہیں اور ہمیشہ سچ بولتے ہیں۔
)ابن ماجہ(
غور کریں کیسے حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے آپ کو نیکیاں یاد دلائیں کیسے ان کو حوصلہ دیا۔ ایسی حالت میں خواتین پریشان ہو کر خود ہی ہاتھ پاؤں چھوڑ دیتی ہیں۔آپ رضی اللہ عنہانے نبی مہربان صلی اللہ علیہ وسلم کو مضبوط لفظوں میں امید دلائی۔ ابو لہب کے دو بیٹوں عتبہ اور شیبہ سے اپنی دو چاند جیسی بیٹیوں کی شادی کی جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو سرداری کا تاج پہنایا گیا۔ ان درندہ صفت لوگوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پریوں کو طلاق دے دی۔ مگر حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا صبر کا پہاڑ بن گئیں۔
یہ ہے حضرت خدیجہ الکبریٰ رضی اللہ عنہا کی شان اور ان کی اپنے نبی محبوب صلی اللہ علیہ وسلم سے وفاداری اور بے لوث محبت جس نے انہیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دل کا ایسا مکین بنایا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی زندگی میں تو کیا ان کی وفات کے کافی عرصہ گزرنے کے باوجود شادی نہیں کی۔ بعد میں بھی ان کو ہمیشہ عزت واحترام سے یاد کرتے کہ دیگر ازواج مطہرات ان پر رشک کرتیں۔
اس پاکیزہ گھرانے کے دن یوں ہی بسر ہو رہے تھے، پُر سکون گھر، محبت کرنے والی بیوی ،مالی خوشحالی اورپیارے بچے۔ مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اردگرد کے حالات ٹھیک نہیں تھے ،سسکتی انسانیت اللہ کی زمین پر اللہ کے بندوں پر اللہ کے دشمن کی مرضی چلتی دیکھ کر، خانہ کعبہ کے اندر برہنہ طواف وغیرہ وغیرہ۔
سکون نہ ملتا تو ویرانے میں نکل جاتے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کسی ابدی سچائی کی تلاش میں تھے، انہی دنوں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سچے خواب دکھائی دینے لگے ایک دن خواب دیکھا چھت کی لکڑی ہٹی، راستہ بنا چاندی کی سیڑھی نصب کی گئی اور اس سے دو آدمی اترے اور دونوں آکر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اطراف میں بیٹھ گئے۔ ایک نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سینے میں ہاتھ ڈال کر دل باہر نکال لیا اور کہا اس بھلے آدمی کا دل کتنا اچھا ہے ؟ پھر قلب مبارک کو صاف کیا اور دوبارہ ڈال دیا اور چلے گئے۔ آنکھ کھلی ،حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا سے ذکر کیا تو انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو حوصلہ دیا۔
آخر وہ دن آگیا جس کا حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کو انتظار تھا۔ رمضان کی ساعتوں میں وہ نصیب ہو ہی گیا ،جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم آسمان اور زمین کے درمیان رابطے کا ذریعہ بنائے جانے کا پروانہ لے کر غار حرا سے اترے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم بہت زیادہ خوف زدہ تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مجھے کمبل اوڑھا دو۔ اس بار نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم غیر معمولی طور پر زیادہ دنوں بعد لوٹے تھے اور اتنے پریشان تھے جتنا پہلے کبھی نہ ہوئے تھے۔ شوہر کی پریشانی میں وفاشعار بیوی ہمیشہ کی طرح حوصلے کا پہاڑ بن گئیں اور آنے والی امت کی ہر بیٹی کے لیے یہ پیغام دے گئیں کہ شوہر کو زندگی کے اس مشکل مرحلوں میں محبت خلوص کے جذبات اور جملوں کی ضرورت ہوتی ہے اسے توجہ اور پیار چائیے ہوتا ہے ایسے موقع پر خود حوصلہ نہیں کھو دینا چایئے بلکہ شوہر کا سہارا بننا ہوتا ہے۔
حضرت خدیجہ نے روداد سننے کے بعد فرمایا کہ بالکل نہ ڈریں اللہ آپ کے ساتھ ایسا کچھ نہیں کرے گا جس سے آپ کو نقصان ہو۔یہ تو خوف کا نہیں خوشی کا مقام ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو خوش خبری ہو مستقل مزاج اور ثابت قدم رہیے اس ذات پاک کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے مجھے یقین ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی اس قوم کے نبی ہیں۔
آپ فوراً ورقہ بن نوفل کے پاس گئیں ،سارا واقعہ سنایا۔ ہر لفظ گویا ورقہ کہ کی سماعتوں پہ بجلی بن کر گرتا چلاگیا فورا سنبھل کر اٹھ بیٹھے۔ مقدس مقدس یہ تو وہی فرشتہ ہے جو موسیٰ علیہ السلام کے پاس آیا ، یقیناً محمد صلی اللہ علیہ وسلم نبوت کے مقام پر سرفراز ہوگئے،ورقہ کو یقین نہیں آرہا تھا جس کیلئے کائنات کی ہر چیز چشم براہ تھی جس نے دنیا کارخ موڑ دیا ہے آج اتنے قریب سے نمودار ہو رہا ہے۔ ورقہ نے حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے درخواست کی مجھ بوڑھے کو اس ہستی کی قدم بوسی کیلئے لے چلو میں بھی اپنی آنکھیں ٹھنڈی کروں اس کی پیشانی چوم کر اپنے ہونٹوں کو سیراب کروں۔
پھر حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ پہنچے اور بولے کاش میں اس دن کو دیکھنے کیلئے زندہ ہوتا جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قوم نکال دے گی میں آپ کی مدد کرتا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میری قوم مجھے نکال دے گی ؟ ورقہ نے کہا: ہاں! کیونکہ آج تک کوئی ایسا نہیں جو اس سچائی کے ساتھ آیا ہو جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ہے اور اسے اس کے وطن سے نہ نکالاگیا ہو۔
) صحیح بخاری (
وقت رخصت آن پہنچا۔ وہ انتہائی شدید تاریک رات تھی ،شہر سے باہر ایک اجاڑ بنجر زمین پر خیمے لگے ہوئے تھے ،کچھ پریشان حال روتے سسکتے بچے ،کمزور اور غذائی قلت کا شکار بوڑھے اور چند عورتیں وہاں موجود تھیں۔ متعدی امراض اس پریشان حال بستی میں پھیل رہے تھے ،آئے دن کسی نہ کسی کی جان لے لیتے۔ یہ لوگ چمڑے کے ٹکڑے ، درختوں کے پتوں اور چھال ابال کر کھانے پر مجبور تھے۔ اس عارضی خیمہ بستی کی طرف آنے والے سارے ہی راستوں کو بند کر کے ان مظلوموں کو محصورکردیا گیا تھا،راتوں کو اٹھتی بوڑھوں اور بچوں کی آہ بکاہ قریبی آبادیوں میں رہنے والے سنگ دل انسانوں کے دل نرم کرنے کے بجائے ان کی تفریح طبع بنتی تھی۔
ان لوگوں نے ابھی تین دن پہلے ایک بزرگ کا جنازہ اٹھا یا آج ان کے معزز ترین شخص کی بیوی درد سے کراہ رہی تھی ان سب کی آنکھوں میں بے بسی کے آنسو تھےیہ عظیم بیوی کوئی اور نہیں ہماری ماں حضرت خدیجہ الکبریٰ رضی اللہ عنہا تھیں۔
ان کے شوہر مالک کائنات کے محبوب ترین انسان محمد صلی اللہ علیہ وسلم تھے اور مظلوموں کی یہ عارضی بستی شعب ابی طالب تھی گھاٹی میں اس رات دور آسمان پر ٹمٹماتے اداس تاروں نے یہ منظر دیکھا :رحمۃ للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم بے قراری سے اٹھ کر خیمے سے باہر تشریف لے آئے ہیں ان سے حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی تکلیف دیکھی نہیں جاتی، ابھی کچھ دن پہلے اپنے غمگسار چچا کو کسمپری کے عالم میں دنیا سے رخصت ہوتو دیکھ چکے ہیں، اب دن رات کا ساتھی ساتھ چھوڑنے کو تیار ہے پھر خیمے کی طرف پلٹے اور پردہ اٹھا کر اپنی زوجہ پر محبت بھری نظر ڈالتے ہیں وہ تکلیف سے کراہ رہی ہیں۔
دل ہلا دینے والا منظر ہے ،بے گھری ، بیماری کی شدت ،ساری مصیبتیں ایک ساتھ ٹوٹ پڑی ہیں کہاں مکہ کی امیر ترین عورت اور کہا ں یہ فاقہ۔ ایسے میں اپنے شوہر سے دور جانے کا غم، وہ آنکھیں کھولتیں مہربان نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی جانب محبت سے دیکھتا ہو ا پاتی ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم محبت سے قریب آئے۔
خدیجہ رضی اللہ عنہا تو نے یہ میری وجہ سے برداشت کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی احسان میں ڈوبی آواز کانوں میں پڑتی ہےاس انتہائی تکلیف دہ لمحہ میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی شریک حیات کو دلاسہ دلاتے ہیں۔ یہ نہ بھولو یہ دکھ تکلیف کے بدلے اللہ نے نیک صلہ دینے کا وعد ہ کیا ہے۔
میرے نبی کی محبوب بیوی اور سب مومنین کی ماں اماں خدیجہ اس کے بعد ہمیشہ کیلئے آنکھیں موند لیتی ہیں۔ فضا سوگوار ہوجاتی ہے یہ ہستی65 برس کی عمر میں 25 برس میرے نبی مہربان صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں خوشیاں بکھیر کر دنیا سے رخصت ہو جاتی ہیں۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم غم زدہ دل اور بوجھل دل کے ساتھ اپنی دنیا و آخرت کی رفیقہ کو قبرستان لے جاتے ہیں انہیں مٹی کے سپرد کرتے ہیں اپنے ہاتھوں سے زمین ہموار کرتے ہیں اور دعاؤں سے رخصت کرتے ہیں اور اسی سال کو عام الحزن کا نام دیتے ہیں۔
انا للہ وانا الیہ راجعون
امت کی بیٹیوں کے نام حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کا پیغام :
1۔ دینی زندگی کی جدو جہد مشکلات اور روز مرہ کے مسائل کا مسکراتے چہرے کے ساتھ مقابلہ کرنا۔
2۔ مقصد زندگی کیلئے سب کچھ نچھاور کر دینا۔ مال، دولت اور خوشیاں سب کچھ دین کی اشاعت و تحفظ کے لیے قربان کرنا۔
3۔ شوہر کیلئے مخلصانہ فکر مندی چھوٹی چھوٹی ضرورتوں کا خیال خوشگوار استقبال اور پریشانی اور دکھ میں اپنی باتوں اور کاموں میں اس پربوجھ بڑھانے کی بجائے اسے مضبوطی کے ساتھ حوصلہ دینا امید دلانا شوہر کے مشن کو اپنا مشن سمجھنا اس کی پریشانی کا سد باب کرنا شوہر کی جذباتی و نفسیاتی ضرورتوں کو ٹھنڈے دماغ سے سمجھنا اور ہر ممکن کوشش کرنا کہ شوہر کو بہر حال راحت پہنچے۔
حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے عمر کے بڑے فرق کے باوجود اتنی خوبصورتی سے ازدواجی زندگی گزاری کہ ایک تلخی بھی پیدا نہ ہوئی۔
4۔ مشکل اور خراب حالات میں بھی اولاد کی تربیت کا خیال کرنا
5۔ مشکل سے صدمے سہنا اور ان کو اللہ کی رضا سمجھنا [حضرت خدیجہ نے دو بیٹوں کی وفات اوربیٹیوں کی طلاق جیسے بڑے دکھ سہے مگر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو پریشان نہیں کیا]
6۔ بد ترین جاہل معاشرے میں وقار اور کردار کی مضبوطی کے ساتھ اس طرح رہنا کہ ایک بات بھی ان کی طرف منسوب نہ ہونے پاِئے۔
7۔ ذہانت کے ساتھ نرم زبان کے ساتھ دین کا کام کرنا۔
8۔ عورت انتہائی غیر محفوظ معاشرے میں بھی کامیاب طریقے سے افراد تیار کرکے کام لے سکتی ہے اور ٹھیک فیصلے کر سکتی ہے۔
[ بیوہ ہونے کے باوجود حضرت خدیجہ مظلوم بنی نہ کمزور انہوں نے اپنی غیر معمولی مردم شناسی کی صلاحیت سے تجارتی امور کیلئے ٹھیک لوگوں کا انتخاب کیا ]
9۔ معاملات کیسے بھی ہوں مختلف طریقوں اور راستوں سےحل کیے جائیں اور اپنے گرد ایسے دوست جمع کیے جائیں جو مخلص بھی ہوں اور ضرورت پڑنے پر جائز اور درست عملی مدد کیلئے تیار بھی ہوں [ حضرت خدیجہ کی شادی میں ان کی سہیلی اور بزرگوں کا کردار اس پر گواہ ہے ] اللہ ہمیں بھی اس زندگی کا کچھ حصہ نصیب فرمادے تو زندگی سنور جائے۔
آمین بجاہ النبی الامی الکریم