بغیرنقطوں کے شادی

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
بغیرنقطوں کے شادی
سیدہ عمارہ الیاس گھمن
بیگم عباسی اداس و پریشان سوچوں میں غلطاں بیٹھی تھی کہ ان کی بہن ان سے ملنے آئیں ،بیگم عباسی کا اترا چہرہ دیکھ کر فوراَ استفسار کیا کہ کیا وجہ ہے ؟ اس طرح کیوں بیٹھی ہو؟ بیگم عباسی کو تو جیسے اسی لمحہ کی آرزو تھی کہ کوئی ان سے حالِ دل پوچھےفوراً پھٹ پڑیں۔
جہاں آراء دیکھو تمہارے بھائی کو اس جہاں سے رخصت ہوئےدس سال ہوگئے ہیں، میں نے اتنی مشکل سے وقت گزارا ہے جہاں تک ممکن ہوا ہے گل نیہال کے لئے جہیز بنایا ہے۔ اب ان کے مطالبات میں کہاں سے پورے کروں؟
اس وقت تو یتیم بھتیجی کرکے رشتہ لیا، اپنا احسان جتلایا کہ بن باپ کے بچی کو کون لےگا ؟ دنیا کو دکھایا کہ میں نے یتیم کے سر پر ہاتھ رکھا ہے اور اب اتنی بڑی فہرست تھمادی ہے۔
جہاں آراء بیگم یہ سب سن کر سکتہ میں آگئی اور کہا کہ بہن دکھاؤتو یہ فہرست کیا کیا مطالبہ کیا ہے ؟ رسمِ مایو/تیل رسم، مہندی ،دودھ پلائی وغیرہ تمام رسومات کی ادائیگی دھوم دھام سے تاکہ دنیا کو پتہ چلے کہ ایک ہی بیٹا ہے تو کسی چیز کی کمی نہیں چھوڑی۔ بیگم لغاری نے اپنے اور بیٹی صوفیہ کے لئےلاکٹ سیٹ کا مطالبہ کیا تھا کہ زیادہ نہیں دے سکتے تو لاکٹ سیٹ تو ضرور دیں،بیٹی کو بھی پانچ تولے کا سیٹ لازمی دیں باقی گاڑی تو لازمی ہوگی ناں۔
اور ہاں فرنیچراعلیٰ درجہ کا ہو،سامان ہماری حیثیت کے مطابق ہونا چاہیےہماری ناک نہ کٹوانا۔ معیزکے لئے تولے کی انگوٹھی بنوانا غرض مطالبات ہی مطالبات تھے۔
بیگم عباسی دین سے دوری کی وجہ سےاس میں الجھ کر رہ گئی۔ تو بیگم لغاری بھی ہائی سوسائٹی سے تعلق رکھتی تھی ان کو دین اور دینی تعلیمات سے کوئی سروکار نہیں تھا دونوں کو دنیاوی ساخت بچانے کی فکر لاحق تھی۔ بیگم عباسی بھی تمام لوازمات کے ساتھ شادی کرنا چاہ رہی تھیں البتہ گاڑی اور لاکٹ سیٹ کے لئے پریشان تھیں ورنہ ناچ گانے اور رقص و سرود کی محفلوں کی فل تیاری تھی کہ بیٹی کو باپ کی کمی نہ محسوس ہو نے پائے۔جہاں آراء بیگم ایک دم اَُٹھ کھڑی ہوئیں بہن کو حیران وپریشان چھوڑ کر۔
بہن نے استفسار کیا تو بولیں کہ میری ایک دوست ہے وہ عالمہ ہے اور امیر بھی بہت ہے لوگوں کی بہت مددکرتی ہے میں اس سے بات کرتی ہوں شاید کوئی صورت نکل آئے اور ہم اپنی بچی کو عزت سے رخصت کرسکیں۔
جہاں آراء بیگم فوراَ باجی صالحہ صاحبہ کے پاس گئی ،دوپٹے میں لپٹا پر نور چہرہ بہت ہی حسین لگ رہا تھا۔ شریعت کی واضح تصویر ان کو دیکھتے ہی ایک مسلمان عورت کا تصوّر ذہن میں آتا تھا۔ان کو دیکھ کر فوراً مسکرا کر استقبال کیا۔ بہن کیا ہوا ؟پریشان کیوں ہو ؟انہوں نے تفصیل بتائی تو سن کر وہ افسردہ ہوگئی تو پھر اپنے مخصوص دھیمے انداز میں سمجھانے لگی۔
بہن دیکھو !دین سے دور رہو گے تو پریشانی مقدر بن جائے گی۔ آج کل شرک و بدعت اور رسومات کی آندھیاں جو چہار سو چل رہی ہیں انہوں نے پورے عالم ِاسلام کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے اور ان میں جکڑی انسانیت اپنا تشخص مٹاتی جارہی ہے، شادی جیسی بابرکت سنت بھی ان رسومات کی بھینٹ چڑھ گئی ہے۔ بہن یہ سارے ہندوانہ طریقے ہیں اسلام میں ان کی کوئی حقیقت نہیں آج ہم دنیا کے لئے کرتے ہیں کل یہی دنیا ہمارے منہ پر تھوکے گی، ہم مسلمان ہیں ہمارے ہر عمل سے اسلام کا رنگ چھلکنا چاہیےہماری تمام سرگرمیاں سنت نبوی کی آئینہ دار ہوں۔قرآن حکیم میں ہے:
(وَآتُوا النِّسَاءَ صَدُقَاتِهِنَّ نِحْلَةً)
(سورۃ النساء:4)
دوسری جگہ ارشاد فرمایا :
(فَآتُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ فَرِيضَةً)
(سورۃ النساء:24)
قرآن حکیم میں کسی جگہ بھی جہیز کا تذکرہ نہیں ہے اور نہ ہی شادی کی مروجہ رسومات کا اور نہ ہی احادیث سےان کا پتہ چلتا ہے۔ ان کا اثبات تابعین و تبع تابعین سے بھی نہیں ہے شریعت میں شادی کے لئے صرف مہر شرط ہے یا فریقین کی باہمی رضا مندی ،ایجاب و قبول۔
نکاح کو مشکل ہم لوگوں نے بنایا ہے شریعت نے کوئی حکم ایسا نہیں دیا جس میں انسانوں کےلئے حد سے زیادہ مشقت ہو اور ان میں اس کے کرنے کی استطاعت نہ ہو۔ شریعت مرد سے کہتی ہے کہ بیوی کو مہر ادا کرے۔
آجکل لڑکے والوں سے بھی بہت زیادہ مطالبات کئےجاتے ہیں جن کی شریعت میں کوئی اصل نہیں ہے لڑکے کے ذمہ حق مہر ہے اس کی استطاعت کے مطابق اور گھر میں عزت سے رزق پہنچانا۔ ضروریات کو اپنی حیثیت کے مطابق پورا کرنا آجکل جتنے بھی فساد ہوتے ہیں، گھر ٹوٹتے ہیں انہی رسومات کی وجہ سے ٹوٹتے ہیں۔ نبی کریم ﷺنے فرمایا:(سب سے بہترین شادی وہ ہے جس میں خرچ کم ہو )
ایک حدیث مبارک میں ہےآدمی شادی کرتا ہے تین چار وجوہات کی بنا پر حسب ونسب،مال،خوبصورتی اور دین کی وجہ سے۔ تو دین کو ترجیح دے یعنی صرف اور صرف دین کو مقدم رکھیں اگر باقی تمام چیزیں ہیں اور دین داری نہیں ہے تو چھوڑ دو اور اگر باقی کچھ بھی نہیں ہے اور صرف دین ہے تو لے لو۔
ایک صحابیہ تھیں بہت خوبصورت ان کا چچا زاد کالے رنگ کا اور مفلس تھا انہوں نے چچا سے رشتہ کی بات کی تو چچا نےکہا کہ میری حسین و جمیل بیٹی کے لئے تو رہ گیا ہے کالے رنگ کا مفلس ؟وہ نبی کریم ﷺکی خدمت میں گئے۔ آپ ﷺنے فرمایا :شادی کیوں نہیں کرتے ؟عرض کیا کہ مجھے کون بیٹی دے گا، رنگ بھی کالا ہے درہم و دینار بھی پاس نہیں ہیں ،چچا کی بیٹی ہے لیکن چچا رشتہ نہیں دیتا۔ فرمایا کہ جاؤجاکر چچا کو میرا پیغام دو کہ اپنی بیٹی کا نکاح تیرے ساتھ کردے۔ وہ چچا کی دہلیز پر گئے لیکن چچا نے انکار کردیا جب بیٹی نے سنا تو کہا کہ یہ کیا غضب کردیا ہے بھیجنے والے کو دیکھو ،کالا ہے تو کیا ہوا دین والا تو ہے ،محمد ﷺکا غلام تو ہے ،مجھے منظور ہے تو باپ نادم ہوکر درِ اقدس پر گیا اور بیٹی کانکا ح کردیا۔ تاریخ ایسے واقعات سے بھری پڑی ہے لیکن افسوس ہم غلامی میں جکڑے اپنی تاریخ بھلاکر یہود و ہنود کے پیروکا ر بن گئے ہیں۔
ایک تابعی تھے سعید بن مسیب رحمہ اللہ ان کے ہاں ایک بیٹی تھی بہت خوبصور ت اور نہایت خوب سیرت ان کےلئے ولی عہد کا پیغام آیا لیکن سعید بن مسیب رحمہ اللہ نے انکار فرمادیا اور اپنے ایک نادار شاگرد کے ساتھ اس کا نکا ح کردیا اور خود جاکر بیٹی کو ان کے گھر چھوڑ آئے۔تم کہو گے کہ اب زمانہ بدل گیا ہے وہ دور اور تھا یہ دور اور ہے تو لو آجکل کا واقعہ سناتی ہوں۔
میری ایک سہیلی ہے افرائم اس کی شادی اتنی سادگی سے ہوئی ہے کہ سب حیران رہ گئے ہیں عبد اللہ نے اس کے ابو سے رشتہ مانگا ہے بعد مسنون استخارہ کے انہوں نے منظور کرلیا ہے نہ لڑکی دیکھی اور نہ ہی گھر نہ ہی افرائم کے ابو نے ان کا گھر دیکھا بس دین کو دیکھا کہ لڑکا عالم ہے، نیک سیرت ہے۔ ہفتہ میں تاریخ طے ہوگئی نکاح کی تمام فضول رسموں سے اجتناب کیا گیا ،مسجد میں نکاح ہوا چند گنے چنے لوگ آئے اور افرائم کو رخصت کرکے لے گئے نہ دودھ پلائی نہ ہی مہنگا شرارہ وغیرہ۔
اللہ تعالیٰ نے سنت پر عمل کی وجہ سے اس کا گھر جنت بنادیا ہے ، عبد اللہ صاحب بہت ہی اچھے محبت کرنے والے شوہر ہیں اس کا ہر طرح سے خیال رکھتے ہیں وہ تو انتہائی مسرور ہے کہ اللہ تعالیٰ نے دنیا میں ہی مجھے جنت دے دی ہے یہ جنت ہر کوئی حاصل کرسکتا ہے اگر وہ سنت کا اتباع کرے تو۔
جاؤاپنی بہن سے کہو کہ عبادت کو معصیت نہ بنائے ،دنیا کہ چکروں میں نہ پھنسے ،جب بھی کوئی بندہ گناہ کا کام کرتا ہے تو اس میں شریک سب لوگ اس گناہ کے برابر کے مرتکب ہوتے ہیں۔ یہ گانا بجانا حرام ہے۔ نبی کریم ﷺکا ارشاد ہے کہ :
(الغناء ینبت النفاق فی القلب کما ینبت الماء الزرع)
گانا دل میں نفاق پیدا کرتا ہے جس طرح کہ پانی کھیتی کو اُگاتا ہے۔
اگر شروع میں ہی نفاق کے ساتھ رخصت کیا بیٹی کو تو اس کا گزارا کیسا ہوگا ؟ اور باقی رہی رسومات کے اخراجات کی بات تو یہ ایک ایسی کھائی ہے جو اپنے اندر گرنے والوں کو بے موت ماردیتی ہے۔ وہ اس میں گر کر اپنا تشخص مٹادیتے ہیں اور آواز دینا بھی چاہیں اپنے آپ کو بچانے کے لئے تو نہیں بچا سکتے۔ حرص انسان کو اندھا کردیتا ہے حریص کا منہ قبر کی مٹی ہی بھر سکتی ہے۔
جہاں آراء بیگم خوشی خوشی بیگم عباسی کے پاس آئیں اور ان کو سمجھایا انہوں نے کہا کہ بات تو دل کو لگتی ہے لیکن لوگ کیا کہیں گے؟ اور بیگم لغاری تو یہ بات کبھی بھی نہیں مانیں گی۔ جہاں آراء بیگم نے کہا دیکھو بہن ! اگر لوگوں کو دیکھتی رہی تو وہ کبھی بھی خوش نہیں ہوں گے کسی نہ کسی چیز میں کیڑے نکال ہی لیں گے۔
اپنے رب کو دیکھو جس کے تم پر بے شمار احسانات ہیں لیکن پھر بھی وہ تمہارے عیوب کو چھپاتا ہے اور اپنی رحمت میں کمی نہیں کرتا اس خالق کو راضی کرو جس کی طرف ہمیں جانا ہے اور ان سے صاف کہہ دو کہ اگر شریعت کے مطابق شادی کرنی ہے تو ٹھیک ورنہ رشتہ ختم سمجھو بیگم عباسی فوراَ مان گئی۔ شام کو بیگم عباسی نے بیگم لغاری کو فون کیا اور ان سے کہا کہ دیکھو بہن شریعت کے احکام یہ ہیں، ہمیں ان کی پیروی کرنی چاہیے۔ لہٰذا شادی شرعی احکام کی روشنی میں ہوگی اور تمام خرافات و معصیات سے مکمل اجتناب کیا جائے گا۔ مرد وزن کا اختلاط نہیں ہوگا اور نہ ہی گانا بجانا۔
بیگم لغاری تو سن کر آگ بگولہ ہوگئی واہ اخراجات سے بچنے کا نیا بہانہ ہے صاف کہو کہ تمہیں بیٹی کی خوشیاں عزیز نہیں ہیں، مال عزیز ہے۔ ویسے تمہیں شریعت نظر نہیں آتی اب جب اخراجات کا وقت آیا ہے تو شریعت درمیان میں آگئی ہے ؟بیگم عباسی نے نہایت متانت سے کہا کہ باجی ہمیں پہلے شرعی احکام کا علم نہیں تھاجاننے کے بعد تو انحراف نہیں کرنا چاہیے ورنہ ڈبل گناہ ہوتا ہے۔
لیکن بیگم لغاری بدستور غصّہ کرتی رہیں اور دو ٹوک الفاظ میں کہا کہ میرا تو ایک ہی بیٹا ہے میں نے تو دھوم دھام سے شادی کرنی ہے، اگر تم نے مرگ کی طرح کرنی ہے تو پھر کوئی فقرہ تلاش کرو میں اپنے اسٹیٹس کے لوگوں میں کرلوں گی اور کھٹاک سے فون بند کردیا۔
دوسرے دن بیگم عباسی نے جہاں آراء بیگم کو فون کرکے صورتحال بتائی اور کہا کہ ایسا لڑکا ملنا بھی تو مشکل ہے خوبصورت اور اچھی پوسٹ پر ہے اب کیا کروں ؟
جہاں آراء بیگم نے کہا کہ بہن فکر کی بات نہیں ہے اپنے بھتیجے ارمغان کو دے دو یا میرے بیٹے فیصل کو دونوں معیز سے زیادہ اچھے ہیں عادات میں بھی اور اخلاق میں بھی اور دونوں کے چہروں پر سنت کا نور ہے۔ بھائی سے بات کرلیتے ہیں ارمغان کے لئے۔
بیگم عباسی کا خوشی سے دل باغ باغ ہو گیا اور کہا کہ مجھے تو علم ہی نہیں تھا کہ اللہ تعالیٰ صرف نیکی کا ارادہ کرنے سے اتنا نوازتے ہیں تم اس طرح کرو کہ فیصل کے لئے رکھ لو ،ماشاءاللہ بہت پیارا بچہ ہے۔
جہاں آراء بیگم نے کہا کہ خدا کا شکر ہے کہ سنت کی ابتداء میرے ہی گھر سے ہوگی انہوں نے ڈاکٹر فیصل کو ساری تفصیل بتائی اس نے سعادت مندی سے سر جھکا لیا کہ امی جان جیسے آپ خوش ویسے میں خوش۔
اور مجھے تو ویسے ہی ان خرافات سے الرجی ہے میں چاہتا ہوں کہ میری بیوی بھی باشرع ہو۔ انہوں نے کہا کہ اس کی فکر نہ کرو میں عائشہ کو دو سالہ دراسات دینیہ کا کورس کروالوں گی تمہاری خواہش بھی پوری ہوجائے گی اور ہمارا گھر بھی جنت کا نمونہ بن جائے گا اور سنت پر عمل کی وجہ سے عند اللہ بھی ماجور ہوں گے۔
دوسرے دن جہاں آراء بیگم مٹھائی لے کر بیگم عباسی کی طرف آگئیں ہر طرف خوشی کی لہر دوڑ گئی اور مقررہ تاریخ پر عائشہ کا نکاح انتہائی سادگی سے فیصل کے ساتھ ہوگیا۔
جہاں دنیا دار ناراض ہوئے اس بغیر نقطوں کی شادی پر تو کچھ اہل اللہ خوش ہوئے۔ ڈاکٹر فیصل عائشہ کوپاکر خوش ہوئے اور ساتھ ہی اپنی خواہش کا اظہار کیا کہ میں چاہتا ہوں کہ بیوی باپردہ ہو،عائشہ ایک سمجھ دار لڑکی تھی فوراَ شوہر کی بات مان لی اور کہا کہ مجھے آپ ہمیشہ اپنی خواہش کے مطابق پائیں گے۔ پردہ عورت کی عزت کا واحد ضامن ہے۔ آج ان کی شادی کو چار سال ہوگئے ہیں اللہ تعالیٰ نے ان کو دو بچوں سے نوازا ہے ماشاء اللہ پورا گھرانہ لوگوں کےلئے مثال بنا ہوا ہے۔
انتہائی ملنسار،خوش اخلاق اور خدمت گزار عائشہ نے گھر والوں کے ساتھ ساتھ تمام محلہ والوں کے بھی دل جیت لئے ہیں۔ ہر طرف اس گھر کی مثالیں دی جاتی ہیں اور ان کے عمل کو اپنانے کی لوگ کوشش کرتے ہیں۔دعا ہے کہ دیے سے دیا یونہی جلتا رہے اور پورا عالم اسلام سنت کے نور سے منور ہوجائے۔آمین۔