اُم المؤمنین سیدہ سودہ حیات و خدمات

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
اُم المؤمنین سیدہ سودہ حیات و خدمات
محترمہ سعدیہ الیاس گھمن
منتظمہ : مرکز اصلاح النساء
نام و نسب:
آپ کا نام ِ نامی اسمِ گرامی سودہ (رضی اللہ عنہا )تھا قریش کے خاندان عامر بن لوی سے تعلق تھا۔ والد کی طرف سلسلہ نسب :سودہ بنت زمعہ بن قیس بن عبد شمس۔ والدہ کی طرف سے الشموس بنت قیس بن زید بن عمرو بن لبید بن خداش بن عامر بن غنم بن عدی بن نجار۔
کنیت:
ان کی کنیت ام الاسود تھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نکاح میں آنے سے پہلے سکران بن عمرو بن عبد شمس کے نکاح میں تھیں اور حضرت سکران رضی اللہ عنہ ان کے چچا زاد بھائی تھے۔
قبولِ اسلام :
ابتداء نبوت میں مشرف باسلام ہوئیں ان کے ساتھ ان کے شوہر نامدار نے بھی دعوتِ اسلام پر لبیک کہا اور دائرہ اسلام میں داخل ہوگئے۔ دونوں کو قدیم الاسلا م ہونے کا شرف حاصل ہے ،حبشہ کی پہلی ہجرت میں یہ دونوں شریک نہ ہو سکے اور قریشِ مکہ کی سختیاں جھیلتے رہے لیکن جب مشرکین کا ظلم و ستم اپنی انتہاء کو پہنچ گیا تو ایک بہت بڑی جماعت مسلمانوں کی ہجرت کے لئے حبشہ کی طرف تیار ہوگئی۔
کئی سال حبشہ گزارنے کے بعد جب یہ مکہ مکرمہ واپس آئیں تو ان کے شوہر کا مکہ مکرمہ میں انتقال ہوگیا۔
حریم نبوّت میں آمد :
حضرت سیدہ سودہ رضی اللہ عنہا اپنے شوہر کے وصال کے بعد سرورِ دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے حبالہ عقد میں آئیں ،مؤرخین کی تصریحات کے مطابق ام المؤمنین سیدہ خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا کے انتقال کے بعد سب سے پہلی خاتون جنہیں ام المؤمنین ہونے کا شرف حاصل ہوا وہ سیدہ سودہ رضی اللہ عنہا ہیں۔
امام ابن سعد رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
"تزوج رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سودۃ فی رمضان سنۃ عشر من النبوۃ بعد وفات خدیجۃ وقبل تزوج عائشہ ودخل بھا بمکۃ وھاجر الی المدینہ"
ترجمہ:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا کی وفات کے بعد رمضان المبارک 10نبوی میں حضرت سودہ رضی اللہ عنہا سے نکاح فرمایا اور یہ نکاح حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے پہلے فرمایا اور حضرت سودہ رضی اللہ عنہا مکہ مکرمہ ہی میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر آگئیں اور پھر مدینہ منورہ کی طرف ہجرت فرمائی۔
حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سیدہ خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا کے انتقال سے غمگین اور پریشان تھے اس لئے کہ وہ ہر مشکل وقت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی غم خوار اور غمگسار تھیں اور اب آپ کی دلداری اور غمگساری کرنے والی کوئی نہ تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس حالت کو دیکھ کر حضرت عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ کی اہلیہ محترمہ حضرت خولہ بنت حکیم رضی اللہ عنہا نے بارگاہ رسالت میں عرض کی کہ یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم )آپ کو ایک مونس و غمگسا ر رفیقہ حیات کی ضرورت ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں! گھر بار کا انتظام اور بال بچوں کی پرورش سب خدیجہ کے متعلق تھا تو اس پر خولہ بنت حکیم نے کہا کہ کیا میں آپ کے لئے کہیں نکاح کا پیغام دوں؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : مناسب ہے اور عورتیں ہی اس کام کے لئے موزوں ہوتی ہیں ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :کہ کسی جگہ پیغام دینے کا خیال ہے؟توخولہ نے کہا کہ اگر آپ کنواری سے نکاح فرمانا چاہیں تو آپ کے نزدیک تمام مخلوق میں جو سب سے زیادہ محبوب ہے ابو بکر اس کی بیٹی عائشہ سے نکاح فرمالیں اور اگر کسی بیوہ سے نکاح فرمانا چاہیں تو سودہ بنتِ زمعہ موجود ہے جو آپ پر ایمان لائی اور آپ کا اتباع بھی کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :کہ دونوں جگہ پیغام دے دیں۔
خولہ پہلے سودہ کے پاس گئیں اور کہا کہ اللہ جل مجدہ نے آپ پر خیر وبرکت کے دروازےکھول دیے ہیں تو انہوں نے کہا کہ وہ کیسے؟تو انہوں نے فرمایا کہ مجھے کوئی عذر نہیں لیکن آپ میرے والد کے پاس جائیں اور انہیں یہ بتادیں تو حضرت خولہ کہتی ہیں کہ میں سودہ کے والد کے پاس گئی جو نہایت بوڑھے تھے۔ انہوں نے دریافت کیا کہ کون ہے؟میں نے جواباَ عرض کیا کہ خولہ !انہوں نے کہا مرحبا۔ کہو کیسے آنا ہوا ؟ حضرت خولہ نے جواب دیا محمد بن عبد اللہ بن عبد المطلب کی طرف سے آپ کی بیٹی کے لئے نکاح کا پیغام لائی ہوں انہوں نے سن کر کہا ہاں محمد صلی اللہ علیہ وسلم بے شک شریف کفو ہیں،) ھو کفو کریم )لیکن معلوم نہیں کہ سودہ کی کیا رائے ہے؟ حضرت خولہ نے کہا اسے یہ پیشکش قبول ہے۔
حضرت خولہ کے والد نے کہا محمد صلی اللہ علیہ وسلم یہاں تشریف لائیں آپ کی تشریف آوری پر زمعہ نے اپنی صاحبزادی سودہ سے نکاح کی اجازت طلب کی: اے جان پدر! یہ خولہ کہتی ہیں کہ محمد بن عبد اللہ بن عبد المطلب نے تجھے نکاح کا پیغام بھیجا ہے میرے نزدیک نہایت عزت دار گھرانہ ہے کیا تو راضی ہے کہ تیرا نکاح ان سے کردوں ؟حضرت سودہ نے کہا جی ہاں میری رائے بھی یہی ہے غرض اس طرح بحسن و خوبی اور خوش اسلوبی سے تمام مراحل طے ہوگئے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے ہاں تشریف لے گئے اور حضرت سودہ رضی اللہ عنہا کے والد گرامی قدر نے نکا ح پڑھایا اور چار سو درہم مہر مقرر ہوا۔
ہجرت:
حضرت سودہ رضی اللہ عنہا سے نکاح کرنے کے بعد سرورِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم تین سال تک مکہ معظمہ میں اقامت گزیں رہےپھر جب اللہ جل شانہ کی طرف سے ہجرت کی اجازت مل گئی تو حضرت صدیقِ اکبر رضی اللہ عنہ کو ساتھ کے کر مدینہ منورہ تشریف لے گئے اور دونوں حضرات اپنے اہل و عیال کو مکہ میں چھوڑگئے جن میں سیدہ سودہ رضی اللہ عنہا بھی تھیں۔مدینہ منورہ پہنچ کر حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت زید بن حارثہ اور ابو رافع کو دو اونٹ اور پانچ سو درہم دے کر بھیجا اور فرمایا کہ ایک اونٹ قدید کے مقام سے خرید لینا تاکہ حضرت فاطمہ ،ام کلثوم اور حضرت سودہ رضی اللہ عنھم کو لے آئیں جبکہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے بیٹے عبد اللہ رضی اللہ عنہ اپنے کنبے کو اپنے ساتھ مدینہ لے کر گئے جن میں سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا اور ان کی والدہ ام رومان رضی اللہ عنہا بھی تھیں۔
زہد و تقویٰ:
ام المؤمنین سیدہ سودہ رضی اللہ عنہا عبادت و ریاضت اور زہد و تقویٰ میں بلند شان کی حامل تھیں۔علامہ ابن کثیر لکھتے ہیں : حضرت سودہ رضی اللہ عنہا عبادت و تقویٰ اور زہد والی خاتون تھیں۔حضور انور صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع کے موقع پر اپنی ازواج مطہرات سے فرمایا : میرے بعد گھر میں بیٹھنا اس پر سیدہ سودہ رضی اللہ عنہا نے ایسی سختی سے عمل فرما یا کہ پھر کبھی حج کے لئے بھی تشریف نہ لے کر گئیں اور فرماتی تھی کہ میں حج و عمرہ دونوں کرچکی ہوں اور اب رسول خدا کے حکم کے مطابق گھر ہی میں بیٹھوں گی۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد کے بعد سب ازواج مطہرات نے آپ کے انتقال کے بعد کئی حج کئے لیکن سیدہ زینب بنت جحش اور سیدہ سودہ بنت زمعہ رضی اللہ عنہمانے آپ کےبعد کوئی حج نہیں کیا اور برابر گھر میں رہیں اور فرمایا کرتی تھیں بخدا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے بعد ہم اپنی جگہ سے نہیں ہلیں گی ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ طاہرہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں : حضرت سودہ رضی اللہ عنہا کے علاوہ کسی عورت کو دیکھ کر مجھے یہ خیال پیدا نہیں ہوا کہ اس کے قالب میں میری روح ہوتی۔
سخاوت و فیاضی :
یوں تو اس زمانہ کی مسلمان عورتوں میں اس دنیا کی فانی چیزوں کو جوڑ جوڑ کر اور گن گن کر جمع کرکے رکھنے کا دستور اور رواج نہ تھا اور اس دنیا اور اس کی چیزوں کے فانی اور ختم ہونے کا تصور ہمیشہ آنکھوں کے سامنے رہتا تھا لیکن بعض عورتیں اپنی لمبی فیاضی و کشادہ دلی کی بنا ء پر اس میں خاص درجہ رکھتی تھیں۔ ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں : سیدہ سودہ رضی اللہ عنہا طائف سے آئی ہوئی کھالیں خود بناتی تھیں اور اس سے جو آمدنی ہوتی تھی اسے نہایت آزادی کے ساتھ نیک کاموں میں خرچ کرتی تھیں۔
ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن اور حشر کی تمنا :
ام المؤمنین سیدہ سودہ رضی اللہ عنہا جب عمر رسیدہ اور بوڑھی ہوگئیں تو ان کے دل میں یہ خیال پیدا ہوا کہ کہیں سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم مجھے طلاق نہ دے دیں اور وہ شرف محبت اور شرف زوجیت سے محروم نہ ہوجائے ان کی دلی تمنا تھی کہ وہ قیامت کے روز آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج میں سے اٹھیں چنانچہ حضور انور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں بوڑھی ہوگئی ہوں اب میں اپنی باری عائشہ کو ہبہ کردیتی ہوں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی اس پر راضی ہوگئےاور سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بھی اس پیش کش سے خوش ہوگئیں۔ سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے : ام المؤمنین سیدہ سودہ رضی اللہ عنہا کو خطرہ ہوگیا تھا کہ سرور عالم صلی اللہ علیہ وسلم انہیں طلاق دے دیں گے چنانچہ انہوں نے آپ کی خدمت میں عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے طلاق نہ دیں مجھے اپنی زوجیت کے شرف سے محروم نہ فرمائیں اور میری باری کا دن عائشہ کو دے دیا کریں چنانچہ آپ نے منظور فرمالیا اس پر یہ آیت نازل ہوئی :
"وَإِنِ امْرَأَةٌ خَافَتْ مِنْ بَعْلِهَا نُشُوزًا أَوْ إِعْرَاضًا فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِمَا أَنْ يُصْلِحَا بَيْنَهُمَا صُلْحًا وَالصُّلْحُ خَيْرٌ"
ترجمہ: اگر کسی عورت کو اپنےشوہر سے غالب احتمال ،نامناسب رویہ یا بے پرواہی کا ہو تو دونوں کو اس امر میں کوئی گناہ نہیں کہ دونوں باہم ایک خاص طور پر صلح کرلیں اور صلح بہتر ہے۔
ام المؤمنین سیدہ سودہ رضی اللہ عنہاکے ایثارکا یہ عدیم النظیر اور فقید المثال واقعہ ہے کہ حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی منظور نظر اور محبوبہ کو اپنی باری کا دن تفویض فرماکر اپنے شوہر کی رضا مندی کا تمغہ بھی حاصل کرلیا اور اپنی سوکن کوبھی راضی کرلیا۔ قربان ہوں میرے ماں باپ ہادی کائنات ،محسن انسانیت صلی اللہ علیہ وسلم پر کہ آپ نے نیک و صالح عورت کی صفات میں پہلی صفت"ان امرھا اطاعتہ " اگر شوہر بیوی کو حکم دے تو بیوی اس کے حکم کو بجالائے۔
علامہ ابن قیم رحمہ اللہ علیہ لکھتےہیں۔ ام المؤمنین سیدہ سودہ رضی اللہ عنہا کے خصائص میں سے ایک خصوصیت تھی کہ انہوں نے اپنی باری سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کو سپرد کردی ان کا یہ جذبہ ایثار اس وجہ سے تھا کہ وہ اس محبوبہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی وجہ سے بارگاہ نبوّت میں تقرب حاصل کریں۔ ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں :حضرت سودہ بنت زمعہ رضی اللہ عنہا نے کبر سنی کی وجہ سے اپنی باری کا دن اوررات حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کو دے دی تھی اور ان کا مقصد حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی رضا و خوشنودی حاصل کرنا تھا۔چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی نو بیویوں کے پاس باری باری تشریف لے جایا کرتے اور حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے ہاں دو راتیں بسر فرماتے تھے۔
مناسک میں رعایت:
سرور دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے 10 ہجری میں حج ادا فرمایا آپ کی تمام ازواج مطہرات ہمراہ تھیں۔ سیدہ سودہ رضی اللہ عنہاتیزی کے ساتھ چل پھر نہ سکتی تھیں بلکہ تھوڑا آہستہ رفتار تھیں۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت چاہی کہ لوگوں کے مزدلفہ سے منی ٰ روانہ ہونے سے قبل انہیں جانے کی اجازت دی جائے۔حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کمال شفقت فرماتے ہوئے اجازت مرحمت فرمادی چنانچہ سیدہ سودہ رضی اللہ عنہا رات ہی میں لوگوں سے پہلے مزدلفہ سے روانہ ہوگئیں کیونکہ انہیں بھیڑ میں چلنا دشوار تھا۔
سانحہ ارتحال :
ایک مرتبہ تمام ازواج مطہرات رضوان اللہ علیہن اجمعین بارگاہ رسالت پناہ میں بیٹھی ہوئی تھیں عرض کرنے لگیں کہ یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم )ہم میں سے سب سے پہلے کس کا انتقال ہوگا۔۔۔ ؟تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : "اسرعکن بی لحاقاَ اطول کن یداَ"
ترجمہ: تم میں سب سے پہلےوہ مجھ سے ملے گی جس کا ہاتھ سب سے لمبا ہوگا اب انہوں نے ظاہری ہاتھ کی لمبائی سمجھی ہاتھ ناپے گئے تو سب سے دراز ہاتھ حضرت سیدہ سودہ رضی اللہ عنہا کا تھا لیکن جب سب سے پہلے حضرت سیدہ زینب رضی اللہ عنہا کا انتقال ہوا تو معلوم ہوا کہ ہاتھ کی لمبائی سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مراد سخاوت اور فیاضی تھی۔
علامہ ابن عبد البر نے استیعاب میں ام المؤمنین سیدہ سودہ رضی اللہ عنہا کی وفات سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے زمانہ خلافت میں بیان کیا ہے اور یہی قول علامہ ابن حجر عسقلانی نے ابن خیثمہ سے نقل کیا ہے اور لکھا ہے : یہ بھی کہا جاتا ہے کہ انہوں نے 54ھ میں وفات پائی اور واقدی نے اس قول کو ترجیح دی ہے۔
امام بخاری رحمہ اللہ نے تاریخ بسند صحیح روایت کی ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے خلافت کے آخری زمانہ میں وفات پائی اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی شہادت 23ھ میں ہے اس لئے ان کا زمانہ وفات 23ھ ہوگا تاریخ خمیس میں ہے کہ یہی روایت سب سے زیادہ صحیح ہے۔
اولاد:
ام المؤمنین سیدہ سودہ رضی اللہ عنہا کے ہاں پہلے شوہر سکران سے ایک لڑکا عبد الرحمن پیدا ہوا انہوں نے جنگ جلودا فارس میں جام شہادت نوش فرمایا لیکن سرور عالم صلی اللہ علیہ وسلم سے آپ کی کوئی اولاد نہیں ہوئی۔ رضی اللہ عنہا