نکاح سنتِ نبوی ہے

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
نکاح سنتِ نبوی ہے!!
عمارہ الیاس گھمن
نسل انسانی کی بقا٫ وافزائش کاآسان اور فطری ذریعہ نکاح ہے،نکاح ایسا عمل ہے جوصرف دنیاوی ہی نہیں بلکہ شریعت محمدیہ میں اسے ایک عبادت کا درجہ دیا گیا ہے حدیث مبارک ہے: نکاح میری سنت ہے اور ایک روایت میں ہے کہ جو کوئی میری سنت سے اعراض کر وہ مجھ سے نہیں ہےڌ
نکاح اگر خوشی کا موقع ہے تو دین اسلام کی ترغیب کے مطابق ایک سے زائد نکاح خوشی دوبالا کرنے اور بےشمامعاشرتی مسائل کو حل کرنے والا عمل ہے۔جو خیرالقرون سے رائج ہے لیکن ہماری بدقسمتی کہ مغربی پروپیگنڈہ سے متاثر ہو کر اور ہندؤں کے ساتھ ایک مدت گزارنے کی وجہ سے ہماری اکثریت نکاح ثانی اور نکاح بیوگان جیسے واضح دینی معاملات کو شک وشبہ کی نگاہ سے دیکھنے لگی اور نوبت یہانتک آپہنچی ہے کہ اگر کوئ شخص احکام وضوابط کو مد نظر رکھ کر ضررت کے تحت بھی نکاح ثانی کرتا ہے تو دنیا کی نگاہ میں مشکوک ہو جاتا ہے۔
ضرورت کے وقت نکاح اول جس طرح بعض حا لات میں سنت بعض میں واجب یافرض ہے اسی طرح بوقت ضررت دوسر،تیسرا اور چوتھا نکاح بھی جائز ہے۔اسلام کے مظلوم احکام میں سے ایک حکم تعداد ازواج کا ہے جس کی حلت وترغیب پر خوداللہ رب العزت نے اپنی مبارک کتاب میں آیت نازل فرمائی۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔
فانکحوا ماطاب لکم من النسآ٫مثنیٰ وثلٰث وربٰع۔
اور صرف اسی پراکتفا٫ نہیں فرمایا بلکہ اپنے محبوب ترین بندوں پیغمبروں اور سرتاج الانبیا٫ اور صحابہ کرام ،تابعین ،تبع تابعین اوربلاد مقدسہ کے مسلمانوں میں آج تک اس عمل کو جاری فرماکر اس مبارک عمل کو سنت متواترہ کا درجہ دیدیاڌاس کا تقاضا تو یہ تھا کہ پاک وہند کے مسلمانوں میں جس طرح پہلی شادی کو اچھی نگا ہوں سے دیکھا جاتا ہے مٹھائیاں تقسیم کی جا تی ہیں سب عزیزواقارب خوشی سے پھولے نہیں سماتے اسی طرح نکاح ثانی پربھی فخروانبساط کا اظہار کیا جاتا بلکہ سنت وعبادت سمجھ کر کرتے اور اپنے آپ کو آپ کی سفارش کا مستحق بنانے کی کوشش کرتے لیکن افسوس کہ یہ متضاد سوچ کے مالک بن گئے۔
ایک وقت تھا جب کسی مسلمان کے لیے اتنا کہنا کافی تھا کہ یہ اللہ اور اس کے رسول کاحکم ہے، اس کے لیے یہ دلیل وسند کافی ہوتی تھی اوراس کے اعتقاد کوئی چیز متزلزل نہیں کرسکتی تھی ہماری بدقسمتی ہے کہ ہم مغرب کے پروپیگنڈہ میں آکر اپنی تہذیب اور پہچان بھول چکے ہیں بلکہ دین کےظاہراحکام میں ردوقداسے کام لینے لگے ہیں اور سنن کو معیوب سمجھنے لگے ہیں (العیاذباللہ) حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ، ہم سے رسول اللہﷺ نے فرمایا !اے جوانوں کی جماعت ! جو شخص تم میں سے گھردستی کا بوجھ اٹھانے کی ہمت رکھتا ہو اس کو نکاح کر لینا چاہیے کیونکہ نکاح نگاہ کو نیچی رکھنے والا ہے اور شرم گاہ کی حفاظت کرنے والا ہے۔
(حیٰوۃ المسلمین)
اگر وسعت کے ساتھ بہت زیادہ تقا ضا ہے کہ بدون نکاح کیے حرام کا مرتکب ہو جائے گا تو نکاح کرنا فرض ہے۔
اگر ضرورت ہو مگر وسعت نہ ہو توواجب ہے اور وسعت کاتدارک محنت،مزدوی اور قرض سے کرے جس کی ادئیگی کا مصمم ارادہ ہو۔
اگر ضرورت نہیں لیکن وسعت ہے تب بھی نکاح سنت ہے۔
نامرد کا نکاح کرناگناہ ہے۔
ابوذرغفاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت عکاف تمیمی رضی اللہ عنہ نبیﷺ کی خدمت میں آئے آپﷺ نےفرمایا اے عکاف ! کیا تمہاری بیوی ہے؟ عرض کیا نہیں فرمایا باندی ہے؟ عرض کیا نہیں آپﷺ نے فرمایااور خیرسے تم مال دار بھی ہو وہ بولے کہ خیرسے میں مالدار بھی ہوں۔ آپ ﷺنےفرمایا پھر تو تم اس حالت میں شیطان کے بھائی ہو اگر تم نصاریٰ میں سےہو تے تو ان کے راہبوں میں سے ہوتے ہمارا طریقہ نکاح ہے تم میں سے بدتر مجرد لوگ ہیں شیطان کے پاس کوئی ہتھیار جونیک لوگوں میں پورا اثر کرنے والا ہو عورتوں سے بڑھ کر نہیں مگر جو لوگ نکاح کئے ہوئے ہیں وہ گندی باتوں سے پاک وصاف ہیں
(مسند امام احمد)
بعض روایا ت میں نکاح کو نصف ایمان قرار دیا گیا ہے حدیث شریف کے مطابق سب سے خرچ والا نکاح سب سے زیادہ برکت والا ہوتا ہے،گنجائش سے زیادہ خرچ کر نا مناسب نہیں بالخصوص رسومات سے بچ کر نکاح کرنا اس میں برکت ہی برکت ہے۔
انسان مرد ہو یا عورت نکاح سے باوقار بنتا ہے فطری تقا ضے پورے ہوتے ہیں غیر فطری تقاضوں سے بچنا آسان ہوتا ہے۔ ایمان کی سلامتی کا بہت بڑا اور مئوثر ذریعہ نکاح ہے۔ امام ابو حنیفہ﷫کے نزدیک نکاح کے متعلق مصروفیات اپنانا نفلی عبادت سے بہتر ہے۔
حضوراکرمﷺ کاارشاد ہے۔میر ی نظر میں عورتوں اور خوشبو کو محبوب بنادیا گیا ہے اور میری آنکھوں کی ٹھنڈک نماز میں ہے
(مستدرک علی الصحیحین)
اس حدیث کی تشریح میں امام احمد بن حنبل﷫فرماتے ہیں۔کہ اس حدیث میں رسول اللہﷺ نے واضح اشارہ فرمادیا کہ میں کھانے پینے سے تو صبر کر سکتا ہوں مگر عورتوں سے صبر نہیں کر سکتا
(زادالمعاد)
علامہ ابن القیم ﷫فرماتے ہیں۔عورتوں سے محبت انسان کے کامل ہونے کی علامت ہے اس لیے کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ اس امت میں سب سے بہترین وہ ہے جس کی بیویاں زیادہ ہوں۔
امام جلال الدین سیوطی﷫فرماتے ہیں؛ کہ عورتیں اورخوشبو بظاہر دنیا کاسامان ہیں مگر یہ دین سے تعلق رکھتی ہیں۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں : رسول اللہﷺ کو دنیا کی چیزوں سے تین چیزیں سب سے زیادہ محبوب ومرغوب تھیں ،عورتیں،خوشبو، کھانا۔ پس ان میں سے دو چیزوں کوآپﷺ نے حاصل فرمایا اور ایک سے اجتناب فرمایا
(الطبقات الکبری)
نبی کریم ﷺ نےارشاد فرمایا: چار چیزیں انبیا٫﷩ کی سنتوں میں سے ہیں:۱۔نکاح کرنا (۲) ختنہ کرنا(۳) مسواک کرنا (۴)خوشبولگانا۔
حضورﷺ نےنکاح کے بارے میں ہدایت فرمائی ہے۔کہ کسی عورت سےچارباتوں کی وجہ سے نکاح کیا جاتا ہے (۱) اس کے مال کی وجہ سے (۲)اس کے خاندان کی وجہ سے (۳)اس کی خو بصو رتی کی وجہ سے (۴)اس کی دینداری کی وجہ سے تمہیں چاہیے کہ عورت کا انتخاب دینداری اور اخلاق کی بنیاد پر کرو۔
ہم نے آقاﷺ کی ہدایت اور خیر خواہی سے بھر پور مشورہ کو نظرانداز کر کے محض مال اور جمال کو نکاح کا معیار بنا لیا ہے اور لڑکے اور لڑکیوں کے رشتوں میں تاخیر در تاخیر ہوتی چلی جاتی ہے اور بالوں میں چاندی چمکنے لگتی ہے۔ والدین عمر رفتہ کے ساتھ کسی شہزادے کے منتظر رہتے ہیں اور وقت ہاتھ سے نکل جاتا ہے۔
حضرت معقل بن یسار رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ ایسی عورت سے نکاح کرو جو محبت کرنے والی ہو اور بچے جننے والی ہو کیونکہ میں تمہاری کثرت کی وجہ سے دوسری امتواں پر فخر کروں گا۔
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جب خلق اور دین کفایت ہو تو نکاح کر دیا کرو ورنہ زمین میں فساد ہو گا (ترمذی، مشکوۃ)
لڑکی کا نکاح کرتے وقت بس تین چیزیں دیکھنا کافی ہیں (۱) قوت جسمانی (۲) کفو میں تفاوت نہ ہو (۳)دینداری جس لڑکے یا لڑکی کی شادی نہ ہوئی ہو اور وہ جواں عمر ہو تو حدیث مبارکہ میں اس کو مسکین کہا گیا ہے یعنی یہ لوگ قابل رحم ہیں کہ عمر کے اس حصے میں ازدواجی زندگی گزارنے سے محروم ہیں۔ نکاح کا مقصد محض شہوت کو پورا کرنا نہیں ہے۔ نکاح کامقصدبنی نوع انسانی کی افزائش ہے۔
حضور اقدس ﷺ کے قرب خاص میں رہنے والے جلیل القدر صحابی حضرت سیدنا عبداللہ بن مسعودؓ فرماتے تھے کہ اگر مجھے یقین ہوجائے کہ میری زندگی کے صرف دس ایام باقی ہیں پھر بھی میں نکاح کرنا پسند کروں گا تاکہ اللہ تعالیٰ کے حضور اعزب (بےنکاح) ہو کر حاضر نہ ہوں۔
نکاح کے متعلق ایک صحابی کا واقعہ۔ ایک صحابی حضوراکرم ﷺ کی خدمت میں رہا کرتے تھے۔ ایک مرتبہ آپﷺ نےاس صحابی کو فرمایا تم نکاح کیوں نہیں کرتے ؟ انہوں عرض کی کہ حضورﷺ میں غریب آدمی ہوں میرے پاس کچھ نہیں۔ آپ ﷺ نے دوسری مرتبہ فرمایا تو صحابی نے وہی جواب دیا اور ساتھ ہی سوچا کہ جو کچھ آپﷺ فرمارہے ہیں اسی میں میری دنیا وآخرت کی بہتری ہو گی اب اگر حضورﷺ نے فرمایا تو میں نکاح پر آمادگی ظاہر کروں گا چناچہ جب آپﷺ تیسری مرتبہ فرمایا تو اس شخص نے عرض کی حضورﷺ پھر میرا نکاح کرا دیں آپﷺ نے ارشاد فرمایا کہ فلاں شخص کے پاس جاؤ اس سے کہو کہ حضور ﷺنے فرمایا ہے کہ اپنی بیٹی کا مجھ سے نکاح کردو۔ صحابی نے عرض کی حضور میرے پاس تو کچھ بھی نہیں ہے آپ ﷺ نے صحابہ کرامؓ سے فرمایا کہ اپنے بھائی کے لیے کچھ جمع کرو صحابہ کرامؓ نے کھجور کی گٹھلی کے برابر سونا جمع کیا چناچہ اس صحابی نکاح ہو گیا۔ پھر حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے آپﷺ کے حکم پر ایک بکری لے کر اس کے لیے دعوت ولیمہ کا اہتمام کیا۔ سبحان اللہ کیسا معاشرہ تھا جس میں تکلف نہ تھا۔
حضرت سفیان بن عینہ ﷫فرماتے ہیں کہ زیادہ نکاح کرنا دنیا داری یعنی معاملات دنیا سے نہیں اس کی دلیل میں حضرت فرماتے ہیں کہ حضرت علیؓ اس امت کے زاہد ترین انسان تھے مگر ایک وقت آیا کہ ان کی چار بیویاں تھیں اور دس خاص قسم کی باند یاں تھیں گویا اگر نکاح دنیاوی معا ملہ ہوتا حضرت سیدنا علیؓ اس سے کو سوں دور ہوتے کیونکہ آپؓ زاہد ترین انسان تھے۔سیدناصدیق اکبرؓ کی چار بیویاں تھیں، سیدنا فاروق اعظمؓ کی یکے بعد دیگرے آٹھ بیویاں تھیں ، سیدنا عثمانؓ ذی النورین کی یکے بعد دیگرے آٹھ بیویاں تھیں الغرض نکاح عبادت ہے نہ کہ عادت وشہوت پرستی۔
عظیم آباد میں ایک عورت بہت چھوٹی عمر میں بیوہ ہوگی اس نے ہمیشہ روزہ رکھا اور ہر وقت عبادت مشغول رہتی صحیح معنوں میں قائم اللیل اور صائم النہار بن گی روزہ افطار کے وقت سوکھی روٹی یاگیہوں کا چوکر بھگو کر کھانا کھایا۔شب وروز تلاوت واذکار میں مشغول رہتی سینکڑوں عورتیں اس کی سچی پارسائی کو دیکھ کر اس کی مرید ہو گئیں مرتے وقت اس نے سب کو بلایا اور سوال کیا کہ میں نے کیسی پارسائی اور عزت وحرمت سے اپنی زندگی کاٹی؟ سب نے جواب دیا بہت مشکل بلکہ ناممکن تھا کہ کبھی مرد کا منہ تک نہ دیکھا ساری عمر روزہ رکھا سوکھی چوکر کھا کر گزارہ کیا اور شب وروز تلاوت واذکار میں مشغول رہیں تو وہ پارسا عورت بولی اب میرے دل کا حال سنو، کہ جوانی سے بڑھاپے تک رات کو قرآن پاک کی تلاوت کرتے وقت کبھی میرے کان میں چوکیدار کی آواز آتی تو دل یہی چاہتا کہ کسی طرح اس کے پاس چلی جاؤں لیکن خدا کے خوف اور دنیا کی شرم سے بچتی رہی اب میرا آخری وقت ہے میں سب کو نصیحت کرتی ہوں کہ کبھی کسی بیوہ کو بے نکاح نہ رکھنا۔
اس واقعہ سے سید نا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کے اس قول کی تصریح ہوگی کہ نکاح کے بغیر عابد کی عبادت مکمل نہیں ہو تی بعض لوگ گمان کرتے ہیں کہ شادی عبادات میں مخل ہوتی ہے تو یہ سراسر غلط فہمی ہے۔ ایک بزرگ فرماتے ہیں کہ ایک عیالدار آدمی کو مجرد پر وہ فضیلت حاصل ہے جو ایک مجاہد کو قاعد پر ہے۔
علما٫دیوبند نے نہ صرف ہر مسئلہ کو سمجھایاہے بلکہ عمل کر کے امت کے لیے راہ کھول دی ہے ان مسائل کی جن کو لوگ معیوب سمجھتے ہیں۔ حجۃ الاسلام حضرت مولانا قاسم نانوتوی﷫ کے دور میں نکاح بیوگان کو نہایت معیوب سمجھا جاتا تھا کیونکہ ہندؤں کے ہاں بیوہ کو ستی کرنے کا عام رواج تھا کہ جس طرح وہ بیوہ کو منحوس تصور کرتے اسی طرح مسلمان بیوہ کو خوشحال زندگی سے محروم سمجھتے اور اسے ساری عمر اہل خانہ کے لیے بوجھ سمجھتے۔ اس سلسلے میں حضرت نانوتوی نے عملا نکاح بیوگان کا اجرا٫ فرمایا۔ ایک دفعہ آپ کی خالہ تشریف لائیں اور کہا کہ میرے لڑکے عبداللہ کو کوئی لڑکی نہیں دیتا کیونکہ آپ نے میرا نکاح ثانی کیا تھا اور نکاح ثانی کی اولاد سے لوگ شادی کرنا عیب سمجھتے ہیں۔ حضرت نے فرمایا کہ اس کو میں اپنی بیٹی دوں گا۔اس کے بعد حضرت گنگوہی کو گنگوہ سے بلالیا۔ جمعہ کے دن مئوذن سے فرمایا کہ لوگوں کو کہہ دو آج وعظ ہو گا۔ خود جمعہ سے پہلے حویلی تشریف لے گے جس لڑکی کی شادی کرنا چاہتے تھے اس کو بخار تھا مولانا کی یہ پہلی اولاد تھی بخار ہی کی حالت میں صاحبزادی سے اجازت لی اور نکاح کر کے انہی کپڑوں میں رخصت فرمایا دیا جس میں وہ ملبوس تھی۔