صنفِ نازک کالہجہ کیسا ہو

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
صنفِ نازک کالہجہ کیسا ہو؟؟
سید عماد الدین
اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ارشاد فرمایا:
يٰنِسَاءَ النَّبِيِّ لَسْتُنَّ كَاَحَدٍ مِّنَ النِّسَاءِ اِنِ اتَّقَيْتُنَّ فَلَا تَخْضَعْنَ بِالْقَوْلِ فَيَطْمَعَ الَّذِيْ فِيْ قَلْبِهٖ مَرَضٌ وَّقُلْنَ قَوْلًا مَّعْرُوْفًا
اللہ پاک نے فرمایا : سو کسی سے لچک دار لہجہ میں بات نہ کرنا کہ جس کے دل میں بیماری ہو وہ کوئی غلط امید لگا بیٹھے اور دستور کے مطابق بات کرنا (الاحزاب : ٣٢(
اللہ تعالیٰ نے ازواج مطہرات کو یہ حکم دیا ہے کہ وہ اجنبی مردوں کے ساتھ بہ وقت ضرورت سخت اور کھر لہجے میں بات کریں‘ نرم اور لچک دار لہجہ میں بات نہ کریں جیسے آوارہ عورتیں اجنبی مردوں سے باتیں کرتی ہیں اور جس سے فساق کے دلوں میں نفسانی خواہشات بیدار ہوتی ہیں۔
(جب یہ حکم ازواج النبی ﷺ،امہات المؤمنین،تمام زمانہ کی عورتوں سے پاک،شریف النفس،شرم حیاء کی سر سے پا تک پیکر ہستیوں کو یہ حکم ہے تو آج کی عورتوں کو بار بار بلکہ لاکھ بار سوچنا چاہیے جو ذہ بھی خیال نہیں کرتیں اور ان کو بھی جو کہتی ہیں پردہ دل کا ہونا چاہیےتو کیا ان پاک ہستیوں سے بھی زیادہ پاک دل ان آج کی مغرب پرست مسلم عورتوں کے ہیں ذرہ ہوش کے ناخن لو مرنا بھی ہے آپ نے(
جس طرح عورت کے وجود کے اندر مرد کے لئے جنسی کشش رکھی ہے اسی طرح عورتوں کی آواز میں بھی فطری طور پر دلکشی ، نرمی اور نزاکت ہے، جو مرد کو اپنی طرف کھنچتی ہے۔ لہٰذا اس آواز کے لئے بھی یہ ہدایت دی گئی کہ اجنبی مردوں سے گفتگو کرتے وقت قصداً ایسا لب و لہجہ اختیار کرو کہ نرمی اور لطافت کی جگہ قدرے سختی اور روکھا پن ہوتا کہ کوئی بدباطن لہجے کی نرمی سے تمہاری طرف مائل نہ ہو اور اس کے دل میں کوئی برا خیال پیدا نہ ہو۔
اجنبی مرد سے نزاکت اور نرمی سے گفتگو کرنے کے بجائے قدرے روکھا پن اختیار کریں چنانچہ ام المومنین اس آیت کے نزول کے بعد غیر مرد سے کلام کرتے وقت منہ پر ہاتھ رکھ لیتیں تاکہ آواز بدل جائے ، آگے اِن اتَّقَیْتُنَّ فرما کر اشارہ کردیا کہ یہ ہدایت اور دیگر ہدایات جو آگے آرہی ہیں متقی عورتوں کے لئے ہیں۔
ہمارے زمانہ میں خواتین کا مردوں کے ساتھ عام اور آزادانہ میل جول ہے‘ یونیورسٹی میں مخلوط تعلیم کا رواج ہے اور شرعی حدود و قیود کے بغیر عورتیں مردوں کے دوش بدوش مختلف اداروں میں آزادی کے ساتھ کام کرتی ہیں،اسلام کا حکم یہ ہے کہ شرعی ضرورت کے بغیر خواتین اجنبی مردوں سے باتیں نہ کریں خصوصاً نرم و نازک لہجہ میں‘ قرآن مجید میں ہے :
ولایضربن بارجلھن لیعلم ما یخفین من زینتھن۔
(سورۃ النور : ٣١)
اور عورتیں اپنے پاؤں زمین پر مارتی ہوئی نہ چلا کریں تاکہ لوگوں کو ان کی چھپی ہوئی زینت کا علم ہوجائے۔
علامہ ابو کبر احمد بن علی رازی جصاص حنفی متوفی ٣٧٠ ھ اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں :اس آیت میں یہ دلیل ہے کہ عورت کو اتنی بلند آواز کے ساتھ کلام کرنے سے منع کیا گیا ہے جس کو اجنبی مرد سن لیں‘ کیونکہ پازیب کی آواز سے اس کی اپنی آواز زیادہ فتنہ انگیز ہے‘اسی وجہ سے ہمارے فقہاء نے عورت کی اذان کو مکروہ قرار دیا ہے۔ کیونکہ اذان میں آواز بلند کرنی پڑتی ہے اور عورت کو آواز بلند کرنے سے منع کیا گیا ہے۔
)احکام القرآن ج ٣ ص ٣١٩‘ مطبوعہ سہیل اکیڈمی لاہور‘ ١٤٠٠ ھ(
حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ( نماز میں امام کو متنبہ کرنے کے لیے) مرد سبحان اللہ کہیں اور عورتیں اپنے ہاتھ پر ہاتھ ماریں۔
)صحیح البخاری رقم الحدیث : ١٢٠٤(
علامہ بدر الدین عینی حنفی متوفی ٨٥٥ ھ اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں :
شارع (علیہ السلام) نے عورت کے سبحان اللہ کہنے کو اس لیے مکروہ قرار دیا ہے کہ اس کی آواز فتنہ ہے اسی لیے اس کو اذان‘ امامت اور نماز میں بلند آواز کے ساتھ قرآن مجید پڑھنے سے منع کیا جاتا ہے۔
)عمدۃ القاری ج ٧ ص ٢٧٩‘ مطبوعہ ادارۃ الطباعۃ المنیر یہ‘ ١٣٤٨ ھ(
خلاصہ یہ ہے کہ قرآن مجید میں عورت کو زمین پر پیر مارنے سے منع کیا ہے تاکہ اس کی پازیب کی آواز اجنبی مردوں کو نہ سنائی دے۔
اور حدیث میں عورت کو نماز میں سبحان اللہ کہنے کے بجائے تالی بجانے کا حکم دیا ہے‘ کیونکہ عورت کا آواز بلند کرنا ممنوع ہے۔
فقہاء احناف کے نزدیک عورت کی آواز عورت ہے اور جس طرح ماسوا ضرورت کے وہ اجنبیوں پر چہرہ ظاہر نہیں کرسکتی اسی طرح وہ بغیر ضرورت کے اجنبی مردوں پر اپنی آواز کو بھی ظاہر نہیں کرسکتی۔
اور اسی طرح فقہاء مالکیہ‘ فقہاء حنبلیہ اور فقہاء شافعیہ کے نزدیک بھی عورت کا آواز بلند کرنا ممنوع ہے اور پست اور کرخت آواز کے ساتھ وہ بہ وقت ضرورت اجنبی مردوں سے کلام کرسکتی ہے۔
اللہ تعالیٰ عمل کی توفیق سے نوازیں۔ آمین