پیغمبر اسلام کے کریمانہ اخلاق

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
پیغمبر اسلام کے کریمانہ اخلاق
تنویر اعوان ، اسلام آباد
امام غزالی ؒ نےاخلاق کی تعریف یوں فرمائی کہ اخلاق نفس کی اس راسخ کیفیت کا نام ہے جس کے باعث اعمال بڑی سہولت سے صادر ہوتے ہیں ان کے کرنے کے لیے سوچ و بچار کے تکلف کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی۔
(احیاء العلوم )
گویا اخلاق کا اطلاق انہی خصائل و عادات پر ہو گا جو پختہ ہوں ،جن کی جڑیں قلب و روح میں گہری ہو چکی ہوں۔
اسلام میں ہمیشہ اخلاق حسنہ کی تعلیم اور حوصلہ فزائی کی گئی ہے، رسول اللہ ﷺ کی زندگی اور اخلاق کریمانہ کو انسانیت کے لیے بہترین نمونہ قرار دے کر آئیڈیل کے طور پر پیش کیا گیا ،پیغمبر اسلام ﷺ نے اپنی بعثت کا مقصد ان الفاظ میں بیان فرمایا بعثت لاتمم مکارم الاخلاق،مجھے اخلاقی خوبیوں کوکمال تک پہنچانے کے لیے بھیجا گیا ہے۔
(مسنداحمد)
قرآن پاک میں نبی کریم ﷺ کی طرز زندگی کوبہترین نمونہ قرار دیا گیا ہے،اور آپ کے اخلاق وکردار کے بارے میں ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ کا قول ہے کان خلقہ القرآن ،گویا آپ کے اخلاق قرآنی اخلاق تھے،جن باتوں کااللہ تعالیٰ نےقرآن پاک میں کرنے کا حکم دیا ،آپ نے کرکے دیکھایا،اور جن باتوں سے اللہ تعالیٰ نے منع فرمایا ہے حضورﷺ نے خود بھی اس سے اجتناب کیا اور امت کو بھی اس سے بچنے کا حکم دیا۔ آپ ﷺ کے اوصاف حمیدہ میں نمایاں صدق ووفا،حلم و بردباری،قوت برداشت،قدرت پاکر درگزر کرنا،مصائب پرصبرکرنا،جود وسخا،امانت و دیانت،سچائی اور راست بازی،شجاعت و بہادری،خوش اخلاقی ،صلح جوئی ،توکل ، راست بازی ،مہمان نوازی ،میانہ روی ،حیوانوں پر رحم ،غرباء کی اعانت ،اکل حلال ، حیاء وپاکدامنی ،عاجزی و انکساری ،عدل و انصاف اوردوسروں کی فلاح و کامیابی کے لیے ہمہ وقت بے چین رہناتھا۔
جب حضرت محمد ﷺ کو نبوت ملی اور پہلی وحی نازل ہوئی ، نبوت کے بار گراں سے آپ کی طبیعت مبارکہ میں بے چینی کی کیفیت پیدا ہوئی ،گھر پہنچے ،حضرت ام المؤمنین حضرت خدیجہ کو سارا واقعہ سنایا ،آپ نے اپنے شوہر اور رسول خدا ﷺ کو جن الفاظ میں تسلی دی یقیناً وہ نبی کریم ﷺ کی نبوت سے قبل کی زندگی کی مکمل عکاسی کرتے ہیں،انہوں نے فرمایاآپ غم نہ کھائیں اللہ آپ کو ضائع نہیں کرے گا،بلکہ آپ کو سرفراز کر ے گا،کیونکہ آپ قرابت داروں سے حسن سلوک کرتے ہیں،سچ بولتے ہیں ،غرباء و مساکین کی دستگیری فرماتے ہیں ،مہمان نوازی کرتے ہیں،گرے پڑے لوگوں کی مدد کرتے ہیں،امانت دار ،خوش خصال ،نیک فطرت اور بلند حوصلہ ہیں۔
(صحیح بخاری(
قبل از نبوت آپ ﷺ کا مکہ کے معاشرے میں صادق و امین کے لقب سے پکارے جاتے تھے،آپ ﷺ ہمیشہ راست گو اور سچی گفتگو فرماتے تھے،کفار نے آپ ﷺ کو مجنون ،شاعر ،جادو گر اور ساحر تک کہا لیکن کبھی کسی نے آپ پر جھوٹ کی تہمت نہیں لگائی۔ رحمت للعالمین ﷺ نے اپنے عمل سے سچائی اور حق گوئی کے وہ اعلیٰ وارفع نمونے پیش کئے جو کئی کفار کے قبول اسلام کا ذریعہ بنے۔مشہوریہودی عالم عبداللہ بن سلام نے جب چہرہ انور کی زیارت کی ،بے ساختہ پکار اٹھا،خدا کی قسم ! یہ کسی جھوٹے کا چہرہ نہیں ہو سکتا اور فوراً مشرف بااسلام ہو گیا۔
بعثت نبویﷺ سے قبل دنیا میں "احترام انسانیت " زیادہ مفقود شے تھی،انسان کی جان سے کھیلنا سب سے آسان کام سمجھا جاتا تھا،عدل وانصاف، رواداری اور بھائی چارہ کی جگہ قومی اور قبائلی عصبیت،ظلم و جبراور لاقانونیت کا دور دورا تھا۔بچیوں کا باعث عار سمجھا جاتا تھا اور انہیں اپنے ہی ہاتھوں زندہ درگور کر دیا جاتا تھا۔رسول اللہ ﷺ نے اپنے کردار سے منتشر اور بدتہذیب انسانوں کو "احترام انسانیت "کا سبق پڑھایا،خطبہ حجۃ الوداع کے موقع پر آپ ﷺ نے اعلان فرمایا "لوگو!تمھارا پروردگار ایک ہے اورتمھاراباپ بھی ایک ہے،تم سب آدم علیہ السلام کی اولاد ہو اور آدم مٹی سے بنے تھے،کسی عرب کو کسی عجمی پر ،اور کسی عجمی کو کسی عرب پر،کسی گورے کو کسی کالے پر اور کسی کالے کو کسی گورے پر فضیلت نہیں ،بجز تقویٰ کے۔تم میں سب سے زیادہ عزت وکرامت والا اللہ کے نزدیک وہی ہے جو اللہ سے ڈرنے والا ہے۔ "آپ ﷺ نے یہ اعلان فرماکر نسلی امتیاز کو ہمیشہ کے لیے ختم فرمایا"اللہ نے جاہلیت کا غرور اور باپوں پر فخر کا دعویٰ باطل کر دیا ،تم سب آدم کی اولاد ہو اور آدم مٹی سے بنے ہیں۔
(سیرت النبی ﷺ(
عدم برداشت اور رواداری سے عاری معاشرے میں نبی کریمﷺ نے اپنے کریمانہ کردار وتعلیمات سے ایسی زریں روایات قائم کی کیں جو انسانیت کی معراج کہلائیں۔مکی دور زندگی مشرکین مکہ نے آپﷺ اور صحابہ کرام پر اذیتوں ، مصائب،ظلم و ستم کی انتہا کی،شعب ابی طالب میں تین سال کی اسیری اور پھر مکہ کی مقدس اور آبائی سرزمین سے آپ کو ہجرت کرنے پر مجبور کردیا ،مگر 8ہجری میں فتح مکہ کے موقع پر،جب تم ترقوت واختیارات سمٹ کرآپﷺ کے قدموں میں ڈھیر ہو چکے تھے ،اہل مکہ اور اسلام دشمن اپنے انجام کے منتظر تھے ،کہ آپ نے یہ فرماکر سب کو معاف کر دیا ،آج میں تم سے وہی بات کہتا ہوں جو میرے بھائی حضرت یو سف علیہ السلام نے اپنے بھائیوں سے کہی تھی"آج تم پر کوئی باز پرس نہیں ،اللہ تمہیں معاف فرمائے،وہ سب سے بڑھ کر رحم کرنے والا ہے۔"جاؤ تم سب آزاد ہو۔
(سیرۃ النبیﷺ(
صحابہ کرام کے گشتی دستہ نےیمامہ کے رئیس اور بنوحنیفہ کے ایک بااثر سردار ثمامہ بن اثال کو گرفتار کرکے لایا ،آپ ﷺ نے اس قید میں رکھنے اور اچھا سلوک کرنے کا حکم دیا،اس دن عشاء کی نماز کے بعد رسول اللہ ﷺتشریف لائے اور اس سے پوچھا ،کہو ثمامہ اب کیا ارادہ ہے؟(اسلام دشمنی ترک کرو گے یا نہیں؟)ثمامہ نے جواب دیا "اے محمد! اگر مجھے قتل کروانا چاہو تو میں واقعی واجب القتل ہوں، اگر مجھے رہا کرو گے تو مجھے احسان شناس اور شکر گزار پاؤ گے،اگر فدیہ لینا چاہو تو جو رقم مانگو گے پیش کر دوں گا۔"آپ ﷺ نے اس کے ساتھ حسن سلوک کا معاملہ کیا اور تین دن بعد رہا کر دیا، ثمامہ آپ ﷺ کی کریمانہ اخلاق سے اتنا متاثر ہو ا کہ حلقہ اسلام میں داخل ہوا اورآپ ﷺ سے عرض کرنے لگا کہ"کچھ دیر تک کوئی آدمی میرے نزدیک آپ سے بڑھ کر مبغوض نہ تھا ،نہ آپ کے دین اور شہر سے زیادہ برا کوئی دین اورشہر تھا۔اب آپ ﷺ سے بڑھ کر مجھے کوئی محبوب نہیں ،اور آپ کے شہر اور دین سے پیارا کوئی دین اور شہر نہیں ہے"۔
(صحیح بخاری(
پیغمبر اسلام ﷺ کے کریمانہ اخلاق بھٹکے ہوئے انسانوں کے لیے روشن چراغ کی مانند ہیں ،آپﷺ کی سیرت ساری انسانیت کے لیے رحمت ہے،انسانیت نے حقوق و فرائض،تہذیب و تمدن اور انس و محبت کے اصول کا کسب آپ ﷺ ہی کی تعلیمات و سیرت سے کیا، مگر آج کے مسلم معاشرے نے عملاً رسول اللہ کی تعلیمات سے دوری اختیار کی ہوئی ہے،ہمارا کردار تعلیمات نبویﷺ سے یکسر مختلف ہوتا جا رہا ہے،غیر اسلامی تہذیب اورشخصیات ہمارا آئیڈیل بنتی جا رہی ہیں،جس کا نتیجہ ذلت،محکومی اور عدم استحکام کی صورت میں ظاہر ہوتا ہم دیکھ رہے ہیں۔