خواتین سے حسن سلوک کے اسلامی احکام

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
خواتین سے حسن سلوک کے اسلامی احکام
ڈاکٹر محمد حسین
اسلامی معاشرے میں عورت کی چار حیثیتیں ہیں۔وہ کسی کی بیٹی ہے، کسی کی بہن ہے، کسی کی بیوی اور کسی کی ماں ہے۔اسلام نے ان چاروں حیثیتوں میں اس کی عزت و احترام کی تلقین و تاکید کی ہے۔ بہ حیثیت بیوی کے اس کے لئے جو تعلیم دی گئی ہے، وہ حسب ذیل آیت و حدیث سے واضح ہے۔اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
ومن ایتہ ان خلق لکم من انفسکم ازوجا لتسکنوا الیھا وجعل بینکم مودۃ ورحمۃ۔
ترجمہ:اور اس کی نشانیوں میں سے ہے کہ اس نے تمہارے لئے تم ہی میں سے جوڑے پیدا کئے تاکہ تم ان سے سکون حاصل کرو اور اس نے تمہارے درمیان مودت و رحمت پیدا فرمادی۔
(الروم:21(
اس آیت کریمہ میں ایک تو عورت کو مرد کے لئے وجہ تسکین بتلایا، جس سے اس کی اہمیت و عظمت واضح ہے۔ دوسرے، دونوں صنفوں کے تعلق کی نوعیت کو واضح کیا ان کے درمیان اختلاف اور تناؤ کی بجائے الفت و محبت اور شفقت و رحمت کا رشتہ قائم رہنا چاہئے۔
ایک دوسرے مقام پر عورت کے ساتھ حسن سلوک کی تاکید اس طرح کی:
وعاشروھن بالمعروف فان کرھتموھن فعسی ان تکرھوا شیئا ویجعل اللہ فیہ خیرا کثیرا۔
ترجمہ:عورتوں کے ساتھ اچھا برتاؤ کرو، اگر وہ تمہیں ناپسند ہوں (تو بھی ان سے نباہ کرو) جس کو تم ناپسند کرتے ہو، اس میں اللہ تعالیٰ ضرور خیر کثیر پیدا فرمادے۔
(سورۃ النساء: 19(
مرد و عورتوں کے حقوق میں کمی پیشی نہیں رکھی گئی بلکہ دونوں کو مساویانہ حقوق دیے گئے، ایک مقام پر عورت کے حقوق کا قرآن نے ان الفاظ میں تذکرہ فرمایا:
ولھن مثل الذی علیھن بالمعروف۔
ترجمہ:ان عورتوں کے لئے مردوں پر معروف کے مطابق وہی حقوق ہیں جو عورتوں پر مردوں کے لئے عائد ہوتے ہیں۔
(البقرۃ: 228(
حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کو حقوق نسوان کا نہ صرف درس عنایت فرمایا بلکہ ان کی اہمیت اس طرح اُجاگر فرمائی کہ عورتوں سے حسن سلوک کرنے کو حسن اخلاق کا نام دیااور بڑی تاکید فرمائی ہے،ارشاد فرمایا:
ان من اکمل المومنین ایمانا احسنھم خلقا والطافھم باھلہ۔
ترجمہ:کامل ترین مومن وہ ہے جو اخلاق میں سب سے بہتر اور اپنے بیوی بچوں پر سب سے زیادہ مہربان ہو۔
(جامع الترمذی، الایمان، باب فی استکمال الایمان والزیادۃ والنقصان (
اور ارشاد فرمایا:خیرکم خیرکم لاھلہ وانا خیرکم لاھلی۔
ترجمہ: تم میں سب سے بہتر وہ ہے، جو اپنی بیوی کے حق میں سب سے بہتر ہے اور میں اپنے گھر والوں کے لئے سب سے بہتر ہوں۔
(سنن ابن ماجہ،کتاب النکاح، باب حسن معاشرۃ النساء، حدیث نمبر:1977(
ایک روایت میں بیان فرمایا::تم میں سب سے بہتر وہ ہے جو اپنی عورتوں کے حق میں بہتر ہے۔
(سنن ابن ماجہ، النکاح، باب حسن معاشرۃ النساء، حدیث نمبر:1978(
حجۃ الوداع کے موقع پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جو اہم باتیں اپنی امت کو ارشاد فرمائیں، ان میں ایک یہ بھی ہے :عورتوں کے ساتھ اچھا سلوک کرنا۔
(سنن ابن ماجہ، النکاح، باب حق المرأۃ علی الزوج، حدیث نمبر:1851(
ایک موقع پر کچھ عورتوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوکر اپنے خاوندوں کی شکایتیں کیں تو آپ نے ایسے مردوں کی بابت فرمایا:ان لوگوں کو تم اپنے میں بہتر نہیں پاؤ گے۔
(سنن ابن ماجہ، کتاب النکاح، باب ضرب النساء، حدیث نمبر:1985(
مرد حضرات کو عورتوں سے حسن سلوک کی تعلیم دی گئی تو ساتھ ہی ساتھ عورتوں کو بھی مردوں کے ساتھ خیر بن کر رہنے کا حکم دیا گیا۔
حدیث شریف میں نیک عورت کو بہترین متاع قرار دیا گیا ہے:
خیر متاع الدنیا المرأۃ الصالحۃ۔
(صحیح مسلم، النکاح، باب خیر متاع الدنیا المرأۃ الصالحۃ، حدیث نمبر:1469(
ماں کی حیثیت سے اسلام میں عورت کا مقام بہت اونچا ہے۔
عورت کو ماں کی حیثیت سے بھی اک بلند مقام دیا گیا جس کا تصور دیگر کسی قانون یا معاشرہ میں نہیں پایا جاتا،اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ہم نے انسان کو اس کے والدین کے بارے میں حسن سلوک کی بڑی تاکید کی ہے۔ اس کی ماں نے کمزوری پر کمزوری برداشت کرتے ہوئے حمل کی مدت پوری کی اور اس کا دودھ چھڑانا دو سال میں ہے تاکہ وہ میرا اور اپنے والدین کا شکر اداکرے۔
( لقمان:14(
دوسری جگہ فرمایا: ہم نے انسان کو والدین کے ساتھ حسن سلوک کی تاکید کی ہے، اس کی ماں نے اسے مشقت کے ساتھ حمل میں رکھا اور مشقت و تکلیف کے ساتھ اس کو جنا۔
(الاحقاف:15(
ان دونوں آیات میں اگرچہ والدین کے ساتھ حسن سلوک کا حکم اور اس کی تاکید کی گئی ہے، لیکن ماں کا ذکر جس انداز میں ہوا ہے اور حمل و ولادت کی تکلیف کا بطور خاص جس طرح ذکر کیا گیا ہے، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ماں کا حق باپ سے کئی گنا زیادہ ہے اور حدیث سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے، چنانچہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک شخص حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور پوچھا: میرے حسن سلوک کا سب سے زیادہ حق دار کون ہے؟ آپ نے فرمایا: تمہاری ماں۔ انہوں نے پوچھا: پھر کون؟ آپ نے فرمایا: تمہاری ماں۔ انہوں نے پھر پوچھا: پھر کون؟ آپ نے فرمایا: تمہاری ماں۔ انہوں نے کہا، پھر کون؟ آپ نے جواب فرمایا: پھر تمہارے والد۔
(صحیح البخاری(
اس حدیث میں تین مرتبہ ماں کے ساتھ حسن سلوک کرنے کی تاکید فرمانے کے بعد چوتھی مرتبہ باپ کے ساتھ حسن سلوک کا حکم دیا گیا ہے۔
اس کی وجہ علماء نے یہ بتائی ہے کہ تین تکلیفیں ایسی ہیں جو صرف ماں برداشت کرتی ہے، بچے کے باپ کا اس میں حصہ نہیں۔ایک حمل کی تکلیف، جو نومہینے عورت برداشت کرتی ہے۔دوسری وضع ِحمل(زچگی)کی تکلیف، جو عورت کے لئے موت و حیات کی کشمکش کا ایک جاں گسل مرحلہ ہوتا ہے۔تیسری رضاعت (دودھ پلانے)کی تکلیف، جو دو سال تک محیط ہے۔
بچے کی شیرخوارگی کا یہ زمانہ ایسا ہوتا ہے کہ ماں راتوں کو جاگ کر بھی بچے کی حفاظت و نگہداشت کا مشکل فریضہ سر انجام دیتی ہے۔ اس دوران بچہ بول کر نہ اپنی ضرورت بتلاسکتا ہے، نہ اپنی کسی تکلیف کا اظہار ہی کرسکتا ہے۔ صرف ماں کی ممتا اور اس کی بے پناہ شفقت اور پیار ہی اس کا واحد سہارا ہوتا ہے۔ عورت یہ تکلیف بھی ہنسی خوشی برداشت کرتی ہے۔یہ تین مواقع ایسے ہیں کہ صرف عورت ہی اس میں اپنا عظیم کردار ادا کرتی ہے اور مرد کا اس میں حصہ نہیں۔
انہی تکالیف کا احساس کرتے ہوئے شریعت نے باپ کے مقابلے میں ماں کے ساتھ حسن سلوک کی زیادہ تاکید کی ہے۔