محسن انسانیت صلی اللہ علیہ وسلم

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
محسن انسانیت صلی اللہ علیہ وسلم !!
محمد عبداللہ
کائنات کا ذرہ ذرہ خدا کے ہو نے کا شدت سے احساس دلا تا ہے اور اگر آپ دھرتی پر موجود اربوں انسانوں کا مطالعہ کریں تو ہر انسان میں کو ئی نہ کو ئی ایسی خو بی چھپی ہو تی ہے جو خالقِ عظیم کے وجود کا احساس دلا تی ہے۔
انسانوں کی رشد و ہدایت کے لیے ہر دور میں خدا ئے بزرگ و برتر نے اپنے ہدایت یا فتہ پیغمبروں کو بھیجا جنہوں نے اپنے اپنے دور میں اپنی ڈیوٹی کو نبھا یا اور خا لقِ حقیقی سے جا ملے اور پھر تا ریخ انسانی کے سب سے بڑے انسان نے حضرت آمنہ رضی اللہ عنہا کے گھر جنم لیا۔
ایک نیا انقلاب نیا جہاں طلوع ہوا آمنہ کا لعل ﷺ اِس شان سے چمکا کہ آپ ﷺ کے اِس جہان فانی و خاکی میں قدم رکھتے ہی تا ریخ انسانی کے نئے دور کا آغاز ہوا آپ ﷺ کے دنیا میں آتے ہی حیاتِ انسانی پر شباب آگیا ہزاروں سالوں سے دیکھے جا نے والے خواب کو تعبیر مل گئی۔
آپ ﷺ کے آنے کے بعد ہی شرف ِ انسانی کو حقیقی اندازہ ہوا ، ا ورنہ ہی اِس سے پہلے انسانوں کو دوسری چیزوں کی شان و شوکت کا احساس تھا۔
لیکن وہ اپنی حرمت اور مقام کو نہیں جا نتا تھا انسان خو د کیا تھا، یہ جہالت کے اندھیروں میں غرق ہو چکا تھا وہ ہر چمک دار طاقت ور چیز سے متا ثر ہو کر اُس کو اپنا معبود بنا لیتا چاند ستاروں سورج کو دیکھتا تو اِن میں خدا کو ڈھونڈتا، پہا ڑوں کی بلندی اور غاروں کی گہرائی سے متا ثر ہو جا تا۔
حکمرانوں، با دشاہوں، مہا راجوں، نوابوں ، سرداروں ، سپہ سالاروں اور رہبانوں سے متاثر ہو کر انہیں خدا کا اوتار مان لیتا نسل در نسل انسان اپنے آپ کو اِس حدتک فراموش کر چکا تھا کہ ہر طاقتور کے سامنے جھک جا تا، خو ف اور کمزوری اُس کی جبلت کا حصہ بن چکی تھی انسان کو اپنی شان، وسعت ، صلاحیتوں کا بالکل بھی ادراک نہیں تھا اِسی خوف کے تحت جن بھوتوں کو سجدے کرتا اپنی خو دی شان وقار اور صلاحیتوں سے بے خبر تو ہم پرستی کا شکا ر تھا۔
انسانیت،قربانی، ایثار، اخوت ،محبت ، خدمت خلق اور پیار اِن چیزوں سے بے خبر تھی جا نوروں کی سی زندگی گزار رہا تھا اور پھر پیا رے نبی کریم ﷺ نے آکر بتا یا اے انسان تیری حرمت بہت زیادہ ہے تجھے خدا نے اپنی امانت سونپی ہے تجھے خیر و شر نیکی بدی ارادہ و اختیار کی خو بی عطا کی گئی ہے تو خود کو ذرہ سمجھتا ہے جبکہ خدا نے تیرے اندر صحراؤں کی وسعت رکھ دی ہے تو خود کو چھوٹا سا راز سمجھتا ہے۔
جبکہ خدا نے تیرے با طن میں جہاں آباد کر دیا ہے اور پھر محسنِ انسانیت ﷺ کی ہی تعلیم اور خو د آگہی کا نتیجہ تھا کہ وہ انسان جو اپنے ہی خو فوں کا اسیر تھا سمٹا ہوا تھا پھر اُسی انسان کی ہیبت سے پہا ڑ بھی سمٹ کر رائی کا روپ دھا رنے لگے۔
یہ وہی انسان تھا جو آگ ،سورج ،چاند ،ستا روں، انسانوں، مو رتیوں، بھو ت پریتوں اور تو ہم پرستی کے چنگل میں بُری طرح پھنسا ہوا تھا اب صحراو دریا اُس کے پاؤں کی نو ک پر تھے یہ آپ ﷺ ہی کا فیضا ن تھا۔
آپ ﷺ کے آنے سے پہلے یو نان کے فلا سفروں کے فلسفے بھی اپنی موت مر چکے تھے بلکہ اُن کی تعلیما ت نے روشنی کی بجا ئے اندھیروں کو اور بھی تا ریک کر دیا تھا دنیا جہالت غربت ظلم کے طوفانوں کی زد میں تھی بلکہ تا ریک غاروں میں گم ہو چکی تھی اور پھر یہ دنیا اگر منور و معطر ہو ئی تو غارِ حرا کے گو شے سے طلوع ہو نے والے آمنہ رضی اللہ عنہا کے چاند ﷺ سے ہوئی۔
انسان اپنی پہچان کھو چکا تھا اگر کسی نے آکر انسان کو اُس کا شعور اور مقام بتا یا تو آمنہ رضی اللہ عنہا کے لعل ﷺ نے ، ظلم و جہالت میں غرق دنیا کو پنا ہ ملی تو آقائے دو جہاں ﷺ سے، شاہی قبا و عبا انسانوں کے لیے وبا بن چکی تھی اور وہ کا لی کملی ﷺ تھی جو گرفتاران بلا کے لیے نسخہ شفا بنی نام نہاد عادل حکمرانوں اور وسیع و عریض سلطنتوں کے مالک با دشاہوں کی سلطنتیں اُن کے با شندوں کے لیے آ ہنی شکنجے بن چکی تھیں۔
جبکہ یتیم مکہ کی چھوٹی سی کو ٹھری کر ہ ارض کے مظلوموں کے لیے اپنے اندر افلاکی وسعتیں رکھتی تھی ظلم و بربریت کی چکی میں صدیوں سے پستے ہو ئے غلام حبش سے آنے والے، روم سے آنے والے ،فارس سے آنے والے ،نجد سے آنے والے گو شہ عافیت کی تلاش میں آقا ﷺ کی آغوش ِ رحمت میں آتے گئے سما تے گئے ارقم کے چھوٹے سے گھر میں بحر و بر سمٹ گئے آپ ﷺ کیا آئے کہ بے آسروں یتیموں مسکینوں کو آسمان مل گیا آپ ﷺ جیسا نہ کو ئی تھا نہ ہے نہ آئے گا۔
دنیا بھر کے تمام اہل قلم محقق تا ریخ دان اپنی مر ضی کے پیمانے اور میزان لے آئیں اور پھر محسنِ انسانیت ﷺ کی زندگی کا ہر لمحہ غور سے نا پیں تو لیں کڑے سے کڑا امتحان لیں۔
آقا ئے دو جہاں ﷺ کی زندگی کا ہر لمحہ ہر پہلو ہر دور ہر رشتہ ہر زاوئیے سے چیک کر لیں تو مخالف سے مخالف بھی آپ ﷺ کی خو بیوں اور کر دار کی بلندی دیکھ کر پکار اُٹھے گا۔
اہل یو رپ اور منکرین رسالت کو ہما ری طرف سے کو ئی قید نہیں کہ وہ صرف عہدِ رسالت کا ہی جا ئزہ لیں نہ ہی یہ پا بندی ہے کہ وہ آپ ﷺ کی عملی زندگی پہ گفتگو نہ کر یں اور نہ ہی یہ شرط ہے کہ مخالفین عہد نبوت سے پہلے دور کو نہ چیک کریں نہ ہی ہم یہ کہیں گے کہ آپ ﷺ کی مذہبی زندگی جنگوں میں قیا دت سیا سی زندگی عام انسانوں سے سلوک ہم دعوی کر تے ہیں بلکہ چیلنج کر تے ہیں۔
حضرت حلیمہ سعدیہ ؓ کے آنگن میں ننھے محمد ﷺ کی پرورش اور حلیمہ سعدیہ ؓ کی بکریاں چرانے سے لے کر میدان عرفات میں انسانی حقوق کا چارٹر عطا کر نے اور دین کے مکمل ہو نے کی خو شخبری دینے تک اپنی نظروں میں لے آئیں اور ہجرت مدینہ سے پہلے مکہ کی گلیوں اور کعبے کے صحن میں آپ ﷺ پر ہو نے والی زیادیتوں کو یاد رکھیں۔
اور پھر کس طرح آپ ﷺ کو مکہ چھوڑنے پر مجبور کر دیا گیا آپ ﷺ کی محبوب بیوی حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی شعب ابی طالب میں وفات بیٹی کو زخمی کرنا اور محبوب چچا حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کو بے دردی سے شہید کر نا اِن تمام منا ظر کو ذہن میں رکھ کر سوچیں کہ جب آپ ﷺ دس ہزار قدسیوں کے ہمراہ فتح مکہ کے مو قع پر واردِ مکہ ہو تے ہیں۔
کعبہ کو بتوں سے پاک کر تے ہیں اور وہ تمام ظالم اور قاتل مجرموں کی طرح آپ ﷺ کے سامنے گر دنیں جھکا ئے کھڑے نظر آتے ہیں اپنی زندگیوں کی بھیک مانگتے ہیں اور پھر آپ ﷺ جس رحم دلی سے سب کو معاف کر دیتے ہیں یہ تا ریخ کے ما تھے پر قیا مت تک کے لیے نقش ہو گیا ہے۔
سرجھکا ئے کھڑے ہو نے والوں میں وہ تما م لو گ تھے جنہوں نے مکہ میں آپ ﷺ کی زندگی کو اجیرن کر کے رکھ دیا تھا مجرموں میں عثمان بن طلحہ بھی کھڑا تھا جس سے آپ ﷺ نے نبوت سے پہلے عبا دت کے لیے چابی ما نگی تھی اُس نے انکار کر دیا تھا۔ اور آج آپ ﷺ نے اُسی کو بلا کر کعبے کی چابی اُس کے حوالے کر دی جو آج بھی اُسی کے خاندان کے پاس ہے آپ ﷺ سا نہ کو ئی تھا نہ ہے۔