بچیوں کی تعلیم کا مسئلہ

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
بچیوں کی تعلیم کا مسئلہ
عبدالباری
مذہب اسلام ایک آفاقی اور ہمہ گیر مذہب ہے اس کی تمام تعلیما ت پوری انسانیت کے کئے مشعل راہ اور کامیابی و سربلندی کا زینہ ہیں جن پر علم کر کے انسان (مردو عور ت ) دنیا و آخرت کی فوز وفلاح سے ہمکنا رہوسکتاہے۔ اسلام نے جابجامردوخواتین کی توجہ تعلیم وتربیت کی طرف مبذول کی ہے۔ علم جہاں مردوں کے لئے ضروری ہے وہیں عورتیں بھی اس کی حاجت مند ہیں۔ چونکہ اسلام میں مرد اور عورت کو سکے کادو رخ کہا گیاہے یا وہ یا ایک ہی گاڑی کے دو پہیے ہیں جو ایک دوسرے کے لیے لازم ملزوم ہیں، یہ الگ بات ہے کہ عورت اور مرد دونوں کا دائرہ کار الگ الگ ہے اور دونوں پر شریعت اسلامیہ نے الگ الگ ذمہ داریاں عائد کی ہیں یہی وجہ ہےکہ دونوں کی تخلیق میں بھی فرق رکھا گیا ہے، تاہم شرعی احکام میں ، انسانیت اور کرامت میں اور حقوق میں دونوں برابر ہیں۔
اس لیے جہاں ایک طرح لڑکوں کی تعلیم ضروری ہے وہیں دوسری طرف لڑکیوں کی تعلیم بھی ناگزیر ہےکیونکہ عورت معاشرے کا آدھا حصہ ہے، او ر اس کی تربیت دراصل ایک خاندان کی تربیت ہے۔ جس کی تربیت سے اس کے بھائی بہن اور اس کی اولاد مستفید ہوگی لیکن اگر لڑکی جاہل ہے تو ممکن ہے کہ اپنی جہالت کی وجہ سےازدواجی زندگی کو اجیرن بنالے، یا اپنے شوہر سےہاتھ دھو بیٹھے۔اس لئے تو کہا جاتاہے کہ ’’ماں ایک ایسا مدرسہ ہے جسے اگر تونے تیار کرلیا تو تونے گویا پاکیزہ نسل کی ایک قوم تیار کرلی ‘‘۔اور اگر تونے اسے بگاڑ دیا تو پوری نسل تباہ وبرباد ہوجاتی ہے۔
یقینا اولاد کی تربیت میں ماں کا بہت اہم رول ہوتاہےاور خاص طور سے وہ خواتین جو باشعور ہوں اور فن تعلیم وتربیت سے آشنا ہوں یا ان کے اندر علم کے سیکھنے کا جذبہ تو ان کی زندگی اسی دنیا کے اندر ہی باعث تقلید ہوتی ہے۔
صحیحین کی حدیث ہے حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک عورت آئی اورعرض کیا کہ یا رسول اللہ! مرد ہی صرف آپ کی باتیں سنتے ہیں، ہم عورتوں کے لیے بھی کوئی دن خاص کردیں ،جس دن ہم سب آپ سے دین سیکھ سکیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : اچھا تم لوگ فلاں دن فلاں جگہ اکٹھا ہو جاؤ چنانچہ سب اکٹھا ہوئیں اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں نصیحت سے نوازا۔
اسی طرح دوسری حدیث میں ہے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا’’اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم عورتوں کی تعلیم کے بڑے خواہش مند تھے ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی گیارہ شادیوں کے جہاں دوسرے مقاصد ہیں وہیں ایک مقصد یہ بھی تھا کہ عورتوں کی ایک ایسی ٹیم تیار ہوجائے جو عالمہ اور فاضلہ ہوں اور دوسری عورتوں تک وہ باتیں بآسانی پہنچاسکیں، چنانچہ یہ مقصد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں کے ذریعہ پوری طرح حاصل ہو گیا۔
آپ یقین جانو کہ اگر ایک عورت اگر تعلیم یافتہ ہوتی ہے تو وہ اپنے گھر کو جنت نظیر بنائے رکھتی ہے ، اس کی گود میں جو بچے پلتے ہیں نیک صالح ، بلند ہمت اور باکردار ہوتے ہیں اور بسااوقات ان کے تجربے اور قابلیت سے بے شمار مسائل حل ہوتے ہیں۔ حدیبیہ کا مشہور واقعہ ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم چونکہ عمرہ کے ارادہ سے مکہ آئے تھے لیکن آپ نے قریش کے سارے شرائط کو تسلیم کرلیااور صلح کے قرارداد سے بظاہر ایسا لگتا تھا کہ بالکل گر کر صلح کی جا رہی ہے، یہ ماجراصحابہ کرام کے لیے کافی المناک اور ملال کا موجب تھا، یہاں تک کہ جب اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام کو اپنا جانور ذبح کرنےاور بال منڈوانے کا حکم دیا تو کسی صحابی نے اس کی تعمیل نہیں کی ، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پریشانی کے عالم میں ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے پاس گئے اور ماجرا سے آگاہ کیا۔ ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے بڑی دانشمندی کی بات کہی، انہوں نے کہا کہ آپ اٹھیں اور اپنا جانور ذبح کرلیں اور پھر بال حلق کرالیں ، سارے لوگ خود بخود کرا لیں گے۔ چنانچہ آپ اٹھے جانور ذبح کیا اور بال منڈوا نے لگے ، یہ دیکھتے ہی سارے صحابہ اپنا جانور ذبح کرنے اور بال منڈوانے لگے۔ اور خدیجہ بنت خویلد رضی اللہ عنہا کو دیکھئے جو نہایت پریشان کن حالات میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو دلاسا دیتی ہیں، اور زبردست عقلمندی کا مظاہرہ کرتی ہیں: ہرگز نہیں ! اللہ کی قسم اللہ تعالیٰ ہرگز آپ کو رسوا نہیں کرے گا،آپ صلہ رحمی کرتے ہیں، سچ بولتے ہیں، غریبوں کی مدد کرتے ہیں، دوسروں کا بوجھ اٹھاتے ہیں ، تنگ دستوں کی اعانت کرتے ہیں ، مہمان نوازی کرتے ہیں اور مصیبت میں کام آتے ہیں۔
لیکن آج مسلمانوں کے بعض کج فہم اور کم ظرف تعلیم نسواں کی مخالفت کرتے ہیں، حالانکہ اسلامی تعلیمات ان کے چہروں پر طمانچہ ہیں۔البتہ اس حقیقت کا انکار نہیں کیا جاسکتا کہ مخلوط نظام تعلیم کی وجہ سے لڑکیوں میں بے پردگی عام ہورہی ہے ، ان میں فحاشی اور بے راہ روی کا رجحان زور پکڑتا جا رہا ہے ، اس کامثبت حل یہ ہے کہ قوم کے لیڈران اور سر برآوردہ اشخاص لڑکیوں کی تعلیم وتربیت کے لیے الگ الگ سکول اور کالجز کھولیں، ان کی تعلیم وتریبت کا اعلی پیمانے پر بندوبست کریں۔ جس سے مہذب گھرانے کی لڑکیاں اپنی عزت کو بحال رکھنے کے ساتھ ساتھ زیور تعلیم سے آراستہ ہوں۔اور قوم وملت نیز سماج ومعاشرہ کی اصلاح میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں۔ اللہ قوم کی ماؤں اور بہنوں کی حفاظت فرما اور انہیں اپنے دائرے کار میں رہ کر دینی و عصری علوم سیکھنے اسے عام کرنے کی توفیق عطافرما۔ آمین