بچوں کا اغوا

User Rating: 5 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar ActiveStar Active
 
بچوں کا اغوا
متکلم اسلام مولانا محمد الیاس گھمن
بچے پوری قوم کی امانت ہوتے ہیں ، یہی نسل ہمارا سرمایہ اور ملک و ملت کا نام روشن کرنے والی ہے۔ پچھلے دنوں سے چند ملک دشمن عناصر ہم سے ہمارا قیمتی سرمایہ لوٹنا چاہتے ہیں ہمارے بچوں کو اغوا کر رہے ہیں۔ اغواء کار پیسوں کے لالچ میں یہ سب کچھ کر رہے ہیں یعنی بچوں کو یا ان کے اعضاء فروخت کر رہے ہیں۔ گویا کہ اغواء برائے ”تاوان“ نہیں بلکہ اغوا برائے ”جان“ ہے۔
بچوں کی پراسرار گمشدگی کے واقعات سے معاشرے میں خوف و ہراس پھیل چکا ہے۔ اس موقع پر انتظامیہ کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اس مصیبت سے قوم کو نجات دلائے اور ایسے اقدامات کرے جن سے پوری قوم کا مستقبل محفوظ ہو سکے۔
عام طور پر یہ کہا جاتا ہے کہ بچے والدین کی ڈانٹ ڈپٹ کے ڈرسے گھروں سے بھاگ رہے ہیں،ممکن ہے کہ بعض واقعات اس نوعیت کے بھی پیش آئے ہوں۔ مگراب تک لاہور، فیصل آباد اور پنجاب کے دیگر شہروں سمیت مجموعی طورپر سینکڑوں بچے لاپتہ ہو چکے ہیں۔
انتظامیہ اس معاملے کی کھوج لگائے اس جرم میں منشیات کے عادی لوگ بھی ملوث ہو سکتے ہیں۔ مجرموں کی شناخت کی جائے تو ضرور اس میں وہ مافیا بھی ملوث ہوگا جو جنسی خواہشات کیلئے بچوں کو اغوا کرتے ہیں۔
معصوم بچیوں کو قحبہ خانوں پرفروخت کردیا جاتا ہے۔ انہیں معذور بنا کر ان سے بھیک منگوائی جاتا ہے اور ان سارے جرائم میں کئی بااثر اور طاقتور مافیا ملوث ہیں۔
میڈیا پر اورتعلیمی اداروں میں اس کی روک تھام کےلیے بچوں اور ان کے والدین کو احتیاطی اورحفاظتی تدابیر سے آگاہی کی ورکشاپس کا اہتمام کیاجائے۔ تعجب کی بات ہے کہ ہے اس قدر اغواء کی وارداتوں کے باوجود کچھ والدین بھی ابھی تک اپنے جگر گوشوں سے بے پرواہی برت رہے ہیں۔ والدین کی مجرمانہ غفلت بھی وارداتوں میں اضافے کا باعث ہے،معصوم بچوں کورات گئے تک تنہا گلیوں اوربازاروں میں بے مقصد گھومتے پھرتے دیکھا گیا ہے۔
سب سے زیادہ ذمہ داری والدین کی بنتی ہے کہ وہ اپنے بچوں پر کڑی نظر رکھیں۔ معصوم بچوں کااغواء روکنے اوراغواء کاروں کوکیفر کردارتک پہنچانے کیلئے جہاں ریاستی اداروں کوآپس میں سرجوڑ کر منصوبہ بندی بنانے کی ضرورت ہے وہاں بچوں کے والدین ، سرپرستوں سمیت معاشرے کے مختلف طبقات کو اپنی خدمات پیش کرنا ہوں گی۔
اطلاعات یہ بھی ہیں کہ بعض اداروں کے افسران کے بچوں کو اغواء کیا جا رہا ہے اغواء کار اپنے جرائم سے نکلنے کے چور دروازے تلاش کر رہے ہیں اور مزید اعلیٰ سطح پر ملک میں تخریب کاری کو فروغ دینا چاہتے ہیں۔ اسلام تو ایسے مذاق سے بھی منع کرتا ہے جس میں کسی کا ہلکا سا دل دکھ جائے۔
اور یہاں اغوا کاروں نے کئی خاندانوں کو تڑپا رکھا ہے خصوصا والدین کو ستایا جا رہا ہے۔ یہ ساری کوششیں اس لیے کی جارہی ہیں لوگ اپنے بچوں کو تعلیم نہ دے سکیں۔ اس موقع پر مقامی انتظامیہ اور گورنمنٹ پر ضروری ہے کہ وہ اس کی روک تھام کے لیے سنجیدہ ، مثبت اور مفید اقدامات کرے۔ تاکہ نئی نسل بلا خوف تعلیم حاصل کر کے ملک و قوم کا نام روشن کر سکے۔ اللہ تعالیٰ میرے ملک کو اندرونی و بیرونی سازشوں سے محفوظ رکھے اور ہمارےبچوں کو اپنی حفظ و امان میں رکھے۔
آمین یارب العالمین