حضورِ اَکرم ﷺ کی پیشن گوئیاں

User Rating: 4 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar ActiveStar Inactive
 
حضورِ اَکرم ﷺ کی پیشن گوئیاں
محترمہ عمارہ الیاس گھمن
قبل از وقت کسی واقعے کی اطلاع دینے کو” پیشن گوئی “کہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے انبیاء کرام علیہم السلام بالخصوص نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بذریعہ وحی آئندہ رونما ہونے والے بعض حالات سے مطلع فرما دیتے تھے جس کی بنیاد پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کسی واقعے کی اطلاع قبل از وقت ارشاد فرما دیتے۔ چونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے سچے اور آخری نبی ہیں اس لیے آپ نے جن جن باتوں کی پیشن گوئی فرمائی وہ ساری باتیں سچ ثابت ہوئیں۔ آئیےاللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی چند پیشن گوئیاں پڑھتے ہیں۔
آقا نامدار صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے پہلے عرب کی یہ کیفیت تھی کہ تمام اہل عرب کاہنوں ، نجومیوں کے جال میں گرفتار تھے۔ مشہور کاہنوں کے پاس لوگ دور دراز سے سفر کر کے آتے تھے اور ان سے مستقبل اور غیب کی باتیں دریافت کرتے تھے۔کاہن جھوٹ موٹ کی باتیں سنا کر پورے معاشرے کو بے وقوف بنا رہے تھے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے جب پیغمبر بنا کر مبعوث فرمایا تو ان کے لیے ثبوت نبوت کی سب سے بڑی دلیل غیب کی خبریں اور پیشن گوئیاں تھیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم مستقبل کے واقعات اور باتوں کواس طرح پیش فرماتے کہ گویا کھلی آنکھوں سے دیکھ کر بتا رہے ہوں۔
جن جن باتوں کی اللہ کے سچے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خبر دی وہ سب کی سب پوری ہوئیں۔ یہ پیشن گوئیاں مختلف اوقات میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے مختلف حالتوں میں صادر ہوئیں اور ان کی اطلاع مختلف صورتوں میں دی گئی۔ مثلاً کبھی نزول وحی کی صورت میں، کبھی عالم خواب میں اور کبھی قلب مبارک پر القاء کر کے۔
قرآن کریم میں ارشاد ہے :
تلک من انباء الغیب نوحیھا الیک ما کنت تعلمھا انت ولا قومک من قبل ھٰذا۔
یہ غیب کی باتیں ہم آپ کی طرف وحی کرتے ہیں اس سے پہلے آپ اور آپ کی قوم ان کو نہیں جانتی تھی۔
محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشن گوئیوں کو یہ امتیاز حاصل ہے کہ وہ واضح اور ظاہر ہیں اور شک اور تاویل سے بہت دور ہیں۔ مثلاً غلبہ روم ،خلافت راشدہ ،فتح یمن ،فتح شام، فتح عراق اور قیصر وکسریٰ کی سلطنتوں پر فتح و نصرت کی تمام پیشن گوئیاں صریح اور واضح ہیں۔ علاوہ ازیں وہ ایسی عظیم الشان ہیں جن کو دیکھ کر اور سن کر تمام عالم حیران ہیں۔
پیشن گوئی نمبر1:
غزوۂِ خندق کے موقع پر خندق کھودتے ہوئے ایک سخت چٹان حائل ہو گئی جب صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اس کو توڑنے سے عاجز آ گئے اور چٹان باوجود کوشش کے نہ ٹوٹ سکی تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے درخواست کی گئی۔ اس موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین ضربیں لگائیں ہر ضرب پر چٹان سے روشنی پھوٹتی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے :
تمت کلمۃ ربک صدقاوعدلا۔ لا مبدل لکلمٰتہ وھو السمیع العلیم۔
بخاری شریف؛ مسند احمد اور سنن نسائی میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب پہلی بار بسم اللہ کہہ کر کدال ماری تو چٹان ایک تہائی ٹوٹ گئی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :اللہ اکبر۔ مجھے ملک شام کی کنجیاں عطا کی گئی ہیں،خدا کی قسم میں شام کے سرخ محلات اس وقت اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا ہوں۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوسری مرتبہ کدال ماری تو دوسرا تہائی ٹکڑا ٹوٹ کر گرا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ اکبر۔ فارس کی کنجیاں مجھ کو عطا ہوئیں خدا کی قسم مدائن کے قصرابیض کو اس وقت اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا ہوں۔ تیسری بار آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بسم اللہ کہہ کر کدال ماری تو بقیہ چٹان بھی ٹوٹ گئی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :اللہ اکبر۔ یمن کی کنجیاں مجھے عطا ہوئیں خدا کی قسم صنعاء کے دروازوں کو میں اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :جبرائیل امین نے مجھے خبر دی کہ میری امت ان شہروں کو فتح کرے گی۔
تاریخ اٹھا کر دیکھ لیجیے کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ پیشن گوئیاں ہو بہو پوری ہوئیں۔
پیشن گوئی نمبر2:
صحیحین)صحیح بخاری اور صحیح مسلم ( میں حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک بار آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے وعظ میں قیامت تک پیش آنے والے متعددامور کا ذکر فرمایا ان میں سے بعض چیزیں ایسی ہیں جو میں بھول گیا مگر جب میں ان کو دیکھتا ہوں تو یاد آ جاتی ہیں یعنی واقعہ ہونے کے بعد پہچان لیتا ہوں کہ یہ وہی بات ہے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائی تھی جس طرح کسی شخص کی صورت یاد ہو اور وہ غائب ہو جائے پھر جب اسے دیکھتا ہے تو پہچان لیتا ہے کہ یہ فلاں شخص ہے۔
پیشن گوئی نمبر3:
زرقانی میں حضرت جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک دفعہ آپ علیہ الصلوۃ والسلام میرے گھر تشریف لائے اور دریافت کیا کہ کیا قالین ہے ؟ ہم نے عرض کیا کہ قالین ہمارے گھر کہاں ؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :ہاں عنقریب تم قالینوں اور عمدہ فرشوں پر بیٹھو گئے۔ حضرت جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم نے اپنی زندگی میں وہ دن بھی دیکھا جب ہم قالینوں پر بیٹھے تھے۔
پیشن گوئی نمبر4:
ابو داؤد شریف میں حضرت عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر تھا کہ ایک شخص نے بھوک کی اور دوسرے نے رہزنی کی شکایت کی۔ آپ علیہ السلام نے فرمایا کہ اگر تم زندہ رہے تو دیکھو گے کہ ایک عورت حیرہ سے خانہ کعبہ کا طواف کرنے نکلے گی اور اس کو خدا کے سوا کسی کا ڈر نہ ہو گا۔ حضرت عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے یہ امن وامان اپنی زندگی میں دیکھا۔
پیشن گوئی نمبر5:
بخاری شریف میں ہے کہ غزوہ خندق کے موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ آج کے بعد قریش ہم پر حملہ آور نہیں ہوں گے بلکہ ہم ہی ان پر غالب ہوں گے۔
پیشن گوئی نمبر6:
بخاری شریف میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوہ بدر میں کفار کے مقتولین کی قتل گاہ کی اطلاع دی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو جگہ بتائی دشمن اسی جگہ پرقتل ہوئے۔
پیشن گوئی نمبر7:
صحیحین میں ہے کہ خیبر میں یہود کے کئی مضبوط قلعے تھے ہر روز مسلمان مجاہدین زور آزمائی کر کے واپس لوٹ آتے لیکن خیبر فتح نہیں ہو رہا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کل میں جھنڈا ایسے شخص کو دوں گا جس کے ہاتھ پر اللہ فتح دیں گے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو جھنڈا عطا فرمایا اور اللہ تعالیٰ نے ان کے ہاتھ پر فتح عطا فرمائی۔
پیشن گوئی نمبر8:
صحیح مسلم کی روایت ہے کہ حضرت عباس رضی اللہ عنہ جب جنگ بدر میں گرفتار ہوئے تو فدیہ کے مطالبے پر فرمایا کہ میرے اندر استطاعت نہیں ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ مال کہاں ہے جو ام الفضل کے پاس چھوڑ آئے ہو؟ اس کو دے کر آزاد ہو جاؤ۔ حضرت عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اس بات کو میرے اور میری بیوی کے علاوہ کوئی نہیں جانتا تھا۔
پیشن گوئی نمبر9:
بخاری شریف میں ہے کہ آپ نے اپنے وصال کے وقت حضرت فاطمہ کو اپنے وصال کی اور حضرت فاطمہ کے سب سے پہلے جنت میں پہنچنے کی بشارت دی۔
پیشن گوئی نمبر10:
صحیحین میں ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زبان نبوت سے ہندوستان میں اسلام کے داخل اور غالب ہونے کی خوشخبری سنائی تھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میری امت کے دوگروہ ہیں جن کو اللہ تعالیٰ دوزخ سے بچائے گا ایک وہ جو غزوہ ہندوستان میں شریک ہو گا اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو اس غزوہ میں شریک ہونے کی تلقین فرمائی۔
پیشن گوئی نمبر11:
ترمذی شریف میں ہے کہ ایک دفعہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم خواب سے مسکراتے ہوئے بیدار ہوئے اور فرمایا کہ اس وقت خواب میں میری امت کے کچھ لوگ تخت شاہی پر بادشاہوں کی طرح بیٹھے ہوئے دکھائے گئے یہ بحر اخضر میں جہاد کے لیے اپنے جہاز ڈالیں گے یہ بشارت سب سے پہلے امیر معاویہ کے عہد میں پوری ہوئی اور دمشق کی سر زمین پر اسلام میں سب سے پہلے تخت شاہی بچھا یا گیا۔ دمشق کا شہزادہ اپنی سپہ سالاری میں مسلمانوں کا پہلا لشکر لے کر بحر اخضر میں جہازوں کے بیڑے ڈالتا ہے اور دریا عبور کر کے قسطنطنیہ فتح کرتا ہے جس کی بشارت حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے دی۔
پیشن گوئی نمبر12:
مسند امام احمد میں ہے کہ بیت المقدس اسلام کا دوسرا قبلہ ہے اور اس کی تولیت)انتظام،انصرام واہتمام (امت محمدیہ کا حق ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی تولیت کی بشارت دی جو کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور میں پوری ہوئی۔
پیشن گوئی نمبر13:
زرقانی میں ہے کہ حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ حجۃ الوداع میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ہمرکابی میں مکہ معظمہ گئے وہاں جا کر وہ اس قدر سخت بیمار پڑے کہ ان کو اپنی زندگی کی امید نہ رہی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ان کی عیادت کے لیے تشریف لے گے تو ان کا اضطراب دیکھ کر ان کو تسلی دی اور ان کے حق میں دعا کی اور فرمایا کہ اگر خدا نے چاہا تو ابھی نہیں مرو گے اگر خلوص سے کام کرو گے تو تمہیں عظیم درجہ ملے گا بہت سارے لوگوں کو تم سے فائدہ پہنچے گا اور بہت سوں کو نقصان پہنچے گا۔ یہ حضرت سعد رضی اللہ عنہ کےلیے عجم کے فتوحات کی پیشن گوئی تھی چنانچہ حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے سپہ سالار بن کر کسریٰ کا تاج و تخت حاصل کیا جس کی وجہ سے مسلمانوں کو بہت فائدہ جبکہ مجوسیوں کو نقصان پہنچا۔
پیشن گوئی نمبر14:
صحیحین میں ہے کے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ازواج مطہرات کو اطلاع دی کے تم میں سے سب پہلے مجھ سے آکر وہ ملے گی جس کا ہا تھ سب سے لمبا ہو گا اور ایسا ہی ہوا سب سے پہلے ام المومنین سیدہ زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا کا انتقال ہوا جو سب سے زیادہ سخی تھیں۔ )عربی محاورے میں سخی کو لمبے ہاتھ والا کہتے ہیں (
پیشن گوئی نمبر15:
صحیحین میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے خلفا ء راشدین کی بشارت دی اور خلافت راشدہ کی مدت بھی بتا دی چنانچہ ارشاد فرمایا خلافت میرے بعد تیس سال ہو گی پھر باد شاہی ہو جا ئے گی اور یہ تیس سال کی مدت حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خلافت پر تمام ہوتی ہے
پیشن گوئی نمبر16:
کتب حدیث میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد جن فتنوں کا آغاز ہوا اور مسلمانوں میں جو خانہ جنگیاں پیش آئیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے بارے مسلمانوں کو پہلے سے متنبہ فرمایا دیا تھا۔
پیشن گوئی نمبر17:
مسند احمد میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے حق میں فرمایا کہ یہ شخص فتنہ کا قفل ہے یعنی جب تک عمر رضی اللہ عنہ زندہ رہیں گے فتنہ بھی مقید اور بند رہیں گے چنانچہ ایسا ہی ہوا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے وقت تک مسلمانوں میں کوئی فتنہ اور فساد رونما نہیں ہوا جب وہ شہید ہو گئے تو فتنہ فساد شروع ہو گیا۔
پیشن گوئی نمبر18:
صحیح بخاری میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عثمان اور حضرت علی رضی اللہ عنہما کی شہادت کی خبر دی چنانچہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کی شہادت واقع ہوئی۔
پیشن گوئی نمبر19:
شرح المواہب میں ہے کہ ایک مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت حسن رضی اللہ عنہ کو لے کر منبر پر چڑھے پھر فرمایا کہ میرے اس فرزند کے ذریعے سے خدا مسلمانوں کے دو گروہوں کے درمیان مصالحت کرا دے گا یہ پیشن گوئی حضرت علی کی شہادت کے 6 ماہ بعد پوری ہوئی اور طرفداران علی اور حامیان معاویہ کے درمیان چند شرائط پر صلح ہو گئی۔
پیشن گوئی نمبر20:
شرح بخاری شریف میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نےحضرت حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کی خبر دی ایک دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت حسین رضی اللہ عنہ کو چوم رہے تھے اور آنکھوں سے اشک رواں تھے۔ فرمایا کہ میرے اس بیٹے کو میری امت کے لوگ شہید کریں گے۔
پیشن گوئی نمبر21:
سنن ابی داؤد اورمسند احمد میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قیامت اس وقت تک نہیں آ سکتی جب تک حجاز میں ایک ایسی آگ نہ نکلے جس کی روشنی بصرہ کی اونٹوں کی گردنوں کو روشن نہ کر دے۔ امام نووی فرماتے ہیں کہ آگ ہمارے زمانہ میں 654 ہجری میں مدینہ میں ظاہر ہوئی۔
پیشن گوئی نمبر22:
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ آخر زمانہ میں عورتیں تجارت میں اپنے مردوں کا ہاتھ بٹایا کریں گی جو کہ آج کل واضح ہو گیا ہے۔
پیشن گوئی نمبر23:
بخاری شریف میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سود کی کثرت کا فرمایا کہ ایک زمانہ ایسا آئے گا جس میں کوئی ایسا نہیں ہو گا جو سود نہ کھائے اگر برائے راست نہیں کھائے گا تو اس کا غبار یا دھواں اڑ کر اس تک ضرور پہنچے گا آج بعینہ وہی زمانہ ہے آج کل تمام سرمایہ کاری میں سود یا اس کا اثرات شامل ہو رہے ہیں۔
پیشن گوئی نمبر24:
صحیح مسلم میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :آخر زمانہ میں مسلمانوں میں آپس میں اختلاف ہو جائیں گے اور مخالف قوتیں ان کے خلاف جمع ہو جائیں گی۔ حاضرین نے پوچھا: کیا اس وقت ہم قلیل ہوں گے فرمایا نہیں تم اس وقت کثیر ہو گے لیکن تم میں” وھن “ پیدا ہو جائے گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا ”وھن“ کیا ہے؟ فرمایا حب الدنیا وکراھیۃ الموت۔ دنیا کی محبت اور موت سے نفرت۔ آج اس پیشن گوئی کو ہم سب اچھی طرح دیکھ رہے ہیں۔
پیشن گوئی نمبر25:
صحیح مسلم میں فتنوں اور آثار قیامت کے سلسلہ میں متعدد حدیثیں ایسی ہیں جن سے یہ ظاہر ہوتا ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صاف اور صریح الفاظ میں اپنی امت کو یہ اطلاع دی کہ آخر زمانہ میں دجال کے ظہور اور نزول مسیح سے پہلے ملک شام میں مسلمانوں اور رومیوں کے درمیان عظیم خونی معرکے پیش آئیں گے گو اس ملک میں ان دونوں کے درمیان صلیبی جنگوں نے اس قسم کے سینکڑون خونی معرکے پیش کیے ہیں مگر جنگ عظیم نے شام کی جو صورت حال پیدا کر دی ہے اس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ یہ تمام واقعات آنے والے خونی معرکوں کی تقریب اور تمہید ہیں۔
پیشن گوئی نمبر26:
ابو داؤد اور بیہقی میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عنقریب قومیں تم پر حملہ کرنے کے لیے ایک دوسرے کو اس طرح پکاریں گی جس طرح کھانے والے کھانے کے پیالے پر گرتے ہیں۔ حاضرین میں سے ایک نے پوچھا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! کیا یہ اس لیے کہ اس زمانے میں ہم مسلمانوں کی تعداد کم ہو جائے گی۔ فرمایا: نہیں! تمہاری تعداد ان دنوں زیادہ ہو گی لیکن تم ایسے ہو جاؤ گے جیسے سیلاب کی سطح پر خس وخاشاک ہوتے ہیں کہ سیلاب ان کو بہا لے جائے گا اللہ تعالیٰ تمہارے دشمنوں کے دلوں سے تمہارا رعب دور کر دے گا اور تمہارے دلوں میں کمزوری ڈال دے گا۔
کسی نے پوچھا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وہ کمزوری کیا ہو گی؟ فرمایا دنیا اور فوائد دنیا کی محبت اور موت کا بزدلانہ خوف۔
اور بھی کثیر پیشن گوئیاں کتب حدیث میں موجود ہیں جو حرف بحرف پوری ہو چکی ہیں یا ابھی پوری ہونی ہیں۔ اللہ کے آخری نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشن گوئیوں کی طرح آپ کی تعلیمات بھی سچی اور برحق ہیں۔ اسی میں دنیا و آخرت کی نجات ہے اس لیے ہمیں یہ فکر کرنا ہوگی کہ ہم اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقوں کے مطابق زندگی بسر کریں۔
آمین یا رب العلماء و العالمین