مدین کا کنواں

User Rating: 5 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar ActiveStar Active
 
مدین کا کنواں
ذکی الرحمٰن
تعمیرِ سیرت،کردار سازی،خود معماری یا تخلیقِ ذات ایک بنیادی انسانی ضرورت ہے۔ اسلام نے ایک مکمل نظامِ زندگی ہونے کی حیثیت سے تعمیرِ سیرت کا بھی ایک جامع،فطری اور مبنی بر اعتدال تصور اور نظام فراہم کیا ہے جو ہر زمانے اور ملک کے لیے قابلِ عمل اور لائقِ تطبیق ہو سکتا ہے۔تاہم اس بدیہی حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ مختلف زمانوں اور علاقوں کے تناظر میں بسااوقات تعمیرِ سیرت کے بعض پہلووں یا عنصروں کو دیگر پہلووں اور عنصروں پر فوقیت یا ارجینسی حاصل ہوجاتی ہے ،یعنی کبھی کبھی تعمیرِ سیرت کے بعض پہلووں پر زور دینے کی ضرورت زیادہ پیدا ہوجاتی ہے۔آج ہر دیدۂ بینا اور گوشِ شنوا جس طرح بے حیائی،فحاشی،عریانیت اور جنسی آزادی کے غلغلے کو دیکھ اور سن رہا ہے،وہ شاید ابھی چند پشت پہلی نسلوں کے لیے ناقابلِ تصور اور از قبیلِ محال بات تھی۔ایسے میں ضرورت ہے کہ بے حیائی کے سیلاب پر بندھ باندھنے کے لیے اسی کے متوازی کوششیں کی جائیں اور عفت وعصمت اور حیا وشرم کے انسانی جوہر کی اہمیت اور صالح انسانی سماج کے لیے اس کی افادیت وناگزیری کو بیش از بیش اجاگر ومبرہن کیا جائے۔
بس اسی جذبے سے یہ چند اوراق سیاہ کیے گئے ہیں اور ایک جلیل القدر نبی حضرت موسیٰ علیہ السلام کے واقعے کی روشنی میں اس موضوع سے تعلق رکھنے والی بعض رہنمائیوں کو یکجا کر دیا گیا ہے۔وباللہ التوفیق۔
قرآنِ کریم میں جہاں بہت سارے نبیوں کے قصے بیان کئے گئے ہیں وہیں جلیل القدر نبی حضرت موسیٰ علیہ السلام کا قصہ اس میں سب سے زیادہ مفصل طور سے بیان کیا گیا ہے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی زندگی کے مختلف پہلو مختلف مراحل میں قرآن کی مختلف سورتوں میں آئے ہیں۔ ان کی زندگی کا ایک موقعہ وہ بھی تھا جب آلِ فرعون نے ان کی جان لینے کا ارادہ کر لیا تھا لیکن بروقت انہیں اطلاع ہوجاتی ہے اور وہ اپنی جان بچاکر علاقۂ مدین کی طرف ہجرت کرجاتے ہیں۔ جب وہ مدین پہنچتے ہیں تو وہاں وہ ایک کنویں کے پاس دوخواتین کو کھڑا ہوا پاتے ہیں جوانتظار کررہی ہوتی ہیں کہ کنویں پر موجود لوگ اپنے مویشیوں کوپانی پلاکر چلے جائیں۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام ان کی مدد کرتے ہیں اور ان کے جانوروں کو ازخود پانی نکال کر پلا دیتے ہیں۔
یہ دونوں خواتین اپنے گھر آکر والدِمحترم سے جنہیں مفسرین کی ایک تعداد اللہ کے نبی حضرت شعیب علیہ السلام قرار دیتی ہے، اس شخص کے بارے میں بتاتی ہیں۔ والدِ محترم ان کی بات سن کر اس اجنبی آدمی سے ملنے کی خواہش ظاہر کرتے ہیں اور اپنی ایک بیٹی کو انہیں بلانے کے لیے بھیج دیتے ہیں۔ بعد میں حضرت موسیٰ علیہ السلام اور لڑکیوں کے والد کے درمیان یہ معاہدہ طے پاتا ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی شادی ان کی ایک بیٹی سے کردی جائے گی اور وہ بدلے میں آٹھ یادس سال تک سسرال کا انتظام وانصرام دیکھیں گے۔
اس کے بعد حضرت موسیٰ علیہ السلام واپس ملکِ مصر لوٹتے ہیں اور راستے میں انہیں نبوت سے سرفراز کیا جاتا ہے۔ اِس وقت یہاں صرف حضرت موسیٰ علیہ السلام کے مدین آنے اور ایک صالح باپ کی صالح بیٹیوں کے آپ کے ساتھ برتاؤ سے بحث مقصود ہے کہ کس طرح دونوں جانب سے ایک ایک حرکت اور عمل میں عفت وپاکدامنی ٹپکتی ہے۔
سب سے پہلے قرآن کریم کی سورۃ قصص کی آیت نمبر 22 سے 30 تک کا کا ترجمہ دیکھ لیجئے:
’’)مصر سے نکل کر) جب موسیٰ نے مدین کا رخ کیا تو اس نے کہا: امید ہے کہ میرا رب مجھے ٹھیک راستے پر ڈال دے گا۔ اور جب وہ مدین کے کنویں پر پہنچا تو اس نے دیکھا کہ بہت سے لوگ اپنے جانوروں کو پانی پلارہے ہیں اور ان سے الگ ایک طرف دوعورتیں اپنے جانوروں کو روک رہی ہیں۔ موسیٰ نے ان عورتوں سے پوچھا: تمہیں کیا پریشانی ہے؟ انہوں نے کہا: ہم اپنے جانوروں کو پانی نہیں پلا سکتیں جب تک یہ چرواہے اپنے جانور نہ نکال لے جائیں، اور ہمارے والد ایک بہت بوڑھے آدمی ہیں۔
یہ سن کر موسیٰ نے ان کے جانوروں کو پانی پلا دیا، پھر ایک سائے کی جگہ جا بیٹھا اور بولا: پروردگار، جو خیر بھی تو مجھ پر نازل کردے میں اس کا محتاج ہوں۔ (کچھ دیر نہ گزری تھی کہ) ان دونوں عورتوں میں سے ایک شرم وحیا کے ساتھ چلتی ہوئی اس کے پاس آئی اور کہنے لگی: میرے والد آپ کو بلا رہے ہیں تاکہ آپ نے ہمارے لیے جانوروں کو جو پلایا ہے اس کا اجر آپ کو دیں۔ موسیٰ جب اس کے پاس پہنچا اور اپنا سارا قصہ سنایا تو اس نے کہا: کچھ خوف نہ کرو، اب تم ظالم لوگوں سے بچ نکلے ہو۔
ان دونوں عورتوں میں سے ایک نے اپنے باپ سے کہا: اباجان، اس شخص کو نوکر رکھ لیجئے، بہترین آدمی جسے آپ ملازم رکھیں وہی ہوسکتا ہے جو مضبوط اور امانت دار ہو۔ اس کے باپ نے (موسیٰ سے) کہا: میں چاہتا ہوں کہ اپنی ان بیٹیوں میں سے ایک کا نکاح تمہارے ساتھ کردوں بشرطیکہ تم آٹھ سال تک میرے ہاں ملازمت کرو، اور اگر دس سال پورے کردو تو تمہاری مرضی ہے۔ میں تم پر سختی نہیں کرنا چاہتا۔ تم ان شاء اللہ مجھے نیک آدمی پاؤگے۔ موسیٰ نے جواب دیا: یہ بات میرے اور آپ کے درمیان طے ہوگئی، ان دونوں مدتوں میں سے جوبھی میں پوری کردوں، اس کے بعد پھر کوئی زیادتی مجھ پر نہ ہو، اور جو کچھ قول قرار ہم کررہے ہیں اللہ اس پر نگہبان ہے۔
جب موسیٰ نے مدت پوری کردی اور وہ اپنے اہل وعیال کو لے کر چلا تو طور کی جانب اس کو ایک آگ نظر آئی۔ اس نے اپنے گھروالوں سے کہا: ٹھہرو، میں نے ایک آگ دیکھی ہے، شاید وہاں سے کوئی خبر لے آؤں یا اس آگ سے کوئی انگارہ ہی اٹھالاؤں جس سے تم تاپ سکو۔ وہاں پہنچا تو وادی کے داہنے کنارے پر مبارک خطے میں ایک درخت سے پکارا گیا کہ اے موسیٰ، میں ہی اللہ ہوں، سارے جہانوں کا مالک۔
1: حضرت موسیٰ کی زندگی کے اس واقعہ میں سب سے پہلے غور کرنے کی بات یہ ہے کہ قرآن کے الفاظ میں یہ دونوں لڑکیاں عام لوگوں سے کافی دور ہٹ کر کھڑی تھیں۔ قرآن کے الفاظ اس سلسلے میں یہ ہیں: (مِن دُونِہِمُ امْرَأتَیْنِ)اور ان سے الگ ایک طرف دوعورتیں اپنے جانوروں کو روک رہی تھیں۔
2: الفاظ پر غور کیجئے کہ یہ دونوں لڑکیاں ہر ممکن کوشش اس بات کی کررہی تھیں کہ ان کا اختلاط کسی طور بھی مردوں سے نہ ہونے پائے۔ اجنبی مردوں سے دوررہنے کی کوشش ہی میں دونوں جان توڑ کوشش کررہی تھیں کہ ان کی بکریاں دوسروں کی بکریوں کے ریوڑ میں نہ گھسنے پائیں۔
قرآن کہتا ہے:
(وَوَجَدَ مِن دُونِہِمُ امْرَأتَیْنِ تَذُودَانِ)
اور ان سے الگ ایک طرف دوعورتیں اپنے جانوروں کو روک رہی تھیں۔
3: دونوں لڑکیوں کی عفت وپاکدامنی کا ایک بڑا ثبوت یہ بھی ہے کہ جب کسی اجنبی مرد (یعنی حضرت موسیٰ) نے ان سے سوال کیا تو بے حد مختصر اور مناسب جواب دیا، اپنی آواز کو یا اپنے الفاظ کو یا اپنے جملوں کو بلا وجہ دراز کرنے کی کوشش نہیں کی۔
قرآن کے الفاظ پر غور کیجئے:
( قَالَتَا لَا نَسْقِیْ حَتَّی یُصْدِرَ الرِّعَاء وَأَبُونَا شَیْخٌ کَبِیْرٌ)
انہوں نے کہا: ہم اپنے جانوروں کو پانی نہیں پلا سکتیں جب تک یہ چرواہے اپنے جانور نہ نکال لے جائیں، اور ہمارے والد ایک بہت بوڑھے آدمی ہیں۔
4: ان دونوں لڑکیوں کی عفت وعصمت کا ایک پہلو یہ ہے کہ انہوں نے ایک اجنبی مرد یعنی حضرت موسیٰ کے ساتھ بات چیت کے مواقع نہ صرف پیدا نہیں کئے، بلکہ جو پیدا ہوسکتے تھے انہیں روکنے کی کوشش کی۔ حضرت موسیٰ نے ان سے صرف یہ جاننا چاہاتھا کہ ان کی صورتِ حال ایسی کیوں ہے کہ سب سے الگ کھڑی ہیں؟ اس کا جواب ویسے تو سوال کے بقدر بھی ہوسکتا تھا لیکن انہوں نے اس ایک سوال وجواب کے نتیجہ میں پیدا ہونے والے جملہ محتمل جوابات کو فوراً یعنی ایک ہی بار میں بیان کر دیا۔ وہ جواب میں کہہ سکتی تھیں کہ ہم مردوں کے بعد اپنی بکریوں کو پانی پلاتے ہیں۔
اس جواب سے یہ سوال پیدا ہوسکتا تھا کہ ایسا کیوں ہے، یا یہ چرواہے کب جائیں گے کہ تم اپنے مویشیوں کو پانی پلاسکو وغیرہ۔ بہرحال پورا امکان تھا کہ اجنبی مرد اور عورتوں کے بیچ میں بات کو طول مل جاتا، لیکن ان دونوں لڑکیوں کی اسلامی تربیت کا کرشمہ تھا کہ انہوں نے پہلے ہی مرحلے میں اورایک ہی سوال کے جواب میں جملہ محتمل سوالات کے جواب دے ڈالے اور اس میں بھی طولِ کلامی کے بجائے بیحد اختصار اور احترام روا رکھا۔ آپ ایک بار پھر غور سے ان کے جواب کو اوپر دیکھ لیں۔
5: اس پورے واقعہ سے حضرت موسیٰ کی عفت مآبی کا ثبوت بھی بدرجۂ اتم ملتا ہے کہ اس پورے قصہ میں انہوں نے کسی اجنبی نوجوان لڑکی سے صرف دولفظوں کا مختصر سوال ہی کیا تھا کہ(قَالَ مَا خَطْبُکُمَا)موسیٰ نے ان عورتوں سے پوچھا: تمہیں کیا پریشانی ہے؟ قرآن نے اس کے بعد حضرت موسیٰ کی کوئی ایسی بات نقل نہیں کی جس سے معلوم ہوتا ہوکہ انہوں نے بعد میں بھی کسی موقعے پر کچھ بات ان سے چھیڑی تھی۔ بلکہ اس کے بعد ہمیں حضرت موسیٰ اسی وقت بولتے ہوئے نظر آتے ہیں جبکہ وہ ان کے والدِ محترم سے ملاقات کرلیتے ہیں۔
6: حضرت موسیٰ کی عفت وپاکدامنی اس بات سے بھی ظاہر ہوتی ہے کہ انہوں نے بغیر کسی گفت وشنید کئے ان لڑکیوں کی بکریوں کے ریوڑ کو کنویں سے پانی نکال کر پلادیا۔
انہوں نے لڑکیوں سے یہ نہیں پوچھا کہ کیا وہ ان سے ایسا کرانا چاہتی ہیں، کیونکہ ظاہری حالات ایسے تھے کہ سوال وجواب کرناعبث ہوتا، مزید برآں سوال جواب سے بھر وہی بات چیت کا آغاز ہوتا جو بہرحال اجنبی مردوعورت کے درمیان مناسب نہیں ہے۔ یہی چیز تھی جو حضرت موسیٰ نہیں چاہتے تھے اس لیے انہوں نے بالکل خاموشی کے ساتھ اٹھ کر بلا کوئی گفتگو کئے ان کی بکریوں کو پانی پلا دیا۔
7: حضرت موسیٰ کی عفت اس سے بھی ظاہر ہوتی ہے کہ انہوں نے بکریوں کو پانی پلانے کے بعد داد وصولی کرنے یا کسی شکریے کا انتظار کرنے کے بجائے فی الفور ایک پیڑ کے سائے کی طرف رخ کیا اور کسی طرح کی فارملٹی یعنی شکریہ وتحسین کے لیے توقف نہیں فرمایا۔ دل کے مریضوں کے لیے یہی موقعہ بگڑنے کا ہوتا ہے کہ کسی خاتون کی مدد کرکے اس کے ساتھ ملاقات وگفتگوکے مواقع پیدا کرتے ہیں۔ تھوڑی سی مدد کے بعد ادھر ادھر کی باتیں ہوتی ہیں جن کا آغاز بھی شکریہ ادا کرنے اور شکریے کی ضرورت نہیں۔
غور کیجئے کہ حضرت موسیٰ اگر چاہتے تو وہ ایسا کر سکتے تھے کیونکہ انہوں نے ان لڑکیوں کے ساتھ بڑی بھلائی کا کام کیا تھا، بغیر کسی درخواست کے کیا تھا، کنویں سے پانی نکالنے، پھر منتشر مزاج بکریوں کو پلانے جیسا پُرمشقت کام کیا تھا، مگر ہم دیکھتے ہیں کہ آپ علیہ السلام کام ختم ہوتے ہی سیدھے ایک سائے کی طرف چلے جاتے ہیں اور کسی قسم کے رسمی کلمات کی توقع نہیں رکھتے۔
8: اس واقعے سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ ان لڑکیوں نے کس حد تک اپنی سی کوشش کرکے مردوں میں گھسنے سے اور ان میں اختلاط کرنے سے اپنے آپ کو دور رکھا ہوا تھا۔ آج عورتوں کو گھروں سے باہر گھومنے پھرنے کے لیے جو اعذار تراشے جاتے ہیں وہ درحقیقت سارے کے سارے اس واقعے میں فی الواقع موجود تھے۔ مثال کے طور پر ان کے واقعی گھر سے نکلنے کی ضرورت پائی جاتی تھی کہ گھر میں کوئی قدرت رکھنے والا مرد ایسا نہ تھا جو ان کے بدلے یہ کام انجام دے سکتا۔
اختلاط کا امکان اس میں بھی تھا کہ وہ کنویں پر موجود مردوں کے جمِ غفیر میں گھس کر اپنی بکریوں کو پانی پلانے کی کوشش کرتیں لیکن انہوں نے دیر ہوجانا بہتر جانا، حالانکہ اس کی وجہ سے انہیں دیر تک سورج کی تمازت بھی جھیلنی پڑتی تھی اور لمبے وقت تک انتظار بھی کرنا پڑتا تھا۔ اس سب کے باوجود ہم دیکھتے ہیں کہ انہوں نے اجنبی مردوں کے ساتھ گھلنے ملنے کو پسند نہیں کیا۔ ہمارے زمانے میں ان حالات سے بھی کم مجبوریوں کے تحت گھر بار چھوڑ کر بازاروں میں گھومنے کی ہمت افزائی یا معمولی خاموش تائید کی جاتی ہے، اب اسے کیا کہیں گے سوائے اس کے کہ عفت وعصمت وہاں زیادہ تھی اور یہاں کم یا بالکل ختم۔
9: ان دونوں لڑکیوں کی عفت وعصمت کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ انہوں نے کسی اجنبی مرد کے ساتھ اپنی گفتگو کا آغاز ہی نفی سے کیا اور کہا کہ ہم اس وقت تک نہیں پلائیں گے جب تک کہ تمام چرواہے نہ پلا لے جائیں۔
( قَالَتَا لَا نَسْقِیْ حَتَّی یُصْدِرَ الرِّعَاء وَأَبُونَا شَیْخٌ کَبِیْرٌ)
وہ ہمارے زمانے کے فیشن کی طرح بات کو گھما پھرا کر کہہ سکتی تھیں کہ تھوڑی دیر بعد اپنی بکریوں کو پلائیں گے، لیکن انہوں نے ایسا نہیں کیا اور اپنے کلام میں نفی کا اسلوب اختیار کیا کیونکہ یہ پختہ عزمی اور قطعیت پر دلالت کرتا ہے، جبکہ اثبات کے اسلوب میں یہ زور پیدا نہیں ہوپاتا۔ نفی میں گویا کہا جارہا ہے کہ یہ ایک فیصل شدہ معاملہ ہے اور اس میں کسی ڈسکشن یا نظرِ ثانی کی گنجائش نہیں ہے۔
10: ان دونوں لڑکیوں کی عفت وعصمت کا ایک ثبوت یہ بھی ہے کہ انہوں نے اپنے جواب میں یہ کہا کہ ہم اس وقت تک پانی نہیں پلائیں گے جب تک کہ چرواہے پلا کر ہٹ نہیں جاتے۔ انہوں نے یہ نہیں کہ کہ ذرا بھیڑ کم ہوجائے یا چرواہوں کی تعداد میں تھوڑی کمی آجائے تو ہم اپنے جانوروں کو پانی پلالیں گے۔ یعنی جب تک اجنبی چرواہوں میں سے ایک ایک چرواہا یہاں سے روانہ نہیں ہو جاتا ہم اختلاط سے بچنے کے لیے کنویں پر نہیں جائیں گے۔
11: ایک مختصر جملے میں ان لڑکیوں نے اپنی ذہانت سے کتنی باتیں جمع کردی ہیں۔ یعنی ہم عورتیں ہیں، ان چرواہوں سے مزاحمت وکشمکش کرکے اپنے جانوروں کو پانی پلانا ہمارے بس میں نہیں ہے۔ والد ہمارے اس قدر سن رسیدہ ہیں کہ وہ خود یہ مشقت اٹھا نہیں سکتے، گھر میں کوئی دوسرا بھی نہیں ہے، اس لیے ہم عورتیں ہی یہ کام کرنے نکلتی ہیں اور جب تک سب چرواہے اپنے جانوروں کو پانی پلا کر چلے نہیں جاتے ہم کو مجبوراً انتظار کرنا پڑتا ہے۔ اس سارے مضمون کو ان خواتین نے صرف ایک مختصر سے فقرے میں ادا کردیا ہے، جس سے ان کی حیاداری وخودداری دونوں کا اندازہ ہوتا ہے کہ ایک غیر مرد سے زیادہ بات بھی نہ کرنا چاہتی تھیں، مگر یہ بھی پسند نہیں تھا کہ کوئی اجنبی ان کے خاندان کے متعلق کوئی غلط رائے قائم کرلے اور اپنے ذہن میں یہ خیال کرے کہ کیسے لوگ ہیں جن کے گھر کے مرد بیٹھے رہتے ہیں اور اپنی عورتوں کو اس کام کے لیے باہر بھیج دیتے ہیں۔اس سے ان دونوں لڑکیوں کی ذہانت کا بھی پتہ چلتا ہے اور اس زبان زد جملہ کی غلطی واضح ہوجاتی ہے کہ صرف دینی تربیت اور دینی ماحول میں رہنے سے بچوں کی ذہانت وفطانت ماؤف ہوجاتی ہے۔نیز اس سے یہ اشارہ بھی نکلتا ہے کہ پوری انسانی تاریخ میں ہمیشہ اس بات کو معیوب سمجھا جاتا رہا ہے کہ عورتیں بلا اضطراری حاجت کے گھروں سے باہر کے کام کاج یا نوکریاں اختیار کریں۔حضرت موسیٰؑ کے زمانے تک میں گھر میں کسی صحت مندمرد کے ہوتے غیر متصور تھا کہ اس کی کوئی بہن،بیٹی،بیوی یا ماں کمانے کے لیے باہر نکلے۔
12: ان دونوں لڑکیوں کی عفت مآبی کا اشارہ اس قصے میں یہ بھی ملتا ہے کہ قرآن نے ان کی چال کو حیادار چال کہا ہے یعنی جس میں متکبرانہ انداز نہ ہو، لچک اور بھڑکیلا پن نہ ہو، ادھر ادھر دیکھنا نہ ہو، دوسروں کو دعوتِ نظارہ دینا نہ ہو، جاہلانہ زیب وزینت کا اظہار نہ ہو، بناوٹی نزاکت ومصنوعی ادائیں نہ ہوں وغیرہ وغیرہ۔ قرآن نے اس کے لیے ایک جامع لفظ استعمال کیا ہے یعنی کہ’’ استحیاء‘‘ والی چال۔ استحیاء اور حیا میں فرق ہوتا ہے کہ استحیاء میں حیاسے زیادہ حروف استعمال ہوئے ہیں جس کا تقاضا ہے کہ مانا جائے کہ ان کی چال میں فطری حیا بھی تھی اور اس سے بڑھ کر اسلامی انداز وادب بھی تھا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس فقرے کی یہ تشریح کی ہے: وہ شرم وحیا کے ساتھ چلتی ہوئی اپنا منھ گھونگھٹ میں چھپائے ہوئے آئی تھی، ان بیباک عورتوں کی طرح درانہ نہیں چلی آئی جو ہرطرف نکل جاتی ہیں اور ہرجگہ جاگھستی ہیں۔
[جائت تمشی علی استحیاء مائلۃ بثوبھا علیٰ وجھھا لیست بسلسع من النساء ولا ولاجۃ خراجۃ
]
(تفسیر القرآن العظیم، ابن کثیر:تفسیرِ آیات ہذا)
اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ صحابۂ کرامؓ کے عہد میں حیاداری کا اسلامی تصور، جوقرآن اور نبیِ اکرمﷺ کی تعلیم وتربیت سے ان بزرگوں نے سمجھا تھا، یہ تھا کہ چہرے کو اجنبیوں کے سامنے کھولے پھرنا اور گھر سے باہر بے باکانہ چلت پھرت دکھانا اسلامی تصورِ حیا وعفت کے قطعاً خلاف ہے۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ صاف الفاظ میں یہاں چہرہ ڈھانکنے کو حیا کی علامت اور اسے اجنبیوں کے سامنے کھولنے کو بے حیائی کی علامت قرار دے رہے ہیں۔
13: غور کیجئے کہ جب ان کے والد نے حضرت موسیٰ کو بلالانے کے لیے کہا تو دونوں لڑکیاں بلانے کے لیے نہیں نکلیں جیسا کہ بکریوں کو پلانے کے لیے ساتھ نکلتی تھیں۔ ایسا اس لیے ہوا کہ اب دونوں کو جانے کی ضرورت نہ تھی۔ عورت کا گھر سے باہر نکلنا کسی ضرورت کی وجہ سے ہی جائز ہوتا ہے، اور جہاں ضرورت نہ ہو یا کسی دوسرے وسیلہ سے ضرورت پوری ہوجارہی ہو تو وہاں نکلنا بیکار اور ناجائز ہے۔ اسی کو اصولِ فقہ میں اس قاعدے سے تعبیر کرتے ہیں کہ کسی بھی ضرورت کو اس کی مقدار بھر ہی ماپا جائے گا۔
[الضرورۃ تقدر بقدرھا]
ان دونوں لڑکیوں کا یہ انداز غور کیجئے کہ ہمارے زمانے سے کس درجہ مختلف ہے جہاں ادنیٰ سے موقعے پر گھومنے پھرنے کے لیے باہر نکلا جاتا ہے، بلکہ ایک کی جگہ دس کے جانے کا رواج عام ہوگیا ہے، واللہ المستعان۔
14: دونوں لڑکیوں کا اسلامی ادب اس سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ ان میں سے جو حضرت موسیٰ کو بلانے کے لیے آئی تھی اس نے گفتگو کو اپنی طرف منسوب کرکے بات نہیں کی، بلکہ کہا کہ میرے والد صاحب آپ کو بلانا چاہتے ہیں۔ ایسا کوئی لفظ استعمال نہیں کیا گیا جو مختلف معانی ومفاہیم کا محتمل ہوسکتا تھا کہ چلیے، ہم آپ کی مہمان نوازی کریں گے یا یہ کہ ہماری خواہش ہے کہ آپ آئیں یا یہ کہ ہم اور ہمارے اہلِ خانہ کی درخواست ہے کہ آپ چلیں۔ ایسا کوئی لفظ یا کوئی اسلوب استعمال نہیں کیا گیا جس میں اپنی ذات کی طرف ادنیٰ سے ادنیٰ اشارہ یا تعریض ہوسکتی تھی۔ یہ اسلامی ادب ہے۔ یہ بات شرم وحیا کی وجہ سے انہوں نے کہی کیونکہ ایک غیر مرد کے پاس اکیلی جگہ آنے کی کوئی معقول وجہ بتانی ضروری تھی۔ ورنہ ظاہر ہے کہ ایک شریف آدمی نے اگر عورت ذات کو پریشانی میں دیکھ اس کی کوئی مدد کی ہوتو اس کا بدلا دینے کے لیے کہنا کوئی اچھی بات نہ تھی۔ اور پھر اس بدلے کا نام سن لینے کے باوجود حضرت موسیٰ جیسے عالی ظرف انسان کا چل پڑنا ظاہر کرتا ہے کہ وہ اس وقت انتہائی اضطرار کی حالت میں تھے۔ بے سروسامانی کے عالم میں یکایک مصر سے نکل کھڑے ہوئے تھے۔ مدین تک کم از کم آٹھ دن میں پہنچے ہوں گے، بھوک پیاس اور سفر کی تکان سے براحال ہوگا اور سب سے بڑھ کر یہ فکر ہوگی کہ اس دیارِ غیر میں کوئی ٹھکانہ میسر آجائے اور کوئی ایسا ہمدرد مل جائے جس کی پناہ میں رہ سکیں۔ اسی مجبوری کی وجہ سے یہ لفظ سن لینے کے باوجود کہ اُس ذرا سی خدمت کا اجر دینے کے لیے بلایا جارہا ہے، حضرت موسیٰ نے جانے میں تأمل نہیں کیا۔ انہوں نے خیال فرمایا ہوگا کہ خدا سے ابھی ابھی جو دعا میں نے مانگی ہے اسے پورا کرنے کا یہ سامان خدا ہی کی طرف سے ہوا ہے، اس لیے اب خواہ مخواہ خودداری کا مظاہرہ کرکے اپنے رب کے فراہم کردہ سامانِ میزبانی کو ٹھکرانا مناسب نہیں ہے۔
15: ان دونوں لڑکیوں نے اپنے والد سے جب حضرت موسیٰ کی نیک عملی اور احسان کا ذکر کیا تو پوری صراحت یا منھ پھٹے کے ساتھ نہیں کہہ دیا کہ آپ اسے ضرور اپنے یہاں ملازم رکھ لیں، بلکہ اشارے میں ایسا کہا اور وہ اشارہ بھی پوری حیا اور احترام کے ساتھ۔ ایک بار پھر سے وہ آیت پڑھ لیجئے:
(قَالَتْ إِحْدَاہُمَا یَا أَبَتِ اسْتَأْجِرْہُ إِنَّ خَیْرَ مَنِ اسْتَأْجَرْتَ الْقَوِیُّ الْأَمِیْن)
ان دونوں عورتوں میں سے ایک نے اپنے باپ سے کہا: اباجان، اس شخص کو نوکر رکھ لیجئے، بہترین آدمی جسے آپ ملازم رکھیں وہی ہوسکتا ہے جو مضبوط اور امانت دار ہو۔‘‘یہ نہیں کہا کہ وہ نہایت تنومند وطاقت ور اور نہایت امانتدار ہے کیونکہ اس نے ایسااور ایسا کیاتھا۔ بلکہ ایک کامیاب ملازم کی خصوصیات کو والد کے سامنے رکھ دیا کہ وہ ایساہونا چاہیے۔ تعجب کی بات نہیں کہ عفت مآبی اورعدمِ اختلاط کے ساتھ ساتھ یہاں مختصر کلامی بھی پائی جاتی ہے اور لحاظ اورحیا کا یہ عالم ہے کہ الفاظ تک سے پھوٹی پڑ رہی ہے۔ ضروری نہیں کہ یہ بات لڑکی نے اپنے باپ سے حضرت موسیٰ کی پہلی ملاقات کے وقت ہی کہہ دی ہو۔ غالب گمان یہ ہے کہ اس کے والد نے اجنبی مسافر کو ایک دو روز اپنے پاس ٹھہرا لیا ہوگا اور اس دوران میں کسی وقت بیٹی نے باپ کو یہ مشورہ دیا ہوگا۔ اس مشورے کا مطلب یہی تھا کہ آپ کی کبرِ سنی کے باعث مجبوراً ہم لڑکیوں کو کام کے لیے نکلنا پڑتا ہے۔ ہمارا کوئی بھائی نہیں ہے کہ باہر کے کام سنبھالے۔ آپ اس شخص کو ملازم رکھ لیں، مضبوط آدمی ہے، ہرطرح کی مشقت کرے گا اور بھروسے کے قابل آدمی ہے۔
16: ان لڑکیوں نے حضرت موسیٰ کو امین بھی کہا تھا۔ مفسرینِ کرام کہتے ہیں کہ اس کی وجہ یہ ہے کہ جب انہیں بلانے کے لیے ایک لڑکی گئی تھی تو انہوں نے کہا تھا کہ آپ میرے پیچھے چلیں اور جدھر مڑنا ہو ادھر کنکری مار کراشارہ کردیں۔ اس سے بڑھ کر عفت وپاکدامنی کیا ہوسکتی ہے کہ راستہ بتانے میں بھی زبان کا استعمال نہ کیاجائے اور نہ ہی نظروں کے سامنے چلا جائے بلکہ پیچھے چلتے ہوئے جدھر مڑنا ہوا اس طرف کنکری پھینک کر اشارہ کردیا جائے۔
17: حضرت موسیٰ کی عظمت اس بات سے بھی نمایاں ہوتی ہے کہ آغازِ قصہ میں بھی ان کا سابقہ ان لڑکیوں سے پڑا تھا اور اس کے بعد بھی، لیکن ان کی کل گفتگو ہمیشہ بےحد مختصر رہی۔ لیکن بعدازاں جب ان کا سامنا ان کے والد سے ہوا تب بات ایک دو جملوں میں نہیں سمیٹی گئی، بلکہ پورا واقعہ اور پورا ماجرا ان کے گوش گزار کرایا گیا۔ قرآن کے الفاظ اس بارے میں یہ ہیں:
(فَلَمَّا جَاء ہُ وَقَصَّ عَلَیْہِ الْقَصَصَ قَالَ لَا تَخَفْ نَجَوْتَ مِنَ الْقَوْمِ الظَّالِمِیْن)
موسیٰ جب اس کے پاس پہنچا اور اپنا سارا قصہ سنایا تو اس نے کہا: کچھ خوف نہ کرو، اب تم ظالم لوگوں سے بچ نکلے ہو۔