زبان کی آفتیں

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
زبان کی آفتیں
مولانا ناصر محمود
یہ زبان جو اللہ تعالیٰ نے ہمیں عطا فرمائی ہے اس پر ذرا غور کریں کہ یہ کتنی عظیم نعمت ہے۔ بندہ اس کا کما حقہ شکر ادا نہیں کر سکتا۔ یہ زبان پیدائش سے لے کر مرتے دم تک انسان کا ساتھ دے رہی ہے۔نہ اس کی سروس(Service) کی ضرورت نہ پٹرول کی ،نہ اوورہالنگ کی۔ انسان کا ساتھ دیتے چلی جارہی ہے۔یہ زبان ہماری ملکیت نہیں بلکہ ہمارے پاس امانت ہے۔ جب یہ امانت ہے تو پھر اس کو اللہ کی رضا کے مطابق استعمال کیاجائے۔
یہ نہ ہو کہ جو دل میں آیا بک دیا بلکہ جو بات اللہ کے احکام کے مطابق ہے وہ بات بولی جائے۔ زبان ہی سے آدمی جنت کا مستحق بنتاہے اور زبان ہی سے دوزخ کا بھی مستحق بن جاتاہے۔ اس لئے زبان کی بہت اہمیت ہے اور ہر اہم و قیمتی چیز کی حفاظت کرنی پڑتی ہے ورنہ وہ اپنی اہمیت کھو دیتی ہے۔ زبان کی حفاظت اور اس کا صحیح استعمال انتہائی ضروری ہے۔
اسی لئے قرآن مجید اور احادیث رسول ﷺ میں زبان کی حفاظت اور اس کے صحیح استعمال کی بڑی تاکید یں آئی ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔
اِذْ یَتَلَقَی الْمُتَلَقِّیٰنِ عَنِ الْیَمِیْنِ وَعَنِ الشِّمَالِ قَعِیْد(16) مَا یَلْفِظُ مِنْ قَوْلٍ اِلَّا لَدَیْہِ رَقِیْبُٗ عَتِیْد(17)
ترجمہ: اس سے لیتے ہیں دو لینے والے ایک داہنے بیٹھا ایک بائیں۔کوئی بات وہ زبان سے نہیں نکالتا کہ اس سے پہلے وہ لکھ لی جاتی ہے۔ ایک تیار بیٹھا ہوا محافظ لکھ لیتاہے۔
(سورہ ق ٓ 50/16،17)
اللہ تبارک و تعالیٰ سب جانتاہے صرف زبان سے بات کرنا ہی نہیں بلکہ سوچ کو بھی جانتاہے۔ ہر انسان کے ساتھ دو فرشتے ہیں جو ہر بات لکھتے ہیں۔ یہاں تک کہ مریضوں کا کراہنا بھی لکھا جاتاہے۔ اچھی بات دائیں طرف والا اور بری بات بائیں والا فرشتہ لکھتاہے۔(سوائے پیشاب پاخانہ کی حالت میں یا بیوی کے ساتھ وقت خاص میں) یہ فرشتے الگ ہو جاتے ہیں (اسی لئے اس وقت بات کرنا ممنوع ہے)۔نیکی والا فرشتہ ایک نیکی کا دس لکھتاہے بدی والا ایک کی ایک ہی لکھتاہے۔ بندہ توبہ کر لے تو گناہ مٹ جاتا ہے بندہ مومن کے مرنے کے بعد وہ دونوں فرشتے قیامت تک اس کی قبر پر تسبیح وتحلیل کرتے رہتے ہیں جس کا ثواب اس بندے کو ملتاہے۔
زبان کو گناہ کی باتوں سے بچاؤ:
زبان کو بات چیت، بیان و احکام میں ہمیشہ گناہوں کی باتوں سے بچانا ضروری ہے۔ مثلاً حرام کو حلال اور حلال کو حرام قراردے دینا، کسی کو تکلیف پہنچانا۔
قرآن پاک کا ارشاد ہے۔ ترجمہ: اور نہ کہو اسے جو تمہاری زبانیں جھوٹ بیان کرتی ہیں، یہ حلال ہے یہ حرام ہے کہ اللہ پر جھوٹ باندھو۔ بے شک جو اللہ پر جھوٹ باندھتے ہیں ان کا بھلا نہیں۔
(سورہ نحل، آیت 116)
آج کل بعض لوگ حلال چیزوں کو حرام قرار دیتے ہیں مثلاً ایصال ثواب ، وسیلہ شرعیہ ، تصوف و سلوک وغیرہ ، جو لوگ ناجائز قرار دیتے ہیں ان کو اس آیت کے پیش نظر اپنا حکم معلوم کرلینا چاہئے کیوں کہ قرآن پاک اور حدیث پاک میں کہیں بھی ان چیزوں کو حرام قرار نہیں دیا گیا ہے۔ تو اب لوگوں کو یہ حق کہاں سے مل گیا کہ اللہ پر افترا کرکے حلال چیزوں کو حرام قرار دیتے ہیں۔ اسی طرح آج بہت سے لوگ حرام چیزوں کو حلال قرار دے کر بھی بہت بڑا گناہ کرتے ہیں اور اللہ پر افترا باندھتے ہیں۔ مثلاً سود، رشوت، جوا، ناجائز کھیل تماشے ، شرعی ضرورت کے بغیر فوٹو کھنچوانا وغیرہ۔ آجکل ان سب کا بازارخوب گرم ہے اور کہنے پر طرح طرح کے حیلے بہانے نکالتے ہیں۔ ایسے لوگ بھی اس آیت مبارکہ میں داخل ہیں۔ آجکل لوگوں کی عادت ہے کہ کسی سے ناراض ہوئے ،غصہ آیا اور لعنت ملامت شروع کردی۔ فلاں پر اللہ کی لعنت ، فلاں پر لعنت۔ آج کل یہ بیماری بلکہ وبا عام ہے۔ حالانکہ ہم کو نہیں معلوم کہ یہ ہماری بھیجی ہوئی لعنت کا کیا حشر ہوتاہے۔حضور ﷺ نے فرمایا: مومن نہ لعن کرنے والا ہوتا ہے نہ لعنت کرنے والا ، نہ فحش بکنے والا بیہودہ ہوتاہے۔
(ترمذی)
رحمت عالم ﷺ نے فرمایا جو لعنت کرتے ہیں وہ قیامت کے دن نہ گواہ ہوں گے نہ کسی کے سفارشی۔
(صحیح مسلم)
اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا مومن کو یہ نہ چاہئے کہ لعنت کرنے والا ہو۔
(ترمذی)
نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جب بندہ کسی چیز پر لعنت کرتاہے تو وہ لعنت آسمان کو جاتی ہے۔ آسمان کے دروازے بند کر دئے جاتے ہیں۔ پھر دائیں بائیں جاتی ہیں۔ جب کہیں راستہ نہیں پاتی تو اس کی طرف آتی ہے جس پر لعنت بھیجی گئی۔ اگراسے اس کا اہل پاتی ہے تو اس پر پڑتی ہے ورنہ بھیجنے والے پر آجاتی ہے۔
(ابو داؤد شریف)
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ایک شخص کی چادر کو ہوا کے تیز جھونکے لگے۔ اس نے ہواپر لعنت کی۔ حضور نے فرمایا کہ ہوا پر لعنت نہ کرو،وہ خدا کی طرف سے مامور ہے۔ اور جو شخص ایسی چیز پر لعنت کرتاہے جو لعنت کی اہل نہ ہو تو لعنت اسی پر لوٹ آتی ہے۔
(بحوالہ کشف القلوب جلد۳صفحہ280،ترمذی شریف(
زبان اللہ کی امانت ہے:
حضرت ابو ہریرہ روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جو شخص اللہ پر اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہو اس کو چاہئے کہ یا تو وہ اچھی اور نیک بات کہے یا خاموش رہے۔ دوسری روایت بھی ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے حضور ﷺ سے سنا ،آپ نے فرمایا کہ ایک انسان سوچے سمجھے بغیر جب کوئی کلمہ زبان سے کہہ دیتاہے تو وہ کلمہ اس شخص کو جہنم کے اندر اتنی گہرائی تک گرا دیتاہے جتنا مشر ق اور مغرب کے درمیان فاصلہ اور بُعد(دوری) ہے۔
(صحیح بخاری،کتاب الرقاق، باب حفظ اللسان(
زبان جہنم میں لے جانے والی ہے:
ایک حدیث پاک میں سرکار دوجہاں ﷺ نے فرمایا کہ جتنے لوگ جہنم میں جائیں گے ان میں اکثریت ان لوگوں کی ہوگی جو اپنی زبان کی کرتوت کی وجہ سے جہنم میں جائیں گے۔ مثلاً جھوٹ بول دیا، غیبت کردی ، کسی کا دل دکھا یا، کسی کی دل آزاری کی، دوسروں کے ساتھ غیبت میں حصہ لیا، کسی کی تکلیف پر خوشی منائی ، زیادہ باتیں کیں۔ جب یہ گناہ کے کام کئے تو اس کے نتیجے میں وہ جہنم میں چلا گیا۔
(ترمذی، کتاب الایمان، باب ماجاء فی حرمۃ الصلاۃ، حدیث نمبر2616)
ایک بڑی پیاری حدیث پاک ہے۔ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا: ا
ِنَّ اللّٰہَ تَعَالیٰ کَرِہَ لَکُمْ ثَلَاثَۃً قِیْلَ وَ قَالَ وَ اِضَاعَۃَ الْمَالِ وَ کَثْرَتُ السُّوَال
اللہ پاک تین لوگوں کو سخت ناپسند فرماتاہے۔
(۱)زیادہ باتیں کرنے والے کو(۲)فضول خرچی کرنے والے کو (۳)زیادہ سوال کرنے والے کو۔بیہقی نے حضرت عمر بن حصین سے روایت کی ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا کہ سکوت پر قائم رہنا ساٹھ برس کی عبادت سے افضل ہے۔
ترمذی شریف میں ابو سعید خدری سے روایت ہے حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا: ابن آدم جب صبح کرتا تو تمام اعضا ء زبان کے سامنے عاجزانہ یہ کہتے ہیں کہ تو خدا سے ڈر کہ ہم سب تیرے ساتھ وابستہ ہیں اگر تو سیدھی رہی تو ہم سیدھے رہیں گے اور اگر تو ٹیڑھی ہوگئی تو ہم سب ٹیڑھے ہوجائیں گے۔
(ترمذی، حدیث نمبر2407)
یہ زبان جو اللہ تعالیٰ نے ہمیں عطا فرمائی ہے اگر اس کو صحیح استعمال کریں اس کو قابو میں رکھیں،بے قابو نہ چھوڑیں۔ اسی لئے کہا گیا کہ زبان سے یا تو صحیح بات بولو ورنہ خاموش رہو۔ اس لئے کہ خاموشی اس سے ہزار درجہ بہتر ہے کہ آدمی غلط بات زبان سے نکالے۔ اسی وجہ سے زیادہ باتیں کرنے سے منع کیا گیا ہے۔ نہ صرف منع کیا گیا ہے بلکہ اللہ پاک ایسے شخص کو ناپسند فرماتاہے جیساکہ اوپر حدیث پاک آپ پڑھ چکے ہیں۔
اگر انسان زیادہ بولے گا تو زبان قابو میں نہیں رہے گی۔کچھ نہ کچھ گڑبڑ ضرور ہوگی اور اس کے نتیجے میں انسان گناہ میں مبتلا ہوجائے گا۔ اس لئے ضرورت کے مطابق بولو، زیادہ نہ بولو۔ جیسے ایک بزرگ کا قول ہے کہ پہلے بات کو تولو پھر بولو۔ جب تول تول کربولو گے تو یہ زبان قابو میں آجائے گی۔ صحابہ کرام اور صوفیائے کرام نے بھی زبان کی حفاظت کو خوب اہمیت دی ہے۔
حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ جو انبیاء کرام کے بعد سب سے افضل انسان ہیں ،وہ ایک مرتبہ اپنی زبان کو پکڑ ے بیٹھے تھے اور اس کو مروڑ رہے تھے۔ لوگوں نے پوچھا کہ ایساکیوں کر رہے ہیں؟انہوں نے جواب دیا:ان ہذا وری الموارد۔ ترجمہ: اس زبان نے مجھے ہلاکتوں میں ڈال دیا ہے، اس لئے اس کو قابومیں کرنا چاہتا ہوں۔
(موطا امام مالک ،کتاب الکلام باب ماجاء فی مایخاذ من اللسان)
بعض روایات مروی ہیں کہ آپ منہ میں کنکریاں ڈال کر بیٹھ گئے تاکہ بلا ضرورت زبان سے بات نہ نکلے۔ زبان ایسی چیز ہے کہ اس کے ذریعہ سے انسان جنت بھی کماسکتاہے اور دوزخ بھی کما سکتا ہے۔
زبان کو بہرحال قابو میں کرنے کی ضرورت ہے تاکہ یہ بیجا استعمال نہ ہو۔ اس سے بچنے کا طریقہ یہی ہے کہ انسان زیادہ باتیں کرنے سے پرہیز کرے۔ اس لئے انسان جتنا زیادہ کلام کرے گا اتنا ہی زیادہ گناہوں میں مبتلا ہوگا۔
ہمارے معاشرے میں زبان کے غلط استعمال کی جو وبا چل پڑی ہے یہ بہت خراب اور خطرناک بات ہے۔ دوستوں کو بلالیا کہ آنا ذرا بیٹھ کر گپ شپ کریں گے۔ اب اس گپ شپ کے اندر جھوٹ بولا جارہاہے ، غیبت ہورہی ہے،دوسروں کی برائی ہورہی ہے، دوسروں کی نقل اتاری جارہی ہے۔ اس طرح کی اڈہ بازی میں نہ جانے کتنے گناہ ہورہے ہیں۔
لہٰذا زبان کی آفات، خرابی، فحش گوئی، دشنام طرازی، زبان درازی کی لعنت، مسخرہ پن، فضول گوئی ،چغلی ، حسد وغیرہ وغیرہ جتنی آفتیں ہیں زبان کی ہی وجہ سے ہیں۔ بزرگوں نے کہا ہے کہ زبان شکر بھی کھلائے اور جوتے بھی کھلائے۔ حضرت ہشام بن عمرص سے مروی ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا کہ جو شخص غلام کو طمانچہ مارے اس کا کفارہ غلام کو آزاد کرنا ہے۔ جو شخص اپنی زبان کی حفاظت کرے گا اس کو عذاب سے نجات دی جائے گی۔ جو اللہ سے معذرت کرے گا معذرت قبول کی جائے گی۔ مومن کو چاہئے کہ پڑوسی اور مہمان کا اکرام کرے ،زبان کی ترشی سے بچائے اور پڑوسی سے بھلائی کی بات کرے ورنہ خاموش رہے۔
زبان کی گھٹتی قیمت:
نہایت ہی افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ آج کے دور میں زبان کی قدر وقیمت گھٹتی جارہی ہے اور اس کے صحیح استعمال سے بہت غفلت برتی جارہی ہے۔ حتیٰ کہ اب اہل علم ، دین کے ذمہ داران بھی اس سلسلے میں بے توجہی کا شکار ہیں۔ اس لئے سب سے پہلا کام یہ ہے کہ اس زبان کو قابو میں کرنے کی اہمیت دل میں پیدا کریں، خوفِ خدا پیدا کریں، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسو ل اللہ ﷺ نے فرمایا: جو شخص اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہو وہ خیر کی بات کرے،ورنہ خاموش رہے،اور جو شخص اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہووہ اپنے پڑوسی کی عزت کرے، اور جو شخص اللہ پر اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہو وہ اپنے مہمان کا اکرام کرے‘‘
(بخاری شریف حدیث نمبر 6475،6138،مسلم شریف : 47)
حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ خیر کی بات کرنا،پڑوسی کے حقوق ادا کرنا اور مہمان نوازی کرنا…. یہ سارے اعمال ایمان میں شامل ہیں۔ خیر کی بات کرنا زبان کی اہمیت کو بتاتا ہے اور خاموش رہنے کی تلقین زبان کی اہمیت کو اجاگرکرتی ہے۔
اپنا احتساب کریں:
کیا آپ کے نزدیک آپ کی زبان ہر قسم کی ذمہ داری سے آزاد اور مستثنیٰ ہے؟ کیا آپ اس بات کے منکر ہیں جو قرآن میں اللہ نے فرمایا کہ انسان کوئی بات بولتا ہے مگر یہ کہ اس کے لئے ایک فرشتہ تیار رہتا ہے لکھنے کے لئے۔ (القرآن سورہ ق)
کیا آپ کو اطمینان ہے کہ آپ کی زبان سے جو کچھ نکل رہا ہے اس پر کسی کی گرفت نہیں ہوگی؟