عقیدۃ توحید: وجود باری تعالی

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
وجود باری تعالی :
کوئی بھی چیز خود بخود وجود میں نہیں آتی بلکہ وہ کسی بنانے والے کی محتاج ہوتی ہے اس لیے اس بات پر ایمان لانا ضروری ہے کہ یہ کائنات بھی خود بخود وجود میں نہیں آئی بلکہ اس کو بنانے والی بھی کوئی ذات موجود ہے اور وہ "اللہ تعالی" کی ذات ہے۔
توحید باری تعالی:
اللہ تعالی اپنی ذات اور صفات میں یکتا ہے کسی کے باپ ہیں نہ بیٹے ، کائنات کا ہر ذرہ ا ن کا محتاج ہے وہ کسی کے محتاج نہیں اور کل جہان کے خالق و مالک ہیں۔
تقدیس ذات و صفات باری تعالیٰ:
اللہ تعالی اجسم ، اعضاء جسم (جیسے ہاتھ ، چہرہ ، پنڈلیاں اور انگلیاں وغیرہ ) اور لوازم جسم (جیسے کھانے ، پینے ، نیز اترنے چڑھنے وغیرہ ) سے بھی پاک ہیں قرآن و حدیث میں جہاں اللہ تعالی کی طرف اعضاء جسم یا مخلوق کی صفات کی نسبت ہے ، وہاں ظاہری معانی بالاتفاق مراد نہیں ہیں بلکہ وہ اللہ تعالی کی بعض صفات کی تعبیرات ہیں پھر متقدمین کے نزدیک وہ صفات متشابہات میں سے ہیں ان کی حقیقت اور مراد کو سوائے اللہ تعالی کے کوئی نہیں جانتا جبکہ متاخرین کے نزدیک ان کی حقیقت و مراد درجہ ظن میں معلوم ہے جیسے ید اللہ سے مراد قدرت باری تعالی اور اترنے سے مراد رحمت کا متوجہ ہونا ۔
صدق باری تعالیٰ:
اللہ تعالی کا کلام سچا اور واقع کے مطابق ہے اور اس کے خلاف عقیدہ رکھنا بلکہ اللہ تعالی کے کلام میں جھوٹ کا وہم رکھنا بھی کفر ہے ۔
عموم قدرت باری تعالیٰ:
اللہ تعالی اپنے کئے ہوئے فیصلوں کو تبدیل کرنے پر قادر ہیں اگرچہ وہ اپنے فیصلوں کو بدلتے نہیں ۔
تقدیر باری تعالیٰ:
اس عالم میں جو کچھ ہوتا ہے یا ہو گا وہ سب کچھ ہونے سے پہلے ہی اللہ تعالی کے علم میں ہے اور اللہ تعالی اپنے علم کے موافق ہر چیز کو پیدا فرماتے ہیں تقدیر علم الہی کا نام ہے نہ کہ امر الہی کا ۔
اللہ کا عدل و فضل:
اللہ تعالیٰ جس طرح بندوں کا خالق ہیں بندوں کے افعال کے بھی خلق ہیں البتہ بندوں کے بعض افعال اضطراری ہیں جن میں بندے کا ارادہ ، اختیار ، خواہش ورغبت کا دخل نہیں ہوتا اور کچھ افعال اختیاری ہیں جن میں بندے کے طبعی شوق و رغبت یا طبعی نفرت و کراہت کا دخل ہوتا ہے ان اختیاری افعال میں بندہ اپنے اختیار سے جو نیک کام کرے گا اور جو برا کام کرے گا اس پر اسے سزا ملے گی یہ اللہ کا عدل ہے البتہ اللہ اپنے فضل سے جس گناہ گار کو چاہے معاف کر دے اللہ ہی سے ہدایت کی مغفرت مانگنی چاہیے ۔
اللہ تعالی مسبب الاسباب ہیں :
ہر چیز کا وجود اور عدم اللہ کے قبضہ قدرت میں ہے یہر چیز کی کیفیت ، خاصیت اور اس کی تاثیر کا ہونا بھی اسی کے اختیار میں ہے وہ مسبب الاسباب ہے ، کائنات کے اسباب اسی کی مخلوق ہیں اور اسباب کی سببیت بھی اس کی مخلوق اور اس کی مشیت کے تابع ہے دنیا کی کوئی چیز اپنی ذات میں مؤثر نہیں نہ لطف و ثواب نہ قہر و عذاب ۔ وہ جسے چاہے عزت دے وہ اس کی رحمت ہے اور جسے چاہے ذلت و مصیبت دے اور یہ اس کی حکمت ہے وہ مالک الملک ہے جسے چاہے اختیار اور اقتدار دے اور جس سے چاہے چھین لے ۔
شرک:
شرک یہ تو ہے کہ کسی کو اللہ کے برابر سمجھے ساور اس کے مقابل جانے لیکن شرک بس اسی پر موقووف نہیں ہے بلکہ شرک یہ بھی ہے جو چیزیں اللہ نے اپنی ذآت والا صفات کے لیے مخصوص فرمائی ہیں اور بندوں کے لیے بندگی کی علامتیں قرار دی ہیں انہیں غیروں کے لیے بجا لایا جائے شرک کی کئی صورتیں ہیں ۔
1: اللہ تعالی کی ذات میں کسی کو شریک ٹھرانا ۔ مثلا ً عیسائیوں اور مجوسیوں کی طرح دو یا زائد خدا ماننا ۔
2:ٍ کسی بھی بندے کے لیے ان غیب کی باتوں کا علم اللہ تعالی کی عطاء سے ماننا جن کے بارے میں قرآن و حدیث میں تصریح ہے کہ اللہ تعالی کے سوا ان کو کوئی نہیں جانتا ۔ مثلاً یہ علم کہ قیامت کب آئے گی ؟ وغیرہ۔
3: کسی بندے میں تصرف و قدرت کو اللہ تعالی کی عطاء سمجھے اور ساتھ یہ مانے کہ اس کا کسی کو نفع یا نقصان پہنچانا اللہ تعالی کی مرضی اور ارادے کا پابند ہے رکوع سجدہ وغیرہ جیسے افعال کسی مخلوق کے لیے عبادت کے طور پر نہیں بلکہ صرف تعظیم کے طور پر کرنا اس کو " فسقیہ شرک " کہتے ہیں پھر شریک کرنے میں نبی ، ولی ، جن ، شیطان وغیرہ سب برابر ہیں جس سے بھی یہ معاملہ کیاجائے گا شرک ہو گا اور کرنے مشرک ہو گا ۔
چند کفریہ باتیں :
عقیدہ:
ایمان اس وقت درست ہوتا ہے جب کہ اللہ اور رسول اللہ ﷺ کی باتوں کو درست سمجھے اور ان سب کو مان لے اللہ اور رسول اللہ ﷺ کی کسی بات میں شک کرنا یا اس کو جھٹلانا یا اس میں عیب نکالنا یا اس میں مذاق اڑانا ان سب باتوں سے ایمان ختم ہو جاتا ہے ۔
عقیدہ:
قرآن و حدیث کے کھلے واضح مطلب کو نہ ماننا اور اس میں اپنے مطلب کے معانی گھڑنا بددیانتی کی علامت ہے ۔
عقیدہ:
گناہ کو حلال سمجھنے سے ایمان جاتا رہتا ہے اول تو گناہ کے قریب بھی نہیں جانا چاہیے لیکن اگر بد بختی سے اس میں مبتلا ہیں تو اس گناہ کو گناہ ضرور سمجھیں اور اس کی برائی اور اس کا حرام ہونا دل سے نہ نکالیں ورنہ ایمان سے ہاتھ دھو بیٹھیں گے ۔
عقیدہ :
گناہ چاہے جتنا بڑا ہی کیوں نہ ہو جب تک اس کو بُرا سمجھتا رہے ایمان نہیں جاتا البتہ کمزور ہو جاتا ہے ۔
عقیدہ:
اللہ تعالی سے بے خوف و نڈر ہو جانا یا ناامید ہو جانا کفر ہے مطلب یہ ہے کہ یہ سمجھ لین اکہ آخرت میں ہر حال میں مجھے بڑے درجات ملیں گے کوئی پکڑ نہ ہو گی یا یہ سمجھنا کہ میری ہرگز کسی طرح بخشش نہ ہو گی کفریہ غلطی ہے مسلمان کو چاہیے کہ خوف اور امید کے درمیان میں رہے ۔
عقیدہ:
کسی سے غیب کی باتیں پوچھنا او ران کا یقین کر لینا کفر ہے ۔
عقیدہ:
یہ عقیدہ رکھیں کہ غیب کا حال سوائے اللہ تعالی کے کوئی نہیں جانتا البتہ انبیاء کرام علیہم السلام کو وحی سے اور اولیاء اللہ کو کشف اور الہام سے اور عام لوگوں کو نشانیوں سے بعض باتیں معلوم ہو جاتی ہیں لیکن یہ باتیں علم الغیب نہیں بلکہ انباء الغیب(غیب کی خبریں) کہلاتی ہیں ۔
عقیدہ :
کسی کا نام لے کر کافر کہنا یا لعنت کرنا بڑا گناہ ہے ۔ ہاں یوں کہہ سکتے ہیں کہ ظالموں پر لعنت ، جھوٹوں پر لعنت ہاں جن لوگوں کا نام لے کر اللہ اور رسول ﷺ نے لعنت کی ہے یا ان کے کافرہونے کی اطلاع دی ہے ان کو کافر یا ملعون کہنا گناہ نہیں ۔