محرم اور مذہبی و معاشرتی ذمہ داریاں

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
محرم اور مذہبی و معاشرتی ذمہ داریاں
متکلم اسلام مولانا محمد الیاس گھمن
اسلام میں امن کو مرکزی حیثیت حاصل ہے ، نفاذ اسلام کا مقصد قیام امن ہے۔ اس لیے ہر مسلمان پر لازم ہے کہ اسلام کی بنیادی روح کو اچھی طرح سمجھے۔ قبل از اسلام امن کا فقدان تھا ، ظلم و جبر نے انسانیت کو بدامنی کی دلدل میں گردن تک دھنسا رکھا تھا۔
اسلام آیا !!
پیغمبر اسلام نے انسانیت کی ڈوبتی ناؤ کو امن کے ساحل پر لگایا۔ انسانیت کو انسانیت کا درس دیا۔ پیار ، انس ، مودت ومحبت ، اخوت و بھائی چارگی، حسن سلوک اور رواداری کو فروغ دینے کے لیے خدائی دستور قرآن کریم دیا۔ قرآنی احکامات کی تشریح بھی خود فرمائی تاکہ حجت تام ہو جائے۔
چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر موقع پر امن و امان پر زور دیا۔ ظلم و جبر ، وحشت و سربریت اور خوف و ہراس کو دور کرنے کے لیے وحی الہٰی کے مطابق ایسامنصفانہ اور عادلانہ نظام دیا جس میں ظالم کو ظلم سے روک کر مظلوم کی داد رسی کی گئی ہے۔ آپ کا دیا ہوا نظام ہر دور میں امن کا ضامن رہا ہے اور تا قیامت اسی نظام سے امن وابستہ ہے۔
اس لیے آج بھی اسی نظام سے رہنمائی لینے کی ضرورت ہے۔ محرم الحرام کا شمار ان مہینوں میں ہوتا ہے جن کی عظمت و تقدس قرآن وحدیث اور معتبر تاریخ سے ثابت ہے۔ یہ عبادت ، مالی وسعت ،فراخ دلی اورتحمل برداشت کا مہینہ ہے۔
اس لیے محرم الحرام کے تقاضوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے ہم سب نے مل کر اس نئے اسلامی سال کا خیر مقدم کرنا ہے اور یہ عزم کرنا ہے کہ فرقہ واریت ، دہشت گردی ، تخریب کاری اورعدم برداشت کی حوصلہ شکنی کر کے اتحاد و اتفاق ، امن و امان اور تحمل کو فروغ دیں گے۔
جہاں تک ہمارا ذاتی مشاہدہ ہے سابقہ سال محرم الحرام مجموعی طور پر پُر امن رہا جس کی وجوہات انتظامیہ کی غیر جانبدارانہ امن پالیسی ، تمام مکاتب فکر کے ذمہ دار سنجیدہ مذہبی پیشواؤں کی محنت اور عوام میں بڑھتے ہوئے اخلاقی شعور نے کئی عشروں پر مشتمل محرم کی ناگفتہ بہ صورتحال کو یکسر بدلنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔
اس بار بھی ہمیں امید ہے کہ انتظامیہ ، علماء اور عوام مل کر محرم الحرام کے تقدس کو پامال ہونے سے بچائیں گے۔ لڑائی جھگڑا ،خون خرابہ اور باہمی تشدد پر قابو پائیں گے۔ اور پُر امن طریقے سے گزارنے کی مضبوط حکمت عملی کو اپنائیں گے۔
کافی عرصے سے ہم اجتماعی طور پر یہ پرزور مطالبہ کر رہے تھے کہ تمام مکاتب فکر کے ذمہ دار مذہبی قائدین اپنے عوام کو اس بات کا پابند کریں کہ عبادت کی ادائیگی عبادت خانوں میں ہی کی جائے۔
الحمد للہ تجربات کی روشنی میں خود انتظامیہ نے اس بات کو اچھی طرح محسوس کیا اور اس کے عملی فوائد و نتائج کو اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ ہمارے اس مطالبے کو تسلیم کرنے میں ملک کا امن و امان بحال ہوا ہے۔
اگر ہمارے اس معقول مطالبے کو قانونی شکل دی جائے تو یقیناً ملک سے بدامنی ، فرقہ واریت ، دہشت گردی اور تخریب کاری ختم ہو سکتی ہے۔ اللہ تعالی ہمارے اس پیارے ملک کو اندرونی و بیرونی سازشوں سے محفوظ فرمائے اورسالمیت و استحکام عطا فرمائے۔
آمین یارب العالمین