مسلمان خواتین کے علمی کارنامے

User Rating: 5 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar ActiveStar Active
 
مسلمان خواتین کے علمی کارنامے
فاطمہ طیب
یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ ہر قوم کی تعمیر و ترقی کا انحصار اس کی تعلیم پر ہوتا ہے۔ تعلیم ہی وہ واحد ذریعہ ہے کہ جس کے سبب قوم کے احساس و شعور کو اجاگر کیا جاسکتا ہے۔
اسلام میں تعلیم و تعلم کی قدر و منزلت بہت زیادہ ہے۔ اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے جس میں زندگی گزارنے کے ہر پہلو پر واضح و روشن تعلیمات موجود ہیں۔ دین اسلام میں علم کو صرف حق ہی نہیں بلکہ واجب قرار دیا گیاہے۔علم مومن کے قلب میں ایک نور ہے جو فانوس نبوت کے چراغ سے مستفاد ہوتا ہے اور تخلیق انسانی کے ظہور کے ساتھ ہی اﷲ رب العالمین نے تمام علوم کی تعلیم ابوالبشر سیدنا آدم صفی اﷲ علی نبینا وعلیہ الصلوٰۃ والسلام کو فرمائی اور پھر یہ علوم نسل انسانی میں منتقل ہوتے رہے۔حضرت عبداﷲ بن مبارک رضی اﷲ عنہ سے کسی نے پوچھا، آدمی کون ہیں تو آپ نے فرمایا ’’عالم‘‘ پھر پوچھا بادشاہ کون ہیں تو آپ نے فرمایا ’’زاہد‘‘ پھر پوچھا کمینے کون لوگ ہیں؟ فرمایا ’’دین کو فروخت کرنے والے‘‘
معلوم ہوا کہ جو خاصہ انسان و چوپایوں میں تمیز کرتا ہے وہ علم ہے۔ انسان کو شرف علم کے سبب سے حاصل ہے۔ انسان کی شرافت نہ تو جسم کے زور کی وجہ سے ہے کیونکہ زور تو اونٹ میں زیادہ ہے، نہ ہی طویل القامت ہونے کی وجہ سے کیونکہ ہاتھی اس سے بڑا ہے، نہ ہی بہادری کی وجہ سے کہ درندے اس سے زیادہ بہادر ہیں، نہ ہی کھانے کے سبب سے کہ بیل کا پیٹ اس سے زیادہ بڑا ہے۔ نہ ہی صحبت کے سبب کہ چھوٹی سی چڑیا اس سے زیادہ بڑی ہے، بلکہ اسے شرافت و بزرگی علم کے سبب سے ہے اور یہ اسی لئے پیدا کیا گیا۔انسان کو ملائکہ پر شرف و فضیلت علم کی بدولت دی گئی۔ علم ایک نور ہے کہ جس کے سبب سے اﷲ رب العزت نے صاحب علم کو غیر صاحب علم پر واضح الفاظ میں فضیلت عطا فرمائی ہے:
قل ہل یستوی الذین یعلمون والذین لایعلمون
اے محبوب علیہ الصلوٰۃ والتسلیم فرمادیجئے! کیا عالم و جاہل برابر ہوسکتے ہیں؟
یرفع اﷲ الذین امنوا منکم والذین اوتوا العلم درجٰتاﷲ رب العزت ایمان والوں کے اور تم میں سے جنہیں علم دیا گیا، درجات بلند فرمائے گا
الغرض فضائل علم اظہر من الشمس ہیں اور کسی پر بھی مخفی نہیں یہ ایک ایسی لازوال دولت ہے کہ جس کا حصول وجہ امتیاز و فضیلت و سعادت دارین ہے۔
حضور اکرمﷺ نے فرمایا:اس ذات پاک کی قسم جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے، جوکوئی طالب علم، علم کے دروازے پر علم سیکھنے جاتا ہے اس کے لئے ہر قدم پر اﷲ رب العالمین جنت میں شہر آباد کرتا ہے اور جس زمین پر وہ چلتا ہے وہ زمین اس کے لئے استغفار کرتی ہے۔علم کے ان تمام تر فضائل میں مردوں کے ساتھ عورتیں بھی شامل ہے جس طرح مرد احکام شرعیہ کے مکلف ہیں، اسی طرح عورتیں بھی مکلف ہیں۔
یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ جس طرح مرد اپنا مقصد وجود رکھتا ہے۔ اسی طرح عورت کی تخلیق بھی ایک غایت ہے باعتبار تخلیق عورت بھی مرد کی طرح مکمل بنائی گئی اور بااعتبار اعمال انہیں اجر بھی برابر دیا جائے گا۔ اسی طرح سزا میں بھی برابری کا درجہ دیا گیا ہے۔لہٰذا معلوم ہوا کہ مرد و عورت کی تخلیقی بنیاد ایک ہے۔ تقویٰ وفلاح کا معیار جو مقرر کیا گیا ہے۔ اس میں صنف نازک بھی برابر کی شریک ہے اور یہ بات بھی اظہر من الشمس ہے کہ معاشرے کی فلاح و بگاڑ میں مرد کے ساتھ ساتھ عورت کا بھی رول ہے۔ بلکہ یہ کہنا بے جا نہیں کہ ایک مرد کی تعلیم فقط ایک فرد کی تعلیم ہے جبکہ ایک لڑکی کی تعلیم پورے معاشرے کی تعلیم ہے۔ کیونکہ ماں کی گود ہی پہلی درس گاہ ہوتی ہے اگر وہ تعلیم یافتہ ہوگی تو معاشرے کو بہتر افراد مہیا کرسکے گی۔ یہی وجہ ہے کہ بہت سے ائمہ زمانہ ایام طفولیت سے ہی تقویٰ توکل، ورع وزہد، خشیت وانابت نظر آتے ہیں۔
مگر افسوس کہ ہمارے معاشرے میں دینی تعلیم کا بے حد فقدان ہے۔ اول ہمارے یہاں تعلیم نسواں کو اچھا نہیں سمجھا جاتا۔ ثانیاً اگر تعلیم کے حصول کی اجازت دی جائے تو بھی فقط دنیاوی تعلیم تک محدود رکھا جاتا ہے۔ حالانکہ دینی و دنیاوی دونوں علوم انسان کی ذات کے لئے از حد ضروری ہیں۔ افسوس کہ والدین کی دینی حمیت و غیرت انہیں اس بات پر نہیں ابھارتی کہ ہماری اولاد صدقہ جاریہ ہو بروز قیامت وہ ہمارے لئے شافع ہو۔
تاریخ کے اوراق کھنگالنے سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ مسلمان عورت اپنے ذوق علم کے سبب کبھی بھی مردوں سے پیچھے نہیں رہی بلکہ ایسی عظیم الشان خواتین کا تذکرہ ملتا ہے جو امور خانہ داری کے ساتھ ساتھ جملہ و فنون میں مہارت تامہ و کامل دسترس رکھتی تھیں۔ ایک مسلمان عورت ڈاکٹر، انجینئر، پروفیسر، عالمہ، مورخ شاعرہ،ادیبہ اور محقق سب کچھ ہوسکتی ہے۔
مشاہیر خواتین کے علمی کارناموں پر تاریخ شاہد عدل ہے کہ خواتین اس امت کے رجال پر بھی اپنی علمی وجاہت کے سبب فوقیت لے گئیں جس کی ابتداء امہات المومنین سے ہوتی ہے۔ سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا بلند پایہ محدثہ دو ہزار دو سو احادیث طیبہ کی حافظہ اور ہزاروں صحابہ کبار علیہم الرضوان کی استاد بھی تھیں۔
دین کا تہائی حصہ انہیں کی بدولت امت تک پہنچاہے۔ ام المومنین ام سلمہ رضی اﷲ عنہا سینکڑوں احادیث کی راویہ تھیں۔

اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا 160 احادیث کی راویہ

اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہا 158 احادیث کی راویہ

ام المومنین ام حبیبہ رضی اللہ عنہا 65 احادیث کی راویہ

ام المومنین میمونہ رضی اﷲ عنہا 76 احادیث کی راویہ

ام المومنین حفصہ رضی اﷲ عنہا 60 احادیث کی راویہ

اسماء بنت یزید رضی اللہ عنہا 81احادیث کی راویہ

ام ہانی بنت ابن طالب رضی اللہ عنہا 46احادیث کی روایہ

ام فضل بنت حارث رضی اللہ عنہا 30احادیث کی راویہ

فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا 34 احادیث کی راویہ تھیں۔
یہ تو چند اسمائے گرامی ہیں محدث خواتین کے جنہوں نے علم دین کے فروغ میں اہم کردار ادا کیا۔ اسی طرح خواتین میں تدریس کا آغاز بھی سیدہ عائشہ رضی اﷲ عنہ تعالیٰ عنہا سے ہی ہوا اس کے بعد تابعیات و درجہ بدرجہ خواتین کے علاوہ مرد علماء، فقہاء و صلحاء بھی ان سے علمی فیض حاصل کرتے رہے۔
اسی طرح نعیمیہ بنت علی، ام احمد زینب بنت مکی اور بہت سی دوسری خواتین نے اپنے وقت کے بڑے بڑے مدارس جیسے مدرسہ عزیزیہ میں رہ کر اپنی پوری زندگی علم حدیث کی خدمات میں گزار دی۔ ان کے شاگردوں میں مشہور جرنیل صلاح الدین کے بیٹے احمد بھی شامل ہیں۔حکیم ترمذی اپنے حالات زندگی میں لکھتے ہیں۔ میں نے اپنے لڑکپن میں سات معلمات سے علم حدیث حاصل کیا۔
ابن قیم نے ایسی 22 صحابیات کی تصریح کی ہے جو فقہ و فتاویٰ میں مشہور تھیں۔ شیخ علاؤ الدین حنفی فقیہ مصنف تحفۃ الفقہاء کی صاحبزادی فاطمہ رحمتہ اﷲ علیہا جلیل القدر فقہیہ تھیں۔ ان کے شوہر شیخ علاؤ الدین کاسانی نے تحفۃ الفقہاء کی شرح البدائع الصنائع لکھی۔ شرح لکھنے کے دوران کوئی غلطی ہوجاتی تو وہ اس کی تصحیح کرواتیں فتاویٰ پر ان کے، ان کے والد و شوہر تینوں کی دستخط ہوا کرتے تھے۔
الغرض خواتین کے علمی کارنامے شرق سے غرب تک مشہور و معروف ہیں۔ ہر دور اور ہر صدی میں ایسی خواتین موجود رہی ہیں کہ جن کے علم و فضل کا چار دانگ عالم میں شہرہ رہا ہے اور مخلوق خدا ان سے فیض یاب و مستفیض ہوتی رہی ہے۔
آج ہمارے معاشرے کے ان والدین کو ان نفوس قدسیہ سے سبق حاصل کرتے ہوئے اپنی اولاد کو نت نئے فیشن کی حرص و ہوس سے دور کروا کر علم کی راہوں سے روشناس کروانا چاہئے تاکہ دنیا میں بھی سرخرو ہوسکیں اور آخرت میں رب لم یزل کے حضور حاضر ہونے کے لئے توشہ جمع کرسکیں۔ یاد رہے کہ مغربی تہذیب کا فرنگی فیشن ذریعہ نجات نہیں بلکہ یہ دنیا فانی و ناپائیدار ہے۔
آج کے عمل کا کل رب العالمین کے حضور میں جوابدہ ہونا ہے۔ کیا ہی بہترین توشہ آخرت ہم اولاد کی صورت میں صدقہ جاریہ بنائیں۔ اصل نجات میدان محشر میں سرخروئی کی صورت میں ہی ممکن ہے جن کی بنیاد فقط اعمال صالحہ ہیں۔
نہ دیکھ رشک سے تہذیب کی نمائش کو
کہ سارے پھول یہ کاغذ کہ ہیں خدا کی قسم
وہی ہے راہ تیرے عزم و شوق کی منزل
جہاں ہیں عائشہ و فاطمہ کے نقش قدم
تیری حیات ہے کردار رابعہ بصری
تیرے فسانے کا موضوع ہے عفت مریم