گُفتہ او گُفتہ اللہ بود

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
گُفتہ او گُفتہ اللہ بود
جب افریقہ کے جنگلات میں آفتابِ اسلام نے کرنیں بکھیریں
مولانا محمد کلیم اللہ حنفی
قیروان……مغربی افریقہ کا مشہور شہر ہے ، کافی عرصہ تک اسے افریقہ کا دارالسلطنت اور گورنر افریقہ کی قیام گاہ ہونے کا شرف حاصل رہا ہے۔ 50ھ میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین نے اس کی بنیاد رکھی۔
حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے حضرت عقبہ بن نافع فہری رحمہ اللہ کو افریقہ کا عامل مقرر کیا۔ یہاں ”بَربَر“قوم آباد تھی ، ان میں سے اکثر قبائل حضرت عقبہ بن نافع رحمہ اللہ کے ہاتھ پر حلقہ بگوش اسلام ہوئے۔ اور ان کے ساتھ افریقی ممالک کی فتح میں شریک رہے۔ افریقی ممالک فتح ہو جاتے لیکن چونکہ وہاں لشکر اسلامی کی مستقل چھاؤنی نہیں تھی اس لیے جب امیر لشکر واپس جاتا تو” بَربَر“ قوم اپنے عہد و پیمان توڑ ڈالتی اور دشمنان اسلام کے ساتھ مل کر مسلمانوں کو سخت نقصان دیتی۔
حضرت عقبہ بن نافع رحمہ اللہ نے یہاں حفاظتی نقطہ نظر کے پیش نظر چھاؤنی بنانے کا ارادہ کیا لیکن اس کے لیے جس جگہ کا انتخاب فرمایا وہ دَلدَل اور گُنجان جنگل تھا۔ انسان تو درکنار وہاں سے جانور حتی کہ سانپوں کو بھی مشکلات کے ساتھ درختوں سے ہو کر نکلنا پڑتا تھا۔ امیر لشکر حضرت عقبہ بن نافع رحمہ اللہ کے ہمراہ 18 جلیل القدر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین بھی تھے۔ آپ رحمہ اللہ نے انہیں ساتھ لیا اور اس جنگل میں لے آئے۔ جسے فوجی چھاؤنی بنانا چاہتے تھے۔ وہاں آپ رحمہ اللہ نے یوں اعلان کیا کہ
”یاایتھا الحشرات والسباع نحن اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فارحلوا فانا نازلون فمن وجدناہ بعد قتلناہ۔
اے موذی درندو اور جانورو!ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام یہاں آباد ہونا چاہتے ہیں لہٰذا تم سب یہاں سے چلے جاؤ۔ اگر اس اعلان کے بعد تم میں سے کوئی یہاں ہمیں نظر آگیا تو ہم اسے مار ڈالیں گے۔ “
نامعلوم اس اعلان میں کیا تاثیر تھی کہ درندوں اور جانوروں میں ہلچل مچ گئی۔ جانوروں کے گروہ در گروہ یہاں سے نکلنے لگے ، چنانچہ چشم فلک نے یہ نظارہ کیا کہ شیر ،بھیڑیے اپنے بچوں کو اٹھائے، سانپ اپنے سنپولیوں کو چمٹائے جنگل خالی کر رہے تھے۔ ”بَربَر“ قوم جو اس خوفناک جنگل سے اچھی طرح واقف تھی یہ سب کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھ رہی تھی۔ اسلام کی یہ روشن دلیل ان کی آنکھوں کے راستے دل میں اتر رہی تھی چنانچہ ہزارہا” بَربَر“ اسی موقع پر دولت ایمان سے مالا مال ہوئے۔
حیاتیات اور طبقات الارض کے ماہرین انگشت بدنداں تھے کہ آخر عقبہ بن نافع رحمہ اللہ کے اعلان میں یہ تاثیر کہاں سے پیدا ہوئی جس نے درندوں اور موذی جانوروں کو اطاعت پر آمادہ ہی نہیں بلکہ مجبور کر ڈالا گویا۔

class="poetry">گفتہ او گفتہ اللہ بود

گرچہ از حلقوم عبداللہ بود
 
جب سارے جنگلی جانور جنگل خالی کر کے اپنی منزل کو سدھار گئیے تو مسلمانوں نے وہاں دارالامارت قائم کیا ، اس کے ارد گرد لوگوں نے مکانات تعمیر کیے۔ اس کے ساتھ ہی حضرت عقبہ بن نافع رحمہ اللہ جامع مسجد کی بنیاد ڈالی ، لیکن سمت قبلہ کے بارے کافی متردد تھے۔ کچھ عرصہ تک مسلمانوں نے نماز کی ادائیگی کے لیے تحری )غالب سوچ و بچار(سے کام لیا۔ ایک شب آپ رحمہ اللہ اس بارے فکر مند بیٹھے تھے کہ یکایک آپ کو ایک آواز سنائی دی :”کل صبح تم مسجد میں داخل ہونا تو تم کو تکبیر کی آواز سنائی دے گی تم اس طرف کو چلے جانا جس سمت اور جگہ پر یہ آواز ختم ہو وہاں پر نشان لگانا اور قبلہ کی دیوار قائم کرنا وہ سمت قبلہ اور دیوار قبلہ ہوگی۔ “چنانچہ ایسا ہی ہوا، سمت قبلہ کو متعین کر کے قیروان کی تمام مساجد کو اسی کے مطابق بنایا گیا۔
حضرت عقبہ بن نافع رحمہ اللہ کا گزر ایک مرتبہ ایسے افریقی علاقے سے ہوا جہاں دور دور تک پانی کا نام و نشان نہیں تھا، لشکر اسلامی کو شدت پیاس نے نڈھال کر رکھا تھا ، مسلمان جان بلب تھے۔ آپ رضی اللہ عنہ نے رجوع الی اللہ کیا اور گڑگڑا کر دعائیں مانگیں۔ ابھی آپ دعا سے فارغ بھی نہیں ہوئے تھے کہ آپ کے گھوڑے نے سُم سے زمین کو کریدنا شروع کیا۔ تھوڑی دیر بعد وہاں سے ایک سفید پتھر برآمد ہوا ، جس سے پانی نکلنا شروع ہوگیا۔ حضرت عقبہ بن نافع رحمہ اللہ نے بلند آواز سے اپنے ساتھیوں کو پکارا لوگ دوڑتے ہوئے آئے ،خود بھی پیٹ بھر کر سیراب ہوئے ، اپنی سواریوں کو بھی پانی پلایااور ایک گڑھا کھود کر پانی جمع کر لیا۔ جس جگہ یہ پتھر ظاہر ہوا جس سے پانی نکلا وہ جگہ ”ماء الفرس “کے نام سے منسوب ہے۔
حوالہ جات:
فتح قیروان کا ذکر:اسد الغابہ امام ابن اثیر ج 3 ص 420 تحت عقبہ بن نافع فہری،تاریخ خلیفہ از ابن خیاط ج 1 ص 190 ، تاریخ ابن عساکر ج 11 ص 719
قیروان کی آباد کاری اور جانوروں کا جنگل خالی کرنا :البیان المُغرب از ابن عذاری مراکشی : البدایہ و النہایہ از امام ابن کثیر ج 3 ص 45 ،فتوح البلدان ص 263،تاریخ ابن عساکر ج 11 ص 716
قیروان کی مسجد کا تعین اور سمت قبلہ : فتوح البلدان ص 238 از امام بلاذری
ماء الفرس کا واقعہ:الکامل فی التاریخ ج۶،ص۴۵۱،2: معجم البلدان تذکرہ قیروان ،: اشاعت اسلام از مولانا حبیب الرحمٰن عثمانی دیوبندی رحمہ اللہ