صلائے عام ہے یارانِ” نکتہ چیں “کےلیے

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
صلائے عام ہے یارانِ” نکتہ چیں “کےلیے!!
مرکز اصلاح النساء سرگودھا کے انتظامی، تعلیمی اور تربیتی امور کا جائزہ
مولانا محمد کلیم اللہ حنفی
آج حافظ محمد زبیرکا ایک مضمون بعنوان”لڑکیوں کے مدارس میں ہاسٹل کی شرعی حیثیت “نظر سے گزرا، جس میں موصوف نے بنیادی طور پر دو سوال اٹھائے ہیں اور آخر میں اپنی رائے پیش کی ہے۔
پہلے سوال کا لب لباب یہ ہے کہ علماء کرام کالجوں ،یونی ورسٹیوں میں مخلوط نظام تعلیم پر سخت موقف رکھتے ہیں ، محرم کے بغیر سفر کو حرام بتلاتے ہیں،حجاب اور نقاب میں سخت فتوے دیتے ہیں۔ جبکہ خود ان کے ہاں بنات کے مدارس میں دوسرے شہروں سے آئی ہوئی لڑکیوں کے لیے ہاسٹل موجود ہوتے ہیں۔ ان کے لیے یہ کیسے جائز ہو سکتا ہے۔ ؟؟
دوسرے سوال کا خلاصہ یہ ہے کہ لڑکیوں کے مدارس کے ارباب اہتمام و انتظام مرد ہوتے ہیں اگرچہ وہ علماء ہی ہوں لیکن یہی ساری خرابیوں کی جڑ ہے۔ جب کالجوں اور یونی ورسٹیوں کی مخلوط تعلیم ناجائز اور حرام بنتی ہے تو مدارس کے ہاسٹلز کی جائز کیسے ہو جاتی ہے۔ ؟؟ اس کے بعدموصوف بطور مشورہ کہتے ہیں کہ کسی شہر میں لڑکیوں کے جو مدارس ہیں ان کا مکمل انتظام و انصرام خواتین کے پاس ہونا چاہیے۔
اس بارے متکلم اسلام مولانا محمد الیاس گھمن اپنے ایک مضمون بعنوان ”تعلیم نسواں“ میں رقم طراز ہیں :”اسلام کے نظام ِتعلیم میں عورت کی محض تعلیم ہی نہیں بلکہ اس کے حیاء ، تقدس اور عزت و شرافت کو بھی ملحوظ رکھا گیا ہے کہ یہ تعلیم تو بہر حال حاصل کرے ہی لیکن اسلام کے مقرر کردہ دائرے کے اندر رہتے ہوئے ، ایسی تعلیم جس سے اس کی دنیا بھی سنور جائے اور آخرت بھی۔ چنانچہ امام بخاری رحمہ اللہ نے خواتین کی تعلیم کے سلسلے میں صحیح بخاری میں باب قائم کیا ہے باب عظة الامام النساء وتعلیمہنّ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم جیسے صحابہٴ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو تعلیم و تربیت سے نوازتے ویسے ہی صحابیات کے درمیان بھی تعلیم و موعظت فرمایا کرتے تھے۔نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقہ اور منہج کو دیکھتے ہوئے شارحین حدیث یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ اسلام میں خواتین کی تعلیم ضروری ہے لیکن حصولِ تعلیم کے وقت اس بات کا بخوبی جائزہ لینا چاہیے کہ جو امور اسے زندگی میں پیش آتے رہتے ہیں انہی امور کی تعلیم سے آراستہ کرنا چاہیے۔ یعنی لکھنا پڑھنا ،عقائد و اعمال کی اصلاح ، تہذیب و شائستگی ، وہ علوم جن پر دنیوی و اخروی فلاح و کامیابی منحصر ہے، تربیت اولاد ، اطاعت زوج اور حقوق العباد وغیرہ۔ دیگر کتب حدیث میں اس بارے میں بکثرت روایات موجود ہیں معجم کبیر طبرانی میں ہادی برحق صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادکچھ اس طرح ہے: جو شخص اپنی بیٹی کو خوب اچھی طرح تعلیم دے اس کی اچھی تربیت کرے اور اس پر دل کھول کر خرچ کرے تو (یہ بیٹی کل قیامت کے دن) اس کے لیے جہنم سے نجات کا ذریعہ ہوگی۔ اس حدتک تو اسلام کے نظام تعلیم میں خواتین کے حصول علم کی اجازت اور ضرورت ثابت ہے۔ باقی رہا مغرب کا نظام تعلیم اور خواتین کا مسئلہ !!یہ ایک غور طلب پہلو ہے اور لمحہ فکریہ ہے کہ مغرب لیبل تو خواتین کی تعلیم کا لگاتا ہے لیکن در حقیقت وہ مخلوط نظام تعلیم کے فروغ کے لیے سرگرم ہے۔ مغرب کے نظام تعلیم میں خواتین کو سراسر مشکلات کا سامنا ہے ،جس میں عورت کی سب سے اہم امتیازی شان حیاء اور عفت ختم ہوجاتی ہے۔ وہ اپنی عزت سے ہاتھ دھو بیٹھتی ہے ، مغرب کے نظام تعلیم میں اصلاح عقائد و اعمال تو رہے ایک طرف اس میں نہ تو اسلامی کلچر کی کوئی جھلک ہے ، نہ ہی انسانی تہذیب و تمدن کے کوئی آثار،امور خانہ داری کا کوئی سبق ہے اور نہ گھریلو نظام زندگی کو بہتر بنانے کا کوئی فارمولہ، تربیت اولاد کے بارے میں کوئی ہدایات ملتی ہیں اور نہ خوشحال ازدواجی زندگی کی کوئی ضمانت۔ اس لیے اسلام کی بیٹیوں کو اسلام کے دامن سے ہی وابستہ رہنا چاہیے تاکہ ان کی دنیا بھی سنور جائے اور آخرت بھی۔
)مضامین متکلم اسلام ج 2 ص 87]
مخلوط نظام تعلیم پر علماء کا سخت رویہ ان کی ذاتی رائے نہیں بلکہ ایک شرعی امر ہے،چونکہ اس طرز سے معاشرے میں بڑے پیمانے پر فساد اور بگاڑ پیدا ہوتا ہے اور خاندانی نظام کی چولہیں ہل جاتی ہیں،اس لیے اسلام میں مخلوط معاشرت کی کھلے لفظوں میں حوصلہ شکنی کی گئی ہے،ویسے بھی ہماری مشرقی تہذیب میں اس” آزادی“ کو” اغیار کی غلامی“ سے تعبیر کیا جاتا ہے،محرم کے بغیر سفر کو حرام بتلانا بھی شریعت اسلامیہ کا مسئلہ ہے ،نہ کہ علماء کی فرسودہ خیالی کا عکاس۔ جہاں تک بچیوں کے مدارس کے ہاسٹلز کی بات ہے وہ بالکل اس سے الگ تھلگ ہے۔
اس بارے میں جیسا کہ موصوف نے اپنا مشورہ عنایت فرمایا ہے کہ لڑکیوں کے جو مدارس ہیں ان کا مکمل انتظام و انصرام خواتین کے پاس ہونا چاہیے۔ ہمیں اس سے مکمل اتفاق ہے۔ اور خرابی کی جوبنیادی وجہ موصوف نے اپنے دوسرے سوال میں ذکر کی ہے اس سے بھی ہمیں کوئی اختلاف نہیں۔
چنانچہ حضرت متکلم اسلام مولانا محمد الیاس گھمن حفظہ اللہ کے پیر ومرشد حکیم شاہ محمد اختر رحمہ اللہ اپنےکتابچے”مدرسۃ البنات سے متعلق ضروری ہدایات“ کی ابتداء یہاں سے کرتے ہیں:جو لوگ لڑکیوں کے مدرسے کھولتے ہیں ،کوشش کریں کہ دن کو پڑھائی ہورات کو لڑکیاں گھر چلی جائیں اور اگر دارالاقامہ )قیام گاہ(بنانا ہی ہے تو اس کے اصول یہ ہیں کہ”مہتمم اس کی انتظامیہ اپنی محرم بیوی، والدہ، سگی بہن ، خالہ یا پھوپھی وغیرہ کے سپرد کرے …مہتمم اپنی محرم کے ذریعے لڑکیوں اور استانیوں کے تعلیمی کوائف حاصل کرے۔ “
فرماتے ہیں :”خواتین یا استانیوں کو مہتمم یا اساتذہ کرام براہ راست کوئی ہدایت نہ دیں، نہ بات چیت کریں ،نہ پردہ سے نہ فون پر۔ مہتمم کو اپنی بیوی یا خالہ یا بیٹی کے ذریعہ استانیوں کو کوئی ضروری پیغام،ہدایت یا تنخواہ دینے کا اہتمام ضروری ہے ، کسی بھی مرد کا استانیوں سے براہ راست ہرگزکوئی بات چیت اور رابطہ نہ ہو۔ “
ایک جگہ فرماتے ہیں :”پورےمدرسۃ البنات میں عورتوں کا رابطہ صرف عورتوں سے رہے۔ مہتمم اپنی محرم یعنی بیوی یا والدہ یا بہن وغیرہ سے دریافتِ حالِ تعلیمی یا دریافتِ حالِ انتظامیہ کرے۔ اگر اتنی ہمت نہ ہو تو مدرسۃ البنات مت قائم کرو اور مدرسہ بند کر دو۔ دوسروں کے نفع کے لیے خود کو جہنم کی راہ پر مت ڈالو۔ “
دینی تہذیب و تمدن اور خواتین کی علمی،فکری ،اخلاقی ، تربیتی روایات اورتسلسل کو زندہ رکھتے ہوئے حضرت متکلم اسلام مولانا محمد الیاس گھمن حفظہ اللہ نے بھی مرکز اصلاح النساء کے نام سے ایک ادارہ قائم فرمایا۔ جس میں انہوں نے اسلامی تعلیمات کے عین مطابق ، اپنے شیخ کے ذکر کردہ اصول و ضوابط کو نافذ کیا۔ چنانچہ
مرکز اصلاح النساء کو اس طرز پر ڈیزائن کیا گیا ہےجہاں بچیوں کے لیے مکمل پردے کا بہت اعلیٰ اور مثالی انتظام ہے، جن لوگوں نے مرکز اصلاح النساء کا وزٹ کیا ہے وہ بخوبی اس سے واقف ہیں ،تعداد میں خاطر خواہ اضافے کے باعث توسیعی منصوبے کے تحت تعمیراتی کام تیزی سے جاری ہیں۔ یہاں کا مکمل انتظام و انصرام مردوں کی بجائے خواتین ہی کے سپرد ہے۔ مختلف شعبہ جات کے تحت انجام دیے جانے والے دینی و معاشرتی امور کی نگرانی خواتین ہی کرتی ہیں ،جس میں کسی بھی مرد بشمول مولانا محمد الیاس گھمن کا کوئی عمل دخل نہیں ہوتا۔عمل دخل تو بہت دور کی بات یہاں تو مردوں کا سایہ تک نہیں پڑتا۔ یہاں تک کہ کوئی مرد استادبشمول مولانا محمد الیاس گھمن ایک حرف تک نہیں پڑھاتے،نہ ہی الگ کمرے میں، نہ ہی پردے کے پیچھے اور نہ ہی لاؤڈ اسپیکر پر۔ یہاں کے احوال سے میں اس لیے بہت اچھی طرح واقف ہوں کہ خود میری اہلیہ یہاں پر تدریس کے مقدس پیشہ سے وابستہ ہے اور میری ایک بیٹی زیر تعلیم ہے۔ شعبہ درس نظامی و دراسات دینیہ کی نگران حضرت کی ایک اہلیہ ہیں جبکہ شعبہ حفظ کی نگران دوسری اہلیہ۔ اسی طرح شعبہ ناظرہ اور شعبہ اسکول کی نگران بھی ایک ایک معلمہ ہیں۔ بچیوں کی تعلیمی پختگی، اخلاقی تربیت کے لیےتمام شعبہ جات کی نگرانوں پر مشتمل ایک مشاورتی کمیٹی موجود ہے ، مرکز اہل السنت والجماعت کے بعض اساتذہ کرام کی بیویاں مرکز اصلاح النساء کی معلمات ہیں۔
مرکز اصلاح النساء میں ہرانگریزی مہینے کے پہلے اتوار صبح 9:00بجے خواتین کے لیےمولانا محمد الیاس گھمن حفظہ اللہ کا اصلاحی بیان ہوتا ہے جس کی ترتیب کچھ یوں ہوتی ہے : مولانا اپنی بیٹھک میں بیٹھتے ہیں ،جس کا دروازہ باہرکی جانب کھلتا ہے جہاں احناف میڈیا سروسز کی ٹیم ، اکثر اوقات خود راقم اوراہل علاقہ کے دیگر مرد حضرات موجود ہوتے ہیں ،چونکہ خواتین کے بیٹھنے کی جگہ یہاں سےاچھی خاصی دور ہے اس لیے وہاں تک بذریعہ لاؤڈ اسپیکر آواز پہنچائی جاتی ہےیہاں پر حضرت کی تینوں بیویاں، بیٹیاں ، معلمات ، زیر تعلیم بچیاں اور علاقہ بھر کی خواتین موجود ہوتی ہیں ،رہائشی بچیوں کے پک اینڈ ڈراپ کے لیے محرم کا آنا ضروری ہے بصورت دیگر بچی کو کسی بھی غیر محرم کے ہمراہ نہیں بھیجا جاتا۔
اسلام کے طریقہ تعلیم ،اکابر ومشائخ کی ہدایات اور مضمون نویس کی رائے کے مطابق مرکز اصلاح النساء اپنا تعلیمی سفر طے کر رہا ہے ، لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ اسی مدرسہ کا نام لے کر الزامات لگائے جا رہے ہیں اور جھوٹے پروپیگنڈے عام کیے جا رہے ہیں۔ اور اس ضمن میں مدارس کو بند کرنے کی راہیں ہموار کی جا رہی ہیں۔ اگر انہی پروپیگنڈوں کی وجہ سے آج بچیوں کے مدارس کو بند کیا گیا ، کل بچوں کے مدارس نشانے پر ہوں گے اور اس کے بعد مساجد کے ائمہ کی طرف چند باتیں منسوب کر کے مساجد کو ویران کرنے کی منصوبہ بندی ہو گی ، نتیجتاً دینی تعلیم کو دیوار سے لگا دیا جائے گا۔ تاریخ پر نگاہ ڈالتے ہوئے بڑے وثوق یہ بات کہہ سکتا ہوں کہ غامدی افکار ، لبرل طبقہ اور دین بیزار اسلاف دشمن قوتوں کے منفی پروپیگنڈے دین کو نہیں مٹا سکتے۔
میں اس پلیٹ فارم کے ذریعے ہر شخص کویہاں آنے کی دعوت دیتا ہوں ،وہ اپنی خواتین کے ہمراہ آئیں اپنی آنکھوں سے مرکز اصلاح النساءکا مشاہدہ کریں ،آپ کی ہمراہ تشریف لانے والی خواتین ہمارے یہاں کی بچیوں کے تاثرات اورتعلیمی و تربیتی کارگزاری کو اپنی آنکھوں سے دیکھیں اور اپنے کانوں سے سنیں۔ معلمات سے گفتگو کریں اور آپ ان معلمات کے شوہروں سے ملیں ،مکمل صورت حال سے آگاہی حاصل کریں۔ میں یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ عزت و عفت اور تعلیم و تربیت کے حسین امتزاج کا جو نقشہ آپ کے خیال میں ہے اسے یہاں اس سے بھی بڑھ کر پائیں گے۔ اگر یوں کہوں تو بالکل بجا ہے کہ موصوف اگر اپنی اہلیہ محترمہ یا کسی بھی محرم کے ہمراہ یہاں کا وزٹ کرتے اور اپنی آنکھوں سے اس کے نظام کا مطالعہ کرتے تو وہ یہ بات کہنے پر آمادہ ہی نہیں بلکہ مجبور ہو جاتے کہ مرکز اصلاح النساءجیسا تعلیمی ادارہ دیگر مدارس کے لیے آئیڈیل کی حیثیت رکھتا ہے۔اے کاش !سوشل میڈیا کے محقق اور دانشور انصاف کے تقاضوں اور تحقیق کے تقدس کو پامال نہ کرتے اور عین الیقین کی حد تک حقیقت حال تک رسائی کرتے !!میں مکرر ان کی خدمت میں یہی کہوں گا کہ آئیے ، دیکھیے اور اپنی قلبی تسلی کیجیے! یہ صلائے عام صرف یارانِ ”نکتہ داں“کے لیے ہی نہیں بلکہ یارانِ ”نکتہ چیں“ کے لیے بھی ہے۔