تاریخ اسلام میں ماہ صفر کی حیثیت

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
تاریخ اسلام میں ماہ صفر کی حیثیت
مولانا محمد امجد خان
اسلامی سال کا دوسرا مہینہ ماہ صفر المظفر ہے تاریخ اسلام میں اس مہینے کو ممتاز حیثیت حاصل ہے اس مہینے کی 27 تاریخ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ کی طرف ہجرت فرمائی جو غلبہ اسلام اور اسلامی ریاست کے قیام کا باعث بنی اور پوری دنیا میں جو اسلام پھیلا اس کا آغاز بھی مدینہ منورہ سے ہوا۔
گویا پوری دنیا میں جو ظلمت چھائی ہوئی تھی اور ہرطرف خزاں تھی اس کا خاتمہ اسلام کی روشنی اور بہار کے ذریعے مدینہ منورہ سے ہوا۔
پھر اسی ماہ صفر میں 2ھ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے اپنی چہیتی بیٹی حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کا نکاح فرمایا تھا جن سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نسل چلی جو قیامت تک رہے گی۔
اسی ماہ صفر میں ایران فتح ہوا اور اسلامی سلطنت کو وسعت ملی اور اسی مہینے میں عمر ثانی حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ خلیفہ وقت بنے اور اپنے اڑھائی سالہ دور اقتدار میں عدل عمر رضی اللہ عنہ کی یاد تازہ فرما دی۔ عجیب بات یہ ہے کہ بعض لوگ آج بھی اس مہینے کو نحوست کا مہینہ تصور کرتے ہیں۔ جبکہ یہ مہینہ اسلامی تاریخ میں مرکزی حیثیت رکھتا ہے بالخصوص اس مہینہ کے ابتدائی تیرہ دنوں کو نہایت منحوس تصور کیا جاتا ہے حالانکہ اسلام میں اس بات کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔
زمانہ جاہلیت میں اس مہینے کو لوگ منحوس خیال کیا کرتے تھے اور اس مہینے کو بلاؤں اور مصیبتوں کا مہینہ تصور کرتے تھے۔ علامہ ابن اثیر نے تاریخ کامل میں اس کی وجہ لکھی ہے کہ چونکہ ماہ محرم میں زمانہ جاہلیت میں بھی جنگ و قتال حرام سمجھا جاتا تھا اور لوگ گھروں میں بیٹھے رہتے تھے لیکن جیسے ہی صفر کے مہینے کا آغاز ہوتا اہل عرب اپنے گھروں کو چھوڑ کر جنگ کے لئے نکل جاتے، جنگ و جدل کی وجہ سے خون خرابہ ہوتا۔ مرد مارے جاتے، عورتیں بیوہ اور بچے یتیم ہوتے۔ معاشی حالت ابتر ہو جاتی ہے تو اہل عرب بجائے اس کے کہ اپنی اصلاح کرتے اس مہینہ کو منحوس سمجھنے لگے۔
بالخصوص خواتین اسے زیادہ منحوس جانتیں کیونکہ ان کے گھر اجڑ جاتے تھے۔ عرب میں جب اسلام کی روشنی آئی تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان باطل نظریات کو رد فرمایا اور واضح طور پر اعلان فرمایا کہ مرض کے متعدی ہونے (یعنی ایک سے دوسرے شخص کو لگنے) صفر کے مہینے کو منحوس سمجھنے اور غول (یعنی بھوت پریت اور بلاؤں کے اترنے) کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ عرب کے اندر جہاں اچھی صفات شجاعت، مہمان نوازی وغیرہ پائی جاتی ہیں وہیں بری صفات بھی ان میں موجود تھیں۔
وہ صفر کے مہینے کو منحوس سمجھتے، بیمار شخص کی عیادت کرنے کے بجائے اس سے دور بھاگتے۔سفر سے پہلے تیر پھینکتے تھے اگر تیر دائیں طرف گرتا تو سفر کرتے ورنہ سفر سے اجتناب کرتے۔ سفر پر نکلتے وقت اگر کوئی غریب شخص یا کوئی دشمن سامنے آجاتا تو سفر نہ کرتے تھے۔ آنحضرتؐ نے ان سب کی نفی فرمائی اور فرمایا ان چیزوں سے کچھ نہیں ہوتا، نفع و نقصان سب کچھ اللہ رب العزت کے ہاتھ میں ہے۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے نیک فال لینے کو پسند فرمایا ہے نیک فال سے مراد بندے کا کسی کام سے پہلے ایسی بات کو سننا جو اس کو اچھی لگے۔تو یہ اسلام میں درست ہے کیونکہ اس سے تقدیر پر ایمان اور بھی مضبوط ہو جاتا ہے۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب تم کوئی ایسی چیز دیکھو جو تمہیں ناگوار گزرے تو تم دعا پڑھ لیا کرو۔اے اللہ! اچھائیاں لانے والے بھی آپ ہی ہیں اور برائیاں دور کرنے والے بھی آپ ہی ہیں۔ نیک کام کرنے کی توفیق بھی آپ ہی دیتے ہیں اور برے کاموں سے بچانے کی قوت بھی آپ ہی دیتے ہیں۔ (ابوداؤد)آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس نے ایسے موقع پر کام کرنے سے اجتناب کیا اس نے خدا کے ساتھ شرک کیا۔سیدنا حضرت علی رضی اللہ عنہ ایک بار لشکر کے ہمراہ سفر پر روانہ ہوئے ایک شخص نے کہا کہ اس موقع پر سفر نہیں کرنا چاہئے بلکہ فلاں گھڑی میں سفر کرنا چاہئے ورنہ شکست ہوتی ہے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے جب یہ جملہ سنا تو فرمایا لشکر والو ابھی کوچ کرو فتح و شکست اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے۔ چنانچہ لشکر نے اسی گھڑی میں کوچ کیا اور کامیاب ہو کر لوٹے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا اگر ہم اس کی بات مان لیتے اور اس کے بتائے ہوئے وقت پر سفر کرتے تو یہ شخص کہتا میری وجہ سے فتح ہوئی ہے۔ اسی لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس نے کسی کو اپنا حال جاننے کے لئے ہاتھ دکھایا اس کی چالیس دن کی نمازیں ضائع ہو جاتی ہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے نجومی کے پاس جانے سے منع فرمایا ہے۔
آخری چہار شنبہ (بدھ) کا دن:
ماہ صفر کے آخری بدھ کا بڑے شوق سے اہتمام کیا جاتا ہے کہ اس دن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے غسل فرمایا اور صحت یاب ہوئے اس دن روزہ بھی رکھا جاتا ہے اور مخصوص نوافل بھی ادا کئے جاتے ہیں۔ مفتی اعظم حضرت مولانا مفتی محمد شفیع اپنی تصنیف’’ امداد المفتین‘‘ میں فرماتے ہیں کہ اس دن کا روزہ شرعاً بدعت ہے اور اسلام میں اس کا ثبوت نہیں۔ اس دن کے نوافل بھی پیغمبر سیدالانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم یا کسی صحابی رضی اللہ عنہ سے ثابت نہیں ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اس دن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بیماری میں اضافہ ہوا اور یہودیوں نے اس دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مرض میں شدت آنے پر خوشی منائی۔