مجھ سے نہیں پڑھا جاتا

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
مجھ سے نہیں پڑھا جاتا!!
ثنا ، لاہور
یہ وہ جملہ ہے جو کہ جو بچہ ہی کبھی نہ کبھی اور اب تو اکثر ہی کہتا سنائی دیتا ہے۔ جو ایسا جملہ نہیں کہتا وہ یقینی طور پر پھر سکول جانے کی عمر گزار چکا ہے۔کہنے کو تو یہ جملہ بظاہر ایک جملہ ہے مگر اسکے بعد لاتعداد لعن طعن اور پریشانی سے عبارت جملے شروع ہو جاتے ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ اس آرٹیکل کو پڑھ کر آپ کو اس مسئلے کو حل کرنا آسان لگے گا-ہر عمر کے بچوں کے ساتھ یہی ٹوٹکے کام آسکتے ہیں ضروری نہیں کہ بہت چھوٹے بچوں یا بہت بڑے بچوں کے لئے ہی ان پر عمل کریں۔ ہر عر کے بچوں کے لئے کر سکتے ہیں۔
Quick fix:
مسئلہ کوئی بھی ہو اس کو آپ ایک دم سے توڑ مروڑ اور پھر جوڑ نہیں سکتے۔ اگر ہم لاہور ہی میں بننے والے بہت سے جدید پلازوں کو لیں تو انکی تعمیر میں سالہا سال کی جدوجہد نظر آئے گی۔ایک دم یہی معاملہ انسانوں کے مسائل کے ساتھ بھی ہے۔ بنتے بھی سالوں میں ہیں اور بگڑتے بھی وقت لگا کر ہی ہیں۔اسی لئے بچہ ایک دن میں ساری تکنیکس لگا کر فٹا فٹ بیبا بن جائیگا اس کی توقع ہر گز نہ کریں۔مشوروں پر عمل کریں اور وقت کے ساتھ ساتھ نتائج اپنی مرضی کے بنتے دیکھیں۔
Believe Systems:
انسان چاہے کسی پل سے خود کشی کر ہا ہو یا ماؤنٹ ایرسٹ کو سر کر رہا ہو۔ اسکے پیچھے کارفرما خیالات ہی اسکو تحریک دینے کا سبب بنتے ہیں۔بچپن سے ہی یہ خیال ذہن میں بیٹھ گیا کہ دوسروں کے لئے کچھ کرنا ہی اصل خدمت انسانی ہے۔اسی لئے بچے کے سامنے سکول کے بارے میں یا ٹیچرزکے بارے میں منفی کبھی بھی نہ بولیں انکے سامنے ہمیشہ یہ بتائیں کہ سکول جانا اور پڑھنا مزے کا آسان کام ہے۔اچھے بچے سکول خوشی سے جاتے ہیں۔ اچھے بچے پڑھائی سے لطف لیتے ہیں۔ کتابوں کو پڑھنا اور انجوائے کرنا آسان ہے۔ اچھے خیالات جس حوالے سے دماغ میں ڈالیں گے پھر ہی بتدریج وہ اعمال میں بھی نظر آئیں گے۔
Environment :
جس طرح ایکو فرینڈلی کیا جاتا ہے کہ موسم کے لئے فضا کے لئے فلاں فریج اور اے سی بہترین رہے گا۔ جس طرح شاپنگ بیگز کو ایکو فرینڈلی بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے اسی طرح گھر کے ماحول کو بھی پڑھائی کے لئے اچھا بنانے کی اشد ضرورت ہوتی ہے۔اگر آپ یہ چاہیں کہ بچہ پڑھنے بیٹھ جائے اور خود آپ کمرے سے نکل کر گھر کے دوسرے فریق سے لڑنا شروع ہو جائیں تو دیہان لڑائی میں اٹکے گا پڑھائی میں نہیں۔جس طرح سب نماز پڑھ رہے ہوں تو نماز چھوڑنے کا سوچتے سوچتے بھی سست انسان دیکھا دیکھی نماز پڑھ لیتا ہے۔خود بچے کے پاس اخبار لے کر بیٹھ جائیں نہیں تو آفس کا یا کوئی بھی متعلقہ پیپر ورک ساتھ لے لیں۔ اگر والدہ کے پاس کوئی کام ہو جو بچے کے ساتھ بیٹھ کر سکون سے کرنا ممکن ہو کرلیں۔ مگر بچے کے سامنے ایک ماحول پیش کیا جائے کہ یہ وقت سکون سے پڑھنے کے لئے موزوں ہے جبکہ یقین ہے کہ پڑھنا اچھی بات ہے تو اب ماحول بھی سازگار ہے سو پھڑھ لے۔
Focus :
انسان کی توجہ نیوز چینلز پر قتل و غارت کے پروگرامز پر مرکوز کروانا بے حد آسان ہے جبکہ مذہبی پروگرامز کو دیکھتے ہوئے نیند کا غلبہ فوری طور پر آجانا بے حد عام سی بات ہے۔ انسان کی توجہ یا ارتکاز اس وقت تو خاص طور پر بہت کم ہو جاتا ہے جبکہ وہ اس کام میں مشغول ہو جو اسکو کرنا مشکل لگتا ہو۔ انسان کی توجہ کا وقت بھی بے حد کم ہوتا ہے۔ انسان کی توجہ بیس منٹ کے بعد تو خاص طور پر دائیں بائیں اور ہمسائے میں مرکوز ہو جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پڑھتے ہوئے سامنے پڑی کتاب کے علاوہ ہر چیز اہم لگتی ہے۔ سو کتاب پر توجہ برقرار رکھنے کے لئے اگر آپکا بچہ ہر پندرہ منٹ بعد پانی پینے جانا چاہے یا کوئی بات کرنا چاہے تو کوسنے کی بجائے اجازت دیں۔اس سے توجہ مرکوز رکھنے میں بھی بے حد مدد ملے گی۔
خود بھی بچے کی پڑھائی کے دوران ٹی وی یا موبائل نہ استعمال کریں اس سے بچے کی توجہ آپکی سرگرمی کی طرف ہی رہتی ہے۔
Role Model:
آپ نے نوٹ کیا ہوگا ہم سیاسیات میں جو الفاظ اور طرز تخاطب سن رہے ہوتے ہیں ہمیں وہی الفاظ سوشل میڈیا پر بھی اکثر بہت سے لوگ استعمال کرتے نظر آئیں گے۔ الفاظ کا ٹرینڈ بہت جلدی میڈیا کی وجہ سے ایک سے دوسرے تک پہنچ جاتا ہے۔ ہر جماعت کا حامی اپنے لیڈر والے الفاظ استعمال کرتا دکھائی دیتا بھی ہے۔
آپ خود جیسا بن کر دکھا رہے ہوں گے بچہ لا شعوری طور پر ویسا ہی بن جاتا ہے۔اسی لئے اگر اب بچہ یہ دیکھ رہا ہو کہ آُپ کتابوں کو پٹخ پٹخ کر سکول کی فیسوں کو مسئلہ کہہ کہہ کر اولاد کے سامنے دوہراتے رہیں اور پھر اولاد سے یہ امید بھی رکھیں کہ وہ تعلیم سے محبت کرے تو یہ ناممکن ہے۔
سو خود کو اولاد کے سامنے ایسا بنانا سیکھیں کہ اولاد کو یقین ہو کہ وہ ایک تعلیم دوست انسان کو بچہ ہے سو تعلیم سے محبت کرنا اسکی اپنی ذمہ داری بھی ہے۔
Communication:
خاص طور پر پڑھاتے وقت بچے کے ساتھ صبر وتحمل کا دامن تھام کر رکھیں۔چھوٹے چھوٹے کاموں کو کرنے پر بھی شاباش دیں۔تھوڑی بہت حقیقت پر مبنی تعریف ضرور کریں۔لہجہ دھیما یا درمیانہ رکھیں۔لفظ نہ کی بجائے۔ مکمل جملہ جیسا کہ پڑھتے وقت کتاب پر دھیان دو دوسری چیزیں ہاتھ سے چھوڑ دو۔بولیں۔مارنے سے ہر صورت پر ہیز کریں۔ مار صرف اس وقت ہی نہیں بعد میں بھی متاثر کرتی ہے۔ خود برداشت نہ کر سکیں ٹیوشن سینٹر ڈال دیں۔
Interest:
فیس بک پر ہر ایک کو اپنی ٹائم لائن سب سے دلچسپ لگتی ہے۔ اپنی جو ہوتی ہے اپنی مرضی کی چیزیں جو رکھتے ہیں۔بچے کو مضمون اسکی دلچسپی کے مطابق پڑھنے دیں۔ اگر اس عمر کے بچوں کی بات کی جائے۔ جس میں مضامین کا انتخاب کرنا ہوتا ہے تو بچہ اگر کسی میں اپنی دلچسپی دکھا ددے تو اسے وہی منتخب کرنے دیں۔ مجبور نہ کریں۔
Expectations:
آج کا سب سے بڑا مسئلہ یہی ہے توقعات چاہے سیاستدانوں سے ہوں، بجلی گیس یا پانی والوں سے ہوں یا ماں باپ سے یا ماں باپ کی بچوں سے۔
اپنے بچوں سے ہمیشہ ٹاپ کی توقع نہ رکھیں ورنہ جو صلاحیت اور ذہانت اللہ نے دی ہوگی اسکو آپ نمبروں کی ریس میں زنگ لگا دیں گے۔
سو حوصلہ رکھیں اور اپنی ان پر کی جانے والی محنت بڑھا دیں اور ان سے لگائے جانے والی توقع گھٹا دیں۔