حشر کا تصور

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
حشر کا تصور
عائشہ ملک
میں راستے میں ہی تھی جب مغرب کی اذان ہوئی۔ آج جاب سے آتے وقت کافی دیر ہو چکی تھی میں جیسے ہی گھر پہنچی مغرب کا وقت تقریبا ختم ہی ہو چکا تھا میں نے جلدی جلدی وضو کیا اور ویسے ہی گیلے ہاتھ پاؤ ں لے کر جانماز پر نیت باندھ کر کھڑی ہو گئی میرے چہرے سے بار بار پانی ٹپک رہا تھا میں بار بار آستین سے صاف کرتی اور نماز جاری رکھتی نماز کے دوران ہی مجھے یاد آیا کہ میں امی کی دوائیاں لانا بھول گئی تهی آج آفس میں بہت کام تھا کھانا کھانے کا بھی وقت نہیں ملا۔میں بہت تھک چکی تھی سجدے میں جاتے ہی میں نے نماز میں دھیان لگانے کی بہت کوشش کی لیکن مجهے لگا میں ایک ایسے میدان میں تھی جہاں پر بہت سارے لوگ جمع تھے سب کے ہاتھ میں ایک ایک کتاب تھی۔مجھے کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ یہ سب کیا ہو رہا ہے تبھی کسی نے ایک کتاب میرے ہاتھ میں بھی تھما دی جس پر میرا نام لکھا تھا میں نے کتاب کھولی جس میں میرے اچھے برے اعمال لکھے ہوئے تھے میرا دل بیٹھ گیا میں نے سوچا یاﷲ کیا میں مر گئی ہوں ؟میں نے سب طرف نظریں گھمائیں سب ایک لائن میں کھڑے اپنی اپنی کتاب جمع کرا رہے تھے میں سمجھ گئی تھی کہ میں اب مر چکی ہوں میرا بھی حساب کتاب ہونا ہے میں نے بھی اپنی کتاب جمع کرائی اور انتظار کرنے لگی جب سب لوگوں کی کتابیں جمع ہو گئیں تب فیصلے کا وقت آیا مجھے اپنے کانوں پر یقین نہیں آیا سب سے پہلے میرا نام لیا گیا۔میرا دل زور زور سے دھڑکنے لگا میں نے سوچا نہ جانے آج میرا کیا ہوگا؟ آج میرا انجام کیاہوگا؟تبهی آواز آئی جہنم مجھےیقین نہیں آیا کہ میرا انجام یہ ہوگا میں زور زور سے رونے لگی میرے گالوں سے آنسو بہنے لگےتبھی دو خطرناک ساے آے اور مجھے گھسیٹنے لگے میں چیختی رہی مجھے بچاؤ کوئی مجھے بچاؤ سب سہمی ہوئی نظروں سے مجھے دیکھتے رہے کوئی بچانے کے لیے آگے نہیں آیامیں نے چلّا کر کہا میں نے کبھی کچھ غلط نہیں کیا، کبھی جھوٹ نہیں بولا کسی کی چغلی نہیں کی،سود نہیں کھایا، پھر مجھے کیوں جہنم میں پهینک رہے ہو؟کوئی کچھ نہیں بولا صرف مجھے کھینچتے رہےاب میں جہنم کی آگ محسوس کر سکتی تھی اس کا منہ تھوڑی دور رہ گیااور اس میں سے ایسی آواز آ رہی تھی جیسے کوئی جانور رسّی توڑ کر مجھ پر حملہ کرنے کی کوشش کر رہا ہو۔تبھی مجھے اپنی نماز یاد آئی میں زور زور سے چلانے لگی میری نماز میری نماز کہاں ہے؟جہنم کا منہ سامنے تھادنیا میں میں ذرا سی گرمی برداشت نہیں کرتی تھی یاﷲ اس گرمی کو کیسے برداشت کروں گی؟اب میں جہنم کے دروازے پر تھی اور زور زور سے رو رہی تھی اپنی نماز کو آواز دے رہی تھی لیکن کوئی سننے والا نہیں تهامیں چلاّئی لیکن کوئی فرق نہیں پڑاایک ساے نے مجھے جہنم میں دھکاّ دے دیا اور میں جہنم کی تپتی آگ میں گرنے لگی مجھے لگا یہ ہی میرا حشر ہےاتنے میں ایک ہاتھ نے مجھے پکڑ لیامیں نے سر اٹھا کر دیکھا تو دہانے پر ایک بزرگ کھڑے تھےسفید ڈاڑهی اور نورانی چہرہ لئے مسکرا رہے تھےنیچے دوزخ کی آگ مجھے جھلسانے کے لیے مچل رہی تھی لیکن اس بزرگ کا ہاتھ لگتے ہی اس کی تپش ٹھنڈک میں بدل گئی،میں نے ان سے پوچھا آپ کون ہیں؟انہوں نے مجھے باہر کھینچ کر کہا تمہاری نماز مجھے غصہ آگیا میں نے کہا آپ اتنی دیر سے کیوں آے ہیں؟ آپ اگر تھوڑی اور دیر سے آتے تو میں جہنمی بن چکی ہوتی بزرگ نے مسکرا کر کہا تم بھی تو مجھے آخری وقت میں پڑھا کرتی تھی تبھی میری نیند کھل گئی کوئی مجھے زور زور سے ہلا رہا تھامیں نے دیکھا امی میرے پاس کھڑی ہوئی ہیں اور بول رہی ہیں کیا ہوا نماز نماز کیوں چلاّ رہی ہو؟؟؟میری خوشی کا کوئی ٹهکانا نہیں رہامیں زندہ تھی میں نے امی کو گلے سے لگایا اور کہا آج کے بعد میں کبھی نماز میں دیر نہیں کروں گی

۔