حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی زرہ مبارک

User Rating: 5 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar ActiveStar Active
 
بَابُ مَا جَاءَ فِي صِفَةِ دِرْعِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
باب:حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی زرہ مبارک کے بیان میں
حَدَّثَنَا أَبُو سَعِيدٍ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَعِيدِ نِ الأَشَجُّ قَالَ : حَدَّثَنَا يُونُسُ بْنُ بُكَيْرٍ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ ، عَنْ يَحْيَى بْنِ عَبَّادِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الزُّبَيْرِ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ جَدِّهِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الزُّبَيْرِ ، عَنِ الزُّبَيْرِ بْنِ الْعَوَّامِ قَالَ : كَانَ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ أُحُدٍ دِرْعَانِ ، فَنَهَضَ إِلَى الصَّخْرَةِ فَلَمْ يَسْتَطِعْ ، فَأَقْعَدَ طَلْحَةَ تَحْتَهُ ، وَصَعِدَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى اسْتَوَى عَلَى الصَّخْرَةِ قَالَ : سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ : أَوْجَبَ طَلْحَةُ.
ترجمہ: حضرت زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جنگ اُحد کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بدن مبارک پر دو زرہیں تھی۔ آپ ایک چٹان پر چڑھنا چاہتے تھے مگر اس کی طاقت نہیں پارہے تھے۔ پس آپ نے حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ کو اپنے نیچے بٹھایا اور ان کے ذریعہ اوپر چڑھے۔ حضرت زبیر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سناکہ طلحہ نے واجب کرلیا ہے (یعنی جنت کو یا میری شفاعت کو)
زبدۃ:
1: جنگ اُحد کے موقع پر حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم اونچی چٹان پر چڑھنا چاہتے تھے تاکہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم آپ کو دیکھ کر مطمئن رہیں کہ حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم زندہ ہیں یا آپ صلی اللہ علیہ و سلم کفار کو دیکھنے کے لیے اوپر چڑھناچاہتے تھےمگر اوپر چڑھنے کی ہمت نہ تھی۔ آپ زخمی تھے، سر مبارک میں زخم تھا، دندان مبارک بھی شہیدہوگئے تھے، خَود کی کڑیاں بھی سر میں یا رخسار میں چبھ گئی تھیں تو کمزوری بہت ہوگئی تھی۔ مزید آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنے اوپر دو زِرہیں بھی پہن رکھی تھیں توحضر ت طلحہ رضی اللہ عنہ نیچے بیٹھ گئے اور حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم اس طرح چٹان پر چڑھے۔ پھر حضرت طلحہ کو دعا دی۔
حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ ان دس صحابہ میں سے ہیں جن کے نام لے کر حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے جنت کی بشارت دی ہے۔ آپ رضی اللہ عنہ قریش میں ساتویں نمبرپر ایمان لے آئے تھے۔ غزوہ اُحدمیں ان کی بہت بڑی قربانی تھی۔ حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم پر کفار تیروں کی بارش کر رہے تھے جس کو حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ اپنے ہاتھ پر روک رہے تھے۔ ان کے ہاتھ پر پچاسی زخم لگے حتیٰ کہ ہاتھ شل ہوگیامگر حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا دفاع نہیں چھوڑا۔
2: حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے زرہ استعمال فرمائی ہے جو کہ توکل کے ہرگز منافی نہیں ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ توکل کا معنی یہ ہوتا ہے کہ اسبابِ ظاہر ہ مکمل اختیار کرنے کے بعد نتیجہ مسبب الاسباب یعنی اللہ تعالیٰ کے سپرد کردینا۔ واضح رہے کہ اسباب کے چھوڑدینے کا نام توکل نہیں بلکہ تعطل ہے۔ دوسری وجہ یہ تھی کہ حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو تعلیم دینےکے لیے ایسے اعمال فرمائے تھے۔ تیسری وجہ کہ میدانِ جنگ میں حفاظتی اور احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کا حکم قرآن کریم میں اللہ رب العزت نے دیاہے:
يَآ أَيُّهَا الَّذِيْنَ آمَنُوْا خُذُوْا حِذْرَكُمْ․
(سورۃ النساء:71)
اور حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ حق تعالیٰ کے احکام کی کون تعمیل کرسکتاہے!
3: حضرت پاک صلی اللہ علیہ و سلم کی سات زرہیں تھیں:
(۱) ذات الوشاح، (۲) ذات الحواشی، (۳) ذات الفضول، (۴) فضہ، (۵) سغدیہ یا سعدیہ، (۶) بتراء، (۷) خرنق
احادیث میں حضرت پاک صلی اللہ علیہ و سلم کی چھ کمانوں، سات گھوڑوں، تین ڈھالوں، پانچ نیزوں اور ایک تھیلےکا ذکر بھی آتا ہے جن کو موقع کی مناسبت سے برکت کی خاطر ذکر کر دیا جاتا ہے:
کمانیں: (۱) الزوراء، (۲) الروحاء، (۳) الصفراء، (۴) شوحط، (۵) الکتوم، (۶) السداد
گھوڑے: (۱) السیف، (۲) المدْتجز، (۳) الظرب یا الطرب، (۴) اللحیف، (۵) اللزار، (۶) الورد، (۷) سبحۃ
نیزے: (۱) المثویٰ، (۲) المثنیٰ یا المنثنیٰ، (۳) البغایا بیضاء، (۴) عمذۃ، (۵) حربۃ
ڈھالیں: (۱) الذلوق، (۲) القنق یا الفتق (۳) تیسری ڈھال پر تھاب یا مینڈک کی تصویر بنی ہوئی تھی۔ جب آپ نے اس پر ہاتھ پھیرا تو وہ معجزانہ طور پر مٹ گئی۔
جس تھیلے میں تیر ذخیرہ فرماتے تھے اس کا نام ”کافور“ ہے۔