حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی خَود مبارک

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
بَابُ مَا جَاءَ فِي صِفَةِ مِغْفَرِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
باب:حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی خَود مبارک کے بیان میں
حَدَّثَنَا عِيسَى بْنُ أَحْمَدَ قَالَ : حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ قَالَ : حَدَّثَنِي مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دَخَلَ مَكَّةَ عَامَ الْفَتْحِ ، وَعَلَى رَأْسِهِ الْمِغْفَرُ قَالَ : فَلَمَّا نَزَعَهُ جَاءَهُ رَجُلٌ ، فَقَالَ لَهُ : ابْنُ خَطَلٍ مُتَعَلِّقٌ بِأَسْتَارِ الْكَعْبَةِ فَقَالَ : اقْتُلُوهُ.
قَالَ ابْنُ شِهَابٍ : وَبَلَغَنِي أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمْ يَكُنْ يَوْمَئِذٍ مُحْرِمًا.
ترجمہ: حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم فتح مکہ کے وقت شہر میں داخل ہوئے تو آپ کے سر مبارک پرخود تھا۔ پھر جب آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس کو اتاردیاتو ایک شخص نے آکر عرض کیا:ابنِ خطل کعبہ کے پردوں کے ساتھ چمٹا ہوا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:اس کو قتل کردو۔
ابن شہاب فرماتے ہیں کہ مجھے یہ بات پہنچی ہے کہ اس روزحضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم احرام کی حالت میں نہ تھے۔
زبدۃ:
1: میدانِ جنگ میں سر کو زخموں سے بچانے کے لیے سر پر لوہے کی ٹوپی پہنی جاتی ہے اس کو ”خَود“ کہتے ہیں۔ جب حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم مکہ مکرمہ میں فتح مکہ کے موقع پر داخل ہوئے تو سر مبارک پر کالے رنگ کا عمامہ باندھاہواتھا اور اس کے اوپر ذرہ پہنی ہوئی تھی۔ پھر شہر میں پہنچ کر آپ نے خَود اتاردیااور عمامہ باندھے رکھا۔ اس لیے جن روایات میں فتح مکہ کےوقت سر مبارک پر پگڑی باندھنے کا ذکر ہے وہ بھی درست ہیں۔
2: حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے روز اعلان فرمایا تھا کہ جوشخص بیت اللہ میں ،ابوسفیان کے گھر میں یا اپنے گھر میں بند رہے یا ہتھیار ڈال دے تو اسے امان ہے۔ البتہ گیارہ مرد اور چھ عورتیں ایسی تھیں جن کے بارے میں حکم تھاکہ جہاں ملیں قتل کر دیے جائیں کیونکہ ان کے جرائم ہی ناقابلِ معافی تھے۔ ان میں بھی سات مرد اور دو عورتیں مسلمان ہوکر امان میں آگئے۔
جن آٹھ کو امان نہیں ملی ان میں عبد العزیٰ بن خطل بھی تھا جوکہ مسلمان ہوکر مدینہ منورہ آگیاتھا۔ اس کا نام عبد اللہ رکھا گیا۔حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو کسی قبیلہ کی طرف زکوٰۃ لینے کے لیے بھیجا تھا۔ اس کے ساتھ اس کا غلام بھی تھا تو اس بدبخت شخص نے اپنے غلام کو صرف اس وجہ سے قتل کردیاکہ اس نے کھانا پکانے میں کچھ دیر کردی۔ یہ شخص قصاص کے خوف سے مرتد ہوکر مکہ چلاگیااور وہاں پہنچ کر خود بھی اور اپنی دو لونڈیوں سے بھی حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی مذمت کرواتاتھا۔اس لیے جب حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم فاتح بن کر مکہ میں داخل ہوئے تو یہ غلاف کعبہ کے ساتھ چمٹ گیا۔ بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس نے سابقہ جرائم کو یاد کرتے ہوئے آہ وزاری کر دی ہوگی اور ساتھ ہی اس کے ذہن میں ہو گاکہ یہ لوگ کعبہ کی تعظیم تو کرتے ہی ہیں، مجھے اس کے غلاف کےساتھ لپٹا دیکھ کر چھوڑ دیں گے۔ غالباً اسی بناء پر کسی نے حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم کو مطلع بھی کیا کہ وہ تو غلافِ کعبہ کے ساتھ چمٹا ہوا ہے مگر حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ اس کو وہیں قتل کردو۔ چنانچہ حضرت ابو برزہ اسلمی رضی اللہ عنہ نے اس کو مقامِ ابراہیم اور حجرِ اسود کے درمیان قتل کردیا۔