حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی دستار مبارک

User Rating: 5 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar ActiveStar Active
 
بَابُ مَا جَاءَ فِي عِمَامَةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
باب:حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی دستار مبارک کے بیان میں
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ قَالَ : حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ ، عَنْ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَةَ ، ح وَحَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلاَنَ قَالَ : حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، عَنْ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَةَ ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ ، عَنْ جَابِرٍ قَالَ : دَخَلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَكَّةَ يَوْمَ الْفَتْحِ وَعَلَيْهِ عِمَامَةٌ سَوْدَاءُ.
ترجمہ: حضرت جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ فتح مکہ کے دن جب حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں داخل ہوئے تو آپ کے سر مبارک پر سیاہ پگڑی تھی۔
زبدۃ:
1: سر پر پگڑی باندھنا سنت مطہرہ ہے۔ حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے دستار مبارک خود بھی پہنی ہے، اس کی تعریف بھی فرمائی ہے اور اس کے باندھنے کی ترغیب بھی دی ہے۔ فتح الباری میں روایت ہے کہ پگڑی باندھا کرو اس سے حلم پیدا ہوتا ہے۔ عینی کی روایت ہےکہ پگڑی باندھا کرو،پگڑی اسلام کا نشان ہے اور مسلمان اور کافر کے درمیان فرق کرنے والی ہے۔
2: پگڑی زعفران کے رنگ والی تو نہیں پہننی چاہیے،باقی کسی بھی رنگ کی جائز ہے، البتہ حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے سیاہ رنگ کی بھی پہنی ہے اور سفید رنگ کی تو تعریف فرمائی ہے۔
3: حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے پگڑی لمبی بھی استعمال فرمائی ہے اور چھوٹی بھی۔ لمبی پگڑی بارہ ہاتھ کی ہوتی تھی اور چھوٹی پگڑی مبارک چھ یاسات ہاتھ کی ہوتی تھی۔
4: حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت شریفہ شملہ کے بارے میں مختلف رہی ہے۔شملہ چھوڑنے کامعمول اکثر تھاحتیٰ کہ بعض علماء نے تو یہاں تک لکھ دیا ہےکہ بغیر شملہ کے عمامہ باندھنا ثابت ہی نہیں لیکن تحقیق کرنے سے یہ بات ثابت ہوتی ہے شملہ کے بغیر بھی باندھ لیتے تھے۔ پھر شملہ چھوڑنے میں بھی معمول مختلف رہا ہے، کبھی آگے دائیں جانب، کبھی پیچھے دونوں مونڈھو ں کے درمیان شملہ چھوڑ دیتے تھے اور کبھی عمامہ کے دونوں سرے شملہ کے طریقے پر چھوڑ دیتے تھے۔ علامہ مناوی علیہ الرحمۃ نے لکھا ہے کہ ثابت اگرچہ سب صورتیں ہیں لیکن ان میں افضل اور زیادہ صحیح پچھلی جانب دونوں مونڈھوں کے درمیان شملہ چھوڑ دینا ہے۔
(حاشیۃ جمع الوسائل للمناوی: ج1 ص206)
5: پیچھے کی طرف لٹکنےوالے شملہ کی حدیہ ہے کہ وہ نصف کمر تک ہو، اس سے نیچے نہ ہو اور خاص بات یہ ہے کہ عمامہ کوبغرض عجب اور تکبر باندھنا کہ دوسروں کو حقیر جانے یہ ہرگز ہرگزجائز نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ ہماری حفاظت فرمائے۔ آمین