حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا سہارا لے کر چلنا

User Rating: 5 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar ActiveStar Active
 
بَابُ مَا جَاءَ فِي اتِّكَاءِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
باب: حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے سہارالے کر چلنے کے بیان میں
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ قَالَ : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُبَارَكِ قَالَ: حَدَّثَنَا عَطَاءُ بْنُ مُسْلِمٍ الْخَفَّافُ الْحَلَبِيُّ قَالَ : حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ بُرْقَانَ ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ أَبِي رَبَاحٍ ، عَنِ الْفَضْلِ بْنِ عَبَّاسٍ قَالَ : دَخَلْتُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي مَرَضِهِ الَّذِي تُوُفِّيَ فِيهِ وَعَلَى رَأْسِهِ عِصَابَةٌ صَفْرَاءُ فَسَلَّمْتُ عَلَيْهِ ، فَقَالَ : يَا فَضْلُ قُلْتُ : لَبَّيْكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ : اشْدُدْ بِهَذِهِ الْعِصَابَةِ رَأْسِي قَالَ : فَفَعَلْتُ ، ثُمَّ قَعَدَ فَوَضَعَ كَفَّهُ عَلَى مَنْكِبِيْ ، ثُمَّ قَامَ فَدَخَلَ فِي الْمَسْجِدِ وَفِي الْحَدِيثِ قِصَّةٌ.
ترجمہ: حضرت فضل بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں اس بیماری کے دوران حاضر ہوا جس میں آپ کی وفات ہوگئی تھی۔ اس وقت آپ کے سر مبارک پر زرد رنگ کا ایک پٹکا تھا۔میں نے آپ کو سلام کیاتوآپ نے فرمایا:اے فضل! میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میں حاضر ہوں۔ آپ نے فرمایاکہ یہ پٹکا میرے سر پر کَس کے باندھ دو۔ میں نے ایسا ہی کیا۔پھر آپ اٹھ کر بیٹھ گئے اور اپنا ہاتھ مبارک میرے کندھے پر رکھا۔پھر آپ کھڑے ہوگئے اور مسجد میں تشریف لے آئے۔
اس حدیث میں ایک لمبا واقعہ بھی ہے۔
زبدۃ:
1: گزشتہ باب حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے ٹیک لگا کر بیٹھنے کے بیان میں تھا اور یہ باب حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے سہارا لے کر چلنے کے بیان میں ہے۔
2: اس حدیث میں جس واقعہ کا ذکر ہے وہ یہ ہے:
ایک دن حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں تشریف لے گئے اور منبر پر بیٹھ کر ارشاد فرمایا کہ لوگوں کو آواز دے کر جمع کرو۔حضرت فضل بن عباس رضی اللہ کہتے ہیں کہ میں نے لوگوں کو اکٹھا کرلیا۔ حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کی حمدوثناکے بعد یہ مضمون ارشاد فرمایا:
میرا تم لوگوں کے پاس سے چلے جانے کازمانہ قریب ہے، اس لیے جس کی کمر پر میں نے مارا ہو تو میری کمر موجود ہے، بدلہ لے لو اور جس کی آبرو پر میں نے حملہ کیا ہو وہ میری آبرو سے بدلہ لے لے، جس کا کوئی مالی مطالبہ مجھ پر ہے وہ مال سے بدلہ لے لے، کوئی شخص یہ شبہ نہ کرے کہ بدلہ لینے سے میرے دل میں بغض پیداہونے کاڈر ہے کیونکہ بغض رکھنا نہ میری طبیعت ہے اور نہ میرے لیے موزوں ہے۔ خوب سمجھ لو کہ مجھے محبوب ہے وہ شخص جو اپنا حق مجھ سے وصول کرے یا معاف کردے کہ میں اللہ جل شانہ کے ہاں بشاشت کے ساتھ جاؤں، میں اپنے اس اعلان کو ایک دفعہ کہہ دینے پر کفایت نہیں کرنا چاہتا، پھر بھی ا س کا اعلان کروں گا۔
چنانچہ اس کے بعد منبر سے اتر آئے۔ ظہر کی نماز پڑھنے کے بعد پھر منبر پر تشریف لے گئےاور وہی اعلان فرمایا۔نیز بغض کے متعلق مضمون بالا کااعادہ فرمایا اور یہ بھی ارشاد فرمایاکہ جس کے ذمہ کوئی حق ہووہ بھی اداکرے اور دنیا میں رسوائی کا خیال نہ کرے کہ دنیا کی رسوائی آخرت کی رسوائی سے بہت کم ہے۔
ایک صاحب کھڑے ہوئے اور عرض کیا کہ میرے تین درہم آپ کے ذمہ ہیں۔ حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایاکہ میں کسی مطالبہ کرنے والے کی تکذیب نہیں کرتا ہوں اور نہ ہی اس کو قسم دیتا ہوں لیکن پوچھنا چاہتا ہوں کہ کیسےہیں؟ اس شخص نے عرض کیا کہ ایک سائل ایک دن آپ کےپاس آیا تھا اور آپ نے مجھ سے فرمایا تھا کہ اس کو تین درہم دے دو۔
حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ فضل! اس کے تین درہم ادا کر دو۔ اس کے بعد ایک اور صاحب اٹھے۔ انہوں نے عرض کیا کہ میرے ذمہ تین درہم بیت المال کے ہیں، میں نے خیانت سے لیےتھے۔ حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ خیانت کیوں کی تھی؟ عرض کیاکہ میں اس وقت بہت محتاج تھا۔ حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ فضل! اس سے تین درہم لے لو۔
اس کے بعد حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے اعلان فرمایاکہ جس کسی کو اپنی حالت کااندیشہ ہووہ بھی دعا کرالے۔ ایک صاحب اٹھے اور عرض کیا:یارسول اللہ! میں جھوٹا ہوں ،منافق ہوں، بہت سونے کا مریض ہوں۔ حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا فرمائی: یااللہ! اس کو سچائی عطا فرما، (کامل ) ایمان عطا فرمااور زیادتی نیند کے مرض سے صحت عطا فرما۔
اس کے بعد ایک اور شخص اٹھا اور عرض کیا: یا رسول اللہ! میں جھوٹاہوں، منافق ہوں، کوئی گناہ ایسا نہیں ہے جو میں نے نہ کیا ہو۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس کو تنبیہ فرمائی کہ اپنے گناہوں کو پھیلاتے ہو؟! حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عمر ! چپ رہو، دنیا کی رسوائی آخر ت کی رسوائی سے بہت ہلکی ہے۔ اس کے بعد حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:یااللہ! اس کو سچائی اور (کامل ) ایمان عطا فرما اور اس کے احوال کو بہتر بنادے۔
اس کے بعد حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے مجمع سے کوئی بات کہی جس پر حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: عمر میرے ساتھ ہیں اور میں عمر کے ساتھ ہوں، میرے بعد حق عمر کے ساتھ ہے جدھر بھی وہ جائیں۔
ایک دوسری حدیث میں یہ بھی ہے کہ ایک اور صاحب اٹھے۔ انہوں نے عرض کیا: یارسول اللہ! میں بزدل ہوں اور سونے کا مریض ہوں۔ حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لیے بھی دعا فرمائی۔
حضرت فضل رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: اس کے بعد سے ہم دیکھتے تھے کہ ان کے برابر کوئی بہادر نہ تھا۔اس کے بعد حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ام المؤمنین (میری امی ) عائشہ رضی اللہ عنہا کے گھر تشریف لے گئے اور اسی طرح عورتوں کے مجمع میں بھی اعلان فرمایا۔