حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا سالن مبارک

User Rating: 5 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar ActiveStar Active
 
بَابُ مَا جَاءَ فِي صِفَةِ إِدَامِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
باب: حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے سالن مبارک کے بیان میں
حَدَّثَنَا عَبْدَةُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْخُزَاعِيُّ قَالَ : حَدَّثَنَا مُعَاوِيَةُ بْنُ هِشَامٍ ، عَنْ سُفْيَانَ ، عَنْ مُّحَارِبِ بْنِ دِثَارٍ ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : نِعْمَ الإِدَامُ أَوِ الْأُدْمُ : الْخَلُّ.
ترجمہ: حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سرکہ بھی کیا ہی اچھاسالن ہے۔
زبدۃ:
”سرکہ“ کو دنیا کے مختلف ممالک میں انگور،جامن اور گنا وغیرہ سے تیار کیا جاتا ہے۔ سرکہ ذرا تر ش ہوتا ہےاس لیے اعصاب کے مریض کو اور سرد مزاج کے بعض لوگو ں کو بھی نقصان دہ ہوتا ہے۔ حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم اس کو نوش فرماتے تھے اور فرماتے تھے کہ کیا ہی اچھاسالن ہے۔ ایک حدیث میں ہے کہ جس گھر میں سرکہ ہو وہ گھر(سالن کا) محتاج نہیں ہے۔ حضرت ام ہانی رضی اللہ عنہا کی روایت میں ہے کہ جس گھر میں سرکہ ہو وہ گھر سالن سے خالی نہیں ہے اور یہ بھی حدیث میں آیا ہے کہ سرکہ پہلے انبیاء علیہم السلام کا سالن ہے۔
(سنن ابن ماجۃ: باب الائتدام بالخل. رقم ا لحدیث3318)
اس لحاظ سے کہ اس میں وقت اور محنت زیادہ نہیں ہوتی اور روٹی بے تکلف کھائی جاتی ہے، یہ ہر وقت آسانی سے مل جاتاہے اور تکلفات سے بعید اور دور ہے اور دنیوی زندگی میں بھی اختصار ہی مقصود ہے۔ اس کے علاوہ سرکہ میں خصوصی فوائد بہت ہیں۔ پیٹ کے کیڑوں کو مارتا ہے،کھانے کو جلدی ہضم کرتاہے، حرارت کو مارتاہےاورخوش ذائقہ ہوتاہے، بلغم اورصفراکاقاطع ہے،بھوک اچھی لگاتاہے۔
حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ سَهْلٍ الأَعْرَجُ الْبَغْدَادِيُّ قَالَ : حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ مَهْدِيٍّ ، عَنِ إِبْرَاهِيمَ بْنِ عُمَرَ بْنِ سَفِينَةَ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ جَدِّهِ قَالَ : أَكَلْتُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَحْمَ حُبَارَى.
ترجمہ: حضرت سفینہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے(ایک موقع پر) حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حبُاریٰ کا گوشت کھایا۔
زبدۃ:
1: ” سفینہ“ کامعنی ہوتا ہے”کشتی“۔ حضرت سفینہ رضی اللہ عنہ کا لقب بھی سفینہ اس وجہ سے پڑگیاتھاکہ آپ سفر میں کشتی کی طرح بہت سامان اٹھا لیتے تھے۔
2: ”حُباریٰ“ ایک جنگلی پرندہ ہےجوکہ مرغ سے ذراکم مگر خاصہ موٹا ہوتا ہے۔ اس کی گردن ،چونچ اور پاؤں قدرے لمبے ہوتے ہیں۔ یہ خاکی رنگ کاہوتا ہے۔اڑتے وقت بہت شور کرتا ہے۔ تیز رفتار اور بہت طاقتور پرندہ ہے۔ اس کانام بعض نے سرخاب بعض نے بٹیر،بعض نے چکا چکوٹی اوربعض نے تغدری بتایا ہے۔ محیط اعظم میں لکھا ہےکہ فارسی میں اس کو ہوبرہ، شعورت اور شوال کہتے ہیں اور ہندی میں چرزکو اور یونانی لوگ غلومس کہتے ہیں۔
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ قَالَ : حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، عَنْ أَيُّوبَ ، عَنِ الْقَاسِمِ التَّمِيمِيِّ ، عَنْ زَهْدَمٍ الْجَرْمِيِّ قَالَ : كُنَّا عِنْدَ أَبِي مُوسَى الأَشْعَرِيِّ قَالَ : فَقَدَّمَ طَعَامَهُ وَقَدَّمَ فِي طَعَامِهِ لَحْمَ دَجَاجٍ وَفِي الْقَوْمِ رَجُلٌ مِنْ بَنِي تَيْمِ اللَّهِ أَحْمَرُ كَاَنَّهُ مَوْلًى قَالَ : فَلَمْ يَدْنُ فَقَالَ لَهُ أَبُوْ مُوْسٰى : اُدْنُ ، فَإِنِّي قَدْ رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَكَلَ مِنْهُ ، فَقَالَ : إِنِّي رَأَيْتُهُ يَأْكُلُ شَيْئًا فَقَذِرْتُهُ فَحَلَفْتُ أَنْ لاَ أَطْعَمَهُ أَبَدًا.
ترجمہ: حضرت زہدم جرمی فرماتے ہیں کہ ہم حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کے پاس بیٹھے تھے۔ اتنے میں ان کاکھانا لایا گیاجس میں مرغی کا گوشت تھا۔ اس مجلس میں بنی تیم اللہ کا ایک سرخ رنگ کا آدمی بھی تھا جو آزاد شدہ غلام معلوم ہوتا تھا۔وہ کھانے میں شامل نہ ہوا۔ حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے فرمایا: تم بھی ادھر آؤ(اور کھاؤ) کیونکہ میں نے حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم کو مرغی کاگوشت کھاتے ہوئے خود دیکھا ہے۔ وہ شخص کہنے لگا کہ میں نے مرغی کو گندی چیزیں کھاتے ہوئے دیکھا ہے جس کی وجہ سے مجھے اس سے کراہت آتی ہے، لہٰذا میں نے اس کے نہ کھانے کی قسم کھا لی ہے۔
زبدۃ:
1: حلال جانوروں میں سے اگر کوئی جانور کثرت سے گندی چیزیں کھانے لگ جائے تو اس کاگوشت کھانا مکروہ ہے۔ گندگی کھانے کا جانور دراصل ایسا جانور ہوجاتاہےکہ اس کے سونگھنے کی قوت خراب ہوجاتی ہےجس کی وجہ سے اسے اچھی خوراک پسند نہیں آتی بلکہ وہ گندی اور نجس چیزوں میں منہ مارتا رہتا ہے۔ ایسے جانور کو ”جلالہ“ کہتے ہیں۔
ایسے جانور کا حکم یہ ہے کہ اگر وہ جانور بڑا ہو جیسے گائے، بھیڑ، بکری وغیرہ تو اس کو دس روز تک گھر میں باندھ کے رکھو اور پاکیزہ اور صاف خوراک دو۔ اب اس کاگوشت مکروہ نہیں رہے گا اور اگر جانور چھوٹا ہے جیسے مرغی وغیرہ تو اس کو تین دن تک گھر میں بند کرکے رکھو اور گندی اشیاء کے بجائے صرف پاکیزہ چیزیں کھلاؤ تو اس کا کھانا بھی مکروہ نہیں رہے گا۔
مرغی عام طور پر اچھی خوراک کھاتی ہے مگر گندی جگہوں میں بھی منہ ڈالتی رہتی ہے۔تاہم یہ جلالہ کے حکم میں نہیں آتی اور نہ ہی اس کا گوشت بدبو دار ہوتا ہے۔ لہذا اس کا گوشت کھانے میں کوئی حرج کی بات نہیں ہے۔
2: بخاری شریف میں یہ لمبا قصہ ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے پھر بھی یہی فرمایا کہ کھاؤ اور قسم کا کفارہ ادا کرو کیونکہ حلال چیز کےنہ کھانے کے کیا معنیٰ؟
3: مرغی کاگوشت بہت مفید ہے۔ گرم تر ہے۔جلدی ہضم ہوجاتا ہے۔ اخلاط اچھے پیدا کرتا ہے۔ دماغ اور جملہ اعضائے رئیسہ کو قوت دیتا ہے۔ آواز بھی صاف کرتا ہے اور رنگ بھی خوش نما پیدا کرتا ہے۔ عقل کو بھی قوت دیتا ہے۔ سب سے بڑھ کر اس کا کھانا سنت سے ثابت ہوگیا ہے۔ واضح ہو کہ یہاں دیسی مرغی کی بات ہورہی ہے، برائلر کی نہیں۔
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ مُوسَى قَالَ : حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ قَالَ : حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : كُلُوا الزَّيْتَ وَادَّهِنُوا بِهِ؛ فَإِنَّهُ مِنْ شَجَرَةٍ مُبَارَكَةٍ.
ترجمہ: حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: زیتون کا تیل کھاؤ اور مالش بھی کرو، اس لیے کہ وہ مبارک درخت سے پیدا کیا گیا ہے۔
زبدۃ:
زیتون کا ذکر قرآن کریم نے کئی بار فرمایا ہے حتیٰ کے اس کے نام کی قسم بھی کھائی ہے۔ زیتون بہت بابرکت ہے۔ انبیاء علیہم السلام نے اس کے بابرکت ہونے کی دعا فرمائی ہے۔ یہ اکثر ملک شام میں پیدا ہوتا ہے اور ملک شام میں ستر نبی مبعوث ہوئے ہیں۔ زیتون کے بابرکت ہونے کی ظاہری اور مادی علامت یہ بھی ہے کہ اس کی ہر چیز کارآمد ہوتی ہے، اس کی لکڑی، پتے، پھل حتیٰ کہ اس کا سایہ بھی نہایت گھنا ہونے کی وجہ سے انسان کے کام آتا ہے۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ اس کی ہر چیز میں منافع ہے، اس کا تیل جلانے کےکام آتاہے،کھانے کےکام آتاہے،دباغت کے کام آتاہے، ایندھن جلانے کےکام آتاہے حتیٰ کہ اس کی راکھ ریشم دھونے کے کام آتی ہے۔ حضرت ابونعیم رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اس میں ستر بیماریوں کی شفاء ہے جن میں ایک جذام بھی ہے۔
حضرت شاہ عبد العزیز محدث دھلوی(م۱۲۳۹ ھ) تفسیر عزیزی میں فرماتے ہیں: زیتون کا پھل نہایت قوی ہے، اس کے پھل پلاؤ میں ڈالے جاتے ہیں جو کھانے کو مزیدمرغوب اور خوش ہضم بنادیتے ہیں۔ زیتون کا تیل انسانی پٹھوں کے لیے بہت مفید ہے۔ فالج کےمریضوں یا بڑی عمر کے کمزور پٹھوں والے آدمیوں کے لیے زیتون کے تیل کی مالش نہایت مفید ہے۔
اس درخت کی عمر بہت لمبی ہوتی ہے۔ عام طور پر بارہ سال کی عمر میں پھل لاتا ہےاور ایک ہزار کی عمر تو اکثر ہوتی ہے۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ قَالَ : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ ، قَالاَ : حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ قَتَادَةَ ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ : كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُعْجِبُهُ الدُّبَّاءُ فَأُتِيَ بِطَعَامٍ ، أَوْ دُعِيَ لَهُ فَجَعَلْتُ أَتَتَبَّعُهُ فَأَضَعُهُ بَيْنَ يَدَيْهِ لِمَا أَعْلَمُ أَنَّهُ يُحِبُّهُ.
ترجمہ: حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت پاک صلی علیہ وسلم کو کدو بہت مرغوب تھا۔ ایک مرتبہ حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کھانا آیا یا آپ کسی دعوت میں تشریف لے گئے۔ میں بھی آپ کے ساتھ تھا۔ میں کدو کے قتلے چن چن کر حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے رکھتا جاتا تھا کیونکہ مجھے معلوم تھا کہ حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم کو کدو بہت پسند ہے۔
زبدۃ:
1: حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم کو کدو کا سالن بہت پسند تھا۔ کدو کے ٹکڑے ہوں یا اس کا شوربا، دونوں ہی بہت مرغوب تھے۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ سےایک روایت ہےکہ آپ ایک آدمی کی دعوت میں تشریف لے گئے تو میں نے دیکھا کہ آپ پیالے کی سب جانبوں سےکدو کو تلاش کرکے کھاتے رہے۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اس دن سے مجھے بھی کدو بہت محبوب ہوگیا۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ ہی فرماتے ہیں کہ میں نے جب کھانا تیار کرایا اگر میرے بس میں ہوا تو میں نے کدو ہی کا تیار کروایایا کدو اس میں ڈلوایا۔
2: حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے کہ کدو بہت اچھی چیز ہے اور میرے بھائی یونس علیہ السلام کا درخت ہے یعنی جب حضرت یونس علیٰ نبینا وعلیہ الصلوۃ والسلام مچھلی کے پیٹ سے باہر نکلے تو مچھلی کے پیٹ کی حرارت کی وجہ سے آپ کے بدن مبارک کی جلد نہایت نرم ہوچکی تھی، دریا کے باہر کوئی سایہ دار درخت نہ تھا تو اللہ تعالیٰ نے کدو کی بیل ان پرکردی جس کا ذکر قرآن کریم میں ہے: ”وَأَنْبَتْنَا عَلَيْهِ شَجَرَةً مِنْ يَقْطِينٍ“ (سورۃ الصافات: 146) کدوتر ہونے کےباوجودحافظے کو قوی کرتا ہے اور عقل کو تیز کرتا ہے۔
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الدَّوْرَقِيُّ ، وَسَلَمَةُ بْنُ شَبِيبٍ ، وَمَحْمُودُ بْنُ غَيْلاَنَ ، قَالُوا : حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ : كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُحِبُّ الْحَلْوَاءَ وَالْعَسَلَ.
ترجمہ: حضرت ام المؤمنین(میری امی) عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم حلوہ اور شہد کوپسندفرماتےتھے۔
زبدۃ:
عربی زبان میں ہر میٹھی چیز کوحُلواء(حلوہ) کہتے ہیں۔ اس سے مراد ہمارے ہاں کا معروف ومشہور حلوہ نہیں ہے جو کہ آٹا یا سوجی ،گھی، چینی وغیرہ ملا کر بنایا جاتا ہے۔ اس تشریح کی بناءپراگرچہ حلوہ میں شہدبھی شامل ہے،پھربھی شہدکوالگ اس کی خصوصیت کے پیش نظر بیان کیاگیا۔
بعض حضرات محدثین یہ بھی فرماتے ہیں کہ حدیث پاک میں بھی متعارف حلوہ ہی مراد لیا گیا ہے جو کہ آٹا، گھی وغیرہ سے بنایا جاتا ہے۔ کہتے ہیں کہ سب سے پہلے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے حلوا بنا کر حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں پیش کیا تھا اور حضرت نے اس کو پسند بھی فرمایا تھا۔ یہ حلوہ آٹے، شہد اورگھی کابنا ہوا تھاکیونکہ شکر کا اس وقت رواج نہ تھا اور شکر کی جگہ پر شہد یا کھجوریں استعمال ہوتی تھیں۔
حَدَّثَنَا وَاصِلُ بْنُ عَبْدِ الأَعْلَى قَالَ : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَيْلٍ ، عَنْ أَبِي حَيَّانَ التَّيْمِيِّ ، عَنْ أَبِي زُرْعَةَ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ : أُتِيَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِلَحْمٍ فَرُفِعَ إِلَيْهِ الذِّرَاعُ وَكَانَتْ تُعْجِبُهُ فَنَهَسَ مِنْهَا.
ترجمہ: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں گوشت لایاگیا، اس میں سے ایک بازو آپ کی خدمت میں پیش کیا گیا۔ بازو آپ کو بہت پسند تھا جسے آپ نے دانتوں سے نوچ کر تناول فرمایا۔
زبدۃ:
1: حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم کو بکری کی اگلی ٹانگوں (جن کو ”دست“ بھی کہتے ہیں) کا گوشت بہت پسند تھا۔ اس کی ایک وجہ حضرت ام المؤمنین (میری امی) عائشہ رضی اللہ عنہا یہ بھی بیان فرماتی ہیں کہ حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم کو گوشت کبھی کبھار ملتا تھا اور ”دست“ کا گوشت بہت جلدی تیار ہوجاتاتھا۔اگرچہ اس کی اور وجہیں بھی ہوسکتی ہیں۔ روایات کے مطابق آپ کو دست کے گوشت میں ہی زہر ملا کر کھلایا گیا تھا جس کا اثر آخر عمر تک رہا۔
2: اس کےعلاوہ حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ بہترین گوشت پُٹھ کا گوشت ہے۔ یہ گوشت ریڑھ کی ہڈی کے ساتھ ملا ہوتا ہےجس میں چربی بھی ہوتی ہے۔ یہ گوشت کھانے میں نہایت لذیذ اور عمدہ ہوتا ہے اور ویسے گوشت بغیر کسی حصہ کی تخصیص کے بھی پسندیدہ ہونا حضرت جابر رضی اللہ عنہ کی روایت میں آیا ہے۔
3: دانتوں سے کاٹ کر کھانے کی حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے ترغیب بھی ارشاد فرمائی ہے۔ چنانچہ حدیث میں آیا ہے کہ گوشت کو دانتوں سے کاٹ کر کھایا کرو، اس سے ہضم بھی خوب ہوتا ہے اور بدن کو موافق بھی زیادہ ہوتا ہے۔ یہ تو عام حالات کی بات ہے، البتہ اگر کبھی غیر معمولی حالات میں چھری کی ضرورت پڑ جائے مثلاً گوشت کا ٹکڑابہت زیادہ ہو اور اس میں سے ہر لقمہ ہاتھ سے توڑنا ممکن نہ ہو تو پھر چاقو کا استعمال بھی جائز ہے اور روایات سے ثابت ہے۔ البتہ بلاوجہ اور بلا ضرورت چاقو چھری سے گوشت کاٹ کر نہ کھایا جائے کہ روایات میں اس سے منع کیا گیا ہے اور اس کو کفار کا طریقہ بتا یاگیا ہے۔لہذا اس سے احتیاط کرنی چاہیے۔
4: ایک اہم بات یہ ہے کہ بھنے ہوئے گوشت کے کھالینےسےوضوءختم نہیں ہوتابلکہ باقی رہتا ہے۔ جن روایات سےکھانے کے بعدوضو کاکرنامعلوم ہوتاہےوہ روایات پہلے کی ہیں اور منسوخ ہیں۔
5: بعض روایات سےمسجد میں کھانے کی اجازت معلوم ہوتی ہے۔ اس سلسلہ میں یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیےکہ مسجد میں کھانے کی عادت بنا لینا تو قطعاً درست نہیں، البتہ مجبوری کی حالت میں مسافروں کے لیے اور طلبہ کے لیے اگر علیحدہ جگہ نہ ہوتو وہ مسجد میں کھا سکتے ہیں۔ معتکف حضرات بھی مسجد میں ہی کھائیں گے مگر مسجد کے آداب کو ملحوظ رکھنا ضروری ہے۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ قَالَ : حَدَّثَنَا مُسْلِمُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ قَالَ : حَدَّثَنَا أَبَانُ بْنُ يَزِيدَ ، عَنْ قَتَادَةَ ، عَنْ شَهْرِ بْنِ حَوْشَبٍ ، عَنْ أَبِي عُبَيْدٍ قَالَ : طَبَخْتُ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قِدْرًا وَقَدْ كَانَ يُعْجِبُهُ الذِّرَاعُ فَنَاوَلْتُهُ الذِّرَاعَ ثُمَّ قَالَ : نَاوِلْنِي الذِّرَاعَ ، فَنَاوَلْتُهُ ثُمَّ قَالَ : نَاوِلْنِي الذِّرَاعَ فَقُلْتُ : يَا رَسُولَ اللَّهِ ، وَكَمْ لِلشَّاةِ مِنْ ذِرَاعٍ فَقَالَ : وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَوْ سَكَتَّ لَنَاوَلْتَنِي الذِّرَاعَ مَا دَعَوْتُ.
ترجمہ: حضرت ابو عبید رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ہانڈی پکائی۔ حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم کو اگلے پائے بہت پسند تھے، چنانچہ میں نے ایک پایہ نکال کر حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کیا۔ پھر آپ نے فرمایا:مجھے ایک پایہ اور دو!میں نے دوسرا پایہ بھی دے دیا۔ آپ نے پھرفرمایا:مجھے ایک پایہ اور دو!میں نے عرض کیا یارسول اللہ! بکری کے اگلےپائے کتنے ہوتے ہیں؟ (یعنی دو ہی ہوتے ہیں جو میں نے آپ کو پیش کردیے ہیں ) حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:اس ذات پاک کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے، اگر تم خاموش رہتے تو جب تک میں مانگتا رہتا تم پائے نکال کر مجھے دیتے رہتے۔
زبدۃ:
1: حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے بہت زیادہ معجزات ظاہر ہوئے جن کا انکار دوپہر کے وقت چڑھے ہوئے سورج کے انکار کے مترادف ہے۔ معجزات پر اعتراض دراصل حق تعالیٰ کی طاقت پر اعترض ہے کیونکہ معجزہ تو اللہ کا فعل ہے جو کہ نبی کے ہاتھ پر ظاہر ہوتا ہے۔ بالکل اسی طرح کرامت بھی حق تعالیٰ کا فعل ہوتاہےجو کہ ولی کے ہاتھ پر ظاہر ہوتا ہے۔
2: حدیثِ بالامیں حضرت ابو عبید رضی اللہ عنہ کے اس کہنے پر کہ بکری کے دو ہی دست ہوتے ہیں آئندہ کا سلسلہ بند ہوجاناحضرت ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک اس بناء پر تھا کہ معجزات وکرامات اور اس قسم کے خلاف عادت واقعات کا پیش آنا مکمل فناء کی وجہ سے ہوتا ہے اور حضرت ابو عبید کے اس جواب کی وجہ سے وہ مکمل توجہ تامہ جو پہلے تھی وہ نہ رہی اور توجہ کے منقطع ہونے کی وجہ سے یہ چیزیں بھی منقطع ہوگئیں۔
علامہ مناوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ یہ ایک انعام الہٰی تھا اور اگر حضرت ابو عبید رضی اللہ عنہ مکمل اتباع کرتے ہوئے حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی بات مانتے جاتے تو یہ سلسلہ یقیناً باقی رہتا مگر حضرت ابو عبید کی طرف سے جو اعتراض پیدا ہوا (اگرچہ صورۃً اعتراض تھا حقیقت میں اعتراض کرنا ہر گز مقصود نہ تھا ) اس کی وجہ سے وہ انعام واکرام بھی جاتا رہا۔
3: برکت کے طور پر ہم بھی حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے تین معجزات کو ذکر کردیتے ہیں۔
معجزہ نمبر1:
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کے پاس ایک تھیلی میں کھجور کے چند دانے تھے۔ حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: اس میں کیا ہے؟ انہوں نے کھجور کے چند دانے نکال کر آپ کے سامنے رکھ دیے۔ حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا فرمائی اور فرمایا کہ سارے لشکر کو کھانے کے لیے بلا لاؤ۔ چنانچہ سارا لشکر خوب سیر ہو کر کھا چکا تو بھی کھجوریں بچ گئیں۔ حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ان کو اپنی تھیلی میں ڈال لو اور جب بھوک لگے تو اسی میں سے نکال کر کھا لینا مگر یاد رکھنا کہ اس کو الٹا کر ساری کھجوریں بیک وقت نہ نکالنا۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایات کے مطابق اس تھیلی میں سے کھجوریں نکال کر کھاتا رہا حتی کہ حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانہ مبارک گزر گیا،پھر حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ، اسی طرح حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں بھی وہی کھجوریں میری خوراک بنی رہیں۔ پھر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا زمانہ آگیا اور میں اس میں سے کھجوریں کھاتارہا اور مہمانوں کو بھی کھلاتا رہا حتیٰ کہ کئی من کھجوریں اس میں سے نکال کر کھالیں مگر تھیلی میں کمی نہ آئی۔ پھر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت کے حادثہ کےوقت وہ تھیلی مجھ سے کسی نے زبر دستی چھین لی۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کواس تھیلی کے چھن جانے کا بہت افسوس ہوا اور فرمانے لگے:

لِلنَّاسِ ہَمٌّ وَلِی الْیَوْمَ ہَمَّانِ

 

ہَمُّ الْجِرَابِ وَہَمُّ الشَّیْخِ عُثْمَانِ

آج کے دن لوگوں کو صرف ایک غم ہے کہ حضرت عثمان شہید ہوگئے اور مجھے دوغم ہیں؛ ایک حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت کا اور دوسرا تھیلی کے ضائع ہونے کا۔
(جامع الترمذی: ج2 ص223ابواب المناقب. باب مناقب عثمان)
معجزہ نمبر2:
حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ نے حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی دعوت کی تو حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا فرمائی۔ پھر فرمایا کہ دس دس آدمیوں کے گروہ کو بلاتے جاؤ اور کھانا کھلاتے جاؤ۔ چنانچہ ایک ایک گروہ آتا رہا اور کھانا کھا کر جاتا رہا حتیٰ کہ دو آدمیوں کے لیے تیار کیا ہوا کھانا ایک سو اسی آدمیوں نے خوب سیر ہوکر کھایا۔
معجزہ نمبر3:
حضرت سمرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کہیں سے ایک پیالہ گوشت آگیا اور صبح سے شام تک لوگ آتے رہے اور کھاتے رہے۔
(جامع الترمذی: ابواب المناقب. باب ما جاء فی آیات اثبات نبوۃ النبی صلی اللہ علیہ و سلم)
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى قَالَ : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ قَالَ : حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ ، عَنْ مُرَّةَ الْهَمْدَانِيِّ ، عَنْ أَبِي مُوسَى الأَشْعَرِيِّ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : فَضْلُ عَائِشَةَ عَلَى النِّسَاءِ كَفَضْلِ الثَّرِيدِ عَلَى سَائِرِ الطَّعَامِ.
ترجمہ: حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت پاک صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: عائشہ کی فضیلت باقی عورتوں پر ایسی ہے جیسی ثرید کھانے کی فضیلت باقی تمام کھانوں پر۔
زبدۃ :
1: ” ثرید“ ایسے گوشت کے شوربے کو کہتے ہیں جس میں روٹی کے ٹکڑے بھگو کر کچھ دیر کے لیے رکھ دیے جاتے ہیں حتیٰ کہ وہ ٹکڑے شوربے میں بھیگ کر خوب نرم ہوجاتے ہیں۔
ثرید؛ خوش ذائقہ، خوش ہضم، سریع الہضم، لذیذ اور قوی ہونے کے علاوہ جلد تیار ہو جاتا ہے۔عربوں میں یہ کھانا بہت مرغوب اوربہت اعلیٰ سمجھا جاتاہے۔
2: اس حدیث مبارک میں حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم سے حضرت ام المؤمنین(میری امی) عائشہ رضی اللہ عنہا کی فضیلت تمام عورتوں پر ثابت ہوتی ہے۔ علماء کا اختلاف ہے اس سے مراد سب عورتیں ہیں یا چند عورتوں کے علاوہ بقیہ عورتیں، کیونکہ بعض علماء حضرت ام المؤمنین(میری امی ) خدیجہ رضی اللہ عنہا اوربعض حضرات حضرت فاطمۃ الزہراء رضی اللہ عنہا کی فضیلت کے قائل ہوئے ہیں۔ البتہ صحیح بات یہ ہے کہ کسی خاتون کو کلی طور پر تمام عورتوں سے فضیلت نہ ثابت ہے اور نہ دی جاسکتی ہے۔ تاریخ اسلام میں چند عورتیں اپنی مثال آپ ہیں اور ان میں سے ہر ایک کو دوسری عورتوں سے جزوی فضیلت حاصل ہے۔
حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں: مرد تو بہت سے کامل ہوئے ہیں مگر عورتوں میں سے کاملین مریم بنت عمران،خدیجہ بنت خویلد،عائشہ بنت ابوبکر صدیق اور فاطمہ بنت محمد ہوئیں۔ بعض روایات میں آسیہ بنت مزاحم کا نام بھی آیا ہے جو کہ فرعون کی بیوی تھیں مگر کامل الایمان تھیں۔
اللہ تعالیٰ نے حضرت مریم کویہ شرف بخشا ہے کہ ان کے پیٹ سے بغیر باپ کے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو پیدا فرمایا اور ان کو خود ”صدیقہ“ کا لقب دیا۔ ام المؤمنین (میری امی) حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت کرنے ،مشکلات کے دور کرنے، حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا ساتھ دینے، اپنا سارا مال دینِ اسلام پر خرچ کرنے اور عورتوں میں سب سے پہلے اسلام لانے والی ہونے میں اپنا کوئی ثانی نہیں رکھتیں۔
حضرت فاطمہ الزھرا ءرضی اللہ عنہا کے بارے میں حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد مبارک ہے: ”فاطمۃ بضعۃ منّی“ یعنی فاطمہ میرے جگر کا ٹکڑا ہے۔ نیز یہ کہ یہ جنت میں عورتوں کی سردار ہوگی۔
حضرت ام المؤمنین (میری امی) عائشہ رضی اللہ عنہا حسنِ فقاہت اور دینی خدمت میں حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی محبوب ہونے میں سب سے آگے تھیں، آپ کے بستر مبارک میں وحی آتی تھی، ان کی گود میں حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا انتقال ہوا، انتہاء کی خدا پرست، عبادت گزار اور ذہین خاتون تھیں۔ حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے نکاح میں آنے والی آپ واحد خاتون ہیں جوکہ کنواری تھیں۔ حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی باقی بیویاں یا تو پہلے سے شادی شدہ (یعنی بیوہ) تھیں یا مطلقہ تھیں۔
حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ قَالَ : حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ ، عَنْ وَائِلِ بْنِ دَاوُدَ ، عَنِ ابْنِهِ وَهُوَ بَكْرُ بْنُ وَائِلٍ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ : أَوْلَمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى صَفِيَّةَ بِتَمْرٍ وَسَوِيقٍ.
ترجمہ: حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت صفیہ کا ولیمہ کھجور اور ستو کے ساتھ کیا۔
زبدۃ:
1: حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا جنگ خیبر میں سن 7 ہجری میں باندی بن کر آئی تھیں۔ حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو آزاد فرماکر نکاح فرمالیا تھا اور سفر میں ہی ولیمہ فرمایا تھا، جس کی صورت یہ ہوئی کہ آپ نے دستر خوان بچھانے کا حکم دیا اور اپنے پاس جو کھجوریں اور ستوتھے اس پر رکھ دیے۔ پھر دوسرے لوگوں کے پاس جو کچھ تھا وہ بھی اس پر چن دیا گیا اور سب نے مل کر کھا لیا۔
2: نکاح کے بعد مرد کی طرف سے کھلایا جانے والا کھانا ”ولیمہ“ کہلاتا ہے مگر یہ نہ تو فرض ہے نہ واجب ہے نہ ہی سنت مؤکدہ بلکہ محض مستحب ہے۔ اس لیے حسبِ استطاعت ہی خرچ کرنا چاہیے۔ اس میں قرض لینا اور تکلفات کرنا مناسب نہیں ہے۔
حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلاَنَ قَالَ : حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ السَّرِيِّ ، عَنْ سُفْيَانَ ، عَنْ طَلْحَةَ بْنِ يَحْيَى ، عَنْ عَائِشَةَ بِنْتِ طَلْحَةَ ، عَنْ عَائِشَةَ ، أُمِّ الْمُؤْمِنِينَ قَالَتْ : كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَأْتِينِي فَيَقُولُ : أَعِنْدَكِ غَدَاءٌ؟ فَأَقُولُ : لاَ . قَالَتْ : فَيَقُولُ : إِنِّي صَائِمٌ . قَالَتْ : فَأَتَانِي يَوْمًا ، فَقُلْتُ : يَا رَسُولَ اللَّهِ ، إِنَّهُ أُهْدِيَتْ لَنَا هَدِيَّةٌ قَالَ : وَمَا هِيَ؟ قُلْتُ : حَيْسٌ قَالَ : أَمَا إِنِّي أَصْبَحْتُ صَائِمًا قَالَتْ : ثُمَّ أَكَلَ․
ترجمہ: حضرت ام المؤمنین(میری امی)عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس تشریف لایا کرتے اور پوچھتے کہ تمہارے پاس صبح کے کھانے کے لیے کچھ ہے؟ جب میں عرض کرتی کہ نہیں تو فرماتے: میں روزہ ہی کا ارادہ کر لیتا ہوں۔ پھر ایک مرتبہ آپ تشریف لائے اور میں نے عرض کیا کہ ہمار ے پاس ہدیہ آیا ہے۔ فرمایا: وہ کیا ہے؟ میں نے عرض کیا کہ ملیدہ یعنی حلوہ ہے۔ آپ نے فرمایا کہ میں نے روزہ کا ارادہ کرلیا تھا، پھر آپ نے کھالیا۔
زبدۃ:
1: عربوں کے ہاں ایک خاص قسم کا حلوہ مشہور تھا جو کہ کھجوریں اور مکھن وغیرہ ملا کر بنایا جاتا تھا۔
2: نفلی روزہ کی نیت اگر صبح صادق کے وقت نہ کی ہو تو زوال تک کر لینا جائز ہے بشرطیکہ درمیان میں کوئی عمل ایسا نہ کیا ہو جس سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے جیسے کھانا، پینا ، ہم بستری وغیرہ۔
3: اگر کسی بھی وجہ سے نفلی روزہ توڑ دیا جائے تو اس کی قضاء کرنا ضروری ہے۔
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ قَالَ : حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ حَفْصِ بْنِ غِيَاثٍ قَالَ : حَدَّثَنَا أَبِي ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ أَبِي يَحْيَى الأَسْلَمِيِّ ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي أُمَيَّةَ الأَعْوَرِ ، عَنْ يُوسُفَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَلاَمٍ قَالَ : رَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَخَذَ كِسْرَةً مِنْ خُبْزِ الشَّعِيرِ فَوَضَعَ عَلَيْهَا تَمْرَةً وَقَالَ : هَذِهِ إِدَامُ هَذِهِ وَأَكَلَ.
ترجمہ: حضرت عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے ایک مرتبہ حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ نے جَو کی روٹی کا ایک ٹکڑا لیا اور اس پر ایک کھجور رکھی اور کہا کہ یہ اس کا سالن ہے۔پھر اس کو تناول بھی فرمایا۔
زبدۃ:
پہلے گزر چکا ہے کہ حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے سرکہ کے بارے میں فرمایا کہ کیا ہی اچھا سالن ہے! سرکہ تو بطور سالن استعمال ہوتاہی تھا مگر کھجور کا استعمال بطورِ سالن نہیں ہوتا۔اب اس روایت میں کھجور کے متعلق ارشادفرمایاکہ یہ اس روٹی کا سالن ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اگر کسی وقت باقاعدہ کوئی سالن نہ ہو تو سرکہ، پیاز،کھجور جو چیزبھی میسر ہو اسے بطورِ سالن استعمال کر لینا چاہیے اور اپنے اصلی مقصد یعنی آخرت کی تیاری میں لگے رہنا چاہیے۔
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ قَالَ : حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ سُلَيْمَانَ ، عَنْ عَبَّادِ بْنِ الْعَوَّامِ ، عَنْ حُمَيْدٍ ، عَنْ أَنَسٍ : أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يُعْجِبُهُ الثُّفْلُ قَالَ عَبْدُ اللَّهِ : يَعْنِي مَا بَقِيَ مِنَ الطَّعَامِ.
ترجمہ: حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم کو بچا ہوا کھانا بہت مرغوب تھا۔
زبدۃ:
”ثفل“ حقیقت میں کسی بھی کھانے کے اس حصہ کو کہتےہیں جو کہ پکنے کی وجہ سے دیگچی وغیرہ کی تہہ میں لگ جاتا ہے اور بہت سخت ہوجاتاہے۔پنجاب میں اس کو ”گروڑی یا کُھرچن“ کہتے ہیں۔ تاہم کھاناکھانےکےبعدجوکھانابچ جاتاہےاس کوبھی ”ثقل“ کہتےہیں۔ حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم اس کوپسندفرماتےتھے۔اس میں تعلیم دینا مقصود تھی کہ معمولی سے معمولی نعمت کی بھی قدرکرناچاہیےاورضائع نہ کرنا چاہیے۔ نیز یہ حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم کاکمال تواضع تھاکہ اوپر کا کھانا دوسروں کو دے دیتے اور بچا ہوا خود استعمال فرماتے تھے۔