حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا گفتگو کرنا

User Rating: 2 / 5

Star ActiveStar ActiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
بَابُ كَيْفَ كَانَ كَلاَمُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
باب: اس بیان میں کہ حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم گفتگوکیسےفرماتےتھے؟
حَدَّثَنَا حُمَيْدُ بْنُ مَسْعَدَةَ الْبَصْرِيُّ قَالَ : حَدَّثَنَا حُمَيْدُ بْنُ الأَسْوَدِ ، عَنِ أُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ عُرْوَةَ ، عَنْ عَائِشَةَ ، قَالَتْ : مَا كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَسْرُدُ سرْدَكُمْ هَذَا ، وَلَكِنَّهُ كَانَ يَتَكَلَّمُ بِكَلاَمٍ بَيِّنٍ فَصْلٍ ، يَحْفَظُهُ مَنْ جَلَسَ إِلَيْهِ.
ترجمہ: حضرت ام المؤمنین(میری امی) عائشہ رضی اللہ عنہافرماتی ہیں کہ حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم تمہاری طرح جلدی جلدی بات چیت نہ فرماتے تھے بلکہ آپ بالکل صاف صاف بات کرتے تھےاور ہر بات دوسری سے جداہوتی تھی جسے آپ کے پاس بیٹھنے والااچھی طرح ذہن نشین کرلیتاتھا۔
زبدۃ:
1: دوسری روایت میں حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم (بعض مرتبہ) اپنی بات کوتین تین مرتبہ دہراتے تھے تاکہ سننے والااچھی طرح بات سمجھ لے۔
اس روایت کامطلب بعض محدثین یہ بیان فرماتے ہیں کہ جب مجمع زیادہ ہوتا توآپ ایک مرتبہ دائیں جانب، ایک مرتبہ بائیں جانب اور ایک مرتبہ سامنے بیٹھنے والوں کی طرف متوجہ ہوکربات ارشاد فرماتےتھے۔ بعض محدثین فرماتے ہیں کہ ذہین لوگ پہلی بار ہی سمجھ جاتے، متوسط درجہ کے لوگ دوسری بار اور سب سے ادنیٰ درجہ کےلوگ تیسری بار سمجھ جاتے تھے۔ بعض محدثین فرماتےہیں کہ پہلی بار بات سنانے کے لیے ،دوسری بار یادکرانےکے لیے اور تیسری بار غوروفکر کرنے کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم بات کو تین مرتبہ ارشادفرماتےتھے۔
تیسری روایت میں حضرت حسن بن علی رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ میں نےہندابن ابی ہالہ رضی اللہ عنہ سے کہاجو کہ حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے اوصاف اکثر بیان فرماتے تھے کہ مجھے بھی حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی گفتگوکے بارےمیں بتائیں کہ وہ کیسی ہوتی تھی؟ انہوں نےفرمایا: حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم مسلسل (آخرت کے) غم میں مشغول رہتےاور ہمیشہ فکرمندرہتے۔آپ کےہاں راحت نام کی کوئی چیز نہ تھی۔
آپ زیادہ تر خاموش ہی رہتے، بغیر ضرورت کے بات نہ فرماتےتھے۔آپ کی تمام گفتگوابتداء سے اخیر تک منہ بھر کرہوتی تھی۔ (یعنی نوک زبان سےکٹے ہوئے لفظ ادانہ فرماتے تھے) جامع کلمات کے ساتھ گفتگو فرماتے تھے (جامع کلمہ وہ ہوتاہےکہ لفظ توکم ہوں مگر معنی بہت زیادہ ہوں ) آپ کا کلام بالکل ایک دوسرے سے ممتاز ہوتاتھا، نہ اس میں فضول بات ہوتی تھی اور نہ ہی کوتاہی ہوتی۔ آپ نہ تو سخت مزاج تھےاور نہ ہی کسی کی تذلیل فرماتے تھے۔
آپ اللہ کی نعمتوں کی قدر فرماتے تھے اگرچہ وہ بہت تھوڑی ہی کیوں نہ ہوں، کبھی نعمت کی مذمت نہ فرماتے تھے، البتہ کھانے کی چیزکی نہ مذمت فرماتے اور نہ ہی زیادہ تعریف فرماتے (البتہ کبھی کبھی اظہارِ رغبت یاکسی کی دلداری کے لیے خاص خاص چیزوں کی تعریف بھی فرمادیتے) آپ کو دنیا اور نہ ہی دنیا کی کسی چیز کی وجہ سے غصہ آتاتھا، البتہ حق کے معاملہ میں کوئی زیادتی کرتا تو پھر آپ اس قدر غصہ ہوتے کہ کوئی آپ کے غصہ کی تاب نہ لاسکتااور کوئی روک بھی نہ سکتاتھاجب تک کہ آپ اس کا انتقام نہ لےلیں۔ اپنی ذات کے لیے نہ ناراض ہوتے اور نہ ہی انتقام لیتے تھے۔
جب کسی جانب اشارہ فرماتے توپورے ہاتھ سے اشارہ فرماتے، جب کسی چیز پر تعجب کااظہار فرماتے تو ہاتھ کوپلٹ لیتے تھے، جب بات کرتے توہاتھ کوملالیتے (اور کبھی کبھی ہاتھ کوحرکت بھی دیتے) اور اپنے دائیں ہاتھ کی ہتھیلی کو بائیں ہاتھ کے انگوٹھے پر مارتے۔ جب آپ کسی سے ناراض ہوتے تواس سے منہ پھیرلیتے اور بے توجہی فرماتے یادرگزر فرماتے اور جب خوش ہوتے تو حیا کی وجہ سےآنکھیں جھکا لیتے۔ ہنسی میں صرف مسکراتےتھےاور اس وقت آپ کے دندان مبارک اولے کی طرح سفید اور چمکدار معلوم ہوتے تھے۔
2: حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم اشارہ پورے ہاتھ سے فرماتے تھے۔ اس کی وجہ بعض محدثین یہ بیان فرماتےہیں کہ ایک انگلی سے آپ توحیدکااشارہ فرماتے تھے، اس لیے غیراللہ کی طرف ایک انگلی سے اشارہ نہ فرماتے تھے۔ بعض محدثین فرماتےہیں کہ صرف انگلی سے اشارہ کرنا تواضع کے خلاف ہے،اس لیے آپ پورے ہاتھ سے اشارہ فرماتے تھے۔