حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی گریہ زاری

User Rating: 5 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar ActiveStar Active
 
بَابُ مَا جَاءَ فِي بُكَاءِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
باب: حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی گریہ زاری کےبیان میں
حَدَّثَنَا سُوَيْدُ بْنُ نَصْرٍ قَالَ : حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُبَارِكِ ، عَنْ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَةَ ، عَنْ ثَابِتٍ ، عَنْ مُطَرِّفٍ وَهُوَ ابْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الشِّخِّيرِ ، عَنْ أَبِيهِ قَالَ : أَتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ يُصَلِّي وَلِجَوْفِهِ أَزِيزٌ كَاَزِيزِ الْمِرْجَلِ مِنَ الْبُكَاءِ.
ترجمہ: حضرت عبداللہ بن شخیر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوا، آپ نماز پڑھ رہے تھےاور سینہ مبارک سے رونے کی وجہ سے ایسی آواز آرہی تھی جیسی کہ ہنڈیا کے جوش کی آواز ہوتی ہے۔
حدیث: حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم نےمجھے ارشاد فرمایا: قرآن سناؤ! میں نے عرض کیاکہ حضرت! آپ پر قرآن نازل ہوتاہے،میں آپ کو کیسے سناؤں؟ توآپ نے ارشاد فرمایا: میں چاہتاہوں کہ کسی دوسرے سے بھی قرآن پاک سنوں۔ چنانچہ میں نے سورۃ النساء پڑھنی شروع کی اور جب آیت ”وَجِئْنَا بِكَ عَلٰى هٰؤُلَاءِ شَهِيْدًا“ [سورۃ النساء: 41] پر پہنچا تو میں نے حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ مبارک کی طرف دیکھا ، آپ کی دونوں آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے۔
حدیث: حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ مبارک میں ایک بار سورج گرہن ہوگیا تو حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم نماز کے لیے کھڑے ہوگئے اور اتنا لمبا قیام فرمایاکہ گویا رکوع کا ارادہ ہی نہیں ہے (دوسری روایت میں ہےکہ سورت بقرہ پڑھی) پھر آپ نے رکوع اتنا لمبا فرمایا گویا سر اٹھانے کا ارادہ نہیں ہےاور اتنی دیر کھڑے رہے کہ گویا سجدہ کرنے کاارادہ ہی نہیں ہے۔ پھر آپ نے اتنا لمبا سجدہ کیاکہ گویاسر اٹھانے کاارادہ ہی نہیں ہے۔ پھر آپ نے سر اٹھایا کہ گویا دوسرا سجدہ کرنے کا ارادہ ہی نہیں ہے۔ پھر آپ نے دوسرا سجدہ فرمایا اور اتنا لمبا سجدہ فرمایا کہ گویا سر اٹھانے کا ارادہ ہی نہیں ہے۔ آپ شدت غم اور جوش کے ساتھ سانس لیتے اور روتے تھےاور فرماتے تھے:اے پروردگار! تونے میرے ساتھ وعدہ کیا تھاکہ میری موجودگی تک میری امت کو عذاب نہ دے گااور تو نے یہ وعدہ کیا تھااے اللہ! کہ جب تک یہ استغفار کرتے رہیں گےمیں ان کو عذاب نہ دوں گا،اب ہم استغفار کرتے ہیں۔ پھر جب آپ دو رکعت نماز سے فارغ ہوگئے تو سورج نکل آیا۔ پھر حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے، اللہ کی حمدوثناء بیان فرمائی، پھر فرمایا: بے شک سورج اور چاند اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سےدو نشانیاں ہیں، ان کو کسی کی موت یا پیدائش کی وجہ سے گرہن نہیں لگتا۔ لہٰذا جب سورج گرہن یا چاند گرہن ہوجائے تواللہ تعالیٰ ہی کی طرف متوجہ ہوجاؤ۔
زبدۃ:
یہ واقعہ اکثر محدثین کے نزدیک سن 10 ہجری کا ہے۔ زمانہ جاہلیت میں یہ بات مشہور تھی کہ سورج اور چاند کو گرہن کسی بڑی شخصیت کی موت یا پیدائش کی وجہ سے ہو جاتا ہے۔ اتفاق سےجس زمانہ میں سورج گرہن ہوا تو حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے صاحبزادے حضرت ابراہیم کا انتقال بھی اسی زمانہ میں ہوا تھا۔ اس لیے حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے اس باطل خیال کی تردید فرمائی۔
حدیث: حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک صاحبزادی دم توڑ رہی تھی (یعنی قریب الوفات تھی) تو آپ نے اس کو اپنی گود میں اٹھا لیااور اپنے سامنے ہی رکھ لیا۔ پس وہ حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ہی وفات پا گئی۔ حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی آزاد کردہ باندی حضرت ام ایمن رضی اللہ عنہا چلا کر رونے لگی تو حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم اللہ کے رسول کی موجودگی میں (اس طرح) رو رہی ہو؟ باندی نے عرض کیا: حضور! آپ بھی تو رورہے ہیں۔ آپ نے فرمایا: (یہ رونا ممنوع نہیں ) بلکہ یہ تو اللہ کی رحمت ہے (کہ بندہ کے دل کو نرم فرماویں۔ کیونکہ آپ کے آنسوجاری تھےمگر زور دار آواز سے نہیں رو رہے تھے) بے شک مؤمن بندہ ہر حال میں خیر میں ہی ہوتا ہےحتیٰ کہ خود اس کی جان اس کے جسم سے نکل رہی ہوتی ہے تب بھی وہ اس حال میں اللہ تعالیٰ کی حمد اور تعریف ہی کرتا ہے۔
زبدۃ:
محدثین اور مؤرخین کی تحقیق یہ ہےکہ حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارکہ میں آپ کی کسی صاحبزادی یا نواسی کا بچپن میں انتقال نہیں ہوا بلکہ آپ کے دو نواسے ایسے ہیں جو بچپن میں فوت ہوئے ہیں۔ ان میں سے ایک حضرت رقیہ رضی اللہ عنہا کا بیٹاعبداللہ بن عثمان تھا دوسرا حضرت فاطمۃ الزہرا رضی اللہ عنہا کا بیٹا محسن تھا۔ اس لیے راوی کو غلطی لگ گئی ہے۔ حدیث کے الفاظ ”بنت لہ“ (یعنی آپ کی بیٹی) نہیں بلکہ ”ابن بنت لہ“ (یعنی آپ کا نواسہ) ہیں۔
حدیث : حضرت ام المؤمنین (میری امی) عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ حضرت عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ جب فوت ہوئے تو حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی پیشانی کو بوسہ دیا۔ اس وقت آپ کی مبارک آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے۔
زبدۃ :
حضرت عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے دودھ شریک بھائی تھے۔ بڑے پرہیز گار اور عبادت گزار تھے۔ حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مکہ سے مدینہ ہجرت کی۔ جب شراب حلال تھی تب بھی نہ پیتے تھے۔ مہاجرین صحابہ رضی اللہ عنہم میں سب سے پہلے فوت ہوئے۔ آپ کا سنِ وفات سن 2 ہجری ہے۔ جنت البقیع میں دفن ہوئے تھے۔ ان کی قبر پر حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے شناخت کے لیے کالا پتھر بھی رکھ دیا تھا۔
زبدۃ:
آدمی کئی وجہ سے روتا ہے؛رحمت ومہربانی کی وجہ سے،محبت اور شوق کی وجہ سے، خوف کی وجہ سے، غلبہ خوشی کی وجہ سے، درد و تکلیف کی وجہ سے،کسی صدمہ اور رنج کی وجہ سے، کسی کے ظلم کی وجہ سے، گناہوں پر ندامت اور توبہ کی وجہ سے، اللہ تعالیٰ کے خوف اور محبت کی وجہ سےاور اللہ تعالیٰ سے ملاقات کے شوق کی وجہ سے رونا تو بہت ہی پسندیدہ بات ہے۔البتہ نفاق، دکھلاوے اور ریا کاری کا رونااور میت پر نوحہ یعنی میت کی خوبیوں وغیرہ کا تذکرہ کرکےبلند آواز سے بین کرنااور بے صبری کا رونا یہ جائز نہیں ہے۔
اور حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم امت پر شفقت اور رحمت کی وجہ سےیا اللہ تعالیٰ کے خوف اور محبت کی وجہ سےیا اللہ تعالیٰ کی ملاقات کے شوق میں اکثر رویا کرتے تھے۔ اللہ کریم ہمیں بھی حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع نصیب فرمائے آمین۔