حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی عاجزی و انکساری

User Rating: 5 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar ActiveStar Active
 
بَابُ مَا جَاءَ فِي تَوَاضُعِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
باب: حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی عاجزی و انکساری کے بیان میں
حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ وَكِيعٍ قَالَ : حَدَّثَنَا جُمَيْعُ بْنُ عُمَرَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْعِجْلِيُّ قَالَ : أَنْبَأَنَا رَجُلٌ مِنْ بَنِي تَمِيمٍ مِنْ وُلْدِ أَبِي هَالَةَ زَوْجِ خَدِيجَةَ يُكَنّٰى أَبَا عَبْدِ اللَّهِ ، عَنِ ابْنٍ لِأَبِي هَالَةَ ، عَنِ الْحَسَنِ بْنِ عَلِيٍّ قَالَ : سَأَلْتُ خَالِي هِنْدَ بْنَ أَبِي هَالَةَ ، وَكَانَ وَصَّافًا عَنْ حِلْيَةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، وَأَنَا أَشْتَهِي أَنْ يَصِفَ لِي مِنْهَا شَيْئًا ، فَقَالَ : كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَخْمًا مُفَخَّمًا ، يَتَلَأْلَأُ وَجْهُهُ تَلَأْلُؤَ الْقَمَرِ لَيْلَةَ الْبَدْرِ فَذَكَرَ الْحَدِيثَ بِطُولِهِ قَالَ الْحَسَنُ : فَكَتَّمْتُهَا الْحُسَيْنَ زَمَانًا ، ثُمَّ حَدَّثْتُهُ فَوَجَدْتُهُ قَدْ سَبَقَنِي إِلَيْهِ . فَسَأَلَهُ عَمَّا سَأَلْتُهُ عَنْهُ وَوَجَدْتُهُ قَدْ سَأَلَ أَبَاهَا عَنْ مَدْخَلِهِ وَمَخْرَجِهِ وَشَكْلِهِ فَلَمْ يَدَعْ مِنْهُ شَيْئًا.
قَالَ الْحُسَيْنُ: فَسَأَلْتُ أَبِي ، عَنْ دُخُولِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ : كَانَ إِذَا أَوٰى إِلَى مَنْزِلِهِ جَزَّأَ دُخُولَهُ ثَلاَثَةَ أَجْزَاءٍ ، جُزْءًا لِلَّهِ ، وَجُزْءًا لِأَهْلِهِ ، وَجُزْءًا لِنَفْسِهِ ، ثُمَّ جَزَّأَ جُزْأَهُ بَيْنَهُ وَبَيْنَ النَّاسِ ، فَيَرُدُّ ذَلِكَ بِالْخَاصَّةِ عَلَى الْعَامَّةِ ، وَلاَ يَدَّخِرُ عَنْهُمْ شَيْئًا ، وَكَانَ مِنْ سِيْرَتِهِ فِي جُزْءِ الْأُمَّةِ إِيثَارُ أَهْلِ الْفَضْلِ بِإِذْنِهِ وَقَسْمِهِ عَلَى قَدْرِ فَضْلِهِمْ فِي الدِّينِ ، فَمِنْهُمْ ذُو الْحَاجَةِ ، وَمِنْهُمْ ذُو الْحَاجَتَيْنِ ، وَمِنْهُمْ ذُو الْحَوَائِجِ ، فَيَتَشَاغَلُ بِهِمْ وَيَشْغَلُهُمْ فِيمَا يُصْلِحُهُمْ وَالْأُمَّةَ مِنْ مُسَاءَلَتِهِمْ عَنْهُ وَإِخْبَارِهِمْ بِالَّذِي يَنْبَغِي لَهُمْ وَيَقُولُ : لِيُبَلِّغِ الشَّاهِدُ مِنْكُمُ الْغَائِبَ ، وَأَبْلِغُونِي حَاجَةَ مَنْ لَّا يَسْتَطِيعُ إِبْلاَغَهَا ، فَإِنَّهُ مَنْ أَبْلَغَ سُلْطَانًا حَاجَةَ مَنْ لاَ يَسْتَطِيعُ إِبْلاَغَهَا ثَبَّتَ اللَّهُ قَدمَيْهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ ، لاَ يُذْكَرُ عِنْدَهُ إِلاَ ذَلِكَ ، وَلاَ يُقْبَلُ مِنْ أَحَدٍ غَيْرِهِ ، يَدْخُلُونَ رُوَّادًا وَلاَ يَفْتَرِقُونَ إِلاَ عَنْ ذَوَاقٍ ، وَيُخْرِجُونَ أَدِلَّةً يَعْنِي عَلَى الْخَيْرِ.
قَالَ : فَسَأَلْتُهُ عَنْ مَخْرَجِهِ كَيْفَ يَصْنَعُ فِيهِ؟ قَالَ : كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَخْرِنُ لِسَانُهُ إِلاَ فِيمَا يَعْنِيهِ ، وَيُؤَلِّفُهُمْ وَلاَ يُنَفِّرُهُمْ ، وَيُكْرِمُ كَرَيمَ كُلِّ قَوْمٍ وَيُوَلِّيهِ عَلَيْهِمْ ، وَيُحَذِّرُ النَّاسَ وَيَحْتَرِسُ مِنْهُمْ مِنْ غَيْرِ أَنْ يَطْوِيَ عَنْ أَحَدٍ مِنْهُمْ بِشْرَهُ وَخُلُقَهُ ، وَيَتَفَقَّدُ أَصْحَابَهُ ، وَيَسْأَلُ النَّاسَ عَمَّا فِي النَّاسِ ، وَيُحَسِّنُ الْحَسَنَ وَيُقَوِّيْهِ ، وَيُقَبِّحُ الْقَبِيْحَ وَيُوَهِّيْهِ ، مُعْتَدِلُ الأَمْرِ غَيْرُ مُخْتَلِفٍ ، لاَ يَغْفُلُ مَخَافَةَ أَنْ يَّغْفُلُوْا أَوْ يَمِيْلُوْا ، لِكُلِّ حَالٍ عِنْدَهُ عَتَادٌ ، لاَ يُقَصِّرُ عَنِ الْحَقِّ وَلاَ يُجَاوِزُهُ . الَّذِينَ يَلُوْنَهُ مِنَ النَّاسِ خِيَارُهُمْ ، أَفْضَلُهُمْ عِنْدَهُ أَعَمُّهُمْ نَصِيْحَةً ، وَأَعْظَمُهُمْ عِنْدَهُ مَنْزِلَةً أَحْسَنُهُمْ مُوَاسَاةً وَمُؤَازَرَةً.
قَالَ : فَسَأَلْتُهُ عَنْ مَّجْلِسِهِ ، فَقَالَ : كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لاَ يَقُومُ وَلاَ يَجَلِسُ إِلاَ عَلَى ذِكْرٍ ، وَإِذَا انْتَهٰى إِلَى قَوْمٍ جَلَسَ حَيْثُ يَنْتَهِي بِهِ الْمَجْلِسُ وَيَأْمُرُ بِذَلِكَ ، يُعْطِي كُلَّ جُلَسَائِهِ بِنَصِيبِهٖ ، لاَ يَحْسَبُ جَلِيسُهُ أَنَّ أَحَدًا أَكْرَمُ عَلَيْهِ مِنْهُ ، مَنْ جَالَسَهُ أَوْ فَاوَضَهُ فِي حَاجَةٍ صَابَرَهُ حَتَّى يَكُونَ هُوَ الْمُنْصَرِفُ عَنْهُ ، وَمَنْ سَأَلَهُ حَاجَةً لَمْ يَرُدَّهُ إِلاَ بِهَا أَوْ بِمَيْسُورٍ مِنَ الْقَوْلِ ، قَدْ وَسِعَ النَّاسَ بَسْطُهُ وَخُلُقُهُ ، فَصَارَ لَهُمْ أَبًا وَصَارُوا عِنْدَهُ فِي الْحَقِّ سَوَاءً ، مَجْلِسُهُ مَجْلِسُ عِلْمٍ وَحِلْمٍ وَحَيَاءٍ وَأَمَانَةٍ وَصَبْرٍ ، لاَ تُرْفَعُ فِيهِ الأَصْوَاتُ وَلاَ تُؤْبَنُ فِيهِ الْحُرَمُ ، وَلاَ تُثَنّٰى فَلَتَاتُهُ مُتَعَادِلِينَ ، بَلْ كَانُوا يَتَفَاضَلُونَ فِيهِ بِالتَّقْوَى ، مُتَوَاضِعِينَ يُوقِّرُونَ فِيهِ الْكَبِيرَ وَيَرْحَمُونَ فِيهِ الصَّغِيرَ ، وَيُؤْثِرُونَ ذَا الْحَاجَةِ وَيَحْفَظُونَ الْغَرِيبَ.
ترجمہ: حضرت حسین رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے اپنے والد محترم حضرت علی رضی اللہ عنہ سے حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر میں تشریف لے جانے اور گھر کے اندر کے حالات کے بارے میں پوچھاتو انہوں نے فرمایا:آپ صلی اللہ علیہ و سلم اپنے اوقات کوتین حصوں پر تقسیم فرمادیتے تھے؛ایک خالص اللہ تعالیٰ کی عبادت نماز وغیرہ کے لیے ، ایک اپنے گھر والوں کے حقوق کی ادائیگی (ہنسنے بولنے اور دیگر ضروریات) کے لیے اور ایک حصہ اپنی ذات مبارکہ کے لیے۔ پھر اپنے حصہ کو بھی مزید دو حصوں میں تقسیم فرمادیتے تھے؛ایک حصہ اپنے آرام وغیرہ کے لیے اور ایک حصہ دوسرے لوگوں کے لیے۔ اس میں بڑے اور خواص صحابہ کے ذریعہ عام لوگوں کو فائدہ پہنچاتے تھے۔
آپ لوگوں سے کوئی چیز بھی مخفی نہیں رکھتے تھے۔ (امت کے اس حصہ میں آپ کا) طریقہ کار یہ تھادین کے اعتبار سے علم و فضل والوں کو دوسروں پر ترجیح دیتے تھے۔ پس کوئی شخص ایک ضرورت، کوئی دو اور کوئی زیادہ ضرورتیں لے کر آتاتھا۔پس آپ ان کو ایسے امور میں مشغول رکھتے تھے جو خود ان کی ذات اور پوری امت کے لیے فائدہ مند ہوتے تھے۔ وہ لوگ آپ سے مسائل پوچھتے تھے اور آپ ان کے مناسب حال جواب دیتےاور ساتھ یہ بھی ارشاد فرماتے کہ تم لوگ جو یہاں موجود ہودوسرے ان لوگوں تک میری باتیں پہنچاؤ جو یہاں پر موجود نہیں ہیں۔ اور یہ بھی ارشاد فرماتے کہ جو لوگ(کسی عذر، شرم یا رعب کی وجہ سے) مجھ تک اپنی بات نہیں پہنچاسکتے آپ مجھ تک ان لوگوں کی ضرورتیں پہنچاؤ اور جو شخص کسی ایسے شخص کی ضرورت بادشاہ تک پہنچائے جو خود نہیں پہنچاسکتا تو حق تعالیٰ شانہ قیامت کے دن اس کو ثابت قدم فرمائیں گے۔
حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں ایسی ہی اچھی باتوں کا تذکرہ ہوتا تھا۔ اس کے علاوہ کوئی لایعنی بات وہاں نہ ہوتی تھی۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم خیر کے طالب بن کر آتے تھےاور کوئی چیز چکھے بغیر وہاں سے نہ جاتے تھے (یعنی آپ ان کو دین بھی سکھاتے اور جو کچھ موجود ہوتا وہ بھی پیش فرماتے تھے) وہ لوگ نیکی کے راہنما بن کر آپ کی مجلس سے جاتے تھے۔
حضرت حسن رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے اپنے والد محترم سے پوچھا کہ حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر سے باہر کے معمولات کیا تھے؟ انہوں نے فرمایا: حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم اپنی زبان مبارک کو محفوظ رکھتے، سوائے بامقصد بات کے کوئی بات نہ فرماتے تھے۔ آپ لوگوں کی دلجوئی فرماتے تھےاور ان کو متنفر نہ فرماتے تھے (یعنی ایسی بات نہ فرماتے کہ لوگوں کو آپ سے وحشت ہو یا دین سے نفرت ہونے لگے)۔
ہر قوم کے معزز اور شریف آدمی کا احترام فرماتے تھے۔پھر اس کو اس قوم پر سردار مقرر فرمادیتے تھے۔ لوگوں کو(عذابِ الہٰی یا غیروں کے شر سے) خبردار فرماتے اور خود بھی (لوگوں کے شر سےبچنے کی تدبیر ) اختیار فرماتے تھےمگر ہر شخص سے اپنے چہرے کی خندہ پیشانی اور خوش خلقی سے پیش آتے تھے (یعنی احتیاط کے باوجود خوش اخلاقی کا مظاہرہ جاری رہتا تھا) اپنے ساتھیوں کی خبر گیری فرماتے تھے اور ان کے آپس کے معاملات کی تحقیق فرماکر ان کی اصلاح فرماتے تھے۔ہر اچھی بات پر حوصلہ افزائی فرماتے اور ہر بری بات کی حوصلہ شکنی فرماتے تھے۔ ہر کام میں میانہ روی اختیار فرماتے تھے۔
آپ کی کسی معاملہ میں دو رائے نہ ہوتی تھیں (کہ کبھی کچھ فرمادیں اور کبھی کچھ -العیاذباللہ ) حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کی اصلاح سے غفلت نہ فرماتے کہ کہیں یہ لوگ دین سے غافل نہ ہوجائیں یا حد سے تجاوز کریں اور بعد میں اکتا جائیں۔ آپ کے پاس ہر حال کے مناسب سامان رہتا۔ آپ حق بات میں نہ تو کوتاہی فرماتے اور نہ ہی حد سے تجاوز فرماتے تھے۔ آپ کی خدمت میں حاضر ہونے والے آپ کے قریبی لوگ دیگر لوگوں میں سے بہترین لوگ ہوتے تھےاور پھر ان میں سے بھی زیادہ بہتر وہ لوگ شمار ہوتے تھے جو خیر خواہی میں بڑھے ہوئے تھے۔ آپ کے نزدیک بھی بلند مرتبہ وہی لوگ شمار ہوتے تھے جو انسانی ہمدردی اور باہمی تعاون میں دوسروں سے آگے ہوتے تھے۔
حضرت حسین رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے اپنے والد محترم سے حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس کے معمولات دریافت کیے تو انہوں نے فرمایا: آپ کی مجلس کا آغاز اور اختتام اللہ تعالیٰ کے ذکر پر ہوتا تھا۔ جب آپ کسی قوم کے پاس تشریف لے جاتے تو جہاں مجلس ختم ہوتی وہیں تشریف رکھتے۔ آپ دوسرے لوگوں کو بھی یہی تعلیم دیتے تھے۔
آپ کے پاس بیٹھنے والا ہرشخص یہ سمجھتا کہ آپ میرا اعزاز و اکرام سب سے زیادہ فرماتے ہیں۔ جو شخص آپ کے پاس بیٹھتا یا آپ کے ساتھ کسی کام میں شریک ہوتاتو اس کے ساتھ بیٹھے رہتے یہاں تک کہ وہ خود ہی اٹھ کر چلا جائے۔ جو شخص آپ سے کوئی ضرورت کی چیز مانگتا تو آپ اس کی ضرورت پوری فرما دیتے اور اگر ضرورت پوری نہ فرماسکتےتو نرمی کے ساتھ جواب دے دیتے۔
آپ کی خوش اخلاقی تمام لوگوں کے لیے عام تھی۔ آپ شفقت فرمانے میں تمام لوگوں کے لیے بمنزلہ باپ کے تھےاور تمام لوگ حقوق میں آپ کے نزدیک برابر تھے۔آپ کی مجلس علم و حیا اور صبر وامانت والی ہوتی تھی۔ آپ کی مجلس میں آواز بلند نہیں ہوتی تھی اور نہ ہی کسی کی ہتک عزت ہوتی تھی۔ اس مجلس میں اگر کسی سے لغزش ہوجاتی تو اس کی تشہیر نہ کی جاتی تھی۔ سب کو برابر حیثیت دی جاتی تھی۔ ایک دوسرے پر فضیلت محض تقوی اور دین کی بنیاد پر ہوتی تھی۔
ہر شخص دوسرے کے ساتھ عاجزی کےساتھ پیش آتا تھا۔ بڑوں کا احترام کرتے تھے، چھوٹوں پر شفقت فرماتے تھے،ضرورت مندوں کو ترجیح دیتے تھے (یعنی ضرورت مندوں کی ضرورت پوری کرتے تھے) اور مسافر آدمی کا بڑا ہی خیال کرتے تھے۔
حدیث: حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ میری تعریف میں مبالغہ نہ کروجیسے عیسائیوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی تعریف میں مبالغہ کیا (کہ انہیں اللہ کا بیٹا بنادیا) میں تو اللہ کا بندہ ہوں، اس لیے مجھے اس کا بندہ اور اس کا رسول ہی کہو۔
حدیث: حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک عورت نے عرض کیا کہ حضرت مجھے آپ سے تنہائی میں بات کرنی ہے۔حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ مدینہ میں کسی سڑک کے کنارے پر بیٹھ جاؤمیں وہیں آکر تمہاری بات سن لیتا ہوں۔
زبدۃ:
یہ عورت کچھ بے عقل سی تھی اس کے باوجود حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی بات توجہ سے سنی۔ سڑک کے کنارے اس لیے بیٹھنے کا فرمایاکہ عورت کے ساتھ تنہائی نہ ہو اور چونکہ ایسی عورتوں کو زنانہ مکان پر بلانے میں گھر کی عورتوں کو پریشانی ہوتی ہے اس لیے حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے باہر سڑک پر ہی اس کی بات سن لی۔
حدیث: حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم مریضوں کی بیمار پرسی فرماتے، جنازے میں تشریف لے جاتے، گدھے پر بھی سوار ہوجاتے اور غلاموں کی دعوت کو بھی قبول فرمالیتے تھے۔ بنو قریظہ کی لڑائی کے دن آپ گدھے پر سوار تھےجس کی لگام کھجور کے پتوں سے بنائی گئی تھی اور اس کا پالان بھی کھجور کے پتوں ہی کا تھا۔
حدیث: حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم کو جَو کی روٹی اور پرانی چربی کی دعوت دی جاتی تو آپ اس کو بھی قبول فرمالیتے تھے۔آپ کی ایک زِرہ بطور رہن ایک یہودی کے پاس رکھی تھی مگر آپ کے پاس اخیر عمر تک اس زرہ کو چھڑانے کے لیے کوئی چیز نہ تھی۔
حدیث: حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اگر بکری کا ایک پایا بھی میری طرف ہدیہ کیا جائے تو میں اس کو بھی قبول کروں گا اور اگر اس کے کھانے کے لیے مجھے دعوت دی جائےتو بھی قبول کروں گا۔
حدیث: حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسی حالت میں حج مبارک فرمایاکہ آپ ایک پرانے پالان پر سوار تھےجس پر ایک کپڑا پڑا ہوا تھا جو (ہمارےخیال میں ) چار درہم کا بھی نہیں ہوگا۔ اس وقت حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم یہ دعا مانگ رہے تھے کہ اے اللہ! اس حج کو ایسا حج بنادے جس میں نہ ریا ہو اور نہ ہی شہرت ہو۔
حدیث: حضرت ام المؤمنین (میری امی) عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم انسانوں میں سے ایک انسان تھے، اپنے کپڑوں میں خود ہی جوں تلاش کر لیتے تھے، بکری کا دودھ بھی خود ہی دوہ لیتے تھے اور اپنے کام بھی خود ہی کیا کرتے تھے۔
زبدۃ:
حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک کپڑوں میں جوں کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کیونکہ جوں تو میل کچیل اور پسینہ کی وجہ سے ہوتی ہےاور حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے بدن مبارک پر میل کچیل کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا اور پسینہ مبارک تو گلاب سے بھی زیادہ خوشبودار ہوتا تھا۔سوال یہ ہے کہ گلاب جیسے پسینہ کے ساتھ جوں کا کوئی جوڑ نہیں ہے توپھر جوں تلاش کرنے کا کیا مطلب ہے؟
محدثین فرماتے ہیں کہ حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم اس غرض سے تلاش فرماتے تھےکہ ممکن ہے کہ کسی دوسرے کے کپڑے سے آپ کے کپڑے پر چڑھ گئی ہو۔ بعض محدثین اس سے بھی عمدہ جواب ارشاد فرماتے ہیں کہ یہ امت کی تعلیم کی غرض سے تھاکہ جہاں صفائی اتنی کہ طہارت کو بھی رشک آئے جب وہ اس قدر صفائی کا اہتمام فرماتے ہیں تو امتی کو خود ہی خیال کرنا چاہیے۔
حدیث: حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ صحابہ رضی اللہ عنہم کے نزدیک اس دنیا میں حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ کوئی شخصیت محبوب نہ تھی مگر اس کے باوجود وہ حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم کودیکھ کر اس وجہ سے کھڑے نہ ہوتے تھےکہ حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم اس کو پسند نہ فرماتے تھے۔
زبدۃ:
کسی شخص کی آمد پرکھڑے ہونے میں بہت سی احادیث میں ممانعت بھی آئی ہے اور بہت سی احادیث سے اجازت بھی ثابت ہے۔ خود حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم اپنی پیاری لخت جگر حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی آمد پر کھڑے ہوتے، پیار دیتے اور اپنے پاس بٹھاتے۔ حضرت زید رضی اللہ عنہ جب سفر سے واپس تشریف لاتے تو انہیں دیکھ کر بھی آپ کھڑے ہو جاتے تھے۔ اسی طرح صحابہ رضی اللہ عنہم کا بھی آپ کی تعظیم میں کھڑا ہونا ثابت ہے۔
لہٰذا صاحبِ علم و فضل یا صاحبِ محبت کی آمد پر کھڑا ہو نا جائز ہے بشرطیکہ اس سے آنے والے کے دل میں تکبر پیدا ہونے کا خدشہ نہ ہو وگرنہ جائز نہیں اور خود اس بات کا خواہش مند ہونا کہ لوگ میری آمد پرکھڑے ہوں یہ تو بالکل ہی جائز نہیں۔ ایسی خواہش پرحدیث مبارک میں جہنم کی وعید آئی ہےاور اس سے بڑا ظلم یہ ہے کہ اپنے ماتحتوں کو اس بات پر مجبور کرناکہ وہ آمد پر کھڑے ہوں ، بات کھڑے ہو کر کریں اور جب تک بالا شخص بیٹھا ہو وہ کھڑے رہیں۔ اللہ تعالیٰ ہم کو اس مرض سے محفوظ رکھے۔
حدیث: حضرت یوسف بن عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے میرا نام رکھا۔ مجھے اپنی گود میں بٹھایااور میرے سر پر شفقت سے ہاتھ پھیرا۔
زبدۃ:
حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم بچوں سے بہت پیار فرماتے تھے۔ ان کے سر پر شفقت سے ہاتھ مبارک بھی پھیرتے تھے۔ گود میں اٹھاتے تھے۔بعض اوقات بچے آپ کی گود میں پیشاب بھی کر دیتے تھےمگر آپ نے کبھی برا نہیں منایابلکہ پانی منگوا کر تہبند کو دھودیا۔ یہ آپ کی تواضع اور انکساری کی دلیل اور بچوں کے ساتھ نہایت محبت کی علامت ہے۔
اس حدیث سے نو مولود بچوں کو بزرگوں کی خدمت میں لے جانے، نام تجویز کرانے اور برکت کی دعاکرانے کا جواز ملتا ہے۔
زبدۃ:
اس باب کا خلاصہ یہ ہے کہ حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کے ساتھ میل جول میں اپنی برتری اور تشخص کو پسند نہ فرماتے تھے، بچوں کے ساتھ شفقت فرماتے، اپنے ساتھیوں کی خبر گیری کرتے، گھر والوں کا خیال رکھتے اور اپنے کام خود فرماتے تھے۔ غلاموں تک کی معمولی سی دعوت کو قبول فرماتے تھے۔ گدھے پر سواری کرتے، بیمار پرسی فرماتے، جنازے میں شرکت فرماتے حتیٰ کہ کم عقل عورتوں کی بات کو سنتے۔ ہر آدمی کی ضرورت کو پورا کرنے کا اہتمام فرماتے، معمولی قسم کا لباس استعمال فرماتے مگر باوجود اس کےاپنی توصیف اور اپنی تعریف کبھی بھی پسند نہیں فرماتے تھے بلکہ عاجزی اور تواضع ہی پسند فرماتے تھے۔
حضرات اکابرین فرماتے ہیں کہ کسی شخص میں تواضع اور عاجزی اسی وقت پیدا ہوتی ہے جب اللہ تعالیٰ کی معرفت پیداہوتی ہے اور جس قدر حق تعالیٰ شانہ کی معرفت بڑھتی ہے تو عاجزی اور انکساری بھی بڑھتی ہے۔ حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ حق تعالیٰ شانہ کی معرفت اور کس کو حاصل ہو سکتی ہے؟! اس لیے حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم میں تواضع اور عاجزی بھی سب سے زیادہ تھی۔