حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق عالیہ

User Rating: 5 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar ActiveStar Active
 
بَابُ مَا جَاءَ فِي خُلُقِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
باب : حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق عالیہ کے بیان میں
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ قَالَ : حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ سُلَيْمَانَ الضُّبَعِيُّ ، عَنْ ثَابِتٍ ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ : خَدَمْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَشْرَ سِنِينَ فَمَا قَالَ لِي أُفٍّ قَطُّ ، وَمَا قَالَ لِشَيْءٍ صَنَعْتُهُ لِمَ صَنَعْتَهُ وَلاَ لِشَيْءٍ تَرَكْتُهُ لِمَ تَرَكْتَهُ ، وَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ أَحْسَنِ النَّاسِ خُلُقًا ، وَلاَ مَسَسْتُ خَزًّا وَلاَ حَرِيرًا وَلاَ شَيْئًا كَانَ أَلْيَنَ مِنْ كَفِّ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، وَلاَ شَمَمْتُ مِسْكًا قَطُّ وَلاَ عِطْرًا كَانَ أَطْيَبَ مِنْ عَرَقِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
ترجمہ: حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے دس سال تک حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت کی ہے مگر (ان دس سالوں میں ) آپ نے مجھے کبھی اُف تک نہیں فرمایااور نہ ہی کسی کام کے کرنے پر فرمایاکہ ”تم نے یہ کیوں کیا؟“ اور نہ ہی کسی کام کے چھوڑنے پر فرمایاکہ ”یہ کام تم نے کیوں نہیں کیا؟ “ حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم تمام دنیا سے اخلاق میں بہتر تھے۔ میں نے کبھی کوئی پشم، خالص ریشم یا اور کوئی نرم چیز حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی ہتھیلی مبارک سے زیادہ نرم نہیں دیکھی اور نہ ہی میں نے کبھی حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے پسینہ مبارک سےزیادہ مشک یا کسی اور عطر کو خوشبو دار پایا۔
حدیث: حضرت ام المؤمنین (میری امی ) عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم نہ تو طبعاً فحش گو تھے، نہ ہی بتکلف فحش بات فرماتے تھےاور نہ ہی بازار میں شوروغل کرنے والے تھے۔ آپ برائی کا بدلہ برائی سے نہ دیتے تھے بلکہ معاف فرمادیتے تھےاور اس کا تذکرہ بھی نہ فرماتے تھے۔
حدیث: حضرت ام المؤمنین (میری امی) عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کے راستہ میں جہاد کےعلاوہ نہ کسی خادم کو مارا اور نہ کسی بیوی کو۔
حدیث: حضرت ام المؤمنین(میری امی) عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے کبھی بھی حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم کو (اپنی ذات کے لیے ) کسی سے ظلم کا بدلہ لیتے ہوئے نہیں دیکھا، البتہ جب اللہ تعالیٰ کی حرام کردہ چیزوں میں سےکسی کی ہتک ہوجاتی تو آپ سب سے زیادہ غصے والے ہوتے تھے۔ اگر آپ کوکبھی دو چیزوں میں اختیار دیا جاتاتو آپ آسان ہی کو اختیار فرماتے جب تک کہ اس میں کوئی گناہ کا کوئی عنصر نہ پایا جائے۔
زبدۃ:
حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم دین اور عبادت کے معاملہ میں بڑی مشقت برداشت فرماتے تھے۔ آسانی کا راستہ اختیار فرمانا امت پر شفقت اور مہربانی کی وجہ سے تھا۔ خود حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد مبارک ہے:
اِنَّمَا بُعِثْتُ مُیَسِّرًا.
اللہ تعالیٰ نے مجھے آسانی پیدا کرنے والا بنا کر بھیجا ہے۔
حدیث: حضرت ام المؤمنین (میری امی) عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ ایک شخص نے حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم سے خدمت میں حاضر ہونے کی اجازت مانگی۔ اس وقت میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس موجود تھی۔ حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ شخص اپنے قبیلے کا برا آدمی ہے۔ پھر اس کو خدمت میں حاضری کی اجازت دے دی۔ اس کے اندر آنے پر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس کے ساتھ بڑی نرم گفتگو فرمائی۔ جب وہ شخص چلا گیاتو میں نے عرض کیا: حضرت! پہلے تو آپ نے اس شخص کے بارے میں وہ کچھ فرمایا تھا مگر جب یہ اندر آیا تو آپ نے اس کے ساتھ نرمی سے گفتگو فرمائی۔ حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے عائشہ! لوگوں میں سے بدترین شخص وہ ہے جس کو لوگوں نے اس کی بد کلامی سے بچنے کی وجہ سے چھوڑ دیا ہو۔
زبدۃ:
اس شخص کا نام عیینہ تھا۔ یہ اپنے قبیلہ کا سردار تھا۔ یہ احمق اور کھلا فاسق تھا، دل سے ابھی تک مسلمان بھی نہیں ہوا تھا۔
کسی شخص کی برائی اس وجہ سے ظاہر کرنا کہ لوگ اس کی برائی کا شکار نہ ہوجائیں، کسی نقصان میں مبتلا نہ ہوجائیں، اسی طرح جو شخص کھلم کھلا فاسق ہو اس کی برائی بیان کرنا یہ غیبت میں داخل نہیں ہے۔ یہ چونکہ منافق بھی تھا اس لیے حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے ام المؤمنین(میری امی ) عائشہ رضی اللہ عنہا کو اس کے بارے میں اطلاع فرمادی کہ کہیں ان کے سامنے کوئی ایسی راز کی بات اس کو مخلص مسلمان سمجھ کر نہ کر دیں جوکہ مسلمانوں اور اسلام کے لیے نقصان کا باعث ہو۔ آپ نے اس سے جو نرم لہجہ میں گفتگو فرمائی تویہ آپ کے اخلاق کا حصہ ہے۔
حدیث: حضرت حسین رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے اپنے والد محترم حضرت علی رضی اللہ عنہ سے پوچھا: حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنے ہم مجلس ساتھیوں کے ساتھ کیسا طرز عمل تھا؟ تو انہوں نے فرمایا: آپ ہمیشہ خندہ پیشانی، نرم اخلاق اور نرم پہلو والے تھے۔ آپ نہ تو سخت گو تھے، نہ ہی سخت دل تھے، آپ نہ تو چلاکر بولتے کہ شور ہو، نہ ہی فحش بات کرتے، نہ ہی کسی کی عیب جوئی فرماتے اور نہ ہی بخل فرماتے تھے۔ اپنی نا پسند بات سے اعراض فرماتے تھے (یعنی ادھر توجہ ہی نہ فرماتے) دوسروں کی اگر کو ئی چیز آپ کو نا پسند ہوتی تو نہ اس کو مایوس فرماتے اور نہ ہی ان سے وعدہ فرماتے تھے۔ آپ نے اپنے آپ کو تین چیزوں سے روک رکھا تھا؛ جھگڑا، تکبر اور لایعنی و فضول باتوں سے اور لوگوں سے خود کو بھی تین ہی چیزوں کو روک رکھا تھا؛ نہ کسی کی مذمت فرماتے، نہ کسی پر عیب لگاتے اور نہ ہی کسی کے عیب کو تلاش فرماتے تھے۔ آپ صرف وہی کلام فرماتے تھے جو کہ اجر و ثواب کا سبب ہو۔ جب آپ گفتگو فرماتے تو آپ کے صحابہ گردنیں نیچی کر لیتے (اور اس طرح خاموش ہوجاتے ) کہ گویا ان کے سروں پر پرندے ہیں اور جب آپ خاموش ہو تے تو وہ بات کرتے۔ حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھی آپ کی موجودگی میں کسی بات پر جھگڑا نہ کرتے تھے۔ جب آپ سے کوئی بات کرتا تو باقی خاموش رہتے جب تک وہ اپنی بات مکمل نہ کرلیتا۔ ہر شخص کی بات ایسے ہوتی جیسے یہ پہلے شخص کی بات ہے (یعنی ایسا نہ ہوتا تھا کہ ابتداء میں بڑی توجہ ہو اور بعد میں لوگ اکتا جائیں ) جب آپ کے صحابہ رضی اللہ عنہم کسی بات پر ہنستے تو آپ بھی ہنستے، جب وہ کسی بات پر تعجب کرتے تو آپ بھی تعجب فرماتے۔
اجنبی اور مسافر آدمی کی سخت گفتگو اور بدتمیزی کی بات پر بھی صبر فرماتے تھے اور کوئی گرفت نہ فرماتے تھے (کیونکہ مسافر لوگ ہر قسم کے سوالات بلا جھجک کر لیتے تھے) صحابہ رضی اللہ عنہم ایسے لوگوں کو آپ کی مجلس میں پہنچادیتے (جس سے یہ لوگ ہر قسم کے سوالات کرتے اور صحابہ رضی اللہ عنہم کو بھی اس سے خوب فائدہ پہنچتا) آپ اپنے صحابہ رضی اللہ عنہم کو تاکید فرماتے تھےکہ جب کسی حاجت مند کو دیکھو تو اس کی مدد کیا کرو۔ آپ اپنی تعریف کو گوارا نہ فرماتے تھے، البتہ اگر کوئی شخص بطورِ شکریہ کے آپ کی تعریف کرتا تو آپ خاموشی اختیار فرماتے (کیونکہ احسان کا بدلہ شکر کرنا اس شخص پہ ضروری تھا اور وہ اپنا فرض ادا کررہا ہے) آپ کسی کی بات کو کاٹتے نہ تھے، البتہ اگر وہ شخص حد سے تجاوز کرنے لگتا تو آپ منع فرمادیتے یا پھر اٹھ کر تشریف لے جاتے۔
حدیث : حضرت جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی کسی شخص کے کوئی چیز مانگنے پر انکار نہیں فرمایا۔
زبدۃ:
اگر چیز موجود ہوتی تو عطا فرمادیتے ورنہ دوسرے وقت کا فرمادیتے یا پھر اس کے حق میں دعا فرمادیتے کہ حق تعالیٰ شانہ اس کو کسی اور طریقے سے عطا فرمادیں اور کبھی فرماتے کہ میری طرف سے کسی سے قرض لے لو، میں بعد میں ادا کردوں گا۔
حدیث: حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم دوسرے روز کے لیے کسی بھی چیز کو ذخیرہ بنا کر نہ رکھتے تھے۔
زبدۃ:
یہ اعلیٰ درجہ کا توکل تھا کہ جس مالک نے آج دیا ہے وہ کل بھی دے گا مگر یہ اپنی ذات کے لیے تھا وگرنہ اپنی بیویوں کوان کا نفقہ ان کے حوالے کردیتے تھے۔ ان کی مرضی رکھیں، ان کی مرضی تقسیم کردیں مگر وہ بھی حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویاں تھیں، کہاں رکھتی تھیں!
حدیث:
حضرت ام المؤمنین (میری امی)عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم ہدیہ قبول فرماتے تھے اور اس پر بدلہ بھی دیا کرتے تھے۔
زبدۃ:
یہ حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا اعلیٰ درجہ کا کمال تھاکہ آپ ہدیہ بھی قبول فرمالیتے کہ ہدیہ دینے والے کی دلداری ہوجائے اور اس کی دل شکنی نہ ہو، پھر اس کو بدلہ بھی دیتے تاکہ ظاہری طور پر بھی اس کا نقصان نہ ہو،گو کہ باطنی اور روحانی طور پر تو نقصان کا تصور بھی نہیں ہےبلکہ بعض روایات میں ہے:
یُثِیْبُ خَیْرًا مِنْھَا․
کہ آپ ہدیہ سے بھی بہتر اور بڑھ کر بدلہ دیتے تھے۔
زبدۃ:
اس کتاب کے شروع میں حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی ظاہری مبارک شکل و صورت کا بیان تھااور اس باب میں حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے باطنی اور روحانی کمالات کاذکر ہے۔ حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے بلند اخلاق تو ضرب المثل ہیں، اپنے کیا غیر بھی، دوست کیا دشمن بھی تعریف کے بغیر نہیں رہ سکتے تھے۔
یہ حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے اعلیٰ ترین اخلاق کا نمونہ تھا کہ آپ باوجود ہر وقت فکرِ آخرت میں مستغرق رہنے کے اپنے ساتھیوں کی خاطر دنیا کی باتوں کا تذکرہ بھی فرماتے اور سخت غم زدہ ہونے کے باوجود ساتھیوں کی دل جوئی کے لیے مسکراتے اور ہنستے تھے۔ ہر کسی کی رعایت فرماتے۔ کبھی اپنے خادم تک کو نہ ڈانٹتے اور مارنے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ کبھی کسی سے بدلہ نہ لیتے تھے اور دوسروں کی سخت سے سخت بات برداشت فرماتے اور امت پر شفقت اور مہربانی کا یہ عالم تھا کہ ہمیشہ آسانی والا معاملہ ہی اختیار فرماتے۔ سخاوت ایسی تھی کہ کبھی انکار کی ہمت نہ ہوتی خواہ دوسرے کی حاجت پوری کرنے کے لیے قرض ہی کیوں نہ لینا پڑے اور توکل یہ کہ کل کی پرواہ نہیں اور معاملہ ایسا کہ ہدیہ کا بھی بدلہ بلکہ اصل سے بہتر دینے کا دل میں داعیہ۔ اللہ تعالیٰ ہمیں بھی حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع نصیب فرمائیں۔ آمین