حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے گزر اوقات

User Rating: 5 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar ActiveStar Active
 
بَابُ : مَا جَاءَ فِي عَيْشِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
باب: حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے گزر اوقات کے بیان میں
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ قَالَ : حَدَّثَنَا أَبُو الأَحْوَصِ ، عَنْ سِمَاكِ بْنِ حَرْبٍ قَالَ : سَمِعْتُ النُّعْمَانَ بْنَ بَشِيرٍ يَقُولُ : أَلَسْتُمْ فِي طَعَامٍ وَشَرَابٍ مَا شِئِتُمْ؟ لَقَدْ رَأَيْتُ نَبِيَّكُمْ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَمَا يَجِدُ مِنَ الدَّقَلِ مَا يَمْلَأُ بَطْنَهُ.
ترجمہ: حضرت نعما ن بن بشیر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ لوگو! کیا تمہیں خورد ونوش کی ہر وہ چیز میسر نہیں ہے جس کی تم خواہش رکھتے ہو؟ حالانکہ میں نے توتمہارے حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم کو اس حالت میں دیکھا کہ ان کے پاس تو اتنی ردی کھجوریں بھی نہیں ہوتی تھیں جن سے پیٹ بھر سکیں۔
حدیث: حضرت ام المؤمنین (میری امی) عائشہ رضی اللہ عنہافرماتی ہیں کہ ہم لوگ یعنی حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر والے وہ ہیں کہ ایک ایک مہینہ تک چولھے میں آگ نہ جلتی تھی بلکہ ہمارا گزارا صرف پانی اور کھجوروں سے ہوتا تھا۔
زبدۃ:
آگ نہ جلنے کا مطلب یہ ہے کہ گھر میں پکانے کے لیے کوئی چیز نہ ہوتی تھی۔ کھجوروں کے ساتھ پانی کا تذکرہ ممکن ہے کہ اس وجہ سے بھی فرمایا ہوکہ صرف کھجوریں بھی اتنی نہ ہوتی تھیں کہ ان سے پیٹ بھر جاتا۔
حدیث : حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم نے حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے بھوک کی شکایت کی اور اپنے پیٹ پر پتھر بندھے ہوئے دکھائے کہ ہر شخص کے پیٹ پر ایک پتھر باندھا ہوا تھا۔ حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے پیٹ مبارک سے کپڑا اٹھایا تو وہاں دو پتھر بندھے ہوئے تھے۔
زبدۃ:
یہ واقعہ غزوہ خندق کا ہے جب دشمن نے مدینہ کو گھیر لیا تھا اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے مدینہ کے باہر خندق کھودنا شروع کردی تھی۔ اس وقت کا یہ عالم تھا جس کا ذکر حدیث بالا میں ہوا تھا۔ مگر اس روایت میں بظاہر ایک اشکال یہ ہےکہ حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم کئی کئی روز بغیر سحری و افطاری کے روزے رکھتے تھے۔ جب صحابہ رضی اللہ عنہم نے اس طرح روزے رکھنے شروع کیےتو حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمادیا اور فرمایا:تم میں مجھ جیسا کون ہے؟ مجھے تو اللہ تعالیٰ اپنی طرف سے کھلاتا اور پلاتا ہے۔ سوال یہ ہےکہ جب اللہ تعالیٰ آپ کو کھلاتا اور پلاتا ہے تو پھر پیٹ پر بھوک کی وجہ سے پتھر باندھنے کا کیا مطلب؟ محدثین فرماتے ہیں کہ بھوک پیاس نہ لگنے کی صفت حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی اختیاری تھی۔ آپ جب چاہتے اس سے فائدہ اٹھا لیتے تھے اور مسلسل روزے رکھتے مگر اس موقع پر آپ نے اس مخصوص صفت سے فائدہ نہ اٹھایا تو بھوک پیاس کی وجہ سےپیٹ پر پتھر باندھنےپڑے۔
اس خصوصیت سے فائدہ اس وجہ سے نہ اٹھایاکہ امت کو تعلیم ہو اور امت کے سامنے نمونہ پیش ہو سکے اور اس وجہ سے بھی کہ آپ کے ساتھی بھوک وپیاس میں حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے ساتھ شریک پاکرگھبرائیں نہیں بلکہ ان کی حوصلہ افزائی ہو۔
زبدۃ:
اہلِ مدینہ کی عادت تھی کہ بھوک کی شدت کے وقت پیٹ پر پتھر باندھ لیتے تھے تاکہ اس کی سختی کی وجہ سےچلنے پھرنے میں کمزوری نہ ہو۔کیونکہ پیٹ کے خالی ہونے کی صورت میں پیٹ کو کسی کپڑے سے باندھ لینے کی وجہ سےضعف اور بے چینی میں افاقہ ہوتا ہے۔ نیرخالی پیٹ میں ہوا بھرنے کا خدشہ ہوتا ہے۔ نیز پیٹ خالی ہونے کی صورت میں کمر جھک جاتی ہےاور کبڑا ہونے کا خدشہ ہوتا ہے۔
حدیث:
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم ایسے وقت میں گھر سے باہر تشریف لائےجس وقت آپ عموماً گھر سے نہ نکلتے تھے اور نہ ہی اس دوران کوئی دوسرا شخص آپ سے ملاقات کے لیے آتا تھا۔ اسی دوران حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ بھی حاضر ہوئے۔ حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ابوبکر! آپ کیسے آئے؟ انہوں نے عرض کیا کہ آپ سے ملاقات کی غرض سے تاکہ آپ کے چہرہ انور کی زیارت کروں اور آپ کو سلام عرض کروں۔ زیادہ دیر نہ گزری تھی کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ بھی آ گئے۔ حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے بھی آنے کی وجہ پوچھی تو انہوں نے جواب دیا کہ بھوک کی شدت نے باہر آنے پر مجبور کردیا۔ حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ بھوک تو میں بھی محسوس کر رہا ہوں۔ پھر یہ تینوں حضرت ابو الہیثم بن التیھان انصاری رضی اللہ عنہ کے باغ پر تشریف لے گئے۔ یہ صحابی اہلِ ثروت لوگوں میں سے تھے۔ ان کا کھجوروں کا بڑا باغ تھا اور بکریاں بھی بہت زیادہ تھیں مگر ان کے پاس خادم کوئی نہ تھا اس لیے گھر کا کام خود ہی کرنا پڑتا تھا۔جب یہ حضرات ان کے گھر پہنچے تو پتا چلا کہ وہ تو گھر والوں کے لیے میٹھا پانی لینے کے لیے گئے ہوئے ہیں۔ ابھی تھوڑی دیر ہی گزری تھی کہ حضرت ابوالہیثم بھی مشکیزہ کو بڑی مشکل سے اٹھائے ہوئے واپس آگئے اور عرض کرنے لگے: میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں۔ پھر اپنے مہمانوں کو اپنے باغ میں لے گئے۔ ان کے لیے چٹائی بچھائی اور کھجور کے درخت سے ایک خوشہ توڑ کر لے آئے اور حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کردیا۔ حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہمارے لیے پکے پکے دانےچھانٹ کرلے آتے، تو انہوں نے عرض کیا کہ حضر ت میں یہ ساری اس لیے لایا ہوں کہ آپ اپنی پسند کے دانے پکے ہوئے یا جو پکنے کے قریب ہوں چھانٹ کر لے لیں۔چنانچہ مہمانوں نے کھجوریں کھائیں اور پانی پیا۔ پھر حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: یہ پکی ہوئی کھجوریں ، ٹھنڈا پانی اور ٹھنڈا سایہ وہ نعمتیں ہیں جن کے بارے میں قیامت کے دن تم سے پوچھا جائے گا۔ پھر حضرت ابوالہیثم اٹھے کہ مہمانوں کے لیے کھانا تیار کریں تو حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہمارے لیے دودھ دینے والا جانور ذبح نہ کرنا۔ لہٰذا انہوں نے بکری کا بچہ ذبح کیا اور کھانا تیار کرکے لےآئے۔ ان حضرات نے کھانا کھایا۔ حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تمہارے پاس کوئی خادم بھی ہے؟ انہوں نے عرض کیا: نہیں۔ آپ نے فرمایا کہ جب ہمارے پاس قیدی غلام آئیں تو تم بھی ہمارے پاس آنا۔ اتفاقاً ایک جگہ سے دو غلا م آگئے تو حضرت ابوالہیثم بھی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے۔ آپ نے فرمایا کہ ان دونوں میں سے جس غلام کو چاہو منتخب کرلو۔ انہوں نے عرض کیا: حضرت آپ ہی میرے لیے منتخب فرمادیں۔ حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایاکہ مشورہ دینے والا امین ہوتا ہے،اس لیے میں بھی امین ہونے کی حیثیت سے فلاں غلام کو پسند کرتا ہوں۔ اس لیے کہ میں نے دیکھا ہے کہ وہ نماز پڑھتا ہے لیکن میں تمہیں اس کے ساتھ اچھا سلوک کرنے کی وصیت کرتا ہوں۔ پھر ابوالہیثم اپنے غلام کو لے کر آئے اور اپنی بیوی سے سارا واقعہ بیان کیا اور حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان بھی سنایا تو ان کی بیوی نے کہا: حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد مبارک کا حق تم ادا نہ کرسکوگے، اس لیے بہتر یہی ہے کہ تم اس کو آزاد ہی کردو۔ چنانچہ انہوں نے اس کو آزاد کردیا۔ پھر جب حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے جانثار صحابی کے واقعہ کا علم ہوا تو آپ نے ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ اپنے نبی اور اس کے جانشین کو دو باطنی مشیر بھی دیتے ہیں، ایک ان میں سے نیکی کا حکم دیتا ہے اور برائی سے روکتا ہےجبکہ دوسرا مشیر اس میں خرابی پیدا کرنے میں کسر نہیں چھوڑتا، جو شخص برے مشیر سے بچا لیا گیا وہ حقیقت میں برائی سے محفوظ ہوگیا۔
زبدۃ:
1: حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم، حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا ایک ہی وقت میں گھر سے باہر تشریف لانا اور وجہ کا بھی تینوں میں ایک ہی ہونا یہ آپس کے شدید قلبی تعلق کی علامت ہے۔ کہتے ہیں:
دل را بدل راہے است
[ترجمہ: دل کو دل سے تعلق ہوتا ہے]
2: حضرت ابوالہیثم رضی اللہ عنہ کا حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت عالیہ میں ہر قسم کی پکی ہوئی اور پکنے کے قریب کھجوریں پیش کرنا یہ علامت ہے حضرت کے ساتھ شدید محبت کی کہ یہ حضرت ہر قسم کی پسند کریں اور تناول فرمائیں کیونکہ ہر شخص کی اپنی پسند ہوتی ہے، کوئی پکی کھجوریں اور کوئی پکنے کے قریب کھجوروں کو زیادہ پسند کرتا ہے۔
3: تنگدستی کے زمانہ میں کھجوریں، ٹھنڈا پانی اور ٹھنڈا سایہ ملنے پر حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد فرمانا کہ ”ان نعمتوں کے بارے میں بھی تم سے قیامت کے دن سوال ہوگا“ بڑا ہی قابلِ غور اور توجہ طلب مسئلہ ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں آخرت کی فکر نصیب فرمائیں اور تیاری کی توفیق دیں۔ ہم تو ہر وقت آسودہ حال ہونے کے باوجود جس طرح نعمتوں کا استعمال کرتے بلکہ ضائع کرتے ہیں بس اللہ تعالیٰ ہی ہمیں اپنی جناب کے فضل و کرم سے آخرت کے سوال و جواب اور حساب وکتاب سے بچا کر اپنے عذاب سے محفوظ فرمائیں۔ آمین
4: حضرت ابوالہیثم رضی اللہ عنہ کی بیوی بھی ماشاءاللہ کیا بہترین مشیر ثابت ہوئیں کہ اپنی مشقت کی ذرا پروا نہ کی بلکہ خاوند کو فوراً غلام آزاد کرنے کا مشورہ دیا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ ہم حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم پر عمل نہ کرسکیں۔
اللہ تعالیٰ ہم کو بھی اتباع نصیب فرمائیں اور ہر مسلمان کو ایسی بیوی عنایت فرمائیں۔
حدیث: ایک لمبی حدیث ہے جس میں حضرت عتبہ بن غزوان رضی اللہ عنہ کا جملہ بھی ہے کہ لوگو! میں نے اپنے آپ کو اس حالت میں بھی دیکھا کہ میں ان سات آدمیوں میں سے ایک ہوں جو اس وقت حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے۔ اس وقت ہمارے پاس کھانے کے لیے کوئی چیز نہ تھی سوائے درختوں کے پتوں کے جن کو کھانے سے ہمارے جبڑے زخمی ہو گئے تھے۔
حدیث : حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں اس وقت اللہ کے راستے میں خوفزدہ کیا گیاجب کہ میرے ساتھ اور کوئی نہ تھا، اور مجھے اللہ کی خاطر اس وقت ایذا ء پہنچائی گئی جس وقت کسی بھی دوسرے شخص کو تکلیف نہیں پہنچائی گئی، اور مجھ پر تیس دن اور رات ایسے گزرے ہیں کہ ان میں میرے اور بلال کے لیے کوئی چیز ایسی نہ تھی جس کو کوئی زندہ مخلوق کھا سکے سوائے اس چیز کے جو بلال کی بغل میں رکھی ہوئی تھی۔
زبدۃ:
یہ واقعہ مکی زندگی کے تبلیغی سفر کا ہے جس میں حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ حضرت بلال رضی اللہ عنہ ہوں گے۔ خوف اور تکلیف دینے دلانے کا مطلب یہ ہے کہ بیت اللہ اور چار محترم مہینوں؛ رجب ، ذوالقعدہ، ذو الحجہ اور محرم کا مشرکین مکہ بھی احترام کرتے تھے، اپنے قاتل تک کو کچھ نہ کہتے تھے مگر حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم کومحترم مقام بیت اللہ اور محترم مہینوں میں بھی مشرکین ستانے سے باز نہ آئے تھے اور پھر حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت تنہا تھے، کیونکہ قاعدہ کی بات ہے کہ جب لوگ زیادہ ہوں تو مصیبت ہلکی ہو جاتی ہے۔
زبدۃ:
حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا مکی زندگی کا دور نہایت تنگی میں گزرا۔ اشاعت دین کے لیے آپ کو بہت تکلیفیں اٹھانا پڑیں اور گزر اوقات کے وسائل بھی بالکل نہ تھے مگر مدنی زندگی میں جب کہ اشاعتِ دین کا کام بھی چل نکلا، اسلامی ریاست بھی قائم ہوگئی اور مسلمانوں کی حالت بھی بہت بہتر ہوگئی تو فتوحات شروع ہوگئیں اور غنیمت کا مال بھی شروع ہوگیا مگر حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی پوری زندگی کا گزران یکساں رہا اور آخر عمر تک اس میں فرق نہ آیا۔
بلکہ آپ فرماتے تھے کہ حق تعالیٰ شانہ نے فرمایا: اگر کہو تو میں تمہاری مکے کی زمین کو سونے کا بنادوں مگر میں نے عرض کیا کہ یا اللہ! نہیں، میرا دل چاہتا ہے کہ ایک دن پیٹ بھر کے کھاؤں تاکہ تیرا شکر ادا کروں اور ایک دن بھوکا رہوں تاکہ تیرے سامنے عاجزی کروں۔ گویا کہ حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا فقر و فاقہ اختیاری تھا۔
اللہ تعالیٰ ہم کو بھی حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کامل نصیب فرمائے۔ آمین