خاتمۃ الکتاب

User Rating: 4 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar ActiveStar Inactive
 
خاتمۃ الکتاب
حضرت امام ترمذی علیہ الرحمۃ نے اپنی کتاب شمائل ترمذی کے اختتام پر دوباتیں نہایت ہی قیمتی ذکر فرمائی ہیں۔ بندہ بھی اپنی کتاب ”زبدۃ الشمائل“ انہی دو نصیحتوں کے ذکر کرنے کے ساتھ ختم کررہا ہے اور اللہ تعالیٰ سے علم کی توفیق اور قبولیت کی دعا کرتا ہے۔
بندہ ان دو نصیحتوں میں بجائے اپنے الفاظ کے حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا کاندھلوی ثم المہاجر مدنی نوراللہ مرقدہ کی کتاب ”خصائل نبوی شرح شمائل ترمذی“ کے الفاظ کو من وعن نقل کرتا ہے :
”حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَلِيٍّ قَالَ : سَمِعْتُ أَبِي يَقُوْلُ : قَالَ عَبْدُ اللهِ بْنُ الْمُبَارَكِ : إِذَا ابْتُلِيتَ بِالْقَضَاءِ فَعَلَيْكَ بِالأَثَرِ.
عبداللہ بن مبارک رحمۃ اللہ علیہ بڑے ائمہ حدیث میں سے ہیں۔ فقہاء اور صوفیاء میں بھی ان کا شمارہے۔ بڑے شیخ عابد زاہد تھے اور حدیث کے حافظوں میں گنے جاتے ہیں۔ تاریخ کی کتابوں میں بڑے فضائل ان کے لکھے ہیں، وہ فرماتے ہیں کہ اگر کبھی قاضی اور فیصل کنندہ بننے کی نوبت آئے تو منقولات کا اتباع کیجیو۔
ف: مقصود یہ کہ خودرائی اور اپنی عقل پر گھمنڈ نہیں کرنا چاہیے بلکہ اکابر کے کلام ، احادیث اور اقوالِ صحابہ رضی اللہ عنہم کا اتباع کرناچاہیے۔یہ امام ابن مبارک رحمۃ اللہ علیہ کی نصیحت ہے جو عام ہے، ہر فیصلہ کے متعلق یہی بات ہے، خواہ وہ فیصلہ قضاء کے قبیلہ سے ہو یا کوئی اور فیصلہ ہو جیسا کہ ابھی گزرا امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ نے ان کا یہ ارشاد نصیحتِ عامہ کے قبیلہ سے ذکر کیا ہے جیساکہ عام شرَّاح شمائل کی رائے ہے۔ بندہ کے نزدیک اس باب سے بھی اس کو ایک خاص مناسبت ہوسکتی ہے وہ یہ کہ خواب کی تعبیر بھی ایک فیصلہ ہے، اس لیے اس میں بھی اپنی رائے سے غتر بود [یعنی گڑ بڑ اور گڈمڈ] نہ کرنا چاہیے بلکہ اسلاف کی تعبیر وں کو دیکھنا چاہیے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین اور تابعین رحمہم اللہ سے بکثرت خوابوں کی تعبیریں نقل کی گئی ہیں۔
فن تعبیر کے علماء نے لکھا ہے کہ تعبیر دینے والا شخص ضروری ہے کہ سمجھ دار، متقی، پرہیز گار، کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ کا واقف ہو، عرب کے لغات اور زبان زد مثالوں کو جانتا ہو وغیرہ وغیرہ بہت سی شرائط اور آداب علمِ تعبیر کی کتابوں میں لکھی ہیں۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَلِيٍّ ، قَالَ : حَدَّثَنَا النَّضْرُ بْنُ شُمَيْلٍ ، قَالَ : أَنْبَأَنَا ابْنُ عَوْفٍ، عَنِ ابْنِ سِيرِينَ قَالَ : هَذَا الْحَدِيثُ دِينٌ ، فَانْظُرُوا عَمَّنْ تَأَخُذُونَ دِينَكُمْ.
ترجمہ: ابن سیرین کہتے ہیں کہ علم حدیث (ایسے ہی اور دینی علوم سب) دین میں داخل ہیں۔ لہٰذا علم حاصل کرنے سے قبل یہ دیکھو کہ اس دین کو کس شخص سے حاصل کر رہے ہو؟
ف: ابن سیرین رحمۃ اللہ علیہ بھی اپنے وقت کے امام اور مشہور بڑے تابعی ہیں۔ بہت سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے علوم حاصل کیے۔ فنِ تعبیر کے بھی امام ہیں، خواب کی تعبیر میں ان کے ارشادات حجت ہیں۔ ان کے ارشاد کا مقصود یہ ہے کہ جس سے دین حاصل کرو اس کی دیانت، تقویٰ، مذہب، مسلک کی اچھی طرح تحقیق کرلو، ایسا نہ کرو کہ ہر شخص کے کہنے پر عمل کر لو خواہ وہ کیسا ہی بے دین ہو، اس لیے کہ اس کی بد دینی اثر کیے بغیر نہیں رہے گی۔
بعض روایات میں خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی اس مضمون کی تائید ہوئی ہے۔
یہ نصیحت عامہ ہے جیسا کہ پہلے نمبر پر گزر چکا ہے اور اس باب کے ساتھ بھی مناسبت ہو سکتی ہے کہ علم تعبیر بھی ایک اہم علم ہے، جب کہ خواب؛ نبوت کے اجزا میں سے ایک جزء ہوتا ہے تو اس کی تعبیر جتنی بھی مہتم بالشان ہو ظاہر ہے،اس لیے بغور دیکھا کرو کہ کس سے تعبیر لے رہے ہو وہ اس کا اہل ہے یا نہیں؟
اس مناسبت سے گویا امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ نے اس کو ذکر کیا لیکن ابن سیرین رحمۃ اللہ علیہ کا کلام اور احادیث کا مضمون خواب کے ساتھ مخصوص نہیں بلکہ ہر علم کو شامل ہے اور جتنا مہتم بالشان علم ہوگا اتنے ہی زیادہ واقف سے معلوم کرنے کی ضرورت ہو گی۔
اس ہمارے زمانہ میں جو قیامت کے بہت ہی قریب ہے ایک یہ بھی سخت مضرت کی بات ہو گئی ہے کہ ہر شخص خواہ کتنا ہی جاہل، کتنا ہی بد دین ہو تھوڑی سی صفائی تقریر و تحریر سے علامہ اور مولانا بن جاتا ہے اور رنگین کپڑوں سے صوفی اور مقتدا بن جاتا ہے۔ عام لوگ ابتداءً ایک عام غلط فہمی کی وجہ سے ان کی طرف متوجہ ہوجاتے ہیں اور پھر اپنی ناواقفیت سے ان کا شکار بن جاتے ہیں۔ وہ غلط فہمی یہ ہے کہ عامۃ قلوب میں یہ سما گیا ہے کہ ”اُنْظُرُوْا اِلٰی مَا قَالَ وَ لَا تَنْظُرُوْا اِلٰی مَنْ قَالَ“ (آدمی کو یہ دیکھنا چاہیے کہ کیا کہا، یہ نہیں دیکھنا چاہیے کہ کس نے کہا ) حالانکہ یہ مضمون فی نفسہ اگرچہ صحیح ہے لیکن اس شخص کے لیے ہے جو سمجھ رکھتا ہو کہ کیا کہا، جو کہا وہ حق کہا یا باطل اور غلط کہا؟
لیکن جو لوگ اپنی ناواقفیت دینی کی وجہ سے کھرے کھوٹے ، صحیح اور غلط میں تمیز نہ کر سکتے ہوں ان کو ہر شخص کی بات سننا مناسب نہیں کہ اس کا نتیجہ ماٰل کار مضرت اور نقصان ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس زمانہ میں کوئی دعویدار اگر ولایت، امامت، نبوت رسالت حتیٰ کہ خدائی تک کا بھی نعوذباللہ دعویٰ کرے تو ایک گروہ فوراً اس کا تابع بن جاتا ہے۔ والی المشتکیٰ و ھو المستعان“ [حضرت شیخ الحدیث رحمۃ اللہ علیہ کی عبارت ختم ہوئی۔]
میں اللہ تبارک وتعالی کا لاکھ لاکھ شکر ادا کرتا ہوں کہ جس کریم ذات نے مجھ جیسے نالائق، کم علم اور سیاہ کار انسان سے ”زبدۃ الشمائل“ کے چند اوراق اپنے فضل سے تحریر کروا دیے۔
محمد الیاس گھمن
چکی نمبر4، سیل نمبر 3 اڈیالہ جیل راولپنڈی
26 ربیع الثانی 1422ہجری 19 جولائی 2001 ء
وقت 4 بج کر 10 منٹ سہ پہر