خصوصیاتِ پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم :حصہ اول

User Rating: 5 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar ActiveStar Active
 
عنوان: خصوصیاتِ پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم
(حصہ اول)
تاریخ: 3 مارچ 2014ء
مقام: جامع مسجد موتی 2 بلاک سرگودھا
خصوصیاتِ پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم )1
ألحمدُللہ نَحمدُہ ونَستعِینُہ ونَستغفِرُہ ونُؤْمِنُ بہ ونَتوکَّلُ علَیہ ونَعُوذُباللہ منْ شُرورِ أنفُسِنَا ومِنْ سیِّئاتِ أعمالِنا مَنْ یَّہدِہ اللہُ فلَا مُضلَّ لَہ ومَنْ یُّضْلِلْ فلَاہادیَ لہ ونَشہدُ أنْ لَّا الٰہ اِلَّااللہُ وحدَہ لَاشریکَ لہ ونَشہدُ انَّ سیِّدَنا ومولانا محمدًا عبدُہ ورسولُہ أمَّا بعد!
وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: فُضِّلْتُ عَلَى الْأَنْبِيَاءِ بِسِتٍّ: أُعْطِيتُ جَوَامِعَ الْكَلِمِ، وَنُصِرْتُ بِالرُّعْبِ، وَأُحِلَّتْ لِيَ الْغَنَائِمُ وَجُعِلَتْ لِيَ الْأَرْضُ طَهُورًا وَمَسْجِدًا وَأُرْسِلْتُ إِلَى الْخَلْقِ كَافَّةً وَخُتِمَ بِيَ النَّبِيُّونَ•
(صحیح مسلم: حدیث نمبر522)
اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلٰى مُحَمَّدٍ وَعَلٰى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا صَلَّيْتَ عَلٰى إِبْرَاهِيْمَ وَعَلٰى آلِ إِبْرَاهِيْمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ۔اَللّٰهُمَّ بَارِكْ عَلٰى مُحَمَّدٍ وَعَلٰى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا بَارَكْتَ عَلٰى إِبْرَاهِيْمَ وَعَلٰى آلِ إِبْرَاهِيْمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ.
تمہیدی کلمات:
میں نے آپ حضرات کی خدمت میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی ایک حدیث مبارک تلاوت کی ہے جو کہ صحاح ستہ میں سے صحیح مسلم میں موجود ہے اور اس کے راوی حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہیں۔
راوی حدیث کامختصر تعارف:
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا اصل نام کیا تھا؟ اس میں محدثین کے کئی اقوال ہیں لیکن راجح یہ ہے کہ ان کا نام عبد الرحمٰن بن صخر تھا رضی اللہ عنہ۔ ان کو ”ابو ہریرہ“ کیوں کہتے ہیں؟ ”ہِرَّۃ“ عربی زبان کا لفظ ہے، جس کا معنی ہے ”بلی“ اور ”ہریرۃ“ کا معنی ہے ”بلی کا بچہ“۔ ”ہرۃ“کا معنی ہے ”بلی“ اور ”ہریرۃ“ اس کی تصغیر ہے بمعنی ”بلی کا بچہ“، جیسے ہم کسی آدمی کو بلائیں تو کہتے ہیں: ”بھائی بات سنیں! “ اور اگر اس کو یہ ظاہر کرنا ہو کہ چھوٹا ہے تو کہتے ہیں: ”چھوٹو! بات سن“ اب چھوٹو کا معنی یہ ہے کہ عمر اس کی کافی ہے لیکن قد چھوٹا ہے۔ اسی طرح عربی زبان میں تصغیر بھی چلتی ہے۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ آئے اور ان کے ہاتھ میں یا ان کے بازو میں بلی کا بچہ تھا۔ حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک بار ”ابو ہریرہ“ فرما دیا اللہ کے نبی کا دیا ہوا نام اتنا مقبول ہوا کہ آج ان کا نام کوئی نہیں جانتا، ”ابو ہریرہ“ سارے جانتے ہیں۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا نام ”عبد الرحمٰن“ ہے، کنیت ”ابو ہریرہ“ ہے۔ کنیت ہوتی ہے بیٹے کی وجہ سےکہ انسان بیٹے کی وجہ سے پکارا جائے تو کنیت بنتی ہے اگر بیٹے کا نام ”عبد اللہ“ہے تو باپ کو کہیں گے”ابو عبد اللہ“بیٹے کا نام ”عبد الرحمٰن“ ہے تو باپ کو کہیں گے”ابو عبد الرحمٰن“ لیکن ان کے کسی بچے یا بچی کا نام ہریرہ نہیں تھا تو ان کو ابو ہریرہ کیسے کہہ دیا گیا؟! یہ بات اس لیے کہہ رہا ہوں کہ بہت سارے حضرات کو عربی ادب یا عربی لغت نہ سمجھنے کی وجہ سے غلط فہمی ہوتی ہے۔
ہمارے امام امام ابو حنیفہ:
ہمارے امام امام اعظم ابو حنیفہ نعمان بن ثابت رحمۃ اللہ علیہ ہیں۔ ان کا نام ”نعمان“ ہے، ”ابو حنیفہ“ ان کی کنیت ہے۔ اب بعض لوگ جو امام اعظم ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے مخالف ہیں، ان کی تقلید نہیں کرتے بلکہ ان کی تردید کرتے ہیں تو وہ ایک الزام یہ لگاتے ہیں ہم پر کہ ”تم عجیب لوگ ہوکہ تم نے اپنے مذہب کی نسبت ایک لڑکی کی طرف کی ہے۔ کہتے ہیں ”حنیفہ“ یہ نعمان کی بیٹی کا نام ہے، ان کو بیٹی کی وجہ سے ابو حنیفہ کہا جاتا ہے۔ تمہاری نسبت حنفی ہونے کی یہ لڑکی کی وجہ سے ہے۔“ اب دیکھو پہلے بنیاد غلط بنائی ہے اور پھر الزام ہم پر غلط لگایا ہے۔ حضرت امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کا صرف ایک بیٹا ہے جس کا نام حماد ہے، ان کے علاوہ نہ ان کا بیٹا ہے اور نہ ان کی بیٹی ہے۔
(الخیرات الحسان لابن حجر المکی: ص71)
تو جب ان کی بیٹی تھی نہیں تو پھر ہم پر اعتراض کرناکہ تمہاری نسبت ایک لڑکی کی طرف ہےبتاؤ اس سے زیادہ غلط اعتراض کیا ہو گا؟!
”ابو حنیفہ“ کنیت وصفی ہے:
البتہ بندے کے ذہن میں یہ سوال ضرور آتا ہے کہ جب بیٹی کا نام ”حنیفہ“ نہیں تھا تو پھر ابو حنیفہ کیوں کہتے ہیں؟ اس کا جواب میں سمجھانےلگا ہوں۔ عربی زبان میں ”اب“ کا معنی کبھی ”باپ“ ہوتا ہے اور کبھی اس کا معنی ”والا“ ہوتا ہے۔ تو کبھی ”اب“ کا معنی باپ ہوتا ہے... ابو القاسم یعنی قاسم کا باپ، ابو الزبیر یعنی زبیر کا باپ، اور کبھی ”اب“ کا معنی ”والا“ ہوتا ہے۔
نام ہے عبد اللہ اور ان کی کنیت ہے ”ابو بکر“، اب ابو بکر کا معنی یہ نہیں کہ بکر کا باپ، ابو بکر کا معنی ہے ”بکر والا“۔ عربی زبان میں بکرٌ کا معنی ہوتا ہے”پہل کرنا“ چونکہ حضرت صدیق رضی اللہ عنہ نے ہر موقع پر پہل کی ہے تو کنیت ابو بکر پڑی ہے کہ پہل کرنے والا، اس کا معنی یہ نہیں ہے کہ بکر کا باپ۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم حضرت علی رضی اللہ عنہ کے گھر تشریف لائے۔ حضرت علی گھر میں نہیں تھے۔حضرت زہراء سے پوچھا تو عرض کرنے لگیں کہ حضرت علی گھر میں نہیں ہیں۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم مسجد میں گئے، حضرت علی المرتضیٰ مٹی پر لیٹے ہوئے تھے، آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: ”قم یا ابا تراب“ اے ابو تراب اٹھ جا! اب ابو تراب کا معنی مٹی کا باپ نہیں ہے بلکہ مٹی پر لیٹنے والا ہے۔ تو “ابٌ“ کا معنی ”والا“ ہے۔ نام عبد الرحمٰن بن صخر ہے اور کہتے ”ابو ہریرہ“ ہیں۔ ابوہریرہ کا معنی بلی کا باپ نہیں ہے بلکہ ابو ہریرہ کا معنی بلی رکھنے والا ہے۔
”ابو حنیفہ“ کنیت کی وجہ:
حضرت امام اعظم کا نام نعمان ہے اور ابو حنیفہ کا معنی ”حنیفہ والا“ ہے، حنیفہ عربی زبان میں دوات کو بھی کہتے ہیں۔ امام صاحب کی مجلس میں اس قدر دواتیں اور قلمیں ہوتی تھیں کہ امام صاحب بولتے رہتے اور شاگرد لکھتے رہتے۔ اس کثرت دوات کی وجہ سے کہا گیا ”ابو حنیفہ“ یعنی دوات والا۔ یا ”حنیفہ“ اس لیے کہتے ہیں کہ حنیفہ کا معنی وہ دین ہے جو بالکل خالص ہو اور اس میں باطل کی ذرا بھی آمیزش نہ ہو۔ ”ابوحنیفہ“ کیوں کہتے ہیں؟ اس لیے کہ آپ کے بارے میں منقول ہے:
اَوَّلُ مَنْ دَوَّنَ عِلْمَ الشَّرِیْعَةِ وَرَتَّبَہٗ اَبْوَابًا•
(تبییض الصحیفہ للسیوطی: ص129)
جس نے سب سے پہلے دین لکھوایاان کا نام نعمان بن ثابت ہے، تو یہ دین حنیف لکھوانے میں پہل کرنے والے ہیں اس لیے ان کو ابو حنیفہ کہا ہے۔ اب جس نے اعتراض ہم پر کیا اس کا معنی یہ ہے کہ اس کو تاریخ نہیں آتی اسی لیے تو امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کی بیٹی کا نام حنیفہ رکھ دیا اور ایسے شخص کو عربی بھی نہیں آتی اس لیے ”اب“ کا معنی باپ کر لیا۔ اگر تاریخ اور عربی آتی تو لوگ ہم اہل السنت و الجماعت احناف علماء دیوبند پر اعتراض نہ کرتے۔ خیر ہمیں اعتراض سننا چاہیے اور اس کا جواب بھی دینا چاہیے۔
یہ میں نے ہلکا سا صحابی کا تعارف کرایا ہے، پھر کبھی موقع ملا تو ان شاء اللہ تفصیل سے اس پر بات کرلیں گے کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اور حضرت امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے درمیان مناسبتیں کیا ہیں؟
آپ علیہ السلام کی فضیلت:
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔
فُضِّلْتُ عَلَی الْاَنْبِیَآءِ بِسِتٍّ•
مجھے اللہ نے باقی انبیاء علیہم السلام پر چھ چیزوں میں فضیلت عطاء فرمائی ہے یعنی چھ انعامات اللہ نے مجھ محمد کو وہ دیے ہیں کہ جو پہلے انبیاء کو نہیں دیے۔
أُعْطِيتُ جَوَامِعَ الْكَلِمِ، وَنُصِرْتُ بِالرُّعْبِ، وَأُحِلَّتْ لِيَ الْغَنَائِمُ وَجُعِلَتْ لِيَ الْأَرْضُ طَهُورًا وَمَسْجِدًا وَأُرْسِلْتُ إِلَى الْخَلْقِ كَافَّةً وَخُتِمَ بِيَ النَّبِيُّونَ•
مجھے جوامع الکلم دیے گئے ہیں اور مجھے رعب عطا کر کے میری مدد فرمائی گئی ہے مال غنیمت کو میرے لیے حلال کیا گیا ہے پوری زمین کو میرے لیے پاک کرنے والا بنایا گیا ہے پوری زمین کو میرے لیے سجدہ گاہ بنایا گیا ہے مجھے ساری کائنات کا نبی بنا دیا گیا ہے۔
یہ چھ نعمتیں مجھے اللہ دی ہیں جو پہلے انبیاء کو نہیں دیں آپ حضرات نے چھ میں سے ہر ایک کو تھوڑا سا سمجھنا ہے۔
”جوامع الکلم“ کیا ہیں؟:
اعطیت جوامع الکلم۔
مجھے اللہ نے جوامع الکلم دیے ہیں، جوامع الکلم کا مطلب کیا ہے؟ ”کلم“ جمع ہے کلمہ کی، اب جوامع الکلم کا معنی یہ ہے کہ خدا نے مجھے وہ کلمات عطاء فرمائے ہیں جو جامع ہیں۔ عربی زبان کا لفط ہے ”کلمۃ“، عربی زبان کا لفظ ہے ”کلمۃ جامعۃ“۔ کلمۃ کہتے ہیں ۔
الکلمۃ لفظ وضع لمعنی مفرد•
(الکافیۃ: ص1)
کلمہ اس ایک لفظ کو کہتے ہیں جس کا معنی ایک ہوتا ہے۔
اور کلمہ جامعہ اس لفظ کو کہتے ہیں کہ لفظ ایک ہوتا ہے اور اس کے معانی کئی سو یا کئی ہزار ہوتے ہیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
أُعْطِيتُ جَوَامِعَ الْكَلِمِ•
مجھے اللہ نے جوامع الکلم دیے ہیں۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ گزشتہ انبیاء کو کلم دیے ہیں، گزشتہ انبیاء کو جتنے مسائل چاہیے تھے اتنے مسائل کے لیے اللہ نے کلمات عطاء فرما دیے اور ہمارے نبی کو جتنے مسائل چاہیے تھے اگر اللہ اتنے کلمات عطاء فرماتے تو بتائیں ان کلمات کو کون سا پریس چھاپ لیتا، کون سا قلم لکھ لیتا، کون سا سینہ محفوظ رکھ لیتا اور کون سا بندہ پڑھ لیتا؟! حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم قیامت تک کے لیے نبی ہیں، حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کو قیامت تک کروڑوں مسائل پیش آنے ہیں، اگر اللہ کے نبی کو کروڑوں مسائل کے لیے کروڑوں کلمات عطاء کردیے جاتے تو بتائیں یہ کروڑ کلمات کون سا پریس چھاپتا، کون لکھتا اور کون ان کو پڑھتا؟!
اللہ نے کرم کیا کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم کو کروڑوں مسائل عطاء فرمائے ان کروڑوں مسائل کے لیے اللہ نے نبی کو کلمات بہت کم عطاء فرمائے، الفاظ تھوڑے ہیں مسائل زیادہ ہیں یہ ہمارے نبی کی خصوصیت ہے۔
جب میں اس کی مثالیں دوں گا تو پھر آپ کی سمجھ میں بات آنی ہے کہ اس کا مطلب کیا ہے؟
ابو عمیر! چڑیا کے بچے کا کیا بنا؟
ایک مثال تو وہ سمجھیں جو شمائل ترمذی کی شرح خصائل نبوی میں ہے جو شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا رحمہ اللہ نے تحریر فرمائی ہے اور اس میں ایک عجیب مثال دی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک صحابی ہیں انس بن مالک رضی اللہ عنہ، یہ حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بچپن میں آئےہیں دس سال حضور کی خدمت کی ہے، ان کے چھوٹے بھائی تھے، ان کا نام ابو عمیر تھا۔ ایک بار حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ابو عمیر کو دیکھا کہ وہ غمزدہ ہیں، غمزدہ ہونے کی وجہ یہ تھی کہ ان کے پاس ایک چڑیا کا بچہ تھا انہوں نے پنجرے میں رکھا ہوا تھا وہ فوت ہوگیا۔ ابو عمیر سے حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا:
یا ابا عُمیر ما فعل النُّغَیر؟
” نُغیر “عربی زبان میں چڑیا کے بچے کو کہتے ہیں، ”ابو عمیر“ کا معنی عمیر کا باپ ہے۔ حضور علیہ السلام نے مزاح میں پوچھا: ابو عمیر! وہ چڑیا کے بچے کا کیا بنا، وہ چڑیا کا بچہ کدھر گیا ہے؟آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ کلام مزاح میں فرمایا۔ میں سمجھانے کے لیے کہتا ہوں کہ جیسے آپ کے گھر میں بچہ ہے، آپ اس کو کھیلنے کے لیے بال دیتے ہیں، آپ نے گھر میں دیکھا کہ بال نہیں تھی، آپ نے مزاح میں اس سے پوچھا: تیری بال کدھر گئی؟ اس کو اچھال کر تو نہیں مارا کہ ہمسائیوں کے گھر چلی گئی ہے؟ یہ مزاح میں آپ نے کہا۔ اسی طرح حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے مزاح میں اس سے پوچھا:ابو عمیر! وہ چڑیا کے بچے کا کیا بنا؟
مزاح سے مستنبط مسائل:
حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا کاندھلوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مزاح میں ایک جملہ فرمایا اور فقہاء نے اس ایک جملہ سے سو مسائل اخذ فرمائے ہیں۔ (سبحان اللہ۔ سامعین)
حضور پاک صلی اللہ علیہ و سلم نے مزاح میں یہ جملہ فرمایا اور فقہاء نے سو مسئلے نکالے ہیں۔ اب دیکھو کلمہ ایک ہے اور مسئلے سو ہیں اور اگر ہر مسئلے کے لیے الگ کلمہ ہوتا تو سو حدیثیں بن جاتیں، اب مسائل سو اور حدیث ایک ہے۔ یہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی خصوصیت ہے۔ مسائل سو کیسے نکالے؟ میں دو چار مسئلے عرض کرتا ہوں۔
مسئلہ نمبر1:
حضرت ابو عمیر ابھی بچے ہیں، ان کا نکاح بھی نہیں ہوا، صاحبِ اولاد بھی نہیں ہیں، اب اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و سلم فرماتےہیں: ” ابو عمیر“
اب مسئلہ یہ نکلا کہ جس کی اولاد نہ ہو اس کو اولاد کی کنیت کے ساتھ پکارا جاسکتا ہے یا نہیں؟ مثلاً ایک بندے کا ”خیر“ بیٹا نہیں ہے اور کنیت ہے ”ابو الخیر“، جب اس کا نکاح ہی نہیں ہوا تو ”ابو الخیر“ کیسے بنا؟ اب کتنی بچیوں کے نام ”ام ایمن“ رکھتے ہیں، اس کی اولاد ابھی پیدا نہیں ہوئی تو یہ ”ام ایمن“ کیسے بنی ہے؟ تو آیا ایسی کنیت رکھنا جائز ہے یا نہیں؟ تو نبی پاک صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: ”یا ابا عمیر“ اس سے ثابت ہوا کہ ایسی کنیت رکھنا جائز ہے۔
مسئلہ نمبر2:
حضرت ابو عمیر بچے ہیں، ان کے ساتھ مزاح اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا، اب مسئلہ یہ پیدا ہوا کیا بڑا چھوٹے کے ساتھ دل لگی کرسکتا ہے یا نہیں؟ کیا بڑا چھوٹے کے ساتھ مزاح کرسکتا ہے یا نہیں؟ تو اس حدیث سے ثابت ہوا کہ کر سکتا ہے۔
مسئلہ نمبر3:
ابو عمیر بچے ہیں اور ان کے گھر میں چڑیا کا بچہ تھا وہ فوت ہوگیا۔ اب وہ غمزدہ ہیں حضور صلی اللہ علیہ و سلم ان سے مزاح فرمارہے ہیں۔ اس سے پتا چلا کہ غمزدہ بندے کے ساتھ خوش طبعی کرسکتے ہیں۔
مسئلہ نمبر4:
اگر چڑیا کا بچہ ہو اس کو پنجرے میں کوئی رکھ سکتا ہے یا نہیں؟ تو اس حدیث سے ثابت ہوا کہ رکھ سکتا ہے۔
اب دیکھو کلمہ ایک ہے اور مسائل سو ہیں۔ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و سلم فرماتے ہیں کہ یہ میرا اعزاز ہے کہ خدا نے مجھے کلمات تھوڑے دیے ہیں اور معنی زیادہ عطاء فرمائے ہیں۔
میں اور مثال دیتا ہوں، دو چار مثالیں اچھی طرح سمجھ لیں تو پھر سارا مضمون سمجھ آجائے گا۔
اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے:
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
إِنَّمَا الْأَعْمَالُ بِالنِّيَّاتِ•
(صحیح البخاری: حدیث نمبر1)
اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے۔
یہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے۔ اب اس سے مسائل کتنے نکلتے ہیں ذرا وہ سمجھیں! مجھ سے کسی شخص نے پوچھا: عموماً آپ حضرات جنازہ جس وقت پڑھاتے ہیں تو جنازے سے قبل امام اعلان کرتا ہے ”نیت کر لو چار تکبیر نماز جنازہ، ثناء واسطے اللہ تعالیٰ کے، درود واسطے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے، دعا واسطے حاضر اس میت کے ،منہ طرف کعبہ شریف کے، پیچھے اس امام کے اللہ اکبر“ میں نے کہا: کرواتے ہیں۔ مجھے کہنے لگا یہ جو نیت آپ کرواتے ہیں یہ کہاں لکھا ہے؟ میں نے کہا: صحیح بخاری شریف میں لکھا ہے۔ مجھے کہتا ہے: بخاری کی کون سی حدیث میں ہے؟ میں نے کہا: بخاری کی پہلی حدیث میں لکھا ہے۔ کہنے لگا جی سنائیں۔ میں نے کہا: حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
إِنَّمَا الْأَعْمَالُ بِالنِّيَّاتِ•
اعمال کا دار و مدار نیت پر ہے۔
جیسی نیت ہوگی ویسا عمل ہوگا۔ مجھے کہنے لگا کہ آپ میرا سوال نہیں سمجھے۔
میں نے کہا: میں آپ کا سوال سمجھا ہوں، آپ میرا جواب نہیں سمجھے۔ کہتا ہے جی کیا مطلب؟ میں نے کہا: تیرا سوال یہ ہے کہ تم جو زبان سے نیت کرتے ہو یہ کہاں ہے، کیا یہی سوال ہے؟ کہتا ہے: جی ہاں یہی سوال ہے۔ میں نے کہا: میں نے اس لیے کہا کہ میں تیرا سوال سمجھا ہوں تو میرا جواب نہیں سمجھا۔
میں نے اس سے پوچھا: بتاؤ ہم کیا کہتے ہیں، نیت کرو یا نیت کہو؟ کہتا ہے: جی آپ کہتے ہیں نیت کرو۔ میں نے کہا: ایک ہوتا ہے ”کرنا“ اور ایک ہوتا ہے ”کہنا“، کرنا ہوتا ہے دل سے اور کہنا ہوتا ہے زبان سے، ہم اگر کہتے کہ ”نیت کہو“ تو تیرا سوال درست تھا کہ یہ کہاں لکھا ہے، ہم تو کہتے ہیں ”نیت کرو“ اور یہ تو صحیح بخاری میں لکھا ہے۔
انما الاعمال بالنیات۔
نیت کرنے کاثبوت؟
پھر وہ مجھے کہنے لگا: تم جو کہتے ہو کہ یہ نیت کرو، یہ کہاں لکھا ہے؟ میں نے کہا: یہ بھی اسی روایت میں ہے۔ کہتا ہے جی وہ کیسے؟ میں نے کہا: جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جیسی نیت ہوگی ویسا عمل ہوگا، اب بتاؤ کس عمل کے لیے نیت کے الفاظ کون سے ہوں گے؟ اب اگر ہر عمل کی نیت کے کلمات بھی نبی صلی اللہ علیہ و سلم خود الگ سے بتا دیتے تو صحیح بخاری میں اب روایات کی تعداد9082 ہے، تو بتائیں صحیح بخاری اس سے کتنے گنا بڑی بن جاتی؟! صرف ایک مسئلہ کے لیے کہ نیت کے لیے کون کون سے الفاظ کہنے چاہییں صحیح بخاری بہت بڑی بن جاتی۔
مثلاً جب صبح اٹھیں تو نیت کیا کریں، بیت الخلاء میں جائیں تو نیت کیا کریں، وضو کریں تو نیت کیا کریں، ناشتہ کریں تو نیت کیا کریں، قیلولہ کریں تو نیت کیا کریں، دکان پر جائیں تو نیت کیا کریں، گاہک کو سامان دیں تو نیت کیا کریں، پیسے وصول کریں تو نیت کیا کریں؟ میں مثال دے رہا ہوں، میں نے کہا: صرف اس پر کہ کس عمل کے لیے نیت کیا کرنی ہے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و سلم اگر الفاظ خود بتاتے تو کتنی بڑی کتاب صرف اس ایک مسئلہ پر بن جاتی۔ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و سلم فرماتے ہیں:
أُعْطِيتُ جَوَامِعَ الْكَلِمِ•
کہ خدا نے مجھ پہ کرم یہ کیا ہے کہ مجھے مسائل زیادہ دیے ہیں اورالفاظ تھوڑے دیے ہیں، تھوڑے لفظوں میں خدا نے مسائل زیادہ رکھے ہیں، یہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا اعزاز ہے۔
مسئلہ ……اگر حشرات الارض کھانے میں گرجائیں:
ایک مثال اور سمجھیں۔ حضور اکرم صلی اللہ علہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں:
إِذَا وَقَعَ الذُّبَابُ فِي إِنَاءِ أَحَدِكُمْ فَلْيَغْمِسْهُ كُلَّهُ ثُمَّ لْيَطْرَحْهُ فَإِنَّ فِي أَحَدِ جَنَاحَيْهِ شِفَاءً وَفِي الْآخَرِ دَاءً•
( صحیح البخاری: ج2 ص860)
اگر تم کھانا کھارہے تھے، کھانا کھانے کے دوران تمہارے کھانے کے برتن میں اگر مکھی گر گئی ہے تو اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ اس مکھی کو اس برتن میں ڈبو دو، پھر اس مکھی کو نکال دو۔ (اب کھانا استعمال کرنا چاہو تو آپ کر سکتے ہو)
اب یہاں پر دو مسئلے ہیں۔ ایک مکھی کو کھانے میں ڈبو دینا، دوسرے ڈبونے کے بعد اسے نکال دینا اور پھر اس کھانے کا استعمال کرنا۔ ایک کی وجہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے خود بتادی اور دوسرے کی وجہ اللہ کے نبی صلی اللہ علہ وسلم نے نہیں بتائی۔ مکھی اگر کھانے میں گر جائے تو اسے ڈبونا کیوں ہے؟ اس کی وجہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ بیان فرمائی کہ مکھی کے دو پر ہیں، اس کے ایک پر میں شفاء ہے ایک پر میں وباء ہے، تو جب آپ اس کو ڈبو کر باہر نکالو گے تو جیسے کھانا پہلے تھا ویسے کھانا اب ہے۔ جسے آج کی زبان میں کہہ سکتے ہیں کہ اس کے ڈبونے کی وجہ سے اب بیلنس بالکل برابر ہوگیا ہے۔ اگر پہلے کھانا ٹھیک تھا، مکھی کے گرنے سے بیماری آگئی تو جب مکھی آپ نے ڈبودی تو شفاء والا پر بھی ساتھ ڈوب گیا ہے اب دیکھو بیماری ختم ہوگئی۔
نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلی بات تو سمجھادی ہےلیکن اس مکھی کو نکالنے کے بعد وہ کھانا کھانا بھی جائز ہے اس کی وجہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں بتائی، اس کی وجہ امام اعظم رحمۃ اللہ علیہ نے بتائی ہے۔ امام صاحب فرماتے ہیں: اگر کھانے میں مکھی گر جائے تو اس کھانے کا استعمال کرنا جائز ہے، اس کھانے سے نہیں روکا گیا، اس کی وجہ یہ ہے کہ مکھی کی رگوں میں گردش کرنے والا خون نہیں ہے، لہذا ہر ایسا چھوٹا جانور کہ جس کی رگوں میں گردش کرنے والا خون موجود نہ ہو تو جو حکم مکھی کا ہے وہی حکم اس جانور کا بھی ہوگا۔
(المبسوط للسرخسی: ج1 ص91)
اب بتاؤ! اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اگر ایک ایک جانور کا مسئلہ بتاتے توکتنی بڑی کتاب چاہیے! اللہ کے نبی بتاتے مچھر گرجائے تو کھانا پھر بھی جائز ہے، مکھی گر جائے کھانا پھر بھی جائز ہے، جگنو گرجائے پھر بھی جائز ہے، بھڑ گرجائے تو بھی جائز ہے، چیونٹی گرجائے تب بھی جائز ہے، ہزاروں چھوٹے چھوٹے جانور اس دنیا میں موجود ہیں، بتاؤ ایک ایک چھوٹے چھوٹے جانور کا حکم بتاتے تو کتنی بڑی کتاب بن جاتی؟! اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:
أُعْطِيتُ جَوَامِعَ الْكَلِمِ•
خدا نے مجھ پر کرم یہ کیا ہے کہ مجھے ”جوامع الکلم“ دیے ہیں۔ میں لفظ ایک کہتا ہوں مسئلے ہزار نکل آتے ہیں۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم لفظ ایک فرماتے ہیں اور اس کی تہہ میں مسئلے کئی نکل آتے ہیں۔ میں کچھ عقائد اور کچھ مسائل سمجھاتا ہوں تاکہ ہمارے عقائد و نظریات بھی ٹھیک ہوں اور ہمارے مسائل بھی ٹھیک ہوں۔
عقیدہ حیات النبی صلی اللہ علیہ و سلم:
ہمارا نظریہ اور عقیدہ ہے کہ انبیاء علیہم السلام اپنی قبور میں زندہ ہیں۔ کوئی بندہ پوچھے: دلیل کیا ہے؟ ہم کہتے ہیں، قرآن کریم میں ہے:
وَلَا تَقُولُوْا لِمَنْ يُقْتَلُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْوَاتٌ بَلْ أَحْيَاءٌ وَّلٰكِنْ لَّا تَشْعُرُوْنَ•
(سورۃ البقرۃ: 154)
اللہ کے راستے میں جو قتل ہوجائے اس کو مردہ نہ کہنا بلکہ اللہ کے راستے میں قتل ہونے والے کو زندہ کہنا۔
اب شہید کو قران کریم نے زندہ کہا۔ ہم نے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو زندہ مانا ہے اس لیے کہ شہید کو جو اعزاز ِحیات ملا ہے یہ حضور پاک صلی اللہ علیہ و سلم کے صدقے ملا ہے، حضور صلی اللہ علیہ و سلم کا کلمہ نہ پڑھتا پھر یہ قتل ہوتا تو یہ اعزاز کبھی نہ ملتا، حضور صلی اللہ علیہ و سلم کا کلمہ پڑھا، قتل ہوا پھر اعزاز ملا۔ اس سے پتہ چلا کہ اگر شہید زندہ ہے تو نبی اس سے بڑھ کے زندہ ہے۔ اب ہم نے زندہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو کہا اور دلیل میں ہم نے شہید کی حیات کو پیش کیا۔
حیاتِ نبی بتاتے تو حیات ِشہید سمجھ نہ آتی:
اب ایک بندہ یہ بات کہتا ہے کہ دیکھو آپ نے دعویٰ یہ کیا کہ نبی زندہ ہے اور آپ نے دلیل پیش کی کہ شہید زندہ ہے، تو یوں کیوں نہیں ہوا کہ قرآن کریم کہہ دیتا کہ نبی زندہ ہے۔ میں نے کہا: قران کریم نے کہا شہید زندہ ہے تو اس سے یہ بات سمجھ میں آجاتی ہے کہ نبی زندہ ہے، جب شہید کی حیات بتائی ہے تو نبی کی حیات سمجھ میں آئی ہے، اگر نبی کی حیات بتاتے تو شہید کی حیات سمجھ میں نہ آتی۔ میں نے کہا: نبی کی حیات بتا دیتے تو شہید کی حیات سمجھ میں نہیں آنی تھی۔ مثلاً لوگ کہتے کہ ”یہ دو بلاک کا لڑکا ہے، ہم نےکبھی اس کو نماز پڑھتے نہیں دیکھا، اس کے تو چہرے پہ داڑھی بھی نہیں تھی، یہ ناموس رسالت کے لیے کٹ گیا اور شہید ہوگیا تو یہ کیسے زندہ ہے؟ ہم اس لڑکے کو زندہ نہیں مانتے۔ ہاں نبی صلی اللہ علیہ و سلم زندہ ہیں اس لیے کہ آپ نبی ہیں، اس لیے زندہ ہیں کہ آپ معصوم ہیں، اس لیے زندہ ہیں کہ آپ کے پاس جبرائیل امین علیہ السلام آتا ہے، نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی زندگی تو سمجھ میں آتی ہے، اس دو بلاک کے لڑکے کو زندہ کون مانے؟“ تو لوگوں نے یہ بات کہنی تھی نا؟اس لیے اگر نبی کی حیات بتاتے تو شہید کی حیات سمجھ میں نہ آتی، خدا نے شہید کی حیات بتائی ہے نبی کی حیات خود بخود سمجھ میں آئی ہے۔
امام کا اجر بتایا مقتدی کا سمجھ میں آیا:
تو جہ رکھنا! آپ لوگ مسجد میں آئے ،مولانا عبدالرشید صاحب آپ کے امام ہیں یہ مسجد میں نہیں تھے، کسی کام کے لیے چلے گئے، امام کو بھی تو کام پڑ سکتا ہے نا، مقتدی ہفتہ غائب ہو تو کوئی فرق نہیں پڑتا اور اگر امام ایک مرتبہ بھی غائب تو پوری انتظامیہ بیٹھ جاتی ہے ”مولوی صاحب تسی اج مسیت وچ نیں سو “ [مولانا صاحب! آج آپ مسجد میں نہیں تھے] بھائی امام کا بھی کام ہوسکتا ہے مقتدی کا بھی ہوسکتا ہے، مقتدی 15 دن چھٹی کرے گا تو اعتراض نہیں ہوگا، امام بھول کر بیچارہ ایک نماز میں کام پر چلا جائے تو مسجد میں طوفان بر پا ہوجاتا ہے کہ مولانا صاحب مسجد میں نہیں تھے۔ خیر میں عرض کر رہا تھا کہ آپ لوگ مسجد میں آئے، اب جماعت کا وقت آگیا۔آپ نے کسی لڑکے کوکہا: بیٹا نماز پڑھادو آپ کے چہرے پر داڑھی ہے سر پر پگڑی ہے آپ بڑے نیک معلوم ہوتے ہیں۔ اس لڑکے نے کہا: نہیں میں نماز نہیں پڑھاتا۔ آپ نے کہا: کیوں نہیں پڑھاتے؟ اس نے کہا: میں نے تو جماعت کی فضیلت سنی ہے کہ اگر آدمی با جماعت نماز پڑھے تو 27 نمازوں کا اجر ملتا ہے۔ میں امام کے پیچھے نماز پڑھوں گا تو یہ فضیلت ملے گی، اگر امام بن کے پڑھوں گا تو مجھے 27 نمازوں کا اجر تو نہیں ملے گا، میں نے تو فضیلت حاصل کرنی ہے اس لیے میں پیچھے کھڑا ہوں گا امام نہیں بن سکتا۔ ہم نے اس کو مسئلہ سمجھایا کہ دیکھو اگر امام مصلے پر نہ ہوتو مقتدی کو 27 کا اجر کیسے مل سکتا ہے؟! ! امام نماز پڑھائے گا ،مقتدی پیچھے کھڑا ہوگا تبھی تو اس کو 27 کا اجر ملے گا۔ تو دیکھیں اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے امام کا اجر نہیں بتایا، اگر امام کا اجر بتادیتے کہ امام کو 27 نمازوں کا ثواب ملے گا تو مقتدی کا اجرسمجھ میں نہ آتا۔ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے مقتدی کا اجر بتایا ہے تاکہ مقتدی کا دل چھوٹا نہ ہو۔ مقتدی کا اجر بتایا ہے توامام کا اجر خود بخود سمجھ میں آیا ہے۔
اپنے امام مسجد کی قدر کیجیے:
یہ بات ذہن نشین فرمالیں میں درمیان میں عرض کر دوں کہ بسا اوقات لوگوں کو دھوکہ لگ جاتا ہے کہ میں تو تین بجے اٹھ کے تہجد پڑھتا ہوں اور اتنی تسبیحات پڑھتا ہوں اورامام صاحب نے وضو کیا، سنتیں پڑھیں اور آ کر مصلے پر کھڑے ہوگئے ،تو میں ان سے زیادہ نیک آدمی ہوں، یاد رکھو! یہ تصور اپنے ذہن میں کبھی بھی نہ لانا۔ ایک ہے فرض نماز اور ایک ہے نفل نماز، آپ مسجد کے سارے لوگ رات اٹھ کر تہجد پڑھیں اور آپ کی مسجد کا امام بالکل تہجد نہ پڑھے لیکن صرف فرض کی نماز پڑھائے تو بتائیں فرائض کا اجر زیادہ ہے یا نوافل کا اجر زیادہ ہے؟ (فرائض کا اجر زیادہ ہے۔ سامعین) امام صاحب کی نماز قبول ہوگی تو آپ کی قبول ہونی ہے، امام صاحب تہجد نہ بھی پڑھے لیکن جتنے لوگ فجر کے فرض پڑھیں گے تو ان سب کا ثواب امام صاحب کو ملتا ہے، ظہر کی نماز پڑھیں گے ثواب امام کو ملتا ہے، عصر کی نماز پڑھیں گے ثواب امام کو ملتا ہے، مغرب کی نماز پڑھیں گے ثواب امام کو ملنا ہے، عشاء کے فرض پڑھیں گے امام کو ثواب ملنا ہے۔
اب بتائیں آپ نے تہجد 8 رکعات پڑھی اور امام نے کتنی رکعات کی جماعت کروائی ہے؟ دو فجر کی، چار ظہر کی، چار عصر کی، تین مغرب کی اور چار عشاء کی کل سترہ رکعات بنتی ہیں۔ آپ نے پڑھی ہیں آٹھ اور امام صاحب کو ثواب ملا ہے سترہ رکعات کا اور سترہ بھی اکیلے بندے کی نماز نہیں بلکہ پوری دو بلاک کی مسجد کا، تو امام بغیر تہجد کے دس دس ہزار نماز کا ثواب لیتے ہیں اور آپ نے صرف آٹھ رکعت کا ثواب لیا اب بتائیں امام کا مقابلہ مقتدی کرسکتا ہے؟ (نہیں۔ سامعین)
لیکن ہمیں دھوکہ ہوتا ہے کہ میں تہجد پڑھتا ہوں مولوی صاحب نہیں پڑھتے، میں نوافل پڑھتا ہوں مولوی صاحب نہیں پڑھتے، مولوی صاحب کو پڑھنا چاہیے، میں یہ نہیں کہتا کہ نہ پڑھے لیکن مولوی مولوی ہوتا ہے اور مقتدی مقتدی ہوتا ہے۔ اگر آپ نے یہاں سے کراچی جانا ہو اور گاڑی کے ڈبے میں اے سی لگا ہو اور انجن نان اے سی ہو، آپ بے شک اے سی والے ڈبے میں بیٹھ جائیں لیکن جو مقام اس نان اے سی انجن کا ہے وہ اے سی والے ڈبے کا نہیں ہے، اس نان اے سی والے انجن نے کراچی جانا ہے تو ایئر کنڈیشنڈ ڈبے نے پہنچنا ہے، اگر اس نے نہیں جانا تو اے سی والا ڈبہ بھی نہیں پہنچ سکتا۔
امام کی نماز قبول ہونی ہے تو تہجد والے مقتدی کا فرض قبول ہونا ہے، اگر اس کی قبول نہیں تو پھر تیری تو فرض نماز ہی قبول نہیں۔ لیکن ہمیں پھر بھی گلہ ہوتا ہے۔ میں یہ احساس اس لیے دلا رہا ہوں کہ بسا اوقات ہمارے دل میں امام کی قدر و قیمت نہیں ہوتی، اللہ ہمیں امام کی قدر و قیمت سمجھنےکی توفیق عطا فرمائے۔ امام کی قدر و قیمت نہ جانیں تو نقصان امام کا نہیں ہوتا نقصان مقتدی کا ہوتا ہے۔ باپ باپ ہوتا ہے اور بیٹا بیٹا ہوتا ہے، اب اگر بیٹا باپ کی قدر نہ کرے تو باپ کا نقصان نہیں ہے یہ بیٹے کا نقصان ہے، مقتدی امام کی عزت کرے تو مقتدی کا فائدہ ہے، نہ کرے تو مقتدی کا نقصان ہے۔ یہ بات میں اس لیے سمجھانا ضروری سمجھتا ہوں کہ ہمارے ذمے پوری بات سمجھانا ہے اور عوام کے اعمال کی فکر کرنا ہے، یہ بات ہماری ذمہ داری میں شامل ہے۔
اغیار کی محنت:
ایک بات میں صرف سمجھانےکے لیے کہنا ضروری سمجھتا ہوں۔ ہمارے ہاں تبلیغی جماعت ہے، یہ ہماری جماعت ہے۔ اب اس کے مقابلے میں دعوتِ اسلامی چلی ہے؟ پتا ہے کیوں؟ جو کام اصل ہے اللہ رب العزت نے دیوبند والوں کو دیا ہے، اس کی نقل پھر لوگ کرتے ہیں۔
ختم نبوت کانفرنس ہم نے سرگودھا میں شروع کی اب لوگ اس کی نقل چلارہے ہیں، تبلیغ کی ترتیب ہم نے شروع کی یہ بھی اب لوگوں نے دیکھا دیکھی میں شروع کر دی ہے، ہم شروع کرتے ہیں لوگ ہماری نقل کرتے ہیں۔ اب ایک نقل دعوت اسلامی کی طرف سے چلی ہے۔ انہوں نے ایک کتابچہ لکھا ہے جو ان کا کارکن ہے وہ روزانہ اس کو پر کرتا ہے اور پھر مہینے کے آخر میں کراچی بجھواتا ہے۔ اس طرح اس کی پوری کارگزاری جارہی ہے۔ مجھےاس پر بڑا تعجب ہوا۔
ہم نے ان کا اتنا لٹریچر جمع کیا ہے کہ شاید ان کے کسی مولوی کے پاس بھی اتنا لٹریچر موجود نہ ہو جتنا ہم نے جمع کیا ہے کیونکہ ہم نے اپنی پوری کتاب لکھنی ہے، ہم نے ان کا لٹریچر یکجا جمع کیا ہے، کچھ انٹرنیٹ سے نکالا، کتابیں نکالیں، پمفلٹ نکالے۔
حتی کہ آپ حیران ہوں گے کہ انہوں نے ایک چھوٹا سا لٹو نما ایک بنٹا بنایا ہوا ہے پتھر کا وہ بھی ہم نے جمع کرلیا، وہ انہوں نے بنایا ہے اور لکھا ہوتا ہے کہ روزانہ اس کو پانچ منٹ منہ میں رکھ کر خاموش رہیں تاکہ خاموشی کی عادت بنے، ہم نے وہ چشمہ بھی جمع کیا جو سفید رنگ کا ہے اور اوپر سے سیاہ رنگ کی وجہ سے نظر نہیں آتا نیچے ہی نظر آتا ہے، کہتے ہیں کہ روزانہ دس منٹ یہ چشمہ پہن کے بیٹھے رہیں تاکہ بد نظری سے جان چھوٹے۔
میں نے کہا: چشمہ پہن کر تو یہ بند کمرے میں بیٹھا ہوا ہے لڑکیاں باہر پھرتی ہیں تو بند کمرے میں بد نظری سے جان کیسے چھوٹے گی؟ یا تو آپ اس چشمہ کو پہن کے بازار میں جائیں نا! تاکہ ایک بار کہیں ٹکر لگے گی، ٹھکائی ہو گی تو اس کی آنکھ ٹھیک ہو گی نا! ! ایسے کام انہوں نے شروع کررکھے ہیں کہ بندے کو سن کر بھی تعجب ہوتا ہے۔ خیر میں جو بات بتارہا ہوں اس میں ایک شق یہ لکھی ہوئی ہے کہ ہر سنی نوجوان روزانہ سنی عالم کو 12 روپے ہدیہ دے۔
یہ اس نے مہینے بعد رپورٹ بھجوانی ہے کہ اس نےاپنے عالم کو 12 روپے ہدیہ دیا ہے کہ نہیں؟ میں غلط ٹھیک کی بات نہیں کرتا صرف یہ بتا رہا ہوں کہ انہوں نے اپنی قوم کو اس بات پر کھڑا کردیا ہے کہ آپ نے اپنے عالم کی خدمت کرنی ہے اس لیے وہ خدمت کرتے ہیں۔ اور ہم درس شروع ہی یہاں سے کرتے ہیں کہ ہمارے علماءِ دیوبند کرایہ بھی نہیں مانگتے، کھانا بھی نہیں کھاتے، ڈیمانڈ بھی نہیں کرتے اور حق بیان کرتے ہیں۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ لوگ کھانا ہی نہیں کھلاتے کہ بھائی یہ حضرات کھاتے ہی نہیں تو انہیں کھلائیں کیوں؟! !
میں صرف اس وجہ سے کہہ رہا ہوں کہ امام کا مقام کیا ہے؟ مقتدی کا کیا ہے؟ عالم کو یہ ذہن سازی کرنی چاہیے، یہ ذہن سازی نہیں کریں گے تو بسا اوقات تہجد پڑھنے والا کسی وجہ سے امام کا تہجد نہ دیکھ سکا تو بدگمانی کی وجہ سے جہنم کا ایندھن بن جائے گا، وہ خوش ہوگا کہ میں تہجد پڑھ رہا ہوں اور دل میں امام کی عظمت نہیں ہوگی، امام کی عظمت دل سے چلی گئی تو نبی کے وارث کی عظمت دل سے ختم ہو جائے گی۔ اب بتاؤ اس نے کس طرح جنت میں جانا ہے اہل علم کی توہین کر کے؟! اللہ ہمیں یہ بات سمجھنے کی توفیق عطاء فرمائے۔ (آمین۔ سامعین)
خیر میں نے کہا: اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے مقتدی کا اجر بتایا تو امام کا اجر سمجھ میں آیا، اگر امام کا اجر بتادیتے تو مقتدی کا سمجھ میں نہ آتا۔
قضاء نمازوں کا مسئلہ:
ایک اور مسئلہ سمجھیں۔ اگر کوئی شخص بھول کر نماز چھوڑے دے اور اس کو یاد آئے تو اس کو بعد میں نماز کی قضاء کرنی چاہیے۔ اگر کوئی انسان سو جائے اور نماز رہ جائے تو جب نیند سے اٹھے اوراس نماز کا وقت گزر گیا ہو تو اس شخص کو نماز کی قضاء کرنی چاہیے۔ بندہ جان بوجھ کے نماز چھوڑ دے تو اس کی بھی بعد میں قضا کرنی چاہیے لیکن آج محترمہ ڈاکٹر فرحت ہاشمی جو ہمارے سرگودھا کی ہیں اور اب کینیڈا چلی گئی ہیں، اس نے وہاں ڈیرا لگالیا ہے اس نے ایک مسئلہ بیان کیا ہے کہ اگر آدمی سوجائے اور نماز رہ جائے جب اٹھے اور اس نماز کا وقت گزر گیا ہو تو اس کی قضا کرے، اگر بھولے سے نماز رہ جائے بعد میں جب یاد آئے نماز کا وقت گزر گیا ہو تو اس کی قضا کرے لیکن اگر جان بوجھ کے نماز چھوڑ دے تو اس نماز کی بعد میں قضاء نہیں ہے۔
ہمیں لوگ کہتے ہیں کہ اس کو عورتیں تو بہت سنتی ہیں۔ میں نے کہا: وہ ساٹھ سال کی نمازیں معاف کرادیتی ہے تو لوگ سنیں کیوں نہیں؟ ہمارے پاس کوئی بندہ آئے، سہ روزہ لگا لے، چلہ لگالے، چار مہینے لگالے توبہ کرلے اور نمازی بن جائے اور تبلیغی جماعت والوں سے پوچھے کہ میری سابقہ نمازوں کا کیا ہوگا؟ تو جماعت والے کیا کہیں گے کہ ”صرف تو بہ کرلیں معاف ہوجائیں گی“ (نہیں۔ سامعین) انہوں نے کہنا ہے: بھائی آپ نے سابقہ نمازیں قضاء کرنی ہیں، اور انہوں نے (ڈاکٹر فرحت ہاشمی نے)کہنا ہے کہ نہیں آپ نے توبہ کی ہے اس لیے معاف ہوگئی ہیں۔ تو اس کا مسئلہ تو اچھا لگنا ہے نا بندے کو! اس لیے ان جیسے لوگوں کے مجمعے بڑھتے ہیں لیکن مجمع کی کوئی پروا نہ کریں،مسئلے صحیح بتائیں۔
اب اس(ڈاکٹر فرحت ہاشمی) نے دلیل یہ دی ہے، کہتی ہے حدیث مبارک میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
من نسي صلاة أو نام عنها فكفارتها أن يصليها إذا ذكرها•
(صحیح مسلم: ج 1 ص241 باب قضاء الصلاة الفائتۃ واستحباب تعجيل قضائها)
اگر کوئی شخص بھول جائے اور نماز رہ جائے یا سو جائے اور نماز رہ جائے تو جب یاد آئے تو پڑھے، جب جاگے تو پڑھے۔
کہتی ہے اس حدیث میں اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ نہیں فرمایا کہ ”جان بوجھ کر نماز چھوڑے تو بعد میں اس نماز کی قضا کرے “ تو جب اللہ کے نبی نے جان بوجھ کر چھوڑنے پر قضاء کی بات کی ہی نہیں ہے تو میں کیسے کہہ سکتی ہوں کہ نماز جان بوجھ کے چھوڑی ہو تو قضا کرے۔
ہم نے کہا: ہمارے پاس اور دلائل تو موجود ہیں کہ جان بوجھ کے چھوڑے تب بھی قضا ہے ہم اور دلائل کی بات نہیں کرتے۔ صرف ایک دلیل دیتے ہیں۔
فوت شدہ نمازوں کی قضاء کی دلیل:
آپ یہ دلیل سماعت فرما لیں تاکہ آپ کے ذہن میں ہو کہ دلائل اور بھی ہیں۔ غزوہ خندق کے موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ خند ق کھود رہے تھے مشرکین سے دفاع کے لیے اس موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اکٹھی چار نمازیں قضا ہوگئیں، اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے بعد میں ادا فرمائیں ہیں۔
(سیرۃ المصطفیٰ از مولانا کاندھلوی: ج2 ص332 وغیرہ)
اب دیکھیں نماز رہ گئی ہے تو آپ علیہ السلام نے قضا فرمائی ہے، نہ حضور سوئے ہیں، نہ حضور بھولے ہیں، دینی مصروفیت کی وجہ سے آپ سے چار نمازیں رہ گئی ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بعد میں قضا فرمائی ہیں۔ تو ہم نے کہا کہ دلائل اور بھی موجود ہیں لیکن میں اسی دلیل پر بات کرتا ہوں کہ دیکھیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
من نسي صلاة أو نام عنها فكفارتها أن يصليها إذا ذكرها•
بندہ بھول جائے اور نماز رہ جائے جب یاد آئے تو قضا کر لے، سو جائے اور نماز رہ جائے جب بیدار ہو تو قضا کر لے۔
عام حالات میں اگر آدمی بھول جائے تو بھول چوک معاف ہوتی ہے، اگر سوجائے اور سونے میں کوئی خطاء ہو جائے تو معافی مل جاتی ہے لیکن اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و سلم سمجھانا چاہتے ہیں کہ نماز اتنی اہم ہے کہ بندہ بھول جائے تب بھی معاف نہیں ہوتی، سوجائے تب بھی معاف نہیں ہوتی، تو جو عبادت بھول جانے سے بھی معاف نہیں ہوتی وہ جان بوجھ کر چھوڑنے سے کیسے معاف ہوگی؟ سوجانے سے بھی معاف نہیں ہوتی تو جان بوجھ کر چھوڑنےسے کیسے معاف ہوگی؟
اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اگر یہ بتادیتے کہ جان بوجھ کے جو نماز چھوڑدے وہ قضا کرے تو اس سے سونے کا مسئلہ سمجھ میں نہیں آنا تھا،کسی نے کہنا تھا کہ میں نے جان بوجھ کر نہیں چھوڑی میں تو سوگیا تھا میری آنکھ ہی نہیں کھلی اس لیے میرے ذمہ قضاء نہیں ہے، کسی نےکہنا تھا کہ میں تو بھول گیا تھا مجھے تو یاد ہی نہیں رہی اس لیے میرے ذمہ قضاء نہیں ہے،اس لیے اگر جان بوجھ کر چھوڑنے کا مسئلہ بتاتےتو بھول کر چھوڑنے کا مسئلہ سمجھ میں نہیں آنا تھا، اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے بھول جانے کا مسئلہ بتایا ہے تو جان بوجھ کر چھوڑنے کا مسئلہ سمجھ میں آیا ہے۔
تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لفظ ایک فرمایا اور مسئلے دو سمجھ آگئے۔
ایصالِ ثواب بالقرآن کی دلیل:
ایک اور مسئلہ سمجھیں۔ آج ہمارے ہاں بحث چلتی ہے کہ کوئی بندہ قرآن پڑھے اور قرآن پڑھ کر اجر میت کو دے یعنی ایصال ثواب بالقرآن، کیا یہ جائز ہے یا نہیں؟ ہم کہتے ہیں: بندہ قرآن پڑھے اور اس کا اجر میت کو ایصال کرے تو اللہ یہ ثواب اس میت کو دے دیتے ہیں۔بندہ خود عمل کرے اور اجر بھی خود لے یہ ”ثواب“ ہے، عمل خود کرے اور اجر کسی اور کو دے اس کا نام ”ایصال ثواب“ ہے۔ ایصال ثواب بالقرآن کی دلیل کیا ہے؟ ذرا توجہ سے سنیں! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قربانی کے موقع پر ایک جانور ذبح کیا اور فرمایا:
اَللّٰهُمَّ إِنَّ هٰذَا عَنِّي وَعَمَّنْ لَمْ يُضَحِّ مِنْ أُمَّتِي•
(مسند احمد بن حنبل: حدیث نمبر 14893)
اے اللہ! یہ میری طرف سے بھی ہے اور میری امت میں سے جو جو قربانی نہ کرسکے اس کی طرف سے بھی ہے۔اب بتاؤ! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دنبہ ذبح کر کے اجر اپنی امت کو بھی دیا ہے کہ نہیں؟ (دیا ہے۔ سامعین) آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے گوشت نہیں دیا بلکہ گوشت کا اجر دیا ہے۔ تو اگر گوشت کا اجر پہنچ سکتا ہے تو قرآن کا اجرکیوں نہیں پہنچ سکتا؟! اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قرآن پڑھتے اور اس کا اجر بخش دیتے تو اس سے گوشت کا اجر سمجھ نہیں آنا تھا، لیکن اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے گوشت کا ایصال ثواب بتایا ہے تو قرآن کا ایصال ثواب خود بخود سمجھ میں آیا ہے۔ ایک مسئلہ بتادیا تو دوسرا خود بخود سمجھ میں آگیا۔
سینگ، بال، کھر کا اجر بتایا تو گوشت کا خود بخود سمجھ میں آیا:
اسی طرح ایک حدیث مبارک آپ نے سنی ہو گی، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا روایت فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قربانی کے متعلق فرمایا:
مَاعَمِلَ آدَمِیٌ مِنْ عَمَلٍ یَوْ مَ النَّحْرِ اَحَبَّ اِلَی اللّٰہِ مِنْ اِھْرَاقِ الدَّمِ•
(جامع الترمذی: ج1ص275 باب ما جاء فی فضل الاضحیہ)
کہ عید کے دن آدمی جو نیک اعمال کرتا ہے سب سے محبوب ترین عمل اللہ کے راستے میں جانور کا ذبح کرنا ہے۔
اگلا جملہ جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہےوہ سننے والا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
اَنَّہْ لَیَأ تِیْ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ بِقُرُوْنِھَا وَاَشْعَارِھَا وَاَظْلاَفِھَا•
(جا مع الترمذی ج1ص275 با ب ما جاء فی فضل الاضحیہ)
کہ قیامت کے دن قربانی کا جانور اپنے سینگوں، بالوں اور کھروں سمیت آئے گا۔
مطلب یہ کہ جو جانور اس بندےنے اللہ کے نام پر ذبح کیا ہے اللہ اس کے سینگ کا اجر بھی دیں گے، اللہ اس کے بال کا اجر بھی دیں گے، اللہ اس کے کھروں کا اجر بھی دیں گے۔ (سبحان اللہ۔ سامعین)
اب بتا¬ؤ! جب قربانی کریں کوئی بندہ بال کھاتا؟ کوئی بندہ کھر کھاتا ہے؟ کوئی بندہ سینگ کھاتا ہے؟ (نہیں۔ سامعین) کھاتے گوشت ہیں لیکن اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و سلم اجر بال کا بتارہے ہیں، کیوں؟ اس لیے کہ اگر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کلیجی کا اجر بتادیتے، مغز کا اجر بتا دیتے تو بال کا اجر سمجھ میں نہیں آنا تھا۔ کوئی کہہ سکتا تھا کہ بھائی کلیجی تو کھائی ہے، کلیجی کسی کو کھلائی ہے اس لیے اجر ملے گا، بال تو کوئی نہیں کھاتا توبال کا اجر کیسا؟ اس لیے اگر اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و سلم گوشت کا اجر بتاتے تو بال کا اجرسمجھ میں نہیں آنا تھا، اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے بال کا اجر بتایا ہے تو گوشت کا اجر خود بخود سمجھ میں آیا ہے۔ (سبحان اللہ۔ سامعین)
کلمات کی جامعیت:
کوئی بندہ کہہ سکتا ہے کہ چلو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دونوں کا اجر بتا دیتے، مثلاً اللہ کے نبی بتا دیتے کہ عام آدمی شہید ہو تو وہ بھی زندہ ہے اور اللہ کے نبی بھی زندہ ہیں تو آپ دونوں کی بات فرما دیتے، بالکل اسی طرح مقتدی اگر با جماعت نماز پڑھے تو اسے 27 نمازوں کا اجر اور امام نماز پڑھے تو اسےبھی اجر ملتا ہے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و سلم دونوں کا اجر بتادیتے، اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھول جانے کا مسئلہ بتایا، سوجانے کا بتایا تو جان بوجھ کر چھوڑنے کا مسئلہ بھی بتادیتے، اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بال کا اجر بتایا تو گوشت کا بھی بتا دیتے، کیا وجہ ہے کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک کا ذکر فرمایا ہے دوسری کا نہیں فرمایا؟
اس کا جواب اچھی طرح سمجھیں کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:
أُعْطِيتُ جَوَامِعَ الْكَلِمِ•
خدا نے مجھے جوامع الکلم دیے ہیں۔
اگر ہر مسئلہ کے لیے الگ الگ لفظ ملتا تو یہ”کلمہ“ ہوتا ، اس لیے ہر مسئلے کے لیے الگ لفظ نہیں دیا بلکہ لفظ ایک ہے اور مسائل کئی ہیں، اسے ”کلم“ نہیں بلکہ ”جوامع الکلم“ کہتے ہیں۔
اندازِ بیاں اور……:
اس حدیث میں پانچ چیزیں اور بھی ہیں لیکن میں آج کے درس میں ان پانچ چیزوں کو ذکر نہیں کرتا، وہ پانچ مؤخر کرتے ہیں کیونکہ دیر اس میں کافی لگ جائے گی ، تاہم میں تھوڑی سی مزید بات عرض کرتا ہوں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مجھے اللہ نے چھ چیزیں عطا فرمائی ہیں۔
نمبر1: مجھے اللہ نے جوامع الکلم دیے۔
نمبر2: رعب دے کر میری مدد فرمائی ہے۔
نمبر3: اللہ نے میرے لیے مالِ غنیمت کو حلال کردیا ہے۔
نمبر4: پوری زمین کو میرے لیے ”طہور “ یعنی پاک کرنے والا بنادیا ہے۔
نمبر5: پوری زمین کو میرے لیے سجدہ گاہ بنادیا ہے۔
نمبر6: مجھے پوری کائنات کا نبی بنادیا ہے۔
آخر میں فرمایا: وَخُتِمَ بِيَ النَّبِيُّونَ• خلاصہ یہ ہے کہ خدا نے مجھ پہ نبوت کو ختم فرمادیا ہے۔
عام طور پر جب آپ کتابیں دیکھیں گے تو اس میں آپ کو ترجمہ یوں نہیں ملے گا جیسے میں کررہا ہوں، عام طور پر ترجمہ یوں ملے گا:
مجھے اللہ نے چھ چیزیں دی ہیں۔
نمبر1: جوامع الکلم
نمبر2: رعب دے کر مددفرمائی۔
نمبر3: مال غنیمت کو حلال کیا۔
نمبر4: پوری زمین کو طہور اور مسجد بنادیا۔
نمبر5: مجھے پوری مخلوق کا نبی بنادیا۔
نمبر6: مجھے خاتم النبیین بنادیا۔
میں نے کہا: اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی حدیث پر غور کریں تو پتہ چلتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:
(۱) مجھے جوامع الکلم بھی دیے ہیں۔
(۲) میرے لیے مالِ غنیمت کو حلال بھی کیا ہے۔
(۳) مجھے رعب دے کر مدد بھی فرمائی ہے۔
(۴) پوری زمین کو میرے لیے ”طہور“ بھی بنایا ہے۔
(۵) پوری زمین کومیرے لیے سجدہ گاہ بھی بنایا ہے۔
(۶) مجھے پوری مخلوق کا نبی بھی بنایا۔
خلاصہ یہ ہے کہ مجھے خدانے آخری نبی بنادیا ہے۔ (سبحان اللہ۔ سامعین)
اب میں ایک ایک لفظ پہ بات کروں گا کہ میں نے یہ بات کیوں کی ہے؟ میں نے ”خُتِمَ بِيَ النَّبِيُّونَ“سے چھ چیزوں کا تعلق جوڑا ہے، ”خُتِمَ بِيَ النَّبِيُّونَ“ کو چھٹی بات نہیں کہا بلکہ میں نے کہا کہ اس کے ساتھ چھ کا تعلق ہے، میں چھ کے چھ کو اس ”خُتِمَ بِيَ النَّبِيُّونَ“کے ساتھ جوڑوں گا تاکہ پوری حدیث سمجھ میں آجائے۔
جامع کلمات ملنے کی وجہ:
اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: أُعْطِيتُ جَوَامِعَ الْكَلِمِ•اللہ نے مجھے جوامع الکلم دیے ہیں۔ کیوں؟ اس لیے کہ مجھ پر نبوت ختم کی ہے۔ اب ان کا آپس میں ربط کیا ہے؟ وجہ یہ ہے کہ پہلے انبیاء علیہم السلام کو جتنے مسائل چاہییں تھے اتنے ہی اللہ نے کلمات دے دیے، جتنے مسائل چاہییں اتنے الفاظ دیے، کیوں کہ پہلے نبی ایک بستی کا نبی ہے، امت نے مسئلہ پوچھا تو نبی نے بتادیا، دوسرے نے مسئلہ پوچھا بتادیا، تیسرے نے مسئلہ پوچھا نبی نے بتادیا، وہ نبی دنیا سے چلے گئے، ان کے بعد کوئی اور نبی آگیا ،پھر مسئلہ پوچھا نبی نے پھر بتادیا تو پہلی امت کے انبیاء کو ایسے الفاظ نہیں چاہییں تھے کہ جہاں لفظ ایک ہو اور معنی کئی ہوں، ہمارے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو الفاظ ایسے چاہییں تھے کہ جن کے معنی کئی ہوں کیوں کہ ہمارے نبی کے بعد تو کسی اور نبی نے پیدا نہیں ہونا تھا۔
حضور صلی اللہ علیہ و سلم آخری نبی ہیں، اللہ نے قیامت تک کے لیے اپنے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو الفاظ ایسے دیے ہیں کہ ان میں غور کرتے جائیں اور مسائل نکالتے چلے جائیں، نہ کسی نبی کی ضرورت نہ مسئلے کے لیے مزید الفاظ کی ضرورت، یہ ہمارے نبی کا اعزاز ہے، الفاظ موجود ہیں بس آپ مسئلہ نکالتے جائیں۔
احادیث سے مسائل کون نکالے گا؟
اب ایک بات ذہن نشین کرلیں کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے جو الفاظ امت کو دیے ہیں ان میں سے یہ مسائل نکالے گا کون؟ ہر بندے کے بس میں نہیں ہے کہ احادیث کی تہہ سے مسائل نکالے۔ دیکھیں خدا نے زمین کی تہہ میں اتنا پانی رکھا ہے کہ قیامت تک آنے والے لوگ پانی نکالتے رہیں گے لیکن پانی ختم نہیں ہوگا، مزید کسی زمین کی ضرورت نہیں ہے بلکہ اسی زمین کہ تہہ میں پانی موجود ہے۔ جتنا پٹرول قیامت تک چاہیے تھا اللہ نے اسی زمین کی تہہ میں رکھ دیا ہے، مزید کوئی زمین نہیں چاہیے، قیامت تک کے آنے والے انسان کو جتنی گیس چاہیےتھی خدا نے اسی زمین کی تہہ میں رکھ دی ہے، اس زمین نے قیامت تک رہنا ہے جتنا پانی چاہیے اس کی تہہ میں موجود ہے، اس زمین نے قیامت تک رہنا ہے جتنا پٹرول چاہیے اس کی تہہ میں موجود ہے، اس زمین نے قیامت تک رہنا ہے جتنی گیس چاہیے اس کی تہہ میں موجود ہے، نئی زمین نہیں آنی ہے بلکہ اسی زمین میں یہ ساری چیزیں موجود ہیں۔
بعینہ اسی طرح کسی نئے نبی نے نہیں آنا بلکہ قیامت تک جتنے مسائل چاہییں اس نبی کے الفاظ کی تہہ میں موجود ہیں بس نکالنے والا ہونا چاہیے جو الفاظِ نبوت سے مسائل نکالے، تو مسائل نکالنے کا نام ”فقہ“ ہے اور مسائل نکالنے والے کا نام ”مجتہد “ ہے، ہر بندے کا کام نہیں ہے۔ (سبحان اللہ۔ سامعین)
فقیہ کا کام:
میں اس کی ایک مثال دیتا ہوں۔ یہ زمین موجود ہے، آپ نے مسجد 2بلاک بنائی ہے، اگر پانی چاہیے تو کوئی نمازی یہ نہیں کہتا کہ مولانا صاحب! مسجد ہم نے بنائی ہے پانی بھی ہم نکالیں گے، نا! نا! بھائی پانی نکالنے کے لیے فلاں سے رابطہ کرو، دیکھیے ہم نے مسجد بنائی ہے، بجلی کے لیے فلاں سے رابطہ کرو، ہم نے مسجد بنا دی ہے، اے سی کے لیے فلاں سے رابطہ کرو۔
مطلب یہ کہ ہر بندہ جو مسجد بناتا ہے وہ پانی نکال نہیں سکتا کسی اور سے رابطہ کرے گا، اللہ نے اس مسجد کی تہہ میں رکھ دیا ہے لیکن نکالنے کے لیے ماہرین عطا کر دیے ہیں، اسی طرح اللہ نے پیغمبر صلی اللہ علیہ و سلم کی حدیث کی تہہ میں مسئلے رکھ دیے ہیں اور نکالنے کے لیے امت کو ”مجتہد“ اور ” فقہاء“ عطا کردیے ہیں، فقیہ سے رابطہ کریں گے تو مسئلے نکلیں گے، فقیہ کو گالیاں دیں گے تو مسئلے نہیں نکلیں گے۔
ماہر فن پر بھروسہ ضروری ہے:
آپ نے یہاں سے لاہور جانا ہے، آپ پٹرول پمپ پہ گاڑی کھڑی کریں کہ اس میں 5000 روپے کا پٹرول ڈال دو، وہ پٹرول ڈالنے لگے تو آپ اس سے کہتے ہیں: بیٹا ایک منٹ ٹھہرو، پہلے یہ بتاؤ کہ یہ پٹرول پمپ جو تم نے بنایا ہے یہ انسان ہے؟ پٹرول پمپ کا ملازم کہتا ہے: جی نہیں، اس میں دماغ بھی ہے؟ کہتا ہے: جی نہیں، تو یہ تم نے کیسے پانچ ہزار لکھ دیا کہ یہ پٹرول دے گا کیا اس کو پتہ ہے کہ پانچ ہزار کیا ہوتا ہے؟! اس نے کہنا ہے: چچا جی آپ کی سمجھ میں بات نہیں آنی، آپ پانچ ہزار روپیہ دیں اور پٹرول ڈلوائیں، نہیں بیٹا تو پہلے مجھے سمجھائے گا تب میں پٹرول ڈلواؤں گا۔ اس نے کہنا ہے: جی گاڑی سائڈ پر کریں اور دوسری گاڑیوں کو پٹرول ڈالنے دیں، یہ جو آپ کہہ رہے ہیں یہ سمجھنے سمجھانے کا کام ہوتا ہے اور یہاں پٹرول پمپ پہ سمجھنے سمجھانے کا کام نہیں ہوتا یہاں تو پٹرول لینے دینے کا کام ہوتا ہے۔ تو پٹرول پمپ والے آپ کو تحقیق نہیں کرواتے بلکہ آپ کو پٹرول دے دیتے ہیں۔ آپ ڈاکٹر کی دکان پہ جائیں کہ ڈاکٹر صاحب! مجھے بخار ہے، ڈاکٹر صاحب نے آپ کو چیک کیا اور کہا کہ آپ کو انجکشن لگاتے ہیں۔ آپ نے کہا کیوں انجکشن لگاتے ہیں؟ اس نے کہا: 105 ڈگری کا بخار ہے۔ آپ نے کہا: ڈاکٹر صاحب آپ کو کیسے پتہ چلا کہ 105 کا بخار ہے؟ ڈاکٹر نے کہا: بیٹا میں آپ کو سمجھا نہیں سکتا، اگر آپ کو یہ تحقیق کرنی ہے تو پھر ہماری کلاسوں میں آؤ ہم تمہیں سمجھادیں گے، اس کلینک پہ دوائی دیتے ہیں اس پر سمجھاتے نہیں ہیں۔ اس پر ہر بندہ کہے گا: شریف آدمی! ڈاکٹر صاحب کا وقت ضائع نہ کرو، دوائی لو اور اپنا کام کرو، اگر تجھے تحقیق کرنی ہے تو کلاس میں داخلہ لے۔
علماء پر اعتماد کیجیے:
میں بڑے درد سے کہتا ہوں کہ لوگ عالم پر اعتماد نہیں کرتے، پٹرول پمپ والے پر اعتماد کرتے ہیں، ڈاکٹر پر اعتماد کرتے ہیں لیکن عالم کے ساتھ یہ معاملہ نہیں کرتے۔ کہتے ہیں کہ ہم نے تحقیق کرنی ہے، میں نے کہا: تحقیق کرنی ہے تو مرکز اہل السنۃ والجماعۃ میں آجاؤ۔ کہتے ہیں: جی نہیں، میرے پاس وقت نہیں ہے اس لیے مسئلہ ابھی سمجھائیں۔ میں نے کہا: پٹرول پمپ والا تجھے فوراً نہیں بتاتا اس پر کوئی اعتراض نہیں، کلینک والا تجھے فوراً نہیں بتاتا اس پر اعتراض نہیں لیکن اس مولانا صاحب کے پیچھے لگے ہیں کہ ابھی بتاؤ۔
خیرمیں بتایہ رہا تھا کہ جس طرح خدا نے زمین کی تہہ میں پانی رکھا ہے اور نکالنے والے انجینئر امت کو دیے ہیں اسی طرح پیغمبر کی احادیث کی تہہ میں مسائل رکھے ہیں اور نکالنے والے مجتہد بھی امت کو دیے ہیں۔ جس مجتہد کی ہم تقلید کرتے ہیں اس مجتہد کا نام ہے امام اعظم ابو حنیفہ نعمان بن ثابت رحمۃ اللہ علیہ ہے انہوں نے تحقیق کر کے احادیث سے مسئلے نکال لیے ہیں، ان مسائل کا نام ہے ”فقہ حنفی“ اس لیے ہم کہتے ہیں کہ فقہ حنفی قرآن و حدیث سے الگ نہیں ہے۔
فقہ حنفی نبی کے دور میں تھی:
میں ایک بات سنا کر بات سمیٹ رہا ہوں۔ اب اگر کوئی بندہ آپ سے کہے کہ آپ نے فقہ حنفی کو لیا ہے اور قرآن کو چھوڑا ہے، فقہ حنفی کو لیا ہے اور حدیث کو چھوڑا ہے۔ آپ اس کے جواب میں کہیں: نہیں ہم نے نہ قران چھوڑا نہ حدیث چھوڑی، ہم نے فقہ حنفی کو لیا اور یہ قرآن و حدیث سے نکلی ہے۔ وہ پوچھے گا: یہ بتاؤ فقہ حنفی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں تھی؟ ممکن ہے آپ اس کا جواب یہ دیں کہ نہیں فقہ حنفی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں تو نہیں تھی، اس پر وہ کہے گا: جب نہیں تھی تو آپ نے بعد میں کیوں لی ہے؟
میں آپ سے کہتا ہوں کہ آپ نے گھبرانا نہیں ہے، اگر کوئی بندہ آپ سے پوچھے: فقہ حنفی اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے دور میں تھی؟ آپ نے سینہ تان کے کہنا ہے: جی ہاں اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے دور میں تھی۔ اگر کوئی آپ سے پوچھے کہ فقہ حنفی حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے دور میں بھی تھی؟ آپ کہیں: جی ہاں فقہ حنفی حضور کے دور میں تھی، وہ کہے کہ امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے دور میں تھے؟ آپ نے کہنا ہے: نہیں تھے، تو اس نے فوراً کہنا ہے کہ جب امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے دور میں نہیں تھے تو فقہ حنفی حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے دور میں کیسے تھی؟
آپ فورا ًپوچھیں: یہ جو امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے صحیح بخاری لکھی ہے اور اس میں حدیثیں جمع کی ہیں کیا یہ احادیث نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے دور میں تھیں؟ وہ کہے گا: جی تھیں، آپ پوچھیں: امام بخاری بھی تھے؟ وہ کہے گا: جی نہیں۔
تو آپ فوراً کہیں کہ جب نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے دور میں امام بخاری نہیں تھے تو حدیثیں نبی کے دور میں کیسے تھیں؟ اس نے فورا کہنا ہے: حدیثیں حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے دور میں تھیں لیکن لکھی امام بخاری نے ہیں۔ آپ نے کہنا ہے: فقہ حنفی اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے دور میں تھی لیکن نکالی امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ نے ہے۔
مسائل احادیث کی تہہ میں:
یہ آپ کی موتی مسجد 2 بلاک کی ہے، اس کو بنے ہوئے کتنے سال ہوگئے ہیں؟ (75سال۔ سامعین) اب بتاؤ اس مسجد کو بنے 75 سال ہوگئے، اس میں وضوء خانہ موجود ہے جہاں سے آپ وضو کرتے ہیں، مجھے بتاؤ جب یہ مسجد نہیں تھی تو اس جگہ کی تہہ میں پانی تھا یا نہیں؟ (تھا۔ سامعین) نکلا کب ہے ؟ (جب مسجد بنی ہے۔ سامعین) تو مسجد کی تہہ میں پانی تھا، نکلا اس وقت ہے جب مسجد بنی ہے، اسی طرح احادیث کی تہہ میں مسئلے پہلے بھی تھے نکلے تب ہیں جب امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ آئے ہیں۔ اس لیے کہ امام صاحب نے مسائل نکالے ہیں، بنائے نہیں ہیں۔
خلاصہ درس:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: خدا نے مجھے چھ انعامات دیے ہیں جو پہلے انبیاء علیہم السلام کو نہیں دیے، ان میں پہلی نعمت ”أُعْطِيتُ جَوَامِعَ الْكَلِمِ“ مجھے جوامع الکلم دیے ہیں، جوامع الکلم کا معنی کہ کلمہ ایک ہے اور معانی کئی ہیں، کلمہ ایک ہے اور مسئلے سو ہیں، کلمہ ایک اور مسئلے ہزار ہیں۔ پہلے نبیوں کو جوامع الکلم کیوں نہیں دیے؟ اس لیے کہ جتنے مسئلے چاہیے تھے اتنے لفظ دے دیے تھے، ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو قیامت تک کے لیے جتنے مسائل چاہیے تھے اتنے الفاظ دے دیے جاتے تو کوئی بندہ حدیث کو سنبھال ہی نہ سکتا، خدا نے کرم یہ کیا کہ الفاظ تھوڑے دیے اور مسائل قیامت تک کے لیے احادیث کی تہہ میں رکھ دیے اور ان کو نکالنے کےلیے خدا نے فقہاء بھی دے دیے۔
ہم ختم نبوت بھی مانتے ہیں، حدیث بھی مانتے ہیں، امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کی فقہ کو بھی مانتے ہیں۔ اللہ رب العزت ہمیں یہ سب ماننے کی توفیق عطاء فرمائے۔
وآخر دعوانا ان الحمد للہ رب العٰلمین•