خصوصیاتِ پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم :حصہ دوم

User Rating: 5 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar ActiveStar Active
 
عنوان: خصوصیاتِ پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم
(حصہ دوم)
تاریخ: 7- اپریل 2014ء
مقام: جامع مسجد موتی 2 بلاک سرگودھا
خصوصیاتِ پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم 2
ألحمدُللہ نَحمدُہ ونَستعِینُہ ونَستغفِرُہ ونُؤْمِنُ بہ ونَتوکَّلُ علَیہ ونَعُوذُباللہ منْ شُرورِ أنفُسِنَا ومِنْ سیِّئاتِ أعمالِنا مَنْ یَّہدِہ اللہُ فلَا مُضلَّ لَہ ومَنْ یُّضْلِلْ فلَاہادیَ لہ ونَشہدُ أنْ لَّا الٰہ اِلَّااللہُ وحدَہ لَاشریکَ لہ ونَشہدُ انَّ سیِّدَنا ومولانا محمدًا عبدُہ ورسولُہ أمَّا بعد! فَاَعُوْذُ بِاللّهِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ بِسْمِ اللّهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ:
ﯘوَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُواﯗ
(سورۃ الحشر:7)
وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: فُضِّلْتُ عَلَى الْأَنْبِيَاءِ بِسِتٍّ: أُعْطِيتُ جَوَامِعَ الْكَلِمِ، وَنُصِرْتُ بِالرُّعْبِ، وَأُحِلَّتْ لِيَ الْغَنَائِمُ وَجُعِلَتْ لِيَ الْأَرْضُ طَهُورًا وَمَسْجِدًا وَأُرْسِلْتُ إِلَى الْخَلْقِ كَافَّةً وَخُتِمَ بِيَ النَّبِيُّونَ•
(صحیح مسلم: كتاب المساجد ومواضع الصلاة حدیث نمبر522)
اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلٰى مُحَمَّدٍ وَعَلٰى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا صَلَّيْتَ عَلٰى إِبْرَاهِيْمَ وَعَلٰى آلِ إِبْرَاهِيْمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ۔ اَللّٰهُمَّ بَارِكْ عَلٰى مُحَمَّدٍ وَعَلٰى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا بَارَكْتَ عَلٰى إِبْرَاهِيْمَ وَعَلٰى آلِ إِبْرَاهِيْمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ•
حدیث کا خلاصہ:
گزشتہ درسِ حدیث میں میں نے یہی حدیث مبارک تلاوت کی تھی جو حدیث مبارک ابھی آپ کے سامنے تلاوت کی ہے۔ میں نےاس حدیث کے متعلق عرض کیاتھا کہ عام طور پرعلماء کرام اس حدیث کی تشریح یوں فرماتے ہیں کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نےفرمایا کہ حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا:
فُضِّلْتُ عَلَى الْأَنْبِيَاءِ بِسِتٍّ.
اللہ تعالیٰ نے چھ چیزیں عطاکرکے مجھے بقیہ انبیاء علیہم السلام پرفضیلت دی ہے یعنی چھ چیزیں مخصوص مجھے وہ دی ہیں جو دیگرانبیاء کرام علیہم السلام کونہیں دیں۔ وہ چھ چیزیں عام طورپریوں بیان کی جاتی ہیں:
 ”أُعْطِيتُ جَوَامِعَ الْكَلِمِ“
مجھےجوامع الکلم عطاکئے گئے ہیں۔
 ”وَنُصِرْتُ بِالرُّعْبِ“
رعب عطاکرکے میری مددفرمائی گئی ہے۔
 ”وَأُحِلَّتْ لِيَ الْغَنَائِمُ“
میرےلیے مالِ غنیمت کوحلال کیاگیا ہے۔
 ”وَجُعِلَتْ لِيَ الْأَرْضُ طَهُورًا وَمَسْجِدًا“
پوری زمین کو میرے لیےطہور یعنی پاک کرنے والی اورسجدہ گاہ بنادیا گیا ہے۔
 ”وَأُرْسِلْتُ إِلَى الْخَلْقِ كَافَّةً“
مجھے ساری مخلوق کانبی بناکربھیجاگیا ہے۔
 ”وَخُتِمَ بِيَ النَّبِيُّونَ“
مجھ پہ سلسلہ نبوت ختم کیاگیا ہے۔
ختم نبوت پر دلائل:
میں نے عرض کیا تھا کہ میں نے اس سے ہٹ کے ایک اور طرز سے گفتگوکی ہے ذرااس کاخلاصہ ذہن میں رکھ لیں۔ حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے اس حدیث مبارک میں ایک دعوی کیا ہے”خُتِمَ بِيَ النَّبِيُّونَ“ کا کہ اللہ رب العزت نے مجھ پہ نبوت کا سلسلہ ختم فرمادیا، میں آخری نبی ہوں،میرےبعداب کوئی نبی پیدانہیں ہو گا اس کےلئے اللہ کےنبی صلی اللہ علیہ و سلم نے چھ دلائل پیش فرمائے ہیں، اس کا تذکرہ یوں فرمایاکہ اللہ نے مجھے چھ اعزازات وہ دیے جودیگرانبیاء علیہم السلام کو نہیں دیے:
1: اللہ نےمجھے جوامع الکلم دیے۔
2: رعب عطافرماکے میری مددکی ہے۔
3: مال غنیمت کو میرے لیے حلال کیا ہے۔
4: پوری زمین کومیرے لیے”طَھُوْر“بنادیاہے۔
5: پوری زمین کو میرے لیے سجدہ گاہ بنا دیا ہے۔
6 مجھے پوری مخلوق کانبی بنادیا ہے۔
یہ چھ چیزیں یہاں پہ ختم ہوگئیں۔ آگے ”وَخُتِمَ بِيَ النَّبِيُّونَ“فرمایا اس کا خلاصہ یہ ہے کہ مجھے اللہ نے آخری نبی بنادیا ہے۔ اب یہاں ”وَخُتِمَ بِيَ النَّبِيُّونَ“ چھٹا اعزازنہیں بلکہ ”وَخُتِمَ بِيَ النَّبِيُّونَ“ مستقل اعزاز ہے، اس کے لیے چھ وجوہ اوردلائل اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے پیش فرمائے ہیں۔
پہلی خصوصیت؛ جامع کلمات:
گزشتہ درس میں؛ میں نے عرض کیاتھا کہ ہمارے نبی کااعزازیہ ہے کہ اللہ نے ہمارے نبی کو ”جوامع الکلم“ دیے ہیں،پہلے انبیاء علیہم السلام کو” کَلِم“ دیے ہیں۔ ” کَلِم“اور”جوامع الکلم“ میں فرق یہ ہےکہ ”کلمہ“ اسے کہتے ہیں کہ لفظ ایک ہواورمعنی بھی ایک ہواور ”کلمہ جامعہ“ اس کو کہتے ہیں کہ لفظ ایک ہو اورمعانی زیادہ ہوں۔ پہلے انبیاء علیہم السلام کواللہ نےکلمات دیے، ہمارے نبی کوکلمات جامعات دیے۔ اس لیے کہ پہلے نبی ایک بستی یاایک قوم کے نبی تھے، انہیں تھوڑے سےمسئلے چاہیے تھے، ان تھوڑے سے مسائل کےلیے اللہ نے تھوڑے سےکلمات دےدیے۔
ہمارے نبی صلی اللہ علیہ و سلم قیامت تک کے نبی ہیں، سارے زمانوں کے نبی ہیں، ساری قوموں کے نبی ہیں، ہمارےنبی کوکروڑوں مسئلےچاہییں جوعرب وعجم، شرق وغرب اورقیامت تک کے آنے والے تمام افراد کوکافی ہوجائیں۔ اب اگراللہ کروڑوں مسائل کے لیے ہمارے نبی کو کروڑوں الفاظ دے دیتے توکون ساپریس ان کو چھاپ دیتا؟ کون ساسینہ ان کو محفوط کرلیتا؟ کون سی لائبریری انہیں سنبھال لیتی؟ اللہ نے کرم یہ کیا کہ ہمارے نبی کو کلمات جامعات دیے اور ان کی تہہ میں مسئلے کروڑوں رکھ دیے۔ اب قیامت تک مسئلہ پیش آتاجائے توحدیث کی تہہ سے نکلتاجائے گااورمجتہد اورفقیہ نکال کر امت کو دیتے جائیں گے۔ تو پہلے انبیاء علیہم السلام کی ضرورت نہیں تھی،خدانے نہیں دیا،ہمارے نبی کی ضرورت ہے تواللہ نے دے دیا۔
مسائل کا حل احادیث کی تہہ میں:
قیامت تک آنے والے انسانوں کو جس قدر پٹرول چاہیے وہ اللہ نے سارا پیدا فرمادیا ہے لیکن اس پٹرول کوزمین سے نکال کر اللہ رب العزت سطحِ ارض پہ رکھ دیں توپوری دنیامیں آگ لگ جائے گی اور اس پٹرول کی ضرورت تو پوری کیاہوگی وہ تو استعمال کے قابل بھی نہیں رہے گا۔ اسی طرح جتناپانی قیامت تک آنے والے انسانوں کوچاہیے اگراللہ وہ پانی زمین سے نکال کے زمین کی سطح پہ رکھ دیں توسیلاب آ جائے گا، اس سےامت ڈوب کرختم ہوجائے گی تو پانی استعمال کرے گاکون؟اللہ نےکرم یہ کیاکہ قیامت تک آنے والے انسان کے لئے پٹرول پیداکردیااوراس کو زمین کی تہہ میں رکھ دیا،جتنی ضرورت ہوتی رہتی ہے انجینئراس کےمطابق پٹرول نکال کردیتے رہتے ہیں، اسی طرح جتناپانی چاہیے تھا خدانے زمین کی تہہ میں رکھ دیا لیکن جتنی ضرورت پیش آئے تواتنا پانی انجینئرنکال کے دے دیتاہے۔
بالکل اسی طرح احادیث کی تہہ میں اللہ نے مسائل رکھ دیے ہیں، جتنے مسائل کی ضرورت پڑتی رہتی ہے فقیہ ان مسائل کونکال کےدیتارہتا ہے، اگرزمین کی تہہ میں چھپا ساراپٹرول زمین پہ آجاتا توامت سنبھال نہ سکتی، جتنے مسائل چاہییں اللہ سارے مسئلے دےدیتا تو امت سنبھال نہ سکتی،اِدھرکرم یہ کیا کہ پٹرول زمین کی تہہ میں رکھ دیا نکالنےکےلیے انجینیر دے دیا،اُدھر کرم یہ کیاکہ حدیث کی تہہ میں مسئلے رکھ دیے اورنکالنے کےلیے فقیہ اورمجتہدعطافرمادیا۔
راہ دکھلائیں کسے؟ رہروِ منزل ہی نہیں:
یہ بات میں نے ”جوامع الکلم“ پہ کی تھی اگرآپ کو یادہوتو۔ مسئلہ یہ ہے کہ ایک لفظ کوسمجھنے کےلیے بھی وقت چاہیے اورسمجھانے کےلیے بھی وقت چاہیے۔ عالم سمجھا نےکےلیے وقت نکال لیتاہے لیکن لوگ سمجھنےکےلیےوقت نہیں نکالتے اورگلہ پھریہی رہتاہے کہ علماء امت کی رہنمائی نہیں کرتے۔
شکوہ کرنا چھوڑ دیں!
اس پرمجھے ایک چھوٹاسا علمی لطیفہ یادآیا، میں منڈی بہاؤالدین میں بیان کےلیے گیا اورجس آدمی کے پاس میراکھانا تھا اس کے دوہوٹل تھے،دوہوٹلوں کامالک تھا،کھانااس کے گھر میں تھا۔ مجھےعلماء سےشکوہ کرتے ہوئے وہ شخص بات کہنے لگا: مولانا! ہم علماء کوپیسہ بھی بہت دیتے ہیں لیکن علماء کام نہیں کرتے۔ میں نے کہا:آپ مجھے بتائیں کیا میں کام کرتاہوں؟ کہنے لگا: جی ہاں آپ تو کرتے ہیں۔ میں نے کہا: پیسہ مجھے دےدیں۔ اس پر وہ چپ ہوگیا۔ میں نےکہا: شکوہ عجیب ہے! ! جوکام کرتانہیں اسےآپ دیتے ہیں اورجوکرتاہے اسے آپ دیتے نہیں۔ تومیں نےکہا:اگر کام کرنے والے اکٹھے ہوجائیں توکام کی نوعیت بدل جائیگی۔
ہمارے لوگوں کا عجیب مزاج ہے، جورہنمائی نہ کرےاس سےشکوہ کرتے ہیں اورجورہنمائی کرے اس کی رہنمائی لیتے نہیں ہیں، اگرمسجدکاامام نمازپڑھانے کےلیے نہ آئے توشکوہ کرتے ہیں، نماز پڑھانے والا بیٹھا ہو تو اس کے پیچھے پڑھتے نہیں ہیں، اب بتائیں اس قوم کا علاج انسان کیا کیا جا سکتا ہے؟!
دوسری خصوصیت؛ رعب
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
وَنُصِرْتُ بِالرُّعْبِ•
اللہ نے رعب عطاکرکے میری مددفرمائی ہے۔
رعب عطاکرکے مددکرنے کامطلب کیا ہے؟ اس کو سمجھنے کے لیے اس حدیث کے ساتھ ایک دوسری حدیث مبارک کوملائیں۔ رسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
نُصِرْتُ بِالرُّعْبِ مَسِيرَةَ شَهْرٍ•
(صحیح البخاری: رقم الحدیث335)
اگر میری امت کا کوئی فرد مجھ سے اتنا دور ہوکہ میرے پاس آنے میں اس کو ایک مہینہ لگ جائے، میں یہاں پہ ہوتاہوں میرا رعب اس وقت اس پروہاں چلاجاتاہے۔ ایک دو روز کی مسافت کی بات نہیں ہے بلکہ فرمایا ”مَسِيرَةَ شَهْرٍ“ کہ اگرامت کا کوئی فردمجھ سے اتنا دور ہو کہ مجھ تک آنے میں اس کو ایک ماہ لگے تو اتنی دور تک کا خدا نے مجھے رعب دے کر میری مدد فرمائی ہے۔
حصولِ غلبہ کے ذرائع:
اس کی وجہ یہ ہے کہ انسان رعب کےذریعے غلبہ حاصل کرتا ہے۔ اگرطاقت ہوتوغلبہ حاصل ہوتاہے، اگرطاقت نہ ہوتوغلبہ نہیں ہوتا۔ اللہ نے اپنے نبی کو ادیان باطلہ پہ غلبہ دیا ہے لیکن نبی کو خدانے غلبہ دوقسم کی طاقت سے دیا ہے۔ ہمارے ہاں طاقت کی بنیاد صرف ہتھیار ہیں،طاقت کی بنیادصرف مادیت ہے۔ ہمارے پیغمبر کے ہاں طاقت کی بنیادمادیت بھی ہے لیکن طاقت کی بنیاد صرف مادیت نہیں ہے، حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے مادیت کوبھی حاصل کیا ہے اورساتھ ایمان کی طاقت کو بھی لیا ہے۔
جنگ بدرمیں دیکھیں،ادھر تین سوتیرہ، اْدھرایک ہزار، یہ نہیں کہ تین سوتیرہ والوں کے پاس تلواریں نہیں تھیں،تلواریں تھیں مگر کم تھیں، یہ نہیں کہ گھوڑے نہیں تھے، تھے مگرکم تھے، یہ نہیں کہ اونٹ ان کے پاس نہیں تھے اونٹ تھے مگرکم تھے، یہ نہیں کہ ان کے پاس افرادنہیں تھے، افرادتھے مگرکم تھے۔ اس سے پتا چلاکہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے افرادی اوراسلحے کی طاقت کاانکارنہیں کیا، ہاں صرف اسی پر انحصار ہو ایسا نہیں کیا، طاقت کاانکار اورہے اورطاقت پر انحصار اور ہے۔ اس لیے جتنی طاقت بس میں ہے اتنی لےکرمیدان میں نکل جاؤ، باقی معاملہ اللہ پہ چھوڑدو۔ رسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم نے تین سوتیرہ کو لیا، تھوڑی سی تلواریں، تھوڑے سے گھوڑے،چندایک اونٹ لےکےاللہ کے نبی میدانِ بدرمیں اترگئے۔ حضورپاک صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کےسامنےسجدہ ریزہیں اوراللہ سےدعامانگتے ہیں:
اَللّٰهُمَّ إنَّك إِنْ تُهْلِكْ هَذِهِ الْعِصَابَةَ مِنْ أَهْلِ الإِسْلامِ فَلَا تُعْبَدْ فِي الأَرْضِ أَبَدًا•
(مصنف ابن ابی شیبۃ: رقم الحدیث 30199)
یا اللہ! یہ میری جمع پونجی تھی، میں اسے لے کر آگیا ہوں، اگرآج یہ ہلاک ہوگئے توقیامت تک اسباب کے درجہ میں تیرانام لینے والاکوئی نہیں ہو گا۔
مطلب یہ کہ میرے نمائندے یہ ہیں، انہوں نے تیرے دین کو لے کر آگےجاناہے، اگریہ سارے یہیں کٹ گئے توتیرے دین کولےکرآگےکون جائے گا؟ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کےپاس جومادی طاقت تھی وہ پیش کردی ہے،اس کاانکاربھی نہیں کیا اور صرف اسی پرانحصار ہو ایسا بھی نہیں کیا۔
ایمانی و مادی طاقت میں راہِ اعتدال:
ہمارےہاں دوقسم کےطبقےہیں۔ ہمیں دونوں کے ساتھ دماغی طاقت سے لڑناپڑتاہے:
طبقہ نمبر1: ایک طبقہ وہ ہے جومادی طاقت کااقرارنہیں کرتا، وہ کہتاہے صرف ایمان سے ہوتا ہے۔
طبقہ نمبر2: دوسرا طبقہ جومادی طاقت کا اقرارکرتاہے لیکن مادی طاقت پہ انحصار بھی کرتا ہے۔
مادی طاقت کا انکار بھی نہ کریں اور مادی طاقت پر انحصار بھی نہ کریں۔ تعجب کی بات یہ ہے کہ مثلاً ایک آدمی کی بیوی ہے،اس کےبچے بھی ہیں اور مانتا بھی ہے کہ رازق اللہ ہے لیکن دکان پہ وقت بھی دیتا ہے، عجیب بات یہ ہے کہ یہی مسلمان آدمی مانتا ہے کہ دین کو غالب اللہ نے کرنا ہے لیکن خود نہیں نکلتا، کہتا ہے کہ میں ٹھیک ہو جاؤں گا تو میرا اللہ دینِ اسلام کو غالب کر دے گا۔ میں نے کہا: جب تو ٹھیک ہو گا تو اللہ تجھے کافر پہ غالب کرے گا تو جب تو ٹھیک ہو گا توکیا اللہ تجھے رزق نہیں دے گا؟ رزق بھی تو خدا نے دینا ہے۔ کہتا ہے: نہیں رزق کے لیے تو حیلہ وسیلہ ہے نا! میں نے کہا: غلبے کےلیے حیلہ وسیلہ کیوں نہیں ہے؟ اس لیےہم کہتے ہیں کہ جس طرح رزق اللہ دیتا ہے لیکن محنت میں نے اورآپ نے کرنی ہے،بھوک اللہ نےمٹانی ہے کھاناہم نے کھاناہے،پیاس اللہ دورکرتا ہے پانی ہم نے پینا ہے،صحت اللہ دیتا ہے دوائی ہم نے کھانی ہے، اولاداللہ دیتا ہے نکاح ہم نے کرنا ہے،فتح اللہ دیتا ہے میدان میں ہم نے نکلنا ہے۔ تو مادیت پہ انحصار بھی نہ کریں اور مادیت کا انکار بھی نہ کریں۔ جوبالکل مادیت پہ انحصارکرلےیہ ہمارا نہیں اور مادیت کا انکار کر دے یہ بھی ہمارا نہیں ہے۔ اسلام میں رہبانیت بھی نہیں ہے کہ مادیت کاانکارکردیں اوراسلام میں مادیت یہ بھی نہیں ہے کہ صرف مادیت پر انحصار کرکے بیٹھ جائیں۔
رعب سے امداد کی وجہ:
اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:
نُصِرْتُ بِالرُّعْبِ مَسِيرَةَ شَهْرٍ•
میرے پاس آنے والااگرایک ماہ کی مسافت پر ہو تواس پر بھی اللہ میرا رعب طاری فرمادیتے ہیں۔
یہ اعزاز اللہ نے ہمارے نبی کو کیوں دیا ہے، پہلے انبیاء کو کیوں نہیں دیا؟ وجہ یہ ہے کہ پہلے نبی کا دائرہ نبوت چھوٹا ہے، پہلے نبی کادائرہ ایک قوم ہے، پہلے نبی کادائرہ ایک بستی ہے،پہلے نبی کا دائرہ ایک شہر ہے۔ توجب ایک شہرہے تونبی وہاں تک خود جائے گا، نبی کی بستی ہے توبستی میں ہرشخص کے پاس نبی خود جائے گا۔ ہمارے نبی کادائرہ ایک بستی نہیں ہے،ہمارے نبی کادائرہ ایک شہرنہیں ہے،ہمارے نبی کا دائرہ ایک قوم نہیں ہے،ہمارے نبی کادائرہ دنیامیں ساری قومیں،ہمارےنبی کادائرہ دنیاکی ساری بستیاں، ہمارےنبی کا دائرہ دنیاکے سارے شہر، ہمارےنبی کادائرہ قیامت تک آنے والے سارےزمانےہیں اورحضورصلی اللہ علیہ وسلم نے ہرایک کے پاس خودنہیں جانا، دائرہ نبوت بڑاہے لیکن نبی کامقام مخصوص ہے۔
اللہ نے کرم یہ کیاکہ پہلےنبی کاجتنادائرہ تھا وہاں تک نبی خودگئے ہیں، ہمارےنبی کاجتنادائرہ تھا وہاں تک خودتونہیں گئے تو پھرنبی کی مددکیسے ہوئی؟ وہ اس طرح کہ پہلے نبی لشکرکولےکرنکلتے تو رعب پڑجاتا، ہمارے نبی صلی اللہ علیہ و سلم بھی کبھی لشکر لے کر یوں نکلے ہیں جیسے بدر ہے، کبھی لشکر لے کر نکلے جیسے احد ہے، کبھی لشکر لے کر نکلے جیسے خندق ہے، کبھی لشکر لے کر نکلے جیسے خیبرہے، کبھی لشکر لے کر نکلے جیسے تبوک ہے اور جہاں تک ہمارے نبی صلی اللہ علیہ و سلم نہیں جاسکے وہاں تک خدانے ایمانیات کا رعب عطا کر کے وہاں کی قوم کو بھی پیغمبر کے لیے مسخرفرمادیا ہے۔ یہ ہمارے نبی کا اعزاز ہے۔ کیوں کہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ و سلم آخری نبی ہیں، آپ کے بعدکسی نبی نے پیدانہیں ہونا۔ تواللہ نے نبی کارعب اتنی دورپہنچادیا کہ حضور وہاں تک نہیں بھی گئے تو قوم کےدل میں نبی کا رعب پھر بھی موجود ہے۔
پیغمبر کے رعب کی نوعیت:
لیکن یہ بات ضروریادرکھ لیں کہ رعب دوقسم کا ہے:
ایک رعب یہ کہ مثلاً ابھی اچانک ہمارےسامنے شیرآئے تو ڈر جاتے ہیں، سانپ آ جائے تب بھی پریشان ہوتے ہیں، اچانک ہمارے سامنے پولیس انسپکٹر دس سپاہی لے کر آ جائے تب بھی رعب پڑ جاتا ہے لیکن اگر ہمارے سامنے اللہ کا نیک ولی یا ہمارا استاد آ جائے تو رعب تب بھی پڑ جاتا ہے۔ نبی کا رعب ایسے نہیں ہے جو ایس ایچ او کا رعب ہے،نبی کے رعب کویوں سمجھیں جیسے شیخ،مرشداوراستاذ اورامام کا رعب اپنےمرید،شاگرد اور مقتدی پہ ہے، نبی کارعب خوف والانہیں ہے، نبی کارعب اعتقاد اور محبت والا ہے۔
دائرہ نبوت کی وسعت:
اب دیکھیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نبی تو پورے عالم کے ہیں، پیدا مکہ میں ہوئے اور وفات مدینہ منورہ میں ہوئی۔ آپ پوری زمین کو ماپ لیں۔ یہ زیادہ سے زیادہ 40,008 کلومیڑ بنتا ہے۔ آپ اس کے وسط کو دیکھ لیں یہ مکہ ہے، زمین کے آخری کونے سے لے کے مکہ تک یہ بارہ ہزار سات سو چھپن (12756) کلومیڑ بنتے ہیں۔ یہ ٹوٹل مسافت ہے۔ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ و سلم اس دور کے بھی نبی ہیں جب لوگ پیدل چلتے تھے،اس دور کے بھی نبی ہیں جب لوگ خچر پر سفر کرتے تھے،اس دور کے بھی نبی ہیں جب لوگوں نے سائیکل پر بیٹھنا شروع کیا،اس دور کے بھی نبی ہیں جب لوگ ریل کارمیں بیٹھے،اس دورکےبھی نبی ہیں جب لوگ جہاز پربیٹھے۔
اب ہم کہتے ہیں کہ ہمارے نبی کا دائرہ نبوت اتناوسیع ہےکہ دنیا میں کوئی ایسی جگہ نہیں ہے جہاں سے لیکرمکہ پہنچنے میں ایک مہینے سے زیادہ وقت لگتاہو۔ آج کے دورمیں سب سے تیزرفتار سواری ہوائی جہازشمارہوتاہے۔ عام جہاز کی رفتار 1170کلومیڑ فی گھنٹہ ہے اور ابھی تک جوجہاز ایجاد ہوئے ہیں تو تیز ترین جہاز 13000کلومیڑ فی گھنٹہ کی رفتار سے پرواز کرتا ہے۔ اس کامعنی یہ ہے کہ دنیا کے ایک کونے سے لے کر مکہ تک تیز ترین جہاز پہنچے تو ایک گھنٹہ نہیں لگتا۔ اب بتائیں میرے نبی کا دائرہ نبوت کتناوسیع ہے؟ گویا اللہ کےنبی صلی اللہ علیہ و سلم فرماتے ہیں کہ میرے پاس آنے والااتنادورہو کہ میرےپاس آنے میں ایک ماہ لگے تو میرا رعب وہاں تک بھی جاتا ہے اورآج معاملہ کیا ہے؟
مدینہ سے دنیاکے آخری کونے تک آج کے دور کا تیز رفتار جہاز چلے تو ایک گھنٹہ لگتا ہے اور مسافت پوری ہو جاتی ہے۔ مطلب یہ ہے کہ آپ ایک گھنٹے کےعلاوہ پورے مہینے کے گھنٹوں کوجمع کریں تو اتناآپ دائرے کوپھیلاتے چلے جائیں،میرےنبی مدینہ منورہ میں موجود ہیں کوئی جگہ ایسی نہیں بچتی جہاں سے حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس آنے میں ایک ماہ سے زیادہ مسافت ہو،اس کامعنی یہ ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہیں مدینہ میں لیکن حضورصلی اللہ علیہ وسلم کارعب ہے پوری کائنات میں۔اب بتاؤ! یہ ضرورت پہلے انبیاء علیہم السلام کوتھی؟ (نہیں۔ سامعین)ضرورت ہی نہیں تھی،وہ توہیں ہی ایک بستی کے نبی،وہ تو ہیں ہی ایک قوم کے نبی۔
عطا اسی کو جس کو ضرورت ہو:
مثلاًایک مسجدہے، اس میں دوسونمازی ہیں اورمسجد کے ہال میں پانچ سونمازیوں کی گنجاِئش موجود ہے۔ اب وہاں تو امام کواسپیکرکی ضرورت ہی نہیں ہے، امام صاحب نمازپڑھائیں گے تو دو سو کے پاس آوازپہنچ جائے گی، لیکن ایک مسجد ایسی ہے کہ جوپانچ منزلہ ہے اور وہاں نمازی ہیں پانچ ہزار۔ اب امام صاحب نماز پڑھا رہے ہیں نچلی یعنی پہلی منزل میں،اوپر کی چار منزلوں تک آواز پہنچانے کے لیے لاؤڈ اسپیکرچاہیے نا؟! توجس کی مسجدچھوٹی اس کو لاؤڈاسپیکر کی ضرورت نہیں ہے اور جس کی مسجد بڑی ہے تو ضرورت اس کو ہے نا!
پہلے نبی بستی کا نبی ہے، اس کو”نُصِرْتُ بِالرُّعْبِ“ کی ضرورت نہیں ہے، ہمارے نبی پورے عالم کے نبی ہیں،اس لیے ان کو”نُصِرْتُ بِالرُّعْبِ“کی ضرورت تھی اور اللہ نے عطاء بھی فرما دی ہے۔
تیسری خصوصیت؛ مالِ غنیمت کاحلال ہونا:
وَأُحِلَّتْ لِيَ الْغَنَائِمُ•
میرے لیے مالِ غنیمت کوحلال قراردے دیاگیا۔ مالِ غنیمت کے حلال ہونے کا معنی یہ ہے کہ مسلمان میدان جنگ میں کفار کے ساتھ جہاد کے لیے نکلے اور کافر کا جو مال ان کو جنگ کے بعد ملا یہ ”مالِ غنیمت“ ہے۔ پہلے انبیاء علیہم السلام کے لیے یہ حلال نہیں تھا، حضرت موسیٰ علیہ السلام کی قوم نے جہاد کیا، مال غنیمت حلال نہیں تھا، اسی طرح پہلے انبیاء علیہم السلام کے لیے مسئلہ یہ تھا کہ اگر مال غنیمت ملتا تو اس کومیدان میں جمع کرلیتے آسمان سے آگ آتی اس کوجلادیتی، یہ اس بات کی علامت تھی کہ جہادقبول ہو گیا ہے۔ اگروہ آسمان سے آنےوالی آگ اس مال کو نہ جلاتی تویہ اس بات کی علامت ہوتی کہ یہ جہاد قبول نہیں ہوا۔
حج مقبول کی نشانی کنکری کا اٹھ جانا:
اسی قسم کا ملتا جلتا معجزہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا بھی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دومعجزے قیامت تک کے لیےہیں، ان میں ایک معجزہ قرآن کریم ہے اور دوسرا معجزہ یہ ہے کہ جوآدمی حج کے لیے جائے،اس کاحج قبول ہوجائے تو وہ جمرات میں جوکنکری مارے وہ خودبخوداٹھ جاتی ہے، اٹھانی نہیں پڑتی۔ اب لوگوں کو تعجب ہوتا ہے کہ بعض کنکریاں اٹھانی پڑ تی ہیں۔ میں نے کہا: اگر سودکے مال سے حج ہوتوکنکری اٹھتی نہیں بلکہ اٹھانی پڑتی ہے، جب حج عبادت نہ ہو بلکہ فیشن ہوتوکنکری اٹھتی نہیں بلکہ اٹھانی پڑتی ہے، جب حج عبادت نہ ہوبلکہ کاروبار بنے تو کنکری پھر اٹھتی نہیں بلکہ اٹھانی پڑتی ہے،یہ ہمارے معاشرے کی وہ باتیں ہیں جومجھے آپ کو سمجھانے کی ضرورت نہیں ہے، آپ خود اچھی سمجھتے ہیں۔
مالِ غنیمت؛ حلال و پاکیزہ:
خیر میں عرض کررہاتھا کہ پہلے انبیاء علیہم السلام کی شریعت میں مالِ غنیمت کا حکم یہ تھا کہ مالِ غنیمت کو ایک میدان میں جمع کرلیا جاتا، آسمان سے آگ آتی اور اسے جلا ڈالتی تو یہ علامت تھی کہ جہاد قبول ہے۔ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا اعزاز یہ ہے کہ دشمن کے مدِ مقابل حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی امت نکلے،میدان جنگ میں کفار سے لڑے،جو مال غنیمت ملے وہ ان کے لیے حلال ہے جوپہلے والوں کےلیے حلال نہیں تھا، اوریہ بات ذہن نشین فرمالیں کہ تاجرجوحلال مال اپنی دکان پہ کمائے شائد اتناپاکیزہ مال یہ بھی نہ ہو جتناپاکیزہ غنیمت کا مال ہے۔ قرآن کریم نے اس کے لیے دولفظ استعمال کیے ہیں:
ﯘحَلَالًا طَيِّبًاﯗ
(سورۃ الانفال:69)
یہ مالِ غنیمت حلال بھی ہے اور پاکیزہ بھی ہے۔
آج تعجب اس لیے ہےکہ ہماری زندگی سے یہ شعبہ نکل گیا ہے اسی لیے تو بات سنتے ہی تعجب ہوتا ہے،عمل کرنا تو بڑے دور کی بات ہے۔
مالِ غنیمت حلال ہونے کی وجہ:
خیر میں عرض کر رہا تھا کہ اب امت کے لیے مسئلہ یہ ہے کہ میدان میں نکلیں،کافرکا مال ملے وہ اس امت کےلیے حلال ہے۔ اب اعزازنبوت سمجھیں،پہلے نبیوں کےلیے مال غنیمت حلال نہیں تھا،ہمارے حضورصلی اللہ علیہ وسلم کےلیے مال غنیمت حلال ہے۔ وجہ یہ ہے کہ پہلے نبی ایک بستی کے نبی ہیں،کاروبار بھی کریں اور مخالف سے جہاد بھی کریں، Business بھی کریں اور جہاد بھی کریں۔ ہمارے نبی پورے عالم کے نبی ہیں صرف ایک خطے کے نبی تونہیں ہیں۔ توجب اللہ کے نبی کی قوم نے جہاد کےلیے نکلناہے، اب ایسے مرحلے بھی آئیں گے کہ جہاد کریں تو کاروبار نہیں ہے، دکان پہ بیٹھیں تو جہاد نہیں ہے، چلواگرایک کا کاروبارہوبھی توسب کا نہیں ہے،اگریہ دورنکل جائیں توکاروبار والے کے لیے پیسے پیچھے سے پہنچنے نہیں ہیں، نہ ادھر بینک اکاؤنٹ ہے، نہ پیسے جا سکتے ہیں۔
اب یہ قوم کرے گی کیا؟ اللہ نے ان کو پیچھے سے بے نیاز کر دیا۔ جہاں انہوں نے جاناہے وہاں کمانا نہیں ہے، کمانا کافر نے ہے اور کھانا انہوں نے ہے،یہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی اس امت کااعزاز خدا نے دیا ہے کہ اپنے مقام سے نکلے،اب پیچھے سے مال نہیں آناہے، نہ اس کی ضرورت ہے کیوں کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا دائرہ نبوت وسیع ہے، دنیا کےآخری کونے تک ہے۔ یہی وجہ ہے کہ صحابہ رضی اللہ عنہم مدینہ سے نکلے،سمندرکے آخری کنارے پہ کھڑے ہوئے اور گھوڑے کے اگلے پاؤں سمندرمیں ڈال دیے اورصحابی رسول نے کہا:اللہ! جہاں تک میں آسکتا تھا میں آیا،اس سے آگے جانامیرے بس میں نہیں۔
اب بتائیں مدینہ سے صحابی نکلے اورافریقہ جائے تومدینہ کامال افریقہ کیسےپہنچے گا؟ مدینہ سے نکلے خراسان جائے، اب مدینہ منورہ کی تجارت کا پیسہ وہاں کیسے پہنچے گا؟ یہ توممکن نہیں تھا۔ اللہ نے کرم یہ کیا کہ مالِ غنیمت حلال قرار دے دیا کہ اب پچھلے شہر سے میدانِ جہاد میں مال لانے کی ضرورت نہیں ہے، اب ان کافروں کا کمایا ہوا مال خود بھی کھاتے جاؤ اور پیچھے گھر بھی دیتے جاؤ۔ تمہیں یہ شبہ نہ آئے کہ یہ مال حرام ہے بلکہ یہ مال حلال بھی ہے اور طیب بھی ہے، پہلے نبیوں کو ضرورت نہیں تھی اس لیے خدانے نہیں دیا، ہمارے نبی کی ضرورت تھی تو خدا نے حلال قرار دے دیا ہے۔ تو ہمارے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کےلیے حلال کیوں ہے؟ وجہ ”خُتِمَ بِيَ النَّبِيُّونَ“ ہے کہ یہ آخری نبی جو ہے، ان کے بعدکوئی نبی پیدا ہونا جونہیں ہے۔ ہمارےنبی صلی اللہ علیہ و سلم کی امت نےدورتک جانا تھا، وہاں کمائیں کیسے؟ تو خدا نے بتا دیا کہ کمانا کافروں نے ہے، تم نے ان کے کمائے کو خود بھی کھاناہے اورجوپیچھے چھوڑ کر آئے ہو تم نے انہیں بھی دیناہے۔ اب کمانا تمہارے ذمہ نہیں، کمانا ان کے ذمہ ہے اورتمہارے لیےان کے کمائے کوکھانا ہے۔
تمہارا خون میٹھا ہے:
مجھے اس پہ ایک واقعہ یاد آیا حضرت خالد بن ولید ر ضی اللہ عنہ کا۔ آپ مسلمانوں کےجرنیل ہیں، سامنے ایران والے ہیں، اِدھرمدینہ والے ہیں،سامنے کافر ہیں اِدھرنبوت کے غلام ہیں،اُدھرسے ایک جرنیل کہنے لگا: خالد! ایک بات توبتاؤ تم ہمارے ساتھ لڑنےکےلیے آئے ہو، ان تلواروں سے تم لڑسکوگے؟ حضرت خالد رضی اللہ عنہ نے فرمایا:جنگ تلواروں سے نہیں،جنگ بازوکی طاقت سے ہوتی ہے۔ اس نےکہا: اچھایہ بتاؤتم یہاں پرکیوں آئےہو
حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کے جملے بڑے قوی ہیں، فرمایا: ”سنا ہے تمہاراخون میٹھا ہے، اس لیے ہم نے یہاں کا سفرکیا ہے۔“یہ میدانِ جنگ کی باتیں ہیں، رات کے تہجدکی باتیں نہیں ہیں۔ ہمارے لوگ بہت عجیب ہیں،صحابی کا رونادیکھاتوذہن اوربنالیا،صحابی کا تقویٰ دیکھا تو ذہن اوربنالیا، رات کے تہجددیکھے تو ذہن اوربنالیا۔ ارےبندہ خدا! صحابی کارات کوتہجد میں رونا بھی دیکھ،صحابی کا دن کو گھوڑے کی پیٹھ پہ دوڑنابھی دیکھ۔ ایک زندگی نہ دیکھودونوں زندگیوں کو دیکھو، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا مزاج کیا تھا:
بالليل رهبان وبالنهار فرسان•
(تاریخ دمشق: ج2 ص96)
رات کو دیکھوتوعبادت گزار،دن کودیکھوتوشہسوار۔
حضرت خالد رضی اللہ عنہ سے اس جرنیل نے سوال کیا کہ خالد یہ بتاؤتم مدینہ سے یہاں پہنچے ہو،تمہاری کمک مدینہ منورہ سے آئے گی؟ فرمایا: نہیں آئے گی۔ مدینہ منورہ سے تمہارااسلحہ آئے گا؟ کہا: نہیں آئے گا۔ مدینہ منورہ سے خوراک آئے گی؟ کہا: نہیں آئے گی۔ اس جرنیل نے کہا: پھرکس چیز کےبل بوتے پہ لڑتے ہو کہ پیچھے سے کمک بھی نہیں آرہی، اسلحہ بھی نہیں آ رہا، خوراک بھی نہیں آ رہی توپھرلڑو گے کیسے؟ حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے ایک جملہ بولاجوتاریخ نے سینے میں محفوظ کرلیا، فرمانے لگے: مدینہ سے مددنہیں آ تی، آسمان سے آتی مددمیں اپنی آنکھوں سے دیکھ رہاہوں۔
مال غنیمت کے حلال ہونے کی وجہ:
وَأُحِلَّتْ لِيَ الْغَنَائِمُ•
تو مال غنیمت حلال کیوں ہے؟ وجہ ”خُتِمَ بِيَ النَّبِيُّونَ“ ہےکہ آخری نبی جوہیں، جانا دور تک ہے، اب یہ کمائیں یاجہاد کریں،توفرمایاکہ اے پیغمبر! ہم نے اس اشکال کودورکردیا، مال غنیمت ہی کوحلال کردیا ہے۔ اب پوری دنیاوسیع ہے، تم جہاں جاؤیہ نہ سوچوکہ یہاں Business کیسے،یہاں کا روبار کیسے؟ یہ نہ کہنا کہ ہمارا کیا بنے گا؟ ہم نے مالِ غنیمت ہی کو حلال کر دیاہے، کافر کمائے گا اور تم کھاؤ گے۔
چوتھی خصوصیت؛ زمین ذریعہ طہارت:
وَجُعِلَتْ لِيَ الْأَرْضُ طَهُورًا•
خدانے پوری زمین کومیرے لیے طہور یعنی پاک کرنے کا ذریعہ بنادیا۔ پہلے نبیوں کے لیے تیمم کی گنجائش نہیں تھی۔ اس امت کے لیے تیمم کی گنجائش موجود ہے۔ پہلے نبیوں کی امت نے وضو کرناہوتا توپانی سے،پہلے نبیوں کی امت نے غسل کرنا ہوتا تو پانی سے،فرمایا: اس امت نے وضوکرنا ہے اگر پانی نہ ملے توتیمم کر لے، اس امت نے غسل کرنا ہے اگر پانی نہ ملے توتیمم کرلے۔ اُن کو تیمم نہیں دیا، ہمارے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو دیا ہے اور پوری زمین کو ان کے لیے ”طہور“ بنا دیا۔ پچھلی امتوں کے لیےجوکام پانی سے لیا اس امت کے لیے وہی کام مٹی سے لیا ہے۔ اس کی ضرورت کیا تھی؟ پہلے نبی ایک بستی کا نبی ہے جہاں بستی ہوتی وہاں پانی بھی تو ہوتا،اگرپانی نہ ہوتو”بستی“ بستی ہی نہیں ہے۔ بستی تب ہوتی ہے جب بسنے کی جگہ تو ہو، اگر بسنے کی جگہ نہ ہو تواسے بستی کہتے ہی نہیں ہیں،توبستی وہاں ہو گی جہاں پانی ہو، شہروہاں ہوگا جہاں پانی ہو،آبادی وہاں پہ ہو گی جہاں پانی ہو گا۔
مکہ میں کھیتی باڑی نہیں ہوتی:
حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنی بیوی ہاجرہ اور بیٹے اسماعیل کو مکہ میں چھوڑا اور اللہ سے دعا مانگی:
ﯘرَبَّنَا إِنِّي أَسْكَنْتُ مِنْ ذُرِّيَّتِي بِوَادٍ غَيْرِ ذِي زَرْعٍﯗ
(سورۃ ابراہیم: 37)
[اے ہمارے پروردگار! میں نے اپنی کچھ اولاد کو آپ کے حرمت والے گھر کے پاس ایک ایسی وادی میں لا بسایا ہے جس میں کوئی کھیتی نہیں ہوتی۔ ]
حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ”غَيْرِ ذِي زَرْعٍ“ کہا۔ اس کامعنی یہ ہے کہ اے اللہ! میں اپنے گھر والوں کو ایسی جگہ پہ چھوڑکے جارہا ہوں جس میں کھیتی باڑی نہیں ہے۔ مفسرین نے کہا ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ”غَيْرِ ذِي زَرْعٍ“ کہا ”غَيْرِ ذِي مآءٍ“ نہیں کہا یعنی یہ تو کہا ہے کہ اس میں کھیتی باڑی نہیں ہے،یہ نہیں کہا کہ اس میں پانی نہیں ہے۔ آج بھی مکہ میں دیکھیں کھیتی باڑی نہیں ہے، پانی آج بھی وہاں موجود ہے۔ توحضرت ابراہیم علیہ السلام نے ”غَيْرِ ذِي مآءٍ“ نہیں کہا کہ اس میں پانی نہیں ہے بلکہ ”غَيْرِ ذِي زَرْعٍ“ کہا ہے کہ اس میں کھیتی نہیں ہے حالانکہ بظاہر تو پانی تھا ہی نہیں۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ایک مشکیزہ اورکچھ کھانے کا سامان دیا اور چلے گئے، توپانی توتھا ہی نہیں لیکن آپ علیہ السلام نے یہ نہیں کہا کہ اے اللہ! میں نے اپنے گھر والوں کو ایسی جگہ پہ چھوڑ اہے جہاں پانی نہیں ہے بلکہ فرمایا: ایسی جگہ پہ چھوڑا ہے جہاں پہ کھیتی باڑی نہیں ہے۔ اس کا معنی یہ ہے کہ اس زمین میں کھیتی باڑی کی صلاحیت تونہیں تھی البتہ اس میں پانی کی صلاحیت تھی،کھیتی آج بھی نہیں ہےلیکن پانی وہاں سےآج بھی پوری دنیا میں جارہاہے۔ میں ایک جملہ کہتا ہوں: دنیاکی کھیتی وہاں آرہی ہے اوروہاں کاپانی پوری دنیا میں جارہا ہے۔ دنیاکھیتی باڑی کرتی ہے فصل وہاں پہنچتی ہے،وہاں سے پانی نکلتا ہے پوری دنیا میں پہنچ رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ”غَيْرِ ذِي مآءٍ“ نہیں فرمایابلکہ”غَيْرِ ذِي زَرْعٍ“ فرمایا ہے۔
زمین ذریعہ طہارت کیوں؟
ہمارے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کےلیے زمین کوتیمم کےلیے پاک کیوں بنادیا؟ وجہ یہ ہے کہ پہلے نبی ایک بستی کا نبی تھا۔ جب بستی میں ہے توپانی بھی ہے تبھی تو بستی ہے، ایک شہر کا نبی ہے توشہروہاں ہو گا جہاں پانی بھی ہے،ایک قوم کانبی ہےقوم وہیں ٹھہرے گی جہاں پانی بھی ہے،ہمارے نبی صلی اللہ علیہ و سلم ایک بستی کے نہیں،ایک قوم کے نہیں بلکہ اقوامِ عالم کے نبی ہیں، تمام جہانوں کے نبی ہیں، اس کامعنی یہ ہے کہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ و سلم اور دیگر انبیاء علیہم السلام میں فرق یہ ہے کہ پہلے نبی کی امت نے نمازتوپڑھی ہے لیکن بستی میں کیوں کہ اسی بستی کاہے،نہ کہیں جانا نہ نمازوں کامسئلہ، حضورصلی اللہ علیہ وسلم کی امت نے وہاں بھی جانا ہے جہاں پانی نہیں ہے،اگر پانی ہے توکبھی اتنانہیں ہے کہ جس سے وضوکریں یا جس سے غسل کریں، اتنا ہے کہ بس پی سکتے ہیں غسل نہیں کرسکتے، پئیں تووضو نہیں ہے وضوکریں توپینا نہیں ہے، اب یہ امت کیا کرے؟ اللہ نے کرم یہ کیاکہ پہلی امت نے چونکہ مخصوص جگہ پہ رہنا ہے اس کےلیے پانی تھا توتیمم کی ضرورت نہیں تھی،حضورصلی اللہ علیہ وسلم کی امت نے ایسی جگہوں پہ جاناہو گاجہاں غسل کی حاجت ہوگی لیکن پانی نہیں ہو گا، وضوءکی حاجت ہوگی لیکن پانی نہیں ہو گا توجب پانی نہیں ہو گاتووضوء کیسے کرے گی؟ پانی نہیں ہو گا توغسل کیسے کرے گی؟توفرمایا:
جُعِلَتْ لِيَ الْأَرْضُ طَهُورًا•
اگروضوءکےلیےپانی نہیں تومٹی سے تیمم،اگرغسل کےلیے پانی نہیں تومٹی سے تیمم، اُن کی جگہ محدودتھی وہاں پرپانی تھا،اِس نبی کی جگہ غیرمحدود ہے جہاں پانی نہیں، تواِس کی امت وہاں بھی ہے جہاں پانی نہیں ہو گا۔ تو اب دلیل واضح ہو گئی کہ اِس نبی کےلیے زمین کو” طہور“ کیوں بنایا؟ فریایا: ”خُتِمَ بِيَ النَّبِيُّونَ“یہ آخری نبی جو ہیں، یہ ساری کائنات کے نبی ہیں،پہلی امتوں کوضرورت نہیں تھی توان کے لیے نہیں بنایا تھا، ہمارے نبی کوضرورت تھی اس لیے ”طہور“بنادیا ہے۔تو” طہور“نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے دائرہ نبوت کی وسعت کے لیے ہے۔
پانچویں خصوصیت؛ روئے زمین سجدہ گاہ:
فرمایا:
وَجُعِلَتْ لِيَ الْأَرْضُ طَهُورًا وَمَسْجِدًا
•میرے لیے پوری زمین کوسجدہ گاہ بنا دیاگیا ہے۔ پوری زمین کوسجدہ گاہ کیوں بنایا؟ پہلی امت کےلیے عبادت کے لیے مخصوص مکان ہے، وہاں ٹھہرکے نمازپڑھیں، اس امت کے لیےمخصوص مکان بھی ہے جہاں ٹھہر کے نمازپڑھیں لیکن کسی بھی جگہ نماز پڑھیں تو اللہ نے اسے سجدہ گاہ بنا دیا ہے۔یہ اعزاز صرف ہمارے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کودیا ہے۔
روئے زمین کو سجدہ گاہ بنانے کی وجہ:
اس کی وجہ یہ ہے کہ پہلانبی ایک بستی کا نبی ہے،ایک بستی میں ایک مکان بنایاجاسکتا ہے کہ لوگ وہیں آکے نمازپڑھیں، پہلے نبی ایک شہر کانبی ہے،ایک شہر کے لیےمخصوص مکان بناسکتے ہیں کہ وہیں آکے نمازپڑھیں، ہمارے نبی صلی اللہ علیہ و سلم ایک شہر کے نبی نہیں ہیں بلکہ پورے عالم کے نبی ہیں، ہم اس عالمی نبی کے امتی ہیں، ہم جارہے ہیں اب جنگل آگیا ہے۔ نمازہم نے پڑھنی ہے جگہ مسجدکےلیے نہیں ہے، اب ہم کیا کریں؟ ہمارے نبی بیابان کے بھی نبی ہیں جہاں آبادی نہیں ہے تومسجد وہاں بنے کیسے؟ اللہ نے اعزازیہ دیا :
وَجُعِلَتْ لِيَ الْأَرْضُ طَهُورًا وَمَسْجِدًا•
ہمارے نبی کے لیے پوری زمین کوسجدہ گاہ بنادیاگیا۔ اُن کی ایک خاص جگہ تھی جہاں وہ سجدہ کرسکتے تھے، ہمارے نبی کے لیے ایک خاص جگہ نہیں ہے بلکہ پوری زمین جہاں بھی سرٹیک سکیں وہی مسجد ہے۔ ایک مسجدوہ ہے جووقف ہو،یہاں مرادعام ہے ”مصلی“ یعنی نماز پڑھنے کی جگہ۔ تو پہلے انبیاء علیہم السلام کی ضرورت نہیں تھی توان کے لیے پوری زمین کوسجدہ گاہ نہیں بنایا، ہمارے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو ضرورت تھی تو ان کے لیے پوری زمین کو سجدہ گاہ بنادیا۔
مخصوص پتھر ہی جائےسجدہ کیوں؟!
اس سے آپ ا یک مسئلہ بخوبی سمجھ سکتے ہیں۔ آپ نے پوری دنیا میں کہیں اہل السنت و الجماعت کو دیکھا کہ مخصوص چیز پہ سجدے کرتے ہوں؟ (نہیں۔ سامعین) کیوں نہیں کرتے؟ اس لیے کہ پوری زمین سجدہ گاہ ہے۔ تو یہ جوایک پتھر لیے پھرتا ہے کہ میں نے سجدہ اس پہ کرنا ہے یہ پوری زمین پہ نہیں کرتا۔ اِس کولوں پچھُّو کہ تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم داامتی ایں؟[اس سے پوچھوکہ کیا تم حضورصلی اللہ علیہ وسلم کےامتی ہو؟] اس کامعنی یہ ہے کہ وہ ہمارے حضورصلی اللہ علیہ وسلم کونبی نہیں مانتا، وہ کسی اور کو نبی مانتا ہے، اگرتو ہمارےنبی صلی اللہ علیہ و سلم کونبی مانتا ہے توپھرپتھرپہ سجدے نہ کر،کسی بھی پاک جگہ پہ سجدہ کر،نبی فرمائیں پوری زمین سجدہ گاہ ہے تو تو نے مخصوص پتھرکوسجدہ گاہ کیوں بنایاہے؟! اللہ نے خاص پتھرکوسجدہ کےلیےمتعین کیا یا پوری زمین کوسجدہ گاہ بنایا؟ (پوری زمین کو۔ سامعین) تواسے دیکھو! یہ جیب میں پتھر لیے پھرتا ہے کہ میں نے اس پہ سجدہ کرناہے، تو پھر مان لے نا کہ یہ ہمارا نہیں ہے، ہمارے نبی کا نہیں ہے، اگر ہمارا اور ہمارے نبی کا ہوتا توایک پتھرپہ سجدہ نہ کرتا پوری زمین کےچپےچپے پہ سجدہ کا قائل ہو۔
ہمارے لوگ اس چیزکونہیں سمجھتے، وہ سمجھتے ہیں کہ یہ ہمارا ہے،کیوں جی؟کہ یہ ہماری مسجد میں آگیا ہے۔ بھائی! تیری مسجدمیں آگیاہے لیکن تیری مسجدمیں سجدہ نہیں کرتا،سجدہ تیرے پاس کرنے کےلیے تیار نہیں ہے، تیراکلمہ نہیں پڑھتا، تیری اذان نہیں مانتا، تیری طرح وضو نہیں کرتا، تیری طرح نمازنہیں پڑھتا، تیری مسجدکے فرش پہ سجدے بھی نہیں کرتا، تو بتا وہ تیرا کیسے ہے؟ اتنی جلدی ہر کسی کو اپنا نہ بنا لیا کرو، قیامت کےدن الگ الگ ہونا ہے توخدا کے لیے دنیا میں الگ الگ ہو جاؤ، یہ معاملے بالکل صاف صاف رکھو۔ اپنے آپ میں یہ ملاوٹ کبھی نہ کرنا۔
ہمیں لوگ کہتے ہیں فلاں نے،فلاں نے کیا۔ میں نےکہا ہم فلاں کے ذمہ دار نہیں ہیں،ہم خالص دین کی بات کرتے ہیں،ہم ملاوٹ والا مسئلہ پیش نہیں کرتے۔ اگر مان لو گے تو خالص مدد دیکھو گے،مان لوگے تو خالص جنت ہے،نہیں مانوگے تو پھر ملاوٹ کرنےکی سزا ضرورملے گی۔ اللہ ہمیں خالص دین عطافرمائے۔
چھٹی خصوصیت؛ رسالت عامہ:
وَأُرْسِلْتُ إِلَى الْخَلْقِ كَافَّةً•
اللہ نے مجھے پوری مخلوق کا نبی بنایا ہے -توجہ رکھنا- حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے یہ نہیں فرمایا:اُرْسِلْتُ اِلَی الْاِنْسِ جَمِیْعًا•کہ مجھے تمام انسانوں کا نبی بنایا۔
یہ بھی نہیں فرمایا:اُرْسِلْتُ اِلَی الْاِنْسِ وِ الْجِنِّ جَمِیْعًا•مجھے انسان اور جنات کا نبی بنایا۔
بلکہ فرمایا:أُرْسِلْتُ إِلَى الْخَلْقِ كَافَّةً•مجھے پوری مخلوق کانبی بنایا۔
پوری مخلوق میں جن بھی ہے، پوری مخلوق میں حور بھی ہے، پوری مخلوق میں غلمان بھی ہیں، پوری مخلوق میں فرشتے بھی ہیں، پوری مخلوق میں امتیں بھی ہیں، پوری مخلوق میں امتوں کے نبی بھی ہیں، پھر مان لیں کہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ و سلم جنات کے بھی نبی ہیں، یہ ملائکہ کے بھی نبی ہیں، حور و غلمان کے بھی نبی ہیں، امتوں کے بھی نبی ہیں، یہ انبیاء کے بھی نبی ہیں۔
رسالت کا عموم؛ زمان و مکان و مکین تک:
ابھی تومیں نے وہ چیزیں بیان کی ہیں جوذی روح ہیں، فرشتہ ، انسان ، حور و غلمان ذی روح ہیں۔ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ نہیں فرمایا کہ میں صرف ذی روح کا نبی ہوں، بلکہ فرمایا میں پوری مخلوق کا نبی ہوں۔ مخلوق میں ذی روح بھی ہے، مخلوق میں جوروح والا نہیں وہ بھی ہے، پتا یہ چلا کہ مخلوق میں مکین روح والابھی ہے،مخلوق میں مکان جوروح والانہیں وہ بھی ہے،مخلوق میں زمان بھی ہے، ہمارے نبی صلی اللہ علیہ و سلم سارے مکانات کے نبی ہیں، ہمارےنبی سارے مکینوں کے نبی ہے، ہمارے نبی سارے زمانوں کے نبی ہیں۔ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ و سلم جب سارے مکانوں کے نبی ہیں تومکانوں میں دنیا بھی ہے، مکانوں میں برزخ بھی ہے، تو حضور یہاں کے بھی نبی، حضور وہاں کےبھی نبی، ہمارے نبی سارے زمانوں کے نبی، ہمارے نبی قیامت تک کے نبی ہیں،جب دنیا بنی تھی تب بھی نبی تھے،جب دنیا نہیں ہوگی تب بھی نبی ہوں گے۔
رسالت عامہ کی دلیل:
اس کی وجہ کیا ہے؟ میری دلیل پہ غورکرنا۔ قرآن کریم میں ہے کہ جب مشرکین نے کہا تھا:
اَللّٰهُمَّ إِنْ كَانَ هَذَا هُوَ الْحَقَّ مِنْ عِنْدِكَ فَأَمْطِرْ عَلَيْنَا حِجَارَةً مِنَ السَّمَاءِ أَوِ ائْتِنَا بِعَذَابٍ أَلِيْمٍ.
(سورۃ الانفال: 32)
اےاللہ! اگریہ دین محمدسچا ہے تو ہمارے اوپرآسمان سے پتھر برسا دے یا ہمیں درد ناک عذاب دےدے۔
ذرا توجہ رکھنا۔ اللہ نے آسمان سے پتھرکیوں نہیں برسائے؟ خدا نے اس کی دلیل دی ہے، فرمایا:
وَأَنْتَ فِيهِمْ•
(سورۃ الانفال: 33)
میں ان پرپتھرنہیں برساتا اس لیےکہ میرانبی آپ جو اِن میں ہیں،
 آپ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں تھے پتھر نہیں برسے، وجہ
”وَأَنْتَ فِيهِمْ“
 آپ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ سے نکل کرمدینہ میں چلے گئے پتھرنہیں برسے، وجہ
”وَأَنْتَ فِيهِمْ“
 آپ صلی اللہ علیہ وسلم وہاں سے تبوک چلے گئے، ان پر پتھرنہیں برسے، وجہ
”وَأَنْتَ فِيهِمْ“
 آپ صلی اللہ علیہ وسلم عرش پہ گئے ان پر پتھر نہیں برسے، وجہ
”وَأَنْتَ فِيهِمْ“
 آپ صلی اللہ علیہ وسلم قبرمیں گئے ان پرپتھرنہیں برسے، وجہ
”وَأَنْتَ فِيهِمْ“
اللہ نےفرمایا ان کوہلاک اس لیے نہیں کرتاکہ آپ ان میں موجودہیں، پھر مان لے نا کہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم مکہ کےبھی نبی ہیں، مدینہ کےبھی نبی ہیں، فرش کے بھی نبی ہیں،عر ش کےبھی نبی ہیں، اِس جہان کےبھی نبی ہیں، اُس جہان کے بھی نبی ہیں۔
”أُرْسِلْتُ إِلَى الْخَلْقِ كَافَّةً“
حضورصلی اللہ علیہ وسلم پوری مخلوق کے نبی ہیں۔ یہ بھی مخلوق، وہ بھی مخلوق،یہ جہان بھی مخلوق وہ جہان بھی مخلوق۔
حیات الانبیاء کی نرالی دلیل:
مفتی اعظم پاکستان مفتی محمدشفیع رحمۃاللہ علیہ نے ایک عجیب مسئلہ لکھا ہے،فرماتے ہیں: نبی جن کا نبی ہو ان میں زندہ بھی ہوتا ہے۔ مکہ کے نبی، مکہ میں زندہ، مدینہ کے نبی مدینہ میں زندہ، زمین کے نبی زمین پہ زندہ، فرش کے نبی فرش پہ زندہ، عرش کے نبی عرش پہ زندہ، یہاں کے نبی یہاں پہ زندہ، وہاں کے نبی وہاں پہ زندہ توپھر مان لے نبی یہاں بھی زندہ تھے، نبی وہاں بھی زندہ ہیں،یہاں کے بھی نبی ہیں،وہاں کے بھی نبی ہیں،یہاں بھی زندہ وہاں بھی زندہ۔
رسالت عامہ کی وجہ:
ہمارے نبی پوری مخلوق کے نبی ہیں۔ میں بات سمجھا رہاتھا کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم کو تما مخلوقات کی طرف کیوں بھیجا گیا ہے؟ تو وجہ حضور نے خود بتائی ہے، فرمایا: ”خُتِمَ بِيَ النَّبِيُّونَ“ آخری نبی جو ہیں۔ پہلے نبی پوری مخلوق کے نبی کیوں نہیں تھے؟اس لیے کہ ان کے بعدنبی اورآنا تھا۔ حضورصلی اللہ علیہ وسلم پوری مخلوق کے نبی کیوں ہیں؟ اس لیے کہ ان کے بعدکوئی اور نبی آنا جو نہیں ہے، اس لیے پوری مخلوق کے نبی ہیں۔
نبی کا علم زیادہ:
یہ مسئلہ ذہن نشین فرمالیں کہ نبی جن کا نبی ہوان میں نبی سے زیادہ حسین بھی کوئی نہیں ہوتا،ان میں نبی سے بڑاعالم بھی کوئی نہیں ہوتا۔ پتا یہ چلا کہ حضرت آدم سےلیکر حضرت عیسیٰ علیہم السلام تک سارے نبیوں کاعلم ملالیاجائے تومیرے نبی کا علم زیادہ ہے،قیامت تک آنے والےسب انسانوں کے علم کو ملالیں تو میرے نبی کا علم زیادہ ہے،کیوں کہ نبی جن کا نبی ہوان میں نبی سے بڑا عالم کوئی نہیں ہوتا، پتہ چلا پوری کائنات کا علم ایک طرف ہو تو بھی ہمارے مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کا علم زیادہ ہے۔
نبی کا حسن زیادہ:
نبی جن کا نبی ہو ان میں نبی سے زیادہ حسین کوئی نہیں ہوتا پھر مان لے کہ ہمارے نبی کا حسن سارے نبیوں سے زیادہ، اِن کا حسن امت سے زیادہ،اِن کاحسن جنت سے زیادہ،یہ جنت کابھی نبی ہے،جنتی کابھی نبی ہے توجنتی سے بھی زیادہ مصطفیٰ حسین ہے، جنت سے بھی زیادہ مصطفیٰ حسین ہے۔
”وَأُرْسِلْتُ إِلَى الْخَلْقِ كَافَّةً“
فرمایامیں پوری مخلوق کا نبی ہوں۔ وجہ ”وَخُتِمَ بِيَ النَّبِيُّونَ“کہ آخری نبی جو ہوں کہ میرے بعد کسی نبی نے آنا جو نہیں ہے۔ میں نے اس دعوے پہ جودلائل دیے ہیں اللہ کرے آپ کوسمجھ آجائیں۔
خلاصہ کلام:
حضورصلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا کہ خدانے مجھے چھ اعزازدیے:
1: ”أُعْطِيتُ جَوَامِعَ الْكَلِمِ“ مجھے جوامع الکلم دیے، وجہ؟
”خُتِمَ بِيَ النَّبِيُّونَ“
کہ میں آخری نبی جوہوں میری ضرورت تھی۔
2: ”وَنُصِرْتُ بِالرُّعْبِ“ مجھے رعب دے کرمیری مددکی، وجہ؟”خُتِمَ بِيَ النَّبِيُّونَ“ کہ میں آخری نبی جوہوں میری ضرورت تھی۔
3: ”وَأُحِلَّتْ لِيَ الْغَنَائِمُ“
مالِ غنیمت میرے لیے حلال کیا، وجہ؟”خُتِمَ بِيَ النَّبِيُّونَ“ کہ میں آخری نبی جوہوں میری ضرورت تھی۔
4: ”وَجُعِلَتْ لِيَ الْأَرْضُ طَهُورًا“
ساری زمین کومیرے لیے طہور بنا دیا، وجہ؟ ”خُتِمَ بِيَ النَّبِيُّونَ“ کہ میں آخری نبی جوہوں میری ضرورت تھی۔
5: ”وَمَسْجِدًا“ پوری زمین کومیرے لیے سجدہ گاہ بنایا، وجہ؟”خُتِمَ بِيَ النَّبِيُّونَ“ کہ میں آخری نبی جوہوں میری ضرورت تھی۔
6: ”وَأُرْسِلْتُ إِلَى الْخَلْقِ كَافَّةً“
مجھے پوری مخلوق کا نبی بنایا، وجہ؟”خُتِمَ بِيَ النَّبِيُّونَ“ کہ میں آخری نبی جوہوں میرے بعد کسی نبی نے آنا جو نہیں۔
یہ ہمارے نبی کا اعزازہے، اللہ ہمیں یہ اعزازسمجھنے کی توفیق عطافرمائے۔
ہمارا اور آپ کا اعزاز:
حضور صلی اللہ علیہ وسلم آخری نبی ہیں،ہم آخری امت ہیں،حضورصلی اللہ علیہ وسلم کے بعدکوئی نبی پیدانہیں ہوگا، اس امت کے بعد کسی امت نے آنانہیں اوراللہ کے نبی نےایک بارصحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے بعدوالوں کا یعنی میرا اور آپ کا تذکرہ فرمایا تواللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:متى ألقى إخواني؟میں اپنے بھائیوں سے کب ملوں گا؟صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کیا: یارسول اللہ! کیا ہم آپ کے بھائی نہیں ہیں؟ فرمایا:
بل أنتم أصحابي، وإخواني الذين آمنوا بي ولم يروني، أنا إليهم بالأشواق.
(کنز العمال: رقم 34583)
تم تومیرے اصحاب ہو، میرے بھائی وہ ہیں جنہوں نے مجھے دیکھا نہیں اورمیراکلمہ پڑھا ہے، انا الیہم بالاشواق، ان کی ملاقات کا میں مصطفیٰ بھی شوق رکھتا ہوں۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: میرادل کرتا ہے میں ان سے ملوں جنہوں نے مجھے دیکھا نہیں لیکن میرا کلمہ پڑھا ہے۔نبی صلی اللہ علیہ و سلم ہمیں دیکھیں گے اورہم حضورصلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کریں گے ان شاءاللہ، کہاں پہ؟ حوض کوثر پہ۔ ان شاءاللہ حوض کوثر پہ زیارت ہو گی اورحضورصلی اللہ علیہ وسلم کا دیدار ہو گا،بس یہ دعا کریں کہ اللہ ہمیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھوں جام کوثر عطافرمائے،اللہ رب العزت مجھے اور آپ کو حضورصلی اللہ علیہ وسلم کاسچاعشق نصیب فرمائے اور حضور صلی اللہ علیہ و سلم کا سچاغلام بنائے۔ آمین
وآخر دعوانا ان الحمد للہ ر ب العلمین•