امت کے رہنما طبقات :حصہ اول

User Rating: 5 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar ActiveStar Active
 
عنوان: امت کے رہنما طبقات
حصہ اول: خلفاءِ راشدین
تاریخ: 2 جون 2014ء
مقام: جامع مسجد موتی 2 بلاک سرگودھا
امت کا رہنما طبقہ خلفاء راشدین
أَلْحمدُللہِ نَحمدُہ ونَستعِینُہ ونَستغفِرُہ ونُؤْمِنُ بہ ونَتوکَّلُ علَیہ ونَعُوذُباللہ منْ شُرورِ أنفُسِنَا ومِنْ سیِّئاتِ أعمالِنا مَنْ یَّہدِہ اللہُ فلَا مُضلَّ لَہ ومَنْ یُّضْلِلْ فلَاہادیَ لہ ونَشہدُ أنْ لَّا الٰہ اِلَّااللہُ وحدَہ لَاشریکَ لہ ونَشہدُ انَّ سیِّدَنا ومولانا محمدًا عبدُہ ورسولُہ أمَّا بعد! فَاَعُوْذُ بِاللّهِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ بِسْمِ اللّهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ: ﴿وَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوا﴾
(سورۃ الحشر:7)
و قال النبی صلی اللہ علیہ و سلم: أَنَا خَاتَمُ النَّبِيِّيْنَ لَا نَبِيَّ بَعْدِي.
(مسند احمد: حدیث نمبر22395 عن ثوبان)
اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلٰى مُحَمَّدٍ وَعَلٰى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا صَلَّيْتَ عَلٰى إِبْرَاهِيْمَ وَعَلٰى آلِ إِبْرَاهِيْمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ۔اَللّٰهُمَّ بَارِكْ عَلٰى مُحَمَّدٍ وَعَلٰى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا بَارَكْتَ عَلٰى إِبْرَاهِيْمَ وَعَلٰى آلِ إِبْرَاهِيْمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ.
حضور علیہ السلام آخری نبی ہیں:
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد مبارک جو میں نے آپ کی خدمت میں پڑھا ہے، بہت کم مسلمان ایسے ہوں گے جنہوں نے اس ارشاد مبارک کو نہ سنا ہو۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ بندہ ایک حدیث کو سنے، پھر حدیث کو سمجھے۔ بعض لوگ حدیث کو سنتے نہیں اور بعض لوگ سنتے تو ہیں مگر حدیث کو سمجھتے نہیں، اس لیے حدیث کا سننا بھی ضروری ہے اور حدیث کا سمجھنا بھی ضروری ہے۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
أَنَا خَاتَمُ النَّبِيِّيْنَ لَا نَبِيَّ بَعْدِي•
میں آخری نبی ہوں اور میرے بعد کوئی نبی پیدا نہیں ہوگا۔
یہ حدیث مبارک ہے۔ پہلے حدیث سمجھ لیں، پھر اس کے بعد جو بات میں سمجھانا چاہتا ہوں اس کو شروع کروں گا۔ ہوسکتا ہے یہ بات ایک درس میں مکمل ہو، ہو سکتا ہے دو درس میں ہو یا ہمارے تین یا چار درس لگ جائیں لیکن میں ان شاء اللہ پوری بات سمجھانے کی کوشش کروں گا۔ اصل میں بات سمجھ تب آتی ہے جب کوئی آدمی کسی گفتگو کو تسلسل کے ساتھ سنے۔ بعض لوگ ایک درس سنتے ہیں دوسرا نہیں سنتے، کوئی دوسرا سنتا ہے تو پہلا نہیں سنتا، تو ان لوگوں کو ہماری پوری بات سمجھ نہیں آتی کہ ہم آپ کی خدمت میں کیا گزارش کرنا چاہتے ہیں۔ تو پہلے اس حدیث کا مفہوم سمجھیں، اس کے بعد میں اگلی بات شروع کروں گا۔
مفہوم حدیث:
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
أَنَا خَاتَمُ النَّبِيِّيْنَ لَا نَبِيَّ بَعْدِي•
میں آخری نبی ہوں میرے بعد کوئی نبی پیدا نہیں ہوگا۔
عام طور پر اس حدیث کا ترجمہ یوں کیا جاتا ہے:
”میں آخری نبی ہوں اور میرے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا۔“
میرا خیال ہے کہ آپ نے ہمیشہ یہی ترجمہ سنا ہے”میں آخری نبی ہوں اور میرے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا۔“ آپ نے یہی ترجمہ سنا ہے نا؟ [جی ہاں- سامعین]
میں اس ترجمہ پر قادیانیوں منکرین ختم نبوت کا اعتراض نقل کر کے پھر صحیح ترجمہ پیش کروں گا۔
قادیانیوں کا اعتراض:
میں نے کئی بار آپ کی خدمت میں عرض کیا ہے کہ میں آپ کے مسلک کی خطابت نہیں کرتا بلکہ آپ کے مسلک کی وکالت کرتا ہوں۔ وکیل سمجھتا ہے کہ میں ایسی بات کروں جس پر اعتراض کا موقع نہ ملے۔ خطیب نے نہ جواب دینا ہے، نہ اُس کو اِس سے غرض ہے کہ اگر اعتراض ہوا تو کیا ہو گا؟ ان پر جب اعتراض ہونا ہے تو انہوں نے کہنا ہے مولانا الیاس گھمن کو بلا لو۔ تو جب اعتراض ہو تو ہماری باری آتی ہے اور جب اعتراض نہ ہو تو پھر خطباء کی باری ہوتی ہے۔ اس لیے میں ترجمہ وہ کرنے لگا ہوں جس پر اعتراض نہ ہو۔ پہلے آپ یہ سمجھیں کہ اس ترجمہ پر اعتراض کیا ہوتا ہے؟
جب ہم یہ ترجمہ کریں گے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:
”میں آخری نبی ہوں اور میرے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا۔“
تو آپ سے مرزائی، قادیانی، منکرین ختمِ نبوت پوچھیں گے: کیا حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے آنا ہے یا نہیں آنا؟ آپ کیا جواب دیں گے؟ [آنا ہے- سامعین]
نبوت سلیکشن سے ملتی ہے الیکشن سے نہیں:
اچھا وہ پوچھیں گے: عیسیٰ علیہ السلام نبی ہوں گے یا نہیں ہوں گے؟ آپ کیا جواب دیں گے؟ [ہوں گے- سامعین] ہاں جب آئیں گے تو نبی ہوں گے۔ دنیا کے عہدے الیکشن سے ملتے ہیں اور نبوت یہ خدا کا انتخاب ہے جو سلیکشن سے ملتا ہے، الیکشن فرش پہ ہوتی ہے اور نبی کی سلیکشن عرش پہ ہوتی ہے۔ اس لیے فرشیوں کے الیکشن بدلتے رہتے ہیں اور عرش کی سلیکشن کبھی نہیں بدلتی۔ اللہ جب کسی کو نبوت دیں تو پھر نبوت لیتے نہیں ہیں۔ ہمارے انتخاب الیکشن والے ہوتے ہیں اور خدا کا انتخاب سلیکشن والا ہوتا ہے۔ ہمارا عقیدہ ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام جب آئیں گے تو نبی بھی ہوں گے اور ابھی حدیث کا ترجمہ آپ نے کیا:
”میں آخری نبی ہوں اور میرے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا۔“
اب مرزائی کہیں گے کہ جب کوئی نبی نہیں آئے گا تو پھر عیسیٰ علیہ السلام کی آمد کو کیوں مانتے ہیں؟ اب آپ پھنس جائیں گے، اب آپ کو جواب دینا پڑے گا اور یہ میرا سرگودھا کا تجربہ نہیں ہے پوری دنیا کا تجربہ ہے۔ جہاں جہاں سے لوگ پھنستے ہیں وہاں وہاں سے رابطہ ہم سے کرتے ہیں۔چونکہ ہماری مثال ڈاکٹر کی ہے صحت مند آدمی مٹھائیوں کی دکان پر جاتا ہے اور جب بیمار ہوجائے تو ڈاکٹر کے کلینک پر جاتا ہے۔ تو ظاہر ہے کہ ہمارے پاس تو بیمار ہی آئیں گے کہ ہمیں فلاں تکلیف ہو گئی ہے، ہمیں فلاںمرض لاحق ہوگیا ہے اب ہمارا علاج کرو۔
مذکورہ اعتراض کا جواب:
اب ان مرزائیوں کو ہم جواب کیا دیں گے؟ تو آپ حضرات غور سے سمجھیں کہ ہم نے ان مرزائیوں کو یہ جواب دینا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام ضرور آئیں گے، اگر چہ آپ علیہ السلام مستقل نبی ہوں گے لیکن نبی ہونے کی حیثیت سے نہیں بلکہ امتی ہونے کی حیثیت سے آئیں گے۔ میں اس کی مثال دیتا ہوں۔
توضیح بالمثال:
ابھی مغرب کی نماز میں نے آپ کی مسجد میں پڑھائی لیکن کوئی بندہ بھی نہیں کہے گا کہ ”2 بلاک کی اس مسجد کے امام مولانا الیاس گھمن ہیں۔“ ہر بندے نے کہنا ہے کہ ”امام مولانا عبدالرشید صاحب ہیں۔“ اب اگر کوئی یہ کہے کہ ”جب امام مولانا عبدالرشید صاحب ہیں تو نماز مولانا گھمن صاحب نے کیوں پڑھائی ہے؟“ تو آپ کہیں گے کہ مولانا نے ہماری مسجد میں نماز اس وجہ سے نہیں پڑھائی کہ ہماری مسجد کے امام ہیں بلکہ نماز اس وجہ سے پڑھائی ہے کہ چونکہ عالمِ دین ہیں، ہمارے مہمان ہیں، ہم نے مصلے پر کھڑا کردیا ہے۔ اسی طرح حضرت عیسیٰ علیہ السلام ہوں گے تو نبی، لیکن اس امت میں آئیں گے تو نبی ہونے کی حیثیت سے نہیں بلکہ امتی ہونے کی حیثیت سے آئیں گے۔
میں نے آپ کی مسجد میں مغرب کی نماز پڑھائی ہے تو امام ہونے کی حیثیت سے نہیں بلکہ مستقل عالم ہونے کی حیثیت سے، تو مسجد کا امام ہونا الگ حیثیت ہے اور مستقل عالم ہونا الگ حیثیت ہے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام آئیں گے تو مستقل نبی بھی ہوں گے لیکن نبی ہونے کی حیثیت سے نہیں آئیں گے بلکہ امتی ہونے کی حیثیت سے آئیں گے۔
پھر آپ سے مرزائی پوچھیں گے کہ ”امتی ہونے کی حیثیت سے آئیں گے تو نبی ہونے کی حیثیت ختم ہوجائے گی؟“ آپ نے کہنا ہے: ”نہیں“، تو وہ کہے گا کہ ”آپ نے جو ترجمہ کیا ہے کہ ”میں آخری نبی ہوں میرے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا“ تو امتی ہونے کی حیثیت سے بھی آئیں تو ہیں پھر بھی نبی نا؟! تو آپ نے نبی کا آنا تو مان لیا“ تو اب آپ کیا جواب دیں گے؟ پھر آپ نے پھنسنا ہے اور جوابات مشکل ہو جانے ہیں۔ اس لیے میں ترجمہ کرنے لگا ہوں، پہلے ترجمہ سمجھ لیں۔ آپ ترجمہ یوں کریں:
أَنَا خَاتَمُ النَّبِيِّيْنَ لَا نَبِيَّ بَعْدِيْ•
میں آخری نبی ہوں اور میرے بعد کوئی نبی پیدا نہیں ہوگا۔
”پیدا نہیں ہو گا“ کے ترجمہ کا ثبوت:
اب یہ گرائمر کی چیز ہے اور ہے بھی عربی گرائمر کی۔ چلیں میں بات اس لیے عرض کر دیتا ہوں کہ بعض علماء کا علمی فائدہ ہوجائے کہ یہ ترجمہ میں نے کیسے کیا ہے کہ ”پیدا نہیں ہوگا۔“اس حدیث میں لفظ ہیں ”لَا نَبِيَّ بَعْدِيْ“، اب ”لَا نَبِيَّ بَعْدِيْ“ کا ترجمہ یہ بنتا ہے ” میرے بعد کوئی نبی نہیں“
اب آگے والا ترجمہ کہ ”نبی نہیں ہوگا“ یا ”نبی پیدا نہیں ہوگا“ یہ حدیث میں نہیں ہے۔ تو یہ آگے والا ترجمہ کہاں سے نکلتا ہے؟ میں یہ بات اس لیے کہہ دیتا ہوں کہ آپ کی سمجھ میں بات نہ بھی آئے لیکن آپ کے علم میں ضرور ہو کہ اس کی وجہ کیا ہے؟ دراصل عربی زبان میں نحو اور گرائمر کا ضابطہ ہے کہ حدیث ”لَا نَبِيَّ بَعْدِيْ“ میں یہ” لَا“ لائےنفی جنس ہے، ”نَبِيَّ“ اس کا اسم ہے اور ” بَعْدِيْ“اس کی خبر ہے اور یہ” بَعْدِيْ“ مضاف اور مضاف الیہ ہے۔ یہ مضاف اور مضاف الیہ مل کر ایک محذوف کے متعلق ہیں۔ وہ محذوف اگر آپ چاہیں تو ”ثابتٌ“نکالیں، چاہیں تو ”موجودٌ“ نکالیں۔ ”ثابتٌ“نکالیں تو ترجمہ ہوگا: ”میرے بعد کوئی نبی نہیں ہوگا۔“ ”موجودٌ“ نکالیں تو ترجمہ ہوگا: ”میرے بعد کوئی نبی پیدا نہیں ہوگا۔“ تو آپ جو بھی محذوف نکالیں۔ یہ محذوف اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے نہیں نکالا بلکہ یہ کام علماء کے حوالے کردیا کہ علماء ضرورت کے مطابق کون سی عبارت نکالتے ہیں۔
یہ میں نے اس لیے کہا کہ آپ کی سمجھ میں بات نہ بھی آئے لیکن آپ کو پتا ہونا چاہیے کہ گرائمر کا کون سا قاعدہ یہاں پر لگتا ہے۔
سمجھ میں آیا تو اچھا ،نہ آیا تو بہت اچھا:
میں یہاں پر ایک واقعہ سنایا کرتا ہوں آپ کو بھی سنا دیتا ہوں۔ بعض لوگوں کو میرے بیان پر تعجب ہوتا ہے کہ مولانا صاحب! یہ بات جب عوام کی نہیں تھی اور عوام کی سمجھ میں نہیں آ سکتی تھی تو آپ نے عوام میں کیوں بیان کردی؟! جب سمجھ نہیں سکتے تو کیوں بیان کردی؟ اس پر میں بطور دلیل کے ایک واقعہ بیان کرتا ہوں حکیم الامت مجدد الملت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ کا، حضرت نے ایک جگہ بیان فرمایا۔ بیان خاصہ علمی تھا ،عوام کے سر وں کے اوپر سے گزرا، لوگوں کو سمجھ نہیں آیا تو ایک مولانا صاحب نے بیان کے بعد حکیم الامت مولانا تھانوی رحمہ اللہ سے عرض کیا: حضرت آپ نے اتنا مشکل بیان عوام میں کیا جو ان کی سمجھ میں نہیں آیا، ان کے سامنے ایسا بیان کرنے کی ضرورت کیا تھی جو ان کی سمجھ میں نہیں آیا؟
اب حضرت کا جواب سننا، حضرت فرمانے لگے: مولوی صاحب! اگر ان کو میرا یہ بیان سمجھ آگیا تو اچھا ہے، اگر سمجھ نہیں آیا تو بہت اچھا ہے۔ ان مولانا صاحب نے کہا: حضرت ہمیں تو آپ کا یہ جملہ بھی سمجھ نہیں آیا کہ ”بیان سمجھ آگیا تو اچھا ہے، اگر سمجھ نہیں آیا تو بہت اچھا“۔اب حضرت تھانوی رحمہ اللہ کا جملہ سمجھنا، حضرت تھانوی رحمہ ا للہ فرمانے لگے کہ اگر میرا بیان ان کو سمجھ آگیا تو اچھا کہ جو مسئلہ میں ان کو سمجھانا چاہتا ہوں وہ سمجھ آگیا ، اور اگر میرا بیان سمجھ نہیں آیا تو بہت اچھا، کیونکہ یہ عوام اس وقت گمراہ ہوتی ہے جب یہ اپنے علماء کے علم کی قائل نہیں ہوتی۔
اس وقت یہ دائیں بائیں دیکھتی رہتی ہے، کبھی ادھر سے سی ڈی دیکھ لی، ادھر سے کیسٹ سن لی، ادھر سے کتاب پڑھ لی، ادھر سے رسالہ پڑھ لیا، جب اپنے علماء کا علم تھوڑا سمجھتے ہیں اور گمراہ کرنے والے بندے کا علم زیادہ سمجھتے ہیں توکہتے ہیں کہ ہماری مسجد کا مسئلہ غلط ہے اُس مسجد کا مسئلہ ٹھیک ہے تو دوڑ کر ادھر ہوجاتے ہیں اور جب ان کے ذہن میں یہ بات بیٹھ جائے کہ ہمارے مولانا صاحب اتنے بڑے عالم ہیں کہ ہم ان کے علم تک نہیں پہنچ سکتے تو پھر ان کے پاس دلیل نہ بھی ہو تب بھی یہ گمراہ نہیں ہوتے۔ تو فرمایا کہ ان کو اگر میرا بیان سمجھ نہیں آیا تو ان کو یہ تو پتہ چل گیا کہ مولوی اشرف علی عالم بہت بڑا ہے، یہ اب کبھی گمراہ نہیں ہوں گے، میرے مقابلے میں کسی اور بندے کی بات سننے کے لیے تیار نہیں ہوں گے۔
اپنے علماء پر اعتماد کیجیے:
میں ایک بات کرتا ہوں۔ آپ کی مسجد کا عالم، آپ کی مسجد کا امام، آپ کی مسجد کا خطیب یا آپ کا پیر اور مرشد جس سے آپ کی بیعت ہے اگر آپ کے دماغ میں اس کی علمی طاقت مسلَّم ہو، اب اگر آپ کے پاس اپنے مسلک پر دلائل نہ بھی ہوں لیکن آپ کو یہ پتا ہو کہ جس عالم سے میرا تعلق ہے اس کے پاس مسائل پر دلائل بہت ہیں تو کوئی بندہ آپ کے مسئلے کے خلاف سو شبہات بھی پیش کرے تب بھی آپ کو بد ل نہیں سکتا کیوں کہ آپ کا ذہن بنا ہوا ہے کہ اس مسئلے پرمیرے پاس دلیل نہیں ہے لیکن میرے شیخ صاحب کے پاس ہے اور میرے امام صاحب کے پاس دلیل موجود ہے۔ میں ان پڑھ آں میرے کول دلیل نئی تاں میں استاداں کولوں پچھ لاں گا۔ [میں ان پڑھ ہوں، میرے پاس دلیل نہیں ہے تو میں استاذ صاحب سے پوچھ لوں گا] اب آدمی گمراہ کبھی نہیں ہوگا۔
”پیدا نہیں ہو گا“ کے ترجمہ کا فائدہ:
تو میں نے عرض کیا کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے فرمان:
أَنَا خَاتَمُ النَّبِيِّيْنَ لَا نَبِيَّ بَعْدِيْ•
کا ترجمہ اگر یہ کریں گے کہ ”میں آخری نبی ہوں اور میرے بعد کوئی نبی پیدا نہیں ہوگا۔“ تو اب اعتراض نہیں ہو گا، اس لیے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام پیدا نہیں ہوں گے بلکہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام آسمان سے نازل ہوں گے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے پیدا ہو کر آسمانوں پر جانا اور وہاں سے نازل ہونا یہ الگ بات ہے اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے بعد پیدا ہونا یہ بالکل الگ بات ہے، تو حضرت عیسیٰ علیہ السلام ”نازل“ ہوں گے اور مرزا قادیانی ”پیدا“ ہوا تھا۔ ایک ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ”نازل“ ہونا اور ایک ہے حضور کے بعد ”پیدا“ ہونا، اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے ”پیدا“ ہونے کی نفی فرمادی ہے اور ”نازل“ ہونے کا اقرار فرما لیا ہے۔ اس لیے ہم حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو مانتے ہیں کیونکہ وہ نازل ہوں گے اور مرزے قادیانی کو نہیں مانتے کیونکہ وہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد پیدا ہوا ہے۔
حضرت امیر شریعت کا واقعہ:
مجھے اس پر ایک چھوٹا سا واقعہ یاد آیا امیر شریعت سید عطاء اللہ شاہ بخاری رحمہ اللہ کا۔ حضرت کے ساتھ ایک مرزائی گفتگو کرنے لگا اور اس مرزائی نے گفتگو کرتے ہوئے یہ بات کہی کہ ہمارامرزا غلام احمد بھی نبی ہے۔ امیر شریعت عطاء اللہ شاہ صاحب بخاری رحمہ اللہ نے پوچھا: کیوں؟ اس نے کہا: جی ان کا ذکر قرآن میں ہے کہ حضرت عیسیٰ نے بشارت دی ہے۔ حضرت امیر شریعت عطاء اللہ شاہ صاحب بخاری رحمۃ اللہ علیہ تعجب سے پوچھنے لگے: کون سی آیت ہے جس میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی بشارت مرزے کے بارے موجود ہے۔ اس نے کہا: جی قرآن کریم میں ہے:
وَمُبَشِّرًا بِرَسُولٍ يَأْتِي مِنْ بَعْدِي اسْمُهُ أَحْمَدُ•
کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے فرمایا: میں تمہیں بشارت دیتا ہوں کہ میرے بعد ایک ایسا رسول آئے گا جس کا نام احمد ہے۔
تو دیکھو ہمارے نبی کی بشارت قرآن کریم میں موجود ہے جو عیسیٰ علیہ السلام نے دی ہے، حضرت امیر شریعت پوچھنے لگے کہ قرآن مجید میں جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی بشارت کے الفاظ ہیں اس میں تو لفظ ”احمد“ ہے اور تمہارے نبی جس کو تم مانتے ہو وہ ”غلام احمد“ ہے۔ وہ مرزائی کہنے لگا: اس میں کیا فرق پڑتا ہے؟ ”غلام“ کاٹ دو پیچھے ”احمد“ رہ جاتا ہے اور احمد کی بشارت ہے۔
امیر شریعت حضرت عطاء اللہ شاہ بخاری فرمانے لگے: نبی تو بنانا ہے میں نے، تو جب میں نے نبی بنایا ہی نہیں تو وہ نبی کیسے بن سکتا ہے؟ نبی بنانا تو میرے ذمے ہے، میں جس کو نبوت دوں وہ نبی بنتا ہے، جس کو نبوت نہ دوں وہ نبی نہیں بنتا۔ میں نے اس کو نبوت نہیں دی تو وہ نبی کیسے بنا؟ وہ مرزائی کہنے لگا: آپ نبوت کیسے دیتے ہیں؟ آپ نے فرمایا: میں اللہ ہوں، اللہ نبی بناتا ہے تو میں اللہ ہوں۔ اس نے کہا: جی آپ تو اللہ نہیں، آپ تو عطاء اللہ ہیں۔
فرمایا: لفظ ”عطاء“ کاٹ دو نا، باقی ”اللہ“ رہ جاتا ہے، تو میں اللہ ہوں۔ اس نے کہا :جی یہ کیسے ہوسکتا ہے؟ تو انہوں نے کہا: پھر وہ کیسے ہوسکتا ہے؟ اگر ”غلام“ کاٹنے سے ”احمد“ بنتا ہے تو ”عطاء“ کاٹنے سے ”اللہ“ بنتا ہے۔ میں نبی بناواں گا تے بنے گا نا! (میں نبی بناؤں گا تو وہ نبی بنے گا) اس کو میں نے نبی نہیں بنایا، اس لیے یہ نبی نہیں بن سکتا۔ یہ باتیں بسا اوقات موقع کی مناسبت سے کہنی پڑتی ہیں کسی بندے کو بات سمجھانے کے لیے۔
عقیدہ نزولِ مسیح علیہ السلام:
ہمارا عقیدہ ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام پیدا ہوئے،آپ کو خدا نے زندہ آسمان پر اٹھالیا، اب قیامت سے پہلے دوبارہ آسمان سے نازل ہوں گے۔ میں ان شاء اللہ پھر کبھی نزولِ مسیح علیہ السلام پر دلائل بھی دوں گا اور نزولِ مسیح کی حکمتیں بھی پیش کروں گا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے دوبارہ کیوں آنا ہے؟ اس کی وجہ کیا ہے؟ آدمی کے دماغ میں عقلی دلیلیں بھی آنی چاہییں تا کہ پتا چلے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے کیوں آنا ہے؟ قرآن بھی دلیل ہے، حدیث بھی دلیل ہے اور عقلی توجیہات بھی آپ کو معلوم ہوں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے دوبارہ کیوں تشریف لانا ہے؟
غامدی صاحب کا بے بنیاد نظریہ:
ہمارے پاکستان کے غیر مہذب قسم کے غیر عالم دانشور ہیں، اب وہ پاکستان چھوڑ کے دوڑ گئے ہیں، ان کا نام ہے ”جاوید احمدغامدی“۔ اس جاوید غامدی نے امت کو یہ نظریہ دیا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر موت آئی ہے اورموت کے بعد اللہ نے اٹھایا ہے، زندہ آسمان پر نہیں اٹھایا۔ اب وہ دلیل اس انداز میں پیش کرے گا کہ کالج کا طبقہ بہت جلد قابو میں آتا ہے کہ بہت مضبوط دلیل پیش کی ہے۔ ان کی ذرا دلیل سنیں جس بنیاد پر کالج کے لڑکے قابو آتے ہیں اور کور (Cover) ہوتے ہیں۔ اس نے کہا قرآن مجید میں اللہ رب العزت نے فرمایا:
إِذْ قَالَ اللّهُ يَا عِيْسٰى إِنِّيْ مُتَوَفِّيْكَ وَرَافِعُكَ إِلَيَّ•
اللہ نے فرمایا: اے عیسیٰ میں تجھے وفات دوں گا اور اپنے پاس اٹھالوں گا۔
وَمُطَهِّرُكَ مِنَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا•
(آل عمران: 55)
اور ان کافروں سے میں تجھ کو پاک رکھوں گا، ان کے ناپاک ہاتھ میں تیرے جسم کو لگنے نہیں دوں گا۔
اب اس نےکہا: ”دیکھو قرآن کریم کی ترتیب ہے کہ میں ان کو موت دوں گا، موت کے بعد اٹھالوں گا اور کافروں سے تجھے بچالوں گا اور میں بھی یہی بات کہتا ہوں کہ حضرت عیسیٰ پر موت کا آنا یہ کوئی غلط بات نہیں ہے، حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم پر موت آئی ہے، گزشتہ انبیاء پر موت آئی ہے، ان پر موت آگئی تو ان کی توہین نہیں ہے۔“ اب کالج کا بندہ بہت جلدی اس بات کو قبول کرتا ہے، وہ تاجر جس کے پاس دلائل نہیں ہیں بہت جلدی اس بات کو قبول کرتا ہے کہ بھائی! حضرت آدم علیہ السلام پر وفات آئی، حضرت نوح علیہ السلام، حضرت ابراہیم علیہ السلام، حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم ان سب پر موت آئی ہے، اگر حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر موت آگئی تو کوئی تعجب کی بات نہیں ہے۔ اللہ نے فرمایا: میں تجھے موت دوں گا اور تجھ کو اٹھالوں گا اور تجھ تک ان کو پہنچنے نہیں دوں گا، اللہ پاک نے موت دی ہے اور آسمان پر اٹھالیا ہے اور یہ جو یہودی چاہتے تھے ہم سولی پر لٹکادیں گے خدا نے بچایا ہے اور یہ جو چاہتے تھے ان کے جسم کو مُثلہ کریں گے تو اس سے خدا نے بچایا ہے، تو غامدی کہتا ہے کہ میں وہ بات کہتا ہوں جو قرآن مجید کے مطابق ہے۔ اب عام بندے سمجھتے ہیں کہ بات اس نے بڑی معقول کی ہے۔
شانِ نزول کی اہمیت:
ہمارے ہاں 87 جنوبی مرکز اہل السنت و الجماعت میں 12 روزہ تحقیق المسائل شروع ہے، میں نے اس میں آج ایک بات کی تھی، میں اس درس میں اسےاپنی دلیل کے حوالے سے عرض کرتا ہوں۔ میں نے کہا تھا کہ قران کریم کے سمجھنے کے لیے بنیادی تین اصول ہیں۔ ان میں ایک اصول ہے کہ قرآن کا پس منظر، قرآن کا شان نزول اور قرآن کا بیک گراونڈ (Background) معلوم ہو۔ آیت کا شانِ نزول، آیت کا پس منظر اور بیک گراونڈ جب تک معلوم نہ ہو اس وقت تک قرآن سمجھ میں نہیں آسکتا۔شانِ نزول سے مراد یہ ہے کہ یہ آیت اللہ نے کس پسِ منظر میں نازل فرمائی ہے، یہ ارشاد کس پسِ منظر میں فرمایا، جب تک وہ پسِ منظر دماغ میں نہ آئے گا اس وقت تک قرآن سمجھ میں نہیں آسکتا۔ یہ جو اللہ رب العزت نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو بات فرمائی تو کس موقع پر فرمائی، اس کا بیک گراونڈ کیا ہے؟
ذرا اس کو ذہن میں رکھیں تو پھر فیصلہ کریں کہ غامدی صاحب کی رائے ٹھیک ہے یا ہماری رائے ٹھیک ہے؟ پس منظر اس کا یہ ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے اعلانِ نبوت فرمایا، امت کو دین کی دعوت دی تو یہودی ان کے مخالف اور دشمن ہوگئے۔ یہودیوں نے فیصلہ کیا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو قتل کردیں۔ انہوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو گرفتار کرنا چاہا۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے جان بچانی چاہی، آگے کمرہ تھا، حضرت عیسیٰ علیہ السلام کمرے میں تشریف لے گئے، دروازہ بند کرلیا، اب یہودی باہر کھڑے ہیں ان کی جان لینے کے لیے، وہ اندر ہیں اپنی جان بچانے کے لیے-
توجہ رکھنا- یہودی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو قتل کرنا چاہتے ہیں۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اللہ سے دعا کرتے ہیں: اے میرے اللہ! مجھے ان ظالموں سے بچالے، مجھے ان کے قتل سے بچالے۔ عیسیٰ علیہ السلام دعا فرماتے ہیں تواللہ رب العزت عیسیٰ علیہ السلام کو تسلی دیتے ہیں کہ اے عیسیٰ! آپ گھبرائیں نہیں، یہ آپ کو قتل نہیں کرسکتے، موت میں نے دینی ہے، وفات میں نے دینی ہے، موت میرے اختیار میں ہے، یہودی آپ کو مار نہیں سکتے۔ (عیسیٰ علیہ السلام نے عرض کی) اللہ! یہ باہر کھڑے ہیں، مجھے یقین ہے کہ موت آپ دیں گے لیکن آپ مجھے ان سے بچائیں گے کیسے؟ اللہ رب العزت نے فرمایا:رَافِعُكَ إِلَيَّ• میں تجھے اپنی طرف اٹھالوں گا اور تجھ تک ان کے جسم کو پہنچنے نہیں دوں گا۔
تسلی پہلے دی جاتی ہے:
حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو پہلے تسلی دی ہے پھر اس کی صورت بتائی ہے۔ اس کی مثال سمجھیں۔ میں آپ کے 2 بلاک میں درسِ حدیث دینے کے لیے آیا۔ مجھے سرگودھا کی انتظامیہ کہتی ہے کہ اگر آپ درس کے لیے گئے تو ہم آپ کو گرفتار کرلیں گے، آپ نے اس مسجد میں درس نہیں دینا۔ میں نے آپ سے رابطہ کیا: بھائی وہ لوگ کہتے ہیں گرفتار کرلیں گے۔
آپ کہتے ہیں: مولانا گھبرائیں نہیں۔ اب میں مسجد کے اندر پہنچا تو پولیس نے چاروں طرف سے مسجد کو گھیرا- میں مثال دے رہا ہوں- آپ کہتے ہیں: مولانا صاحب! بیان فرمائیں۔ میں نے کہا: بیان تو میں کروں گا لیکن یہ جو باہر کھڑے ہیں مجھے گرفتار کرلیں گے۔ آپ کہتے ہیں: ہم میزبان ہیں ہمارے ذمے ہے ہم آپ کو گھر تک پہنچائیں گے۔ میں نے کہا: میں آپ پر اعتماد کرتا ہوں لیکن مجھے کوئی صورت تو بتاؤ نا، یہ تو مسجد گھیر کر کھڑے ہیں، آپ مجھے کیسے بچاؤ گے؟-
توجہ رکھنا- آپ محراب کی طرف اشارہ کرتے ہوئے مجھے کہتے ہیں: مولانا صاحب! ذرا اِدھر دیکھیں، اِدھر دیکھیں کا کیا مطلب؟ اس کا مطلب کہ محراب میں دروازہ ہے، پولیس والے اُدھر کھڑے ہیں، انہیں اِس راستے کا پتہ نہیں ہے۔ ہم آپ کو اِس راستے سے نکالیں گے، یہاں سے ایک سیڑھی ہے جو سیدھی اوپر گھر کو جاتی ہے، گھر سے دوسرے مکان کی چھت پر اتاریں گے، وہاں سے گاڑی گزرے گی یوں آپ نکل جائیں گے۔
اب میں آپ سے کہہ رہا تھا: مجھے پولیس والے گرفتار کریں گے۔ آپ نے کہا: گرفتار کرنے نہیں دیں گے۔ میں نے کہا: مسجد کے باہر چاروں طرف پولیس کھڑی ہے، آپ مجھے کیسے بچائیں گے؟ آپ نے کہا: اِدھر دیکھیں۔ آپ نے مجھے تسلی کی صورت بتائی ہے۔ آپ نے یہاں محراب سے نکلنے والا راستہ دکھایا اور پھر کہا کہ ہم آپ کو گھر پہنچادیں گے۔
اے عیسیٰ! موت تجھے میں نے دینی ہے:
حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے اللہ سے عرض کیا :اللہ آپ مجھے بچائیں گے لیکن باہر چاروں طرف یہودی کھڑے ہیں، یہ مجھے مارنا چاہتے ہیں، آپ کہتے ہیں میں بچاؤں گا مجھے اس پر پورا یقین ہے- اب توجہ رکھنا- جب حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے دعا مانگی کہ یا اللہ! مجھے بچا، یہ یہودی باہر کھڑے ہیں تو اللہ نے پہلے فرمایا:ﯘإِنِّي مُتَوَفِّيكَ ﯗعیسیٰ! گھبرانا نہیں ہے، تجھے یہ موت نہیں دے سکتے، موت میں نے دینی ہے، یہ تجھے نہیں ماریں گے، وفات میرے اختیار میں ہے، موت میرے قبضے میں ہے۔ تو ”إِنِّي مُتَوَفِّيكَ“ کہہ کر عیسیٰ علیہ السلام کو تسلی دی ہے کہ یہ تجھے نہیں مار سکتے، موت میں نے دینی ہے۔ (عیسیٰ علیہ السلام نے کہا) اللہ یہ بات تو میں مانتا ہوں لیکن یہ باہر گھیرے کھڑے ہیں، آپ مجھے بچائیں گے کیسے؟
فرمایا:ﯘرَافِعُكَﯗہم تجھے اٹھالیتے ہیں۔تو ﯘإِنِّي مُتَوَفِّيكَﯗ کہہ کر تسلی دی ہے اور ﯘرَافِعُكَﯗکہہ کر اس کی صورت بتائی ہے۔ دیکھو اگر قرآن سمجھ آئے تو بات کتنی کھل کر سامنے آرہی ہے۔
اب بتاؤ ﯘإِنِّي مُتَوَفِّيكَﯗ پہلے کہنا چاہیے تھا یا ﯘرَافِعُكَﯗ پہلے کہنا چاہیے تھا؟ [إِنِّي مُتَوَفِّيكَ پہلے کہنا چاہیے تھا۔ سامعین] اب ﯘإِنِّي مُتَوَفِّيكَﯗ پہلے کہنا اس بات کی دلیل نہیں کہ پہلے موت آئی ہے، ﯘإِنِّي مُتَوَفِّيكَﯗ پہلے کہنا اس بات کی دلیل ہے کہ اللہ نے خود موت اپنے ہاتھ میں بتاکر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو تسلی دی ہے۔
خیر میں عرض کر رہا تھا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: أَنَا خَاتَمُ النَّبِيِّيْنَ لَا نَبِيَّ بَعْدِيْ• میں آخری نبی ہوں اور میرے بعد کوئی نبی پیدا نہیں ہوگا۔
اس عقیدہ (ختمِ نبوت) کو ذہن نشین فرما لیں، یہ ہمارا نظریہ ہے۔ اب جو مسائل میں نے آپ کو سمجھانے ہیں، میں وہ شروع کرنے لگا ہوں۔
امت کی رہنمائی کون کرے؟
سوال یہ ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم آخری نبی ہیں، آپ علیہ السلام کے بعد کوئی نبی پیدا نہیں ہوگا لیکن یہ بات تو طے شدہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی امت نے قیامت تک رہنا ہے۔ تو جب کوئی نیا نبی قیامت تک نہیں آئے گا تو اب سوال یہ ہے کہ قیامت تک امت کی رہنمائی کون کرے گا؟ امت کو سمجھائے گا کون؟ امت کو دین کی طرف لے جائے گا کون؟ امت کس کے پیچھے چلے گی؟ ان میں سے چار طبقات وہ ہیں کہ جن کا تذکرہ احادیث میں موجود ہے۔
 نمبر 1: خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم
 نمبر2: صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین
 نمبر 3: فقہاء کرام
 نمبر4: علماء کرام
یہ چار طبقے وہ ہیں جوپیغمبر صلی اللہ علیہ و سلم کے جانے کے بعد قیامت تک امت کی رہنمائی کریں گے۔
امت میں اختلاف ہو تو کس کی رہنمائی میں چلیں؟
حدیث مبارک میں موجود ہے حضرت عرباض انصاری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
صَلّٰى بِنَا رَسُولُ اللّهِ صلى الله عليه وسلم ذَاتَ يَوْمٍ•
ایک دن اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے ہمیں نماز پڑھائی۔
ثُمَّ أَقْبَلَ عَلَيْنَا•
پھر آپ علیہ السلام (نماز کے بعد )ہماری طرف متوجہ ہوئے۔
فَوَعَظَنَا مَوْعِظَةً بَلِيغَةً ذَرَفَتْ مِنْهَا الْعُيُونُ وَوَجِلَتْ مِنْهَا الْقُلُوبُ•
اللہ کے نبی نے ایسا بلیغ وعظ فرمایا کہ آنکھوں سے آنسو گرنے لگے اور دل تھے کہ کانپنے لگے۔
فَقَالَ قَائِلٌ يَا رَسُولَ اللَّهِ كَاَنَّ هَذِهِ مَوْعِظَةُ مُوَدِّعٍ فَمَاذَا تَعْهَدُ إِلَيْنَا•
ایک صحابی کھڑے ہوئے انہوں نے کہا: اللہ کے نبی! آج آپ کی گفتگو سے ایسے لگتا کہ شاید دوبارہ ہمیں آپ کی تقریر سننے کا موقع نہ ملے، ہمیں یوں لگتا ہے آپ دنیا سے جارہے ہیں، آپ باتیں ایسے فرمارہے ہیں جیسے کوئی دنیا سے جانے والا بات کہے، اللہ کے نبی ہمیں نصیحت کردیں، ہمیں کوئی باتیں سمجھادیں (تاکہ ہم آپ کے جانے کے بعد ان باتوں کو پلے باندھ کر چلتے رہیں ) اللہ کے نبی نے فرمایا:
أُوْصِيْكُمْ بِتَقْوَى اللَّهِ وَالسَّمْعِ وَالطَّاعَةِ وَإِنْ عَبْدًا حَبَشِيًّا فَإِنَّهُ مَنْ يَعِشْ مِنْكُمْ بَعْدِى فَسَيَرَى اخْتِلاَفًا كَثِيرًا•
میں تم لوگوں کو تقویٰ کی اور سننے اور ماننے کی وصیت کرتا ہوں خواہ تمہارا حاکم حبشی غلام ہی کیوں نہ ہو۔ اس لیے کہ جو تم میں سے میرے بعد زندہ رہا وہ (دین میں) بہت سارے اختلافات کو دیکھے گا۔ (-توجہ رکھنا- دین میں اختلافات کو دیکھے گا، آج جو ہماری الجھن پیدا ہوتی ہے کہ جی دین میں اختلافات بہت زیادہ ہیں، یہ الجھن کی بات نہیں ہے اللہ کے نبی نے خود فرمایا تھا کہ میں دنیا سے چلا جاؤں گا اور میرے جانے کے بعددین میں اختلافات دیکھنے پڑیں گے لیکن ان اختلافات سے بچنے کا طریقہ کیا ہوگا ؟) تو فرمایا:
فَعَلَيْكُمْ بِسُنَّتِى وَسُنَّةِ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ الْمَهْدِيِّينَ•
(سنن ابی داؤد: باب فی لزوم السنۃ)
تم نے میری سنت کو لازم پکڑنا ہے، ( میری سنت کی پابندی کرنی ہے، میری سنت پر عمل کرنا ہے) اور خلفاء راشدین رضی اللہ عنہم کی سنت کو لازم پکڑنا ہے۔
تو تم نے اختلافات سے کیسے بچنا ہے؟ دو طریقوں سے:
نمبر1: سنتِ مصطفیٰ علیہ السلام:
فَعَلَيْكُمْ بِسُنَّتِى•
تم نے میری سنت کو لازم پکڑنا ہے۔
اللہ کے نبی نے یہ نہیں فرمایا: علیکم بحدیثی•
تم میری حدیث کو لازم پکڑنا، بلکہ فرمایا: عَلَيْكُمْ بِسُنَّتِى•
تم نے میری سنت کو لازم پکڑنا ہے۔ اس کی وجہ کیا ہے؟ میں دو تین وجہیں پیش کرتا ہوں۔
حدیث کے بجائے سنت کہنے کی وجہ:
وجہ نمبر1:
ایک مسئلے پر دو حدیثیں تو ہوسکتی ہیں لیکن ایک مسئلے پر دو سنتیں نہیں ہوسکتیں۔
وجہ نمبر2:
ایک مسئلے پر ہوسکتا ہے کہ ایک حدیث منسوخ ہو اور ایک ناسخ ہو لیکن سنت کے مسئلے پر ایسا نہیں ہوسکتا کہ ایک سنت منسوخ ہو اور ایک سنت ناسخ ہو، حدیثیں تومنسوخ ہوسکتی ہیں لیکن سنتیں کبھی منسوخ نہیں ہوسکتیں۔
وجہ نمبر3:
حدیث ضعیف بھی ہوسکتی ہے، سنت کبھی ضعیف نہیں ہوسکتی۔ آپ دنیا میں گھوم کے دیکھیں، علماء کے بیانات سنیں، ہمارے موافقین کو نہیں ہمارے مخالفین کو بھی سنیں کہ وہ یہ تو کہیں گے کہ یہ حدیث ضعیف ہے لیکن یہ کبھی نہیں کہیں گے کہ یہ سنت ضعیف ہے، حدیث کو ضعیف کہہ دیں گے، سنت کو ضعیف کبھی نہیں کہیں گے۔تو اللہ کے نبی نے ”فَعَلَيْكُمْ بِحَدِیْثِیْ“نہیں فرمایا بلکہ ”فَعَلَيْكُمْ بِسُنَّتِى“ فرمایا ہے کہ میری سنت کو لازم پکڑنا۔ میں نے تین دلیلیں دی ہیں، آپ ان دلیلوں کو ذہن میں رکھا کرو۔
عمل سنت پہ ہو گا:
یہی وجہ ہے کہ آپ کسی بھی جگہ کہہ دو: ”اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے سنت پر عمل کی بات کی ہے، حدیث پر عمل کی بات نہیں کی۔“ اس کی وجہ یہ ہے کہ حدیث وہ بھی ہے جو پہلے دور کی ہے اور حدیث وہ بھی ہے جو بعد کے دور کی ہے لیکن سنت وہ نہیں ہے جو پہلے دور کی ہے، سنت وہی ہے جو آخری دور کی ہے۔
آپ نے سنا ہو گا کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:اَلنِّكَاحُ مِنْ سُنَّتِيْ• نکاح میری سنت ہے۔
(سنن ابن ماجۃ: رقم الحدیث1839)
یہ نہیں فرمایا: ”النکاح من حدیثی“
اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:
من تمسك بسنتي عند فساد أمتي فله أجر مائة شهيد•
(مشکوٰۃ المصابیح: رقم الحدیث176)
جو میری ایک سنت کو زندہ کرے اللہ اسے سو شہیدوں کا اجر دے گا۔
یہ نہیں فرمایا: جو میری حدیث کو زندہ کرے اللہ اسے سو شہیدوں کا اجر دے گا۔
تو اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایاکہ اگر دین میں اختلاف نظر آئے تو میری سنت کے ذریعے اختلاف کو مٹانا۔
یہ نہیں فرمایا کہ میری حدیث سے اختلاف مٹانا۔ تو اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے بات ”سنت“کی فرمائی ہے۔
دیوبند کا ذوق:
اب ذرا ذوق کی بات سمجھیں۔ آپ دیوبند والوں کے پاس آئیں، دیوبند کے پاس جہاں شعبہ جہاد کا ہے، جہاں شعبہ مناظرے کا ہے، جہاں شعبہ خانقاہ کا ہے، جہاں شعبہ سیاست کا ہے، جہاں شعبہ مدرسے کا ہے وہیں شعبہ دعوت و تبلیغ کا بھی ہے۔ آپ جب بھی دعوت و تبلیغ میں جائیں آپ نے کبھی نہیں سنا ہوگا: ”بھائی! ایک حدیث پر عمل کرنے سے اتنا اجر ملتا ہے“
بلکہ کہتے ہیں: ”ایک سنت پر عمل کرنے سے اتنا اجر ملتا ہے۔“ وہ یہ نہیں کہتے: ”حدیثیں زندہ کرو! “ وہ یہ کہتے ہیں: ”سنتیں زندہ کرو! “ وہ یہ نہیں کہتے: ”اللہ حدیثیں مٹنے کا غم پیدا فرمادے“ بلکہ وہ کہتے ہیں: ”اللہ سنتیں مٹنے کا غم پیدا فرمادے“ اس لیے کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے ترغیب ”سنت“ پر عمل کرنے کی دی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم اپنے آپ کو ”اہل حدیث“ نہیں کہتے چونکہ پیغمبر صلی اللہ علیہ و سلم نے سنت کو پکڑنے کا حکم دیا ہے ”فَعَلَيْكُمْ بِسُنَّتِى“ اس لیے ہم اپنے آپ کو ”اہل السنۃ و الجماعۃ“ کہتے ہیں۔
درسِ سنت کے بجائے درسِ حدیث کیوں؟
اب آپ کے ذہن میں سوال آجائے گا کہ آپ کو پھر درس حدیث کی ضرورت کیا پڑی ہے؟ ”درس سنت“ بھی رکھ لیں، ”درس حدیث“ کی ضرورت ہی کیا پڑی ہے؟ذہن میں سوال تو آتا ہے نا؟ میں ساری الجھنیں دور کرتا ہوں تاکہ کوئی الجھن رہ نہ جائے۔ کوئی بندہ یہ نہ کہے کہ اس عنوان پر فلاں اعتراض باقی ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ ہم نے ”درس حدیث“ اس لیے شروع کیا ہے کہ سنت جو بھی ہوگی وہ یا تو قرآن سے ثابت ہوگی یا حدیث سے ثابت ہوگی، ہم قرآن اور حدیث پڑھ کر بتائیں گے کہ یہ سنت ہے، اگر حدیث پڑھے بغیر بتایا تو لوگ کہیں گے یہ حدیث کی بات ہی نہیں کرتے۔ ہم حدیث پڑھ کر بتائیں گے کہ فلاں فلاں حدیث سے فلاں فلاں سنت ثابت ہے، ہم اس لیے عنوان درس حدیث رکھتے ہیں تاکہ کوئی بندہ آپ سے یہ عنوان کھینچ نہ لے، عنوان آپ کے پاس رہنا چاہیے۔
نمبر2: سنتِ خلفاء راشدین رضی اللہ عنہم
وَسُنَّةِ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ الْمَهْدِيِّينَ•
تم نے خلفاء راشدین (رضی اللہ عنہم)کی سنت کو لازم پکڑنا ہے۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم سمجھارہے ہیں کہ میں دنیا سے چلا جاؤں گا۔ میرے بعد تمہاری رہنمائی کون کرے گا؟ تو فرمایا: خلفاء راشدین۔
تَمَسَّكُوْا بِهَا وَعَضُّوْا عَلَيْهَا بِالنَّوَاجِذِ•
تم نے ان کی سنت کو مضبوطی سے تھامنا ہے اور تم جس طرح داڑھ کے ساتھ کسی چیز کو مضبوطی سے پکڑتے ہو اسی طرح سنت کو مضبوطی سے تھامنا ہے۔
اب ذرا ایک نکتہ سمجھنا۔ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:
فَإِنَّهُ مَنْ يَعِشْ مِنْكُمْ بَعْدِى فَسَيَرَى اخْتِلَافًا كَثِيرًا.
میں دنیا سے چلا جاؤں گا تم دین میں اختلاف دیکھو گے۔
دو چیزیں فرمائیں:
” فَعَلَيْكُمْ بِسُنَّتِى“ اور ”وَسُنَّةِ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ“
پہلی نبی کی سنت، دوسری خلفاء راشدین کی سنت۔
سنت نبی اور سنت خلفاء راشدین دونوں پر عمل ضروری:
آگے فرمایا:
تَمَسَّكُوْا بِهَا•
اب یہ گرائمر کا مسئلہ ہے مگر اتنی گرائمر کی سمجھ بوجھ تو ہر بندہ رکھتا ہے۔
”سنتی و سنۃ الخلفاء الراشدین“
یہ سنتیں دو ہیں اور”بہا“ یہ ضمیر واحد کی ہے۔ جب سنتیں دو ہیں تو ضمیر واحد کی نہیں بلکہ تثنیہ کی ”بہما“ ہونی چاہیے تھی۔ سنت ایک ہو تو ”بہا“فرمائیں، دو ہوں تو ”بہما“ فرمائیں لیکن ”تَمَسَّكُوْا بِهَا“ فرمایا، ”عَضُّوا عَلَيْهَا“فرمایا۔ سوال یہ ہے کہ جب سنتیں دو ہیں تو نبی کو ”بہا“ فرمانا چاہیے یا ”بہما“؟ [بہما- سامعین]
لیکن اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے ”بہما“ کی جگہ ”بہا“ کا لفظ کیوں فرمایا؟ یہ بتانے کے لیے کہ دین پر عمل کرنے کے لیے جس طرح نبی کی سنت پر عمل کرنا ضروری ہے اسی طرح خلیفہ راشد کی سنت پر عمل کرنا بھی ضروری ہے، جس طرح نبی کی سنت ہدایت ہے اسی طرح خلیفہ راشد کی سنت بھی ہدایت ہے، نبی کی سنت کو چھوڑیں تو گمراہی اور ضلالت ہے اسی طرح خلیفہ راشد کی سنت کو چھوڑیں تو گمراہی اور ضلالت ہے۔ اگر چہ دیکھنے میں دو ہیں مگر در حقیقت ایک ہے۔ دیکھنے میں دونظر آتی ہیں حقیقت میں دو نہیں ہیں، خلیفہ راشد کی سنت وہاں نہیں ہوتی جہاں نبی کی سنت موجود ہو، خلیفہ راشد کی سنت ہوتی وہاں پر ہے جہاں پر نبی کی سنت موجود نہ ہو اس وقت خلیفہ راشد کی سنت نبی کی سنت کی جگہ پر آجاتی ہے، اس لیے کہ خلیفہ راشد نبی کا جانشین ہے، خلیفہ راشد نے کام کون سا کیا ہے؟!
علماء کی زبان میں کہتے ہیں ”خلفاء راشدین کا زمانہ تکمیلِ نبوت کا زمانہ ہے۔ “ تکمیل نبوت کا معنی کیا ہے؟ کوئی یہ نہ سمجھے کہ نبوت کامل نہیں تھی خلفاء نے اس کو مکمل کردیا بلکہ تکمیل نبوت کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کے نبی دنیا سے چلے گئے، جو کام نبی نے کرنے تھے اللہ کے نبی نے وہ کام خلفاء کے ذمے لگادیے ،اب اللہ کے نبی والا کام خلفاء نے مکمل کیا، اللہ کے نبی تو چلے گئے نا، اب جو کام نبی نے کرنے تھے اللہ کے نبی نے خلیفہ کو اپنے مصلّے پر کھڑا کیا، اب انہوں نے نبی والے کام کو آگے بڑھایا، اب نبی کے کام کو آگے پہنچایا، نبی کے کام کو مکمل کیا خلفاء راشدین نے۔
جمع قرآن کا پسِ منظر:
اس پر میں ایک مثال دیتا ہوں- بہت ساری غلط فہمیاں آپ کی دور ہوں گی- ہمارے ہاں ایک نعرہ لگتا ہے ”جامع القرآن ہے… جامع القرآن ہے… “آگے؟[ عثمان ہے… عثمان ہے… -سامعین] اب اس کا کیا مطلب ہوا قرآن مجید کو جمع حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے کیا ہے؟ [نہیں- سامعین] نعرے کا یہی معنی ہوگا نا کہ قرآن مجید جمع حضرت عثمان نے کیا ہے، جب حقیقت اور ہے تو پھر یہ نعرہ کیوں لگتا ہے؟ نعرہ بھی ٹھیک ہے- اب ذرا بات سمجھنا- قرآن مجید نازل کس پر ہوا؟ [رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر۔ سامعین]، اللہ کے نبی پر قرآن بیک وقت سارا اترا یا تھوڑا تھوڑا ہو کر اترا؟ [تھوڑا تھوڑا۔ سامعین]
اچھا! جتنا اترتاتھا حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم اتنا لکھوالیتے تھے، حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ بھی موجود ہیں، حضرت زید رضی اللہ عنہ بھی موجود ہیں، حضرت علی رضی اللہ عنہ بھی موجود ہیں اور کاتبین وحی اور بھی موجود ہیں، قرآن جتنا اترتا جاتا حضور صلی اللہ علیہ وسلم لکھواتے جاتے۔ اللہ کے نبی پر تھوڑا تھوڑا اترا اللہ کے نبی تھوڑا تھوڑا لکھواتے رہتے، حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر مختلف جگہوں پر اترا حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے لکھوا کر مختلف جگہوں پر رکھوایا۔ اکٹھا ایک جگہ لکھا ہوا نہیں تھا۔
حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے دور میں مسیلمہ کذاب سے جنگ ہوئی۔ اس جنگ میں شہید ہونے والے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین رحمہم اللہ کی تعداد بارہ سو ہے، ان بارہ سو میں سے سات سو قرآن مجید کے حافظ تھے۔ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے عرض کیا کہ یہ جو تھوڑا تھوڑا قرآن الگ الگ جگہوں پر موجود ہے، اس کو ایک جگہ پر اکٹھا کرا دیں۔
حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی دلیل سمجھنا! ابو بکر صدیق کہنے لگے: میں ایک جگہ پر اکٹھا نہیں کروں گا، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے پوچھا کیوں؟ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا: عمر! کیا حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن کو ایک جگہ جمع کیا تھا؟ کہا جی نہیں، فرمایا: جب نبی نے ایک جگہ پر اکٹھا نہیں کیا تو میں کس طرح کروں؟ جو کام نبی نے نہیں کیا وہ کام میں کس طرح کروں؟ یہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی دلیل تھی۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرمانے لگے:
فیہ خیر فیہ خیر فیہ خیر•
بہتر یہ ہے کہ جمع کرلیں، صدیق اکبر کہنے لگے: جو کام نبی نے نہیں کیا میں کیسے کروں؟ حضرت عمر کہنے لگے: بہتر یہ ہے کہ کرلیں۔ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: جو کام نبی نے نہیں کیا میں کیسے کروں؟ اب حضرت عمر رضی اللہ عنہ دلیل پیش فرمانے لگے، حضرت عمر کہتے ہیں: بہتر ہے کہ کرلیں فیہ خیر، فیہ خیر، فیہ خیر، حضرت عمر نے اتنی بار یہ بات کی کہ حضرت ابوبکر فرماتے ہیں: عمر کی وجہ سے خدا نے میرے دل کو کھول دیا اور شرح صدر فرمایا اور میرے دل نے مان لیا کہ قرآن کو ایک جگہ جمع کرلینا چاہیے۔
حضرت عمر کی رائے:
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی یہ رائے کیوں تھی؟انہوں نے کہا: دیکھو صحابہ میں سے بہت سارے حضرات شہید ہوگئے ہیں، قرآن الگ الگ جگہ پہ موجود ہے، اب قرآن الگ جگہ پہ ہوگا اور حافظ بھی کوئی نہ رہا تو بعد میں امت قرآن کے ساتھ نا معلوم کیا معاملہ کرے گی؟ کسی کو ایک پارہ، کسی کو ایک سورۃ، کسی کو دس سورتیں پہنچیں گی تو یہ عجیب معاملہ بن جائے گا۔ آپ اپنی زندگی میں ایک جگہ پر جمع کرا دیں، آپ خلیفہ رسول ہیں، آپ حضور کے جانشین ہیں، آپ پر امت اعتمادکرے گی، بعد کے لوگوں نے جمع کیا تو مسئلہ بن جائے گا، حضرت سیدنا صدیق اکبر نے ایک جگہ پہ قرآن جمع کر لیا۔
جامع القرآن حضرت عثمان:
توجہ رکھنا! یہ جمع والا کام سیدنا صدیق اکبر نے کیا، اب ”جامع القرآن صدیق“ نہیں کہتے بلکہ ”جامع القرآن عثمان“ کہتے ہیں۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ قرآن مجید کئی قراءتوں میں اترا ہے، میں مثال دیتا ہوں۔
ایک قراءت ہے: اَلْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ• الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ• مٰلِكِ يَوْمِ الدِّيْنِ
دوسری قراءت: اَلْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ•الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ • مَلِكِ يَوْمِ الدِّيْنِ •
تیسری قراءت: اَلْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ• اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ• مَّلِكِ يَوْمِ الدِّيْنِ •
اب قراءتیں کئی تھیں، پوری دنیا میں کئی نسخے پھیل گئے۔ ایک نسخے میں ہے: ”مٰلِكِ يَوْمِ الدِّيْنِ“ ایک میں ہے: ”مَلِكِ يَوْمِ الدِّيْنِ“ اور ایک میں ہے:
”اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ• مَّلِكِ يَوْمِ الدِّيْنِ“
اب لوگوں میں لڑائی شروع ہوگئی، ایک کہتا ہے: یہ قرآن اصلی ہے، دوسرا کہتا ہے یہ قرآن اصلی ہے، تیسرا کہتا یہ قرآن اصلی ہے حالانکہ اصلی تو سارے تھے، اصل میں بات یہ تھی کہ عرب میں اس وقت سات زبانیں (لہجے) چل رہی تھیں، اللہ ان سات زبانوں میں قرآن اتارتا ہے۔ میں مثال دیتا ہوں ہم کسی سے حال پوچھتے ہیں: ”سنا بھائی کی حال اے؟“ یہ بھی ہماری زبان ہے،” تھواڈا کیا حال اے؟“ یہ بھی ہماری زبان ہے، ”آپ کا کیا حال ہے؟“ یہ بھی ہماری زبان ہے، اب یہ کوئی فرق تو نہ ہوا نا۔
اسی طرح قرآن بھی کئی زبانوں (لہجوں) میں اترا، قریش کی زبان تھی اور بھی زبانیں تھیں، حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی خلافت میں جب قرآن مجید اسی طرح مختلف قراءتوں میں پھیلا تو عجم میں جھگڑا شروع ہوا۔ حضرت عثمان کی خلافت میں کئی جگہ سے شکایات مدینہ میں آگئیں تو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے فرمایا: پوری دنیا میں جتنے قران مجید کےنسخے پھیل گئے ہیں یہ سارے مدینہ منورہ جمع کردو، ان سب کو اپنے پاس جمع فرمایا اور وہ ایک نسخہ جو اپنے پاس موجود تھا اس کو پوری دنیا میں پھیلا دیا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ سات قراءتیں بھی محفوظ ہوگئیں اور امت لڑائی سے بھی بچ گئی۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا یہ کارنامہ ہے۔
تو میں بات یہ سمجھارہا تھا کہ ”جامع القرآن“ کا معنی یہ ہے کہ پوری دنیا سے قرآن مجید کے نسخے مرکز میں جمع کرلیے اور ایک نسخہ دنیا میں عام کردیا، اب امت میں کوئی لڑائی اور کوئی جھگڑا نہیں ہے۔ اب اگر کوئی سبع عشرہ کا قاری تلاوت کرے اور جس کو پتا ہے قراءتیں سات ہیں اس کو کوئی تعجب نہیں ہوتا اور جس کو نہیں پتا اس کو تعجب ہوتا ہے کہ کہیں قاری صاحب قرآن غلط تو نہیں پڑھ رہے، ہم نے تو یہ سنا ہے اور قاری صاحب کیا پڑھ رہے ہیں۔
دورِ خلفاء راشدین تکمیل نبوت کا دور ہے:
میں بتا یہ رہا تھا حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ اور خلفاء راشدین کا دور تکمیل نبوت کا دور ہے۔ کیا معنی؟ جو کام نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے دور میں ہونے تھے اللہ کے نبی اس دنیا سے چلے گئے، یہ کام نبی کے خلفاء کے دور میں ہوئے۔اب کوئی بندہ کہے میں اس قرآن کو نہیں مانتا اس لیے کہ یوں لکھ کر نبی کریم نے نہیں دیا یہ تو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے دیا تھا اس لیے میں نہیں مانتا، اب اگر اختلاف پڑ جائے تو اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا تھا:
عَلَيْكُمْ بِسُنَّتِىْ وَسُنَّةِ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ •
یعنی وہ جو میری سنت ہے نا الگ الگ رکھا ہوا یہ بھی ٹھیک ہے اور جو ابوبکر کی سنت ہے یہ بھی ٹھیک ہے اور جو عثمان کی سنت ہے یہ بھی ٹھیک ہے، بات سمجھ آگئی؟
دفاعِ صحابہ از قرآن:
اب اس پر میں ایک نکتہ آپ کی خدمت میں پیش کرتا ہوں۔ آج جو لوگ قرآن مجید کا انکار کرتے ہیں یا قرآن مجید پر اعتراض کرتے ہیں ان کا کہنا یہ ہے کہ جو قرآن مجید اللہ تعالیٰ نے حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کو دیا اس پر اعتراض نہیں ہے، جو قرآن حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ رضی اللہ عنہم کو دیا اس پر اعتراض نہیں ہے، لیکن جو قرآن صحابہ رضی اللہ عنہم نے ہمیں دیا اعتراض اس پر ہے -ذرا بات سمجھنا- جو قرآن اللہ نے نبی علیہ السلام کو دیا اس پر اعتراض نہیں ہے، جو نبی علیہ السلام نے صحابہ رضی اللہ عنہم کو دیا اس پر بھی اعتراض نہیں ہے، اعتراض کس پر ہے جو قرآن صحابہ رضی اللہ عنہم نے ہمیں دیا اس پر اعتراض ہے کہ صحابہ رضی اللہ عنہم نے قرآن کو بدل دیا ہے -العیاذ باللہ- یعنی کچھ آیتیں صحابہ نے نکال دی ہیں اور کچھ کا اضافہ کیا ہے۔
تو ان لوگوں کا اعتراض اس قرآن پر ہے جو صحابہ رضی اللہ عنہم نے ہمیں دیا ہے، جو قرآن اللہ نے حضور صلی اللہ علیہ و سلم کو دیا وہ لکھا ہوا نہیں تھا بغیر لکھے دیا، جو قرآن نبی رضی اللہ عنہم نے صحابہ رضی اللہ عنہم کو دیا وہ پڑھ کر سنایا لکھ کر نہیں دیا اگر چہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے لکھوایا ہے لیکن لکھ کر نہیں دیا پڑھ کر دیا ہے، اب لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ جو قرآن خدا نے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو دیا بِن لکھے دیا، جو قرآن نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے صحابہ رضی اللہ عنہم کو دیا بِن لکھے دیا، جو صحابہ رضی اللہ عنہم نے ہمیں دیا تو لکھ کر دیا۔ تو اعتراض اس پر تھا نا! ، خدا نے جو اب بھی قرآن مجید میں اسی کا دیا ہے، جب قرآن شروع ہوتا تو آپ پڑھتے ہیں:
ﯘالم • ذٰلِكَ الْكِتَابُ لَا رَيْبَ فِيهِﯗ
عربی زبان میں دو لفظ ہیں: ایک ہے ”ھٰذَا“ اور ایک ہے ”ذٰلِکَ“، اگر چیز قریب ہو تو کہتے ہیں ”ھٰذَا“…”یہ“ اور اگر چیز دور ہو تو کہتے ہیں ”ذٰلِکَ“… ”وہ“، قرآن نے یہ نہیں کہا ”ھٰذَا الْکِتَابُ“ بلکہ قرآن نے فرمایا: ”ذٰلِكَ الْكِتَابُ“۔ اب اعتراض یہ ہے کہ جب قرآن سامنے موجود ہے تو پھر”ذٰلِكَ الْكِتَابُ“ نہیں کہنا چاہیے بلکہ ”ھٰذَا الْکِتَابُ“ کہنا چاہیے کہ ”اِس کتاب میں کوئی شک نہیں“ لیکن اللہ فرماتے ہیں: ”اُس کتاب میں کوئی شک نہیں“ جب قرآن مجیدسامنے موجود ہے تو خدا نے ”ھٰذَا“کےبجائے ”ذٰلِکَ“کیوں فرمایا؟
کلام، کتاب اور قرآن:
پہلے تین لفظ سمجھ لیں۔ اللہ رب العزت کے اس فرمان کو”کلام“ بھی کہتے ہیں، اس کو ”قرآن“ بھی کہتے ہیں اور اس کو ”کتاب“ بھی کہتے ہیں۔ یہ تین نام کیوں ہیں؟ بات توجہ سے سمجھنا۔ جب اللہ تکلم کرے تو ”کلام“ بنتا ہے، جب نبی پڑھے تو ”قرآن“ بنتا ہے اور جب صحابی لکھے تو ”کتاب“ بنتی ہے۔ تو خدا نے یہ نہیں فرمایا:
ﯘ ذٰلِكَ الْکَلَامُ لَا رَيْبَ فِيهِﯗ
کیونکہ اس میں تو شک تھا ہی نہیں، اسی طرح یہ بھی نہیں فرمایا:
ﯘ ذٰلِكَ الْقُرْآنُ لَا رَيْبَ فِيهِﯗ
کیونکہ اس میں بھی شک نہیں تھا، شک تو اس میں تھا جو صدیق رضی اللہ عنہ نے لکھوانا تھا، تو خدا نے نبی کو جودیا وہ بھی ﯘلَا رَيْبَ فِيهِﯗ ہے، جو نبی نے صحابہ کو دیا وہ بھی ﯘلَا رَيْبَ فِيهِﯗ ہے، جو کتاب صدیق نے لکھوا کر دی ہے وہ بھی ﯘلَا رَيْبَ فِيهِﯗ ہے، جو معاویہ نے لکھ کر دیا ہے وہ بھی ﯘلَا رَيْبَ فِيهِﯗ ہے، جو علی نے لکھ کر دیا وہ بھی ﯘلَا رَيْبَ فِيهِﯗ ہے رضی اللہ عنہم۔ تو اس پر اعتراض ہونا تھا جواب بھی اسی کا دیتے ہیں جس پر اعتراض نہیں ہونا تھا اس کا جواب دیا ہی نہیں ہے۔ اب جواب کا مطلب سمجھیں۔ اللہ نے فرمایا:ﯘ ذٰلِكَﯗ
گویا اللہ نے فرمایا:میرے محمد! میں قرآن آپ کو دے رہا ہوں، آپ صحابہ کو پڑھ کر سنارہے ہیں، لیکن ﯘ ذٰلِكَﯗ…وہ جو بعد میں… ﯘالْکِتٰبُﯗ صدیق لکھوائے گا … ﯘلَا رَيْبَ فِيهِﯗ اس میں بھی شک نہیں ہے، ﯘ ذٰلِكَﯗ…وہ جو …ﯘالْکِتٰبُﯗ معاویہ لکھے گا … ﯘلَا رَيْبَ فِيهِﯗ اس میں بھی شک نہیں ہے۔ تو جو حضرات صحابہ رضی اللہ عنہم نے کام کرنا تھا خدا نے ﯘلَا رَيْبَ فِيهِﯗ کہہ کر اس پر مہر لگا دی ہے۔
دورِ خلفاء راشدین اور چار مسائل:
خیر میں یہ سمجھا رہا تھا کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم آخری نبی ہیں اور حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے بعد کوئی نبی پیدا نہیں ہوگا۔ تو جب نبی پیدا نہیں ہوگا تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد امت کو کون سنبھالے گا؟ تو پہلا طبقہ خلفاء راشدین کا ہے۔ اب میں چار مسئلے پیش کرنے لگا ہوں تاکہ آپ پر بات کھلے۔
مسئلہ نمبر1:
کوئی کہتا ہے کہ اللہ کے نبی قبر میں زندہ ہیں، کوئی کہتا ہے اللہ کے نبی قبر میں زندہ نہیں ہیں، امت پریشان ہے ہم کدھر جائیں۔ تو اللہ کے نبی نے فرمایا:وَسُنَّةِ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ •خلیفہ راشد کے پاس جاؤ۔
مسئلہ نمبر2:
امت میں جھگڑا ہے، کوئی کہتا ہے تین طلاق دو تو تین ہیں، کوئی کہتا ہے تین طلاق دو تو ایک ہوتی ہے، لوگ کہتے ہیں: کدھر جائیں؟ نبی نے فرمایا:وَسُنَّةِ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ •خلیفہ راشد کے پاس جاؤ۔
مسئلہ نمبر3:
آج جھگڑا ہے، جمعہ کے دن اذانیں دو ہیں یا ایک ہے؟ لوگ پریشان ہیں کدھر جائیں؟ آپ نے فرمایا:
وَسُنَّةِ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ
•خلیفہ راشد کے پاس جاؤ۔
مسئلہ نمبر4:
آج جھگڑا ہے، ایک کہتا ہے: تراویح بیس رکعات ہیں، دوسرا کہتا ہے: آٹھ رکعات ہیں، لوگ پریشان ہیں کدھر جائیں؟ اللہ کے نبی نے فرمایا:وَسُنَّةِ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ •خلیفہ راشد کے پاس جاؤ۔
عقیدہ حیات النبی صلی اللہ علیہ و سلم:
اب میں چاروں مسائل پر چاروں خلفاء پیش کرنے لگا ہوں۔
سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ بیمار تھے، انتقال ہونے لگا، سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میری وصیت یہ ہے کہ مجھے غسل دے دینا، کفن پہنادینا، میرا جنازہ پڑھ دینا، میری میت کو چار پائی پر رکھ دینا، میری چار پائی کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے حجرے کے باہر رکھ کر پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت طلب کرنا، اگر اجازت ملے تو مجھے اندر دفن کرنا، اگر اجازت نہ ملے تو مجھے اندر دفن نہ کرنا۔
سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے یہ فرمایا، صحابہ رضی اللہ عنہم وہاں موجود ہیں، اگر وصیت غلط ہوتی تو وصیت کو بدلا جاتا لیکن کسی صحابی نے بھی وصیت کو بدلا نہیں ہے، سب نے صدیق کی وصیت پر عمل کیا ہے۔ عمل کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ سارے صحابہ اس مسئلے پر صدیق کے ساتھ ہیں۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے غسل دیا، کفن پہنایا، جنازہ پڑھا، چار پائی کو اٹھایا، امام رازی کہتے ہیں:
لما حملت جنازته إلى باب قبر النبي صلى الله عليه وسلّم ونودي السلام عليك يا رسول الله هذا أبو بكر بالباب فإذا الباب قد انفتح وإذا بهاتف يهتف من القبر ادخلوا الحبيب إلى الحبيب•
(تفسیر الکبیر: ج21 ص74 تحت سورۃ الکہف)
صدیق کے جنازے کو اٹھاکر قبر کے باہر رکھ دیا گیا، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے کہا: ”السلام علیک یا رسول اللہ“حضور! یہ ابوبکر دروازے پر آیا ہے، دروازہ کھلا، تو نبی کی قبر کی طرف سے آواز دینے والے کی آواز آئی :ادخلوا الحبيب إلى الحبيب•محبوب کو محبوب تک پہنچادو۔
تو مسئلہ حل ہوگیا نا! آج لوگ جھگڑتے ہیں نبی زندہ ہے یا نہیں؟ اللہ کے نبی نے فرمایا: جھگڑے چھوڑو نبی کے خلیفہ راشد سے فیصلے کراؤ، تو ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فیصلہ کردیا کہ نبی پاک قبر میں زندہ ہیں۔
تین طلاقیں تین ہوتی ہیں:
تین طلاقیں تین ہوتی ہیں یا ایک ہے؟ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فتویٰ دے کر فیصلہ کردیا کہ تین طلاقیں تین ہوتی ہیں۔ صحیح مسلم میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا یہ فیصلہ موجودہے کہ تین طلاقیں تین ہی ہوتی ہیں۔
(صحیح مسلم ج1 ص477،478)
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے سامنے ساری احادیث موجود تھیں، تو انہوں نے فیصلہ سنادیا تین طلاقیں تین ہی ہیں۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میرے دین میں اختلاف نظر آئے تو خلیفہ راشد کے پاس جاؤ، تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فیصلہ دیا کہ تین طلاقیں تین ہیں۔
جمعہ کی اذان ثانی:
جمعہ کے دن اذانیں دو ہیں، آپ کی مسجد میں بھی دو اذانیں دی جاتی ہیں لیکن آپ کے شہر میں چند مسجدوں میں چل ایک اذان رہی ہے، حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے بارے میں بخاری شریف میں موجود ہے:
أَنَّ التَّأْذِينَ الثَّانِيَ يَوْمَ الْجُمُعَةِ أَمَرَ بِهِ عُثْمَانُ بْنُ عَفَّانَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ حِينَ كَثُرَ أَهْلُ الْمَسْجِدِ وَكَانَ التَّأْذِينُ يَوْمَ الْجُمُعَةِ حِينَ يَجْلِسُ الْإِمَامُ•
(صحیح البخاری: رقم الحدیث915)
[جمعہ کے دن کی دوسری اذان کا حکم حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے دیا تھا جب مسجد میں نمازیوں کی تعداد بڑھ گئی تھی، پہلے اذان جمعہ کے دن اس وقت ہوتی تھی جب امام (خطبہ دینے کے لیے) بیٹھتا تھا]
یہ دوسری اذان کا فتویٰ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا ہے۔ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:
فَعَلَيْكُمْ بِسُنَّتِى وَسُنَّةِ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ •
جس طرح میری سنت ضروری ہے اس طرح خلیفہ راشد کی سنت بھی ضروری ہے۔
بیس رکعت تراویح:
تراویح کے مسئلے پہ اگرچہ بیس رکعات کی روایتیں موجود ہیں لیکن مسند الامام زید حضرت علی رضی اللہ عنہ کے پڑپوتے کی کتاب ہے، زید بن علی بن حسین بن علی رضی اللہ عنہ کی، مسند الامام زید میں ہے:
عن علی انہ امرالذی یصلی بالناس صلاۃ القیام فی شھر رمضان ان یصلی بھم عشرین رکعۃ یسلم فی کل رکعتین ویراوح مابین کاربع رکعات فیرجع ذوالحاجۃ ویتوضأالرجل وان یوتر بھم من آخر اللیل حین الانصراف•
(مسند الامام زیدص158،159)
حضرت علی رضی اللہ عنہ نے حکم دیا کہ جو امام رمضان المبارک میں نماز پڑھاتا ہے وہ لوگوں کو بیس رکعات تراویح پڑھائے، ہر دو رکعات کے بعد سلام پھیرے، ہر چار کےبعد ترویحہ کرے یعنی وقفہ کرے کہ حاجت مند اپنی حاجت کو پورا کر لے اور جس کو وضوء کی ضرورت ہو وہ وضو کر لے اور جب تراویح سے فارغ ہونے لگے تو ان کو وتر پڑھائے۔
اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:
فَعَلَيْكُمْ بِسُنَّتِى وَسُنَّةِ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ الْمَهْدِيِّينَ.
حضور صلی اللہ علیہ و سلم دنیا سے جا رہے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے بعد کسی نبی نے پیدا نہیں ہونا، اب امت کدھر جائے، تو فرمایا:
وَسُنَّةِ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ الْمَهْدِيِّينَ•
میں دنیا سے جارہا ہوں تمہیں صدیق دے کر جارہا ہوں، تمہیں فاروق دے کر جارہا ہوں، تمہیں عثمان دے کر جارہا ہوں، تمہیں علی دے کر جا رہا ہوں، ان کی سنت کو تھامنا، ان کی سنت کو ایسے ہی تھامنا جیسے تم نے میری سنت کو تھامنا ہے۔ اب بتاؤ! امت کے لیے کوئی الجھن رہ جاتی ہے؟ (نہیں۔ سامعین)
خلفاء راشدین کو بھی مانو! ان کی بھی مانو!
اس لیےاب میں آخری بات کہتاہوں ذرا اس کو توجہ سے سنیں۔
”حضرات خلفاء راشدین کو بھی مانو حضرات خلفاء راشدین کی بھی مانو! “
سمجھ میں آگئی بات؟
لوگ کہتے ہیں کہ ”ہم حضرت ابوبکر کو مانتے ہیں“ ہم نے کہا: ” حضرت ابو بکر کو مانتے ہوتو ابوبکر کی بھی مانو“،لوگ کہتے ہیں ”ہم حضرت عمر کو مانتے ہیں“ ہم نے کہا: حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی بھی مانو“، ”ہم جی حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو مانتے ہیں“ ہم نے کہا: ”حضرت عثمان کی بھی مانو“، ”ہم حضرت علی رضی اللہ عنہ کو بھی مانتے ہیں“ ہم نے کہا: ”حضرت علی کی بھی مانو۔ “
مزاجِ دیوبند:
ہم دیوبند والے خلفاء راشد ین کو بھی مانتے ہیں، خلفاءراشدین کی بھی مانتے ہیں، خلفاء راشدین کا ایمان بھی مانتے ہیں، انہیں دلیل بھی مانتے ہیں، ان کی ذات بھی مانتے ہیں، ان کی بات بھی مانتے ہیں، ان کو بھی مانتے ہیں، ان کی بھی مانتے ہیں، جو ان کو نہ مانے وہ بڑا رافضی ہے، جو ان کی نہ مانے وہ نیم رافضی ہے، ہم نہ بڑے رافضی ہیں نہ چھوٹے رافضی ہیں، ہم ہیں ”اہل السنت والجماعت احناف دیوبند“ ہم ان کو بھی مانتے ہیں اور ان کی بھی مانتے ہیں۔
باپ کو ماننا چاہیے یا باپ کی بھی ماننی چاہیے؟ بتاؤ! باپ کی بھی ماننی چاہیے۔ امام صاحب کو مانیں یا امام صاحب کے پیچھے نماز بھی پڑھیں، [پیچھے نماز بھی پڑھیں- سامعین] کوئی کہے کہ حضرت میں آپ کو امام مانتا ہوں مگر آپ کے پیچھے نماز نہیں پڑھ سکتا، میں آپ کو خطیب مانتا ہوں لیکن آپ کی تقریر نہیں سن سکتا، آپ کو مفتی مانتا ہوں لیکن آپ کا فتوی نہیں سن سکتا،میں آپ کو والد تو مانتا ہوں لیکن آپ کا احترام نہیں کر سکتا، تو بتائیں اس نے مانا تو کیا مانا؟ اس کو ماننا نہیں کہتے۔
اس لیے ہم خلفاء راشدین کو بھی مانتے ہیں اور خلفاء راشدین کی بھی مانتے ہیں، ہمیں سب کچھ ماننا چاہیے۔ اللہ سب کچھ ماننے کی توفیق عطاء فرمائے۔
خلاصہ درس:
اب ہمارے دو تین درس اسی بات پر چلیں گےکہ حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم آخری نبی ہیں، حضور کے بعد کوئی نبی پیدا نہیں ہونا تو اب امت کس کے حوالے؟ تو چار طبقات ہیں جنہوں نے اس امت کی رہنمائی کرنی ہے:
نمبر1:خلفاء راشدین ، نمبر2:صحابہ کرام، نمبر3:فقہاء، نمبر4: علماء
آج میں نے خلفاء راشدین رضی اللہ عنہم پر بات کی ہے، آئندہ ان شاء اللہ صحابہ رضی اللہ عنہم پر بات کریں گے، پھر فقہاء پر کریں گے، پھر علماء پر کریں گے تاکہ یہ عنوان کھل کر سامنے آئے، ان شاء اللہ۔
وآخر دعوانا ان الحمد للہ رب العٰلمین.