امت کے رہنما طبقات :حصہ دوم

User Rating: 5 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar ActiveStar Active
 
عنوان: امت کے رہنما طبقات
(حصہ دوم: صحابہ کرام رضی اللہ عنہم)
تاریخ: 4 اگست 2014ء
مقام: جامع مسجد موتی 2 بلاک سرگودھا
امت کا رہنما طبقہ صحابہ کرام 
أَلْحمدُللہِ نَحمدُہ ونَستعِینُہ ونَستغفِرُہ ونُؤْمِنُ بہ ونَتوکَّلُ علَیہ ونَعُوذُباللہ منْ شُرورِ أنفُسِنَا ومِنْ سیِّئاتِ أعمالِنا مَنْ یَّہدِہ اللہُ فلَا مُضلَّ لَہ ومَنْ یُّضْلِلْ فلَاہادیَ لہ ونَشہدُ أنْ لَّا الٰہ اِلَّااللہُ وحدَہ لَاشریکَ لہ ونَشہدُ انَّ سیِّدَنا ومولانا محمدًا عبدُہ ورسولُہ أمَّا بعد! فَاَعُوْذُ بِاللّهِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ بِسْمِ اللّهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ﴿ مَا كَانَ مُحَمَّدٌ أَبَا أَحَدٍ مِنْ رِجَالِكُمْ وَلٰكِنْ رَسُولَ اللَّهِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّيْنَ وَكَانَ اللَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمًا
(سورۃ الاحزاب :40 )
و قال النبی صلی اللہ علیہ و سلم: أَنَا خَاتَمُ النَّبِيِّيْنَ لَا نَبِيَّ بَعْدِي•
(مسند احمد: ح22395 عن ثوبان)
اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلٰى مُحَمَّدٍ وَعَلٰى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا صَلَّيْتَ عَلٰى إِبْرَاهِيْمَ وَعَلٰى آلِ إِبْرَاهِيْمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ۔اَللّٰهُمَّ بَارِكْ عَلٰى مُحَمَّدٍ وَعَلٰى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا بَارَكْتَ عَلٰى إِبْرَاهِيْمَ وَعَلٰى آلِ إِبْرَاهِيْمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ•
تمہید:
میں نے آپ سے عرض کیا تھا کہ میں نے تفصیل کے ساتھ آپ کی خدمت میں چار باتیں پیش کرنی ہیں۔ چار بنیادی درس آپ کی خدمت میں پیش کرنے ہیں، پھر ہم ایک ایک مسئلے پر احادیث کی روشنی میں بات کریں گے تاکہ آپ حضرات کے سامنے کہ یہ بات کھل کرآئے کہ ہمارامسلک؛ عقائد اورمسائل قرآن اور حدیث کی بنیاد پرہے، بغیردلائل کے ہمارا مسلک ہرگز نہیں ہے۔ میں عرض یہ کررہا تھا کہ ہماراعقیدہ ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اس کائنات میں آخری نبی ہیں اورآپ کے بعد قیامت تک کوئی نبی پیدا نہیں ہو گا۔ امت نے قیامت تک باقی رہنا ہے، اب اس امت کی رہنمائی کون کرے گا؟ اس کے لیے میں نے عرض کیا تھا کہ چار طبقات ہیں جو امت کی رہنمائی کریں گے:
رہنما طبقات:
نمبر1: خلفاء راشدین یعنی حضرت ابوبکر صدیق ،حضرت عمرفاروق ،حضرت عثمان، حضرت علی رضی اللہ عنہم۔ اللہ رب العزت کے پیغمبر نے ان خلفاء راشدین کی سنت کو اپنی سنت قرار دیا ہے اوراپنے دنیاسے چلے جانے کے بعد ان کی اتباع، اقتداء اور پیروی کاحکم دیا ہے۔ ان خلفاء راشدین کی بات کو ماننا ایسے ہی ہے جیسے ہم نے نبوت کی بات کومان لیا ہے۔
نمبر2: خلفاء اربعہ کے بعد صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین
نمبر3: فقہاء کرام
نمبر4: علماء کرام
صحابہ کرام کی شرعی حیثیت:
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ میں آج کے درس میں ان شاء اللہ آپ کی خدمت میں ان کی شرعی حیثیت کو بیان کروں گا، آپ حضرات اس کوسمجھیں، بسااوقات ان کی حیثیت کونہ سمجھنے کی وجہ سے ہم غلط فہمی کا شکار ہو جاتے ہیں اور صحابہ کرام کے بارے میں جوہمارا ذہن ہونا چاہیے وہ ہرگزنہیں بن پاتا، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کی حیثیت کیا ہے؟ میں مختلف پہلؤوں سے آپ کی خدمت میں پیش کروں گا۔
پہلی بات؛ عقائد و مسائل میں معیار صحابہ
پہلا عنوان یہ سمجھیں کہ شریعت کی بنیاددوچیزیں ہیں:
نمبر1:عقائد ، نمبر2:مسائل
عقائداورمسائل کے مجموعہ کا نام ”شریعت“ ہے۔ اللہ رب العزت نے قرآن کریم میں عقائد میں بھی بنیاد صحابہ رضی اللہ عنہم کوبنایا ہے اورمسائل میں بھی بنیادصحابہ رضی اللہ عنہم کوبنایا ہے۔ اللہ رب العزت کا ارشاد ہے:
فَإِنْ آمَنُوا بِمِثْلِ مَا آمَنْتُمْ بِهِ فَقَدِ اهْتَدَوْا•
(سورۃ البقرۃ: 137)
اگر تمہارے عقیدے صحابہ کے عقیدوں کی طرح ہوں گے تو اللہ قبول کرے گا اور اگر صحابہ کے عقیدوں کی طرح نہیں ہوں گے توخدا ہرگزقبول نہیں کرے گا۔
ایمان کامعنی ”عقائد“ ہیں، اگرایمان صحابہ کے ایمان جیسا ہے تو اللہ قبول فرمائے گا اگرصحابہ کے ایمان جیسا نہیں ہے تو اللہ ہرگز قبول نہیں کرے گا، اورجب اعمال اورمسائل کی باری آئی تواللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا:
وَالسَّابِقُونَ الْأَوَّلُونَ مِنَ الْمُهَاجِرِينَ وَالْأَنْصَارِ وَالَّذِينَ اتَّبَعُوهُمْ بِإِحْسَانٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ•
(سورۃ التوبۃ: 100)
[اور مہاجرین اور انصار میں سے جو لوگ پہلے ایمان لائے، اور جنہوں نے نیکی کے ساتھ ان کی پیروی کی، اللہ ان سب سے راضی ہے اور وہ اس سے راضی ہیں]
اللہ کن سے راضی ہوتا ہے؟ اس کے لیے اللہ نے دوطبقات بیان کیے ہیں، نمبر1:
”وَالسَّابِقُونَ الْأَوَّلُونَ مِنَ الْمُهَاجِرِينَ وَالْأَنْصَارِ“
پہلا طبقہ مہاجرین اورانصارصحابہ ہیں، اللہ ان سے راضی ہے۔
نمبر2: ”وَالَّذِينَ اتَّبَعُوهُمْ بِإِحْسَانٍ“
دوسرا طبقہ وہ ہے جو اخلاص کے ساتھ ان صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کی اتباع کرے اللہ ان سے بھی راضی ہے۔
معلوم ہوا کہ اللہ رب العزت نے رضا مندی کے لیے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے دونوں طبقوں مہاجرین اورانصارکا ذکرفرمایا اور اس طبقے کا بھی ذکر فرمایا جوان کی اتباع کریں اور ان کے نقش قدم پہ چلیں۔ توپتہ یہ چلا کہ ایمان میں بھی بنیادصحابہ ہیں اوراعمال میں بھی بنیادصحابہ ہیں، اگرکوئی ان کی اتباع نہ کرے تو نہ اس کا ایمان قبول ہے اور نہ ہی اس کے اعمال قبول ہیں۔
صحابہ کے ایمان جیسا ایمان ہونے کا معنیٰ:
سوال یہ ہے کہ اللہ رب العزت نے فرمایا کہ اگر تمہارا ایمان صحابہ کے ایمان جیسا ہے تومیں قبول کروں گا ،میرا آپ سامعین سے یہ سوال ہے آپ بتائیں کہ صحابہ کے ایمان جیسا ہمارا ایمان ہوسکتا ہے؟ بتائیں ہو سکتا ہے؟ (نہیں ہو سکتا۔ سامعین) اگر نہیں ہو سکتا تو اس کامعنی تو یہ ہوا کہ ہمیں ہدایت نہیں ملی، کیونکہ اللہ نے ایمان کیلئے شرط لگائی ہے کہ
”فَإِنْ آمَنُوا بِمِثْلِ مَا آمَنْتُمْ بِهِ فَقَدِ اهْتَدَوْا“
اگر صحابہ جیسا ایمان ہو گا تو پھرہدایت ملے گی، صحابہ جیسا ایمان نہیں ہو گا تو پھر ہدایت نہیں ملے گی، سوال یہ ہے کہ صحابہ کے ایمان جیسا ایمان ہوسکتا ہے؟ (نہیں۔ سامعین) تو اس کا معنی یہ ہوا کہ اگرصحابہ کے ایمان جیسا ایمان ہمارا نہیں ہے تو ہدایت بھی نہیں مل سکتی، تواس کامطلب یہ ہے کہ اللہ پاک نے ہمیں ایسی چیز کا حکم دیا ہے جوہمارے اختیار اور بس میں نہیں ہے۔ اسے علماء کی زبان میں کہتے ہیں ”تکلیف ما لا یطاق“ کہ اللہ پاک نے ایسی چیز کا مکلف بنا یا ہے جو بندے کے بس میں نہیں ہے۔
اب اس سوال کا جواب سمجھیں۔ یہ جو قرآن کریم میں فرمایا:
فَإِنْ آمَنُوا بِمِثْلِ مَا آمَنْتُمْ بِهِ•
”مثل“ کی دوقسمیں ہوتی ہیں۔ ایک ہوتا ہے ”مثل بالکیفیت“ اور ایک ہوتا ہے ”مثل با لکمیت“، میں دونوں لفظ آپ کو سمجھاؤں گا۔ میں جب کوئی عربی لفظ استعمال کروں تو آپ پریشان نہ ہو جایا کریں کہ اس کو سمجھنامشکل ہے۔
میں اس کا ترجمہ کروں گا لیکن آپ لفظ ذہن میں رکھ لیں۔ مثل کی دوقسمیں ہیں ایک ہے ”مثل بالکیفیت“اورایک ہے ”مثل بالکمیت“، کیفیت اورکمیت کا معنی کیا ہے؟ ایک برابرہونا ہے مقدارمیں اورایک برابرہونا کیفیات میں، برابری کیفیت میں الگ چیزہے اور برابری کمیت میں الگ چیز ہے، اب اللہ نے فرمایا کہ ”اگر تمہارا ایمان صحابہ کے ایمان جیسا ہوا……“
اور ہم جو کہتے ہیں کہ ہماراایمان صحابہ کے ایمان جیسا نہیں ہو سکتا تو ہمارے ذہنوں میں کیفیت آرہی ہے کہ جوکیفیت صحابہ کےایمان کی ہے وہ بعد میں کسی امتی کی پیدا نہیں ہو سکتی، اس کی وجہ یہ ہے کہ صحابہ کے ایمان کی کیفیت نبی کی صحبت کی وجہ سےہے، نہ نبی نے آنا ہے نہ نبی کی صحبت ملنی ہے اور نہ صحابی جیسا ایمان ہونا ہے،اس آیت کا یہ معنی ہرگز نہیں ہے کہ تمہاری ایمانی کیفیت صحابہ کی ایمانی کیفیت جیسی ہو، بلکہ آیت کامعنی یہ ہے کہ تمہاری ایمانی کمیت صحابہ کی ایمانی کمیت جیسی ہو، مطلب یہ کہ جن جن چیز وں پر وہ ایمان لائے ہیں ان ان چیزوں پرایمان لاؤ گے تو کامیابی ہے، ان میں سےایک چیز بھی چھوڑدوگے تو تمہارا ایمان قبول نہیں کریں گے۔
مثل سے مراد مقدار ہے کیفیت نہیں :
مثلاً آپ کا بیٹا ہے آپ اس کو مسجد میں لاتے ہیں تاکہ نمازسکھلائیں، آپ کہتے ہیں: بیٹا آپ نے نماز ایسے پڑھنی ہے جیسے مولانا صاحب پڑھ ر ہے ہیں، آپ نے مولانا صاحب کی نماز کی طرح نماز پڑھنی ہے توآپ کی نماز قبول ہو گی۔ اب مولانا صاحب کی طرح نماز پڑھنے کا مطلب یہ ہے کہ تونے اللہ اکبربھی کہنا ہے، تونےثناءبھی پڑھنی ہے، تونے قیام بھی کرنا ہے، تونے رکوع بھی کرنا ہے، تونے تشہد میں بھی بیٹھنا ہے، اس کا یہ معنی نہیں کہ جوکیفیت امام کی ہے وہی کیفیت آپ کے بیٹے کی ہو، وہی کیفیت تو ہوہی نہیں سکتی کیونکہ امام اگر قرآن پڑھتا ہے تو وہ اس کا معنی بھی سمجھتا ہے، بیٹا جب قرآن کا معنی سمجھتا ہی نہیں تو وہی کیفیت بنے گی کیسے؟
اس لئے جب آپ کہتے ہیں کہ بیٹا نماز ایسی پڑھنی ہے جیسے امام پڑھتا ہے تو اس کا معنی یہ ہے کہ امام کی طرح رکوع، امام کی طرح سجدہ، امام کی طرح قومہ، امام کی طرح جلسہ، امام کی طرح سلام، اس کا یہ مطلب نہیں کہ جو کیفیت امام کی نماز کی ہے وہی کیفیت بیٹے کی نماز کی ہو، تو اللہ نے فرمایا کہ اگرتمہارا ایمان صحابہ کے ایمان جیسا ہوگا میں قبول کروں گا، یہاں ”جیسا“ کا مطلب یہ نہیں کہ جو کیفیت صحابہ کے ایمان کی ہو وہی کیفیت ہمارے ایمان کی بھی ہو، آپ کو اشکا ل اس لیے پیدا ہوا کہ صحابہ جیسا ایمان تو ہو ہی نہیں ہوسکتا، تو قرآن کی اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ جن جن چیزوں پر ایمان وہ لائے ہیں ان ان چیزوں پر اگر تم ایمان لاؤ گے تو ایمان قبول، اگران میں سے ایک چیز بھی چھوڑ دی تو ایمان ہرگز قبول نہیں۔
دوسری وجہ بھی سمجھ لیں کہ ایک ہے ”کیفیت“ جس کا تعلق دل کے ساتھ ہے اورایک ہے ”مقدار“جس کاتعلق ظاہرکے ساتھ ہے۔ اب بتاؤ صحابہ کاظاہر تودیکھ سکتے ہولیکن صحابہ کی کیفیت تونہیں دیکھ سکتے، جب صحابہ کی کیفیت نہیں دیکھ سکتے توپھرکیفیت کی طرح کیفیت کیسے بنے گی؟! اس لیے اللہ وہ بات فرمارہے ہیں جوبندے کے اختیار میں ہے، کیفیت چونکہ ایک باطنی اور قلبی چیز ہے اس کی مثل بندہ کرسکتا ہی نہیں اورمقدار اورکمیت ظاہر ی چیز ہے اس لیے اللہ نے ہمیں اس کا پابندکیا ہےکہ جن جن چیزوں پرایمان وہ لائیں ان ان چیزوں پر ایمان تم لاؤ۔
صحابی کسے کہتے ہیں؟
میں نے عقیدے کے حوالے سے ایک بات کی ہے، اب دوسری بات سمجھیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
وَالسَّابِقُونَ الْأَوَّلُونَ مِنَ الْمُهَاجِرِينَ وَالْأَنْصَارِ وَالَّذِينَ اتَّبَعُوهُمْ بِإِحْسَانٍ•
مہاجرین صحابہ اور انصار صحابہ اورجوان کی اتباع کرے اللہ ان سے راضی ہے اوروہ اللہ سےراضی ہیں۔
” صحابی“ کسے کہتے ہیں؟ صحابی اس شخص کو کہتے ہیں جو حالتِ ایمان میں پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت میں بیٹھے اوراسی حالت ایمان میں اس کا خاتمہ ہو اس کا نام ہے ”صحابی“۔ یہ بات اچھی طرح سمجھنا! اگریہ بات سمجھ میں آگئی تو صحابی پر اعتراضات ختم ہو جائیں گے اورصحابہ پر تنقید ختم ہو جائے گی، اگرکوئی بڑا سے بڑا بھی اعتراض کرے گاتو آپ میں سے عام آدمی بھی اس کا جواب دے سکے گالیکن پہلے بات سمجھ لیں کہ ”صحابی“ کسے کہتے ہیں؟
حالتِ ایمان میں نبی کی صحبت میں آیا ہو اور اسی حالتِ ایمان میں اس کاجنازہ اٹھا ہو اس کا نام ”صحابی“ ہے۔ اب بتاؤ! صحابی کی تعریف میں یہ آیا کہ اس نے نماز پڑھی ہو؟ اس نے روزہ رکھا ہو؟ اس نے قرآن پڑھا ہو؟ حج کیا ہو؟ اس نے کبھی گناہ نہ کیا ہو؟ (نہیں آیا۔ سامعین) یہ صحابی کی تعریف میں نہیں ہے۔
صحابی کی تعریف یہ ہے کہ حالتِ ایمان میں پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت ملی ہو اور حالت ایمان میں دنیا سے چلاگیا ہو۔ معلوم ہوا کہ صحابی کےلیے ایمان شرط ہے اورپیغمبرکی صحبت شرط ہے، صحابی کےلیے اعمال اورتقویٰ شرط نہیں ہے، ہاں یہ الگ بات ہے صحابی متقی بھی ہے اوراعمال میں بھی بے مثال ہیں، اعمال کے اعتبار سے امت میں سب سے فائز ہے لیکن صحابی ہونے کی شرط اعمال نہیں ہیں، صحابی ہونے کی شرط تقویٰ نہیں ہے، صحابی ہونےکی شرط صرف ایمان اور پیغمبر کی صحبت ہے، جہاں تک اعمال کا تعلق ہے تو اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
لَا تَسُبُّوا أَصْحَابِي•
میرے صحابہ کی شان میں نازیبا کلمہ کبھی نہ کہنا!
وجہ کیا ہے؟ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
فَلَوْ أَنَّ أَحَدَكُمْ أَنْفَقَ مِثْلَ أُحُدٍ ذَهَبًا مَا بَلَغَ مُدَّ أَحَدِهِمْ وَلَا نَصِيفَهُ•
(صحیح البخاری: حدیث نمبر)
لفظ ”ف“ عربی زبان میں تعلیل کےلیے آتا ہے، فرمایا کہ اگرمیرےصحابہ میں سے کوئی صحابی ایک آدھا مُدجَو خرچ کر دے اور تم بعد والے احد پہاڑ کے برابر سونا بھی خرچ کرو تو یہ میرے صحابی کی مٹھی بھر جو کے برابر ہرگز نہیں ہو سکتا۔
تو اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سمجھایا ہے تاکہ کوئی عابد یہ نہ سمجھے کہ میری عمرسترسال ہے، میری نمازیں زیادہ، میری تلاوت زیادہ، میرے حج زیادہ، میری سخاوت زیادہ تو شاید میں صحابی سے آگے نکل جاؤں! یہ جو صحابی امت میں آگے بڑھا ہے یہ اعمال کی بنیاد پر نہیں یہ نبوت کی صحبت کی بنیاد پر بڑھا ہے، اگر اس کےنامہ اعمال میں ایک بھی نیک عمل نہ ہواور ایمان اور نبی کی صحبت ہو توخداکی قسم امت میں سارے نیک اعمال والے لوگ صحابی کے جوتے کی خاک کے برابر بھی نہیں ہیں۔
حضرت معاویہ افضل یا عمر بن عبد العزیز؟
امام عبد اللہ بن مبارک رحمۃ اللہ علیہ سے کسی آدمی نے پوچھا کہ حضرت امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ افضل ہیں یا عمربن عبدالعزیز افضل ہیں؟ امام عبد اللہ بن مبارک فرمانے لگے:
لَترابٌ في مِنْخرَي معاويةَ مع رسولِ الله صلى الله عليه وسلم خيرٌ وأفضلُ من عمرَ بنِ عبدِ العزيزِ.
(البدایۃ و النہایۃ: ج8 ص148)
کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی معیت میں حضرت امیر معاویہ کے ناک کے نتھنوں میں جوگرد وغبار پڑا ہے وہ عمر بن عبد العزیز سے بہتر اور افضل ہے۔
بعض لوگوں کودھوکہ لگتا ہے صحابی کے بعض اعمال کی وجہ سے کہ فلاں موقع پر فلاں جرم ہوگیا، فلاں گناہ ہوگیا، فلاں موقع پر یہ ہوگیا وہ ہو گیا لیکن یہ نہیں دیکھتے ہیں کہ ان کوجویہ مقام و مرتبہ ملا ہے وہ نبوت کی صحبت اور ایمان کی وجہ سے ملاہے، توصحابی کی لیے شرط پیغمبر علیہ السلام کی صحبت ہے، اعمال شرط نہیں ہیں لیکن تابعی کےلیےیہ شرائط ہیں:
نمبر1: ایمان بھی ہو۔
نمبر2: صحابی کی صحبت بھی ہو۔
نمبر3: صحابی کی اتباع بھی کرے۔
یہ میرے جملے سمجھنا! ”صحابی“ صحبت سے ہے اور”تابعی“ اتباع سے ہے، معلوم ہواصحابی کےلیے دو شرطیں ہیں؛ ایک ایمان اور دوسری پیغمبر کی صحبت، اورتابعی کےلیے تین شرطیں ہیں؛ ایک ایمان، دوسری صحابی کی صحبت اور تیسری اعمالِ حسنہ، تقویٰ اورصحابی کے نقش قدم پرچلنا۔
صحابی کی شان:
اگرایک آدمی کوایمان ملے، پیغمبرکی صحبت بھی ملے لیکن اعمال اچھے نہ ہوں وہ تب بھی صحابی ہے اور امت کےسارے ولیوں سے اعلیٰ ہے اوراگرایمان ملے، پیغمبر کے صحابی کی صحبت بھی ملے لیکن اعمال اچھے نہ ہوں تو یہ تابعی نہیں ہے، تابعی کےلیے”اتباع“ یعنی اچھے اعمال کا ہونا شرط ہے۔ اگریہ بات سمجھ آگئی تو اس سے ایک مسئلہ حل ہوا۔ اگر آج یزید کے بارے میں کہیں کہ یہ اچھا نہیں تھا تو بعض لوگ کہتے ہیں کہ یزید تو تابعی تھا، آپ نے تابعی پرتنقید کی ہے۔
ہم نے کہا: وہ تابعی کیوں ہے؟ کہتے ہیں کہ اس نے حضرت امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ کودیکھا ہے، ایمان والاتھا،صحابی کی صحبت میں بیٹھا ہے توتابعی ہوا۔ ہم نے کہا:صحابی کےلیے اعمال شرط نہیں ہیں لیکن تابعی کےلیےاعمال شرط ہیں، یزید حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کابیٹابھی ہے، ایمان بھی تھا، صحابی کی صحبت بھی ہے لیکن اعمال اچھے نہیں تھے اس لیے یزید کو تابعین میں شمارنہیں کیا جاسکتا ہے، وہ تابعی تب ہوگا جب اعمال صحابی والے ہوں گے، یہ نہیں کہ صحابی کا قاتل بھی ہواورتابعی بھی ہو، قتل پہ خوش بھی ہو اورتابعی بھی ہو، امت کےافراد قتل بھی کرائے اورتابعی بھی ہو، ایسا شخص تابعی ہرگز نہیں ہوسکتا۔
صحابہ معیار ہیں:
میں نے عرض کیا کہ شریعت کی بنیاد دوچیزیں ہیں:
نمبر 1عقائد، نمبر 2: اعمال
صحابہ عقائدمیں بھی حجت ہیں، صحابہ اعمال میں بھی حجت ہیں، صحابہ عقائد میں بھی معیار ہیں، صحابہ اعمال میں بھی معیار ہیں، نہ صحابہ سے عقیدہ آگے بڑھ سکتا ہے نہ اعمال آگےنکل سکتے ہیں، کوئی بندہ جتنا بھی نیک ہواعمال میں اضافہ کر لے اور قیامت کو خداکے دربار میں آجائے کہ میں نے بہت نیک کام کیے ہیں، میں نے ظہر کی چارکے بجائے پانچ رکعتیں بنادی ہیں، میں نے مغرب کی تین کے بجائے چار رکعتیں بنادی ہیں، فجر کی دوکے بجائے تین بنادی ہیں تو اللہ ہرگزاس کوقبول نہیں کریں گے، کیوں کہ صحابہ معیار ہیں، ہماری زبان میں معیارکامعنی ”ناپ“ سمجھ لیں۔ آپ نے اگر عید کے موقع پہ درزی کواچھا کپڑا دیا، ساتھ آپ نے اپنا ناپ بھی اسے دیا، آپ نے کہا: سوٹ کب ملے گا؟ اس نے کہا: عیدکے دن صبح پانچ چھ بجے آپ سوٹ لے لیں، عید کی نمازسے قبل آپ کو سوٹ مل جائے گا،آپ نے کپڑا وہ دیا جوایک ہزار روپے کا میٹر والا تھا، جب آپ نے کپڑا پہناتوآپ نے دیکھا کہ قمیص کا دامن دوفٹ لمبا ہے اورآپ کے بازوایک بالشت لمبےہیں، آپ کی شلوارایک فٹ لمبی ہے، آپ مجھے بتاؤ! آپ اس درزی کودعائیں دوگے یا گالیاں دوگے؟
اگر وہ درزی کہے: ارے میاں کیا کرتے ہو! میں نے ہزار روپے میٹرکا کپڑا دومیٹراورلگایا ہے، لیکن آپ کہیں گے: تو نے دومیٹر اور تو لگایاہے لیکن میری قمیص کا حلیہ بگاڑ دیا ہے اس لیےکہ جو ناپ میں نے دیا تھا مجھے اس سےبڑی قمیص بھی نہیں چاہیے اس سے چھوٹی بھی نہیں چاہیے، مجھے بتائیں ایک قمیص میں ایک گزکپڑا بڑھ جائے تو کوئی اس کو قبول نہیں کرتا اور اللہ نےصحابہ کومعیار بنایا، ناپ بنا کے دیا ہے اب کوئی عقیدہ آگےنکل جائے تو خدا قبول نہیں کرے گا، کوئی عمل بڑھا کر پیش کردیا جائے تو اللہ ہرگز قبول نہیں کرے گا۔
صحابہ عقیدے میں بھی معیارہیں، صحابہ اعمال میں بھی معیار ہیں، اللہ نے
”فَإِنْ آمَنُوا بِمِثْلِ مَا آمَنْتُمْ بِهِ فَقَدِ اهْتَدَوْا“
کہہ کر ان کو ایمان میں معیار بنایاہے اور
”وَالسَّابِقُونَ الْأَوَّلُونَ مِنَ الْمُهَاجِرِينَ وَالْأَنْصَارِ وَالَّذِينَ اتَّبَعُوهُمْ بِإِحْسَانٍ“
فرماکران کواعمال میں معیار بنایا ہے۔ (سبحان اللہ۔ سامعین)
تواللہ کے پیغمبر صلی اللہ علیہ و سلم کےبعدامت کی رہنمائی جنہوں نے کرنی ہیں ان میں ایک طبقہ ”صحابہ کرام رضی اللہ عنہم“ کا ہے۔
دوسری بات؛ نبی نمائندہ خدا اورصحابی نمائندہ مصطفیٰ
پہلے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی حیثیت سمجھیں۔ میں اسی جہت پہ بات کرنے لگا ہوں کہ صحابی کی آئینی حیثیت کیا ہے؟ اللہ رب العزت نے دین پیغمبر کو دیا، پیغمبر نے صحابہ کودیا، اب ہم یہ کہیں گے کہ اگرکسی صحابی نے دین لینا ہو تو نبی سے لیتا ہے اور بعد والے نے دین لینا ہو تو پیغمبر کے صحابی سے لیتا ہے۔ میں اب دو لفظ عرض کرنے لگا ہوں۔ایک ہے ”رسول خدا“ اور ایک ہے ”رسول مصطفیٰ“، نبی کو ”نمائندہ خدا“ کہتے ہیں اورصحابی کو ”نمائندہ مصطفیٰ“ کہتے ہیں، اللہ کا کلام نبی دے گا اور نبی کا کلام صحابی دے گا، کلام اللہ کامعنی نبی سمجھائے گا اورکلامِ مصطفیٰ کامعنی صحابی سمجھائے گا۔
اگرکوئی بندہ قرآن پڑھے اورمعنی نبی سے نہ لے بلکہ اپنا پیش کرے توآپ سمجھیں دال میں کالاکالا ہے اوراگرکوئی بندہ حدیث پیش کرے اور معنی صحابی سے پیش کرنے کے بجائے اپنا پیش کرے توسمجھیں دال میں کالا کالاہے، اس کی وجہ کیا ہے؟! میں نے کہا: دو لفظ ذہن میں رکھیں:

1)

رسولِ خدا، 2) رسولِ مصطفیٰ
نبی نمائندہ خدا ہے اور صحابی نمائندہ مصطفی ہے، نمائندہ خدایہ رسولِ خدا ہے اورنمائندہ مصطفیٰ یہ صحابی رسول ہے۔ اس پہ میں قرآن بھی پیش کرتا ہوں اورحدیث مبارک بھی پیش کرتا ہوں۔ قرآن کریم آپ نے پڑھا اس میں بیعت کا تذکرہ ہے۔
واقعہ یہ ہوا کہ حدیبیہ کے موقع پہ خبرمشہورہوگئی کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو شہید کردیا گیا ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میرے ہاتھ پہ بیعت کرومیں نے عثمان کابدلہ لینا ہے، اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے بیعت لینا شروع فرمائی، چودہ سوصحابہ رضی اللہ عنہم نے ہاتھ رکھ کے بیعت کی ہے، اللہ کےنبی نے اپنا ہاتھ لیا اور فرمایا:ہذہ ید عثمان• یہ میرا ہاتھ عثمان کا ہاتھ ہے۔ پھر اپنے داہنے ہاتھ کو بائیں پر رکھ کر فرمایا:ہذہ لعثمان•یہ بیعت عثمان کی طرف سے ہے۔
(صحیح البخاری: ج1 ص523 باب مناقب عثمان)
یہ واقعہ حدیث میں ہے قرآن میں نہیں ہے، اب قرآن کریم کو پڑھو قرآن کہتا ہے:
إِنَّ الَّذِينَ يُبَايِعُونَكَ إِنَّمَا يُبَايِعُونَ اللَّهَ•
(سورۃ الفتح: 10)
اے پیغمبر! جنہوں نے آپ کے ہاتھ پہ ہاتھ رکھ کر بیعت کی ہے یہ بیعت خداکی ہے۔
اللہ نے نبی کی بیعت کوخداکی بیعت فرمایا ہے اوراللہ کےنبی نےفرمایا: یہ میرا ہاتھ عثمان کا ہاتھ ہے۔ آخر اس کی وجہ کیا ہے کہ اللہ نے نبی کی بیعت کواپنی بیعت فرمایا،پیغمبر نے اپنے ہاتھ کوعثمان کاہاتھ فرمایا، اس کی وجہ جامع ترمذی کی روایت میں موجود ہے، حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
كانَ عُثمانُ بنُ عفَّانَ رسولَ رسولِ اللهِ صلى الله عليه و سلم إلى أهل مكة•
(جامع الترمذی: حدیث نمبر3702)
لفظ دیکھیں ”كانَ عُثمانُ بنُ عفَّانَ رسولَ رسولِ اللهِ“ فرمانے لگے: عثمان بن عفان مکہ مکرمہ میں رسول خداکے رسول ہیں،اس کا مطلب یہ کہ اللہ کے نبی حدیبیہ میں رسولِ خدا ہیں اور عثمان مکہ میں رسولِ مصطفی ہیں، حدیبیہ میں نبی خدا کا پیغام دے رہےہیں، مکہ میں عثمان نبی کاپیغام دے رہے ہیں، نبی نمائندہ خدا ہے، عثمان نمائندہ مصطفی ہے، خدانے نبی کی بیعت کواپنی بیعت قراردے کر بتایاکہ یہ نمائندہ میرا ہے، نبی نے اپنے ہاتھ کوعثمان کا ہاتھ بتاکہ سمجھایا کہ عثمان نمائندہ میراہے، نبی نمائندہ خدا کا ہے صحابی نمائندہ مصطفی ہے ،کلام اللہ نبی سے ملتا ہے اورکلامِ مصطفیٰ صحابی سے ملتا ہے، کلام اللہ کامعنی نبی دیتا ہے اورکلامِ مصطفی کا معنی پیغمبر کاصحابی دیتا ہے۔
کلام اللہ کی مراد رسول اللہ سے:
میں بتا یہ رہا تھا کہ صحابہ کرام کی حیثیت کو سمجھیں کہ یہ بنیاد کیسے ہیں؟ نبی نمائندہ خدا کا ہے صحابی نمائندہ مصطفیٰ ہے، ایک بات ذہن نشین فرمالیں کہ یہ فتنے دنیا میں پیدا کہاں سے ہوتے ہیں؟ ایک بات آپ بھی کہتے ہیں کہ مولانا صاحب! آپ لوگ بھی قرآن پڑھتے ہیں وہ لوگ بھی قرآن پڑھتے ہیں، آپ لوگ بھی حدیث پڑھتے ہیں وہ لوگ بھی حدیث پڑھتے ہیں لیکن عوام الجھن کا شکارہوتے ہیں کہ پھر اختلاف کیوں ہے؟
اس لیے یہ بات اچھی طرح سمجھ لیں کہ اختلاف قرآن میں نہیں ہے، اختلاف حدیث میں نہیں ہے، اختلاف اگر ہے تو قرآن کا معنی بیان کرنے میں ہے، اختلاف ہے تو حدیث کا معنی بیان کرنے میں ہے۔
عقیدہ ختمِ نبوت:
میں ایک مثال دیتاہوں تاکہ بات آپ کو سمجھ آئے، قرآن کریم میں آیت ہے :
مَا كَانَ مُحَمَّدٌ أَبَا أَحَدٍ مِنْ رِجَالِكُمْ وَلٰكِنْ رَسُولَ اللَّهِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّينَ•
(سورۃ الاحزاب:40)
ہمارا عقیدہ ہے کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و سلم خاتم النبیین ہیں، آپ کسی مرزائی قادیانی کے پاس چلے جاؤوہ بھی کہتاہے کہ حضورصلی اللہ علیہ وسلم خاتم النبیین ہیں، آپ کہیں گےپھر اس میں الجھن اور جھگڑا کیا ہے؟ اختلاف کیا ہے؟
جب اسمبلی میں کیس گیا اورمفتی محمود رحمۃاللہ علیہ نے اس آیت پہ جوبات کی ہے وہ بڑی سننے والی ہے، مفتی صاحب نے مرزا ناصرسے پوچھا: تم مرزے قادیانی کونبی مانتے ہو؟ اس نےکہا: جی ہاں، حضورصلی اللہ علیہ وسلم کو کیا مانتے ہو؟ اس نےکہا کہ خاتم النبیین، مفتی صاحب نے کہا کہ ہم بھی حضورصلی اللہ علیہ وسلم کو خاتم النبیین مانتے ہیں۔ اچھا تم مرزائی لوگ کہتے ہو کہ حضورخاتم النبیین ہیں لیکن تم نے یہ بات بھی کی ہے کہ بعد میں نبی آئیں گے اس پر تمہاری دلیل کیا ہے؟ مرزا ناصر نےکہا: قرآن کی یہ آیت ہماری دلیل ہے:
مَا كَانَ مُحَمَّدٌ أَبَا أَحَدٍ مِنْ رِجَالِكُمْ وَلَكِنْ رَسُولَ اللَّهِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّينَ
پھر اس نے مفتی صاحب سے کہا: آپ کہتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم آخری نبی ہیں، آپ کی دلیل کیا ہے؟ مفتی صاحب نے فرمایا:
مَا كَانَ مُحَمَّدٌ أَبَا أَحَدٍ مِنْ رِجَالِكُمْ وَلَكِنْ رَسُولَ اللَّهِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّينَ
اب لوگ بڑے حیران ہیں کہ ایک کہتا ہے کہ نبوت ختم ہوگئی تووہ بھی یہ آیت پڑھتا ہے، دوسرا کہتا ہے کہ نبوت جاری ہے وہ بھی یہ آیت پڑ ھتا ہے۔ اب مرزائیوں کی دلیل سمجھنا! مرزائی کہتے ہیں: ”خاتم النبیین“ عربی زبان کا لفظ ہے، ”خاتم“ کامعنی ہے ”مہر“ اور ”نبیین“ جمع ہے نبی کی، توخاتم النبیین کا معنی آخری نبی نہیں ہے بلکہ خاتم النبیین کامعنی ہے ”نبیوں کی مہر“،اس کا معنی آخری نبی نہیں ہے، اس کا معنی نبیوں کی مہر ہے، جس پر مہرلگتی جائے گی وہ نبی بنتا جائے گا۔
اب عام بندہ پریشان تو ہوگا،قادیانی عربی زبان کی کتاب کھول کررکھ دے گا کہ یہ دیکھو ”خاتم“ کامعنی مہر ہے ، مفتی صاحب فرمانے لگے: یہ اللہ کا قرآن مرزےپہ اتراہے؟ وہ کہنے لگا:نہیں، پوچھا: مجھ پہ اتراہے؟ کہنےلگا:نہیں ، مفتی صاحب نے فرمایا: میں کہتا ہوں خاتم النبیین کا معنی ہے ”آخری نبی“ اور تو کہتا ہے: خاتم النبیین کا معنی ہے ”نبیوں کی مہر“ تو جس نبی پہ قرآن اترا ہے اسی نبی سے معنی پوچھ لیتے ہیں، اگر حضور صلی اللہ علیہ و سلم ”خاتم النبیین“ کا معنی فرمائیں ”نبیوں کی مہر“ توبات تیری ٹھیک ہے اور اگر فرمائیں ”آخری نبی“ تو بات میری ٹھیک ہے۔
مفتی صاحب فرمانے لگے: میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے معنی بیان کرتا ہوں، اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:
أَنَا خَاتَمُ النَّبَيِّينَ، لا نَبِيَّ بَعْدِي•
(المعجم الکبیر: حدیث نمبر23 قطعۃ من المفقود)
میں خاتم النبیین ہوں اوراس کا معنی ”لانبی بعدی“ ہے یعنی میرے بعد کوئی نبی نہیں۔
تو حدیث پڑھ دے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نےفرمایا ہو کہ ”میں خاتم النبیین ہوں اور اس کا معنی کہ میں مہر لگاؤ ں تونبی پیدا ہوجاتا ہے۔“ اب اس کاجواب اس مرزائی کے پاس نہیں تھا، کیوں کہ قرآن مرزے نے پڑھا تھا لیکن معنی اپنا بیان کیا، مفتی صاحب نے قرآن پڑھا لیکن معنی اپنا پیش نہیں کیا بلکہ معنی اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے لیا ہے۔
قرآن میں عذابِ قبر کا ذکر:
تو میں عرض کر رہا تھاکہ فتنے اس سے پیداہوتے ہیں کہ لوگ قرآن پڑھتے ہیں اورمعنی اپنا بیان کرتے ہیں، ہم کہتے ہیں جس نبی نے قرآن دیا اسی نبی سے معنی بھی لو۔ قادرپور راواں یہ ملتان کے قریب ایک قصبہ ہے میرا اس جگہ ایک بیان تھا، وہاں رائیونڈ کی ایک کی شاخ ہے عیدگاہ، وہاں سے مجھے ایک استاذ کا فون آیا مولانا ریاض صاحب کا جو وہاں کے صدر مدرس ہیں، مجھے فرمانے لگے: جب آؤ تو کچھ وقت ہمارے لیے بھی لے کر آنا ایک بندے کی آپ سے بات کرانی ہے۔میں شام کوچلاگیا، رات کووہاں تلنبے عیدگاہ میں ٹھہرا،صبح دس بجے اس آدمی کے پاس ہم پہنچ گئے، اب وہ آدمی فوت ہو گیا ہے، اپنے علاقے کاسیٹھ اورکئی مربعوں کا مالک تھا،عمرکا بوڑھا تھا۔
میں نے مولانا ریاض صاحب سےکہا: مولانا بات کیا ہے؟ مولانافرمانے لگے: اس کے پاس مولانا طارق جمیل صاحب بھی آئے تھے، اس سے بات بھی کی تھی لیکن اس بوڑھے نے حجت ایسی شروع کردی کہ مولانا کے لیے سنبھالنا مشکل ہو گیا۔ مولانا عالم تو ہیں لیکن عالم ہونا اور بات ہے، مناظرہونا اور بات ہے۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ کوئی بندہ بڑاعالم ہو اور بڑامناظر بھی ہو،عالم ہونا اور بات ہے اور مناظر ہ ایک فن ہے۔
میں نے کہا: وہ کہتا کیا تھا؟ مولانا فرمانے لگے:یہ بندہ کہتا تھا کہ میں عذابِ قبر کو نہیں مانتا، اگرمجھے منوانا ہے تو قرآن سے منواؤ، اب اس نے یہ مطالبہ کیا تو مولانا طارق جمیل صاحب نے فرمایا کہ دیکھو! قرآن میں حکم ہے نماز پڑھو! لیکن نماز کی رکعتیں قرآن میں نہیں ہیں، قرآن نے فرمایا: روزے رکھولیکن رمضان کے روزے کے مسئلے قرآن میں نہیں ہیں ، قرآن نے فرمایا: حج کرو لیکن حج کے مسائل قرآن میں نہیں ہیں ان کے لیے حدیث میں جانا پڑتا ہے تو جب تک حدیث میں نہ جائیں قرآن پورا سمجھ نہیں آتا لیکن اس بابا جی کے دماغ میں ایک بات بٹھائی گئی تھی کہ العیاذ باللہ احادیث جھوٹ کا پلندا ہیں، میں حدیثوں کو نہیں مانتا، بس مجھے قرآن سے ثابت کر دو گے تو مانوں گا، نہیں ثابت کرو گے تو نہیں مانوں گا۔ مجھے سمجھ میں آ گیا کہ اس بابا جی کا مسئلہ کیا ہے؟!
ہم صبح دس بجے پہنچے توبات شروع ہونے لگی تو میں نے کہا: بابا جی اگر میں قرآن میں عذابِ قبر دکھادوں توآپ مان لیں گے؟ اس نے کہا: جی مان لوں گا۔ میں نے قرآن کی آیت پڑھی:
يُثَبِّتُ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوْا بِالْقَوْلِ الثَّابِتِ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَفِي الْآخِرَةِ•
(سورۃ ابراہیم: 27)
اس کا ترجمہ میں نے یوں کیا: ”اللہ تعالیٰ ایمان والوں کوکلمہ ایمان کی برکت سے ثابت قدم رکھتے ہیں دنیا میں اور قبرمیں۔“ مجھےپتہ تھا کہ اس نےاعتراض کرنا ہے۔ میں نےکہا: ”دنیامیں اورقبرمیں“۔ بابااٹھا اوراس نے کہا:جی مولاناصاحب! آپ نے ترجمہ غلط کردیا ہے۔ میں نےکہا: کیسے غلط کیا ہے؟ اس نےکہا:قرآن کریم میں ہے:
يُثَبِّتُ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا بِالْقَوْلِ الثَّابِتِ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَفِي الْآخِرَةِ•
کہ اللہ ثابت قدم رکھتے ہیں دنیا میں اورآخرت میں،آپ نے کہا: دنیا میں اور قبر میں، آپ نےترجمہ غلط کیا ہے۔ اس کا اعتراض سمجھ میں آگیا،بظاہراس کا سوال بڑا معقول تھا۔
میں چاہتا تھا کہ وہ اعتراض کرے تاکہ میں اس کوجواب دوں۔ میں نے کہا: باباجی مجھے بتائیں کہ یہ دنیا کب تک ہے؟ کہتا ہے: جب تک آدمی زندہ ہے، میں نےکہا: جب مرجائےتوپھردنیا ہے؟ کہتا ہے: نہیں، میں نے کہا: مرنےکے بعدپھرکیا ہے؟... آخرت شروع ہوگئی نا، موت پرتو ہو گئی دنیا ختم ،اب دنیا کے بعد آخرت شروع ہوگئی، اب آخرت کا ایک حصہ موت لے کر حشر تک، دوسرا حصہ حشر سے حساب والا، تیسرا حصہ جنت اورجہنم والا۔
میں نے کہا: یہ قرآن کی آیت آپ پہ اتری ہے؟ مجھےکہتا ہے: نہیں، میں نے کہا: مجھ پہ اتری ہے؟ مجھے کہتا ہے: نہیں، میں نےکہا: اب ہم نے مسئلہ سمجھنا ہے کہ قرآن نے کہا: مومن کوکلمہ ایمان کی برکت سے دنیا میں بھی ثابت قدم رکھیں گے اور آخرت میں بھی ثابت قدم رکھیں گے۔ اب آخرت کے تین حصے ہو گئے؛ نمبرایک قبروالا حصہ، نمبر دو حشروالاحصہ، نمبر تین جنت اورجہنم والا، یہاں پہ کون سا حصہ مرادہے؟ نہ معنی میں کرسکتا ہوں نہ معنی آپ کرسکتے ہیں، یہ معنی وہی کرے گا جس پہ قرآن اتراہے، اللہ کےنبی سےآپ بتادیں کہ یہاں ”آخرت“ کا معنی ”حشر“ ہے میں مان لیتا ہوں اورمیں بتا دیتا ہوں کہ ”آخرت“ سے مراد ”قبر“ہے توآپ مان لیں۔
اب دیکھیں میں نے حدیث کا لفظ بیان نہیں کیا کیونکہ اس کو لفظ ”حدیث“ سے چڑ تھی نا لیکن میں اس کوگھماکروہاں لے آیاجہاں تک ہم نے بابا جی کو لانا تھا۔ میں نے کہا: دیکھو! صحابی رسول حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اللہ کےنبی صلی اللہ علیہ و سلم نےفرمایا:
جب بندےکوقبرمیں رکھا جاتا ہے تو فرشتے اس کےپاس آتے ہیں اور سوال کرتے ہیں:
”مَنْ رَّبُّكَ؟ مَا دِينُكَ؟ مَنْ نَّبِيُّكَ؟“ ،
تیرا رب کون ہے؟ تیرا دین کیا ہے؟ تیرا نبی کون ہے؟ یہ جواب دیتا ہے:
”رَبِّىَ اللَّهُ، وَدِيْنِىَ الْإِسْلَامُ، وَنَبِيِّىْ مُحَمَّدٌ صَلَّى اللّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ“
کہ میرا رب اللہ ہے، میرا دین اسلام ہے، میرا نبی محمد صلی اللہ علیہ و سلم ہے۔ (مسند احمد: حدیث نمبر18614) جب یہ تینوں سوالوں کے جواب دے دیتا ہے تو ایک فرشتہ آسمان سے آواز دیتاہے:
فَيُنَادِيْ مُنَادٍ مِنَ السَّمَاءِ أَنْ صَدَقَ عَبْدِي.
کہ اللہ فرما رہے ہیں کہ میرے بندے نے درست جواب دیے ہیں، فَأَفْرِشُوهُ مِنَ الْجَنَّةِ،اس کو جنت کا بچھونا دو، وَأَلْبِسُوهُ مِنْ الْجَنَّةِ، اس کو جنت کا لباس دو
،وَافْتَحُوْا لَهُ بَابًا إِلَى الْجَنَّةِ،
جنت کادروازہ اس کے لیے کھول دو،
فَيَأْتِيْهِ مِنْ طِيْبِهَا وَرَوْحِهَا،
جنت کی خوشبو اس قبر میں پہنچ جاتی ہے۔
(مصنف ابن ابی شیبۃ:حدیث نمبر12185 وغیرہ)
اور فرشتہ کہتا ہے : نَمْ كَنَوْمَةِ الْعَرُوْسِ.
(جامع الترمذی: حدیث نمبر1071)
ایسے سو جا جیسے پہلی رات کی دلہن سوتی ہے۔ پھراللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و سلم نےفرمایا:
وذٰلِکَ قَوْلُ اللہِ ﯘيُثَبِّتُ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا بِالْقَوْلِ الثَّابِتِ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَفِي الْآخِرَةِﯗ.
(المستدرک الھندیۃ: ج1 ص379)
کہ یہ جواللہ نےفرمایا کلمہ ایمان کی وجہ سے مؤمن کو آخرت میں ثابت قدم رکھتے ہیں، اس آخرت سے مرادیہ جگہ یعنی ”قبر“ہے۔ میں نےکہا: نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے آخرت کامعنی ”قبر“ کیا ہے۔ آپ بتاؤقرآن میں آگیا کہ نہیں؟ (آگیا۔ سامعین) میں نے اپنی پوری بات میں حدیث کانام نہیں لیا، اگر میں حدیث کانام لیتا تو اس نےاٹھ جانا تھا۔ تو بسا اوقات بندے کواس طرح سمجھاناپڑتا ہے۔
تیسری بات؛ کلام رسول کی مراد صحابی رسول سے:
میں بتا یہ رہا تھا کہ نبی نمائندہ خدا ہے اور صحابی نمائندہ مصطفیٰ ہے، کلام اللہ کے الفاظ بھی نبی سے معنی بھی نبی سے،حدیث پاک کےالفاظ بھی صحابی سے اور معنی بھی صحابی سے۔
میں سیالکوٹ میں ایک جگہ بیان کےلیے گیا، حجرے میں بیٹھا ہوا تھا کہ ایک نوجوان آ گیا، مجھے کہنے لگا:مولانا صاحب! آپ امام کے پیچھے فاتحہ پڑھتے ہیں؟ میں نے کہا: نہیں پڑھتے۔ مجھےکہتا ہے کہ جی پڑھنی چاہیے۔ میں نے کہا: دلیل دےدیں میں پڑھ لیتا ہوں، ہمیں دلیل سے کوئی لڑائی تونہیں ہے۔ مجھےکہنے لگا: صحیح بخاری میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
لاصلوٰۃ لمن لم یقرابفاتحۃ الکتاب.
کہ جو بندہ فاتحہ نہ پڑھے اس کی نمازنہیں ہوتی۔
میں نے کہا: یہ حدیث اللہ کےنبی سےآپ نے سنی ہے؟ کہتا ہے: نہیں، میں نے کہا: میں نےسنی ہے؟ کہتا ہے: نہیں، میں نے کہا: کس نےسنی ہے؟کہتا ہے: صحابی نے سنی ہے۔ میں نے کہا: معنی توبھی نہ کر،معنی میں بھی نہ کروں جب حدیث صحابی نے نقل کی ہے تو معنی بھی صحابی سے لے لیتے ہیں۔ کہنے لگا: جی ٹھیک ہے۔
میں نے کہا: یہ صحیح بخاری ہے یہ جامع ترمذی ہے، امام بخاری استاد ہیں امام ترمذی شاگردہیں ،حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم استادہیں حضرت جابربن عبداللہ رضی اللہ عنہ شاگرد ہیں، یہی حدیث بخاری والی (یعنی: لاصلوٰۃ لمن لم یقرأ بفاتحۃ الکتاب) امام ترمذی نے جامع ترمذی میں نقل کی ہے اورحضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے معنی نقل کیا ہے۔ امام ترمذی نے پہلے حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے یہ روایت بیان کی ہے:
مَنْ صَلَّى رَكْعَةً لَمْ يَقْرَأْ فِيهَا بِأُمِّ الْقُرْآنِ فَلَمْ يُصَلِّ إِلَّا أَنْ يَكُونَ وَرَاءَ الْإِمَامِ
جو بندہ نماز میں سورۃ الفاتحہ نہ پڑھے تو اس کی نماز نہیں ہوتی، ہاں اگر امام کے پیچھے ہو اور سورۃ فاتحہ نہ پڑھے تو نماز ہو جاتی ہے۔
اب سوال یہ تھا اللہ کےنبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ہے کہ جو بندہ سورۃ فاتحہ نہ پڑھےاس کی نمازنہیں ہوتی اورحضرت جابررضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ بندہ اگر امام کے پیچھے سورۃ فاتحہ نہ پڑھے تو نماز ہو جاتی ہے۔ جب حدیث پر یہ سوال ہوا تو حضرت جابر رضی اللہ عنہ نے اللہ کےنبی صلی اللہ علیہ و سلم کے فرمان کا معنی بیان کیا کہ یہ جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نےفرمایا: ”لا صلوٰۃ لمن لم یقرا بفاتحۃ الکتاب“ کہ جو بندہ فاتحہ نہ پڑھے اس کی نمازنہیں ہوتی، فرمایا: ”أن هذا إذا كان وحده“ یہ حدیث مقتدی کےلیے نہیں ہے، یہ حدیث اس کےلیے ہے جواکیلا نمازپڑھ رہا ہو۔
(جامع الترمذی: تحت حدیث نمبر312)
میں نے کہا: دیکھو! جب لفظ صحابی سے لیے ہیں تومعنی بھی صحابی سے لونا! نبی نمائندہ خدا ہے اورصحابی نمائندہ مصطفیٰ ہے، میں نے کہا میں کئی جہتوں سے سمجھا رہا ہوں کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی آئینی حیثیت کیا ہے؟
چوتھی بات؛ دین صحابہ ہی دین محمد ہے:
اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
لَيَأْتِيَنَّ عَلَى أُمَّتِي مَا أَتٰى عَلٰى بَنِي إِسْرَائِيلَ حَذْوَ النَّعْلِ بِالنَّعْلِ•
میری امت پہ بالکل وہی حالات آئیں گے جوبنی اسرائیل پہ آئے تھے،حَتّٰى
إِنْ كَانَ مِنْهُمْ مَنْ أَتٰى أُمَّهُ عَلَانِيَةً لَكَانَ فِي أُمَّتِي مَنْ يَصْنَعُ ذٰلِكَ•
حتی کہ اگر بنی اسرائیل میں کوئی ایسابدکردارگزرا جس نے اپنی ماں سے منہ کالا کیا ہےتو میری امت میں بھی ایسا بندہ آئے گا جو ماں سے منہ کالا کرے گا۔ (یعنی اتنے ابترحالات پیدا ہوجائیں گے، پھر فرمایا)
وَإِنَّ بَنِي إِسْرَائِيلَ تَفَرَّقَتْ عَلٰى ثِنْتَيْنِ وَسَبْعِينَ مِلَّةً•
بنی اسرائیل بہتر فرقوں میں تقسیم ہو گئی تھی۔وَتَفْتَرِقُ أُمَّتِي عَلٰى ثَلَاثٍ وَسَبْعِينَ مِلَّةً•میری امت میں تہتر فرقے ہوجائیں گے
كُلُّهُمْ فِي النَّارِ إِلَّا مِلَّةً وَاحِدَةً•
یہ سارے فرقےجہنم میں جائیں گے صرف ایک جنت میں جائے گا۔
اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دومثالیں دی ہیں؛ ایک ماں سے منہ کالا کرنا یہ مثال عمل کی ہے اور دوسری فرقے بن جانا یہ مثال عقیدے کی ہے۔ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و سلم سےپوچھا گیاکہ جنت میں جانے والاکون سا طبقہ ہوگا؟ فرمایا: مَا أَنَا عَلَيْهِ وَأَصْحَابِي• جنت میں جانے والاوہ ہوگا جودین مجھ سےلے اورمعنی میرے صحابی سے لے۔
(جامع الترمذی: حدیث نمبر2641)
دین میرا ہوگا اورمعنی میرےصحابی کا ہو گاتویہ فرقہ جنتی ہے۔
اللہ کےنبی صلی اللہ علیہ و سلم نے ”ماانا علیہ واصحابی“ یعنی ”دین“ کیوں فرمایا؟ میں اس پر دو آیتیں قرآن سے پڑھنے لگا ہوں ذرا دونوں کو سمجھنا! قرآن کریم میں ہے:
قُلْ يَا أَيُّهَا الْكَافِرُوْنَ ۝ لَا أَعْبُدُ مَا تَعْبُدُوْنَ ۝ وَلَا أَنْتُمْ عَابِدُوْنَ مَا أَعْبُدُ۝ وَلَا أَنَا عَابِدٌ مَا عَبَدْتُمْ۝وَلَا أَنْتُمْ عَابِدُوْنَ مَا أَعْبُدُ۝لَكُمْ دِيْنُكُمْ وَلِيَ دِيْنِ۝
”دِیْنِ“ اصل میں ”دِیْنِیْ“ ہے اوریہاں ”ی“ عربی گرائمر کی رو سے گری ہے یعنی ”میرا دین“۔ اللہ نے اپنے نبی سے فرمایا کہ آپ اعلان فرمائیں: ”لَكُمْ دِيْنُكُمْ وَلِيَ دِيْنِ“اے مشرکین مکہ! تمہارا دین تمہارا لیے اور میرا دین میرے لیے۔
اس آیت میں اللہ نے دین کی نسبت مصطفیٰ کی طرف کی ہے اورجب آپ مدنی سورۃ کو دیکھیں، اس میں ہے:
اَلْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُم.
(سورۃ المائدۃ:3)
یہ آیت حجۃ الواع کے موقع پر نازل ہوئی ہے۔ اللہ نے ارشادفرمایاکہ ”آج کے دن میں نے تمہارے لیے تمہارادین مکمل کردیا ہے۔“
یہاں نکتہ سمجھنا! مکہ میں شروع شروع میں اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: ”لَكُمْ دِيْنُكُمْ وَلِيَ دِيْنِ“ تمہارے لیے تمہارا دین اور میرے لیے میرا دین،یہاں دین کی نسبت نبی کی طرف ہے اورجب آخری زمانے میں آیت اتری تو فرمایا: ”اَلْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُم“آج کے دن میں نے تمہارے لیے تمہارادین مکمل کردیا ہے، تو شروع میں دین کی نسبت ہے نبی کی طرف اورآخری دورمیں دین کی نسبت کی ہے صحابہ کی طرف۔
اب اس میں حکمت کیا ہے کہ پہلے دین کی نسبت نبی کی طرف اور اب نسبت صحابہ کی طرف، اس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع کے موقع پر صحابہ کو فرمایا:جودین خدا نے مجھے دیا میں نے تم تک پہنچادیا ہے؟
صحابہ نے تین لفظ بولے:
نَشْهَدُ أَنَّكَ قَدْ بَلَّغْتَ وَأَدَّيْتَ وَنَصَحْتَ.
ہم گواہی دیتے ہیں کہ آپ نے پہنچادیا ہے، پہنچانے کا حق اداکردیا ہے اور نصیحت و خیر خواہی کے ساتھ پہنچایا۔
آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:
اَللّٰهُمَّ اشْهَدْ. اَللّٰهُمَّ اشْهَدْ. اَللّٰهُمَّ اشْهَدْ .
اللہ توگواہ بن جا کہ میں نےان کو تیرا دین پہنچادیا۔
آپ صلی اللہ علیہ و سلم نےفرمایا:
فلیلّبغ منکم الشاھد الغائب •
(سنن ابی داؤد: حدیث نمبر1907، کنز العمال: ج5 ص129 حدیث نمبر12354)
تم جو موجود ہو، میرا دین تم نے لینا ہے اور آگے دین دینا ہے۔
توجہ رکھنا! اب حضورصلی اللہ علیہ وسلم پوری دنیا کے نبی ہیں، حضور پوری دنیا میں خود نہیں جا رہے، نبی کےصحابہ جارہے تھے، فرمایا: تم نے مجھ سے دین لینا ہے اور امت کو دینا ہے۔اب امت نبی کو دیکھے گی یا نبی کے صحابہ کو دیکھے گی؟ (نبی کے صحابہ کو۔ سامعین) جب حضور مکہ میں تھے تو لوگوں نے صحابہ کو دیکھنا تھا یا نبی کودیکھنا تھا؟(نبی کودیکھنا تھا۔ سامعین) حضورصلی اللہ علیہ وسلم جب مکہ میں تھے تولوگوں نے حضورکودیکھنا تھا اور جب نبی دنیا سے چلے گئے اب صحابہ کودیکھنا ہے۔ توخدانے شروع میں دین کو”دین محمد“ کہا اورآخری دورمیں دین کو”دین صحابہ“ کہا یہ بتانے کے لیے کہ دین محمدوہی ہوگا جو صحابہ سے ملے گا، صحابہ کوکراس (Cross) کر کے لوگے تو دین مصطفی مل سکتا ہی نہیں۔ تو شروع دور میں ”دینِ محمد“ فرمایا اور آخری دور میں ”دینِ صحابہ“ فرمایا۔میں اس لیےکہہ رہا ہوں کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی حیثیت کو سمجھیں۔
صحابہ کا پیغام کہ ہماری طرح بن جاؤ:
میں کبھی ایک جملہ کہا کرتا ہوں، آپ حضرات میں سےبہت سارے ساتھی تبلیغی جماعت کے بیٹھےہوئے ہیں، وقت بھی لگاتے ہیں، اللہ قبول فرمائے، جب آپ تبلیغ میں جائیں تو آپ ایک جملہ کہتے ہیں کہ صحابہ رضی اللہ عنہم جب کسی علاقے میں جاتے تھے وہ فرماتے تھے ”کُونُوا مِثْلَنا“ ہماری طرح ہو جاؤ! صحابہ یہ نہیں فرماتے تھے کہ ہمارے نبی کی طرح ہوجاؤ، اگرصحابہ یہ فرماتے کہ ہمارےنبی کی طرح ہو جاؤ تو لوگ پوچھتے نبی کی طرح کیسے ہوں؟ اب نبی کوتودکھا نہیں سکتے تھے نا، اب دکھاناکس کو تھا؟ اپنے آپ کودکھانا تھا۔ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و سلم نےعمامہ کیسے باندھا؟ یہ صحابی کو دیکھیں گے تو سمجھ میں آئے گا، اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی داڑھی کیسی تھی؟ یہ صحابی کودیکھیں گے توسمجھ میں آئے گا، اللہ کےنبی کی نماز کیسی تھی؟ یہ صحابہ کو دیکھیں توسمجھ آئے گا، نبی کا قرآن پڑھنا کیسا تھا؟ صحابہ کو دیکھیں گے توسمجھ آئے گا نا!
اس لیے صحابہ یہ نہیں فرماتے تھے کہ ”کُونُوامِثْلَ نَبِیِّنَا“ کہ ہمارے نبی کی طرح ہو جاؤ بلکہ فرماتے: ”کُونُوا مِثْلَنا“ ہم نبی کی طرح کریں تم ہماری طرح کرو،ہم نےنمازنبی کی طرح پڑھی ہے تم نمازہماری طرح پڑھو، تودنیا میں دین کو لے کر پیغمبر کے صحابہ گئے ہیں۔
پانچویں بات؛ حاملین قرآن و سنت صحابہ:
ایک شخص کہنے لگا کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:
تَرَكْتُ فِيكُمْ أَمْرَيْنِ لَنْ تَضِلُّوا مَا تَمَسَّكْتُمْ بِهِمَا كِتَابَ اللَّهِ وَسُنَّةَ نَبِيِّهِ•
میں تمہارے اندر دو چیزیں چھوڑ کے جا رہا ہوں، اگر ان دوکو تھام کے رکھوگے توکبھی گمراہ نہیں ہوسکتے۔ ایک قرآن اور دوسری میری سنت۔
وہ بندہ کہنے لگا: نبی پاک صلی اللہ علیہ و سلم نے دوباتیں فرمائی ہیں؛ ایک قرآن کولے لو اور ایک سنت کو لے لو تو کبھی گمراہ نہیں ہوگے، آپ کہتے ہو کہ صحابہ کولے لوکبھی گمراہ نہیں ہوگے۔
میں نے کہا: بات سمجھو! کتاب اللہ بھی نورہے اورسنت مصطفی بھی نور ہے اور اگر آپ نے جنت میں جانا ہے تو راستے میں ظلمتیں ہی ظلمتیں ہیں، جنت میں تب جائیں گے جب صراط مستقیم پہ چلیں اورجنت میں تب جائیں جب آس پاس نور اور روشنی موجودہو، اب راستہ دکھانےکے لیےہمیں دو نور چاہییں؛ ایک کا نام کتاب اللہ اورایک کانام سنت، لیکن سوال یہ ہےکہ یہ نور اور روشنی خودبخود نہیں چلتی، اس نورکوچلانے کے لیےبھی توکوئی چاہیے نا۔
آپ رات کو یہاں سےموٹر وے پہ چڑھے ہیں اوراسلام آباد جانے لگےہیں لیکن جائیں گے تب جب آپ کی گاڑی پہ دوہیڈ لائٹیں لگی ہوں، ایک دائیں جانب اورایک بائیں جانب، اگریہ لائٹیں جلی نہ ہوں بجھی ہوں تو بھی راستہ نظر نہیں آئےگا اوراگریہ لائٹیں یہاں پہ لگی نہ ہوں تو آگے چلیں گی نہیں، معلوم ہواکہ راستہ نظرتب آتا ہے جب لائٹ جلے بھی اور راستہ نظر تب آتا ہے جب لائٹ چلے بھی، توہم نے لائٹ کوجلانا بھی ہے اور لائٹ کو چلانا بھی ہے، یہ”کتاب اللہ“ ایک نورہے ”سنت مصطفیٰ“ ایک نور ہے،”کتاب اللہ“ ایک لائٹ ہے اور”سنت مصطفی“ دوسری لائٹ ہے اورجس گاڑی پہ لگ کے یہ لائٹ چلی ہیں اس گاڑی کا نام ”اصحابِ مصطفیٰ“ ہے۔ (سبحان اللہ۔ سامعین)
قرآن لائٹ ہے لیکن خود نہیں سرگودھا پہنچا، پیغمبرکی سنت لائٹ ہے لیکن خودنہیں پہنچی ، جو لے کر آئے ہیں وہ پیغمبر کے صحابہ ہیں، ادھر کتاب اللہ کولیا دنیا میں پھیلا دیا اورادھرنبی کی سنت کولیا اوردنیامیں پھیلا دیا۔ میں بتایہ رہا تھا کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی حیثیت کیا ہے؟!
چھٹی بات؛ نبی معصوم صحابی محفوظ:
ہمارا نظریہ ہے کہ پیغمبرکی ذات معصوم ہے، اللہ اپنے نبی کوگناہ سے بچاتے ہیں اورصحابہ کے بارے میں یہ نظریہ قطعاً نہیں ہے کہ صحابی معصوم ہے، ہماراعقیدہ یہ ہے کہ نبی معصوم ہے اورصحابی محفوظ ہے۔ معصوم کا معنی یہ ہے کہ اللہ اپنے نبی سے گناہ ہونے دیتا نہیں اورمحفوظ کا معنی کہ صحابی سےگناہ ہو جاتا ہے لیکن اللہ اس کےنامہ اعمال میں باقی رہنے دیتا نہیں۔
نبی بھی پاک ہے کہ اس سے گنا ہ ہوا نہیں ،صحابی بھی پاک ہے اس سے گنا ہ ہوجاتا ہے لیکن نامہ اعمال میں باقی رہتا نہیں، ہم نبی کومعصوم مانتے ہیں اور صحابی کومحفوظ مانتے ہیں۔
اب بتاؤ! صحابہ کرام پر تنقید کس بات کی کرو گے؟! اگرگناہ ان سے ہوا توخدانے معاف کردیا، اب میں اور آپ کون ہوتے ہیں بَک بَک کرنے والے؟ تو نبی معصوم ہے اور صحابی محفوظ ہے۔ نبی اکیلا معصوم ہے، صحابی اکیلا یہ مؤمن ہے، صحابی اکیلا یہ عادل ہے، صحابی اکیلا یہ حجت ہے، صحابی اکیلا یہ معیار ہے اورجب سارے صحابہ کسی مسئلہ پہ جمع ہوجائیں تو ایسے ہی معصوم ہیں جیسے نبی تنہا معصوم ہے۔
یہ بات اچھی طرح سمجھ لیں! نبی اکیلا معصوم ہے، صحابی اکیلا ہوتومؤمن ہے، اکیلا ہوتوحجت، اکیلا ہو توعادل، اکیلا ہو تومعیار اورجب سب صحابہ جمع ہوجائیں تو پیغمبر کی طرح معصوم ہیں، صحابہ جس مسئلے پہ سارے جمع ہو جائیں تو وہ مسئلہ ایسا ہے جیسے نبی نے فرما دیا ہو، اب اس کا ردکرنا پیغمبر کے فیصلے کو رد کردینا ہے، اس لیے ہم نبی کو معصوم اور صحابی محفوظ کہتے ہیں۔
ساتویں بات؛ صحابہ تنقیدسے بالا ترہیں:
میں ساتویں بات کہنے لگا ہوں: صحابہ تنقیدسے بالا ترہیں۔ تنقید سے بالاتر ہونے کا معنی یہ ہے کہ ان پرتنقید نہیں ہوسکتی۔ لوگ کہتے ہیں: کیوں؟ میں نے کہا: اس کی وجہ یہ ہے کہ دنیا میں تنقیدکی بنیادیں دو ہیں، تنقید کی بنیاد ”عقیدہ“ یا تنقید کی بنیاد ”عمل“ اگرتنقیدکی بنیاد عقیدہ ہو تو عقیدہ غلط ہو جائے وہ صحابی ہے ہی نہیں، توجہ رکھنا! اگرتنقیدکی بنیاد عقیدہ ہو تو عقیدہ غلط ہو جائے وہ صحابی ہے ہی نہیں، اوراگرعمل غلط ہوجائے تو ہم نے عمل کی بنیاد پرصحابی مانا ہی نہیں ہے تو بتاؤ! تنقید کریں گےکیسے؟
صحابہ تنقید سے بالاتر ہیں، کیوں کہ تنقید کی وجہ دو ہیں؛ عقیدہ یا عمل، اگر عقیدہ غلط ہو تو صحابی رہتا ہی نہیں اوراگرعمل غلط ہوتوہم نےعمل کی بنیاد پہ صحابی مانا ہی نہیں، ہم نےتوصحابی مانا عقیدہ اور صحبتِ نبوت کی وجہ سے، اب تنقیدکیوں ہے؟ تو تنقید کی کوئی وجہ بنتی ہی نہیں۔ اسی لیے ہم کہتے ہیں کہ صحابہ تنقید سے بالا تر ہیں۔
آٹھویں بات؛ صحابہ معیارِ حق ہیں:
صحابہ معیارحق ہیں جیسے اعمال ان کےتھے ویسے اعمال ہمارے ہونے چاہییں۔ ایک بندے نے سوال کیا اور بظاہر اس کا یہ سوال وزنی ہے۔ مجھے کہنے لگا: مولاناصاحب! صحابہ معیارحق ہیں؟ میں نے کہا: جی ہاں۔ کہنے لگا: جو کام وہ کریں وہی کام ہم کریں؟ میں نے کہا: جی ہاں۔ کہنے لگا: انہوں نے نیک اعمال بھی کیے انہوں نے گناہ بھی کئے تو معیار حق کیسے ہیں؟ جوکچھ انہوں نے کیا وہی کچھ ہم کریں؟ کیاصحابہ سےگناہ نہیں ہوا؟میں نے کہا: ہواہے۔ کہنے لگا: فلاں جرم نہیں ہوا؟ میں نے کہا: ہوا ہے۔ مجھے کہنے لگا: پھرمعیارحق کیسے ہوئے؟
وہ نیک اعمال کریں توہم کریں وہ گناہ کریں تو کیا ہم بھی گناہ کریں؟! میں نے کہا: تومعیارحق کامعنی نہیں سمجھا، آپ معیار حق کا معنی سمجھنا! صحابہ معیارحق ہیں اس کا معنی یہ ہے کہ جونیک اعمال انہوں کیے وہی نیک اعمال ہم کریں، اگر ہم سےگناہ ہوجائے توپھردیکھیں کہ جب صحابی سے گناہ ہواتو گناہ ہونے کےبعدجوکیفیت اس کی تھی وہی کیفیت میری اور تیری ہو۔ (سبحان اللہ۔ سامعین)
بات سمجھ میں آئی؟ (جی ہاں۔ سامعین) جونیک اعمال انہوں نےکئے وہی اعمال ہم کریں اوراگرگناہ ہوجائے توپھرگناہ کے بعدجو کیفیت ان کی تھی وہی کیفیت ہماری ہو، اس کا معنی ہے ”معیار حق“۔
نویں بات؛ صحابی کو گالی دینے والے کا حکم:
صحابہ کی آئینی حیثیت کیا ہے اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کےبارے میں ہمارا نظریہ کیا ہونا چاہیے؟
اگرکوئی آدمی پیغمبر کوگالی دے تو یہ آدمی کافر، مرتد اور سزائے موت کا مستحق ہے اور اگر کسی صحابی کو گالی دے تو یہ کافر نہیں یہ فاسق ہے ، یہ سزائے موت کا نہیں بلکہ عمر قید کامستحق ہے، نبی کا معاملہ الگ ہے صحابی کا معاملہ الگ ہے، کبھی لوگ دونوں میں فرق نہیں کر پاتے، ہاں قاضی اگرچاہے تو صحابی کوگالی دینے والے کوتعزیراً قتل کردے لیکن حداًقتل نہیں ہے، ہاں اگر صحابی کوگالی دے اور گالی دینے کوحلال سمجھ کر گالی دے تو پھریہ شخص مسلمان نہیں ہے، پھر یہ مرتد ہوگیا اور اگرحرام سمجھے اور پھر دے تو پھر اس آدمی کی سز ا کی کیفیت الگ ہے۔
صحابی کو گالی دیتے کیوں ہو؟
میں اسی رمضان میں دبئی میں تھا۔ ایک جگہ گفتگوچل پڑی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کےبارےمیں، ایک بندہ کہنے لگا: اگر صحابی کوگالی دیں توفرق کیا پڑتا ہے؟ العیاذ با للہ۔ میں نے کہا: مجھےیہ بتا کہ گالی دینی کیوں ہے؟ صحابہ نے ہمارا بگاڑا کیا ہے؟ ہمارا نقصان کیا کیا ہے؟ اس کا معنی یہ ہے کہ اگرکوئی بندہ صحابہ کو برا بھلا کہتا ہے تو صرف اس وجہ سے کہتا ہے کہ صحابہ کا تعلق پیغمبر کی ذات کے ساتھ ہے اورتو کوئی وجہ نہیں ہے برابھلا کہنے کی، اگر برا اس لیے کہتا ہے کہ یہ پیغمبرکا صحابی ہے تویہ گالی دینے والا ایمان والا نہیں ہے، اگر گالی اس وجہ سے دیتا ہے کہ صحابہ نے پیغمبرکا ساتھ دیا ہے تو یہ گالی دینے والا ایمان والاہرگز نہیں ہے۔
میں نے کہا: فقہاء نے تو یہاں تک لکھا ہے کہ اگر کوئی آدمی عالم کی توہین اس وجہ سے کرے کہ یہ عالم ہے تو یہ توہین کرنے والا مسلمان نہیں رہتا، اس نے عالم کی نہیں بلکہ علمِ نبوت کی توہین کی ہے،تو اگر کوئی اس وجہ سے گالی دیتا ہے کہ یہ صحابی ہے یعنی صحابیت کی بنیاد پہ گالی دیتا ہے تو ایسے شخص کے ایمان کا خطرہ ہے ،اس کو مسلمان سمجھنا بڑا مشکل ہے۔
دسویں بات؛ تعداد انبیاء اور تعداد صحابہ میں مماثلت :
میں دسویں اور آخری بات کہتا ہوں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے بارے، میں عرض کررہا تھا کہ نبی نمائندہ خدا، صحابی نمائندہ مصطفیٰ ، آپ کو معلوم ہو گا کہ انبیاء علیہم السلام کی تعداد بھی ایک لاکھ چوبیس ہزار کم وبیش ہے اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی تعداد بھی ایک لاکھ چوبیس ہزار کم وبیش ہے، یہ تعدادایک جیسی کیوں ہے؟ ذرا نکتہ سمجھنا! اللہ نے اپنے نبی کواعزازبخشاہے کہ میرے مصطفیٰ! یہ تیرا اعزازہے کہ جتنے نمائندے میرے اُتنے نمائندے تیرے، اِن پہ نمائندگی میری ختم اُن پہ نمائندگی تیری ختم،تیرے بعداگرکوئی نمائندۂ خدا ہونے کا دعوی کرے وہ بھی بے ایمان ہے اوراُن کے بعد کوئی نمائندۂ مصطفیٰ ہونے کا دعوٰی کرے تو وہ بھی بے ایمان ہے، حضور آئے ہیں نبوت ختم ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم گئے ہے صحابیت ختم ہے۔ (سبحان اللہ۔ سامعین) حضورآئے تونبوت ختم ہوئی اورحضورگئے توصحابیت ختم ہوئی، ہم اُن کے بعد کسی کو نبی بھی نہیں مانتے اور اِن کے بعد کسی کوصحابی بھی نہیں مانتے۔
کوئی بندہ کہے ”جی میں نبی تو نہیں ہوں لیکن صحابی ہوں“ وہ مسلمان ہے؟ (نہیں۔ سامعین) وہ بے ایمان ہے، کیونکہ وہ صحابی تب بنے گا جب کسی نبی کی صحبت میں بیٹھے گا، جب حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے بعد کوئی نبی نہیں ہے تو وہ بندہ صحابی کیسے بنے گا؟!
میں نے دس باتیں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے بارے میں عرض کی ہیں۔ اللہ ہمیں بات سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ میری آپ سے گزارش ہے دیکھیں! یہ ہمارا ایمان ہے، اپنے عقائد و نظریات کو سمجھو، ہم نے اپنے پورے اس ایک گھنٹے میں کسی کو برا بھلا کہا ہے؟ (نہیں۔ سامعین) اپنا نظریہ بیان کیا ہے نا؟
میں ہر درس میں یہ بات اس لیے سمجھاتا ہوں کہ بعض لوگ آپ کی ذہن سازی کریں گے کہ مولانا کے درس میں نہ جاؤ بہت سخت ہیں، اب بتائیں میں نے کوئی سخت بات کی ہے؟ (نہیں۔ سامعین) بھائی میں تو سمجھا رہا ہوں کہ ہمارا نظریہ کیا ہے؟ ہمارا عقیدہ کیا ہے؟ ہمارے نظریے پہ دلائل کیا ہیں؟ اللہ رب العزت ہم سب کی اصلاح فرمائے۔
و آخر دعوانا ان الحمد للہ رب العلمین•