امت کے رہنما طبقات :حصہ سوم

User Rating: 4 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar ActiveStar Inactive
 
عنوان: امت کے رہنما طبقات
(حصہ سوم: فقہاء عظام)
تاریخ: 4 - اکتوبر 2014ء
مقام: جامع مسجد موتی 2 بلاک سرگودھا
امت کا رہنما طبقہ فقہاء عظام
أَلْحمدُللہِ نَحمدُہ ونَستعِینُہ ونَستغفِرُہ ونُؤْمِنُ بہ ونَتوکَّلُ علَیہ ونَعُوذُباللہ منْ شُرورِ أنفُسِنَا ومِنْ سیِّئاتِ أعمالِنا مَنْ یَّہدِہ اللہُ فلَا مُضلَّ لَہ ومَنْ یُّضْلِلْ فلَاہادیَ لہ ونَشہدُ أنْ لَّا الٰہ اِلَّااللہُ وحدَہ لَاشریکَ لہ ونَشہدُ انَّ سیِّدَنا ومولانا محمدًا عبدُہ ورسولُہ أمَّا بعد! فَاَعُوْذُ بِاللّهِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ بِسْمِ اللّهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ: ﴿ مَا كَانَ مُحَمَّدٌ أَبَا أَحَدٍ مِنْ رِجَالِكُمْ وَلٰكِنْ رَسُولَ اللَّهِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّينَ وَكَانَ اللَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيْمًا
(سورۃ الاحزاب :40 )
و قال النبی صلی اللہ علیہ و سلم: أَنَا خَاتَمُ النَّبِيِّيْنَ لَا نَبِيَّ بَعْدِي•
(مسند احمد: ح22395 عن ثوبان)
اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلٰى مُحَمَّدٍ وَعَلٰى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا صَلَّيْتَ عَلٰى إِبْرَاهِيْمَ وَعَلٰى آلِ إِبْرَاهِيْمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ۔اَللّٰهُمَّ بَارِكْ عَلٰى مُحَمَّدٍ وَعَلٰى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا بَارَكْتَ عَلٰى إِبْرَاهِيْمَ وَعَلٰى آلِ إِبْرَاهِيْمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ•
گزشتہ دروس کا خلاصہ:
میں نے گزشتہ دو دروس میں یہ بات آپ کی خدمت میں عرض کی تھی کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم آخری نبی ہیں، آپ کے بعد قیامت تک کوئی نیا نبی نہیں آئے گا یا یوں کہہ لیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم آخری نبی ہیں اور آپ کے بعد کوئی نیا نبی پیدا نہیں ہوگا۔ اللہ رب العزت نے آپ کی ذاتِ اقدس پر سلسلہ نبوت کو ختم فرما دیا ہے۔ سوال یہ تھا کہ جب حضور علیہ السلام آخری نبی ہیں اور قیامت تک کوئی نبی پیدا نہیں ہوگا تو قیامت تک امت کی راہنمائی کون کرے گا؟ اس پر میں نے گزشتہ دو درسوں میں یہ بات عرض کی تھی کہ اس امت کی راہنمائی چار طبقات کریں گے:
نمبر1: خلفاء راشدین رضی اللہ عنہم
نمبر2: صحابہ کرام رضی اللہ عنہم
نمبر3: فقہاء کرام
نمبر4: علماءِ عظام
یہ چار طبقات ہیں جو امت کی راہنمائی کریں گے۔ میں نے خلفاء راشدین رضی اللہ عنہم کے عنوان پر تفصیل سے بات کی تھی، پھر صحابیت کے عنوان پر بھی تفصیل سے گفتگو کی اور آج میں گفتگو کروں گا ”فقہاء کرام“ کے عنوان پر کہ فقہاء کرام کی حیثیت کیا ہے؟ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کن لفظوں میں فقہاء کرام کا تذکرہ فرمایا اور فقہاءِ کرام کے ذمہ کام کیا ہیں؟ آئندہ درس میں ان شاء اللہ آخری طبقہ یعنی ”علماءِ کرام“کے عنوان پر بات کروں گا اور یہ چوتھا اور آخری درس ہوگا۔ اللہ ہمیں بات سمجھنے کی اور سمجھانے کی توفیق عطا فرمائے۔ بات سمجھ میں آ جائے تو حق جلّ مجدُہ عمل کی بھی توفیق عطا فرمائے۔ (آمین۔ سامعین)
فقہاء کا مقام بزبانِ نبوت:
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فقہاء کرام کے بارے میں جو ارشادات فرمائے ہیں ان کو سنیں، میری اور آپ کی گفتگو سے کوئی اختلاف کر سکتا ہے لیکن پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی گفتگو سے اختلاف کم ازکم مسلمان نہیں کر سکتا۔
[۱]: حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے جلیل القدر صحابی حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
”سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ“
میں نے خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا آپ فرمارہےتھے:
مَنْ يُرِدِ اللَّهُ بِهِ خَيْرًا يُفَقِّهْهُ فِي الدِّينِ•
(صحیح البخاری: حدیث نمبر71)
اللہ جس کے ساتھ خیر اور بھلائی کا ارادہ فرمائیں اسے دین میں سمجھ عطا فرما دیتے ہیں، اسے تفقہ اور فقہ فی الدین کی نعمت عطا فرما دیتے ہیں۔
[۲]: حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا کے بیٹے ہیں۔ اس کے علاوہ ایک رشتہ اور بھی ہے ،آپ رضی اللہ عنہما کی خالہ حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ مطہرہ اور ام المؤمنین ہیں۔ اس لیے حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر آنا جانا بغیر پردہ کے تھا، کیونکہ حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا یہ حضرت ابن عباس کی خالہ تھیں اور خالہ سے پردہ نہیں ہوتا۔
حضرت عبداللہ بن عباس کے بارے میں آتا ہے یہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر چلے گئے، رات وہاں قیام کیا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نبی بھی ہیں اور خالو بھی ہیں، آپ چاہتے تھے کہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے رات کے معمولات دیکھوں گا، حضور صلی اللہ علیہ وسلم اٹھے، قضائے حاجت سے فارغ ہوئے، دیکھا کہ ایک لوٹا پانی کا بھرا ہوا آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے وضو کے لیے رکھا ہے تو حضرت میمونہ سے پوچھا کہ یہ لوٹا پانی کا کس نے رکھا ہے ؟
حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا نے عرض کیا: عبداللہ بن عباس نے رکھا ہے۔حضرت عبد اللہ بن عباس اس وقت چھوٹے تھے، تو نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے دو دعائیں دیں:
اَللّٰهُمَّ فَقِّهْهُ فِي الدِّينِ وَعَلِّمْهُ التَّأْوِيلَ•
نمبر1: ”اَللّٰهُمَّ فَقِّهْهُ فِي الدِّينِ“ اے اللہ ان کو دین کا فقہیہ بنا!
نمبر2: ”وَعَلِّمْهُ التَّأْوِيلَ“ اور ان کو قرآن کی تفسیر کا علم عطا فرما !
(مسند اسحاق بن راہویہ: ج4 ص230 حدیث نمبر2038)
حضرت عبداللہ بن عباس فقیہ بھی تھے اور مفسر قرآن بھی تھے، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ان کو کہا کرتےتھے کہ یہ ”ترجمان القرآن“ ہیں یعنی قرآن کی زبان ہیں۔
(الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب: ص284)
[۳]: اسی طرح حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے اور یہ روایت امام طبرانی کی کتاب ”المعجم الاوسط“میں موجودہے، فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے پوچھا:
يا رسول الله إن نزل بنا أمر ليس فيه بيان؛ أمر ولا نهي فما تأمرنا.
اے اللہ کے نبی! اگر ہمیں کوئی مسئلہ پیش آجائے اور قرآن یا حدیث میں صراحتاً مسئلہ کا حل نہ ملے تو پھر ہم کیا کریں؟ کس سے مسئلہ پوچھیں؟آپ نے فرمایا:تشاورون الفقهاء•
(المعجم الاوسط للطبرانی: ج1 ص441 رقم الحدیث1618)
فقہاء کے پاس جایا کرو اور ان سے مسئلہ پوچھ لیا کرو۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن اور حدیث میں مسئلہ واضح نہ ملنے کی صورت میں فقہا ء کے حوالہ کیا ہے کہ ان سے جا کر مسئلہ پوچھا کرو۔
[۴]: حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ فقیہ ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جلیل القدر صحابی ہیں ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں یمن کا گورنر اور معلم بنا کر بھیجا۔ اس دور کا گورنر ایسے نہیں تھا جیسے ہمارے دور میں گورنر ہوا کرتا ہے، اس دور کے گورنر کے ذمہ انتظامی امور بھی تھے اور شرعی امور بھی تھے، وہ انتظامات بھی سنبھالتا تھا اور شریعت بھی سکھاتا تھا۔
حضرت معاذ رضی اللہ عنہ یمن کے عامل اور گورنر بن کر گئے۔ حضرت معاذ رضی اللہ کو جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھیجا توان سے کچھ سوالات کیے، یہ جانچنے کے لیے کہ میرا شاگرد کس حد تک میری بات کو سمجھ سکا ہے اور آگے سمجھائےگا! ! اس لیے آپ نے حضرت معاذ سے پوچھا:
كَيْفَ تَقْضِى إِذَا عَرَضَ لَكَ قَضَاءٌ؟
اے معاذ! اگر لوگ تیرے پاس کوئی مسئلہ لے کر آئیں، کوئی کیس لے کر آئیں تو تومسئلہ کیسے بتائے گا ، فیصلہ کیسے کرے گا ؟
حضرت معاذ رضی اللہ عنہ عرض کیا:أَقْضِى بِكِتَابِ اللَّهِ.
اللہ کے نبی! قرآن موجود ہے میں قرآن سے فیصلہ کروں گا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
فَإِنْ لَمْ تَجِدْ فِى كِتَابِ اللَّهِ•
اگر تجھے قرآن میں مسئلہ نہ ملے تو پھر کیسے فیصلہ کرےگا؟ انہوں نے عرض کیا:
فَبِسُنَّةِ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم•
میں آپ کی سنت سے فیصلہ کروں گا۔ اللہ کے نبی نے پوچھا:
فَإِنْ لَمْ تَجِدْ فِى سُنَّةِ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم
•اگر سنت میں بھی مسئلہ نہ ملا تو پھر کیا کرے گا ؟ انہوں نے کہا:
أَجْتَهِدُ برَأْيِى وَلاَ آلُو.
پھر میں اجتہاد کرو ں گا اور اجتہاد میں کمی نہیں کروں گا۔ جس حد تک سے مجھ سے ہو سکا میں محنت کروں گا اور اجتہاد کر کے لوگوں کو مسئلہ سمجھا دوں گا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اتنا خوش ہوئے :
فَضَرَبَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم صَدْرَهُ•
اپنامبارک ہاتھ حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کے سینے پہ رکھ دیا۔ کیوں؟ تاکہ اللہ اس کے سینے کو کھول دے۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
اَلْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِى وَفَّقَ رَسُولَ رَسُولِ اللَّهِ لِمَا يُرْضِى رَسُولَ اللَّهِ•
اے اللہ! میں نمائندہ آپ کا ہوں اور یہ معاذ نمائند میرا ہے۔میں رسولِ خدا ہوں اور یہ رسولِ مصطفیٰ ہے۔ اے اللہ! آپ کا شکر ہے کہ آپ نے میرے نمائندہ کو اس بات کی توفیق دی جس سے آپ کا نمائندہ یعنی محمد صلی اللہ علیہ وسلم خوش ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خوشی کا اظہار فرمایا۔
حدیث معاذ کی تشریح:
آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنے صحابی سے پوچھا: لوگ مسئلہ پوچھیں گے تو جواب کیسے دو گے؟ انہوں نے کہا:میں قرآن سے جواب دوں گا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: اگر قرآن میں نہ ملے تو پھر کیسے جواب دو گے؟
ہر مسئلہ کا حل قرآن میں نہیں ملتا:
اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا یہ سوال کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ ہر مسئلہ قرآن میں موجود نہیں ہے، اگر ہر مسئلہ قرآن میں موجود ہوتا تو حضور صلی اللہ علیہ و سلم یہ کیوں فرماتے کہ ”اگر قرآن میں نہ ملے تو پھر کیسے جواب دو گے؟“ پھر اس سوال کے جواب میں حضرت معاذ رضی اللہ عنہ عرض کیا :
فَبِسُنَّةِ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم
•میں فیصلہ آپ کی سنت سے کروں گا۔
اس سے بھی معلوم ہوا حضرت معاذ کو بھی پتہ ہے کہ ہر مسئلہ قرآن میں موجود نہیں ہے ورنہ حضرت معاذ عرض کر دیتے کہ ”اے اللہ کے نبی! ہر مسئلہ قرآن میں موجود ہے، دوسری طرف جانے کی ضرورت ہی کیا ہے؟! “
اس سے پتہ چلا کہ جو لوگ آج کے دور میں یہ بات کہہ دیتے ہیں کہ ہر بات قرآن میں موجود ہے ہمیں حدیث کی ضرورت نہیں…… یہ لوگ اللہ کے نبی کی بات بھی نہیں مانتے اور نبی کے صحابی کی بات بھی نہیں مانتے۔
منکرین حدیث سے یہ سوال کریں!
یہ بات اچھی طرح سمجھ لیں کہ جو بندہ کہے کہ ہر بات قرآن میں موجود ہے ہمیں حدیث کی ضرورت نہیں، تو اس پر بہت سے سوال ایسے موجود ہیں کہ آپ ان سے کریں تو یہ لوگ آپ کو قرآن سے ان کا حل نہیں دے سکتے۔
اگر کوئی بندہ کہتا ہے کہ ہمیں قرآن کافی ہے حدیث کی ضرورت نہیں توآپ اس سے پوچھیں:
 فرض نمازیں کتنی ہیں؟ وہ کہے گا: پانچ۔ آپ کہیں: قرآن سے دکھا دو! یہ جو نمازیں پانچ ہیں یہ قرآن میں نہیں ہے، نمازیں پانچ ہیں یہ حدیث مبارک میں ہے، ہاں قرآن میں اشارے تو ملتے ہیں لیکن پانچ نمازوں کی صراحت قرآن میں نہیں ہے، یہ احادیث مبارکہ میں ہے۔
 اس بندے سے پوچھیں: نماز سے پہلے اذان دینی چاہیے؟ وہ کہےگا: جی دینی چاہیے۔ اس سے کہیں: قرآن سے دکھا دو، پانچ نمازوں کے لیے اذان دینا یہ شخص قرآن کریم میں سے نہیں دکھا سکتا۔
 چلیں اذان بعد کا مسئلہ ہے، نماز اس کے بعد کا مسئلہ ہے یہ سب باتیں بعد کی ہیں، آپ اس آدمی سے پوچھو:انسان کے مسلمان ہونے کے لیے کلمہ شرط ہے؟ وہ کہے گا: جی شرط ہے۔ آپ اس سے پوچھو: کون سا کلمہ شرط ہے؟ وہ کہے گا: ”لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہُ مُحَمَّد رَّسُوّلُ اللہِ“، آپ کہو: ”لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہُ مُحَمَّد رَّسُوّلُ اللہِ“اکٹھا جیسے ہم پڑھتے ہیں کہیں قرآن میں دکھا دو، پورے قرآن میں یوں اکٹھا نہیں ہے، ہاں
”فَاعْلَمْ أَنَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ“
یہ اور جگہ پر ہے۔
(سورۃ محمد: 19)
اور ”مُحَمَّدٌ رَسُوْلُ اللَّهِ“یہ اور جگہ پر ہے۔
(سورۃ الفتح: 29)
یہ دونوں کلمے کے حصے ہیں مگر یہ دونوں حصے اکھٹے قرآن میں دکھاؤ، مسجدوں میں ”لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہُ مُحَمَّد رَّسُوّلُ اللہِ“ اکٹھا لکھا ہوا ہوتا ہے لیکن قرآن میں اکٹھا لکھا ہوا موجود نہیں ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ ہر مسئلہ قرآن میں موجود نہیں ہوتا۔
ثواب و عذابِ قبر پر ایک دلچسپ مکالمہ:
میں لاہور میں ایک جگہ بیان کے لیے گیا، بیان سے فارغ ہوا تو میرے میزبان نے کہا کہ ایک ساتھی آپ سے مسئلہ پوچھنا چاہتا ہے، ہم کھانے پر موجود تھے، میں نے اس سے کہا: آپ مسئلہ پوچھنا چاہتے ہیں یا مسئلہ بتانا چاہتے ہیں؟ اس نے کہا: جی میں مسئلہ پوچھنا چاہتا ہوں۔ میں نے کہا: نہیں! جھوٹ نہیں بولنا، اگر آپ بتانا چاہتے ہیں تو مجھے بتادیں، اگر میرا دل چاہے گا تو میں مان لوں گا اور اگر دل چاہے گا تو نہیں مانوں گا، اگر پوچھنا چاہتے ہو تو پوچھ لو میں بتا دیتا ہوں، آپ کا دل کرے تو مان لینا اگر دل نہ کرے تو نہ ماننا۔
اس نے کہا: جی میں نے مسئلہ پوچھنا ہے۔ میں نے کہا: پھر پوچھ لو! مجھے کہنے لگا: جب بندہ فوت ہوجائے تو جس قبر میں بندے کو دفن کیا جاتاہے کیا اس قبر میں بندے کو ثواب اور عذاب ہوتاہے؟ نیک ہے تو بدلہ کا نام ”ثواب“ ہے اور اگر گنہگار ہے تو بدلہ کا نام ”عذاب“ ہے۔ میں نے کہا: آپ کا کیا خیال ہے عذاب و ثواب ہوتا ہے یا نہیں ہوتا؟
دراصل وہ مجھے مسئلہ بتانے آیا تھا پوچھنے نہیں آیا تھا، تمہید اِن لوگوں کی پوچھنے کی ہوتی ہے لیکن اصل مقصود بتانا ہوتا ہے۔ تو میں نے پوچھا: آپ کا کیا خیال ہے؟ اس نے کہا: نہ اس قبر میں ثواب ہوتا ہے اور نہ اس قبر میں عذاب ہوتا ہے۔ میں نے کہا: چلیں اس پر کوئی دلیل تو آپ کے پاس ہوگی وہ بتا دیں!
دلیل مخالف سے پوچھیں!
کوئی آپ سے مسئلہ پوچھتا ہے تو آپ مسئلہ بھی بتاتے ہیں اور دلیل بھی بتاتے ہیں اور جب نہیں آتی تو پریشان بھی ہوتے ہیں۔ ہمارے پاس کوئی آئے تو مسئلہ بھی اس سے پوچھتے ہیں اور دلیل بھی اس سے پوچھتے ہیں، نہ آئے تو ہم اس سے پوچھتے ہیں کہ بھائی! اتنا سا تیرا علم ہے اور تجھے منہ کھولتے ہوئے شرم نہیں آتی، اپنا علم دیکھ لے پھر ہم سے بحث کرنا، اس سے اس بندے کو احساس ہوتا ہے کہ میری علمی سطح کتنی ہے ، آپ فوراً مسئلہ بتاتے ہیں اور پھر فوراً اس کی دلیل بتاتے ہیں،جب دلیل آتی نہیں تو پھر پریشان ہوجاتے ہیں۔
گفتگو کرنا ایک فن ہے، اللہ جس کو عطا فر دے یہ اللہ کی عطا ہے، اگر اللہ یہ فن عطا فرمادے تو اللہ کا شکر ادا کریں، اگر فن نہ ملا تو پھر فن والے سے فن سیکھ لیں، اس سے کیا فرق پڑتا ہے؟! کپڑا بیچنا ایک فن ہے، آپ اس کے لیے اپنا بیٹا کپڑے والے کے پاس بھیجتے ہیں، کپڑا چھوڑیں پیاز ٹماٹر بیچنا بھی ایک فن ہے۔ آپ پہلے دن بچے کو دو لاکھ کی سبزی کی دکان بنا کر نہیں دیتے بلکہ پہلے کچھ عرصہ اس کو سبزی والے کے پاس بھیجتے ہیں اور شریعت کو ایسا یتیم سمجھا ہے کہ آدمی بیچتا پکوڑے ہے اور بحث شریعت پہ کرتا ہے، بیچتا کپڑ ا ہےاور بحث علماء سے کرتا ہے، بیچتا جوتیاں ہے اور بحث علمائےکرام سے کرتا ہے، اسے جوتیاں بیچنی نہیں چاہییں جوتیاں کھانی چاہییں۔ مطلب یہ ہے کہ جوتی والے کا کام جوتی بیچنا ہے اور علمائے کرام کا کام مسئلہ بتانا ہے، اپنا اپنا کام کریں تو کبھی بھی لڑائی نہیں ہوگی۔
آپ میری بات کو محسوس نہ فرمائیں مساجد میں لڑائیاں تب ہوتی ہیں جب انتظامیہ وہ کام کرتی ہے جو ان کا کام بنتا نہیں ہے تو لڑائی ہو جاتی ہے۔
کیے جاؤ کام اپنا اپنا:
ہمارا چک 87 آپ کے بالکل قریب ہے، آپ وہاں آنے کی زحمت نہیں کرتے، وہاں آ کے دیکھیں پانچ مسجدیں ہیں، پانچوں مسجدوں میں کوئی لڑائی نہیں ہے، کیوں کہ ان مساجد کی تنخواہ عوام کے ذمے ہے اور مسجد کا انتظام ہمارے ذمے ہے، لڑائی کیسے ہو گی؟ بھائی! آپ کے ذمے تنخواہ دینی ہے، آپ کے ذمے بل دینا ہے، آپ کے ذمے مسجد کو ٹھیک کرنا ہے، ہمارے ذمے امام دینا ہے، امام ہم دیں گے، تقریر ہم کریں گے، مسئلہ ہم بتائیں گے، بچوں کو ہم پڑھائیں گے، اخراجات آپ پورے کریں، اب بتاؤ لڑائی ہو گی؟ اب جھگڑا نہیں ہو گا، جھگڑا اس وقت ہوتا ہے جب بندہ دوسرے کے کام میں مداخلت کرتا ہے۔
پانچوں باتیں مانتے ہیں:
تو خیر میں نے اس سے پوچھا: آپ کے پاس کون سی دلیل ہے؟ مجھے وہ کہنے لگا: میرے پاس دلیل یہ ہے کہ اگر یہ مسئلہ ضروری ہوتا تو قرآن کریم میں ہوتا، نہ قرآن کریم میں میت کے ثواب کا ذکر ہے اور نہ قرآن کریم میں میت کے عذاب کا ذکر ہے؟ تو جب قرآن میں نہیں ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ثواب و عذابِ قبر ہے ہی نہیں، اگر ہوتا تو اللہ قرآن میں ضرور ذکر فرماتے۔
میں نے اس سے پوچھا: جب آپ کے ہاں کوئی بندہ فوت ہوجائے تو سب سے پہلے اس کو عذاب یا ثواب ہوتا ہے یا کچھ کام آپ بھی کرتے ہیں؟ کہنے لگا: عذاب یا ثواب تب ہو گا جب قبر میں جائےگا۔ میں نے کہا: قبر سے پہلے کچھ کام کرتے ہیں ؟ اس نے کہا: جی ہاں کرتے ہیں۔ میں نے کہا : مجھے گنوائیں۔ اس نے کہا: میت کو غسل دیتے ہیں پھر کفن دیتے ہیں پھر جنازہ پڑھتے ہیں پھر قبر میں دفن کر دیتے ہیں۔
میں نے کہا: آپ کے ابو جان فوت ہوجائیں آپ اس کو کفن دیتے ہیں یہ قرآن کی کون سی آیت میں ہے؟ آپ داد ا ابو کو جو کفن دیتے ہیں یہ قرآن کی کون سی آیت میں ہے؟ آپ جو میت کا جنازہ پڑھتے ہیں اللہ نے قرآن میں کہاں فرمایا کہ میت پہ جنازہ پڑھو؟ آپ جو قبر میں دفن کرتے ہیں قرآن کی کون سی آیت میں ہے کہ تم مردے کو دفن کیا کرو؟
مجھے کہنے لگا:پھر دفن نہ کریں؟ میں نےکہا: نہ کرو، قرآن میں جب نہیں ہے تو پھر آپ کیوں کرتے ہیں؟ آپ کے دادا ابو فوت ہو جائیں تو آپ اس کو چوک میں رکھ دو ، لوگ پوچھیں تو کہو کہ دل تو کرتا ہے کہ غسل دیں لیکن قرآن میں نہیں آیا اس لیے مجبور ہیں، ہم قرآن کے پابند ہیں جب قرآن میں کہیں ذکر نہیں تو ہم غسل کیوں دیں؟ دل کرتا ہے کہ ہم ان کو کفن دیں لیکن قرآن میں کفن کا ذکر نہیں تو کفن کیسے دیں؟ ہم کفن نہیں دیتے۔
اب جو اس نے کپڑے پہن رکھے تھے وہ تو وراثت میں تقسیم ہو جائیں گے نا اور کفن آپ نے دینا نہیں کیوں کہ قرآن میں نہیں ہے، میں نے اس سے کہا: اب بتاؤ دادا کا حشر کیا ہو گا؟ مجھے فورا کہنے لگا: اگرچہ قرآن میں نہیں ہے لیکن حدیث میں تو ہے نا؟ میں نے کہا: جس طرح حدیث میں یہ چار چیزیں ہیں اسی طرح حدیث میں پانچویں چیز ثواب وعذاب بھی ہے، تو نے صرف چار مانی ہیں، ہم رائیونڈ والے ہیں ہم ساری مانتے ہیں کیونکہ ہم تبلیغی ہیں اس لیے ہم پوری مانتے ہیں، ہم پورے دین کی بات کرتے ہیں، تم ادھورے دین کی بات کرتے ہو، تو نے حدیث والی چار باتیں مان لیں ہم نے حدیث والی پانچویں بات بھی مان لی۔
میں سمجھا یہ رہا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی سمجھتے تھے کہ ہر مسئلہ قرآن میں نہیں اور حضرت معاذ رضی اللہ عنہ بھی سمجھتے تھے کہ ہر مسئلہ قرآن میں نہیں ہے۔
اگر مسئلہ قرآن میں صراحتاً موجود نہ ہو:
پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ قرآن میں مسئلہ نہ ہو تو پھر کہاں سے بتاؤ گے؟ حضرت معاذ رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: بسنۃ رسول اللہ․سنت سے مسئلہ بتاؤں گا۔ فرمایا: ”فان لم تجد فیہ“اگر سنت میں بھی نہ ملے تو کیاکرو گے؟ انہوں نے عرض کیا:أَجْتَهِدُ برَأْيِى وَلاَ آلُو.میں اجتہاد کروں گا۔
اب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمانا کہ ”اگر سنت میں بھی مسئلہ نہ ملے تو پھر کیا کرو گے؟“ اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کے نبی کا ذہن بھی یہی تھا کہ ہر مسئلہ حدیث میں بھی نہیں ہوتا اور حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کا یہ کہنا کہ اگر حدیث میں نہ ملا تو میں اجتہاد کروں گا، یہ بھی اس بات کی دلیل ہے کہ ہرمسئلہ حدیث میں نہیں ہوتا۔
بھینس کی قربانی نہیں کرتے تو دودھ کیوں پیتے ہو؟
اب یہ جو لوگ ڈھنڈورا پیٹتے ہیں کہ سارے مسئلے قرآن میں ہیں․․․ سارے مسئلے حدیث میں ہیں․․․ اور کہتے ہیں ہمارے دو اصول ہیں: فرمانِ خدا اور فرمانِ رسول، بتاؤ! یہ کتنا بڑا جھوٹ ہے، سارے مسئلے قرآن میں بھی نہیں ہیں اور سارے مسئلے حدیث میں بھی نہیں ہیں، جس نبی کی حدیث ہے جب وہ نبی خود فرما رہے ہیں کہ سارے مسئلے حدیث میں بھی نہیں ہیں تو آپ کس طرح کہتے ہو کہ سارے مسئلے حدیث میں ہیں؟! اور جو بندہ کہے کہ سارے مسئلے احادیث میں ہیں آپ ان سے دو تین سوال کیا کرو تاکہ بات واضح ہو جایا کرے۔
میرے ذہن میں پہلے بھی آرہا تھا کہ اگلا درس ہم نے اپنے مضمون کو مکمل کرنے کے لیے ” علماء کرام“ کے عنوان پر دینا ہے لیکن اگلا مہینہ چونکہ ذوالحجہ کا ہوگا اس لیے میری خواہش ہے کہ اگلے مہینہ میں جو درس ہو گا وہ ”مسائل قربانی“ کے عنوان پہ ہو۔ ”علماء کرام“ والا موضوع مؤخر کر دیتے ہیں، اس کو بعد میں کرلیں گے ان شاء اللہ۔
قربانی کے مسائل تفصیل سے احادیث کی روشنی میں بیان کریں تاکہ پتا چلے کہ ہمارے مسائل ہیں کیا؟ اس میں ایک مسئلہ یہ پیش آئے گا کہ کٹے (بھینس) کی قربانی جائز ہے کہ نہیں؟ اب جو لوگ کٹے اور بھینس کی قربانی نہیں دیتے جب ان سے پوچھیں کہ کٹے اور بھینس کی قربانی کیوں نہیں دیتے؟
تو کہتے ہیں کہ حدیث میں نہیں آیا۔آپ ان سے پوچھیں کہ اگر حدیث میں بھینس کی قربانی نہیں ہے تو پھر حدیث میں بھینس کا گوشت بھی تو نہیں ہے ، حدیث میں بھینس کا دودھ بھی تو نہیں ہے، حدیث میں بھینس کا مکھن بھی تو نہیں ہے ، حدیث میں بھینس کا دیسی گھی بھی تو نہیں ہے، پھر آپ بھینس کا دودھ پینا چھوڑ دیں کیوں کہ حدیث میں نہیں ہے، اب دیکھو! یہ لوگ دودھ بڑے شوق سے پیتے ہیں لیکن کٹا ذبح کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔
کتنا دہرا معیار ہے کہ ایک چیز کا ذکر حدیث میں نہیں تھا تواس کو لے لیا اور دوسری کا ذکر حدیث میں نہیں ہےتو اس کو لینے کے لیے تیار نہیں ہیں لیکن جب میں اس پر گفتگو کروں گا تو دلائل سے بتاؤں کا کہ بھینس کا دودھ کہاں سے ثابت ہے اور بھینس کی قربانی کہاں سے ثابت ہے تاکہ پتہ چلے کہ فقہاءِ کرام نے کام کیا کیا ہے؟ دونوں باتیں ہماری سامنے آئیں گی ان شاء اللہ۔
جان بھی بچ گئی اور ایمان بھی:
تو جو بندہ یہ کہے کہ ہر مسئلہ حدیث سے ثابت ہے تو آپ اس سے کچھ مسائل پوچھو، مسائل تو بہت سے ہیں لیکن میں سمجھانے کےلیے کہا کرتاہوں کہ مثلاً ایک آدمی کا والد ہسپتال میں داخل ہے ، ڈاکٹر صاحب کہتے ہیں آپ کو دو بوتل خون کا انتظام کرنا پڑےگا اباجی کو خون لگانا ہے۔
اب یہ بچہ ہمارا نہیں تھا، یہ بچہ ان کا تھا جو کہتے ہیں کہ ہر مسئلہ حدیث سے ثابت ہے۔ اب یہ اپنے مولوی صاحب کے پاس گیا کہ اباجی ہسپتال میں داخل ہے اور ڈاکٹر نے کہا ہے کہ دو بوتل خون کا بندو بست کرو ، خون کا بندوبست میں کر لوں گا، پیسے لگانا مسئلہ نہیں ہے، حضرت! آپ سے پوچھنا یہ ہے کہ یہ مسئلہ حدیث میں ہے کہ نہیں؟ اس مولوی صاحب نے کہا: حدیث میں تلاش کریں گے کل آنا۔ وہ کل آ گیا۔ مولوی صاحب نے دیکھا کہ حدیث میں تو نہیں ہے، انہوں نے اس بچے سے کہا کہ بیٹا! کسی حدیث میں نہیں ہے کہ مریض کو خون دینا چاہیے، ہا ں مریض کے خون لینے کا ذکر موجود ہے۔
اس نے کہا: جی کہاں پہ لکھا ہے؟ مولوی صاحب نے کہا: حجامہ کا ذکر نہیں دیکھتے، پچھنے لگوانے کا ذکر حدیث میں موجود ہے، اس میں بیمار کا خون نکالتے ہیں تو بیمار ٹھیک ہوجاتا ہے، تم ڈاکٹر کے پاس جا کر کہو کہ میرے ابا جی کاخون ایک بوتل نکال لیں۔ یہ بچہ کہتا ہے کہ جی خون پہلے ہی کم ہے اور آپ کہتے ہیں کہ مزید نکال لو۔ اب وہ مولوی صاحب بات سمجھا رہے ہیں کہ دیکھو بیٹا! ہم قرآن اور حدیث کے پابند ہیں ، ہم ڈاکٹر کے پابند نہیں ہیں، جان جائے تو جائے ہمیں ایمان بچانا چاہیے، اس لیے آپ ڈاکٹر سے کہو کہ اباجی کے خون کی ایک بوتل نکال لے۔
اب وہ بچہ پوچھتا ہے کہ یہ میرا باپ ہے میں اپنے باپ کو مرتا کیسے دیکھ سکتا ہوں؟ اگر آپ اجازت دیں توہم حنفیوں کے کسی عالم صاحب اور مفتی صاحب سے مسئلہ پوچھ لیں۔ اس مولوی صاحب نے کہا: ان سے نہ پوچھنا! اس نے کہا: جی کیوں نہ پوچھوں؟ مولوی صاحب کہنے لگے: اس لیے کہ حدیث میں مسئلہ موجود نہیں ہے اور جب تو حنفی عالم اور مفتی صاحب کے پاس جائے گا وہ مفتی صاحب قیاس کریں گے اور تو ان کی تقلید کر ےگا، تقلید کرنے سے تو مشرک ہو جائےگا، اس لیے بیٹا! ایمان بچا لے ابا کی فکر نہ کر، باپ کی فکر نہ کر اپنا ایمان بچا۔
اس بچے نے کہا: حضرت میں پریشان ہوں، تمہاری بات مانوں تو ابا کی جان نہیں رہتی اور اگر حنفی مفتی کی بات مانوں تو میرا ایمان نہیں رہتا ، میں بڑا پریشان ہوں، میں ابا کی جان بچاؤں یا اپنا ایمان بچاؤں؟ اب یہ بچہ پریشانی کی حالت میں ہمارے پاس آ جاتا ہے، آدمی مجبور ہو تو چلا آتا ہے۔ جیسے تین طلاق دو تو تین ہی ہوتی ہیں، ایک کا تو تصور ہی نہیں ہے۔
لیکن جب لوگ پھنس جائیں تو پھر وہاں دوڑتے ہیں اور کہتے ہیں کہ” آخر وہ بھی تو مولوی ہیں، ان کے پاس بھی تو حدیثیں ہیں لیکن وہ تو یوں نہیں کہتے، انہوں نے بھی تو مرنا ہے، انہوں نے بھی تو اپنی قبر میں جانا ہے۔“ میں نے کہا: مرزائیوں نے بھی تو مر کے قبر میں جانا ہے، مرزا غلام احمد قادیانی قبر میں پڑا ہوا ہے، مرزائی بھی حدیثیں سناتے ہیں تو کیا العیاذ باللہ کوئی انسان اس بات پر مرزائی ہوجائے کہ جی ان کے پاس بھی تو حدیثیں ہیں؟ میں نے کہا: کچھ عقل سے کام لو اور اتنی جلدی اپنے مسلک کو بدلنے کے لیے تیار نہ ہوجایا کرو، دنیا کی کچھ مشقت برداشت کرلو ، آخرت کی سزا بڑی سخت ہےاور آخرت کے انعامات بھی بہت بڑے ہیں۔ اللہ آخرت کے عذاب سے بچائے اور انعامات عطا فرمائے۔ [آمین۔ سامعین]
خون لگوانے کی دلیل:
خیر! بندہ مجبور ہو تو آجاتا ہے، اب یہ بچہ ہم سے پوچھتا ہے کہ ہم کیا کریں؟ ہم نے کہا: ابا جی کو دو بوتل خون دے دو اور ڈاکٹر سے کہو کہ خون مل جائےگا۔ وہ پوچھتا ہے: میرے ایمان کا کیا بنے گا؟ ہم نے کہا: آپ کے ایمان کو کچھ نہیں ہوگا، آپ کاایمان بچ جائےگا۔ پوچھتا ہے: جی کیسےبچے گا؟ اب ہم اس کو سمجھاتے ہیں کہ دیکھو بیٹا بات سمجھو! کسی آدمی کے لیے اپنے جسم سے ایک قطرہ خون کا بلا وجہ نکالنا جائز نہیں ہے، اپنے جسم پر بلیڈ مارکر خون نکالنا جائز نہیں ہے، خود کشی کرنا بھی جائز نہیں ہے، نہ پورے جسم کو ختم کرنا جائز ہے اور نہ ہی ایک عضو کو کاٹنا جائز ہے کیونکہ یہ جسم اللہ کی امانت ہے اور امانت میں اپنی طرف سے رد و بدل کرنا جائز نہیں۔ اب میں نے کہا: آدمی محرم میں ماتم کرنا چاہے تو جائز نہیں ہے کیوں کہ یہ جسم اللہ کی امانت ہے،اسے بلا وجہ سزا نہ دو، اس کو نہ پیٹو یہ اللہ کی امانت ہے، اس میں آدمی اپنی مرضی سے کوئی تصرف نہیں کر سکتا۔
میں نے کہا: آدمی اپنے جسم سےایک قطرہ بھی خون کا نکالے تو جائز نہیں ہے لیکن جب حجامہ اور پچھنا لگواتے ہیں تو اس میں کافی زیادہ خون نکلتا ہے، آپ حجامہ والا کپ دیکھیں تو آپ کو اندازہ ہو گا کہ اس میں بہت زیادہ خون نکلتا ہے، اب سوال یہ ہوتا ہے کہ جب ایک قطرہ خون نکالنا جائز نہیں ہے تو پانچ کپ نکالنا کیسے جائز ہوں گے؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ بے شک خون نکالنا جائز نہیں ہے لیکن چونکہ مقصود بیماری ختم کر کے جان کو بچانا ہے اس کے لیے اب خون نکالنا جائز ہو گا۔ پتہ یہ چلا کہ خون نکالنا جائز نہیں ہے لیکن جب جان بچانی ہو تو پھر جائز ہے، اسی طرح خون دینا بھی جائز نہیں ہے لیکن جب جان بچانی ہو تو پھر دینا بھی جائز ہے۔ تو جو وجہ خون لینے کی تھی وہی وجہ خون دینے کی ہے۔ لہذا اگر نکالنا جائز ہے تو دینا بھی جائز ہے۔
اب میں نے اس سے کہا: بیٹا! تم میرے پاس آئے تو ابا جی کی جان بھی بچ گئی اور تمہار ایمان بھی بچ گیا۔ تو فقہاء بندے کی جان بھی بچا لیتے ہیں اور جس حد تک ممکن ہو بندے کا ایمان بھی بچا لیتے ہیں۔
چند غیر منصوص مسائل:
میں یہ سمجھا رہا تھا کہ جو بندہ یہ کہے کہ ہر مسئلہ حدیث میں موجود ہے تو آپ اس سے پوچھیں:
 حضرت! لاؤڈ سپیکر میں نماز پڑھاتے ہیں، پچھلے مقتدیوں کو امام کی آواز سنائی نہیں دیتی بلکہ لاؤڈ سپیکر کی آواز سنائی دیتی ہے، اب نماز ہوجاتی ہے تو حدیث دکھا دیں، اگرنہیں ہوتی تو حدیث دکھا دیں!
 ہمارے ہاں آدمی انجکشن لگواتا ہے، اگر روز ہ ٹوٹ جاتا ہے تو حدیث دکھائیں ، اگر نہیں ٹوٹتا تو بھی حدیث دکھائیں!
 بائی پاس آپریشن کرانا ہے اور ایک جگہ کی نالی نکال کر دل میں لگانی ہے، یہ جائز ہے تو حدیث دکھا دیں، اگر جائز نہیں تو حدیث دکھا دیں!
عملِ اجتہاد پر پیغمبر کی خوشی کا عالم:
اب دیکھیں کتنے مسائل پیش آ رہے ہیں کہ جن کی صراحت حدیث میں موجود نہیں ہے۔ اس لیے حضرت معاذ رضی اللہ عنہ عرض کی کہ یا رسول اللہ اگر مسئلہ حدیث میں نہ ملا تو:أَجْتَهِدُ برَأْيِى•میں اجتہاد کروں گا۔
اللہ کے نبی اتنا خوش ہوئے کہ آپ نے حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کے سینے پہ ہاتھ رکھ دیا اور اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
اَلْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِى وَفَّقَ رَسُولَ رَسُولِ اللَّهِ لِمَا يُرْضِى رَسُولَ اللَّهِ․
اے اللہ! تیرا شکر ہے کہ آپ نے میرے شاگرد کو اس بات کی توفیق دی جس سے تیرا یہ نمائندہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم خوش ہے۔
میں بتا یہ رہا تھا کہ جب ہر مسئلہ قرآن میں بھی موجود نہیں ہے اور ہرمسئلہ حدیث میں بھی موجود نہیں ہے تو پھر امت کے مسائل کہاں سے حل ہوں گے؟ تو اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے امت کو یہ بات سمجھائی ہے کہ وہ لوگ جو میرے بعد تمہارے کام آئیں گے:
 وہ خلفائے راشدین ہوں گے۔
 ان کے بعد صحابہ کرام ہوں گے۔

اور ان کے بعد فقہاء کرام ہوں گے۔
فقہ؛ مسائل کا حل
دنیا جہان کا کوئی ایسا مسئلہ موجود نہیں ہے جو آپ پوچھنا چاہیں اور فقہ میں اس کا حل موجود نہ ہو۔ تمام مسائل کا حل فقہ میں موجود ہے اور فقہاء آپ کو دے سکتے ہیں اور جب بھی آپ کہیں پھنس جائیں تو اپنی مرضی سے جلدی فتوے نہ دیا کریں، پہلے فقیہ سے جا کر پوچھ لیاکریں کہ اس کا کوئی حل نکلتا ہےیا نہیں نکلتا؟ فقہاء پوری قوت لگا دیتے ہیں اور مسائل کا حل امت کو دے دیتے ہیں۔ اس پر میں آپ کو امام اعمش رحمہ اللہ کا واقعہ سناتا ہوں۔
امام اعظم نے امام اعمش کی مشکل حل کر دی:
حضرت امام اعظم ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے استاد تھے امام اعمش رحمۃ اللہ علیہ، ”اعمش“کہتے ہیں چندھیائی آنکھوں والے کو، امام اعمش زیادہ خوبصورت نہیں تھے، ان کی اہلیہ بہت خوبصورت تھیں۔ آپ بہت بڑے محدث اور بہت بڑے عالم تھے اور گھر والی سے کسی نہ کسی مسئلے پر نوک جھونک چلتی رہتی تھی۔ ایک مرتبہ رات گھر میں کوئی بات بڑھ گئی تو امام اعمش نے غصے میں آکر اپنی بیوی کو کچھ کہہ دیا تو بیوی چپ ہوگئی، ناراض ہوگئی اور خاموش ہو کر بیٹھ گئی تو امام اعمش نے غصے سے کہہ دیا: بولتی کیوں نہیں؟ لیکن وہ بھی تو غصے میں تھی اس لیے بات بالکل نہیں کی، اب امام اعمش پھر غصے میں آکر کہنے لگے: ”اگر فجر کی اذان سے پہلے پہلے تو نے مجھ سے بات نہ کی تو تجھے تین طلاق“۔ غصے میں آکر تو کہہ دیا مگر وہ تو اور پکی ہو گئی اور نہ بولی۔
امام اعمش نے غصے میں کہہ تو دیا لیکن جب غصہ ٹھنڈا ہوا تو آپ پریشان ہو گئے کہ اس نے بولنا نہیں تو طلاق ہوجانی ہے، اب امام اعمش بہت پریشان ہیں۔ امام اعمش استاد تھے اور امام ابو حنیفہ شاگرد تھے، امام اعمش اب اپنے شاگرد ابو حنیفہ کے پاس رات کو گئے، جا کے دروازے پہ دستک دی، امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ نے امام اعمش سے پوچھا: استاد جی! خیر تو ہے؟ اتنی رات میں اچانک تشریف لائے؟ کہنے لگے: ابو حنیفہ! عورت سے اَ ن بَن رہتی ہے لیکن آج یہ جملہ کہہ دیا، اب آپ کوئی حل نکالیں۔
امام صاحب فرمانے لگے: استاد جی! آپ جا کر آرام سے سو جائیں، ان شاء اللہ آپ کی بیوی کو تین تو کجا ایک طلاق بھی نہیں ہوگی۔ امام اعمش فرمانے لگے: وہ کیسے؟ امام صاحب فرمانے لگے: استاد جی! میں نے کہہ دیا ہے نا کہ تین طلاق تو کجا ایک طلاق بھی نہیں ہوگی، آپ جا کے آرام فرمائیں۔ حضرت امام اعمش کہنے لگے: میں اس کا مزاج جانتاہوں اس نےفجر تک نہیں بولنا۔
امام صاحب فرمانے لگے: بیوی کامزاج آپ جانتے ہیں استادجی! اور شریعت کا مزاج میں جانتا ہوں، آپ فکر نہ کریں اور جا کر آرام سے سو جائیں۔ امام اعمش جب چلنے لگے تو امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا: میری آپ سے چھوٹی سی گزارش ہے کہ آپ اپنے محلے کی مسجد کے مؤذن سے کہہ دیں کہ آج فجر کی اذان اس وقت دے جب میں کہوں، پہلے وہ آپ کے کہنے پر دیتا ہے اب اذان میرے کہنے پر دے، بس آپ اس کو یہ فرما دیں۔
امام اعمش نے کہا: ٹھیک ہے۔ جا کر مؤذن کو کہہ دیا کہ آج اذان تب دینی ہے جب امام ابو حنیفہ کہے۔ اس نے کہا: جی ٹھیک ہے۔ حضرت امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ حضرت امام اعمش رحمۃ اللہ علیہ کی مسجد میں فجر کی اذان کاوقت شروع ہونے سے بہت پہلے مثلاً ایک گھنٹہ پہلے پہنچ گئے اور جا کر مؤذن سے کہا کہ اذان دو۔
اس نے کہا: ابھی تو وقت ہی شروع نہیں ہوا! فرمایا: تمہیں آج تمہارے امام نے کیا کہا تھا؟ اس نے کہا: جی امام اعمش نے فرمایا تھا کہ آج اذان ابو حنیفہ کے کہنے پر دینا۔ فرمایا: پہلے بھی انہوں نے کبھی ایسا کہا ؟ اس نے کہا: جی نہیں کہا۔ امام صاحب نے فرمایا: کوئی خاص بات ہوگی تبھی تو آج کہا ہے نا! اس کو بات سمجھ آگئی اور اس نے اذان دے دی۔ اب جب مؤذن نے اذان دی تو بیوی نے امام اعمش کو کہا: اب خوش ہیں؟ مطلب یہ کہ طلاق ہوگئی ہے۔
اب امام اعمش رحمہ اللہ پھر پہنچے امام ابو حنیفہ کے پاس، ان سے کہنے لگے کہ آپ نے تو کہا تھاکہ طلاق نہیں ہوگی وہ تو ہو گئی ہے۔ امام صاحب نے کہا: استادجی! نہیں ہوگی آپ گھر جائیں اور آرام فرمائیں۔ کہا: جی، کیسے نہیں ہوگی؟ فرمایا: آپ آرام فرمائیں، نہیں ہوگی۔ امام اعمش پھر چلے گئے۔ ادھر اذان کا وقت شروع ہوا تو امام ابو حنیفہ پھر آئے اور مؤذن سے کہا:
اب اذان دے اور یہ اعلان کرنا کہ پہلے اذان وقت شروع ہونے سے ایک گھنٹہ پہلے میں نے غلطی سے دے دی تھی، اب وقت شروع ہوا ہے۔ مؤذن نے اذان دی اور اعلان کیا کہ اذان غلطی سے وقت سے پہلے ہوئی تھی، وقت اب شروع ہوا ہے۔ امام اعمش بیوی سے کہنے لگے: اب تو خوش ہے؟! اس نے کہا: لگتا ہے آپ امام ابو حنیفہ سے ہو کر آئے۔ (سبحان اللہ۔ سامعین)
اب دیکھو! یہ فقیہ کا کام ہے اجڑے گھروں کو بچا لینا لیکن تب جب گنجائش نکلتی ہو، جب گنجائش نہ نکلے تو پھر تو نہیں بچا سکتے، کوئی آدمی ایسا زہر پی لے کہ جس کا تریاق ہی نہ ہو تو حکیم کیسے بچائے؟ اور ایسا زہر کھا لےکہ جس کا تریاق موجود ہو تو حکیم پورا زور لگا دیتا ہے کہ یہ آدمی بچ جائے۔
جائز تاویلات کا احادیث سے ثبوت:
آپ کے ذہن میں ایک سوال آئے گا اورعموماً لوگ کہتے بھی ہیں کہ مولوی صاحبان حیلے کرتے ہیں، یہ تاویلیں کرتےہیں، یہ بات اچھی طرح سمجھ لیں کہ یہ حیلے اور تاویلیں وہ ہیں جو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے خود فرمائی ہیں۔ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و سلم صدقہ کا مال نہیں کھاتے تھے، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں جب کوئی کھانے کی چیز لائی جاتی تو آپ پوچھتے تھے کہ یہ تحفہ ہے یا صدقہ؟ اگر کہا جاتا کہ صدقہ ہے تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم اپنے صحابہ کرام سے فرماتے کہ تم کھا لو، آپ خود نہ کھاتے اور اگر کہاجاتا کہ یہ تحفہ ہے توآپ صحابہ کے ساتھ مل کراسے تناول فرماتے۔
(صحیح البخاری: رقم الحدیث2576)
اس کے لیے صدقہ ہے اور ہمارے لیے ہدیہ:
آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی باندی کا نام تھا ”حضرت بریرہ رضی اللہ عنہا“، حضور اکر م صلی اللہ علیہ وسلم ایک بار گھر تشریف لائے،چولہے پر ہنڈیا چڑھی ہوئی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے سامنے روٹی اور سالن رکھا گیا تو آپ نے دریافت فرمایا: کیوں؟ (تازہ سالن نہیں لاتے؟) میں نے خود دیکھا ہے کہ گوشت کی ہانڈی چولہے پر پک رہی ہے تو آپ کی خدمت میں عرض کیا گیا کہ حضور! اس ہانڈی میں صدقے کا گوشت ہے جو بریرہ کے لیے آیا ہے اور آپ صدقہ نہیں کھاتے۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
هُوَ عَلَيْهَا صَدَقَةٌ وَلَنَا هَدِيَّةٌ․
(صحیح البخاری: رقم الحدیث 5097)
یہ گوشت بریرہ کے لیے صدقہ ہے لیکن ہمارے لیے ہدیہ ہے۔
دیکھو! گوشت حضور صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچا ہے اور جائز طریقے سے پہنچا ہے، بتاؤ! تاویل اور کسے کہتے ہیں؟! تو جو تاویل ہو سکتی ہو وہ فقہاء کرتے ہیں اور جو تاویل نہیں ہو سکتی وہ تاویل فقہاء کبھی بھی نہیں کرتے۔
تجارت حلال، سود حرام:
ابھی میرا عنوان ”اسلامک بینکنگ“ نہیں ہے، میں صرف بات سمجھانے کے لیے کہتا ہوں کہ جب ہمارے مفتی صاحبان اور فقہاء کرام کسی بینک کو جائز کہتے ہیں تو اس کی وجہ یہی صحیح تاویل ہوتی ہے، عام بندہ اس کو سمجھتا نہیں، عام بندہ کہتا ہے: جی یہ بھی سود ہے اور وہ بھی سود ہے۔
میں کہتا ہوں: دونوں میں بہت فرق ہے۔ مثال کے طور پر میں آپ کے شہر کا تاجر ہوں اور میرے پاس مال موجود ہے۔ میں آپ کو یہ مال بطورِقرض دیتا ہوں۔ اب قرض دینے کی ایک صورت یہ ہے کہ آپ کہتے ہیں کہ جی! ہم نے کپڑے کی دکان بنانی ہے، مولانا صاحب! ہمیں قرض دے دیں۔ میں کہتا ہوں: کتنا چاہیے؟ آپ کہتے ہیں: پچاس لاکھ چاہیے۔ میں کہتا ہوں: پچاس لاکھ آپ کو قرض دیتا ہوں لیکن آپ یہ قرض واپس کب کریں گے؟آپ کہتے ہیں: دوسال میں۔ تو میں نے کہا: ٹھیک ہے، میں نے آپ کو پچاس لاکھ قرض دے دیا لیکن شرط یہ ہے کہ آپ نے مجھے واپس ستر لاکھ دیناہے اور ستر لاکھ کی قسطیں بھی طے کرو کہ ہر مہینے اتنا دینا ہے۔ یہ معاملہ سود ہے کہ پچاس لاکھ دے کر ستر لاکھ لے لیا۔
قرض کی دوسری صورت یہ ہے کہ میں کہتا ہوں: میں آپ کو مال تو نہیں دے سکتا، لیکن چونکہ آپ نے کپڑے کی دکان بنانی ہے تو میں یہ کرتا ہوں کہ کپڑے کی دکان بناتا ہوں، یہ دکان بناتا تو پچاس لاکھ کی ہوں لیکن آپ کو ستر لاکھ میں بیچ دیتا ہوں اور کہتا ہوں کہ اب کی اس قسطیں دو۔ اب یہ معاملہ سود نہیں ہے، یہ تجارت ہے، آپ تاجر یہاں بیٹھے ہیں آپ بتاؤ! دنیا میں تجارت ہوتی ہے وہ اسی طرح ہوتی ہے نا؟! [جی ہاں۔ سامعین] آپ کپڑا لاتے ہیں پچاس کا اور بیچتے ہیں ساٹھ کا، ایسے ہی آپ زمین خریدتے ہیں اور پلاٹ بنا کر بیچتے ہیں تو لیتے سستا ہیں اور بیچتے مہنگا ہیں، اب یہ جائز ہے۔ ہم کہتے ہیں کہ یہاں دو قسم کا معاملہ ہے۔ ایک یہ ہے کہ آپ کو پچاس لا کھ کپڑے کی دکان کے لیے چاہیے تھا، میں نے دکان خرید لی یا بنادی اور آپ کو ستر لاکھ کی دے دی۔
دوسرا طریقہ یہ ہے کہ پچاس لاکھ دے کر ستر لاکھ لینا۔ تو پہلا معاملہ کہ پچاس لاکھ کی دکان ستر لاکھ میں بیچنا یہ سود نہیں ہے اور دوسرا معاملہ کہ پچاس لاکھ دے کر ستر لاکھ لیا جائے یہ سود ہے۔ اب قیامت تک تجارت کے شعبے آنے ہیں، قیامت تک بیماری کے مسائل پیدا ہونے ہیں ، قیامت تک نئے نئے مسائل پیدا ہونے ہیں، کسی نئے نبی نے تو آنا نہیں لیکن مسائل پیش آتے رہیں گے تو اللہ کے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم نے بات سمجھائی کہ جب کوئی مسئلہ پیش آجائے اور اس وقت بتانے والا کوئی نہ ہو؛ نبی نہ ہو ، خلیفہ راشد نہ ہو، صحابی نہ ہو تو اب مسائل پوچھیں گےفقہاء سے۔
فقہاء کا کام مسائل کا استنباط:
میں یہ بات سمجھا رہا ہوں کہ فقیہ کا کام کیا ہے؟ فقیہ کے سامنے سارا قرآن ہوتا ہے، اس کے سامنے ساری احادیث ہوتی ہیں، پھر قرآن کریم اور احادیث سے وہ کچھ اصول لکھتا ہے اور ان اصولوں کی روشنی میں مسئلے لکھتا ہے، اب دیکھو! فقیہ کتنا بڑا کا م کرتا ہے کہ سارے قرآن اور ساری احادیث میں سے کچھ اصول نکالتا ہے اور ان اصولوں سے مسائل نکال کر قیامت تک آنے والے امتی کے لیے لاکھوں مسائل لکھوا دیتا ہے۔
امام اعظم کے مستنبط مسائل اور طریق استنباط:
اور یہ کام جس آدمی نے سب سے پہلے کیا ہے اس کانام ہے؛ نعمان بن ثابت امام اعظم ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ۔بنایہ شرح ہدایہ میں ہے کہ امام مالک رحمۃ اللہ علیہ سے پوچھا گیا:کم قال ابو حنیفۃ فی الاسلام؟ کہ امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ نے کتنے مسئلے لکھوائے ہیں؟ امام مالک رحمہ اللہ نے جواب دیا:ستین الفاً.
ساٹھ ہزار مسئلے۔
(البنایۃ فی شرح الہدایۃ: ج1 ص123 مقدمہ)
اور امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ نے چالیس فقہاء کی کمیٹی بنائی تھی۔
(رد المحتار لابن عابدین ج1ص158، المقدمہ)
ایک مسئلہ پیش آتا تو چالیس حضرات اس پر گفتگو کرتے ، پھر امام صاحب رائے دیتے اور اپنی رائے کو دلائل سے بیان فرماتے۔ جب مسئلہ سب کے ہاں اتفاقی قرار پاتا تو فرماتے کہ اب یہ مسئلہ لکھ لو اور اگر کوئی شاگرد اختلاف کرتا تو فرماتے کہ اس کا اختلافی نوٹ بھی لکھ لو تاکہ بعد والوں کو پتہ چلے کہ استاذ کی رائے یہ تھی اور شاگرد کی رائے یہ تھی۔
اپنے شاگر د کی رائے کو دفن نہیں کیا، اختلافی نوٹ بھی ساتھ لکھوا دیا۔ جیسے سپریم کورٹ میں جائیں تو وہاں فل کورٹ بیٹھتا ہے کسی مسئلے کے لیے، فیصلہ تو فل کورٹ میں کثرت پر ہوتا ہےلیکن اگر اس میں ایک جج کا فیصلہ اور ہو اور سات ججوں کا فیصلہ اور ہو تو اختلافی نوٹ ساتھ اس جج کا موجود ہوتا ہے، اسی طرح امام صاحب فیصلے سناتے اور شاگردوں کے اختلافی نوٹ بھی لکھوا دیتے، یہ امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کا کارنامہ ہے جو رہتی دنیا تک یاد رہے گا۔
فقہ حنفی کی عالمگیریت:
اور آج کے دور میں کئی مسائل ایسے ہیں کہ آپ جان کر حیران ہوں گے شافعی اور حنبلی حضرات بھی اس بات پہ مجبور ہیں کہ امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کی فقہ پر عمل کریں، اس کے علاوہ عمل کی کوئی صورت نہیں نکلتی۔ مسائل تو کئی ہیں، میں ایک مثال دیتا ہوں۔ صدقۃالفطر میں آپ گندم، جو، کشمش اور کھجور یہی چار چیزیں دیتے ہیں نا! امام احمد اور امام شافعی رحمہما اللہ کا موقف یہ ہے کہ آپ ان چیزوں کی قیمت نہیں دے سکتے، بعینہ یہی چیزیں دیں گے اور امام صاحب کا موقف یہ ہے کہ چاہیں تو یہ چیزیں دے دیں اور چاہیں تو ان چیزوں کی قیمت دے دیں۔
آج پوری دنیا میں خواہ حنبلی ہوں یا شافعی ہوں وہ چیزیں نہیں دیتے بلکہ قیمت دیتے ہیں اور یہ سہرا امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے سر ہے۔ آپ امارات چلے جائیں، سعودی عرب چلے جائیں وہاں نمایاں لکھ دیتے ہیں کہ اس مرتبہ صدقۃ الفطر مثلاً 15 درہم ہوگا یا لکھا ہو گا کہ ایک دینار ہو گا، تو یہ مسئلہ فقہ حنفی کا ہے، یہ فقہ شافعی اور فقہ حنبلی کا نہیں ہے۔
تو دیکھو! امام صاحب کے بعض مسائل ایسے ہیں کہ پوری دنیا سمجھتی ہے کہ امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کی فقہ کو چھوڑ دیں تو مسائل پہ عمل ہو ہی نہیں سکتا۔ اس بندے نے امت پہ کتنا عظیم احسان کیا ہے؟میں فقہاء کا کام سمجھا رہا تھا کہ یہ قرآن اور حدیث سے اصول لیتے ہیں، پھر ان اصولوں کے مطابق مسائل نکالتے ہیں، پھر یہ مسائل لے کر امت کے حوالے کر دیتے ہیں۔ عام بندے کو اس کا پتہ نہیں ہوتا تو پھر وہ ان پر اعتراضات کی بارش شروع کر دیتا ہے۔
امام اعظم کا اعلان:
امام ِاعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ کا کھلا اعلان ہے کہ میرا کوئی مسئلہ حدیث کے مخالف نظر آئے تو آپ میرے مسئلہ کو چھوڑ دو اور حدیث کو لے لو۔ میں کہتا ہوں کہ امام صاحب کے مسئلے کے مقابلے میں کوئی مسئلہ دکھاؤ بھی تو سہی!
ایک غیر مقلد کے ساتھ دلچسپ گفتگو:
میں مکہ مکرمہ میں تھا تو ایک نوجوان مجھے ملا۔ اس نے عجیب بات شروع کر دی۔ کہنے لگا: میں پہلے حنفی تھا اب میں نے مسلک بدل لیا ہے۔ میں نے کہا: بدل لیں، ہم آپ کو کون سا مجبور کرتے ہیں کہ حنفی مسلک پر رہیں لیکن وجہ تو بتائیں نا! مجھے کہنے لگا: میں نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کا ایک ارشاد پڑھا ہے، ارشاد یہ تھا کہ میرے مسئلے کو چیک کرو، اگر میرا مسئلہ حدیث کے خلاف ہو تو میرا مسئلہ چھوڑ دو اور حدیث کو لے لو۔ پھر اس نوجوان نے کہا کہ میں نے امام صاحب کا مسئلہ دیکھا، اس کو چیک کیا تو وہ حدیث کے خلاف تھا، اس لیے میں نے فقہ حنفی کو چھوڑ دیا اور اب اہلحدیث ہوگیا ہوں۔
میں نے کہا: چلیں بتائیں مسئلہ کون سا ہے؟ کہتا ہے: جی مسئلہ یہ ہے کہ امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ جمعہ کے دن جب خطبے کے لیے امام منبر پر بیٹھ جائے تو اس وقت سنتیں نہ پڑھو اور حدیث مبارک میں موجود ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ دینے لگے تو ایک صحابی مسجد میں داخل ہوئے اور بیٹھ گئے، آپ نے پوچھا کہ تو نے نفل پڑھے ہیں؟ اس نے کہا کہ جی نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: کھڑے ہو کے پڑھ لو۔ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ منع کرتے ہیں اور اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے پڑھائے ہیں تو جب یہ مسئلہ حدیث کے خلاف آ گیا تو میں نے مسئلہ چھوڑ دیا اور حدیث کو لےلیا ہے اور مسلک بدل لیا ہے۔
امام صاحب کا ارشاد سمجھ لیتا تو مسئلہ چیک نہ کرتا:
میں نے اس نوجوان سے کہا: بیٹا اگر تو امام صاحب کا ارشاد سمجھ لیتا تو مسئلہ چیک نہ کرتا اور اگر مسئلہ سمجھ لیتا تو کبھی اہل حدیث نہ ہوتا۔ یہ دو جملے میں آپ کو سمجھاتا ہوں۔ میں نے اسے کہا: ”بیٹا اگر تو امام صاحب کا ارشاد سمجھ لیتا تو مسئلہ چیک نہ کرتا“ اس کا مطلب یہ ہے کہ امام صاحب کا یہ جو فرمان ہے کہ ”میرے مسئلے کو دیکھو اگر حدیث کے خلاف ہےتو میرا مسئلہ چھوڑ دو“ اگر یہ بات سمجھ لیتا تو امام صاحب کا مسئلہ چیک ہی نہ کرتا۔ آپ سامعین بھی کہیں گے کہ عجیب بات ہے، اس میں کون سی پیچید گی ہے جو سمجھ نہیں آرہی؟ اس پر میں آپ کو ایک مثال دیتا ہوں تاکہ آپ کو بات سمجھ آئے۔
تحقیق کا حق کس کو ہے؟
آپ بتائیں! اگر ایک آدمی کے پیٹ میں درد ہو اور وہ ڈاکٹر کےپاس جائے اور کہے: جی میرے پیٹ میں درد ہے، مجھے دوائی دیں۔ ڈاکٹر صاحب اس کو دوائی دے دے اور ایک گولی کا دو سو روپیہ لے لے۔ مریض کہتا ہے: ڈاکٹر صاحب! اتنی مہنگی گولی؟ ڈاکٹر صاحب کہتا ہے: بیٹا! یہ امپورٹڈ گولی ہے امریکہ سے آئی ہے پاکستان کی نہیں ہے، تو کھا کے دیکھ لے۔ اس نے کہا: ڈاکٹر صاحب دوائی بہت مہنگی ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے کہا: تم یہ دوائی کسی سے چیک کرالو، یہ عام گولی نہیں ہے، اگر یہ گولی ٹھیک نہ ہو تو گٹر میں پھینک دینا او ر آ کےمجھ سے چار سو روپے لے لینا۔ وہ چلا اور جا کر ایک آدمی کو گولی چیک کرائی، اس آدمی نے گولی سونگھی اور کہا: بھائی یہ گولی نہیں ہے یہ زہر ہے، یہ نہیں کھانا۔ اب اس نے گولی گٹر میں پھینکی اور واپس آگیا ڈاکٹر کے پاس کہ ڈاکٹر صاحب! چار سو روپیہ دو۔ ڈاکٹر صاحب نے پوچھا: کیوں؟ اس نے کہا: آپ نے خود ہی کہا تھا کہ گولی چیک کراؤ، اگر ٹھیک ہوتو کھالینا، اگر ٹھیک نہ ہو تو گٹر میں پھینک دینا اور مجھ سے چار سو روپے لے لینا، میں نے گولی چیک کرائی ہے وہ زہر تھی اس لیے میں نے پھینک دی ہے۔
ڈاکٹر نے پوچھا: کس سے چیک کرائی ہے؟ اس نے کہا: فلاں موچی سے ڈاکٹر نے کہا: ارے بے وقوف تو میری بات کو سمجھا ہی نہیں۔ تو میرا جملہ ہی نہیں سمجھا، میں نے جو کہا تھا کہ میری دوا چیک کرالینا اس کا مطلب یہ نہیں تھا کہ فلاں موچی سے چیک کرانا، مطلب یہ تھا کہ ایم بی بی ایس ڈاکٹرسے چیک کرانا، تو میرا جملہ سمجھا ہی نہیں ہے، میر ی دوائی کو چیک کراتا لیکن ایم بی بی ایس ڈاکٹر سے، کسی اسپیشلسٹ سے، اگر وہ کہتا کہ یہ زہر ہے اس کو پھینک دو تب مجھ سے ہزار روپیہ بھی لیتا تو میں دے دیتا۔تو نے چیک کرایا بشیر موچی کو، اس کو کیا پتہ کہ گولیاں کیا ہوتی ہیں، او تے جوتیاں سینداے تو اس کولوں گولیاں چیک کرانداں اے (وہ تو جوتے سیتا ہے تو اس کو گولیاں چیک کراتا ہے )۔
تو میں نے اس لڑکے سے کہا: بیٹا تو امام صاحب کی بات سمجھا ہی نہیں، امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ نے یہ جو فرمایا ہے کہ میرا مسئلہ چیک کرالو، چیک کرانے کا مطلب یہ ہے امام مالک سے چیک کراؤ، امام شافعی سے چیک کراؤ، امام احمد سے چیک کراؤ،امام بخاری سے چیک کراؤ، یہ آج کاگنڈیریاں بیچنے والا چیک نہ کرے، یہ کپڑے کی دکان والا چیک نہ کرے، یہ جوتے کی دکان والا چیک نہ کرے، یہ سنارا چیک نہ کرے،امام صاحب کے مسئلے کو امام چیک کرے۔ اب بات آپ کی سمجھ میں آئی؟ میں نے اس سے کہا: تو امام صاحب کی بات سمجھ لیتا تو چیک ہی نہ کرتا، تجھے ہمت ہی نہ ہوتی چیک کرنے کی۔
مسئلہ سمجھ لیتا تو فقہ حنفی کبھی نہ چھوڑتا:
دوسری بات میں نے اسے کہی کہ اگر تو امام صاحب کا مسئلہ سمجھ لیتا تو فقہ حنفی کبھی نہ چھوڑتا۔ مجھے کہنے لگا: جی وہ کیسے؟ میں نے کہا: میں تجھ سے دو مسئلے پوچھتا ہوں پھر تجھے بات سمجھ آئے گی۔ کہنے لگا: مجھ سے مسئلے پوچھیں گے؟ میں نے کہا: جی ہاں میں تجھ سے پوچھتا ہوں اگر تجھے آتے ہیں تو بتا دینا، میں نے تجھے تنگ تھوڑا ہی کرنا ہے، میں نے تو مسئلہ سمجھانا ہے۔ کہنے لگا: جی پوچھیں۔
کفارہ کی کھجور اپنے گھر والوں کو کھلا دو!
میں نے کہا: حدیث مبارک میں ہے کہ ایک بار رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف فرماتھے، ایک شخص آیا اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے عرض کی: یا رسول اللہ! میں نے روزہ رکھا ہوا تھا اور اپنی بیوی کے پاس چلا گیا اب میں کیا کروں؟ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: ایک غلام آزاد کرو، یہ کفار ہ ہے۔ اس شخص نے عرض کی: حضور! میں اپنی گردن کے علاوہ کسی کا مالک نہیں ہوں، میں غلام کہاں سے آزاد کروں گا؟ آپ علیہ السلام نے فرمایا: تو پھر دو ماہ کے مسلسل روزے رکھو۔ اس نے کہا: یا رسول اللہ! یہ بھی میرے بس میں نہیں ہے کہ میں دوماہ کے مسلسل روزے رکھوں۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فرمانے لگے: اچھا پھر ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلاؤ! اس نے کہا: حضور! غریب آدمی ہوں، ساٹھ کو کھانا کہاں سے کھلاؤں گا؟
وہاں بیٹھے ہی تھے کہ ایک شخص آیا اور اس نے ایک ٹوکری کھجوروں کی دی۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سائل کو بلا کر فرمایا: یہ ٹوکری کھجوروں کی لے جاؤ اور صدقہ کر دو۔
اس نے کہا: حضور! مدینہ بھر میں مجھ سے زیادہ کوئی محتاج نہیں ہے۔ اس جواب پر آپ صلی اللہ علیہ و سلم مسکرا دیے اور فرمایا: چلو اپنے گھر والوں کو کھلا دو۔
(صحیح البخاری: رقم ا لحدیث1936 وغیرہ)
میں نے اس نوجوان سے کہا: بیٹا! مجھے بات بتا کہ اگر تجھ جیسا کوئی چیکر۔ چیکر کا معنی سمجھ گئے ناں میں کن کو کہہ رہا ہوں۔ اگر کوئی چیکر روزہ رکھ لے اور روزے کی حالت میں بیوی کے پاس چلا جائے اورمسجد کے امام صاحب کے پاس آجائے کہ مولانا! مجھے کھجوریں کھلائیں! تو کیا اس کو کھجوریں کھلانا ٹھیک ہے؟ مجھے کہتا ہے: نہیں۔ میں نے کہا: جب حدیث میں آیاہے کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آدمی کو کھجوریں کھلائیں تو کیسے کہتا ہے کہ ٹھیک نہیں؟
حضرت خزیمہ کی گواہی دو کے برابر:
میں نے اس سے کہا: ایک اور حدیث پاک میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دیہاتی سے گھوڑا خریدا اور اس کو ساتھ لے گئے تاکہ وہ شخص گھوڑے کی قیمت وصول کر کے جلدی سے رخصت ہو جائے۔ اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم جلدی روانہ ہوگئے اور وہ دیہاتی دیر سے روانہ ہوا۔ لوگوں نے اس دیہاتی سے اسی گھوڑے کی قیمت طے کرنا شروع کر دی، ان لوگوں کو پتا نہیں تھا کہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اس گھوڑے کو خرید چکے ہیں۔
اس لیے بعض حضرات نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی قیمت خرید سے بھی زیادہ کا بھاؤ لگا دیا۔ اس دیہاتی نے جب زیادہ قیمت کا سنا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو آواز دی کہ اگر آپ اس گھوڑے کو خریدتے ہیں تو ٹھیک ورنہ میں کسی دوسرے شخص کے ہاتھ فروخت کرتا ہوں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے جب یہ سنا تو کھڑے ہو گئے اور فرمایا: میں نے تم سے یہ گھوڑا خریدا نہیں؟ یہ گھوڑا میں تو تم سے خرید چکا ہوں۔ اس دیہاتی نے کہا: اللہ کی قسم! میں نے گھوڑا آپ کو بیچا ہی نہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: میں تم سےگھوڑا خرید چکا ہوں۔
جب یہ بات شروع ہوئی تو لوگ جمع ہو گئے۔ گفتگو کے دوران اس دیہاتی نے یہ مطالبہ رکھ دیا کہ آپ اس بات پر گواہ پیش کریں کہ میں گھوڑا آپ کو فروخت کر چکا ہوں۔حضرت خزیمہ رضی اللہ عنہ نے آگے بڑھ کر کہا: میں گواہی دیتا ہوں کہ تم نے رسول اللہ کے ہاتھ گھوڑا فروخت کیا ہے۔
چونکہ سودا کرتے وقت حضرت خزیمہ وہاں موجود نہ تھے اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان سے پوچھا کہ تم کس طرح گواہی دیتے ہو؟ تم تو موقع پر موجود نہیں تھے۔
حضرت خزیمہ نے کہا: یا رسول اللہ! میں جان چکا ہوں کہ آپ اللہ کے رسول ہیں۔ (حضرت جبرائیل آپ کے پاس آتے بھی ہیں، آپ کے ہاں سے جاتے بھی ہیں، ہم نے کبھی نہیں دیکھا لیکن آپ کے فرمانے پر مان لیا، ہم جبرائیل امین کا آسمان سے آنا اور جانا آپ کے بتانے پر مان سکتے ہیں تو گھوڑے کا خریدنا آپ کے فرمانے پر کیوں نہیں مان سکتے؟) اس پر حضور صلی اللہ علیہ و سلم اتنا خوش ہوئے کہ آپ نے فرمایا:
مَنْ شَهِدَ لَهُ خُزَيْمَةُ... فَهُوَ حَسْبُهُ
(سنن النسائی: ح4661، السنن الکبریٰ للبیہقی:ح21021 وغیرہ)
کیس میں مدعی کے حق میں فیصلہ تب ہوتا ہے جب دو گواہ آئیں، فرمایا: خزیمہ اتنا عظیم آدمی ہے کہ یہ ایک بھی آجائے تو دو کی جگہ پر ہے، اس کے ہوتے ہوئے قاضی کو عدالت میں دوسرے گواہ کی ضرورت نہیں ہے۔
اب میں نے اس نوجوان سے کہا: مجھے بتاؤ! اگر کمرہ عدالت میں جج بیٹھا ہو، مدعی آ جائے اور اپنے حق میں ایک گواہ پیش کرے اور وہ گواہ چیکر ہو۔ چیکر کا معنی سمجھ رہے ہو نا! مطلب غیرمقلد ہو۔ اب گواہ پیش کرے جو چیکر ہو، جج کہے:ہاں بھائی گواہی دو۔ وہ گواہی دے دے۔ جج کہے: جی دوسرا گواہ لاؤ! اب وہ چیکر گواہ کہتا ہے: جی! میں اکیلا ہی کافی ہوں۔ جج پوچھے: کیوں؟ وہ کہتا ہے: میں گواہی دیتا ہوں کہ حضور نے گھوڑا خریدا ہے اور یہودی نے بیچا ہے۔
جج کہتا ہے: یہ بات اپنی جگہ پر ٹھیک ہے لیکن دوسرا گواہ لاؤ! چیکر کہتا ہے کہ جب حضرت خزیمہ نے کہا کہ میں گواہی دیتا ہوں تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ خزیمہ دو کی جگہ پر ہے تو جب میں یہی گواہی دیتا ہوں تو آپ مجھے دو کی جگہ پر کیوں نہیں مانتے؟
میں نے اس نوجوان سے کہا: آپ بتاؤ! جج اس شخص کی بات کو ما ن لے گا؟ کہنے لگا: نہیں۔ میں نے کہا اس کی وجہ سمجھو کہ جج اس کی بات کیوں نہیں مانے گا۔
قانون اور اعزار میں فرق:
ایک ہے قانون و کلیہ اور ایک ہے صحابی کی خصوصیت اور اعزاز ، قانون اور کلیہ یہ ہے اگر کسی نے روزہ رکھ کر جان بوجھ کر توڑ دیا تو غلام آزاد کرے، نہیں آزاد کر سکتا تو دوماہ کے مسلسل روزے رکھے، نہیں رکھ سکتا تو ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلائے اور یہ جو اللہ کےنبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شخص کو فرمایا: ”کھجور اپنے گھر والوں کو کھلا دو“ یہ قانون نہیں ہے یہ اس کی خصوصیت ہے اور اس کا اعزاز ہے۔ قانون اپنی جگہ پر رہتا ہے، اعزاز اپنی جگہ پر رہتا ہے۔ خصوصیت سے کبھی قانون نہیں بدلا کرتے۔
اگر عدالت میں مدعی آئے تو اس کو گواہ دو پیش کرنا پڑیں گے یہ قانون ہے، حضرت خزیمہ رضی اللہ عنہ اکیلے دو کی جگہ پر ہیں یہ قانون نہیں ہے، یہ حضرت خزیمہ رضی اللہ عنہ کی خصوصیت ہے، ان کا اعزاز ہے، اس اعزاز کی وجہ سے قانون نہیں بدلتا۔
میں مثال عرض کرتا ہوں کہ آپ کے دو بلاک کی مسجد میں نماز عشاء سواآٹھ بجے ہوتی ہے،ایک دن نماز 08:20 پہ ہو تو لوگ پوچھیں گے: جی! آج آٹھ بیس پہ کیوں ہوئی؟ تو آپ کے امام صاحب فرماتے ہیں کہ بھائی! آج مولانا الیاس گھمن صاحب ہمارے مہمان ہیں، یہ دور سے آئے ہیں، وضو کررہے تھے، ان کے اعزاز میں ہم نے پانچ منٹ تاخیر کی ہے۔ اب کل کوئی دکاندار آجائے اور کہے: مولانا صاحب! ذرا پانچ منٹ ٹھہرنا میں وضو کر لوں۔
امام صاحب فرمائیں گے: جی نماز وقت پر ہو گی، تاخیر نہیں ہو سکتی۔ جی: کل پانچ منٹ تاخیر سے ہوئی تھی آج نہیں ہو سکتی؟ اب بتاؤ اس دکاندارکی بات ٹھیک ہے یا غلط ہے؟ [غلط ہے۔ سامعین] کیوں کہ ایک ہے آپ کی مسجد کا قانون اور ایک ہے کسی مہمان کا اعزاز، اعزاز سے قانون پر فرق نہیں پڑتا، قانون قانون رہتا ہے، اعزاز اعزاز رہتا ہے۔
میرا امام قانون بھی جانتا ہے اور اعزاز بھی:
روزہ ٹوٹ جائے تو کفارے کے مسئلہ پہ ایک قانون ہے اور ایک صحابی کا اعزاز ہے، گواہ کے مسئلہ پر ایک قانون ہے اور ایک صحابی کا اعزاز ہے، اسی طرح جمعہ کے دن خطبے کے وقت ایک قانون ہے، وہ قانون اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمایا ہے :
اِذَا دَخَلَ اَحَدُکُمُ الْمَسْجِدَ وَالْاِمَامُ عَلَی الْمِنْبَرِ فَلاَ صَلَاۃَ وَلَا کَلَامَ․
(مجمع الزوائد للہیثمی: ج2ص407)
کہ جب کوئی بندہ مسجد میں آئے اور امام منبر پر خطبہ دے رہا ہو تو اب نماز بھی نہیں پڑھنی اب باتیں بھی نہیں کرنی۔
قانون یہی تھااسی وجہ سے صحابی آکر بیٹھ گیا، اور یہ جو حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ نماز پڑھی ہے؟ اور صحابی نے کہا کہ نہیں پڑھی اور حضور نے فرمایا کہ کھڑے ہو کر پڑھ لو، تو یہ اس صحابی کا اعزاز ہے، اعزاز سے قانون نہیں بدلتے۔ میں نے کہا: میرا امام امام اعظم ابو حنیفہ قانون بھی جانتا ہے صحابہ کا اعزاز بھی جانتا ہے، تجھے یا تو قانون کا پتہ نہیں یا اعزاز کا پتہ نہیں۔ خدا گواہ ہے وہ لڑکا حنفی ہوگیا، اس نے کہا: مولانا صاحب مجھے بات سمجھ آگئی ہے۔
اے مولانا گھمن اے!
بعض لوگ کہتے ہیں کہ بندے حنفی نہیں ہوتے، ابھی میرے مدرسے میں ایک طالب علم پڑھ رہا ہے درجہ اولی ٰ میں، اس کی عمر غالباً 26 یا27 سال ہے، یہ پیدائشی اہل حدیث ہے، حنفی ہوا اور چار ماہ تبلیغی جماعت میں لگائے، اب میرے پاس پہلے درجے میں سبق پڑھ رہاہے۔ اس نے کہا: استاذ جی! میں بھی حنفی ہو گیا ہوں اور میرے گھرمیں دو ہمشیرہ ہیں وہ بھی حنفی ہوگئی ہیں، میرے علاقے کے لوگ میرے بارے میں کہتے ہیں کہ اے مولانا گھمن اے ( یہ مولانا گھمن ہے) اس کے ساتھ بات کوئی نہیں کر سکتا، میں آپ کے بیانات سنتا ہوں اور آپ کے بیانات کی برکت یہ ہے کہ اگر کوئی بندہ مجھ سے گفتگو کرنا چاہے تو عام بندہ مجھ سے گفتگو نہیں کر سکتا۔ اللہ ہم سب کو بات سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے۔
خلاصہ درس:
میں آخر میں خلاصہ کے طور پر مختصر سی بات عرض کرتا ہوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آخری نبی ہیں، آپ کے بعد اب قیامت تک کوئی نیا نبی پیدا نہیں ہوگا، اب امت کی راہنمائی کریں گے:
 نمبر1: خلفاء راشدین
 نمبر2: صحابہ کرام
 نمبر3: فقہاء کرام
نمبر 4: علماء کرام
اللہ پاک ہم سب کو عقیدہ ختم نبوت پر کاربند رہنے کی توفیق عطا فرمائے اور ختم نبوت کی برکت سے جو نعمتیں ملی ہیں ان نعمتوں کی قدر کی توفیق عطا فرمائے۔
وآخر دعوانا ان الحمد اللہ رب العالمین