امت کے رہنما طبقات: حصہ چہارم

User Rating: 4 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar ActiveStar Inactive
 
امت کے رہنما طبقات
(حصہ چہارم: علماء کرام)
تاریخ : 6 دسمبر 2014ء
مقام: جامع مسجد موتی 2 بلاک سرگودھا
امت کا رہنما طبقہ علماء کرام 
أَلْحمدُللہِ نَحمدُہ ونَستعِینُہ ونَستغفِرُہ ونُؤْمِنُ بہ ونَتوکَّلُ علَیہ ونَعُوذُباللہ منْ شُرورِ أنفُسِنَا ومِنْ سیِّئاتِ أعمالِنا مَنْ یَّہدِہ اللہُ فلَا مُضلَّ لَہ ومَنْ یُّضْلِلْ فلَاہادیَ لہ ونَشہدُ أنْ لَّا الٰہ اِلَّااللہُ وحدَہ لَاشریکَ لہ ونَشہدُ انَّ سیِّدَنا ومولانا محمدًا عبدُہ ورسولُہ أمَّا بعد! فَاَعُوْذُ بِاللّهِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ بِسْمِ اللّهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ: ﴿ مَا كَانَ مُحَمَّدٌ أَبَا أَحَدٍ مِنْ رِجَالِكُمْ وَلٰكِنْ رَسُولَ اللَّهِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّينَ وَكَانَ اللَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمًا
(سورۃ الاحزاب:40)
و قال النبی صلی اللہ علیہ و سلم: أَنَا خَاتَمُ النَّبِيِّيْنَ لَا نَبِيَّ بَعْدِي
(مسند احمد: ح22395 عن ثوبان)
اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلٰى مُحَمَّدٍ وَعَلٰى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا صَلَّيْتَ عَلٰى إِبْرَاهِيْمَ وَعَلٰى آلِ إِبْرَاهِيْمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ۔اَللّٰهُمَّ بَارِكْ عَلٰى مُحَمَّدٍ وَعَلٰى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا بَارَكْتَ عَلٰى إِبْرَاهِيْمَ وَعَلٰى آلِ إِبْرَاهِيْمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ•
تمہید:
شاید آپ حضرات کو یاد ہوگا کہ ہمارا درس حدیث جس عنوان پر چل رہا ہے وہ عنوان یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آخری نبی ہیں اور آپ کے بعد کوئی نیا نبی نہیں آئے گا یا یوں کہہ لیں کہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم آخری نبی ہیں اور آپ کے بعد کوئی نبی پیدا نہیں ہوگا۔ سوال یہ تھا کہ امت کی راہنمائی کون کرے گا؟ اس عنوان پر ہمارے تین درس ہو چکے ہیں ، درمیان میں رمضان المبارک آگیا تھا تو درسِ حدیث ”تروایح“ کے عنوان پر ہوا، پھر اس کے بعد عید الاضحیٰ آگئی قربانی پر درس ہوا، پھر بعد میں محرم آگیا، آپ حضرات کا بھی عذر تھا، ادھر رائیونڈ کا اجتماع تھا اور ادھر ہمارے درس کا دن آگیا اور میری مجبوری یہ تھی کہ ان دنوں میں پاکستان میں نہیں تھا، میرا بیرون تین چار ملکوں کا سفر تھا اس لیے درمیان میں انقطاع ہو گیا۔ آج کے اس درس کو آپ ہمارے اس عنوان کی آخری قسط سمجھ لیں۔
آپ علیہ السلام کے بعد امت کی رہنمائی کون کرے؟
بات یہ چل رہی تھی کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب کائنات کے آخری نبی ہیں اور آپ کے بعد کوئی نیا نبی نہیں آئے گا تو امت کی راہنمائی کون کرے گا؟ آخر امت لا وارث تو نہیں ہے، امت بے یارو مدد گار تو نہیں ہے، جب اس نے قیامت تک رہناہے تو امت مسائل کا حل کن سے پوچھے گی؟ مذہبی راہنمائی کن سے لے گی؟ شریعت کے احکام کن سے معلوم کرے گی؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد سب سے پہلے اس امت کی راہنمائی خلفاء راشدین رضی اللہ عنہم کی ذمہ داری ہے، حضرت ابوبکر، حضرت عمر، حضرت عثمان اور حضرت علی رضی اللہ عنہم کا دور؛ دورِ خلافت راشدہ اتنا اہم دور ہے کہ ان کی سنت کو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی سنت قرار دیا ہے، ان کا دور تکمیل نبوت کا دور ہے، ”تکمیل نبوت“ کا معنی یہ ہے کہ وہ کام جو اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کرنا چاہتے تھے اور کسی عذر کی وجہ سے نہیں کر سکے وہ خلفاء راشدین نے کئے۔ اس کی ایک مثال بھی ذہن میں رکھ لیں تاکہ عنوان آپ کے ذہن میں آجائے۔
تراویح کے سنت مؤکدہ ہونے کی دلیل:
بیس رکعات تروایح جماعت کے ساتھ پڑھنا یہ سنت مؤکدہ ہے۔ اب ہمارے ذہنوں میں یہ سوال ہو سکتا ہے کہ سنت مؤکدہ تو اس عمل کو کہتے ہیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیشہ فرمایا ہو، اگررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی کیا اور کبھی چھوڑ دیا تو یہ سنت تو ہے لیکن مؤکدہ نہیں ہے بلکہ غیر مؤکدہ ہے، جیسے عصر کے فرائض سے پہلے چار سنتیں ہیں، کبھی پڑھی ہیں اور کبھی چھوڑ دی ہیں اور ظہر سے پہلے کی چارسنتیں اور بعد کی دو سنتیں یہ سنت مؤکدہ ہیں کیونکہ نبی ا کرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیشہ پڑھی ہیں۔ تو جب ہم یہ کہتے ہیں کہ تروایح کی جماعت سنت مؤکدہ ہے۔
تو اس کامعنی یہ ذہن میں یہ آتا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیشہ پڑھی ہیں۔ اب کوئی بندہ آپ سے پوچھے کہ بیس رکعات تروایح جو آپ پورا مہینہ جماعت کے ساتھ پڑھتے ہو، اس کی آپ کے پاس کیا دلیل ہے؟ تو آپ سب نے یہی جواب دینا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے پڑھی ہے، اس کے علاوہ آپ نے کوئی اور جواب نہیں دینا۔ میں جو یہ کہہ رہا ہوں کہ ”آپ نے کوئی اور جواب نہیں دینا“ تو آپ میرے اس ”نہیں“ کو توڑ نہیں سکتے، آپ کے بس میں نہیں ہے اس ”نہیں“ کو توڑنا۔
میں جب یہ سوال علماء کے ہزاروں کے اجتماع میں پوچھتا ہوں کہ اگر کوئی بندہ پوچھے کہ بیس رکعات تراویح جماعت کے ساتھ جو آپ پورا مہینہ پڑھتے ہیں اس کا ثبوت کیا ہے ؟ تو علماء بھی یہ بات کہتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے پورامہینہ جماعت کے ساتھ تروایح کروائی تھی، تو یہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی سنت ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی سنت ہے تو پھر یہ ”سنت مؤکدہ“ کیسے ہوئی؟ اور ”سنت مؤکدہ“ کسے کہتے ہیں؟
جو خلیفہ راشد کی سنت ہو یا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہو؟ [حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی۔ سامعین] اور حضور اکر م صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت بھی ایسی کہ آپ نے مسلسل پڑھی ہو کبھی چھوڑی ہی نہ ہو تو رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تروایح کی جماعت تین رات کرائی ہے؛ تئیس (23)، پچیس (25)، ستائیس (27) رمضان۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے علاوہ جماعت نہیں کرائی تو سوال یہ ہے کہ جب اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پورا مہینہ جماعت کرائی ہی نہیں ہے تو پھر آپ ”سنت مؤکدہ“ کیوں کہتے ہیں؟
آپ کہیے کہ یہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کاطریقہ ہے۔ یہ وہ سوال ہے کہ اس وقت عام آدمی کیا اچھے خاصے عالم سے جواب نہیں بنتا۔ اس موقع پر وہ لوگ جو بیس رکعات تراویح نہیں پڑھتے ان کو بغلیں بجانے کا موقع ملتا ہے کہ تمہارے پاس دلیل ہی نہیں۔
ہمارا کام:
اب ہمارا کام کیا ہے؟! ․․․یہ میں بڑی بے تکلفی سے کہتا ہوں․․․ جہاں جہاں امت الجھتی ہے تو پھر وہاں ہماری باری شروع ہوتی ہے۔ جہاں پر لوگوں نے پھنسنا ہے ہم نے نکالنا ہے۔ ڈاکٹر کامیدان یہی ہے کہ جہاں پر مریض تڑپے تو پھر ڈاکٹر کا انجکشن کام کرتا ہے۔ جن کو ہمارا پورا کام سمجھ نہیں آتا وہ الجھن کا شکار ہوتے ہیں کہ ان کا پورا کام کیا ہے؟
حضور کی خواہش اور حضرت عمر کی تکمیل:
اب یہ بات سمجھیں کہ بیس رکعات تروایح سنت مؤکدہ کیسے ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے تئیس (23) رمضان کو جماعت کرائی، پھر پچیس (25) کو جماعت کرائی، پھر ستائیس (27) رمضان کو، اٹھائیس (28) کی رات کو فرائض پڑھے اور اپنے اعتکاف والے خیمہ میں تشریف لے گئے۔
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین خیمہ کے باہر آگئے۔ کافی دیر تک انتظار کرتے رہے لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خیمہ سے باہر تشریف لے کر نہیں آئے۔ صبح فجر کی نماز کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم مصلیٰ پر کھڑے ہوئے، نماز پڑھائی، جب نماز ادا فرمالی تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے مخاطب ہو کرارشاد فرمایا:
فإنه لم يخف علي شأنكم الليلة․
میرے علم میں تھا کہ تم لوگ گزشتہ رات باہر میرے خیمہ کے پاس تھے لیکن میں جان بوجھ کر نہیں نکلا، کیوں؟
خشيت أن يفرض عليكم․
مجھے خدشہ تھا کہ یہ نماز کہیں تمہارے اوپر فرض نہ ہوجائے۔
(مسند اسحاق بن راہویہ: رقم الحدیث 827، المعجم الاوسط للطبرانی: رقم الحدیث 1043)
اب بتاؤ! تراویح کی جماعت حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خواہش تھی یا نہیں؟ [خواہش تھی۔ سامعین] اب اس بات کو حضرت عمر رضی اللہ عنہ سمجھے ہیں، یہ جو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے پورا مہینہ تروایح کی جماعت کروائی ہے یہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی خواہش ہے یا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خواہش ہے؟ [حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی خواہش ہے۔ سامعین]
خواہش حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ہے لیکن پو ری حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کی ہے ، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ خواہش پوری کیوں نہیں فرمائی ؟ اس کی وجہ خود بیان فرما دی کہ اگر میں اہتمام کروں گا تو یہ نماز فرض ہو جائے گی، حضرت عمر رضی اللہ اہتمام کرائیں گے تو فرض نہیں ہوگی․․․ تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خواہش تھی لیکن اہتمام نہیں کیا اس لیے کہ عذر تھا، حضرت عمر رضی اللہ کے اہتمام میں فرض والا عذر نہیں تھا، اس لیے آپ رضی اللہ عنہ نے پورا مہینہ اس کا اہتمام کرا دیا، اب عذر بھی ختم ہوگیا اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خواہش بھی پوری ہوگئی۔ [سبحان اللہ۔ سامعین]
دورِ خلافت راشدہ تکمیل نبوت کا دور:
تو یہ خلافتِ راشدہ کے دور میں کیے ہوئے کام ہیں، اس لیے کہتے ہیں کہ دورِ خلافتِ راشدہ تکمیلِ نبوت کا دور ہے۔ جو کام اللہ کے نبی فرمانا چاہتے تھے اور کسی عذر کی وجہ سے نہ کر سکے تو وہ کام خلفاء راشدین نے کیے۔
ظہر کی چار سنتیں اہتمام کے باوجود فرض کیوں نہیں؟
میں سوال اور جواب آپ کی خدمت میں پیش کرتا ہوں، سوال یہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے تراویح کا اہتمام اس لیے نہیں فرمایا تھا کہ کہیں فرض نہ ہوجائے لیکن حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ظہر کی چار سنت کا اہتمام فرمایا ہے پھر وہ فرض کیوں نہ ہوئیں؟ اور تراویح کے اہتمام سے وہ کیسے فرض ہوجاتی؟ سوال سمجھ میں آگیا؟ [جی۔ سامعین] اب جواب سمجھیں! ایک ہے اکیلے نماز پڑھنے کا اہتمام کرنا اور ایک ہے جماعت کے ساتھ نماز پڑھنے کا اہتمام کرنا، بات سمجھ میں آ گئی؟! ظہر کی سنتیں مؤکدہ ہیں، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیشہ پڑھی ہیں لیکن جماعت نہیں کروائی، اگر جماعت کا اہتمام فرماتےتو پھر ظہر کی سنتوں نے بھی فرض ہو جانا تھا تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ نہیں فرمایا کہ میں نے تراویح کا اہتمام نہیں کیا، تروایح کا اہتمام حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے، تروایح سنت ہے لیکن تراویح کی جماعت کا اہتمام نہیں فرمایا کیونکہ اگر تراویح کی جماعت کا اہتمام فرماتے تو اس نے فرض ہو جانا تھا اس لیے کہ جماعت فرضوں کی ہوتی ہے۔
میں صرف ایک مثال دے رہا تھا کہ پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد امت کی راہنمائی خلفاء راشدین نے کرنی ہے اور خلیفہ راشد کی سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی سنت سمجھی جاتی ہے کیونکہ تمنا نبی کی ہوتی ہے اور پورا خلیفہ راشد کرتا ہے۔
اب جن لوگوں کو بات سمجھ میں نہیں آتی وہ کہتے ہیں کہ یہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی بدعت ہے، بھائی! یہ بدعت نہیں ہے، یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خواہش ہے جس کی تکمیل حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمائی ہے۔ خلفاء راشدین کے بعد پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کی راہنمائی کی ہے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین نے، پھر ان کے بعد امت کی راہنمائی کی ہے فقہاء کرام نے۔
فقیہ کی ضرورت کیوں؟
فقیہ کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ اس کے لیے بنیادی طور پر تین وجوہات اپنے ذہن میں رکھ لیں۔
وجہ نمبر1:
دین عربی ہے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی امت عربی کم اورعجمی زیادہ ہے۔ تو اب امت کو دین سمجھاتا کون؟ اب ایسے افراد چاہیے تھے جو عربی سمجھیں اور عجمیوں کو سمجھائیں۔ یہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے دین کی ضرورت تھی۔
وجہ نمبر2:
نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم عرب وعجم کے نبی ہیں اور عجم کے سفر آپ نے نہیں کیے۔ اب ایسے افراد چاہیے تھے جو عرب سے دین لیں اور عجم کو پہنچائیں۔
وجہ نمبر3:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر اترنے والے قرآن پاک کی آیات تقریباً پونے سات ہزار ہیں اور احادیث کی تعداد تقریباً چار ہزار ، دس ہزار یا زیادہ سے زیادہ گیارہ ہزار ہیں، اس سے زیادہ احادیث کی تعداد نہیں ہے اور امت کے مسائل تو پچاس کروڑ سے بھی زیاد ہ ہیں۔ابھی اگر میں آپ سے کہوں کہ کوئی ساتھی مسئلہ پوچھنا چاہتا ہے تو پوچھ لے تو تم میں سے ہر بندہ ایک ایک مسئلہ بھی پوچھے تو سو مسئلے تو اب بن جائیں گے، اسی طرح کل چار بلاک میں اعلان کروں اور پرسوں ایک بلاک میں کروں کہ جس نے کوئی مسئلہ پوچھنا ہے تو پوچھ لے․․․ تو اب امت میں کروڑوں امتی ہیں تو مسائل بھی کروڑوں ہوں گے۔ اب احادیث کتنی ہیں؟ [گیارہ ہزار۔ سامعین] اور مسائل کتنے ہیں؟ [کروڑوں۔ سامعین]
اب سوال یہ ہے گیارہ ہزار احادیث سے کروڑوں مسائل نکلیں گے کیسے؟ اب ایسے عالم چاہییں جو احادیث سے مسائل نکالتے جائیں اور امت کو بتاتے جائیں۔ یہ ضرورت پوری کریں گے فقہاء۔ اب ہمارے سامنے تین باتیں آگئیں:
نمبر1 : حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا دین عربی میں ہے، ایسا بندہ چاہیے جو عربی کو سمجھے اور عجمیوں کو سمجھائے۔
نمبر2: ایسا بندہ چاہیے جو دین عربوں سے لے کر عجمیوں کو دےسکتا ہو۔
نمبر3: ایسا بندہ چاہیے جو آیات اور احادیث کی تہہ میں چھپے ہوئے مسئلے نکال کر امت کو دے سکتا ہو۔
جن کے اندر یہ خوبیاں ہوں انہیں کہتے ہیں ”فقہاء“۔ اب فقیہ کی ذمہ داری ہے احادیث سے مسئلہ نکالنا اور امت کو دینا۔ تو امت کی راہنمائی فقہاء اس طرح کرتے ہیں۔ اگر فقہاء نہ ہوں تو امت کی راہنمائی دنیا میں ممکن ہی نہیں ہے۔
ایک شبہ اور اس کا جواب:
یہاں ایک شبہ کا جواب ذہن میں رکھ لیں تاکہ کوئی بندہ آپ کو پریشان نہ کر سکے۔کوئی بندہ آپ کو کہہ سکتا ہے کہ ”امام بخاری رحمہ اللہ کو تو چھ لاکھ احادیث یاد تھیں اور آپ کے مولانا صاحب کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث گیارہ ہزار سے زیادہ نہیں، جب احادیث ہیں ہی گیارہ ہزار ہیں تو امام بخاری رحمہ اللہ چھ لاکھ کے حافظ کیسے ہوگئے؟! “ جواب اچھی طرح ذہن نشین فرما لیں۔ حدیث میں دو چیزیں ہوتی ہیں:
نمبر1: سند
نمبر2: متن
سند اور متن میں کیا فرق ہے؟ صحیح بخاری میں ایک روایت ہے:
حَدَّثَنِي أَحْمَدُ بْنُ اشْكَابٍ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَيْلٍ عَنْ عُمَارَةَ بْنِ الْقَعْقَاعِ عَنْ أَبِي زُرْعَةَ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ•
امام بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ مجھے حدیث بیان کی ہے احمد بن اشکاب نے، ان کو بیان کی ہے محمد بن فضیل نے، انہوں نے عمارہ بن قعقاع سے سنی، انہوں نے ابو زرعہ سے سنی اور انہوں نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے سنی اور انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی۔ یہ جو درمیان میں راویوں کے نام ہیں ان کو کہتے ہیں ”سند“ اس کے بعد صحابی فرماتے ہیں :
قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: كَلِمَتَانِ حَبِيبَتَانِ إِلَى الرَّحْمَنِ خَفِيفَتَانِ عَلَى اللِّسَانِ ثَقِيلَتَانِ فِي الْمِيزَانِ سُبْحَانَ اللَّهِ وَبِحَمْدِهِ سُبْحَانَ اللَّهِ الْعَظِيمِ•
اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: دو کلمے اللہ کو بہت محبوب ہیں، زبان پر بہت ہلکے ہیں اور میزان میں بہت بھاری ہیں، (وہ کلمے یہ ہیں)
”سُبْحَانَ اللَّهِ وَبِحَمْدِهِ سُبْحَانَ اللَّهِ الْعَظِيمِ“
اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا جو یہ ارشاد ہے اس کو کہتے ہیں ”متن“۔
اب حدیث میں دو چیزیں ہوتی ہیں
نمبر1: متن
نمبر 2: سند
اب یہ جو میں نے کہا تھا کہ احادیث گیارہ ہزار ہیں اس سے مراد متن ہیں۔ متن کا معنی کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا․․․ یا․․․ اللہ کے نبی نے کوئی کام کیا۔ محدثین کی عادت ہوتی ہے کہ ایک متن کو اگر پچاس راوی نقل کریں تو وہ اس کو پچاس حدیثیں کہتے ہیں، حدیث ایک ہوتی ہے اور سندیں پچاس۔ حدیث مبارک میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں مروی ہے:
تَوَضَّأَ وَمَسَحَ عَلَى الْخُفَّيْنِ۔
(صحیح البخاری: ج1ص33باب المسح علی الخفین)
کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے وضو کیا اور موزوں پر مسح کیا۔
یہ حدیث ایک ہے اور نقل کتنے حضرات نے کیا؟ امام حسن بصری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
حَدَّثَنِي سَبْعُونَ مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ كَانَ يَمْسَحُ عَلَى الْخُفَّيْنِ۔
(التلخیص الحبیر: ج1ص158 باب المسح علی الخفین)
امام حسن بصری رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ مجھے ستر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے بتایا کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم موزوں پر مسح فرمایا کرتے تھے۔
جب ستر صحابہ رضی اللہ عنہم نے بتایا تو محدثین فرمائیں گے کہ موزوں پر مسح کر نے کی ستر احادیث ہیں۔ اب بتاؤ! حدیث تھی کتنی؟ [ایک۔ سامعین] اور بنیں کتنی؟ [ستر۔ سامعین] تو یہ جو کہتے ہیں کہ ”چھ لاکھ احادیث یاد ہیں“ تو یہ چھ لاکھ سندوں کے اعتبار سے ہے اور اگر متن کو دیکھیں تو گیارہ ہزار سے زیادہ نہیں بنیں گی۔ اب بات پوری ذہن میں آئی؟ (جی ہاں۔ سامعین)
اب جو ساتھی مسائل یا درس نہیں سنتے تو ان کو یہ الجھنیں تو پیدا ہوں گی کہ اگر میں نے کسی ایک درس میں کہہ دیا کہ احادیث کی تعداد گیارہ ہزار ہے تو اس نے باہر جاکر کہنا ہے کہ مولانا صاحب جھوٹ بول رہے ہیں، امام بخاری رحمہ اللہ کو تو چھ لاکھ یاد تھیں اور مولانا صاحب گیارہ ہزار کہہ رہے ہیں، اس بے چارے نے سارا درس سنا ہی نہیں، اسے کیا پتہ کہ سچ کیا ہے اور جھوٹ کیا ہے؟! تو لوگ پوری بات نہیں سنتے آدھی بات سنتے ہیں اور پھر الزامات لگا دیتے ہیں، تو جب پوری بات سنتے تو سارے خدشات ختم ہوجاتے۔
فقہاء کے کام کی مثال:
خیر میں عرض کر رہا تھا کہ فقیہ کی ذمہ داری ہے احادیث سے مسئلہ نکالنا اور امت کو دینا۔ اس کی مثال ایسے سمجھیں کہ قیامت تک آنے والے انسانوں کو جتنے مسئلے چاہیے تھے وہ سارے مسئلے اللہ تعالیٰ نے احادیث کے نیچے رکھے دیے ہیں۔ اوپر کیوں نہیں رکھے؟ اگر اللہ تعالیٰ کروڑوں مسئلے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ امت کو دے دیتے تو ان کو لکھتا کون؟ اور ان کو چھاپتا کون؟ اور ان کو خریدتا کون؟ یہ بڑا مشکل کام تھا تو اللہ تعالیٰ نے قیامت تک آنے والے مسئلے احادیث کے نیچے رکھ دیے اور جب مسئلہ پیش آئے تو نکال کر امت کو دینے کےلیے فقہاء دے دیے۔
اس کی مثال بالکل ایسے ہے جیسے قیامت تک آنے والے انسانوں کو جتنا پانی چاہیے تھا اللہ تعالیٰ نے وہ زمین کے نیچے رکھ دیا ہے، اگر وہ سارا پانی اللہ تعالیٰ زمین کے اوپر رکھ دیتے تو سیلاب میں سارے لوگ ڈوب جاتے اور امت غرق ہوجاتی۔ قیامت تک آنے والے انسانوں کو جتنے پانی ضرورت تھی وہ زمین کے نیچے رکھ دیا اور جب پانی کی ضرورت ہو تو نکالنے کے لیے انجینئر دے دیے۔ یہ اللہ کا احسان وکرم ہے۔
اب دیکھو! زمین میں پانی پہلے سے ہے، انجینئر نے کوئی نیا کام نہیں کیا بلکہ جو پانی زمین کی تہہ میں تھا اسے نکال کر امت کو دےدیا۔ جتنا پٹرول قیامت تک آنے والی گاڑیوں کو چاہیے تھا خدا نے وہ سارا زمین کی تہہ میں رکھ دیا ہے، اوپر رکھ دیتے تو آگ لگ جاتی، اب جتنا پٹرول چاہیے تو اسے نکالنے کے لیے امت کو انجینئر دے دیے ہیں۔ بالکل اسی طرح جتنے مسائل قیامت تک کے انسانوں کو چاہیے تھے وہ احادیث کے نیچے رکھ دیے ہیں اور جب ضرورت پیش آجائے تو نکال کر دینے کے لیے امت کو ”فقہاء“ عطاء کر دیے ہیں۔ [سبحان اللہ۔ سامعین]
امام ابو حنیفہ کی تقلید کی وجہ:
اب اس سے ایک بات اچھی طرح سمجھیں۔ جس امام کے ہم مقلد ہیں اس کا نام ہے”نعمان بن ثابت“ ہے اور ”ابو حنیفہ“ ان کی کنیت ہے۔ بڑے امام چار ہیں۔
 نعمان بن ثابت ابو حنیفہ
 مالک بن انس
 محمد بن ادریس الشافعی
احمد بن محمد بن حنبل - رحمہم اللہ-
ہم نے تقلید کی ہےابو حنیفہ نعمان بن ثابت کی۔ اگر کوئی بندہ آپ سے پوچھے کہ آپ نے ان کی تقلید کیوں کی ہے ؟ ہم کہتے ہیں کہ اس کی کئی وجہیں ہیں:
وجہ نمبر1:
دین عربی ہے اور جانا عجمیوں کے پاس ہے، تو بہتر یہ ہے امام ایسا ہو جو عربی اور عجمی دونوں کو سمجھتا ہو، امام مالک عربی ہیں عجمی نہیں جانتے، امام شافعی عربی ہیں عجمی نہیں جانتے ، امام احمد بن حنبل عربی ہیں عجمی نہیں جانتے اور امام ابو حنیفہ ایسے ہیں جو فارسی النسل ہیں جوعربی بھی جانتے ہیں اور عجمی بھی جانتے ہیں،تو امام ایسا ہونا چاہیے جو عجمی اور عربی دونوں جانتا ہو تاکہ دین عجمیوں کو دے اور وہ چاروں میں تنہا امام ابو حنیفہ ہیں۔
وجہ نمبر2:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عرب وعجم کے نبی ہیں لیکن آپ کے سفر عجم کے نہیں ہیں بلکہ سارے سفر عرب کے ہیں۔ اب ہمیں ایسا امام چاہیے جو عرب سے دین لے اور عجم کو دین دے اور وہ تنہا امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ ہیں۔ آپ کہیں گے وہ کیسے؟ میں کہتاہوں اس لیے کہ امام شافعی رحمہ اللہ مصر کے ہیں اور عربی ہیں، امام مالک رحمہ اللہ مدینہ المنورۃ کے ہیں اور عربی ہیں، امام احمد بن حنبل عراق کے ہیں اور عربی ہے، امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کوفہ کے ہیں اور کوفہ سنگم ہے؛ ادھر عجم ہے اور ادھر عرب ہے، درمیان میں کوفہ ہے، خدا نے ہمارا امام ایسی جگہ پہ پیدا فرمایا ہے جو عرب سے لیتا ہے اور عجم کو دیتا ہے۔
امام ابو حنیفہ؛ سراج الامۃ:
حضرت امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کو کہتے ہیں ”سراج الامۃ“ اور سراج الامۃ کا معنی ہے ”امت کا چراغ“، لوگوں نے الزام لگا رکھے ہیں کہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ مسئلے بناتا ہے، خدا کی قسم! یہ بالکل جھوٹ ہے، امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ مسئلے بناتے نہیں بلکہ وہ تو سراج الامۃ ہیں، امت کے چراغ ہیں اور چراغ مسئلہ بنایا نہیں کرتا بلکہ مسئلہ دکھایا کرتا ہے۔ رات آپ تہجد کے لیے اٹھے اور آپ نے نماز پڑھی، اس کے بعد آپ نے تلاوت کرنی ہے لیکن لوڈ شیڈنگ ہواور آپ کو الفاظ نظر نہ آرہے ہوں، جب بجلی آجائے اور لائٹ روشن ہوجائے جس کی وجہ سے آپ کو الفاظ نظر آجائیں تواس لائٹ نے الفاظ بنائے نہیں ہیں بلکہ لکھے ہوئے الفاظ دکھائے ہیں۔
ابو حنیفہ رحمہ اللہ چراغ ہیں، وہ مسئلہ بناتے نہیں بلکہ بنا ہوا مسئلہ دکھاتے ہیں، اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مسئلے بنائے ہیں اور امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ نے مسئلے بتائے ہیں۔ [سبحان اللہ۔ سامعین]
فقہ حنفی نبی کے دور میں تھی:
اب ایک بات آپ ذہن نشین فرمالیں۔ مسئلے بنانے والے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہیں اور دکھانے والے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ ہیں، تو ہماری فقہ کا نام ”فقہ حنفی“ ہے۔ اب اگر کوئی بندہ یہ کہہ دے کہ یار! فقہ حنفی اللہ کے نبی کے دور میں نہیں تھی۔ تو آپ اس بندے کو کہہ سکتے ہیں کہ ”آپ جھوٹ بولتے ہیں، فقہ حنفی اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے دور میں تھی“ وہ آپ سے پوچھے گا: ”بھائی! امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ بھی اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے دور میں تھے؟“ تو آپ کہیں گے: نہیں! تو وہ کہے گا: جب امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ اللہ کے نبی کے دور میں نہیں تھے تو فقہ حنفی کیسے تھی؟“
آپ اس بندے سے پوچھیں: یہ بتاؤ! یہ بخاری کی حدیثیں اللہ کے نبی کے دور میں تھیں؟ تو وہ کہے گا: تھیں! تو آپ کہو: جب امام بخاری اللہ کے نبی دور میں نہیں تھے تو یہ بخاری شریف کیسے تھی؟ وہ کہے گا: حدیثیں اللہ کے نبی کے دور میں تھیں لیکن لکھ کر امام بخاری نے دی ہیں۔ آپ بھی کہنا کہ مسئلے بھی حدیثوں کی تہہ میں اللہ کے نبی کے دور میں تھے لیکن نکال کر امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ نے دیے ہیں۔ [سبحان اللہ۔ سامعین]
اس کی مثال سمجھیں․․․ آپ جہاں بیٹھے ہیں دو بلاک موتی مسجد میں اس کو بنے ہوئے کتنے سال ہوئے؟ اندازہ․․․ چالیس پینتالیس سال ہوئے۔ اب بتاؤ! چالیس سال پہلے جب یہ مسجد بنی نہیں تھی تو نیچے پانی تھا یا نہیں؟[ تھا۔ سامعین] تو نکلا کب ہے؟ جب ضرورت پیش آئی تو نکالا ہے۔ اب دیکھو ! پانی پہلے تھا․․․ نکلا تب ہے جب ضرورت پیش آئی ہے۔ اسی طرح فقہ حنفی حدیثوں کے نیچے پہلے سے موجود تھی اور جب امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ آئے ہیں تو انہوں نے نکال کر امت کے حوالے کی ہے۔ تو فقہاء کا کام یہ ہے کہ اللہ کے نبی کی امت کی راہنمائی کریں۔ تو جب بھی امت کو مسائل درپیش آجائیں تووہ کس سے پوچھیں گے ؟ فقیہ سے، فقیہ موجود ہوگا، وہ حدیث سے مسئلہ نکال کر امت کے حوالے کر دے گا۔ تو تیسرا طبقہ فقہاء کا ہے۔
فقہاء کا کام؛ قرآن و سنت میں تطبیق:
فقیہ کے کئی کام ہیں، میں نے دو تین کام بتائے ہیں۔ ایک کام یہ ہے کہ بعض مرتبہ قرآن و حدیث میں بظاہر ٹکراؤ نظر آتا ہے، فقیہ اس ظاہری ٹکراؤ کو ختم کر کے قرآن و حدیث میں موافقت پیدا کر دیتا ہے۔ مثلاً قرآن میں دیکھا تو اس میں ایک مسئلہ ملا اور حدیث میں دیکھا تو اس میں بھی ایک مسئلہ ملا لیکن قرآن میں مسئلہ اور ہے اور حدیث میں مسئلہ اور ہے۔
اب آدمی پریشان ہو جاتا ہے کہ قرآن کی مانے یا احادیث کی مانے، اللہ کی مانے یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی مانے، بظاہر لگتا ہے کہ دونوں میں ٹکراؤ آگیا ہے حالانکہ ٹکراؤ ہوتا نہیں ہے۔ میں اس کی وہ مثال دیتاہوں جس کی آپ کو ضرورت ہے، میری عادت ہے کہ میں بلا ضرورت باتیں نہیں کرتا، جس مسئلہ کی ضرورت ہوتی ہے اس کو ذکر کرتا ہوں۔ سردیاں شروع ہو گئی ہیں، ہم جب بھی وضو کرتے ہیں تو پاؤں دھوتے ہیں اور اگر موزہ پہن لیا تو اس پر مسح کر یں گے لیکن جراب پر مسح کرنا جائز نہیں ہے۔ موزرے پر مسح کیا تو آپ کی نماز ہوجائے گی اور جب جراب پر مسح کیا تو آپ کی نماز نہیں ہوگی۔ یہ مسئلہ یاد رکھیں۔ اب میں نے جو مسئلہ سمجھانا ہے وہ ہے کہ قرآن کریم میں ہے:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوْا إِذَا قُمْتُمْ إِلَى الصَّلَاةِ فَاغْسِلُوْا وُجُوْهَكُمْ وَأَيْدِيَكُمْ إِلَى الْمَرَافِقِ وَامْسَحُوْا بِرُءُوسِكُمْ وَأَرْجُلَكُمْ إِلَى الْكَعْبَيْنِ•
(سورۃ المائدہ: 6)
اللہ فرماتے ہیں: اے ایمان والو! جب نماز کا ارادہ کرو تو اپنے چہرے کو دھولو اور ہاتھوں کو دھولو اور سر کا مسح کرو اور پاؤں کو دھو لو۔
قرآن کریم نے پاؤں کو دھونے کا حکم فرمایا ہے، یہ نہیں فرمایا کہ جب موزہ پہنا ہو تو مسح کرو اور جب نہ پہنا ہوتو پاؤں دھو لو۔ قرآن کریم نے علی الاطلاق حکم دیا ہے کہ پاؤں کو دھونا ہے اور ہم نے جو حدیث پاک پڑھی ہے اس سے پتہ چلتا ہے کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے موزہ پہنا تھا تو آپ نے موزے پر مسح کیا۔ صحیح بخاری میں روایت ہے:
عَنْ الْمُغِيرَةِ بْنِ شُعْبَةَ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ خَرَجَ لِحَاجَتِهِ فَاتَّبَعَهُ الْمُغِيرَةُ بِإِدَاوَةٍ فِيهَا مَاءٌ فَصَبَّ عَلَيْهِ حِينَ فَرَغَ مِنْ حَاجَتِهِ فَتَوَضَّأَ وَمَسَحَ عَلَى الْخُفَّيْنِ․
(صحیح البخاری: ج1ص33باب المسح علی الخفین)
حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم قضاء حاجت کے لیے باہر تشریف لے گئے تو میں بھی پانی سے بھرا ہوا برتن لے کرآپ کے پیچھے چلا گیا۔ جب آپ اپنی حاجت سے فارغ ہوئے تو میں نے آپ کو پانی پیش کیا، آپ نے وضو کیا اور موزوں پر مسح کیا۔
صحیح مسلم میں حضرت جریر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:
رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَالَ ثُمَّ تَوَضَّأَ وَمَسَحَ عَلَى خُفَّيْهِ•
(صحیح مسلم: ج1 ص132 باب المسح علی الخفین)
حضرت جریر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ نے پیشاب کیا، پھر وضو کیا اور اپنے موزوں پر مسح کیا۔
سنن نسائی میں حضرت بلال رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:
ذَهَبَ النَّبِىُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِحَاجَتِهِ ثُمَّ تَوَضَّأَ فَغَسَلَ وَجْهَهُ وَيَدَيْهِ ، وَمَسَحَ بِرَأْسِهِ وَمَسَحَ عَلَى الْخُفَّيْنِ.
(سنن النسائی: ج1 ص31 باب المسح علی الخفین)
حضرت بلال رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم قضائے حاجت کےلیے تشریف لےگئے، اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے وضو کیا، وضو میں حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنے چہرے اور ہاتھوں کو دھویا اور اپنے سر پر مسح کیا اور موزوں پر بھی مسح کیا۔
اب دیکھو! قرآن کہتاہے کہ پاؤں کو دھونا چاہیے اور حدیث میں آیا ہے کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے موزوں پر مسح کیا ہے، تو کوئی بندہ کہہ سکتا ہے کہ یہ حدیث قرآن کے خلاف ہے، قرآن یہ کہتا ہے جب کہ حدیث یہ کہتی ہے۔ اب فقیہ کا کام یہ ہے کہ آپ کے سامنے ایسا حل پیش کرے کہ سارے کے سارے اشکالات ختم ہو جائیں۔
ایک اصول ذہن میں رکھ لیں، فقہاء کرام نے ایک اصول پیش کیا ہے کہ اگر ایک مسئلہ قرآن میں ہو اور اس کے مقابلے میں ایک مسئلہ حدیث میں ہو تو ہم دیکھیں گے کہ یہ حدیث کس درجہ کی ہے؟ اگر حدیث متواتر ہو جیسے قرآن متواتر ہے تو اس حدیث سے قرآن کا مسئلہ منسوخ ہو سکتا ہے اور حدیث پر عمل ہو سکتا ہے اور اگر حدیث تواتر سے ثابت نہ ہو بلکہ چھوٹے درجے میں ثابت ہوتو اس حدیث کی وجہ سے قرآن کریم کے مسئلے کو چھوڑا نہیں جاسکتا۔ اسے شریعت میں کہتے ہیں ”ناسخ اور منسوخ کا مسئلہ“ کہ ایک مسئلہ پہلے دور کا ہے اور ایک مسئلہ بعد کے دور کا ہے، پہلے کے دور کا ”منسوخ“ ہے اور بعد کے دور کا ”ناسخ“ ہے۔ آیت پہلے اتری ہے اور حدیث بعد کے دور کی ہے، اب حدیث کی وجہ سے یہ مسئلہ منسوخ ہو گا یا نہیں؟
اس کے لیے ہم دیکھیں گے کہ حدیث کس درجے کی ہے؟ اگر حدیث تواتر کے درجے کی ہے تو مسئلہ اور ہے اور اگر تواتر کے درجے کی نہیں ہے بلکہ تواتر سے کم درجے کی ہے تو پھر کا مسئلہ اور ہے۔ امام صاحب رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اب ہم نے دیکھا کہ موزے پر مسح کرنے کی حدیثیں کس درجے کی ہے؟
تواتر کا معنی:
پہلے آپ حضرات تواتر کا معنی سمجھیں تاکہ آپ کو بات سمجھ آئے کہ تواتر کا مطلب کیا ہے؟ تواتر کا معنی یہ ہے کہ جس کو نقل کرنے والے ہر دور میں اتنے زیادہ ہوں کہ عقل بھی مانے کہ اتنے زیادہ لوگ جھوٹ پر جمع نہیں ہو سکتے، بھائی! دو بندے جھوٹ بول سکتے ہیں، چار جھوٹ بول سکتے ہیں مگر ہر دور میں ایک مسئلہ کو ستر ستر فقہاء اور محدثین بیان کریں تو ہم اسے جھوٹ کیسے کہہ سکتے ہیں؟! اسے کہتے ہیں ”تواتر“۔
تواترسند کا محتاج نہیں:
ایک اور بات ذہن نشین فرمالیں، سمجھانے والی باتیں تو بہت سی ہیں لیکن اگر آپ حضرات اصول ذہن میں رکھیں گے تو آپ کو مسائل پر الجھن بھی نہیں ہو گی اور عام آدمی آپ کے ساتھ بات بھی نہیں کر سکے گا۔ مسئلہ یاد رکھ لیں۔ ایک ”تواتر“ ہوتا ہے اور ایک ”سند“ ہوتی ہے، سند کبھی کمزور ہوتی ہے، کبھی مضبوط ہوتی ہے، راوی کبھی کمزور ہوتا ہے کبھی مضبوط ہوتا ہے لیکن تواتر کبھی کمزور نہیں ہوتا بلکہ مضبوط ہی ہوتا ہے۔
اب آپ ایک بات سمجھیں۔ آپ حضرات نے قرآن کریم کےکئی نسخے دیکھے ہیں، کبھی آپ نے قرآن کے شروع میں سند دیکھی ہے؟ [نہیں۔ سامعین] راویوں کے نام دیکھے ہیں؟ [نہیں۔ سامعین] لیکن حدیث کی کتابو ں میں سند لکھی ہوتی ہے۔ بخاری شریف دیکھو تو سند ہے، صحیح مسلم دیکھو تو سند ہے، سنن نسائی دیکھو تو سند ہے، حدیث کی کتابوں میں سند ہوتی ہے کہ استاذ کہتا ہے کہ میں نے یہ حدیث فلاں سے سنی، اس نے فلاں سے سنی، اس نے فلاں سے سنی، اس نے نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے سنی۔ آپ حضرات نے قاری صاحب سے قرآن پڑھا ہے؟ [جی ہاں۔ سامعین]
کیا کبھی قاری صاحب نے کہا ہے کہ میں نے قرآن فلاں سے پڑھا ہے، اس نے فلاں سے پڑھا ہے، اس نے فلاں سے پڑھا ہے․․․ کبھی کہا ہے؟ [نہیں۔ سامعین] اور محدث کہتا ہے کہ میں نے یہ حدیث فلاں سے سنی، اس نے فلاں سے سنی، اس نے فلاں سے سنی․․․ تو محدث سند پیش کرتا ہے، قاری صاحب سند پیش نہیں کرتا․․․ آخر اس کی وجہ کیا ہے ؟ ذرا بات توجہ سے سمجھنا! حدیث سند کی محتاج ہے اور قرآن سند کا محتاج نہیں ہے،اس لیے کہ قرآن تواتر کے ساتھ ثابت ہے اور جو چیز تواتر کے ساتھ ثابت ہو وہ سند کی محتاج نہیں ہوتی۔
بیس رکعات تراویح تواتر سے ثابت ہے:
اگر آپ کو یہ اصول سمجھ میں آگیا تو آپ کے اتنے مسئلے حل ہوں گے کہ میں آپ کو گنوا نہیں سکتا۔ ایک مسئلہ تروایح والا ذہن میں رکھ لیں۔ اگر آپ کو کوئی بندہ کہے کہ آپ بیس رکعات تراویح پڑھتے ہو اس کی سند ضعیف ہے، آپ اسے کہنا: تراویح کا مسئلہ سند کا نہیں، تروایح کا مسئلہ تواتر کا ہے، کوئی بندہ آپ کو حرمین شریفین؛ حرمِ مکہ اور حرمِ مدینہ میں نہیں بتا سکتاکہ جی فلاں سال آٹھ رکعات ہوئی تھیں اور اس سال بیس ہوئی ہے۔ بیس رکعات تروایح یہ ہمیشہ سے چلی آرہی ہے اور یہ تواتر کے ساتھ ثابت ہے اور جو مسئلہ تواتر کے ساتھ ثابت ہو وہاں سندیں نہیں پوچھا کرتے۔
اب دیکھو! میں بیان کر رہا ہوں اور آپ لوگ بیان سن رہے ہیں، اب بیان کے بعد ایک بندہ باہر نکلے اور اس سے کوئی شخص پوچھے کہ بیان کس نے کیا؟ وہ کہے گا: مولانا الیاس گھمن نے کیا، دوسرا نکلے اور اس سے بھی پوچھے کہ بیان کس نے کیا؟ وہ بھی یہ بتائے کہ مولانا الیاس گھمن نے کیا، تیسرا نکلے وہ بھی یہی بتائے، ہر بندہ یہی کہے کہ مولانا الیاس گھمن نے کیا ہے، اب بتاؤ! آپ اس میں سند پوچھیں گے؟ [نہیں۔ سامعین] کیا یہ پوچھنے کی ضرورت ہے کہ تیرا نام کیا ہے؟ دوسرے سے پوچھیں گے کہ تیرا نام کیا ہے؟ تیسرے سے پوچھیں گے کہ تیرا نام کیا ہے؟ [نہیں۔ سامعین]
بھائی! دو چار بندے ہوں تب تو نام پوچھیں گے لیکن جب ہزار بندے کہہ رہے ہیں کہ بیان اس نے کیاہے تو اب نام کیا پوچھیں! ! تو جو باتیں تواتر سے ثابت ہوں اس میں سندیں نہیں پوچھتے۔ اب دیکھو! تروایح کا مسئلہ کتنا آسان ہے، آپ ان آٹھ رکعت پڑھنے والوں سے پوچھ سکتے ہو کہ حرمین میں جب سے تراویح ہو رہی ہے کبھی آٹھ بھی ہوئی ہیں؟ کبھی آٹھ نہیں ہوئیں بلکہ وہاں بیس رکعات ہی پڑھی جا رہی ہے، اب اس میں سند کی ضرورت ہی نہیں ہے۔
فقہ حنفی تواتر سے پہنچی ہے:
میں نے لالہ موسیٰ میں بیان کیا، وہاں ایک شخص نے چٹ لکھی کہ مولانا صاحب! آپ فقہ حنفی کی بہت زیادہ وکا لت کرتے ہیں، آپ فقہ حنفی کو اپنے امام سے سند کے ساتھ ثابت کر دیں تو ہم حنفی ہوجائیں گے۔ میں نے کہا: اگر کوئی عیسائی کہے کہ میں مسلمان ہونے کے لیے تیار ہوں آپ قرآن کی ساری آیات سند کے ساتھ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت کریں تو کیا تو ثابت کر دے گا؟
اس بندے نے کہا: جی نہیں! تو میں نے کہا کہ پھر اس عیسائی کا کیا کرو گے۔ اس نے کہا: مولانا صاحب! قرآن کریم کی ساری آیتیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے تواتر کے ساتھ ثابت ہیں، جو چیز تواتر کے ساتھ ثابت ہو وہاں سند نہیں مانگتے۔ میں نے کہا: جس طرح قرآن حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے تواتر سے ثابت ہے اسی طرح فقہ حنفی یہ امام صاحب سے تواتر سے ثابت ہے۔ جب تواتر پہ سند نہیں مانگی جاتی تو پھر تو مجھ سے سند کیوں مانگ رہا ہے؟ بات سمجھ آرہی ہے؟ [جی ہاں۔ سامعین] اب اصول ذہن میں ہوں تو بات کرنا آسان ہوجاتا ہے۔
ویڈیو بیان کی ضرورت:
میں جو اپنے بیان ریکارڈ کراتا ہوں کہ بیان ریکارڈ کرو․․․ ریکارڈ کرو․․․ عام بندے کو اس کی سمجھ نہیں آتی، کوئی کہتا ہے شہرت کا بھوکا ہے، کوئی کہتا ہے حرام کرتا ہے، میں جو گفتگو کرتا ہوں میرے سامنے صرف یہ دو بلاک کے لوگ نہیں ہوتے، ہمارے سامنے پوری دنیا ہوتی ہے، اس بیان نے آج ریکارڈ ہونا ہے اور دس دن بعد اس نے نیٹ پر آ جانا ہے اور اس سے جتنے لوگوں نے استفادہ کرنا ہےآپ کو اس کا اندازہ نہیں ہے۔ پہلے لوگ ذاکر نائیک کو سنتے تھے، اب دنیا کا بہت بڑا طبقہ ہمیں سنتا ہے، لوگ پہلے اس سے متاثر تھے اب متاثر ہونا ختم ہوگیا، کیوں کہ ذاکر نائیک جتنی جہالت سے کام لیتا ہے اس کا آپ لوگوں کواندازہ ہی نہیں ہے، وہ ہمیں پتا ہوتا ہے کہ وہ کتنی جہالت سے کام لے رہا ہے، ہم اس کا توڑ پیش کرتے ہیں تو امت ہدایت پر آجاتی ہے۔
میں نے پرسوں بھی ایک جگہ واقعہ پیش کیا اور اب آپ کو بھی بطور عبرت کے پیش کرتاہوں۔ مجھے ایک آدمی نے ذاکر نائیک کا کلپ دیا، وہ میرے پاس اب بھی ہے موبائل میں، اس کلپ میں وہ یہ بتا رہا ہے کہ میں جو یہ تھری پیس سوٹ پہنتا ہوں اس کی حیثیت کیا ہے؟ کہہ رہا تھا کہ اکثر لوگ کہتے ہیں کہ یہ عیسائیوں کی علامت ہے، یہ عیسائیوں کی علامت نہیں ہے بلکہ کلچر ہے اور کلچر کو اختیار کرنے میں کوئی گناہ نہیں ہے۔ اگر علامت ہو تو پھر گناہ ہوتا ہے۔ پھر اس نے ایک دلیل پیش کی اور اس کی دلیل پر لوگوں نے تالیاں بجائیں۔
دلیل اس نے یہ دی کہ تم لوگ جو کرتا پہنتے ہو کیا اس کا ذکر قرآن میں آیا ہے؟ کہتا ہے: ”قمیص“ کا ذکر تو آیا ہے حضرت یوسف علیہ السلام کے واقعے میں لیکن” کرتے“ کا ذکر نہیں آیا۔ اس پر لوگوں نے تالیاں بجائیں کہ بڑی مضبوط دلیل دی ہے۔ اس جاہل سے کوئی پوچھے کہ”کرتہ“ اردو کا لفظ ہے اور ”قمیص“ عربی کا لفظ ہے، تو قرآن میں عربی کا لفظ”قمیص“ہی آنا ہے، اردو کا لفظ ”کرتہ“ تو نہیں آنا۔ جب کلپ کے مقابلے میں کلپ نیٹ پر آتاہے تو لوگ سمجھتے ہیں کہ یار اصل مسئلہ تو یہ ہے۔ اب یہ ویڈیو بنوانا ہماری مجبوری ہے، اس کا توڑ اس کے بغیر نہیں ہے۔ اس وجہ سے بعض ساتھیوں کو الجھن ہوتی ہے کہ مولانا تصویر کیوں بناتے ہیں؟!
آپ کی تصویر جائز تو میری نا جائزکیوں؟
شاید اس پر میں نے آپ کو ایک واقعہ سنایا ہو، چلو میں پھر سنا دیتاہوں تاکہ آپ حضرات کے ذہن میں بات بخوبی بیٹھ جائے۔ میں کشمیر کے علاقہ عباس کوٹ میں گیا، وہاں ایک مسجد میں میرا بیان تھا، میرے ساتھ ویڈیو والا بھی تھا، مسجد کے امام صاحب نے کہا: ہماری مسجد میں تبلیغی جماعت آئی ہوئی ہے وہ اسے اچھا نہیں سمجھتے۔ میں نے کہا: آپ کیمرہ لگا دو میں انہیں سمجھا دوں گا۔ میں نے ان تبلیغ والوں سے پوچھا: تمہارے امیر صاحب کون ہیں؟ انہوں نے کہا: یہ ہیں۔
میں نے کہا: آپ اس مسجد میں کیوں آئے ہو؟ اس نے کہا: ہماری سات ماہ کی جماعت ہے بیرون کی، ہمیں اب تک ویزے نہیں ملے، جب تک ہمارے ویزے نہیں آتے ہماری اس علاقے میں تشکیل ہوئی ہے۔ میں نے کہا: پاسپورٹ پر آپ کی تصویر بھی ہے؟ انہوں کہا: جی ہاں۔ میں نے کہا: امیر صاحب! تصویر حرام ہے یا حلال ؟ کہا: حرام۔ میں نے کہا: جب حرام ہے تو پھر آپ نے بنوائی کیوں ہے؟ اس نے کہا: اس کے بغیر تو ہم بیرون جا نہیں سکتے، اس لیے یہ ہماری مجبوری ہے، اس کے بغیر پاسپورٹ پر ویزہ نہیں لگے گا۔
میں نے کہا: نہ لگے، قیامت کے دن تم اللہ سے کہنا کہ یا اللہ! ہمارا دل چاہتا تھا کہ ہم انگلینڈ جا کر تیرے دین کا کام کریں لیکن وہاں جانے کے لیے تصویر بنوانا ضروری تھی، اس وجہ سے ہم وہاں نہیں گئے۔ امیرصاحب نے کہا: مولانا صاحب! دین کی دعوت دینی ہے۔ میں نے ان سے کہا: مجھ میں اور آپ میں فرق یہ ہے کہ آپ نے تو تین تصویریں سفارت خانے میں جمع کروائی ہیں اور خود انگلینڈ جانا ہے، میں خود یہاں رہوں گا اور تصویر انگلینڈ بھیج دوں گا، آپ کے بیان کو دس بندے سنیں گے اور میرے بیان کو ہزاروں بندےسنیں گے۔
جب دین کی خاطر تصویر بنوانا جائز ہے تو پھر آپ بھی دین کی خاطر بنوا رہے ہیں اور میں بھی دین کی خاطر بنوا رہا ہوں، میری تصویر حرام ہے اور آپ کی حلال ہے․․․ یہ فرق کیوں؟ امیر صاحب! آپ مجھے سمجھائیں آخر یہ فرق کیوں ہے ؟
میری بات کو آپ محسوس نہ کرنا۔ اس قوم کا مزاج یہ ہے جو چیزیں معاشرے میں رواج پا جاتی ہیں تو لوگوں کے ہاں ان چیزوں کی حرمتیں کم ہوتی ہیں اور جو رواج نہیں پاتیں تو پھر معاملہ عجیب ہوتا ہے۔ اب دیکھو ہمارے پاکستان میں جو لوگ شراب پیتے ہیں وہ خنزیر کھانے کے لیے تیار نہیں ہوتے، اب خنزیر کھانا اور شراب پینا دونوں کے حرام ہونے میں کوئی فرق نہیں، یہ لوگ خنزیر نہیں کھائیں گے لیکن شراب پئیں گے، کیوں کہ معاشرے میں خنزیر کوئی نہیں کھاتا۔ اسی طرح لوگ دس دس تصویریں کھینچوا کر عمرہ کر لیں گے، حج کر لیں گے لیکن جب دین کی باری آئے گی تو پھر ویڈیو کو حرام کہہ دیں گے۔
میں اس کے حلال ہونے پہ دلائل نہیں دے رہا، میں صرف یہ کہہ رہا ہوں کہ جب اُس کی گنجائش ہے تو پھر اِس کی گنجائش کیوں نہیں؟ وہ بھی دین کی وجہ سے ہے اور یہ بھی دین کی وجہ سے ہے۔ میں یہ بات آپ کو کیسے سمجھاؤں کہ جس مورچہ سے دشمن وار کرتا ہے آپ نے اسی مورچہ پر فائرنگ کرنی ہے تو مقابلہ ہونا ہے ورنہ مقابلہ کبھی بھی نہیں ہونا۔ میں اب دنیا ٹی وی پر آتا ہوں اور درس قرآن دیتا ہوں، وہ مجھ سے بہت وقت مانگتے ہیں لیکن خدا گواہ ہے مصروفیت اتنی ہوتی ہے کہ میں وقت نہیں دے پاتا، وہ کہتے ہیں آپ ہر ہفتہ میں آئیں۔
اب دیکھو! ایک طرف دو سو ملکوں میں ڈھائی کروڑ بندے سنیں اور دوسری طرف دو بندے سنیں تو بتاؤ دونوں میں کتنا فرق ہے؟! اور ایک بات میں آپ حضرات کی مسجد میں بیٹھ کر خدا کی قسم اٹھا کر کہتا ہوں کہ آج تک میں نے ٹی وی والوں سے ایک روپیہ بھی لیا ہو تو میرے اوپر حرام ہے، ایک روپیہ بھی لیا ہو تو مجھ پر حرام ہے، میں سرگودھا سے اسلام آباد جاتاہوں تو خود اپنی جیب سے پٹرول ڈال کر جاتا ہوں ان سے پیسے نہیں لیتا، کراچی اگر جاتا ہوں تو جہاز کی ٹکٹ خود لیتا ہوں ان سے نہیں لیتا، میں نے رمضان میں سحر و افطار میں درس دیے اور سحری میں اپنے ساتھ خود لے کر جاتا تھا، ان سے سحری بھی نہیں کھاتا تھا۔
لیکن عام بندہ سمجھتا ہے کہ پتہ نہیں مولانا صاحب کو ٹیلی ویژن والے کتنے پیسے دیتے ہوں گے؟! دیکھو جی انہوں نے حرام کام شروع کر دیا ہے۔ ہمیں شوق نہیں ہے یہ کام کرنے کا، یہ کام ضرورت اورمجبوری ہے۔ اللہ ہمیں بات سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے۔
موزوں پر مسح تواتر سے ثابت ہے:
میں مسئلہ یہ سمجھا رہا تھا کہ قرآن پاک میں حکم آیا ہے پاؤں کو دھونے کا اور حدیث مبارک میں آیاہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے موزوں پر مسح کیا ہے۔ اب بظاہر یہ حدیث قرآن کے خلاف ہے لیکن حقیقتاً قرآن کے خلاف نہیں ہے، اب قرآن کے حکم کو چھوڑ کر حدیث پر عمل کر سکتے ہیں، اس کی وجہ یہ ہے کہ جس طرح قرآن کریم کی آیت تواترسے ثابت ہے اسی طرح موزوں پر مسح کرنے کی احادیث بھی تواتر سے ثابت ہیں۔ حضرت امام حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ فرماتےہیں:
حَدَّثَنِي سَبْعُونَ مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ كَانَ يَمْسَحُ عَلَى الْخُفَّيْنِ․
(التلخیص الحبیر: ج1ص158 باب المسح علی الخفین)
مجھے ستر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے بتایا کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم موزوں پر مسح فرمایا کرتے تھے۔
حضرت امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
ماقلت بالمسح حتیّٰ جاءنی فیہ مثل ضو ء النھار․
( البحر الرائق لابن نجیم : ج1 ص288 باب المسح علی الخفین)
میں اس وقت موزوں پر مسح کا قائل ہوا جب میرے پاس اتنی حدیثیں آ گئیں جس طرح سورج چمک رہا ہوتا ہے۔
علامہ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
وقد صرح جمع من الحفاظ بان المسح علی الخفین متواتر․
(فتح الباری : ج1 ص399 باب المسح علی الخفین)
محدثین کا فیصلہ ہے کہ موزوں پر مسح کرنے والی حدیث متواتر ہے۔
اب فقیہ بتائے گا کہ آیت بھی متواتر ہے اور حدیث بھی تواتر سے ثابت ہے، اب آیت کو چھوڑ کر حدیث پر عمل کرنا جائز ہے اور جب حدیث اس درجے کی نہیں ہوگی تو پھر عمل جائز نہیں۔ اس سے مسئلہ خود بخود ثابت ہوگیا کہ جرابوں پر مسح کرنا جائز نہیں۔
جرابوں پر مسح کرنا جائز نہیں:
 پہلی بات یہ ہے کہ جراب پر مسح کرنے کی ساری حدیثیں ضعیف ہیں۔ ہمارا نیٹ پر تفصیلاً اس موضوع پر بیان موجود ہے، میں ایک اور بات بھی عرض کر دوں اور میں کسی کے مسلک پر کیچڑ نہیں اچھا ل رہا بلکہ بطور حوالہ کے یہ بات کہہ رہا ہوں کہ مسلک اہل حدیث کے بہت بڑے عالم عبدالرحمن مبارک پوری جامع ترمذی کی شرح تحفۃ الاحوذی میں لکھتے ہیں:
والحاصل انہ لیس فی با ب المسح علی الجوربین حدیث مرفو ع صحیح خال عن الکلام ھذا ماعندی•
(تحفۃ الاحوذی للمبارکفوری: ج2ص349 و 354)
کہ میر ی تحقیق ہے یہ کہ مسح علی الجوربین کے بارے میں کوئی صحیح مرفوع حدیث ثابت نہیں جو جرح وکلام سے خالی ہو۔
اور مسلک اہل حدیث کے ”امام“ شیخ الکل فی الکل میاں نذیز حسین دہلوی صاحب اپنی کتاب ”فتاویٰ نذیریہ“ میں لکھتے ہیں:
المسح علی الجوربۃ المذکورۃ لیس بجائز لانہ لم یقم علی جوازہ دلیل․
(فتاویٰ نذیریہ: ج1ص327)
موجودہ جرابوں پر مسح جائز نہیں ہے، اس لیے کہ اس کی کوئی صحیح دلیل موجود نہیں ہے۔
اب بتاؤ! آپ کے لیے جواب دینا کیا مشکل ہے؟! اب اگر آپ کو کوئی بندہ جراب پر مسح کی حدیث دکھا بھی دے اور آپ کو جواب زیادہ نہ بھی آتا ہو تو آپ اس سے یہ تو کہہ سکتے ہیں کہ قرآن نے حکم پاؤں دھونے کا دیا ہے یا مسح کا؟ وہ کہے گا کہ حدیث میں تو مسح کا ذکر آتاہے تو آپ نے اس سے کہنا ہے کہ اگر حدیث تواتر کے درجے کی ہے تو پھر اس پر عمل کرنا درست ہے ورنہ قرآن کے مقابلے میں اس پر عمل کرنا درست نہیں بلکہ جائز بھی نہیں اور جرابوں پر مسح والی حدیث صحیح بھی نہیں اور تواتر کے درجے میں بھی نہیں لہذا اس پر عمل کرنا جائز بھی نہیں۔ اب یہ کام فقیہ کا ہے کہ امت کو سمجھائے۔
اس لیے ہم نے کہا کہ امت کی رہنمائی کریں گے:
نمبر1: خلفاء راشدین
نمبر2: صحابہ کرام
نمبر3: فقہا کرام
نمبر 4: علماء کرام
اگر فقیہ نہ ہوتو یہ مسئلہ سمجھ میں آ ہی نہیں سکتا۔
پاؤں پر مسح جائز نہیں؛ ایک علمی گفتگو:
ایک چھوٹا سا مسئلہ اسی آیت کے حوالے سے آپ ذہن نشین فرما لیں، ہو سکتا ہے کل کو آپ سے کوئی بندہ یہ مسئلہ پوچھ لے۔ فیصل آباد کے ہمارے ایک دوست ہیں، ان کے تعلق والا ایک شخص تھا جو مسلکاً شیعہ تھا اور کراچی کا رہنے والا تھا، اس شخص نے ہمارے اس دوست سے کہا کہ ”پاؤں کو دھونا نہیں چاہیے بلکہ پاؤں پر مسح کرنا چاہے کیونکہ مسح کا ذکر قرآن کریم میں ہے۔“ آپ ذرا اس کی دلیل دیکھنا! کہنے لگا کہ قرآن کریم میں ہے:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا قُمْتُمْ إِلَى الصَّلاةِ فَاغْسِلُوا وُجُوهَكُمْ
اے ایمان والو جب تم نماز کے اٹھو تو اپنے چہر ے کو دھولو۔وَأَيْدِيَكُمْ إِلَى الْمَرَافِقِاور اپنے ہاتھو ں کو کہنیوں تک دھولو۔
وَامْسَحُوا بِرُءُوسِكُمْ اپنے سر کا مسح کر لو۔وَأَرْجُلَكُمْ إِلَى الْكَعْبَيْنِ
اب یہاں ”أَرْجُلَكُمْ“ کا معنی کیا کریں؟ پاؤں پر مسح کریں یا پاؤں دھونا کریں؟ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے وضوء میں چار چیزوں کا ذکر کیا:
(1): پہلے چہرے کا ذکر کیا
(2): پھر ہاتھوں کا ذکر کیا
(3): پھر مسح کا
(4): اور آخر میں پاؤں کا
اب وہ میرے دوست کہنے لگے کہ اس شیعہ نے مجھے کہا کہ اگر پاؤں کو دھونا ہوتا تو اللہ اس کا ذکر پہلے کرتے اور یوں فرماتے: ”فَاغْسِلُوا وُجُوهَكُمْ“ اپنے چہرے کو دھو لو، ”وَأَيْدِيَكُمْ إِلَى الْمَرَافِقِ“ اپنے ہاتھوں کو دھو لو، ”وَأَرْجُلَكُمْ إِلَى الْكَعْبَيْنِ“ اپنے پاؤں کو دھو لو اور پھر فرماتے ”وَامْسَحُوا بِرُءُوسِكُمْ“ اپنے سروں کا مسح کر لو۔ لیکن اللہ نے قرآن میں پہلے سر کا مسح ذکر کیا اور اس کے بعد پاؤں کا ذکر کیا، اگر پاؤں کو دھونے کا حکم ہوتا تو اس کا ذکر ”فَاغْسِلُوا وُجُوهَكُمْ“ کے ساتھ ہوتا لیکن اس کا ذکر”وَامْسَحُوا بِرُءُوسِكُمْ“ کے بعد ہے۔
جس کا مطلب ہے کہ پا ؤں کو دھونا نہیں بلکہ پاؤں پر مسح کرنا ہے،تو دو اعضاء کو دھونا ہے اور دو کا مسح کرنا ہے، اس لیے دھونے والے اعضاء کو ایک جگہ اور مسح والے اعضاء کو ایک جگہ ذکر کر دیا ہے۔ اب جب کوئی بندہ یہ دلیل پیش کرے گا تو آپ کے پاس اس کا جواب نہیں ہوگا۔ آپ نے کہنا ہے کہ مولانا عبدالرشید صاحب! مولانا صاحب (مولانا محمد الیاس گھمن) کا ایک درس تو کرا دو۔
میں اس لیے ترغیب دے رہا ہوں کہ مسلسل بیانات کو سنو، پھر آپ دیکھنا کہ دلائل کتنے جمع ہوتے ہیں۔ مجھے انہوں نے کہا: مولانا صاحب! اس شخص کی اس دلیل کا جواب کیا ہے؟ میں نے کہا: اس کا جواب خود قرآن کریم میں ہے، آپ قرآن کھولیں میں جواب دیتا ہوں، میں سرگودھا میں تھا وہ فیصل آباد میں تھے، وہ غیر عالم تھے اس لیے میں نے ان کو کہا کہ قرآن دیکھیں میں پڑھتا ہوں، آپ ذرا اس کے اعراب کو دیکھنا، قرآن میں ہے:
إِذَا قُمْتُمْ إِلَى الصَّلاةِ فَاغْسِلُوا وُجُوهَكُمْ وَأَيْدِيَكُمْ․
”فَاغْسِلُوا وُجُوهَكُمْ“ اپنے چہروں کا دھو لو، آگے ہے: ”وَأَيْدِيَكُمْ“ اپنے ہاتھوں کو دھو لو، ”وُجُوهَ“ پر زبر ہے، آگے ”وَأَيْدِيَ“ اس پر بھی زبر ہے، آگے ”وَامْسَحُوا بِرُءُوسِكُمْ“ اپنے سروں کا مسح کرو، اس میں ”رُءُوسِ“ پر زیر ہے آگے فرمایا: ”وَأَرْجُلَكُمْ“ پھر زبر آگئی ہے۔
 ”وُجُوهَ“ زبر ہے․․․
 ”أَيْدِيَ“ زبر ہے․․․
 ”رُءُوسِ“ زیر ہے․․․
اب ہم نے دیکھنا ہے کہ ”أَرْجُلَ“ کا تعلق کس کے ساتھ ہے؟ اگر ہوتی زیر یعنی ”أَرْجُلِ“ تو ہم کہتے کہ اس کا تعلق ہے ”رؤس“ سے، لیکن اس پر ہے زبر یعنی ”أَرْجُلَ“ ، پتا چلا کہ اس کا تعلق ہے”وُجُوهَ“ اور ”أَيْدِيَ“ کے ساتھ، اور یہ منصوب ہے کیونکہ ”فَاغْسِلُوا“ کا مفعول بہ ہے جو منصوب ہوتا ہے، معلوم ہوا کہ چہرے، ہاتھوں اور پاؤں کو دھونا ہے اور سر کا مسح کرنا ہے، اسی لیے خدا نے ”أَرْجُلَكُمْ“ فرمایا، جس کو دھونا تھا اس پر زبر ہے اور جس پر مسح کرنا تھا اس پر زیر ہے۔مجھے وہ کہنے لگا: مولانا صاحب! ٹکٹ میں کراتا ہوں، چلیں کراچی چلیں اور اس بندے کو سمجھائیں۔ میں نے کہا: میں نے وہاں نہیں جانا،میرا یہ بیان اس کو سنا دے اگر سمجھ نہ آئے تو میرے ساتھ فون پر رابطہ کر لے،میں اس کو فون پر سمجھا دوں گے۔
دلائل والا مزاج اپنائیے:
میں گزراش کر رہا تھا کہ ان دلائل کو سمجھو اور اپنامزاج بناؤ دلائل والا۔ خدا نے ہمیں شریعت دی ہے، دلائل دیے ہیں، ہمارے پاس دلائل کا انبار موجود ہے تو پھر کمزور بات کیوں کریں۔ اللہ ہمیں یہ بات سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ تو اللہ کے نبی کی امت کی راہنمائی کرنی ہے خلفاء راشدین نے، پھر صحابہ کرام نے، پھر فقہاءِ کرام نے۔ میں آخری بات عرض کرتا ہوں، اس درس کے سلسلہ کو ختم کرتے ہیں تاکہ آئندہ کسی اور عنوان پر درس شروع کریں۔
امت کے رہنماء؛ علماء کرام
چوتھے نمبر پر علماء کرام امت کی راہنمائی کریں گے۔ہمارا چک 87 جنوبی (سرگودھا) میں بچیوں کا مدرسہ ہے، شروع شروع میں تو ایک کمرہ تھا، اب ماشاء اللہ بہت اچھا بن گیا ہے۔ ہمارے درس میں ایک مرتبہ ایسی بچی آگئی جو مسلکاً غیر مقلد تھی۔ سبق میں اس نے مجھ سے ایک مسئلہ پوچھا، مجھے کہنے لگی: استاد جی! ایک بات بتائیں۔ میں نے کہا: پو چھیں، کہنے لگی: کوئی خاتون کسی عالم سے بیعت کر سکتی ہے؟ میں نے کہا: کر سکتی ہے۔ اس نے کہا: دلیل؟ میں نے کہا: سورۃ ممتحنہ میں دلیل موجود ہے:
يَآ أَيُّهَا النَّبِيُّ إِذَا جَاءَكَ الْمُؤْمِنَاتُ يُبَايِعْنَكَ عَلٰى أَنْ لَا يُشْرِكْنَ بِاللَّهِ شَيْئًا وَلَا يَسْرِقْنَ وَلَا يَزْنِينَ وَلَا يَقْتُلْنَ أَوْلَادَهُنَّ وَلَا يَأْتِينَ بِبُهْتَانٍ يَفْتَرِينَهُ بَيْنَ أَيْدِيهِنَّ وَأَرْجُلِهِنَّ وَلَا يَعْصِينَكَ فِي مَعْرُوفٍ فَبَايِعْهُنَّ وَاسْتَغْفِرْ لَهُنَّ اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ•
(سورۃ الممتحنۃ: 12)
قرآن کریم نے کہا: میرے پیغمبر! اگر آپ کے پاس وہ عورتیں آئیں جو کلمہ پڑھ کر اسلام لا چکی ہیں، مؤمنہ ہیں، وہ آپ کے پاس آئیں اور اس بات پر بیعت کرنا چاہیں کہ وہ شرک نہیں کریں گی، چوری نہیں کریں گی، زنا نہیں کریں گی، اولاد کو قتل نہیں کریں گی،ایسا بہتان نہیں باندھیں گی جو انہوں نے اپنے ہاتھوں اور پاؤں کے درمیان گھڑ لیا ہو (یعنی جانتے بوجھتے اورکھلم کھلا کسی پر بہتان نہیں باندھیں گی) اور نہ کسی بھلے کام میں آپ کی نافرمانی کریں گی۔ اگر ان شرائط پر آپ سے بیعت کرنا چاہیں توآپ ان کو بیعت کر لیں۔
میں نے کہا: بیعت کا ذکر تو قرآن کریم میں ہے پھر ہم بیعت کے قائل کیوں نہ ہوں؟! آپ مرد ہیں اور تیاری نہیں کرتے وہ عورتوں کی بھی تیاری کرواتے ہیں۔ اب اس لڑکی کا جواب سننا! مجھے کہنے لگی: استاد جی شاید میں اپنا سوال آپ کو سمجھا نہیں سکی یا آپ مجھے جواب نہیں سمجھا سکے۔ میں نے کہا: کیوں؟ اس نے کہا: میرا سوال یہ نہیں ہے کہ کوئی عورت نبی کی بیعت کرسکتی ہے یا نہیں ؟ میرا سوال یہ ہے کہ عورت کسی عالم کی بیعت کر سکتی ہے یا نہیں؟ آپ نے دلیل میں پیش کیا کہ عورتیں اللہ کے نبی کی بیعت کرتی تھیں۔
نبی کی بیعت عورتیں کریں مجھے اس پر اشکال ہی نہیں ہے، وہ تو میں مانتی ہوں، میرا سوال یہ ہے کہ نبی کے بعدکسی عالم کی بیعت کر سکتی ہے یا نہیں؟ آپ اس پر دلیل پیش فرمائیں، اس لیے میرے سوال پر آپ نے دلیل نہیں دی۔ اس بچی کی بات معقول ہے یا نہیں؟ [معقول ہے۔ سامعین] اب دیکھو کتنی تیاری کرائی جا رہی ہے۔ میں نے اس سے کہا: بیٹی! یہ بتاؤ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں جب مسجد میں لوگ جماعت کے لیے جاتے تھے تو مصلیٰ پر کون کھڑا ہوتا تھا؟ کہنے لگی: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم۔ میں نے کہا: لوگ مسئلہ پوچھتے تو جواب کون دیتا تھا؟ کہنے لگی: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم۔
جب کوئی خواب دیکھتا تو تعبیر کون بتاتے تھے؟ کہنے لگی: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم۔ میں نے کہا: نکاح کون پڑھاتے تھے؟ کہنے لگی: رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم۔ میں نے کہا: جب عورتوں نے بیعت کرنی ہوتی تو بیعت کون فرمایا کرتے تھے؟ کہا: جی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم۔
میں نے کہا: اب بتا ؤ! مسجد میں نماز کون پڑھائے گا؟ کہتی ہے: علماء
میں نے کہا: خواب کی تعبیر کون بتائے گا؟ کہتی ہے: علماء
میں نے کہا: نکاح کون پڑھا ئے گا؟ کہتی ہے: علماء
اب میں نے کہا: عورتوں کی بیعت کون کرائے گا ؟ کیا ہم بیعت کے لیے اللہ کے نبی کو لائیں گے؟ کہنے لگی: جی اب مجھے بات سمجھ میں آگئی۔
عالم نبی کا وارث ہے:
اس کا مطلب یہ ہے کہ عالم نبی کا وارث ہے، جو کام اللہ کے نبی نے فرمائے ہیں وہ سارے کام عالم کرے گا۔ اس کی وجہ یہ ہےکہ ایک ہوتا ہے ”وارث“اور ایک ہوتا ہے ”مُورِث“،جو فوت ہو جائے اسے ”مورث“ کہتے ہیں اور جو پیچھے ہو اسے ”وارث“ کہتے ہیں۔ اب جو فوت ہونے والا ہے اس کی دکان بھی ہے، اس کی گاڑ ی بھی ہے، اس کا مکان بھی ہے، اس کا بینک بیلنس بھی ہے۔ اب بتاؤ! جو وارث ہو گا وہ ہر چیز کا وارث ہوگا یا ایک چیز لے کر ایک چھوڑ دے گا؟ [ہر چیز کا ہوگا۔ سامعین] تو اب جب علماء وارث ہیں تو جو کام اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائے ہیں وہ سارے کام علماء نے کرنے ہیں۔ علماء نبی کے وارث ہیں اس لیے مسائل علماء بتائیں گے، نماز علماء پڑھائیں گے، خواب کی تعبیر علماء بتائیں گے، خطبہ علماء دیں گے․․․ یہ سارے کام علما ء نے کرنے ہیں۔ اب بات سمیٹتا ہوں۔
میں کہہ رہاتھا کہ نبی کے بعد امت کی راہنمائی چار طبقات نے کرنی ہے۔ سب سے پہلے کس نے کرنی ہے؟ [ خلفاء راشدین نے۔ سامعین]اب خلفاء راشدین ہیں؟ [نہیں۔ سامعین]خلفاء راشدین کے بعد کس نے کرنی ہے؟ [صحابہ کرام نے۔ سامعین] اب صحابہ کرام ہیں ؟ [نہیں۔ سامعین]صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے بعد کس نے کرنی ہے؟ [ فقہاء نے۔ سامعین]فقیہ اور مجتہد بڑے درجے کے ہوتے ہیں، اب وہ بھی نہیں، اب امت کی راہنمائی کون کرے گا؟ [علماء کرام۔ سامعین ]
عصرِ حاضر کا فتنہ:
اب پوری دنیا میں فتنہ یہ ہے کہ علماء سے بچو! علماءسے بچو! کیوں؟ اس لیے کہ راہنمائی جو انہوں نے کرنی ہے، اب اگر آدمی علماء سے کٹ گیا تو بتاؤ! وہ جائےگا کہاں؟ جن علماء نے آپ کی راہنمائی کرنی ہےبتاؤ کیا یہ معصوم ہیں؟ [نہیں۔ سامعین] معصوم نہ ہونے کا مطلب کیا ہے؟ اس کا مطلب یہ ہے کہ ان سے گناہ بھی ہونے ہیں، اب جب ان کے گناہ دیکھ لیں تو کیا اس کو فارغ کر دیں گے؟ جب آپ خود سمجھتے ہیں کہ یہ معصوم نہیں ہیں تو ظاہر ہے کہ ان سے خطائیں بھی ہونی ہیں تو آپ ان کی خطاؤں کو دیکھ کر آسمان سر پر کیوں اٹھا لیتے ہو؟
مولوی دے سکتا ہوں، نبی نہیں دے سکتا!
امیر شریعت سید عطاء اللہ شاہ بخاری رحمہ اللہ ملتان میں تھے، منڈی بہاؤ الدین کا ایک وفد گیا کہ شاہ جی ہماری مسجد کے لیے امام چاہیے۔ شاہ جی نے فرمایا: مل جائے گا لیکن بتاؤ کہ کیساامام چاہیے؟ انہوں نے کچھ شرطیں لگائیں․․․ کہا: جوان ہو! فرمایا: ٹھیک ہے، خوبصورت ہو! فرمایا: ٹھیک ہے، خوش الحان ہو! فرمایا: ٹھیک ہے، لالچی نہ ہو! فرمایا: ٹھیک ہے۔ انہوں نے جب اس طرح کی چند اور شرطیں بتائیں تو شاہ جی رحمہ اللہ نے پوچھا: مولوی چاہیے یا نبی چاہیے؟ وہ کہنے لگے جی! مولوی چاہیے۔
شاہ جی نے فرمایا: یہ شرطیں تو نبی کی ہیں کہ خوبصورت بھی ہو، خاندان بھی بڑا ہو، عالم بھی بڑا ہو، خوش الحان بھی ہو، تنخواہ بھی نہ لیتا ہو یہ صفتیں مولوی کی نہیں ہیں، مولوی خوبصورت بھی ہو سکتا ہے کالا بھی ہو سکتا ہے،طاقتور بھی ہو سکتا ہے کمزور بھی ہو سکتا ہے، چودھری بھی ہو سکتا ہے کم ذات بھی ہو سکتا ہے، سید خاندان کا بھی ہو سکتا ہے چھوٹے خاندان کا بھی ہو سکتا ہے، اور تم جن صفتوں والا امام مانگتے ہو وہ صفتیں تو نبی کی ہیں، میں توجیل کاٹتا ہوں، مار کھاتا ہوں حضور کے اس فرمان
”انا خاتم النبین لانبی بعدی“
کے لیے اور تم میرے پاس نبی مانگنے کے لیے آئے ہو؟!
میں نبی نہیں دے سکتا مولوی دے سکتا ہوں۔ میری بات سمجھ آ رہی ہے؟ [جی ہاں۔ سامعین] امت میں یہ مزاج بن جائے تو پھر معاملات صحیح ہو جاتے ہیں۔
مزاجِ نبوت:
میرا آج صبح سبق تھا اور الحمدللہ ہمارے سبق میں عوام نہیں ہوتی بلکہ علماء ہوتے ہیں۔ دکھ یہ ہے کہ آپ ہمارا سبق آ کے دیکھتے نہیں ہو، آپ آکر دیکھو! اور پورے ملک میں اتنی بڑی کلاس کہ جس میں فارغ ہونے والے علماء آ کر سبق پڑھیں یہ آپ کو ہمارے چک 87 کے علاوہ کہیں نہیں ملے گی۔ میں نے ان علماء سے کہا اور آپ سے بھی کہتا ہوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دور میں جن جن سے تعلق توڑا ہے تو نظریہ کی بنیاد پر توڑاہے یاعمل کی بنیاد پر توڑا ہے؟ مجھے یہ بتاؤ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے گناہ ہوئےیا نہیں؟ [ہوئے ہیں۔ سامعین] کیا حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں صف سے نکالا ہے کہ نکل جاؤ؟ [نہیں۔ سامعین] تم پر چوری ثابت ہو گئی ہے تم نکل جاؤ! ایسا کہا ہے؟ [نہیں۔ سامعین] خیانت ثابت ہوگئی تم نکل جاؤ! [نہیں۔ سامعین] تجھ سےزنا ہو گیا نکل جا! [نہیں۔ سامعین]
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حد تو جاری کی ہے لیکن نکالا نہیں ہے اور جب منافق کا معاملہ آیا تو فرمایا: ”اُخْرُجْ“ نکل جا تو منافق ہے۔ نبی غلط نظریہ والے کو تو الگ کرتا ہے لیکن غلط عمل والے کو الگ نہیں کرتا بلکہ تھپکی دے کر عمل کو ٹھیک کرتا ہے۔ اور آج ہمارا کیا حال ہے؟ ہم غلط عقائد والوں کو سینے سے لگاتے ہیں اور عملی کوتاہی ہوجاِئے تو باہر نکال دیتے ہیں، بابا غلط عقیدے پر لڑائی لڑو لیکن غلط اعمال پر لڑائی نہ لڑو بلکہ اس کی اصلاح کرو۔
نبی کے وارث کی قدر کیجیے:
علماء نے راہنمائی کرنی ہے اور آپ نے راہنمائی لینی ہے۔ میں باقی علماء کی بات نہیں کرتا، میں اپنی بات آپ کے سامنے عرض کرتا ہوں۔ دیکھو بھائی! ہم امتی ہیں، نبی نہیں ہیں، ہم میں کوتاہیاں بھی ہیں، کمزوریاں بھی ہیں، گناہگار بھی ہیں یہ سب ہمارے اندر موجود ہیں، آپ نے اس کے ساتھ قبول کرنا ہے توکام چلتا رہے گا۔ حضرت مولانا محمد یوسف بنوری رحمہ اللہ ایک بڑا پیارا جملہ فرمایا کرتے تھے۔ مولانا بنوری فرماتے تھے کہ جس بکری کا دودھ آپ نے پینا ہے تو اس کی مینگنیاں بھی آپ نے اٹھانی ہیں، یہ نہیں ہو سکتا کہ دودھ آپ پئیں اور مینگنیاں ہمسایہ اٹھائے۔
حضرت رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ جس عالم سے فائدہ آپ نے اٹھانا ہے اگر اس کی کوئی کمزوری آپ کے سامنے آجائے تو اس کو برداشت بھی آپ نے کرنا ہے۔ یہ باتیں سمجھ آ جائیں تو یقین کریں امت کا مزاج بدل جائے گا، اس کا معنی یہ نہیں ہے کہ ایسی کوتاہیاں موجود ہیں -اللہ معاف کرے- میں ویسے بات کر رہا ہوں کہ اگر ایسی باتیں آ بھی جائیں تو درگزر کریں، نظر انداز کریں، چشم پوشی کریں پھر دیکھیں اللہ آپ کو نوازتا کتنا ہے۔ خدا عطاء کتنا کرتا ہے! نبی کا وارث سمجھ کر درگزر کریں۔
عالم جیسا بھی ہو نبی کا وارث ہے:
میں ایک بات کہتا ہوں: مجھے بتاؤ! باپ کروڑ پتی ہو اور پڑھا لکھا ہو اور بیٹا ان پڑھ ہو اور شرابی کبابی اور نکھٹو ہو، یہ باپ مر جائے تو وارث کون ہو گا؟ [بیٹا۔ سامعین] اب کوئی کہے کہ باپ تو پڑھا لکھا ہے اور بیٹا ان پڑھ ہے تو یہ کیسے وارث بنے گا؟ باپ ڈاکٹر ہے اور بیٹا نشہ کرتا ہے تو یہ وارث کیسے ہوگا؟ اب بتاؤ! وارث یہی بیٹا ہوگا یا کوئی اور ہو گا؟ [یہی بیٹا ہو گا۔ سامعین] یہ جیسا بھی ہے وارث ہے۔ اب بتاؤ! یہ عالم کے بارے میں آپ کا دماغ کیوں نہیں مانتا؟ عالم جیسا بھی ہو یہ نبی کا وارث ہے۔ عالم کے عمل میں کچھ کمزوری بھی آ جائے تب بھی نبی کا وارث ہے اور اگر اعمالِ صالحہ والا ہو تب بھی نبی کا وارث ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی وراثت علماء کے پاس ہے۔ اس لیے علماء کا احترام کرو! دینی رہنمائی انہی سے لو کیونکہ نبی کے وارث یہی ہیں۔
خلاصہ درس:
میں آخر میں پچھلے تین دروس اور اس درس کا خلاصہ پیش کرتا ہوں۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم آخری نبی ہیں، آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے بعد کوئی نبی پیدا نہیں ہوگا لیکن یہ بات طے شدہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی امت نے قیامت تک رہنا ہے۔ تو جب کوئی نیا نبی قیامت تک نہیں آئے گا تو اب سوال یہ ہے کہ قیامت تک امت کی رہنمائی کون کرے گا؟ امت کو سمجھائے گا کون؟ امت کو دین کی طرف لے جائے گا کون؟ امت کس کے پیچھے چلے گی؟ اس حوالے سے چار طبقات میں نے بیان کیے جن کا تذکرہ خود احادیث میں موجود ہے۔ امت ان کی رہنمائی میں چلے گی۔
 خلفاء راشدین ، صحابہ کرام،  فقہاء کرام،  علماء کرام
وآخر دعوانا ان الحمد اللہ رب العالمی

ن