پردہ کی اہمیت وضرورت

User Rating: 4 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar ActiveStar Inactive
 
پردہ کی اہمیت وضرورت
مرکز اصلاح النساء، سرگودھا
خطبہ مسنونہ
نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم امابعد:
فاعوذباللہ من الشیطان الرجیم بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ يَا نِسَاءَ النَّبِيِّ لَسْتُنَّ كَأَحَدٍ مِنَ النِّسَاءِ إِنِ اتَّقَيْتُنَّ فَلَا تَخْضَعْنَ بِالْقَوْلِ فَيَطْمَعَ الَّذِي فِي قَلْبِهِ مَرَضٌ وَقُلْنَ قَوْلًا مَعْرُوفًا وَقَرْنَ فِي بُيُوتِكُنَّ وَلَا تَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجَاهِلِيَّةِ الْأُولَى وَأَقِمْنَ الصَّلَاةَ وَآتِينَ الزَّكَاةَ وَأَطِعْنَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ إِنَّمَا يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيرًا وَاذْكُرْنَ مَا يُتْلَى فِي بُيُوتِكُنَّ مِنْ آيَاتِ اللَّهِ وَالْحِكْمَةِ إِنَّ اللَّهَ كَانَ لَطِيفًا خَبِيرًا۔
سورۃ الاحزاب، 34،33،32
ان آیات میں اللہ رب العزت نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات امہات المومنین کو خطاب فرمایا ہے اور ان ازواج مطہرات امہات المومنین کے واسطےسے قیامت تک آنے والے خواتین کے لیے اللہ کریم نے احکام ارشاد فرمائے۔ اللہ رب العزت قرآن میں کہیں صرف مردوں کو خطاب فرماتے ہیں اور کہیں صرف خواتین کو خطاب فرماتے ہیں اور کہیں مردوں اور خواتین دونوں کو اللہ خطاب فرماکر احکام دیتے ہیں۔ ان آیات کریمہ میں ان احکامات کا تذکرہ ہے جن کا خالصتاً خواتین سے تعلق ہے۔
نامحرم سے بات کرنے کا طریقہ
ارشاد فرمایا: يَا نِسَاءَ النَّبِيِّ لَسْتُنَّ كَأَحَدٍ مِنَ النِّسَاءِ إِنِ اتَّقَيْتُنَّ فَلَا تَخْضَعْنَ بِالْقَوْلِ
اے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویو!تم عام عورتوں کی طرح نہیں ہو اگر تم اللہ رب العزت سے ڈرتی ہو….. یقیناً پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویاں اللہ رب العزت سے ڈرتی ہیں،بات سمجھانے کے لیے ارشاد فرمایا۔ جیسے باپ اپنی بیٹی سے کہتاہے اگر تم میری بیٹی ہو تو میں تمہیں یہ بات کہتاہوں۔ خاوند اپنی بیوی کو کہتا ہے اگر تم میری بیوی ہو تو میری بات مانو،حالانکہ وہ بیٹی اپنےباپ کی ہے اور یہ بیوی اپنے خاوند کی ہے لیکن محض بات سمجھانے کے لیے ان الفاظ کا تذکرہ کرتے ہیں،اسی طرح اللہ تعالیٰ نے بھی ازواج مطہرات کو فرمایا اگر تم ڈرتی ہو ،ڈرتی تو وہ یقیناً ہیں۔ مطلب اگر تم تقویٰ میں سچی ہو،
إِنِ اتَّقَيْتُنَّ فَلَا تَخْضَعْنَ بِالْقَوْلِ فَيَطْمَعَ الَّذِي فِي قَلْبِهِ مَرَضٌ وَقُلْنَ قَوْلًا مَعْرُوفًا
ازواج مطہرات امہات المومنین سے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو بعض مسائل اور بعض ضرورتوں کے لیے کام ہوتا تو انہیں ازواج مطہرات کے پاس جانا پڑتا دروازے پر دستک دیتے اور ان سے بعض مسائل وغیرہ پوچھ لیتے۔ اس سے اندازہ فرمائیں کہ ہمیں کس قدر احتیاط کرنی چاہیے ازواج مطہرات کو حکم دیا گیا جب کوئی پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کا صحابی دروازے پر دستک دے اور تم سے کوئی چیز مانگے یا مسئلہ پوچھےتو اس بات کا خیال کرو،اس طرح لچک دار آواز نہ بناؤ کہ اگر آنے والے دل میں کوئی مرض رکھتا ہو تو اس کے مرض میں اضافہ ہو جائے بلکہ تم دستور کے مطابق گفتگو کرنا۔
ضرورت کی بات کریں
مطلب یہ کہ ضرورت کی بات کریں اور بلاضرورت دستک دینے والے سے گفتگو نہ کریں۔ اس دور میں دروازے پر دستک تھی اور آج کے دور میں اس کے ساتھ ساتھ ٹیلی فون اور موبائل پر ہونے والی گفتگو بھی ہے۔اگر کوئی آدمی دروازے پر دستک دے اور آپ کے باپ کے بارے میں،بیٹے کے بارے میں،یا خاوند کے بارے میں معلومات لینا چاہے تو لچکدار آواز پیدا کرکے گفتگو نہ کریں کہ اس کے دل میں عورت کےبارے میں غلط فہمیاں پیدا ہوں بلکہ صاف صاف دستور کے مطابق بات کریں کہ اسے دوبارہ بلا وجہ بات کہنے کی ہمت اور جرأت نہ ہو۔ اس کامطلب یہ بھی نہیں کہ یوں کرخت اور چڑیل کی طرح بات کرے کہ اس کو نفرت محسوس ہو، مطلب اس طرح بات کرے وہ یہ محسوس نہ کرے کہ خاتون میری طرف مائل ہے اور یہ بھی محسوس نہ کرے کہ یہ طلب رکھتی ہے کہ یہ دوبارہ دروازے پر آئے۔ بلکہ اس کو آرام سے کہہ دے کہ گھر پر کوئی نہیں ہے جب آئیں تو پھر آپ آجانا۔
فون پر بات کیسے کریں
ہمارے آج کے دور میں سب سے بڑا مسئلہ ٹیلی فون اور موبائل کا ہے۔ پہلی بات یہ ہے کہ خاتون کو کسی نامحرم سے بلاوجہ بات کرنی نہیں چاہیے۔ اپنے محارم سے بات کرے، اپنے خاوند سے بات کرے۔ محرم سے مراد ایسا آدمی جس سے کبھی عورت کا نکاح نہیں ہوسکتا ان کے ساتھ گفتگو کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ جو محرم نہیں ان سے گفتگو میں بہت زیادہ احتیاط کریں۔ اگر بات کرنے کی ضرورت پڑ جائے تو فقہاء نے یہاں تک لکھا ہے کہ اگر نامحرم ہو تو سلام کی بھی حاجت نہیں۔
فون آئے تو کہے کہ کون ؟ کیا کام ہے؟کس سے بات کرنی ہے؟{فلاں صاحب سے }تو کہیے کہ گھر پر نہیں ہیں، وہ آئیں گے تو پیغام مل جائے گا۔ اتنی سی بات کریں یہی کافی ہے۔ بلاضرورت بات نہ کریں ضرورت کے مطابق بھی صرف اتنی بات کریں کہ آدمی کے دل میں العیاذ باللہ ،اللہ سب کی حفاظت فرمائے، طمع اور لالچ پیدا نہ ہو، اس دور میں دروازے پر دستک کا مسئلہ تھا آج کے دور میں ٹیلی فون اور موبائل کا ہے۔ یہ ساری باتیں اس میں شامل ہیں۔ اللہ تعالی ہم سب کی حفاظت فرمائیں اور دین کی صحیح سمجھ عطا فرمائیں۔ یہ مسائل بہت نازک ہیں اور ان میں بہت زیادہ احتیاط کی ضرورت ہے۔
گھر میں رہنے کا حکم
دوسرا حکم فرمایا وَقَرْنَ فِي بُيُوتِكُنَّ وَلَا تَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجَاهِلِيَّةِ الْأُولَى
دوسرا حکم ازواج مطہرات کو یہ دیا کہ اپنے گھر میں رہا کرو۔ بلاضرورت اپنے گھر سے باہر نہ نکلا کرو۔ وَلَا تَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجَاهِلِيَّةِ اور جیسے جاہل ان پڑھ عورتیں فیشن کرکے اور بن سنور کے باہر نکلتی ہیں ایسی باپردہ خواتین کو نکلنا جائز نہیں بلکہ ناجائز اور حرام ہے۔ اس بات پر غور فرمائیے کہ اللہ نے قرآن کریم میں قَرْنَ فرمایا اسکن نہیں فرمایا ، ایک ہوتا ہے سکونت یعنی گھر میں رہنا اور ایک ہوتا ہے قرار ،ان دونوں میں بڑا فرق ہے۔ محض رہنے کو سکونت کہتے ہیں اور جم جانے کو قرار کہتے ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ کسی حالت میں عورت کو {اگر شدید ضرورت نہ ہو}گھر سے باہر نہیں نکلنا چاہیے اور یہ حکم کن کو ہے؟ ازواج مطہرات کو ،میرے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں کو۔ اگر وہ باہر جائیں بھی تو انہوں نے کہاں جانا تھا؟ مدینہ کا ماحول پاکیزہ ماحول ہے اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا ماحول ہے اس کے باوجود یہ حکم ہے۔
اس لیے یہ حکم ہمیں دیا گیا ہے کہ بلاضرورت عورت گھر سے نہ نکلے اور اگر باہر جانا بھی پڑے تو پردہ کرکے جائےاور پردہ ایسا جسے شریعت بھی پردہ کہتی ہے۔ ہمارے ہاں بسااوقات ایسے پردے کا اہتمام کیا جاتاہے جس پر پھول کڑہائی ہو اور برقعہ میں فیشن اتنے ہوتے ہیں کہ اگر وہ برقعہ نہ پہنا ہوتا تو شاید مرد اتنا متوجہ نہ ہوتے جتنا اس برقعے نے متوجہ کیا۔اس لیے برقعہ سادہ لیں ایسا برقعہ بھی نہ ہو جسے بڑی عمر کی عورت پہن کر چھوٹی لگے،بلکہ ایسا ہو کہ چھوٹی لڑکی پہنے تو بڑی لگے کسی کو بات کرنے کی جرأت نہ ہو۔ اللہ نے دو باتیں فرمائیں:
:1 گھر پر ٹھہرو 2: جب ضرورت پڑے تو پردے کے ساتھ نکلو۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جب عورت گھر سے باہر نکلتی ہے تو شیطان کی نگاہیں اس پر پڑتی ہیں تو ہر وقت اچکنے کی فکر میں رہتاہے۔
خاوند کے لیے تیار ہوں، تقریبات کے لیے نہیں
اگر عورت کو نکلنا پڑے تو زینت کا اہتمام نہ کرے اور نہ خوشبو لگائے،یہ عورت کے لیے حرام ہے،ہاں شوہرکے لیے خوشبو کا استعمال باعث ثواب واجر ہےاور اگر شوہر گھر نہ ہومحرم گھر ہو تو خوشبو استعمال کرنا مستحب تو نہیں ہاں البتہ اس کو جائز اور مباح کہہ سکتے ہیں۔
یہ مسائل سمجھانا بہت ضروری ہیں ہمارے ہاں ایک عجیب المیہ ہے کہ جب خاوند گھر آتاہے تو عورت بننے اور سنورنےکا کوئی اہتمام نہیں کرتی اہتمام اس وقت ہوتاہے جب کسی تقریب میں جانا ہو حالانکہ خاوند کے لیے تیار ہونا باعث اجر وثواب ہے اور تقریبات کے لیے کوئی ضروری بھی نہیں۔ تو بلاضرورت ان چیزوں کا استعمال کرنا اسراف …… فضول خرچی …..بھی ہے اور بسا اوقات گناہ کا ذریعہ بنتاہے اللہ سب کی حفاظت فرمائے۔ آمین۔ یہ مسائل خوب خوب یاد رکھیں، اور ان پر عمل کی پوری کوشش کریں۔
نماز بھی گھر میں پڑھیں
اگر کوئی عورت مکہ مکرمہ جائے اور وہاں سے مدینہ منورہ جائے تو اس بارے میں فقہاء نے لکھاہے کہ عورت کا اپنے ہوٹل اور کمرے میں نماز پڑھنا بیت اللہ میں نماز پڑھنے سے زیادہ اجر وثواب رکھتاہے۔ مسجد نبوی میں بھی جائے تو عورت کو اپنے گھر میں جہاں اس کی رہائش ہے مسجد نبوی میں نماز پڑھنے سے زیادہ اجر وہاں نماز پڑھنے میں ہے۔ دور کا سفر ہے مسجد نبوی سے عقیدت ہوتی ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے روضے سے تعلق ہوتا ہے، کوئی جائے تو حرج نہیں ہے۔ لیکن اس قدر جائے کہ ایک نماز میں شرکت کرلے۔
وہاں عورت کے لیے پردے کا اہتمام کردیا جائے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر صلوۃ وسلام پیش کرے،لیکن ہر نماز کا اہتمام کرنا اس کی فقہاء نے ممانعت فرمائی ہے۔ حتی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی صحابیہ ام حمید الساعدیہ رضی اللہ عنہا نے ایک بار عرض کی کہ یارسول اللہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مسجد نبوی میں نماز پڑھوں تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مجھے بالکل اچھی طرح یقین ہے تمہاری بات پہ
قَدْ عَلِمْتُ أَنَّكِ تُحِبِّينَ الصَّلاَةَ مَعِيَ
صحیح ابن حبان، رقم الحدیث2217
تم دل سے چاہتی ہو کہ میرے پیچھے نماز پڑھو لیکن ایک بات اچھی طرح سن لو کہ اگر تم کمرے میں نماز پڑھو تو یہ برآمدے میں نماز پڑھنے سے زیادہ اجر والی ہے اور اگر برآمدے میں پڑھو تو صحن میں پڑھنے سے زیادہ ثواب والی اور اگر صحن میں پڑھو تو محلہ کی مسجد میں پڑھنے سے افضل ہے اور اگر محلہ کی مسجد میں پڑھو تو مسجد نبوی میں پڑھنے سے اجروالی ہے۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا فتوی
یہ آج کی بات نہیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دور مبارک کی بات ہے۔ امی عائشہ فرماتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں کچھ گنجائش تھی ابتدائے اسلام میں خواتین نماز کے لیے مساجد میں جاتی تھیں دین کے مسائل سیکھنے ہوتے تھے،حضرت عائشہ فرماتی ہیں اگر اس دور میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ان باتوں کو دیکھ لیتے جو آج ہیں {اپنے دور کا کہہ رہی ہیں}تو منع فرمادیتے۔ ایسے حالات میں مساجد میں نہ جائیں اس حد تک پابندی ہے تو بلاوجہ تقریبات میں شرکت کرنا ،ہوٹلوں والی شادیوں میں شرکت کرنا ، مخلوط اجتماعات میں جانا اور ویڈیو کا ہونااس سے بچنا بہت ضروری ہے۔
دنیا عارضی جلد فنا ہونے والی چیز ہے چند دن کی زندگی ہے اسے ختم ہوجانا ہے آدمی اپنی خواہشات کو کنٹرول کرکے اور اللہ رب العزت کو راضی کرنے کی کوشش کرے اللہ جنت میں ساری خوشیاں عطا کرے گا۔ آگے حکم دیا: وَأَقِمْنَ الصَّلَاةَ اور نماز کی پابندی کرو،وَآتِينَ الزَّكَاةَ زکوۃ ادا کیا کرو، وَأَطِعْنَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ نماز زکوۃ اور پردہ وغیرہ تمام احکام میں اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی بات مانو،نماز ہر حال میں خواتین کے ذمہ ہے ان باتوں سے بچنا ضروری ہے جن سے نماز ادا نہ کی جاسکے۔
نماز میں بلا وجہ کوتاہی
ہمارے ہاں بڑا ایک ظلم ہوتاہے خصوصاً شادی کے موقع پر اور رخصتی کے دنوں میں دلہن کا میک اپ کرتے ہیں کہ اگر اس کو وضو کی حاجت ہو تو وضو نہیں کرتے بلکہ نماز چھوڑ دیتے ہیں تاکہ اس کا میک اپ خراب نہ ہو،اللہ رب العزت حفاظت فرمائے،جس اللہ نے خوشیاں عطا فرمائیں ہیں اس خوشی کے موقع پر اللہ کو نارض کرنا کتنا بڑا جرم ہے۔ اس لیے وضو وغیرہ پہلے کرلیں تاکہ ایسی ضرورت ہی پیش نہ آئے یا سفر دور کا ہو، نمازیں زیادہ ہوں تو پھر اس کا اہتمام کریں کہ مغرب کے بعد تیاری کریں تاکہ عشاء کی نماز پڑھنے کا مسئلہ نہ بنے۔
میں وہ باتیں عرض کررہاہوں جن مقامات پر ہم معمولی معمولی عذر پر نماز سے جان چھڑا لیتے ہیں۔ یہ بہت بڑا جرم ہے بازار گئی نماز رہ گئی اگر کسی تقریب میں گئی تو نماز رہ گئی ہلکی سی تھکاوٹ ہوئی تو نماز رہ گئی اتنی معمولی باتوں پر نماز نہیں چھوڑنی چاہیے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے آخری دور تھا اتنے شدید بیمار ہیں کہ دو صحابہ کے کندھوں پر ہاتھ رکھ کر اپنے پاؤں مبارک گھسیٹتے ہوئے مسجد میں تشریف لے جارہے ہیں۔ لیکن پھر بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز نہیں چھوڑی۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم جب دنیا سے جارہے تھے تو زبان رسالت پر سب سے آخری جملہ بھی یہی تھا:
اَلصَّلوٰۃُ وَمَامَلَکَتْ اَیْمَانُکُمْ
سنن ابن ماجہ، رقم الحدیث 1625
فرمایا میں دنیا چھوڑ کر جارہاہوں نماز کا اہتمام کرنا اورماتحتوں ،نوکروں کا خیال کرنا اس دور میں غلام ہوتے تھے آج کل نوکر اور گھر میں کام کرنے والی نوکرانیاں ہوتیں ہیں ان کا خیال کرنا چاہیے ،خیال کرنے کا مطلب یہ ہے کہ جو خود کھاو ان کو بھی کھلاو جو خود پہنو ان کو بھی پہناؤ اگر یہ نہ ہو تو کم ازکم اس انداز میں ان کا خیال کرو کہ انہیں کسی کمی کا احساس نہ ہو۔
گھر کی ملازمہ کو دین کی دعوت دیں
ایک عورت آپ کے گھر کا کام کرتی ہے اللہ نے آپ کو مالی وسعت عطا فرمائی ہے اس کی ضرورتیں پوری کرو کہ غمی اور خوشی میں اسے کسی اور کی طرف منہ نہ اٹھانا پڑے۔ ہماری ذمہ داری میں شامل ہے اور سب سے بڑی بات یہ کہ ان کے ایمان اور دین کی فکر کرنا ہم خود تو نماز پڑھتے ہیں گھرمیں کام کرنے والی کو ترغیب نہیں دیتے اللہ معاف فرمائے۔ میں نے ملک سے باہر اس بات کا مشاہدہ کیا ہے کہ گھرمیں کام کرنے والی عیسائی کو کلمہ کی دعوت نہیں دیتیں کہ اگر کلمہ پڑھ لیا تو ہمارے گھر کا کام نہیں کریں گے اس لیے ہم کلمے کی دعوت نہیں دیتے۔ اللہ حفاظت فرمائے اتنا بڑا ظلم عظیم ہے اور اس کا اہتمام بھی کرتی ہیں کہ کہیں ہم سے اچھا کپڑا نہ پہن لیں ہمارے برابر نہ آجائیں ،انسان تو بحیثیت انسان برابر ہیں۔ اللہ نے کسی دولت زیادہ دی کسی کو کم یہ اللہ کی عطا ہے اللہ کا احسان ہے۔
زیورات اور زکوۃ
زکوۃ کے معاملے میں ہمارے ہاں بہت زیادہ کوتاہی ہوتی ہے مرد بھی کوتاہی کرتے ہیں اپنے پیسے ایسے ہی بینکوں میں رکھوا دیتے ہیں اور خواتین میں بھی بہت کم ایسی عورتیں ہیں جو اپنے زیور میں سے زکوٰۃ دیتی ہیں۔ اگر اس زیور میں زکوٰۃ نہیں دی تو یہ جہنم میں ایندھن بنے گااور انسان کے جسم سے چپکا رہ جائے گا۔ اس زیور پر لعنت بھیجوجس زیور کی زکوٰۃ ادا نہ ہو ،زیور رکھنے کی شریعت نے اجازت دی ہے۔ خصوصا ًاپنے خاوند کے لیے استعمال کرے تو ثواب ہے۔ لیکن دکھاوے کے لیے پہننا حرام ہے۔
زیور اس نیت سے پہننا کہ تقریب میں جاؤں گی تو فلاں کے زیور سے میرا زیور زیادہ خوبصورت ہوگا سب میرے زیور کو دیکھیں گے بالکل جائز نہیں زیور کی ضرورت ہے لیکن وہاں جہاں بناؤ سنگھار جائز ہو اس لیے بلاضرورت زیور استعمال کرنا دنیا داری کا باعث بنتی ہے اور بندے کے اندر دنیا کی محبت پیدا کرتاہے۔ اللہ سب کی حفاظت فرمائے۔
بہر حال زیور استعمال کرنا جائز ہے خاوند کےلیے مستحب ہے لیکن اتنے زیور کی اجازت ہے جتنی شوہر کی جیب اجازت دے اگر استطاعت نہ ہو تو اس کو پابند نہ کرو کہ خواہ قرض لو میرے لیے زیور لاؤ۔
شادی کے موقع پر اللہ حفاظت فرمائے لاکھوں روپیہ سود پر قرض اٹھا کر بچیوں کا زیور بنایا جاتاہے اگر بچیاں اور مائیں ذہن بنا لیں کہ گنجائش اور ضرورت ہوگی تو زیور بنائیں گے اگر گنجائش اور ضرورت نہ ہوئی تو نہیں بنائیں گے۔ تو شادیاں آسان ہو جائیں گی اور بغیر گنجائش زیور کا تقاضا کرنا اور اپنے والدین کو مجبور نہ کرنا چاہیے۔ اللہ وسعت عطا فرمائے تو اپنی اولاد کو دینے میں کوئی حرج نہیں لیکن وسعت نہ ہو تو سود پر قرض لے کر دینے کی بھی اجازت نہیں۔
میں گزارش کررہاتھا کہ بوقت ضرورت عورت زیور کا استعمال کرسکتی ہے لیکن زکوٰۃ کا اہتمام کرے اور جو زکوٰۃ ادا کرنی ہے انگریزی مہینوں کے لحاظ سے نہیں بلکہ عربی مہینوں کے لحاظ سے جیسے شوال، ذیقعدہ ،ذوالحجہ محرم ان مہینوں میں جس مہینے میں بندہ مال کا مالک ہوا اگلے سال اسی مہینے میں زکوۃ ادا کریں۔ کسی کی ہوتی ہے ربیع الاول میں، جی زکوۃ کب ادا کریں گے؟رمضان میں! جس مہینے میں بندہ مال کا مالک ہوا اگلے سال اسی مہینے میں زکوٰۃ واجب ہے۔
چند ان احکام کا اللہ نے ذکر فرمادیا ،پردے کا اہتمام کریں اپنی آواز کو اونچا نہ کریں گھر سے باہر نہ نکلیں ،خلاصہ فرما دیا وَأَطِعْنَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ تمام معاملات میں اللہ اور اس کے رسول کے احکام مانیں ،معاشرے میں کسی کی پرواہ نہ کریں۔ اپنے قبیلے کی پروا نہ کریں صرف اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی بات مانیں۔ اس لیے کہ موت کے بعد اللہ اور اس کے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم نے کام آنا ہے،خاندان نے کام نہیں آنا۔ جس خاندان نے مرتے ہی ساتھ چھوڑ دینا ہے ان کے لیے گناہ کرنا، ان کے لیے رسمیں کرنا، ان کی خاطر اللہ کو ناراض کرنا یہ بہت بڑی حماقت نادانی اور بے وقوفی ہے۔
اس لیے یہ فیصلہ کرلیں اور تہیہ کرکے اٹھیں کہ ہم نے ہر حال میں اللہ کو خوش کرنا ہے کسی حال میں اللہ کو ناراض نہیں کرنا جن جن سے پردے کا حکم شریعت نے دیاہے ہم نے پردہ ضرور کرنا ہے خاندان خوش ہو تب بھی ناراض ہو تب۔ آگے اللہ رب العزت نے امہات المومنین کے لیے ایک جملہ کہا جو اعزاز کا جملہ ہے:
إِنَّمَا يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيرًا وَاذْكُرْنَ مَا يُتْلَى فِي بُيُوتِكُنَّ مِنْ آيَاتِ اللَّهِ وَالْحِكْمَةِ إِنَّ اللَّهَ كَانَ لَطِيفًا خَبِيرًا
میرے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویو،جو تم اہل بیت ہو اللہ تم سے گندگی کو دور رکھے گا اللہ تمہیں پاک اور صاف بھی رکھے گا۔
اہل بیت کون ہیں؟
یہاں دو باتیں فرمائیں:
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں کو اہل بیت فرمایا۔ عموما ً ہمارے معاشرے میں جب کہا جائے اہل بیت تو لوگ سمجھتے ہیں اہل بیت سے حضرت علی، حضرت فاطمہ،حضرت حسن،حضرت حسین رضی اللہ عنہم یہ اہل بیت ہیں۔ اصل میں اہل بیت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویاں ہیں پھر اولاد پھر داماد اہل بیت بنتے ہیں۔ یہ کوئی ایسا مسئلہ نہیں جس کے لیے بہت سارے دلائل کی ضرورت ہو آپ خود اندازہ فرمائیں اگر کوئی بندہ کسی کے یہاں دعوت پر جائے اور وہ کہیں اگلی دفعہ گھر والوں کو ساتھ لانا اگلی بار جب گیا تو اپنے ساتھ اپنی بچی کو لے آیا ،داماد کو لے آیا فوراً لوگ پوچھتے ہیں گھر والے نہیں آئے وہ کہتاہے یہ بیٹی ،داماد لایا ہوں لوگ کہتے ہیں ہم بیٹی نہیں بیوی کی بات کررہے ہیں۔ اس لیے اصل تو گھر والی بیوی ہوتی ہے اس کے بعد اولاد ہوتی اور داماد ہوتے ہیں۔
ہماری کتنی کم عقلی ہے کہ حضرت علی؛ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے داماد ہیں انہیں اہل بیت میں مانتے ہیں حضرت فاطمہ بیٹی ہیں انہیں اہل بیت مانتے ہیں آگے حسن وحسین نواسے ہیں انہیں اہل بیت میں مانتے ہیں اور پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں کو اہل بیت نہیں مانتے۔ یہ شیعوں کی شرارت ہے یہ رافضیوں کا حملہ ہے۔ وہ ازواج مطہرات کو بیان نہیں کرتے اور ان سے نفرت کرتے ہیں اس لیے انہوں نے یہ بات مشہور کردی کہ اہل بیت نبی کی بیٹی داماداور نواسے ہیں ہمیں یہ عقیدہ نہیں رکھنا چاہیے ہمارا عقیدہ ہے کہ پہلے نبی کی اہل بیت بیویاں ہیں پھر اولاد پھر داماد وغیرہ۔
اس لیے اس آیت کریمہ میں اللہ نے فرمایا اے نبی کی اہل بیت میں گندگی کو تمہارے نزدیک بھی نہیں آنے دوں گا کیونکہ اللہ رب العزت کا قرآن میں فیصلہ ہے والطیبون للطیبات،جب آدمی پاکیزہ ذوق رکھتاہو تو اللہ اس کو پاک بیوی دیتے ہیں اور جو گندا ذوق رکھتا ہو اس کو گندگی بیوی دیتے ہیں۔ دعا کریں کہ اللہ ہم سب کو پاکیزگی عطا فرمائے ،رسول تو سراپا طہارت ہیں نبی سے بڑھ کر کون طہارت والا ہو گا۔ میری ایک بات ذہن نشین فرمالیں کہ نبی کے گھر کافرہ عورت تو آ سکتی ہے لیکن فاحشہ عورت نہیں آسکتی حضرت نوح،حضرت لوط علیہما السلام کی بیویاں کافرہ تھیں لیکن ایک نبی ایسا نہیں گزرا جس کی بیوی فاحشہ ہو پتہ چلا کہ انسان معاشرہ میں کفر سے بڑھ کر بے حیائی بڑا عیب ہے۔ اگر شریعت میں کفر زنا سے بڑا گناہ ہے تو یہ کفر معاشرے میں اتنا عیب نہیں جتنا زناہے۔ اللہ پیغمبر کو عیب سے بالکل پاک رکھتے ہیں بلکہ نبی نے خود فرمایا کہ: مجھ سے لے کر حضر ت آدم علیہ السلام تک میری پوری نسل میں ایک بھی ایسا بچہ نہیں جس کا نسب ٹھیک نہ ہو اللہ نے مجھے ایسا پاک نسب والا بنایا ہے اللہ ہم سب کے نسبوں کو پاک رکھے۔
تفسیر قرآن پڑھنے کا حکم
وَاذْكُرْنَ مَا يُتْلَى فِي بُيُوتِكُنَّ مِنْ آيَاتِ اللَّهِ وَالْحِكْمَة آگے چھٹا حکم فرمایا قرآن کریم کی آیتیں تفسیر ،حکمت کی باتیں اپنے گھر میں رہ کر پڑھا کرو بلا وجہ اپنے گھر سے باہر نہ جایا کرو۔ آج کے دور میں رواج ہے اگر فوت ہو جائےتو قرآن پڑھنے کے لیے عورتوں کو بلایا جاتا ہے اللہ تعالیٰ نے فرمایا وَاذْكُرْنَ مَا يُتْلَى فِي بُيُوتِكُنَّ مِنْ آيَاتِ اللَّهِ وَالْحِكْمَةِ اپنے گھروں میں قرآن پڑھو دوسروں کے گھروں میں نہ جاؤ اللہ فرماتے ہیں تم اپنے گھروں میں رہ کر اللہ کا ذکر کرو بلاوجہ گھر سے نہ نکلو۔ آپ کے ذہن میں یہ بات نہ آجائے اللہ نے منع کیا ہے تو پھر مدرسوں میں کیوں بلاتے ہیں؟ اگر قرآن پڑھنا ہو تو گھر میں پڑھو۔ مدرسوں میں قرآن سیکھنے کے لیے آتے ہیں پڑھے ہوئے قرآن کی تلاوت کےلیے نہیں آتے۔ جس نے قرآن نہیں پڑھا ہوا وہ آئے پڑھنے۔ مدارس اس لیے نہیں کہ جنہوں نے قرآن پڑھا ہے وہ تلاوت کے لیے آئیں۔ اس لیے جن خواتین نے قرآن نہیں پڑھا وہ آکر قرآن پڑھیں مسائل سیکھیں۔ دونوں میں بڑا فرق ہے۔ مدارس میں بچیوں کو ترغیب دیتے ہیں یہاں آکر پڑھیں۔ جیسے آپ تشریف لائی ہیں”مرکز اصلاح النساء “ میں اللہ اس میں برکتیں عطا فرمائے اللہ اس فیض کو عام فرمائے۔
مرکز اصلاح النساء میں اسباق کی ترتیب
ہم نے یہاں اہتمام کیا صبح شام لڑکیاں پڑھنے کے لیے آتی ہیں اور 9سے لے کر 12 بجے تک بڑی عمر کی عورتیں پڑھنے کے لیے آتی ہیں۔ جو خواتین آتی ہیں ہم ان کو مبارک باد دیتے ہیں انہوں نے بڑی عمر میں دین اور قرآن کریم سیکھنا شروع کیا۔ یہ شرم وعار کی بات نہیں اور جو نہیں آتیں میں ان کو ترغیب دے کر کہتاہوں مدرسے کو غنیمت سمجھیں اوراپنے گھر کے کاموں سے فارغ ہو کر تشریف لائیں۔ تو ان شاء اللہ 23جون سے 5جولائی تک 12یا13دن کا دورہ تحقیق المسائل ہوگا اگر اس میں یہاں خواتین پڑھنا چاہیں تو بڑے شوق سےپڑھیں ان کے اسباق مقرر ہوں گے۔ بنین کے مدرسے میں سبق پڑھایا جائے گا بنات کے مدرسے میں لاؤڈ سپیکر کے ذریعہ پڑھایا جائے گا۔ دعا کریں اللہ ہمیں وسائل عطا کرے تو ان شاء اللہ شوال میں باضابطہ کلاسیں لگ جائیں گی۔ 3سال کا نصاب ہوگا۔
اگر اللہ نے توفیق دی جیسا کہ آپ نے دیکھا مدرسہ چھوٹا ہے ہال تنگ ہیں تو اس کی چھت پر ہم نے دوسری منزل بنانی ہے۔ دعا کریں اللہ رب العزت اسباب عطا کریں دوسری منزل بنے تاکہ پڑھنے اور بیان سننے میں آسانی ہو۔ مدرسہ کے ساتھ اور جگہ بھی خریدی ہے اللہ اسباب عطا فرمائے وہاں بھی تعمیر شروع کریں گے۔ خیر میں گزارش کررہا تھا اللہ نے حکم دیا عورتیں گھرمیں رہیں پردے کا اہتمام کریں نماز کی پابندی کریں زکوۃ ادا کریں اور اپنے گھر ذکر واذکار کریں گھر کو قبرستان نہ بنائیں۔ ساتھ یہ بات فرمائی: إِنَّ اللَّهَ كَانَ لَطِيفًا خَبِيرًااللہ جن باتوں کو جانتاہے تم نہیں جانتے اللہ لطیف ہے تمہاری چھوٹی چھوٹی باتوں کو جانتے ہیں ہماری کمزرویاں جانتے ہیں بندے کے گناہ جانتےہیں
فَمَن يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ خَيْرًا يَرَهُ ، وَمَن يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ شَرًّا يَرَهُ
اگر چھوٹا گناہ کیا اللہ کے علم میں ہے اگر چھوٹی نیکی کی وہ بھی اللہ جانتے ہیں۔
دعا فرمائیں اللہ ہم سب کو دین کے لیے قبول فرمائے اور اس ادارے کو ظاہری وباطنی ترقیاں نصیب فرمائے ہمارے ماہانہ اجتماع کو قبول فرمائے، بیان کے بعد تفصیل سے حجامہ کے بارے میں بتایا جائے گا۔ یہ ایک طریقہ علاج بھی ہے اور سنت بھی،حجامہ سنت علاج ہے اس کا اہتمام کریں۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو دین کی اشاعت اور حفاظت کے لیے قبول فرمائے۔ آمین
وآخر دعوانا ان الحمد للہ رب العلمین