منافقین کی نشانیاں

User Rating: 5 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar ActiveStar Active
 
منافقین کی نشانیاں
مرکز اصلاح النساء، سرگودھا
خطبہ مسنونہ:
نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم امابعد:
فاعوذ باللہ من الشیطن الرجیم بسم اللہ الرحمن الرحیم قال اللہ تعالیٰ: إِنَّ الْمُنٰفِقِينَ يُخٰدِعُونَ اللّهَ وَهُوَ خَادِعُهُمْ وَإِذَا قَامُوْا إِلَى الصَّلٰوةِ قَامُوْا كُسَالٰى يُرَآءُوْنَ النَّاسَ وَلَا يَذْكُرُوْنَ اللّهَ إِلاَّ قَلِيْلاً الآیۃ
النساء:142 تا 147
میری نہایت واجب الاحترام ما ؤ،بہنو اور بیٹیو!
میں نے آپ کے سامنے سورۃ النساء کی چند آیات تلاوت کی ہیں۔ ان آیات میں اللہ رب العزت نے منافقین کی چند عادات کا ذکر کیا ہے۔
ایمان والے دنیا میں ایک قسم کے ہیں لیکن کافر دنیا میں کئی قسم کے ہیں۔ ایمان والے ایک ہی قسم کے اس لیے ہیں کہ ایمان نام ہی ان سب چیزوں کو مان لینے کا جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم لے کر اس دنیا میں تشریف لائے۔ ان تمام کو ماننے کانام ”ایمان“ ہے۔ ان میں سے کسی ایک کا انکار کردیاجائے تو ”کفر“ ہے۔ مثلاً ایک شخص حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بات کو سرے سے مانتا ہی نہیں ،آپ علیہ السلام کے دین پر ایمان بھی نہیں لاتا ، یا قرآن کریم کو نہیں مانتا یا قرآن مجید کے بعض مضامین کو مانتا ہے بعض کو نہیں مانتا ہے تو یہ کافر ہے۔ تو کفار کی اس لحاظ سے بہت سی قسمیں بن جاتی ہیں۔
کفار کی اقسام:
کافروں کی کئی قسمیں ہیں:
1:مطلق کافر
جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بات کونہ مانتا ہو اور دین اسلام پر ایمان بھی نہ رکھتا ہو۔
2:منافق
اسے کہتے ہیں جس کے دل میں کچھ اور ہو اور زبان پرکچھ اور ہو، منہ پرایمان کی بات ہو اور دل میں کفر و شرک کی بات ہو۔ ظاہراًدیکھو تو مسلمان لگتا ہے اور باطن کو دیکھو تو کافر لگتا ہے۔ اوپر سے مسلمان اور اندر سے کافر ،ان منافقین کا طبقہ بہت زیادہ خطرناک ہے۔
3:مرتد
جو دینِ اسلام پر تھا، پھر بدل گیا اور کفر اختیار کر گیا۔ اسے ”مرتد“ کہتے ہیں۔ اس کی سزا شریعت میں قتل ہے۔ پہلے تین دن جیل میں رکھا جائے گا، اگر توبہ کرے اور باز آجائے تو بہت اچھا، اگر باز نہیں آتا تو اس کی گردن کو اڑا دیا جائے گا۔ کیونکہ یہ حکومت اسلام کا باغی ہے۔
4: زندیق
وہ ہے جوعقائد کفریہ رکھتا ہے لیکن اپنے عقائد کفریہ کو اسلامی عقائد کہتا ہے۔ آج کے دور میں قادیانی اور مرزائی ہیں، وہ ہیں تو کافر مگر خود کو مسلمان کہتے ہیں۔
میں نے جو آیات آپ کے سامنے تلاوت کی ہیں، ان آیات میں اللہ رب العزت نے منافقین کی چند ایک علامات ذکر فر مائی ہیں۔ ہمیں سوچنا چاہیے کہیں یہ علامات ہمارے اندر تو نہیں ہیں، اگر ہمارے اندر موجود ہیں تو ہمیں ان منافقین کی علامات کو دیکھ کر اپنے اندر کے نفاق کو ختم کرناچاہیے ،اور خالص ایمان والی زندگی گزارنی چاہیے۔
پہلی نشانی: دھوکہ بازی
اللہ نے فرمایا:
إِنَّ الْمُنٰفِقِينَ يُخٰدِعُونَ اللّهَ وَهُوَ خَادِعُهُمْ
منافقین خدا تعالیٰ کی ذات کو دھوکا دینا چاہتے ہیں حالانکہ وہ اپنی ذات کو دھوکادیتے ہیں، خدا کی ذات کو دھوکا نہیں دے سکتے۔ ہاں اللہ ان کو دھوکے کی سزا دے گا۔
یہ لوگ زبان سے کہتے ہیں کہ ہم اللہ پر اور آخرت پر ایمان لائے حالانکہ وہ ایمان نہیں لائے ،گویا خداکو دھوکا دینا چاہتے ہیں۔ آدمی انسان کو تو دھوکا دے سکتا ہے مگر خدا کو تو دھوکا نہیں دے سکتا۔ تومنافقین کی پہلی نشانی یہ ہے کہ وہ خدا تعالیٰ کو بھی دھوکہ دینے سے باز نہیں آتے۔
دھوکہ دینا مومن کا شیوہ نہیں منافقین کا شیوہ ہے۔ مسلمان کسی مسلمان کو تو کیا کسی کافر کو بھی بلاوجہ دھوکہ نہیں دیتا بلکہ مسلمان تو جانور کو بھی دھوکہنہیں دیتا۔ مسلمان کی شان کے لائق نہیں ہے وہ دغا بازی سے کام لے۔
ایک محدث کا واقعہ
ایک محدث کے بارے میں ہے۔ محدث اسے کہتے ہیں جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث کو یاد کرتا ہے،انکے احکام کو سمجھتاہے ، ان کی سندیں محفوظ رکھتا ہے۔ ایک محدث کے بارے میں آتاہے انہوں ایک بڑا لمبا سفر کیا۔ انہوں نے سنا تھا کہ فلاں علاقے میں ایک شخص ہے اسکے پاس نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی وہ حدیث مبارک جو میر ے پاس نہیں ہے۔
چنانچہ کئی سو کلو میڑ کا سفر کیا اور وہاں پہنچے۔ وہاں جاکر پوچھا:اس نام کا بندہ یہاں موجود ہے؟ لوگوں نے بتایا کہ ہے اوراسے اُس کےپاس پہچایا۔ محدث نے اس بندے کو دیکھا تو تھوڑی دیر بعد واپس چل دیا، اس سے حدیث مبارک نہیں لی۔
لوگوں نے پوچھا: ملاقات تو ہو گئی آنے کا مقصد پورا ہوا کہ نہیں؟ فرمایا:مقصد پور انہیں ہوا۔ پوچھا:کیوں پور ا نہیں ہوا؟ انھوں نے فرمایا: اس لیے کہ میں جب اسکے پاس گیا، اس کے پاس ایک جانور تھا گھوڑی یا کوئی گھوڑا ،اس نے اپنے جانور کوبلانے کےلیے اپنا دامن پھیلا لیا جس سے جانور یہ سمجھے کہ اسکے دامن میں چارہ ہے، تو جانور یہ سمجھ کر آیا۔ اس نے اپنے دامن کو جھٹکا اورجانور کو پکڑلیا حالانکہ اسکے دامن میں چارہ نہیں تھا، اس نے جانور کو دھوکا دیا، جو جانور کو دھوکا دے سکتا ہےوہ مجھے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث بتلانے میں بھی دھوکا دےسکتا ہے۔ اس وجہ سے میں نے حدیث لینے سے انکار کردیا۔
امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کا واقعہ
حضرت امام ابو حنیفہ نعمان بن ثابت رحمۃ اللہ علیہ جو ہمارے امام تھے، بہت بڑے عالم بھی تھے، عابد اور زاہد بھی تھے،ہر سال حج فرماتے۔ آپ بہت بڑے تاجر تھے ،تجارت کا بہت بڑا حصہ خدا کے راستے میں دیتے تھے ،طلباء کو دیتے، دین پر لگاتے۔ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی دکان سے کسی نے مال خریدا اور خرید کر چلا گیا۔ اس مال میں کوئی عیب موجود تھا۔ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ نے دکان کے ملازم سے پوچھا: اس مال میں جو عیب تھا وہ اس گاہک کو بتلایا تھا؟ ملازم نے جواب دیا: نہیں۔ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ نے فرمایا: جاؤجاکر اس کو تلاش کرو اور اسکو عیب بتاؤ، اگر خریدنا چاہتا ہے تو خرید لے نہیں خریدنا چاہتا تو نہ خریدے۔ ہمارے امام صاحب رحمہ اللہ دھوکے بالکل پسند نہیں فرماتےتھے ،یہ بہت بڑا جرم ہے۔ اللہ ہم سب کو بات سمجھنے کو توفیق عطا فرمائے۔
ہمارے ہا ں تجارت میں دھوکا چلتاہے،نکاح کے وقت باتیں بتانے میں دھوکاچلتا ہے،کالج میں نقل کرنے اور پکڑے جاتے ہیں یہ بھی دھوکا ہے، اس سے بچنا چاہیے۔ نہ بندوں کو دھوکا دیں نہ خدا تعالیٰ کو دھوکا دیں۔ اللہ ہم سب کو محفوظ رکھے۔
دوسری نشانی: نماز میں سستی اور ریا کاری
دوسری نشانی بتائی:
وَإِذَا قَامُواْ إِلَى الصَّلٰوةِ قَامُوا كُسَالٰى يُرَآءُونَ النَّاسَ
جب یہ نماز میں آتے ہیں، سستی دکھاتے ہیں چستی کےساتھ نماز نہیں پڑھتے اور لوگوں کو دکھانے کے لیے پڑھتے ہیں۔
اس سے پتا چلا کہ شوق سے نماز پڑھنا مومن کا کام ہے سستی سے پڑھنا منافق کا کام ہے۔ منافق نماز کے قریب نہیں جاتا لیکن صرف دکھاوے کےلیے نماز پڑھتاہے کہ لوگ سمجھیں بڑا نمازی ہے، نیک پرہیز گار ہے۔ پتا چلا دکھاوے کی نماز پڑھنا منافق کی علامت ہے۔
اپنا محاسبہ کیجیے
مجھے اور آپ کو یہ دیکھنا چاہیے یہ علامت ہمارے اندر تو موجود نہیں۔ مہمان آجاتے ہیں بڑے خوش ہیں ،عید کا دن ہے بڑے خوش ہیں لیکن جب نماز کی باری آتی ہے ہم سستی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ یہ منافقین کی علامت ہے،رغبت کے ساتھ نماز پڑھیں یہ مومنین کی نشانی ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا مزاج مبارک یہ تھا؛ تھکاوٹ ہوتی ،گرمی ہوتی یا سفر میں ہوتے تو حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو فرماتے:
ارحنا یا بلال
اے بلال! اذان دو ،ہمیں راحت پہنچا دو۔
اس سے پتہ یہ چلا کہ مومن کو نماز پڑھنے سے راحت ہوتی ہے،منافق کو تکلیف ہوتی ہے۔
نوافل کی ترغیب:
میری ماؤ،بہنو اور بیٹیو! عہد کرو نماز میں سستی نہیں کریں گی ، نماز پابندی سے پڑھیں گی، چاہیے تویہ کہ اشراق کی نماز بھی پڑھی جائے۔ سورج نکلنے کے بعد جو نفل پڑھے جاتے ہیں اس کا نام ”اشراق“ ہے،اور اگر مزید دو گھنٹے بعد نفل پڑھے جائیں تو ان کا نام ”چاشت“ ہے،سورج غروب ہونے کے بعد فرض کے بعد چھ نفل پڑھیں اس کا نام ہے ”صلوٰۃ الاوابین“، آخری پہر میں نماز پڑھیں اس کا نام ہے ”صلوٰۃالتہجد“۔ یہ تمام نمازیں پڑھیں اوریہ سب پڑھنے کے بعد چاہیے کہ صلوٰۃ التسبیح بھی پڑھیں۔
صلوٰۃ التسبیح انسان زندگی میں ایک بار ضرور پڑھے۔ چاہیے تو یہ کہ ہفتہ میں ایک مرتبہ پڑھیں، یہ نہ ہو سکے تومہینے میں ایک بار، یہ بھی نہ ہو سکے تو سال میں ایک بار ضرور پڑھے ، اور اگر یہ بھی نہ ہوسکے تو کم از کم زندگی میں ایک بار تو ضرور پڑھے۔ اسکا طریقہ سیکھیں اور پڑھیں۔
صلوۃ التسبیح کا طریقہ
صلوۃ التسبیح کا طریقہ یہ ہے کہ چار رکعت نوافل کی نیت سے کھڑے ہوجائیں، ثناء پڑھنے کے بعد 15 مرتبہ تیسرا کلمہ ”سبحان اللہ والحمد للہ ولا الہ الااللہ واللہ اکبر“ پڑھیں،پھر سورۃ الفاتحہ پڑھیں ،پھر 10مرتبہ تیسرا کلمہ پڑھیں، پھر رکوع میں جائیں،تسبیح کے بعدپھر 10مرتبہ تیسرا کلمہ پڑھیں، پھر قومہ میں کھڑے ہوں سمع اللہ لمن حمدہ،ربنالک الحمدپڑھیں، پھر سجدہ میں جانے سے پہلے 10مرتبہ تیسرا کلمہ پڑھیں، پھر سجدہ میں جائیں کم از کم سات مرتبہ سبحان ربی الاعلی پڑھیں، پھر10مرتبہ تیسرا کلمہ پڑھیں، پھر بیٹھ کر دونوں سجدوں کے درمیان 10مرتبہ تیسرا کلمہ پڑھیں، پھر سجدہ میں 10مرتبہ یہی کلمہ سبحان ربی الاعلی کےبعد پڑھیں۔ یہ 75مرتبہ ہوگیا۔ چاروں رکعت کے ملا کر یہ 300مرتبہ ہوں گے۔ اگر یہ نہ پڑھ سکیں تو کم ا زکم اس بات کا خیال کریں فرائض میں کوتاہی نہ ہو۔ اب دیکھیں شوال کا مہینہ ہے،آج14شوال ہے۔ شوال کے کچھ روزے رکھنا سنت ہے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
مَنْ صَامَ رَمَضَانَ ثُمَّ أتْبَعَهُ سِتّاً مِنْ شَوَّالٍ ، كَانَ كَصِيَامِ الدَّهْر
صحیح مسلم:رقم الحدیث 1164
کہ جس نے رمضان کے روزے رکھےپھر چھ شوال کے روزے رکھےتو اسکو اتنا ثواب ملے گا گویا اس نے پورا سال روزے رکھے۔
یہ روزے بندہ چاہے تو مسلسل رکھے چاہے تو وقفہ کرکے رکھے۔ شوال کے یہ چھ روزےنہ رکھ سکیں تو کم از کم رمضان روزے تو مکمل رکھیں، فرائض میں آدمی کو غفلت سے کام نہیں لینا چاہیے۔ میں بتا یہ رہا تھا کہ نوافل کی بھی کوشش کریں لیکن فرائض کا اہتمام ضرور کریں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مثال دے کر سمجھایا کہ پانچ نمازوں کی مثال ایسی ہے جیسے ایک آدمی کے گھر کے سامنے نہر بہتی ہو، وہ اس میں روزانہ پانچ مرتبہ غسل کرے توکیا اس پرکوئی میل کچیل رہ جاتا ہے؟ عرض کیا گیا:نہیں۔ فرمایا:جس طرح پانچ مرتبہ غسل کرنے سے میل کچیل باقی نہیں رہتی اسی طرح دن میں پانچ نمازیں پڑھنے سے اللہ کریم گناہوں کومعاف فرمادیتے ہیں۔
ایک اورحدیث مبارک میں ہے: ابوذر رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ درخت کے پاس کھڑے تھے،پت جھڑ کاموسم تھا،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ٹہنی کو کھینچا، پتے گرے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جیسے پت جھڑ کے موسم میں درختوں سے پتے گرتے ہیں اسی طرح آدمی پانچ وقت کی نماز پڑھے تو گناہ جھڑ جاتے ہیں۔
میر ی ماؤ ،بہنو،بیٹیو! آج آپ بھی عہد کرو ،ہم بھی عہد کریں کہ نماز کی پابندی کریں گے،خود بھی نماز پڑھیں گےاور اپنی اولاد کو بھی پڑھائیں گے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
مُرُوا صِبْيَانَكُمْ بِالصَّلاَةِ فِى سَبْعِ سِنِينَ ، وَاضْرِبُوهُمْ عَلَيْهَا فِى عَشَرٍ
السنن الکبریٰ للبیہقی:3358
کہ جب اولاد سات سال کی ہو جائے تو نماز کی ترغیب دیا کرو اور یہ جب دس سال کےہوجائیں اور نماز نہ پڑھیں تو ان کی ہلکی سی پٹائی بھی کیا کرو۔ ایسی پٹائی جس میں محبت اور شفقت ہو،نفرت کا پہلو نہ ہو۔ اولاد نمازی بنتی ہے ماں کی وجہ سے ،اولاد نمازی بنتی ہے باپ کی وجہ سے ،اولاد نمازی بنتی ہے گھر میں بڑوں کی وجہ سے ،اولاد نمازی بنتی ڈانٹ ڈپٹ اور محبت کی وجہ سے۔ خدا کے لیے اپنی اولاد کو نماز پر لگاؤ،آنے والی قبر کی زندگی بڑی سخت ہے،حشر کی زندگی بڑی سخت ہے ،بہت لمبا زمانہ ہے۔ آج یہاں نمازیں پڑھیں، اللہ قبر کی سختیوں سے محفوظ رکھے گا ،اللہ حشر کی گھاٹیوں سے محفوظ رکھے گا،آج طے کرو خود بھی نماز پڑھو گی، اولاد کو بھی نماز پر لگاؤگی۔ نما ز پڑھنی بھی ہےاورسیکھنی بھی ہے۔ گھر میں نماز سیکھو یا مرکز اصلاح النساء میں آؤ۔ یہاں نماز سیکھو،باجیاں موجود ہیں،آپ کو نماز سکھائیں گی ان شاء اللہ۔
تیسری نشانی: اللہ کا ذکر کم کرنا
تیسری نشانیĪ
وَلاَ يَذْكُرُونَ اللّهَ إِلاَّ قَلِيلاًĨ
منافق اللہ کا ذکر بہت کم کرتا ہے، اللہ کو بہت کم یاد کرتا ہے،مومن بہت زیادہ کرتا ہے۔ حدیث مبارک میں ہے کثرت سےلا الہ الااللہ پڑھاکرو۔ شیخ الحدیث حضرت مولانا زکریا رحمۃاللہ علیہ فضائل اعمال کےمصنف ہیں۔ حضرت رحمہ اللہ نےبڑی بڑی کتابیں لکھیں ہیں،”الکنز المتواری“بخاری کی شرح لکھی ہے، اب دنیا سے چلے گئے ہیں، حضرت نے فضائل اعمال میں لکھا ہے:
پہلا کلمہ کثرت سے پڑھا کرو۔ عربی زبان میں جو کام سو مرتبہ کیا جائے اس کو کثرت والا کام کہتے ہیں، اس لیے دن میں 100مرتبہ پہلا کلمہ پڑھنا ضروری ہے۔ جو مرد اور عورتیں ہم سے بیعت کرتے ہیں تو ہم کہتے ہیں 100مرتبہ پہلا کلمہ، 100مرتبہ استغفار ،100مرتبہ درود پاک پڑھا کرو۔ اگر 100مرتبہ کلمہ پڑھاتو گویا کثرت سے اللہ کو یاد کیا ،100مرتبہ استغفار پڑھی گویا کثرت سے معافی مانگی اور 100مرتبہ درود پڑھا گویا اپنے پیارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات پر کثرت سے درود بھیجا ہے۔
میں آپ سے درخواست کرتا ہوں کہ ان تسبیحات کو روزانہ صبح شام ضرور پڑھ لیا کریں۔ منافق خدا کا نام کم لیتا ہے، مومن خدا کا نام زیادہ لیتا ہے۔ لیٹے تب خدا کانام ،اٹھے تب خدا کا نام۔
اللہ کو یاد کرنے کے بہترین طریقہ
اللہ کو یاد کرنے کے سب سے بہترین طریقہ یہ ہے ہر موقع کی دعا یاد کریں،بستر سےاٹھیں تو پڑھیں:
الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي أَحْيَانَا بَعْدَ مَا أَمَاتَنَا وَإِلَيْهِ النُّشُور
صحیح البخاری: رقم الحدیث6312
تمام تعریفیں خدا کے لیے ہیں جس نے ہمیں موت دے کر زندگی بخشی اور ہمیں اسی کی طرف اٹھ کر جانا ہے۔
بیت الخلاء میں جانے لگیں توپہلے بایاں پاؤں اندر رکھیں پھر دایاں اور یہ دعا پڑھیں:
اللَّهُمَّ إنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنْ الْخُبُثِ وَالْخَبَائِث
سنن ابن ماجہ: رقم 296
اے اللہ میں خبیث جنوں اورجنیوں سے تیر ی پناہ میں آتا/ آتی ہوں۔
بیت الخلاء سے باہر نکلیں تو پہلے دایاں پاؤں باہر نکالیں پھر بایاں پاؤں اور یہ دعا پڑھیں:
غُفْرَانَك الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي أَذْهَبَ عَنِّي الأَذَى وَعَافَانِي
مصنف ابن ابی شیبہ: رقم 7، 8
کہ اے اللہ تیر اشکر ہے تو نے مجھے اس گندگی سے نجات دی اور مجھے عافیت عطا فرمائی۔
کھانا کھایں تو پڑھیں:”بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ “ ، اور جب کھاچکیں تو یہ دعا پڑھیں:
الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي أَطْعَمَنَا وَسَقَانَا وَجَعَلَنَا مِنَ الْمُسْلِمِينَ
کنز العمال: رقم18179
تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں جس نے ہمیں کھلایا، پلایا اور مسلمان بنایا۔
میری ماؤ،بہنو،بیٹیو! آئینہ تو دیکھتی ہیں،جب آئینہ دیکھیں تو یہ دعا کیا کریں:
اللَّهُمَّ حَسَّنْتَ خَلْقِیْ فَحَسِّنْ خُلُقِیْ
المقصد العلي: ج2 ص2617
کہ اے اللہ تو نےمیری شکل کو خوبصورت بنایا ہے میرے اخلاق کو بھی خوبصورت بنادے۔
کلمہ طیبہ کا ورد
کلمہ ہر وقت پڑھیں ،نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ جب موت آتی ہے اللہ کلمہ نصیب فرماتے ہیں۔ چھوٹی سی تکلیف آئی فوراً پڑھو”لَااِلٰہَ اِلَّااللہُ“،گاڑی میں بیٹھے ہیںہلکا سا جھٹکا لگا فوراً ”لَااِلٰہَ اِلَّااللہُ“ پڑھیں،ہلکی سی مصیبت آئے فوراً”لَااِلٰہَ اِلَّااللہُ“ پڑھیں۔ جب یہ مزاج بنا لیں گی تو مرتے وقت اللہ کلمہ والی موت نصیب فرمائے گا۔ کلمہ کا مزاج بنائیں، اپنی زبان سے خدا کے نام کا مزاج بنائیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا:
مَنْ کَانَ اٰخِرُ کَلَامِہِ لَااِلٰہَ اِلَّااللہُ دَخَلَ الْجَنَّۃَ
سنن ابی داود: رقم الحدیث3118
کہ جس بندے کا آخری کلام ”لَااِلٰہَ اِلَّااللہُ“ہو اللہ اس کو جنت میں داخل فرمائیں گے۔ دنیا بڑی مختصر ہے موت کے بعد اصل زندگی ہے،دنیا پر غرور مت کرو، آخرت کی تیاری کرو دنیا کی نعمتیں اللہ کا شکر ادا کرنے کے لیے ہیں مزید اللہ کی یاد کرنےکےلیے ہیں۔ آخرت کی تیاری ،قبر کی تیاری، حشر کی تیاری مومن کے ذمہ ہے، خود بھی تیاری کریں اوردوسروں کو بھی تیاری کرنےکی ترغیب دیں۔
چوتھی نشانی: تذبذب کا شکار
اور نشانی بتائی:Īمُذَبْذَبِينَ بَيْنَ ذَلِكَ لَا إِلَى هَؤُلَاءِ وَلَا إِلَى هَؤُلَاءِĨ
وہ بین بین رہتا ہے، درمیان میں رہتا ہے، کھل کر کام نہیں کرتا ، اسلام میں نفع نظر آیا کلمہ پڑھ لیا ، کفر میں نفع نظر آیاا دھر دوڑ گیا۔ لیکن مومن یوں نہیں کرتا۔ مومن کی عادت یہ ہے
Īإِنَّ الَّذِينَ قَالُوا رَبُّنَا اللَّهُ ثُمَّ اسْتَقَامُواĨ
فصلت:30
کہ مومن جب اللہ پر ایمان لاتا ہے اور کہتا ہے: اللہ میرا رب ہے تو پھر اس پر ڈٹ جاتا ہے،پہاڑ ہل جائے لیکن مومن نہیں ہلتا۔ خدا کی قسم خاندان بدل جاتے ہیں، مومن نہیں بدلتا،حکومتیں الٹ جاتی ہیں مومن نہیں بدلتا، زمین اوپر چلی جائے آسمان نیچے آجائیں مومن نہیں بدلتا۔
میری ماؤ،بہنو،بیٹیو!تم بھی اللہ کے لیے دین پر ڈٹ جاؤ،آج فیصلہ کرودین پر عمل کرنا ہے۔ مدرسہ میں داخلہ لیا ہے ڈٹ جاؤ حالات کیسے بھی ہوں اپنی تعلیم مکمل کرنی ہے۔ اگر زیور موجود ہے زکوٰۃ دینی ہے، کوئی نہ کہے تب بھی دینی ہے، گھر میں مال ضرورت سے زائد موجود ہو تب بھی دینی ہے۔ اپنے دین پر ڈٹ جاؤ اور ڈٹنے کی عادت ڈالو۔ منافق نے دین میں نفع دیکھا دین کو لے لیا کفر میں نفع دیکھا تو کفر کو لےلیا۔ مومن یوں نہیں کرتا مومن صرف خدا کو دیکھتا ہے،صرف دین کو دیکھتاہے ،صرف ایمان کو دیکھتا ہے اور صرف یقین کی بات کو دیکھتا ہے۔
کافروں سے دوستی کی ممانعت:
آگے اللہ نے مومنین سے فرمایا:
Īيَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَتَّخِذُوا الْكَافِرِينَ أَوْلِيَاءَ مِنْ دُونِ الْمُؤْمِنِينَĨ
اے ایمان والو! یہ منافق تو کافرہیں، ان کو دوست مت بنانا۔ دوستی ایمان والوں سے لگاؤ، یارانہ کافروں سے مت لگانا۔
مرزائی مسلمان نہیں دوستی مت لگاؤ،رافضی مسلمان نہیں دوستی مت لگاؤ،یہودی مسلمان نہیں دوستی مت لگاؤ،عیسائی مسلمان نہیں دوستی مت رکھو یہ خدا کے دشمن ہیں۔ مومن خدا کے دوست ہیں ان سے دوستی رکھو۔ اللہ قرآن میں فرماتے ہیں:
Īاللَّهُ وَلِيُّ الَّذِينَ آمَنُوا يُخْرِجُهُمْ مِنَ الظُّلُمَاتِ إِلَى النُّورِ وَالَّذِينَ كَفَرُوا أَوْلِيَاؤُهُمُ الطَّاغُوتُ يُخْرِجُونَهُمْ مِنَ النُّورِ إِلَى الظُّلُمَاتِĨ
البقرۃ:257
اللہ ایمان والےکا دوست ہے،ایمان والے کوظلمت سے نور کی طرف لاتا ہے۔ شیطان کافر کا دوست ہے یہ اسے اندھیروں کی طرف لے جاتا ہے نور سے کھینچ لیتا ہے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے گندے اوراچھے دوست کی مثال یوں دی ہے،سمجھو: اچھے دوست کی مثال جیسے بندہ خوشبو والے کے پاس بیٹھے ،اگر خوشبو نہیں بھی ملی تو سونگھ تو لی ہے نا۔ برے دوست کی مثال ایسی ہےجیسے آپ بھٹی والے کے پاس بیٹھ گئے، آگ کے انگارے آئیں گے، اگر انگارہ نہ بھی آیا تو دھویں سے تونہیں بچ سکتے ناں۔
میری ماؤ،بہنو،بیٹیو!کبھی بھی کسی گندی عورت سے دوستی مت لگاؤ، جب بھی دوستی لگاؤ نیک عورت سے ،محبت کرو نیک عورت سے ،جب بھی اٹھنا بیٹھنا ہو ایمان والی عورت سے،شریروں سے دور رہو اورپناہ مانگو۔
مومنین اور منافقین کا انجام
اللہ فرماتے ہیں: Īإِنَّ الْمُنَافِقِينَ فِي الدَّرْكِ الْأَسْفَلِ مِنَ النَّارِ وَلَنْ تَجِدَ لَهُمْ نَصِيرًاĨ
منافقین جہنم کے سب سے نچلے گڑھے میں ہوں گے۔ جہنم کے سات طبقے ہیں، سب سے نیچےطبقہ منافقین کا ہوگا۔ آگے اللہ نے مومنین کو ترغیب دے کرانھیں تسلی دی:
Īإِلَّا الَّذِينَ تَابُوا وَأَصْلَحُوا وَاعْتَصَمُوا بِاللَّهِ وَأَخْلَصُوا دِينَهُمْ لِلَّهِفَأُولَئِكَ مَعَ الْمُؤْمِنِينَ وَسَوْفَ يُؤْتِ اللَّهُ الْمُؤْمِنِينَ أَجْرًا عَظِيمًا Ĩ
کہ جوتوبہ کرلے، اپنی اصلاح کرلے ، اللہ کے دین کو مضبوطی سے تھام لے، اپنے دین کو خدا کےلیے خالص کرے، تواب اللہ اس کومومنین کی فہرست میں شامل فرمادیں گےاور اللہ تو ایمان والوں کو بہت بڑا اجر عطا فرمائیں گے۔
پتہ چلا کہ مومن اپنی اصلاح کرلے ،توبہ کر لے ،دین کو مضبوطی سے تھام لے اور مخلص ہو جائے تو اللہ اس کو اجر عطا فرماتے ہیں۔ ہمیں بھی چاہیے کہ توبہ کریں،اصلاح کریں ،خدا کے دین کو مضبوطی سے تھام لیں ، نیت کریں نیت کرنا ہمارا کام ہے توفیق دینا اللہ کا کام ہے۔
میری ماؤ،بہنو،بیٹیو !آج نیت کرو: ”اللہ ہم سب توبہ کرتےہیں ،اپنے گناہوں کی معافی مانگتےہیں ، اللہ تو ہم سب گناہگاروں کو معاف فرمادے۔ “اصلاح کی کوشش کریں، پہلے نمازیں نہیں پڑھتی تھیں اب شروع کردیں، جو رہ گئیں ہیں قضاء کریں، زکوۃ نہیں دی نیت کریں زکوۃ ادا کرنی ہے،گزشتہ گناہوں کی معافی مانگیں،بدنظری کی ہے تو توبہ کریں ،گانا سنا ہے تو توبہ کریں ،ٹی وی دیکھا ہےتو توبہ کریں،بے پردگی سے توبہ کریں ،اللہ تعالیٰ ہم سب کی حفاظت فرمائے اور گناہوں سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
و آخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین