استقامت اور عافیت

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
استقامت اور عافیت
جامعہ عثمانیہ للبنات، لاہور
خطبہ مسنونہ
نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم اما بعد
اعوذ باللہ من الشیطن الرجیم بسم الله الرحمن الرحيم
وَضَرَبَ اللَّهُ مَثَلًا لِلَّذِينَ آمَنُوا امْرَأَتَ فِرْعَوْنَ إِذْ قَالَتْ رَبِّ ابْنِ لِي عِنْدَكَ بَيْتًا فِي الْجَنَّةِ وَنَجِّنِي مِنْ فِرْعَوْنَ وَعَمَلِهِ وَنَجِّنِي مِنَ الْقَوْمِ الظَّالِمِينَ وَمَرْيَمَ ابْنَتَ عِمْرَانَ الَّتِي أَحْصَنَتْ فَرْجَهَا فَنَفَخْنَا فِيهِ مِنْ رُوحِنَا وَصَدَّقَتْ بِكَلِمَاتِ رَبِّهَا وَكُتُبِهِ وَكَانَتْ مِنَ الْقَانِتِينَ
پارہ نمبر 28 سورۃالتحریم کی آیت نمبر 11 اور 12 دو آیتیں میں نے تلاوت کیں۔ ان دو آیتوں میں اللہ رب العزت نے اُن دو ایمان والی عورتوں کا تذکرہ فرمایا ہے کہ ایک جن میں سے وہ تھی کہ جس کے گھر کا ماحول اُس کے مخالف تھااور دوسری عورت وہ تھی کہ جس کے گھر کا ماحول اُس کے موافق تھا۔
عافیت بہت بڑا انعام
اللہ رب العزت نے ہم سب کو اپنی عبادت اور بندگی کے لیے پیدا فرمایا ہے۔ اور اللہ رب العزت کا یہ بہت بڑا احسان ، فضل اور کرم ہوتا ہے کہ اللہ رب العزت کسی شخص کو موافق ماحول عطا فرما دیں۔
ماحول موافق مل جائے آدمی عافیت کے ساتھ دین کا کام کر سکتا ہے اگر ماحول مخالف ملے تو آدمی استقامت کے ساتھ دین کا کام کرتا ہے۔ کام استقامت کے ساتھ بھی دین کا ہوتا ہے اور کام عافیت کے ساتھ بھی دین کا ہوتا ہے۔ لیکن استقامت ہر بندے کے بس میں نہیں اور عافیت کمزور بندوں کے لیے بھی مفید ہوتی ہے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
شيبتني هود
المعجم الکبیر، رقم الحدیث 5804
مجھے سورہ ہود نے بوڑھا کر دیا ہے، کسی نے پوچھا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سورہ ہود کی کونسی آیت مبارکہ ہے جس نے آپ پر اس قدر اثر فرمایا کہ جوانی میں آپ پر بڑھاپے کے آثار آ گئے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا سورہ ہود کی یہ آیت کریمہ "فا ستقم کما امرت" کہ آپ دین کا کام استقامت کے ساتھ ایسے کرو جیسے آپ کو حکم دیا گیا ہے۔ اللہ رب العزت نے مجھے استقامت کا حکم فرما یاہے اور میں انسان کمزور ہوں کیسے استقامت کے ساتھ کر سکتا ہوں؟ تو یہ استقامت کے لفظ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر بھی اثر فرمایا۔
شب قدر کی دعا
اُم المومنین امی عائشہ رضی اللہ عنہا نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا یا رسول اللہ اگر لیلۃ القدر کی شب اللہ مجھے بتلا دے ، مجھے علم ہوجائے کہ آج کی رات لیلۃ القدر ہے تو میں اس لیلۃ القدر میں اللہ رب العزت سے کونسی دعا مانگوں؟نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ لیلۃ القدر کی شب کا اگر تمہیں احساس ہو کہ آج لیلۃالقدر ہے تو اللہ رب العزت سے دعا یہ مانگو "اللھم انک عفو تحب العفو فاعف عنی " اے اللہ تو عافیت والا ہے ، عافیت کو پسند کرتا ہے۔ اللہ میرے ساتھ بھی عافیت والا معاملہ فرما۔
سنن الترمذی، رقم الحدیث 3513
عافیت کا عام فہم معنی
عافیت کا عام اور آسان معنی یہ ہے کہ بندہ دین کا کام بھی کرے اور مشکلات سے محفوظ بھی رہے۔ استقامت کا معنی یہ ہے کہ مشکلات بھی برداشت کرے اور دین کا کام بھی کرے۔ باقی رہی استقامت تو یہ عزیمت والوں کاکام ہے اور عافیت یہ ہم جیسے کمزوروں کا کام ہے۔ تو استقامت اُس وقت ہوتی ہے جب آدمی دین کا کام کرے اور ماحول مخالف ہو ، عافیت اُس وقت نصیب ہوتی ہے کہ جب دین کا کام کرے اور ماحول موافق ہو۔ بہت سارے لوگ ہمارے دیکھنے میں ایسے بھی آتے ہیں کہ ماحول بہت اچھا ہوتا ہے دین پر عمل پھر بھی نہیں کرتے اور بہت سارے لوگ ایسے دیکھنے میں آتے ہیں کہ ماحول بالکل مخالف ہوتا ہے مگر دین پر سو فیصد عمل کرتے ہیں۔
ایک مرتبہ افریقہ کے سفر میں ملاوی کے ملک میں گیا وہاں جا کر اندازہ ہوا ، مجھے بعض علماء نے کہا کہ ایک خاتون ملنا چاہتی ہے وہ خاتون ملاقات کے لیے تشریف لائیں تو وہ کہنے لگیں کہ میں کراچی کی رہائشی ہوں اور خاوند میرے یہاں رہتے ہیں تو نکاح کے بعد میں ان کے ساتھ یہاں ملاوی آئی ہوں۔ اب آپ اندازہ فرمائیں کہ کراچی سے ملاوی جا کر بھی پانچ وقت نماز کی پابندی ، روزہ کی پابند، اور شرعی پردہ کی پابند ، ایک ہے پردہ اور ایک وہ جسے شریعت پردہ کہے۔ ہمارے ہاں پردہ کا مفہوم اور ہوتا ہے اور شریعت میں پردہ کا مفہوم اور ہوتا ہے۔ ہمارے خاندانوںمیں یا ہمارے ہاں دینداروں میں جہاں سب سے زیادہ پردہ ہو ، سب سے زیادہ اُس میں اس بات کا اہتمام تو ہوتا ہے کہ مرد عورتوں کو تو ناں دیکھیں مگر اس کا اہتمام نہیں ہوتا کہ عورتیں بھی مردوں کو ناں دیکھیں۔
پردے کے حقیقی معنی
دو باتیں ذہن نشین فرمائیں: ایک یہ ہوتا ہے کہ مرد عورت کو نہ دیکھے ، عورت اپنا چہرہ مرد سے چھپائے دوسرا یہ ہوتا ہے کہ عورت مرد کا چہرہ نہ دیکھے اس سے بھی حفاظت کرے اور ان دونوں باتوں کا تذکرہ قرآن کریم میں ہے کہ جو قرآن کریم نے فرمایا:
قُلْ لِلْمُؤْمِنِينَ يَغُضُّوا مِنْ أَبْصَارِهِمْ وَيَحْفَظُوا فُرُوجَهُمْ
سورۃ النور، 30
اہل ایمان کو چاہیے کہ اپنی نگاہ نیچی رکھیں۔ کیوں؟ تاکہ نامحرم کو نہ دیکھے۔ نگاہ نیچی رکھنا اس لیے نہیں کہ اپنا چہرہ چھپائے نگاہ نیچی رکھنی اس لیے کہ نا محرم کو نا دیکھے۔ تو مرد کے ذمہ مرد کے چہرہ کا پردہ نہیں ہے بلکہ مرد کے کسی عورت کے چہرہ کو نہ دیکھنا۔
اور عورت کو حکم دیا
وَقُلْ لِلْمُؤْمِنَاتِ يَغْضُضْنَ مِنْ أَبْصَارِهِنَّ وَيَحْفَظْنَ فُرُوجَهُنَّ
سورۃ النور، 31
عورت اپنی نگاہ نیچی رکھے اور مرد کا چہرہ نہ دیکھے۔ ہمارے ہاں عموما عورتیں، بچیاں ، خواتین برقعہ بھی پہن لیتی ہیں برقعہ پہن کر اپنا چہرہ تو محفوظ کر لیا ہے لیکن برقعہ پہن کر اگر نگاہ کو نیچے نہ رکھا تو مرد کا چہرہ تو دیکھ لیا تو یہ جرم تو پھر بھی برقرار ہے۔ بلکہ بساوقات اتنا دکھ ہوتا ہے کہ ہمارے ہاں خواتین بعض مرتبہ اہل علم کی زیارت کرتی ہیں کہ بزرگ تشریف لائے ہیں ہم تو زیارت کر رہی ہیں۔ عورت کے لیے جس طرح اپنے چہرہ کو مرد سے چھپانا ضروری ہے تو عورت کے لیے مرد کا چہرہ نہ دیکھنا بھی ضروری ہے۔ میں یہ بات اس لیے عرض کر رہا ہوں کہ دیکھیں ملاوی جیسے ماحول میں ہم اُس خاتون کو ملنے کے لیے آئے تو پتا چلا وہ کہہ رہی ہیں کہ میرا خاوند نشہ کرتا ہے ، شراب پیتا ہے، اور نمازیں نہیں پڑھتا مجھے اُس کی فکر ہے۔
یعنی چاہیے تو یہ کہ مرد فکر کرے کہ عورت کو کیسے ٹھیک رکھنا ہے چونکہ عورت کا مقام بلند نہیں ہے بلکہ مرد کا مقام بلند ہے۔
الرِّجَالُ قَوَّامُونَ عَلَى النِّسَاءِ
سورۃ النساء، 34
گھر کا سربراہ مرد ہے عورت نہیں ہے، گھر کی حاکمیت مرد کو ملی ہے عورت کونہیں ملی اور یہ بات بھی ذہن نشین فرمائیں کہیں آپ کے ذہن میں نہ آئے کہ حاکمیت نہ ملنا ہمارے لیے عیب ہے اللہ کی قسم دنیا میں چھوٹا بن کر جینا یہ بہت بڑی عافیت ہے۔ دنیا میں چھوٹا بن کر رہنا ہزاروں مسائل کا حل ہے ، ہزاروں مسائل۔ میرے ساتھ جو فارغ علماء ، اہل علم کام کرتے ہیں میں اُنہیں سمجھانے کے لیے پیار سے بات کہتا ہوں کہ یہ تمھاری سعادت ہے کہ تم چھوٹا بن کر رہتے ہو۔
چھوٹا بن کر رہنے میں فائدہ ہے
کیوں؟ مثلاً اگر میں بچوں کی بات کرتا ہوں کیونکہ آج کی میری مخاطب آپ ہیں۔ اب ایک بچی ہے جو پردہ کرتی ہے لوگ پوچھتے ہیں کہ کیوں کرتی ہو وہ بولے گی کہ ابا جی نے کہا ہے ، مجھے استاد جی نے کہا ، مجھے امی کہتی ہیں۔ آپ کو کون گلہ دے گا؟ آپ کو تو کوئی گلہ نہیں دے گا کیونکہ آپ تو چھوٹی ہیں۔ آپ نے اپنے کو چھوٹا مان لیا تو کوئی پریشانی نہیں۔
ہمارے ہاں شادی ہے آپ نے فنکشن میں ضرور آنا ہے میرا دل تو کرتا ہے لیکن میرا خاوند نہیں مانتا۔ آپ چھوٹی بن جائیں ،کیا الجھن ہے؟ کوئی الجھن نہیں ہے۔ آپ کی سہیلیاں بازار جارہی ہیں ، چلو شاپنگ کرتی ہیں۔ او جی دل تو میرا بھی کرتا ہے لیکن ہمیں استاد جی نے منع کیا ہے ، شیخ نے منع کیا ہے، ابو نے منع کیا ہے ، امی نے منع کیا ہے ، شوہر نے منع کیا ہے، بھائی نہیں مانتا میں چھوٹی ہوں میں کیا کر سکتی ہوں۔ دنیا میں ہزار مسائل کا حل ہے چھوٹا بن جانا۔ اور جب آدمی چھوٹانہ بنے بڑا بننے کی کوشش کرے اس میں اُن مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے جن کو بندہ سنبھال نہیں سکتا۔
تو میں یہ سمجھتا ہوں کہ اللہ رب العزت کا خواتین پر بہت بڑا احسان ہے کہ اللہ پاک نے یہ کہا کہ تم نے محکوم بن کر رہنا ہے تم نے حاکم نہیں بننا۔ تم نے ماتحت بن کر رہنا ہے تم نے اوپر کی باتیں نہیں سوچنیں۔ تم نے سربراہ نہیں بننا بلکہ سربراہ کی ماتحتی میں رہنا ہے۔ اتنا بڑا اللہ کا احسان ہے کہ اس کا آدمی جتنا بھی شکریہ ادا کرے تو کر نہیں سکتا۔ لیکن جب ہمارے ہاں تقلیب ماہیت ہوتی ہے ماہیت کو تبدیل کرتے ہیں خلقت تبدیل کرتےہیں پھر فساد اور دنگا سب کچھ ہوتا ہے۔
امور خانگی کی نبوی تقسیم
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی لخت جگر حضرت فاطمۃ الزہرا رضی اللہ تعالی عنہا کو علی رضی اللہ تعالی عنہ کے حوالے کیا تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم گھر تشریف لائے۔ اپنی بیٹی اور اپنے داماد سے فرمایا کہ میں تمہارے کام تقسیم کر رہا ہوں گھر کے کام فاطمہ تمہارے ذمہ ہیں اور گھر کے باہر کے کام علی تمہارے ذمہ ہیں۔ بتاؤ کتنی آسانی ہو گئی۔ مرد کے ذمہ ہے باہر جائے اور عورت کے ذمہ ہے گھر میں ٹھہرے تو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ اس کائنات میں شفیق وکریم اور ہمدرد کون ہو سکتا ہے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے کتنی شفقت فرمائی ہے تمہارے اوپر ، کتنی محبت فرمائی ہے عورتوں سے اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اس حدیث مبارک کا مفہوم سمجھیں ، نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
حُبِّبَ إِلَيَّ مِنْ الدُّنْيَا النِّسَاءُ وَالطِّيبُ وَجُعِلَ قُرَّةُ عَيْنِي فِي الصَّلَاةِ
مسند احمد، رقم الحدیث 12294
حضور نے یہ نہیں فرمایا کہ مجھے تین چیزیں پسند ہیں حضور فرماتے نہ کہ مجھے پسند ہیں تو بات اور تھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تین چیزیں وہ ہیں کہ جن کی محبت اللہ نے میرے دل میں ڈال دی نمبر ۱: خوشبو ، نمبر ۲: عورت ، نمبر ۳: آنکھوں کی ٹھنڈک میری نماز میں ہے یہ نہیں فرمایا کہ میرے دل میں نماز کی محبت ڈالی محبت تو ہے لیکن آنکھوں کی ٹھنڈک بھی ہے۔
طبعی اور عقلی محبت
بعض چیزیں بندے کی محبوب تو ہوتی ہیں مگر آنکھ کی ٹھنڈک نہیں بنتیں۔ اولاد سے کتنی محبت ہے۔ اولاد سے بہت پیار ہوتا ہے لیکن بہت کم اولادیں ایسی ہیں جو محبوب ہونے کے ساتھ آنکھوں کی ٹھنڈک بھی بنتی ہیں۔ تو پیاری بھی اور آنکھوں کی ٹھنڈک بھی ہو اللہ ایسی اولاد عطا فرمائے تو اللہ کا بہت بڑا احسان ہے۔ کوئی اپنے بیٹے سے تنگ ہے ، کوئی بیٹی سے پریشان ہے ، کوئی داماد سے پریشان ہے ، کوئی بہو سے پریشان ہے۔ دعائیں مانگتی ہیں۔ کہتی ہیں مولانا دعا فرمائیں اللہ ہماری اولاد کو نیک بنا دے۔ کیوں؟ ایک ہوتی ہے کسی سے محبت عقلاً اور ایک ہوتی ہے طبعاً ، اولاد سے محبت عقلی نہیں ہوتی اولاد سے محبت طبعی ہوتی ہے۔طبعی محبت ایمان نہیں ہوتی عقلی محبت ایمان ہوتی ہے۔
اس لیے جانور بھی اپنی اولاد سے پیار کرتا ہے ، کافر بھی اولاد سے پیار کرتا ہے اسکا نام ایمان نہیں ہے یہ طبعی حاجات ہیں۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ہماری محبت طبعی نہیں ہے یہ ہماری عقلی محبت ہے بساوقات عقلی محبت ، طبعی محبت عقلی محبت پر بظاہر بندہ سمجھتا ہے کہ غالب ہوتی ہے۔ ایک آدمی نے ایک شیخ سے پوچھا کہ حضرت مجھے آپ ایک مسئلہ بتائیں فرمایا وہ کیا انہوں نے کہا کہ مجھے تو اپنی اولاد سے محبت زیادہ ہے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے کم ہے ، اولاد کے لیے دل تڑپتا ہے حضور کے لیے نہیں تڑپتا ، اولاد کو شام کو نہ دیکھوں تو دل پریشان ہوتا ہے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کو نہیں دیکھا دل پریشان نہیں ہوتا تو بتائیں میرا ایمان ہو گا؟
فرمایا اچھا تم یہ بتاؤ کوئی بندہ العیاذ باللہ اگر کوئی بندہ تمہارے بنی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات پر حملہ کرے اور تم اپنی اولاد قربان کر کے دفاع کرسکو تو کر و گے؟ تو اُس نے کہا کہ جی کر دوں گا۔ اُنہوں نے کہا کہ اولاد اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم مقابلے میں آ جائیں ترجیح کس کو دو گے ، کہا کہ جی ترجیح حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو دونگا۔ تو فرمایا کہ یہ ہے ایمان اور یہ محبت عقلی ہے۔ اور جو تم کو اپنی اولاد سے محبت ہے وہ محبت طبعی ہے ، محبت عقلی ایمان ہوتی ہے محبت طبعی ایمان نہیں ہوتی۔
میں جو بات سمجھا رہا تھا اولاد تو محبوب ہے ہی وہ طبعا محبوب ہیں نا لیکن اگر طبعی محبت کے ساتھ آنکھوں کی ٹھنڈک بھی بن جائے یہ تب ہوگی جب وہ نیک کام کرے گی۔ والدین کی خدمت کرے گی ، اعمال اچھے کرے اور والدین کی عزت کا سبب بنے تو پھر آنکھوں کی ٹھنڈک بنتی ہے نا تو نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم عجیب بات فرمائی کہ
حُبِّبَ إِلَيَّ مِنْ الدُّنْيَا النِّسَاءُ وَالطِّيبُ
فرمایا، عورت اور خوشبو تو مجھے پسند ہے، اور جب نماز کی باری آئی تو فرمایا وَجُعِلَ قُرَّةُ عَيْنِي فِي الصَّلَاةِ کہ میری محبوب بھی ہے اور میری آنکھوں کی ٹھنڈک بھی ہے۔
نبی علیہ السلام کو نماز سے راحت ملتی تھی
اس لیے حدیث مبارک میں آتا ہے کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کو گرمی میں کوئی سفر ہوتا اور دوپہر کو گرمی کا موسم ہے تو حضرت بلال سے کہتے۔
يَا بِلاَلُ أَقِمِ الصَّلاَةَ أَرِحْنَا بِهَا
سنن ابی داود، رقم الحدیث 4987
اے بلال اذان دو اور ہمیں راحت پہنچاؤ۔ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز سے راحت ملتی تھی ، اذان سے راحت ملتی تھی۔ مشقت ہوتی پھر بھی راحت محسوس ہوتی۔ اگر یہ بات سمجھنی ہو کہ آدمی کو مشقت میں بھی کیسے راحت ہوتی ہے اب دیکھیں آپ سفر پر کہیں گئی ہیں مثلاً کراچی ہے رشتہ دار ہیں وہاں سے واپس آ رہی ہیں لاہور پہنچ رہے ہیں اب جسم تھکا ہوا ہے ، جسم چور چور ہے اوکاڑے تک پہنچ گئی ہیں تو کوئی بھی نہیں کہتا کہ ہم گاڑی سے اتر جائیں ہم بہت تھک گئے ہیں۔ کہتے ہیں تھکاوٹ ہے لیکن بہت مزہ آ رہا ہے کیوں ابو کے پاس جا رہے ہیں، امی کے پاس جا رہے ہیں گھر والوں کے پاس جا رہے ہیں ، اپنے بھائیوں کے پاس جا رہے ہیں۔ تومنزل تک پہنچنے کی محبت ایسی ہے کہ مشقت اُس پر اثر انداز نہیں ہوتی بلکہ اُس مشقت میں بھی راحت ہوتی ہے۔
تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز میں مشقت تو محسوس ہوتی تھی لیکن مشقت کے باوجود فرماتے:
يَا بِلاَلُ أَقِمِ الصَّلاَةَ أَرِحْنَا بِهَا
بلال اذان دو ہمیں راحت پہنچاؤ، ہمیں نماز سے راحت ملتی ہے۔
نبی علیہ السلام کے دل میں صنف نازک کی محبت
میں یہ بات سمجھا رہا تھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دل میں اللہ رب العزت نے جو عورت کی محبت ڈالی ہے یہ محبت وہ ہے جو باپ کو اپنی اولاد سے ہوتی ہے اور یہ محبت ہوتی ہے شفقت و رحمت والی۔اگر نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے دل میں اللہ پاک خواتین کی محبت نہ ڈالتا تو حضور اُس دور میں نبی بن کر تشریف لائے کہ جس دور میں زندہ بیٹی کو درگور کر دیا جاتا۔ زندہ درگور کر دیتے۔ چیخ رہی ہو تی تھی اور باپ درگور کرتا اور دفن کر دیتا مٹی میں،اور داماد بننا عیب تھا۔ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے دل میں اللہ نے وہ شفقت والی محبت ڈالی تو حضور نے فرمایا جو بیٹی کو پالے گا تعلیم دے گا پھر اُس کو جوان کرے گا اور پھر اُس کو رخصت کرے گا تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں جنت کی ضمانت دیتاہوں۔ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کیسی محبت فرماتے تھے۔ اللہ اکبر!
میں گزارش یہ کر رہا تھا اللہ ہمیں بات سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے کہ ماتحت بن کر رہنا اس میں سہولتیں ہیں عورت کا گھر میں محکوم بن کر رہنا عورت کی عافیت ہے۔ اپنے آپ کو ماتحت رکھنا اللہ کی قسم اس میں عافیت ہے بڑے پن میں مسائل ہیں اور چھوٹےپن میں سہولتیں ہی سہولتیں ہیں۔ اب گھر کا سربراہ ہے کمانا اُس کے ذمہ ، ہم کیا کہتے ہیں ابو مدرسہ جانا ہے پیسے دو ، امی دوپہر کا کھانا ٹفن میں ڈال کر دو کیوں کہ سربراہ نہیں ہیں نا ماتحت ہیں۔ جب سربراہ بنیں گے تو ہر کسی کو دینا پڑے گا اور ماتحت ہونگے تو لینا پڑے گا۔ اب عورت اگر گھر میں ماتحت بن کر رہے تو اس نے خرچہ لینا ہے اور سربراہ بن گئی تو اس نے دینا ہے تو مشکل کام کیوں کرتی ہو جب اللہ پاک نے سہولتیں پیدا فرمائیں ہیں ، اللہ نے آسانیاں پیدا فرمائیں ہیں اُن آسانیوں کا خیال کرو۔
میں عرض یہ کر رہا تھا کہ کبھی آدمی اچھے ماحول میں بھی نیک نہیں بنتا اور کبھی برے ماحول میں بھی نیک ہوتا ہے اور یہ اللہ کا انتخاب ہوتا ہے کہ اللہ رب العزت انتخاب فرما دیں تو اللہ کی عنایت ہے۔ اللہ سے دعا مانگنی چاہیے اے اللہ تو ہمارا اپنے دین کے کام کے لیے انتخاب فرما لے ، اللہ تو ہمیں قبول فرما لے ، ہم نہ چاہیں پھر قبول فرما ، ہم گناہ کریں پھر قبول فرما ، ہم نافرمانیاں کریں پھر قبول فرما۔ اللہ چاہے تو گناہ گاروں سے دین کا کام لے لیں تقوی کے ساتھ ، اللہ نہ چاہیں تو متقی کو محروم کر دیں کہ اُس کو تقوی پر ناز ہے۔ لیکن اللہ سے ڈرنا بھی چاہیے اور اللہ کی طرف متوجہ بھی رہنا چاہیے۔
قرآن کریم کی آیت ہے:
وَالَّذِينَ يُؤْتُونَ مَا آتَوْا وَقُلُوبُهُمْ وَجِلَةٌ
سورۃ المؤمنون، 60
اب قرآن کریم کی آیت اتری تعریف کی اُن لوگو ں کی جو مال خرچ کرتے ہیں پھر ڈرتے بھی ہیں۔ ام المومنین امی عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا جو علم و فضل کا بہت بڑا دروازہ تھیں اور صحابہ میں سے حضرت ابو موسی اشعری رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ ہمیں جب بھی کوئی الجھن پیش آئی ہے ہم امی عائشہ کے دروازے پر گئے ہیں اُنہوں نے ہماری الجھن کو حل فرمایا ہے۔ امی عائشہ علم و فضل کی با کمال عورت تھیں۔ ہماری پوری تاریخ اُن سے پہلے اور اُن کے بعد آج تک ایسی عورت شاید ہی کوئی آئی ہو جیسی امی عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا تھیں اور ظاہر ہے کہ وہ پڑھنے کے لیے آئی تھیں۔
میں کبھی سمجھانے کے لیے اور بطور دلیل ایک بات کہتا ہوں کہ بچیوں کے لیے بھی اور اہل مدارس کے لیے بھی کبھی ہم سے لوگ پوچھتے ہیں کہ آپ کے مدرسہ کا 9سال کا نصاب ہے آپ نے کہاں سے لیا؟ اور یہ ذہن میں رکھ لیں جو بچی ایک دن بھی اسکول نہیں گئی اور عالمہ بننا چاہتی ہے اُس کا نصاب 9 سال ہے۔ اسکول میں جائے گی تو فارغ ہونا ہے تو 16 سال M.A تک۔ہمارے پاس 9سال مکمل اور ڈگری ڈبل M.A کے برابر ہے۔ 9 سال کا نصاب ہے ہمارے ہاں۔ اچھا عجیب بات ہے اللہ ہمیں سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ ہماری رشتہ دار بچیاں ہیں کوئی F.A میں ہے ، کوئی B.A میں ، کوئی M.A میں تو میں جب جاتا ہوں ترغیب دیتا ہوں کہ مدرسے پڑھو ، M.A ضرور کرنا ہے؟ مدرسہ میں پڑھو۔
ایک چھوٹی سی مناظری کا قصہ
ایک بار جب میں گیا تو ہماری رشتہ میں بھتیجی لگتی ہے وہ کہنے لگی چلو چاچو آپ اور ہم مناظرہ کرتے ہیں آج ہم بھی آپ سے مناظرہ کرتے ہیں۔ شوق ہوتا ہے کبھی بندے کو لیکن ٹھنڈا بہت جلدی پڑجاتا ہے۔ میں نے اُن سے کہا کہ تم تو مناظرہ نہیں مناظری کرو گی تم تو عورت ہو اور عورت تھوڑی مناظرہ کرتی ہے ، تم نے تو مناظری کرنی ہے اور مناظرہ اور مناظری کا جوڑ نہیں ہوتا۔ چلو تمہیں شوق ہے تو تم اپنی دلیلیں سنا لو۔ مجھے وہ کہتی ہے کہ ہم جو M.A پڑھتی ہیں تو کیا اسکول جانا جرم ہے میں نے کہا اور کوئی دلیل دینی ہے ، کہنے لگی نہیں آپ بتائیں میں نے کہا مدرسہ میں جانا جرم ہے کہتی ہے نہیں تو میں نے کہا کہ پھر تو دونوں ٹھیک ہو گئے تم چار ہو دو اُدھر چلی جاؤ اور دو ادھر چلی جاؤ۔ تم چاروں کیوں اسکول پڑھ رہی ہو اب اُس کی اتنی سی دلیل تھی وہ خاموش ہو گئی۔ میں کہا اسکا کوئی جواب ہے تو بتاؤ؟
اب میں کہا ایک سوال میں کرتا ہوں اُس کا جواب تم دو تمہارے سوال کا جواب ہم نے دیا نہ اب ہمارے سوال کا جواب تم دو اور میں آپ کو بھی کہتا ہوں کہ اگر آپ کو دین کی خدمت کرنے کا ہمارے ذوق کے مطابق شوق ہو تو پھر سوال سنا نہ کرو کچھ سوال کیا بھی کرو۔ اپنا اپنا ذوق ہوتا ہے ناں!
سورۃ الفاتحہ کے قرآن ہونے کی دلیل
مجھے ایک بندہ پوچھنے لگا کہ مولانا صاحب یہ جو قرآن کریم ہے سورۃ فاتحہ قرآن نہیں میں نے کہا جی دلیل کیا وجہ ہے ؟کہتا کہ ہمارا ایک سوال ہے میں نے کہ بتائیں قرآن کریم کے پارے کتنے ہیں میں نے کہا 30 کہتا پہلا پارہ کہاں سے شروع ہوتا ہے میں نے کہا الم سے ، دوسرا سیقول سے ، تیسرا تلک الرسول ، گنتے جائیں تیسواں میں نے کہا عم یتسالون ، کہتا جب قرآن کریم کے پارے تیس ہیں تو ایک پارہ بھی سورۃ فاتحہ سے شروع نہیں ہو گا اگر یہ فاتحہ قرآن ہوتی تو کوئی پارہ اس سے بھی تو شروع ہوتاناں۔
میں نے کہا چلیں ایک سوال آپ کا اور ایک سوال ہمارا بھی۔ بتائیں قرآن کریم کی سورتیں کتنی ہیں؟ کہتا ہے 114 میں نے کہا پہلی کونسی ہے؟ کہتا ہے سورۃ الفاتحہ میں نے کہا جب یہ قرآن نہیں تھا تو پہلی سورت کیوں بنی ہے؟ اب چپ۔ میں نے کہا ہمارے سوال کا جواب تمہیں قیامت تک نہیں ملنا ان شاء اللہ اور جو تم نے سوال کیا اُس کا جواب میں تمہیں ابھی دے دیتا ہوں۔ ایک سوال تم نے کیا اُس کا جواب ہم سے لو اور جو میں نے کیا تمہیں قیامت مہلت ہے ہمارے سوال کے جواب کے لیے۔ کہتا کہ جی ہمارے سوال کا جواب، میں نے کہا دیکھو قرآن کریم کا ایک متن ہے اور ایک شرح ہے۔ الحمد اللہ رب العالمین یہ متن ہے اور الم سے والناس تک قرآن کریم میں یہ شرح ہے اب شروح 30 پاروں پر مشتمل ہے اور متن ایک سورت ہے تو ایک پارے کا تعلق ایک سورت سے ، ایک پارے کا تعلق دوسرے سورت سے اور سورۃالفاتحہ وہ سورت ہے جس سے ایک پارے کا تعلق نہیں بلکہ پورے قرآن کا تعلق ہے۔ اس کا تو پورے قرآن سے تعلق ہے نہ۔ الم صرف سورہ بقرہ سے ہے ، عم یتسالون کا تعلق صرف تیسویں پارے سے ہے اور الحمد اللہ رب العالمین کا تعلق پورے قرآن سے ہے۔ تو شرح کا تعلق ایک جزو سے نہیں پورے متن سے ہوتا ہے۔ تمہارے سوال کا جواب ہو گیا اب ہمارے سوال کا جواب دو۔ اس کا جواب نہیں بننا تم سے۔ میں تمہیں کہتا ہوں کہ تھوڑا سا سوال کرو۔
مرد عوررت کی نماز میں فرق کی دلیل
مجھے ایک نوجوان کہنے لگا کیا مرد و عورت کی نماز میں فرق ہے ؟ میں نے کہا جی فرق ہے۔ کہتا اس کی کو ئی حدیث دیں۔ میں نے کہا میں دیتا ہوں۔ ایک ہمارا بھی سوال ہے۔ آپ بتائیں مرد و عورت کی نماز میں فرق نہیں ہے؟ کہتا کہ جی نہیں ہے۔ ایک دلیل ہم آپ سے پوچھتے ہیں آپ یہ بتائیں کہ نماز پہلے ہے یا اذان پہلے ہے؟ کہتا کہ جی اذان۔ میں نے کہا تکبیر پہلے ہے یا نماز پہلے ہے؟ کہتا ہے تکبیر۔ میں نے کہا لباس پہلے ہے یا نماز پہلے ہے؟ کہتا ہےلباس۔ میں نے کہا مصلی امامت پہلے بچھتا ہے یا نماز پہلے ہوتی ہے؟ کہتاہے مصلی امامت۔ میں نے کہا یہ چار باتیں ہوگئیں۔ پہلے کپڑے ہیں، پھر اذان ہے ، پھر مصلی نماز ہے ، پھر تکبیر ہے اور پھر نماز ہے۔ ہم سے آپ نے پوچھا کہ مرد و عورت کی نماز میں فرق؟ میں نے کہا "ہے" اور آپ کہتے ہیں "نہیں"۔ میرا سوال یہ ہے کہ اذان پہلے نماز بعد میں ، مرد عورت کے حساب سے فرق ہے یا نہیں؟ کہتا نہیں ، میں نے کہا پھر ایک مؤذن عورت بھی رکھ لو۔ کسی ایک جامع مسجد اہلحدیث میں کوئی مؤذن ایک عورت بھی رکھ لو کیونکہ فرق جو نہیں ہے۔ کہتا جی اذان تو نہیں دے سکتی۔ میں نے کہا اچھا۔ چلو کبھی کبھی مکبر بنا لیا کرو۔ اپنی ہمشیرہ سے ، بھابھی سے، بیگم سے کہو کہ تکبیر آپ کہو نماز کھڑی ہونی ہے۔ کہتا یہ تو نہیں ہو سکتا۔
میں کہا اچھا تم کہتے ہو فرق نہیں ہے نا ، تو جب نماز پڑھتے ہو تو تم شلوار اپنی ٹخنوں سے اوپر رکھتے ہو۔ اپنی خواتین سے کہو کہ مسجد میں آئیں اور شلواریں تمہاری طرح ٹخنوں سے اوپر رکھیں۔ تم ننگے سر نماز پڑھتے ہو اپنی عورتوں سے کہو مسجد میں آ کر ننگے سر نماز پڑھیں۔ تم ٹانگیں چوڑی کر کے نماز پڑھتے ہو اپنی عورتوں سے کہو مسجد میں آ کر ٹانگیں کھول کر نماز پڑھیں۔ کہتا یہ تو نہیں ہے میں نے کہا چلو یہ بھی نہیں۔ دادی اماں سے کہہ دو کہ امامت کرا دیں وہ تو بہت نیک عورت ہیں۔ کہتا یہ بھی نہیں تو میں نے کہا تم کہتے ہو فرق نہیں تو یہ فرق کہاں سے نکلے؟ لاو اس پر حدیث۔ یہ پہلے چار مسئلوں پر حدیث آپ لے آو پانچویں پر حدیث ہم لے آئیں گے۔ ہماری باری تو پانچویں نمبر پر آئے گی نا ، چار پر حدیث آپ لائیں پانچویں پر ہم لائیں گے۔ یہ تھوڑی سی گفتگو آپ فرما لیں تو ان شاء اللہ کوئی غیر مقلدن عورت آپ کو تنگ نہیں کرے گی۔ غیر مقلد کی مؤنث غیر مقلدن ہی ہوتی ہے نا ، تو کوئی غیر مقلدن آپ کو تنگ نہیں کرے گی۔
اہل باطل سے سوالات کیا کریں
مصیبت یہ ہے کہ ہم لوگ سوالات سنتے ہیں اور جواب دیتے ہیں۔ سوالات نہیں کرتے جو دوسرا بھی تو پریشان ہو۔ کچھ سوالات آپ بھی کریں۔ اپنے علم کے پھیلاؤ کے لیے ، گھر کے ماحول کے لیے ، باطل سے نجات کے لیے ، خود سے سوال کریں۔ آپ سوال کریں گے تو اقدام ہو گا دشمن دفاع پر آئے گا۔ آپ نہیں سوال کریں گے وہ اقدام کرے گا تم دفاع کرو گی۔ خود بھی پریشان ہو گی ، مدرسے میں آ کر اساتذہ کو پریشان کرو گی ، معلمات کو پریشان کرو گی نہ فن تم نے پڑھا نہ تمہارے اساتذہ نے پڑھا۔ یہ فن تو پڑھتے نہیں ہیں لوگ۔ توجہ نہیں ہے اس طرف نا اس کو فضول سمجھتے ہیں لیکن جب پھنس جاتے ہیں تو یہی نظر آتے ہیں۔ M.Aکرنے کا شوق ہوتا ہے ہمارا ، یہ فن پڑھنے کا شوق نہیں ہوتا۔
مدارس کی وسعت نظری اور اسکولز کی تنگ نظری
خیر میں نے اُس بچی سے کہا چلو تم نے ایک سوال کیا اب ہمارا بھی ایک سوال سُن لو ، کہتی وہ کیا۔ میں نے کہا تمہاری دنیا میں زندگی کتنی ہے؟ 60 سال ، 70 سال ، 80 سال ، اندازا۔ اس اُمت کی اوسط عمر 60 یا 70 سال ہے۔ چلو میں مانتا ہوں کہ تو 100 سال کی بوڑھی دادی اماں بن کر مرے ٹھیک ہے 100 سال تجھے عمر ملے اور کتنے سال پڑھا ہے؟ کہتی کہ جی M.A کیا ہے۔ میں نے کہا کتنے سال ؟ کہتی کہ جی 16 سال میں نے کہا کہ کیوں ؟ کہتی ہے تاکہ دنیا کی زندگی اچھی بن جائے۔ میں کہا ایک دنیا کی زندگی ہے 100 سال تمہارے کہنے کے مطابق اور بتائیں کے آخرت کی زندگی کتنے سال کی ہے؟سو سال ، ہزار سال، لاکھ سال ، کروڑ سال ، ارب سال کتنے سال ؟ کہتی وہ تو لامحدود ہے۔ تو میں نے کہا کہ شریعت کا احسان دیکھواور اسکولوں کی تنگ نظری دیکھو ، شریعت کی وسعت دیکھو اور اسکولوں کی تنگ نظری۔ دنیا بنانے کے لیے اسکول والے کہتے ہیں کہ 16 سال پڑھو اور شریعت نے کہا ابدالآباد کی زندگی بنانے کے لیے صرف9 سال پڑھو، کتنا پڑھو ؟ 9 سال۔ یہ نو سال اُس بچی کا نصاب پیش کر رہا ہوں جو ایک دن بھی اسکول نہیں گئی۔
آپ ناراض نہ ہوں کیونکہ آپ لوگ تو "پڑھے" ہوئے ہیں۔ مہتمم صاحب بتا رہے تھےکہ ہمارے ہاں اسکول بھی ہوتا ہے۔ آپ ناراض نہ ہوں، میری بچی ایک دن بھی اسکول نہیں گئی ، میرا بیٹا ایک دن بھی اسکول نہیں گیا اور ان شاء اللہ جانا بھی نہیں۔ ایک دن بھی نہیں، 8سال کی عمر میں قرآن حفظ کیا ، 12کی سال کی عمر میں مدرسہ میں چلی گئی ہے ان شاء اللہ 16 کی عمر ہو گی تو حافظہ بھی ہو گی، عالمہ بھی ہو گی ، قاریہ بھی ہو گی اور اللہ نے چاہا تو خطیبہ بھی ہو گی۔ کتنی تھوڑی سی عمر میں۔ پتا نہیں مجھے نہیں سمجھ آتی کہ ہمیں شوق کیا ہے۔ آپ حضرات ناراض ہوں گے کہ ہمارے مدرسہ میں ہمارے ہی خلاف بیان ہو گیا میں منع نہیں کرتا میں یہ نہیں کہتا کہ نا کریں میں یہ بات سمجھا تا ہوں کہ ترجیح کس کو دینی ہے۔ میں نے کہا کہ تم نے سو سال کی زندگی کے لیے 16 سال پڑھا ہے اور شریعت کی وسعت دیکھو کہ ابدالآباد کی زندگی کے لیے چار سال کا کورس کر لو۔ یہ پانچ سال بھی لمبے نظر آتے ہیں اور 16سال M.A کے لیے لمبے نظر نہیں آتے۔
مدارس کے 9 سالہ نصاب کی دلیل
امی عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا کی بات آئی تھی تو میں نے کہا کہ ہم نے 9سال کا نصاب اُس بچی کے لیے جو ایک دن بھی اسکول نہیں گئی، یہ ہم نے کہاں سے لیا ہے؟ اُم المؤمنین امی عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا سے۔ جب امی عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا کا نکاح ہوا تو عمر کتنی ہے 6 یا 7سال اور جب رخصتی ہوئی تو عمر کتنی ہے 9 سال اب دیکھیں میں اس کو آج کی زبان میں یوں کہتا ہوں کہ جب امی عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا نے داخلہ لیا تو عمر کتنی ہے 7 سال اور جب ریگولر تعلیم شروع کی ہے تب عمر کتنی ہے 9 سال۔ کیونکہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے جو نکاح تھے، وہ جنسیت کی بنیاد پر العیاذ باللہ نہیں تھے، وہ دینی فوائد کی بنیاد پر تھے۔
میں آپ سے بچیوں سے خصوصاً کہتا ہوں یہ بات آج ہمیں سمجھ آ جائے تو دو ، تین ، چار شادیاں یہ مسئلہ ختم ہو جائے۔ یہ گھروں میں ظلم ختم ہو جائے۔ اگر یہ مسائل سمجھ آ جائیں ناں کہ دین کسے کہتے ہیں تو بالکل معاملات ختم ہو جائیں۔ اللہ ہمیں یہ بات سمجھنے کی توفیق عطا فرمائیں۔ہمارا پانچ دن پہلے نکا ح ہوا۔ ہماری عمر دیکھو ، ہماری بیوی کی عمر دیکھو عالمہ ہے۔ سب کہتے ہیں کہ کیوں کیا؟ وہ کہتی ہے کہ دین کے لیے کیا۔ امی عائشہ 7 سال کی عمر میں حضور کے نکاح میں ، 9 سال میں 52 سال کے خاوند کے پاس جا سکتی ہیں۔ ہم میں سے 21 سال کی 40 سال کے مرد کے پاس نہیں جا سکتیں؟
وہاں بیان کریں تو لوگ خوش ہوتے ہیں یہاں بیان کریں تو لوگ عیب شمار ہوتے ہیں۔ بھائی یا تو پیغمبر کی زندگی فخر سے سمجھو اور اُسے فخر سے قبول کرو اور اگر فخر ہے تواپنی زندگی میں لاؤاور اگر فخر نہیں ہے تو یہ کلمہ چھوڑو۔لے جاؤ اللہ کو ضرورت نہیں ہے ہماری ایسی زندگی کی۔ دین اگر اچھا ہے تو لو اس کو۔
نبی کی سنتیں اپنائیں
ہم مردوں سے کہتے ہیں کہ سب سے زیادہ خوبصورت کون ہے تو کہتے ہیں نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم ، میں نے کہا ڈاڑھی کے ساتھ یا بغیر ڈاڑھی کے ، کہتا ڈاڑھی کے ساتھ۔ تم کیوں نہیں رکھتے۔ یا تو العیاذ باللہ اللہ کے نبی کو خوبرو کہنا چھوڑ دو یا پھر چہروں پر ڈاڑھیاں رکھو۔ یا رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو حسین کہنا چھوڑ دو یا اپنے سروں پر ٹوپیاں ، عمامے سجاؤ یا پیغمبر کو خوبرو کہنا چھوڑ دو یا لعنت بھیجو پینٹ و پتلون پر ، تھری پیس پر اور نبی کے لباس کو اپناؤ۔
خوبصورت اُنہیں کہتے ہو جن کو اپنانے کے لیے تیار نہیں ہو۔ ہم کیسےہیں؟ اسے نفاق کہتے ہیں زبان پر کچھ ہے اور دل میں کچھ۔ یہی حال ہمارے مردوں کا ہے اور یہی حال ہماری عورتوں کا ہے۔ آپ میری باتوں پر ناراض مت ہوں یہ مسئلہ سمجھا نا ہماری ذمہ داری میں داخل ہے۔ نہ سمجھائیں گے تو کل قیامت کے دن اللہ کے ہاں ہمارا مواخذہ ہو گا۔ کہ تم کیسے مولوی تھے کہ معاشرے سے ڈر کے مسئلہ نہیں کھل کر بیان کرتے۔ مسئلہ آپ بیان کرو قبولیت وہ ہے جن کے مقدر میں ہے نہیں مقدر میں وہ قبول میں نہیں کریں گے۔
خیر میں بات یہ سمجھا رہا تھا کہ امی عائشہ رضی اللہ عنہا کا نکاح ہوا تو عمر 7 سال ، رخصتی ہوئی تو عمر9 سال جب داخلہ مدرسہ میں لیا ہے تو عمر9 سال ، حضور کو ایسی عورت چاہیے تھی جو ذہین ہو ، عمر تھوڑی ہو ، دین سمجھے اور باہر جا کر دین بیان کرے اس لیے انتخاب اُم المؤمنین امی عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا کا ہوا۔ اور پھر حضور سے پڑھا ہے اُنہوں نے اور اُمت کو دیا ہے ، امی عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا کے بارے میں معروف ہے کہتے ہیں کہ وہ شریعت کو جانتی تھیں کیونکہ حضور کی بیوی تھیں۔ کسی نے پوچھا حضرت عبداللہ ابن زبیر اُن کے بھانجے سے وہ تو شریعت کو جانتی ہیں حضور کی بیوی تھیں اچھا تو باقی فنون اشعار ، نسب کیسے جانتی تھیں؟فرمایا وہ حضرت ابو بکر صدیق کی بیٹی تھیں اور وہ علم الانساب کے ماہر تھے۔ اچھا یہ بتاؤ کے امی عائشہ کو طب کیسے آتی تھی؟ وہ طبیبہ اور حکیمہ بھی تھیں طب کہاں سے آئی؟ اُنہوں نے کہا حضور آخری عمر میں چونکہ بیمار تھے تو بہت سارے حکیم جو بھی کوئی نسخہ تجویز کرتا امی عائشہ اُس کو دیکھتی رہتیں سنتی رہتیں پردہ کے پیچھے ہوتی تھیں تو اُن حکیموں سے امی عائشہ نے حکمت بھی سیکھ لی۔
میں یہ گزارش کر رہا تھا چلیں بات لمبی ہو گئی ہے امی عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا کا جب داخلہ ہوا ہے تو سات سال اور جب رخصتی ہوئی تو 9 سال اور جب نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہوئے تو امی عائشہ کی عمر کتنی ہے 18 سال تو کتنے سال بنے ، 9 سال تو یہ ہمارے بھی9 سال ہیں بغیر اسکول کے مدرسے میں آئے تین سال میں قرآن حفظ کرے ایک سال میں گردان کرے اور چار سال میں کتابیں پڑھے۔ ایک سال میں اُردو سیکھے اور چار سال میں کتابیں پڑھے۔ تین اور ایک ہوئے چار ، چار اور ایک ہوئے پانچ ، اور پانچ اور چار نو ،اور نو سال میں مکمل عالمہ بن کر دین کی خدمت شروع کر دے۔
عزت دین میں ہے
اب بتاؤ کہ یہ آسان نسخہ ہے کہ نہیں پھر کیوں پریشان ہیں استاد جی ہمیں M.A بھی کراؤ، M.A بھی کراؤ، ہمیں اسکول بھی پڑھاؤ۔ بھائی ان کے پیچھے مت پڑو ،جو اصل کام کرنے کا ہے وہ کرو۔ خدا کی قسم مجھے کئی احباب نے کہا کہ مولانا بچی کو سکول کیوں نہیں بھیجتے؟ میں نے کہا میں مڈل پڑھا ہوں۔ میری تعلیم مڈل ہے اور وہ بھی اُس عمر میں جب ہمیں فہم نہیں تھی جب تھوڑی سے فہم ہوئی مدرسے میں گئے ہیں تو خدا کی قسم ، خدا گواہ ہے کہ بڑے بڑے وہ لوگ جنہوں نے پی ایچ ڈی کی ڈگریاں بھی لی ہیں وہ ترستے ہیں کہ ہمارا مصافحہ ہو جائے۔ ہمارے گھر آجائیں ، ہماری چائے پی لیں، اور گاڑی کو ہاتھ لگ جائے۔ پڑھا ہم نے کتنا ہے صرف مڈل۔
اللہ نے عزت دنیا میں نہیں رکھی خدا نے عزت دین میں رکھی ہے اور جب یہ بات دیندار کو سمجھ نہ آئے تو بتاؤ یہ بات سمجھائیں کس کو۔ میں بات یہ سمجھا رہا تھا کبھی آدمی دینی ماحول میں بھی رہ کر دیندار نہیں بنتا اور کبھی بے دینی کے ماحول میں رہ کر بھی وہ دین کا کام کرتا ہے۔ اور بے دینی کے ماحول میں رہ کر دین کا کام کریں تو یہ استقامت ہے اور بڑا مشکل کام ہے۔ دیندار ماحول میں رہ کر دین کا کام کریں یہ عافیت ہے جو نسبتا آسان ہے۔ میں کبھی بیان کرتا ہوں تو بیان کے بعد بعض لوگ مجھے دعائیں دیتے ہیں۔
استقامت نہیں، عافیت مانگیں
آپ میں سے بہت ساری بچیاں ہیں جو میری زندگی کو نہیں جانتیں اُن کے علم میں نہیں ہے بہت کم ہیں جو جانتی بھی ہیں تو مجھے بعض لوگ دعائیں دیتے ہیں کہ مولانا اللہ تعالی آپ کو استقامت عطا فرمائے۔ میں کہتا ہوں کہ تم نے بھی آمین کہا میری بات تو سُن لو۔ مجھ سے کہتے ہیں مولانا اللہ آپ کو استقامت دے میں کہتا ہوں استقامت کی دعا نہ کرو آپ عافیت کی دعا کرو۔
استقامت کا معنی کیا میں نے جو ابھی بیان کیا ہے کہ مجھے پولیس پکڑے ، ایف آئی آر کٹے ، پھر ٹارچر سیل میں جاؤں ، پھر جیل میں جاؤں پھر واپس آ کر اسی طرح بیان کرو یہ استقامت ہے۔ اور عافیت کیا ہے ہم بیان کریں اُس کے بعد لوگ خدمت بھی کریں ، چائے بھی پیئں تازہ دم ہو کر پھر بیان کریں۔ میں کہا تم کیا چاہتے ہو، جیل میں ٹھکوا کر بیان کرانا چاہتے ہو یا آزاد معاشرے میں پھرا کر بیان چاہتے ہو؟ او جی ہم تو جیل نہیں چاہتے۔ میں نے کہا پھر استقامت کی دعا نہ کرو عافیت کی دعا کرو۔ اب میری بات سمجھ آئی۔ اس لیے دعا اللہ سے ہمیشہ عافیت کی مانگا کریں۔
امی عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا نے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ حضور لیلۃالقدر آ جائے تو کونسی دعا کروں تو فرمایا " اللھم انک عفو تحب العفو فاعف عنی " یہ دعا مانگو۔ دعائیں عافیت کی مانگیں۔
ماحول سے متاثر نہ ہوں
میں بات یہ سمجھا رہا تھا کہ دو قسم کے ماحول ہیں اس لیے میں نے قرآن کریم کی آیت پڑھی اس بات کو سمجھانے کےلیے۔ اللہ اکبر ایسا قرآن نے تذکرہ کیا ہے۔ ایک خاتون کونسی ہے جن کا نام حضرت آسیہ ہے ایک کونسی ہیں جن کانام حضرت مریم ہے۔ آسیہ وہ عورت ہے کہ پورے گھر کا ماحول اُس کے مخالف ہے اور ادھر فرعون کی بیوی، اللہ اکبر! خاوند خدائی کے دعوے کرتا ہے اور بیوی سجدے کے لیے تیار نہیں۔ خاوند کا نعرہ " انا ربکم الاعلی" بیوی کہتی ہے نہیں تو نہیں موسی کا رب اصل رب ہے۔
اور پھر قربانی کی انتہا دیکھیں وہ امی آسیہ اللہ اُن کی قبر پر کروڑوں رحمتیں نازل فرمائیں امی آسیہ فرعون کی بیوی ہیں، یعنی کہاں بادشاہ وقت کاحرم ، بادشاہ وقت کی بیوی اور کہاں دیوار کے ساتھ لٹکا کے اُن کے ہاتھوں اور پاؤں میں میخیں ڈالی جا رہی ہیں۔ آدمی تصور کر سکتا ہے ظلم دیکھو، اُس نے کہا چھوڑو کلمہ وہ کہتی نہیں چھوڑتی۔ کہاں اُس کی گنگھیاں کرنے والی خادمائیں ہیں اور کہاں لوہے کی گنگھیوں سے نوچا جا رہا ہے۔ امی آسیہ علیہا السلام اللہ اُن کی قبر پر کروڑوں رحمتیں نازل فرمائے۔
فرعون کی بیوی پورا گھر کا ماحول مخالف ، نبی کی مخالفت ہو رہی ہے ، پیغمبر سے جنگیں ہو رہی ہیں، موسی علیہ السلام کو العیاذ باللہ ختم کرنے کے منصوبے بن رہے ہیں۔ اور وہاں حضرت آسیہ خدا کی توحید کی بات کرتی ہیں۔ خدا کو سجدے کرتی ہیں۔ فرعون کی ربوبیت کا انکار کرتی ہیں۔ کتنا مشکل ماحول، کتنا مشکل ماحول ہے۔ اللہ فرماتے ہیں " و ضرب اللہ مثلا للذین امنوا" ہم نے ایمان والوں کو مثال دی ہے، "امراۃ فرعون " فرعون کی بیوی کی " اذ قالت رب ابن لی عندک بیتا فی الجنۃ " دعا دیکھو، ادھر فرعون کا محل ہے ناں ، فرعون کا محل قربان ہو رہا ہے سولی پر لٹکی ، سولی سے مراد دیوار پر لٹکی ہوئی ہیں۔ اُن کے ہاتھوں اور پاؤں میں میخیں گاڑی جا رہی ہیں۔ اور خدا سے دعا کیا ہو رہی ہے "رب ابن لی عندک بیتا فی الجنۃ " اللہ میں نے فرعون کا محل قربان کیا ہے مجھے جنت کا گھر دے دے۔ مال چھوڑا ہے اللہ مجھے جنت کا گھر دے دے۔
"و نجنی من فرعون و عملہ" اللہ مجھے فرعون سے بچا ، فرعون کے ظلم سے بچا "و نجنی من القوم الظلمین " اللہ فرعونیوں سے مجھے نجات دے۔ دعا کیا ہو رہی ہے اور قبولیت دیکھو۔ ذرا اس بات کو سمجھو ، فرعون کا محل چھوڑا ہے خدا نے جنت کا محل دیا ہے فرعون کو قربان کیا خدا نے حضور علیہ السلام کی ذات دی۔ حضرت امی آسیہ جنت میں نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی بیوی ہوں گی۔ کس کو فرعون کو چھوڑا ہے وہ ظالم تھا کہ مارتا تھا اور بادشاہ کہاں تھا، مجازی تھا اور خدا نے وہ دیا ہے جس کے لیے پوری کائنات سجائی گئی ہے۔ آدمی جتنی قربانی دیتا ہے نا ثمرہ اُسی طرح ملتا ہے۔
دین کی خاطر قربانی دینے کے لیے تیار رہیں
میں تمہیں اس لیے گزارش کرتا ہوں کہ قربانی دو ، قربانی کا معنی گھر کا ماحول مخالف ہے طے کرو پردہ کرنا ہے بس، طے کرو گانا نہیں سننا ، طے کرو ویڈیو نہیں دیکھنی ، طے کرو شرعی پردہ کرنا ہے۔ فیصلہ کرو فیصلہ کہ میں مر جاؤں گی لیکن شریعت پر عمل ضرور ہو گا۔ خدا کی قسم تھوڑی سی ہمت کرو دیکھو اللہ کیسے اسباب عطا فرماتا ہے۔ اللہ کیسی راہیں کھولتا ہےتھوڑی سی مشقت ہو گی، تھوڑی سی۔ اللہ کی شان کریمی ہے، حدیث میں آتا ہے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
مَنْ تَقَرَّبَ إِلَى اللَّهِ شِبْرًا، تَقَرَّبَ إِلَيْهِ ذِرَاعًا
معجم کبیر للطبرانی، رقم الحدیث 1623
کہ اللہ تعالی فرماتے ہیں جو میری طرف ایک بالشت آئے تو میں ایک ہاتھ آتا ہوں۔ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نےکیسی آسان تفسیر سمجھائی ہے۔ تھوڑی سی بندہ ہمت کرے اللہ پاک کی رحمت دوڑتی ہے بندے کی طرف۔ تھوڑی سی ہمت کرے۔ فیصلہ کریں پردہ کرنا ہے، گناہ نہیں کرنا ، فیصلہ کریں اللہ کو راضی کرنا ہے۔ فیصلہ کرو میں یہ بات تمہیں اس لیے کہتا ہوں میں ملک اور بیرون ملک میں جاتا ہوں بہت دکھ ہوتا ہے۔ قرآن کی حافظہ ہے ، قرآن کی عالمہ ہے رشتہ عالم کا آتا ہے او نہیں جی سانوں گجر چاہی دا اے، بھٹی چاہی دا، مغل لے آؤ۔ برادری سے باہر نہیں کرنا۔
پڑھنے پڑھانے سے منسلک رہیں
کس لیے تم نے چار چار سال پڑھا مدارس میں؟ کچھ ہمیں بھی تو سمجھاؤ۔ کس لیے دین پڑھایا تھا جب دین پر عمل نہیں کرنا تھا؟ یہ شغل تھوڑا ہے چلو گھر نہیں مدرسے بیٹھ جاؤ۔ اور پھر تعجب ہوتا ہے مدرسے میں پڑھ لیا ہے ، پڑھانے پر ترجیح کس کو دی جا رہی ہے۔ چلو پڑھاتے نہیں ایم اے کر لیتے ، پڑھاتے نہیں بی اے کر لیتے ہیں ، پڑھاتے نہیں کورس کر لیتے ہیں ، پڑھاتے نہیں فلاں جگہ پر جا کر سلائی مشینیں سیکھ لیتے ہیں۔ پڑھاتے نہیں فلاں جگہ فیکڑی میں چلے جائیں۔ تم طے کرو ہم نے دین پڑھا ہے اور ان شاء اللہ دین پڑھانا ہے، دین پڑھا ہے اور دین پر عمل کرنا ہے۔ عورت کے لیے سب سے بہتر ترتیب یہ ہے کہ دین پڑھاؤ،وقت آئے تو وقت پر اس کا نکاح کرو ، اپنے گھر کے ماحول کو درست کرے یہ بھی عورت کے لیے بہت بڑی بہت بڑی بات ہے۔ باہر کی فکر چھوڑیں اپنے گھر کی فکر کریں۔
مولانا اعظم طارق شہید رحمتہ اللہ علیہ تھے بینظیر نے بلا کر مذاکرات کیے تھے تو اُس نے کہا: مولانا میں آپ کے ساتھ تعاون کرتی ہوں ہم بھی چاہتے ہیں کہ ہم دین کی خدمت کریں۔ مولانا شہید نے فرمایا:بی بی تو دین کی خدمت کرنا چاہتی ہے تو وزارت چھوڑ اپنے گھر میں ٹھہر۔ یہی دین کی خدمت ہے تیرے لیے۔ یہ بات سمجھانی بڑی مشکل ہے۔
چلیں میں کہہ رہا تھا کہ دو مثالیں اللہ نے دی ہیں ایک تو وہ ہے جس کے گھر کا ماحول مخالف تھا۔ وہ کون تھیں؟ حضرت آسیہ اور جن کے گھر کا ماحول موافق تھا وہ کون تھیں؟ حضرت مریم "و مریم ابنت عمرن التی احصنت فرجھا " اللہ فرماتا ہے "فنفخنا فیہ من روحنا و صدقت بکلمت ربھا" ارے اُس مریم کو دیکھو عمران کی بیٹی ہے اپنی عزت کی حفاظت کی ہے۔ جب اُس نے عزت کی حفاظت کی ہے اللہ نے صلہ کیا دیا ہے؟ جبریل نے پھونک ماری ہے خدا نے حضرت عیسی علیہ السلام جیسا بیٹا عطا فرمایا ہے۔
"و صدقت بکلمت ربھا وکتبہ" اللہ کے کلمات کی تصدیق کرتی ہے، کتابوں کی تصدیق کرتی ہے "و کانت من القنتین" اور عبادت گزار عورت ہے۔
خلاصہ
تو میں نے دو عورتوں کا تذکرہ اختصار سے کیا ہے۔ ایک وہ جن کے گھر کا ماحول موافق ہے اور ایک وہ جن کے گھر کا ماحول مخالف ہے۔ مخالف ماحول میں کام کرنا استقامت ہوتی ہے اور موافق ماحول میں کام کرنا عافیت ہوتی ہے۔ اللہ سے دعا کریں اللہ ہمیں عافیت عطا فرمائے۔ اُس کا حل کیا ہے اللہ ہمارے گھر کا ماحول ہمارے موافق بنا دے ، ہمارے بازار کا ماحول بنا دے اگر نکاح ہو تو اللہ خاوند ایسا دے دے ، اللہ اولاد ایسی دے دے ، رشتہ دار ایسے دے دے، تو دعا فرمائیں کہ اللہ مجھے اور آپ کو عافیت کے ساتھ دین کی خدمت کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
وآخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین