عبادت کسے کہتے ہیں

User Rating: 4 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar ActiveStar Inactive
 
عبادت کسے کہتے ہیں؟
دبئی،متحدہ عرب امارات
خطبہ مسنونہ
الحمد للہ نحدہ ونستعینہ ونستغفرہ ونؤمن بہ ونتوکل علیہ۔ ونعوذ باللہ من شرور انفسنا ومن سیئات اعمالنا۔ ونشہد ان لا الہ الا اللہ وحدہ لا شریک لہ ونشہد ان سیدنا مولانا محمدا عبدہ ورسولہ۔ اما بعد:
قال اللہ تعالیٰ: وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنْسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ
سورۃ الذٰریات:56
ترجمہ: میں نے جن و انس کو اپنی عبادت ہی کے لیے پیدا کیا ہے۔
اللہ رب العزت نے اس آیت کریمہ میں انسان کی پیدائش کا مقصد بیان فرمایا ہے کہ میں نے انسان کو دنیا میں بھیجا ہے اپنی عبادت کے لیے۔
عبادت کا معنی
”عبادت“ کا معنی احکامِ خداوندی کو بجا لانا اور ان پر عمل کرنا ہے، اسی کا نام ”عبادت“ ہے۔ جو بات اللہ رب العزت فرمائے اس پر عمل کریں اور جس بات سے اللہ رب العزت منع فرمائے اس سے باز آجائے اس کا نام”عبادت“ ہے۔
انسان کے ذہن میں دو سوال ضرور آتے ہیں۔
پہلا سوال، ہمیں فرشتوں جیسا کیوں نہیں بنایا؟
اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا کہ میں نے بندے کو عبادت کے لیے پیدا فرمایا ہے، تو بندہ سوچتا ہے کہ اللہ نے اگر عبادت کے لیے پیدا فرمایا تھا تو ہمیں یوں رکھتا جیسے اپنے ملائکہ کو رکھا۔ ملائکہ کو اونگھ اور نیند نہیں آتی ہے، ملائکہ سوتےنہیں بلکہ جاگتے ہیں۔ جب انسان جاگے گا اور سوئے گا تو چوبیس گھنٹے کل وقتی خدا کی عبادت کیسے کرے گا؟ جب تک بندہ بیدار رہتا ہے تو اللہ کی عبادت کرتا ہےاور جب سو جائے توخداوند کی عبادت کیسے کرے گا؟ تو بندے کے ذہن میں ایک الجھن یہ آتی ہے کہ اےاللہ! آپ نے عبادت کے لیے پیدا فرمایا تھا، آپ نے ہمارے ساتھ نیند کیوں رکھی؟ نیند نہ رکھتے، محض بیداری رکھتے تاکہ بندہ عبادت کرتا رہتا۔
دوسرا سوال، ہمارے ساتھ جسمانی تقاضے کیوں رکھے؟
دوسرا بندے کے ذہن میں یہ سوال آتا ہے کہ اے اللہ رب العزت نےعبادت کے لیے پیدا فرمایا تھا توہمارے ساتھ انسانی، نفسانی اور جسمانی تقاضے کیوں رکھے؟ اللہ نے بندے کے ساتھ پیٹ رکھا ہے؟ بندہ اس کے لیے کماتا ہے، جو کمایا اس کو کھاتا ہے، شادی بیاہ کے مسائل ہیں، غمی خوشی کے معاملات ہیں۔ اگر عبادت ہی کرنی تھی تو پھر کھانے اور کمانے کی کیا ضرورت تھی؟
اللہ رب العزت ایسے پیدا فرماتے جیسے ملائکہ کو پیدا فرمایا ہے، ملائکہ کے کھانے کا مسئلہ ہے، نہ پینے کا مسئلہ ہے، نہ شادی کا مسئلہ ہے نہ نکاح کا مسئلہ ہے، نہ غمی ہے، نہ خوشی ہے، کوئی خاندانی الجھنیں نہیں ہیں جو ان کے لیے عبادت کے راستے میں رکاوٹ پیدا کریں۔ اے اللہ !اگر آپ نے عبادت کے لیے پیدا فرمایا تھا تو پھر بندے کے ساتھ یہ تقاضے نہ رکھتے کہ بازار بھی جانا پڑا، محنت مزدوری کرنی پڑی، فیکٹری کارخانے لگانے پڑے، کسان کو اپنے کھیت میں محنت کرنی پڑی، غلہ اگانا پڑا، بیج ڈالنے پڑے۔
اگران ساری محنتوں سے اللہ رب العزت بے نیاز کر دیتے تو اللہ تعالی کے لیے کیا مشکل تھا؟
ان دو سوالوں کے جواب
تو یہ دو سوالات بندے کے ذہن میں آتے ہیں۔ اللہ رب العزت نے ان دو سوالوں کو جواب سمجھایا ہے ایک دوسری آیت کریمہ سے:
Īلَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِيْ رَسُولِ اللّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِمَنْ كَانَ يَرْجُو اللّهَ وَالْيَوْمَ الْآخِرَ وَذَكَرَ اللّهَ كَثِيرًاĨ
سورۃ الاحزاب:21
ترجمہ:درحقیقت تم لوگوں کے لیے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم میں ایک بہترین نمونہ ہے ، ہر اُس شخص کے لیے جو اللہ اور یومِ آخر کا امیدوار ہو اور کثرت سے اللہ کو یاد کرے۔
میں نے تمہیں عبادت کے لیے پیدا کیا ہے، لیکن اپنے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کو تمھارے لیے اسوۃ اور نمونہ بنا کر پیدا فرمایا ہے۔ اس آیت میں ان دو سوالوں کے جواب کیسے ہیں؟ ذرا اس بات کو سمجھیں جو میں سمجھانا چاہتا ہوں۔ اللہ نے فرمایا:ہم نے پیغمبر کو پیدا کیا تو اس کو نمونہ بنا دیا، اس کا کیا مطلب؟ پیغمبر صلی اللہ علیہ و سلم کی ذات کو اگر بندہ اپنانمونہ بنائے اور ادائے نبوت کو اختیار کرے تو یہ عبادت ہے۔ ادائے نبوت کو چھوڑ دے تویہ عبادت نہیں ہے۔ دوسرے لفظوں میں یوں سمجھیں کہ اہل السنت و الجماعت دیوبند کا نظریہ یہ ہے کہ ادائے پیغمبر کا نام عبادت ہے، نماز اور روزے کا نام عبادت نہیں ہے۔ اگر ادائے پیغمبر کے مطابق ہے تو نماز اور روزہ عبادت بنتا ہے۔ اگر ادائے پیغمبر کے مطابق نہ ہو تو پھر عبادت نہیں بنتا۔بات سمجھانے کے لیے میں اس پر دو مثالیں دیتا ہوں۔
مثال نمبر1
سورج غروب ہو تو بندہ مغرب کے فرض پڑھتا ہے، سنت پڑھتا ہے، نوافل ادا کرتا ہے، عشاء کی اذان ہوتی ہے بندہ فرض پڑھتا ہے، سنت پڑھتا ہے، پھر اس کے بعد اگر نوافل پڑھے اور پڑھتا ہی چلا جائے یہاں تک کہ فجر کی اذان ہوجائے تو اس کے بعد بندہ نفل نہیں پڑھ سکتا۔ غور فرمائیں کہ فجر کی اذان سے قبل نفل پڑھے تو عبادت ہے اور فجر کی اذان کے بعد نفل پڑھے تو عبادت نہیں ہے۔ معلوم ہوا کہ سجدہ کا نام عبادت نہیں ہے، جہاں نبی صلی اللہ علیہ و سلم سجدہ کریں وہاں عبادت ہے اور جہاں نبی صلی اللہ علیہ و سلم سجدہ نہ فرمائیں تو وہاں عبادت نہیں ہے۔ جہاں نبی صلی اللہ علیہ و سلم رکوع کریں وہاں رکوع کرنا عبادت ہے اور جہاں نبی صلی اللہ علیہ و سلم رکوع نہ فرمائیں تو وہاں عبادت نہیں ہے۔
مثال نمبر2
اسی طرح رمضان المبارک آرہا ہے۔ ایک بندہ کہتا ہے کہ آپ کا روزہ بارہ[۱۲] گھنٹے کا اور میرا روزہ تیرہ [۱۳]گھنٹے کا ہو گا۔عام بندہ جس کے پاس علم نہیں ہے وہ تو یہ سمجھے گا کہ اس کو تو زیادہ ثواب ملنا چاہیےکیونکہ اس نے لمبا روزہ رکھا ہے، حالانکہ اس کو ثواب زیادہ نہیں ملے گا بلکہ اس کو توگناہ ہو گا۔کیونکہ جب تک سورج غروب نہیں ہوا،” نہ کھانا اور نہ پینا“ ادائے پیغمبر تھا، اسی کا نام عبادت تھا۔ جب سورج غروب ہو گیا تو اب ”کھانا اور پینا“ ادائے پیغمبر ہے، اب ”نہ کھانے اورنہ پینے“ کا نام عبادت نہیں ہے۔
رمضان کے تیس روزے پورے ہو گئے، شوال کا چاند نظر آگیا،اب یکم شوال کو ایک بندہ کہتا ہے کہ میں آج کچھ نہیں کھاؤں گا، کیونکہ آج میرا روزہ ہے، آج میں نے اللہ کو خوش کرنے کے لیے کھانا پینا چھوڑ دیا ہے۔تو عید کے دن روزہ رکھنا گناہ ہے اور عید کے دن کھانا اور پینا عبادت ہے۔تو وہی سموسے، وہی پکورے اور وہی مشروبات جو تیس رمضان کو کھانا گناہ تھا تو اب یکم شوال کے دن نہ کھانا گناہ ہے۔
تو میں عرض کر رہا تھا کہ اللہ نے جواب دیا ہمارے دونوں سوالوں کا۔ ایک سوال ہمارا کیا تھا؟ کہ اگر عبادت کے لیے پیدا فرمایا تو اللہ نیند نہ دیتا بلکہ ہمیں یوں رکھتا جیسے اپنے ملائکہ کو رکھا ، دوسرا سوال کیا تھا؟ اگر عبادت کے لیے پیدا کیاتھا تو اللہ ہمارے ساتھ انسانی، نفسانی اور جسمانی تقاضے نہ رکھتاتاکہ بندہ کل وقتی عبادت کرتا۔ان دو کا جواب دیا:
لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِيْ رَسُولِ اللّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ
سورۃ الاحزاب:21
میں نے اپنا پیغمبر نمونہ بنا کر بھیجا ہے، اگر میرے نبی کی ادا کے مطابق جاگو گے تو جاگنا عبادت اور اگر میرے نبی کی ادا کے مطابق سوئے تو سونا عبادت۔ بندے کے ذہن میں تھا: بشری تقاضے کیوں ہیں؟ فرمایا انہی بشری تقاضوں اور ضرورتوں کو سنت کے مطابق پورا کرو تو یہ عبادت بن جائے گی۔کمانا، کھانا، بازار جانا اور کاروبار کرنا سب عبادت ہے بشرطیکہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے طریقے کے مطابق ہو۔اگر سنت کے مطابق بازار جائیں تو جانا عبادت ہے،حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے طریقے کے مطابق سوئیں گے تو سونا عبادت ہے،تمھارے جاگنے میں عبادت نہیں ہے بلکہ جیسے نبی سوئے ویسے سونا جاگنے سے زیادہ عبادت ہے۔تمھارے ذہن میں ہے کہ بشری تقاضے کیوں رکھے؟ تو بشری تقاضے یوں پورے کرو جیسے حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے پورے کیے تو پھر یہ بشری تقاضے پورے کرنے میں بھی عبادت ہے، یہ بنیادی نقطہ اگر بندے کو سمجھ آ جائے تو اس کو پھر بات سمجھنے میں آسانی ہوتی ہے۔
میں اس پردو واقعات عرض کرتا ہوں۔
تسبیحات فاطمہ
فقیہ ابواللیث سمر قندی رحمہ ا للہ نے ایک واقعہ لکھا ہے تسبیحاتِ فاطمہ کے بارے میں۔ تسبیحاتِ فاطمہ کا مطلب کیا ہے؟ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی صاحبزادی ، حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی لختِ جگر سیدہ نساء اہل الجنۃ حضرت فاطمۃ الزہراء رضی اللہ عنہا حضرت علی رضی اللہ عنہ کے نکاح میں تھیں۔ تو حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے ترتیب یہ بتائی تھی کہ گھر کے کام فاطمہ رضی اللہ عنہا کریں گی اور باہر کے کام حضرت علی رضی اللہ عنہ کریں گے۔ یہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے ترتیب اپنی بیٹی اور داماد کو فرمائی تھی کہ گھر کے کام فاطمہ تم کرو اور باہر کے کام حضرت علی رضی اللہ عنہ کریں گے۔
حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا گھر کے کام کرتیں، خود چکی چلاتیں تو ہاتھ میں نشان پڑ جاتے، پانی کی مشک بھر کر لاتیں تو سینہ پر نشان پڑ جاتا، گھر میں جھاڑو دینے سے کپڑے میلے کچیلے رہتے تھے۔گھر کے جو کام تھے وہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے ذمے تھے۔ آج بھی کامیاب زندگی کے لیے یہی طریقہ ہے کہ گھر کے کام عورت کرے اور باہر کے کام مرد کرے۔یہ جو ہمارے ہاں ترتیب چلی ہے کہ باہر کے کام عورت کرے یہ خلافِ فطرت بھی ہے اور خلافِ شریعت بھی۔ شریعت ہمیشہ فطرت کے مطابق ہوتی ہے شریعت کبھی خلافِ فطرت حکم نہیں دیتی۔ میں اس کو سمجھانے کے لیے یوں کہتا ہوں کہ بازار سے سبزی لانا مرد کے ذمہ ہے اور سبزی پکا کر دینا یہ عورت کے ذمہ ہے۔اب کوئی بندہ کہے کہ بازار سے سبزی عورت لیا کرے اور گھر میں پکایا مرد کرے تو یہ دونوں باتیں غلط ہیں۔باہر سے آٹا لانا مرد کے ذمہ ہے اور پکا کر دینا عورت کے ذمہ ہے۔
تو خیر میں عرض کر رہا تھا کہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا گھر کے کام کرتیں تو تھک جاتیں۔ایک بار حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں کچھ غلام باندیاں آئیں تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے کہا:تم جا کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک خدمت گار مانگ لو کیونکہ کام کرتے کرتے تھک جاتی ہو۔حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا تشریف لےگئیں تو جھجک محسوس کی ، اس وجہ سے بات نہ کر سکیں اور واپس آ گئیں۔
دوسرے دن حضور صلی اللہ علیہ و سلم خود تشریف لائے اور حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا: آپ کل کس کام سے آئیں تھیں؟ وہ شرم کی وجہ سے خاموش ہو گئیں تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! ان کی یہ حالت ہے کہ شکی پیسنے کی وجہ سے ہاتھوں میں نشان پڑ گئے ہیں، مشک اٹھانے کی وجہ سے سینہ پر رسی کے نشان پڑ گئے ہیں، کام کاج کی وجہ سے کپڑے میلے کچیلے رہتے ہیں۔ میں نے ہی انہیں کہا تھا کہ آپ کی خڈمت میں حاضر ہو کر ایک خدمت گار مانگ لائیں، اس لیے آئی تھیں۔
حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:
اتَّقِى اللَّهَ يَا فَاطِمَةُ وَأَدِّى فَرِيضَةَ رَبِّكِ وَاعْمَلِى عَمَلَ أَهْلِكِ فَإِذَا أَخَذْتِ مَضْجَعَكِ فَسَبِّحِى ثَلاَثًا وَثَلاَثِينَ وَاحْمَدِى ثَلاَثًا وَثَلاَثِينَ وَكَبِّرِى أَرْبَعًا وَثَلاَثِينَ فَتِلْكَ مِائَةٌ فَهِىَ خَيْرٌ لَكِ مِنْ خَادِم
سنن ابی داؤد: رقم الحدیث2990
اے فاطمہ!اللہ سے ڈرتی رہو ار اس کے فرض ادا کرتی رہو، اور گھر کے کام کاج کرتی رہو۔ جب سونے کے لیے لیٹوتو33 بار سبحان اللہ، 33 الحمد للہ ار 34 بار اللہ اکبر پڑھ لیا کرو، یہ خادم سے بہتر ہے۔ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے عرض کیا: میں اللہ [کی تقدیر] اور اس کے رسول [کی تجویز] سے راضی ہوں۔
یہ تسبیحات چونکہ امت کو حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی برکت سے ملی ہیں اس لیے ان تسبیحات کا نام ”تسبیحاتِ فاطمہ“ ہے۔ یہ تو میں نے سمجھایا کہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کو تسبیحات کہاں سے ملیں۔
ایک عجیب واقعہ
جو واقعہ میں بیان کرنا چاہ رہا ہوں، فقیہ ابو اللیث سمر قندی رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ ایک شخص ہر نماز کے بعد100بار سبحان اللہ،100 بار الحمد للہ اور 100 بار اللہ اکبر پڑھتا تھا، اب آپ دیکھیں 33 بار کم ہے یا 100 بار؟، تو 100 بار زیادہ ہے۔ وہ شخص خوش تھا کہ میں زیادہ ذکر کرتا ہوں، میرا عمل زیادہ ہے۔ سویا، خواب دیکھ رہا ہے، حشر برپا ہے، اللہ حساب کتاب فرما رہے ہیں اور اعمال کاامت کو اجر دے رہے ہیں۔ اعلان ہوا کہ تسبیحاتِ فاطمہ پڑھنے والے کو لاؤ، یہ بندہ بھی اٹھ کر چلا گیا۔ اللہ رب العزت نے اسے فرمایا: اس کو ایک طرف کر دو، اس کو تسبیحاتِ فاطمہ کا اجر نہیں ملے گا۔ اس نے اللہ سے پوچھا: کیوں نہیں ملے گا؟100 بار سبحان اللہ کہتا تھا، 100 بار الحمد للہ، 100 بار اللہ اکبر کہتا تھا۔ اللہ نے فرمایا:تسبیحاتِ فاطمہ سو بار نہیں بلکہ 33 بار ہیں، تو نے سو بار کہا، تجھے سو بار کا اجر ملے گا لیکن تسبیحاتِ فاطمہ کا اجر نہیں ملے گاجو سنت والا اجر تھا۔ اس لیے کہ جو پیغمبر صلی اللہ علیہ و سلم نے سنت دی ہے وہ 33 بار ہے، 100 بار نہیں، یہ تو نے اپنی طرف سے کام شروع کیا ہے، یہ ہمارے پیغمبر صلی اللہ علیہ و سلم کی ادا نہیں ہے۔
تو دیکھو بندہ سمجھتا ہے کہ سو بار میں اجر زیادہ ملتا ہے اور 33 بار میں کم ملتا ہے، لیکن اس لائن سے الگ کیا جا رہا ہے کیونکہ یہ تسبیحاتِ فاطمہ نہیں ہیں بلکہ یہ اس کی اپنی تسبیحات ہیں۔
بانی تبلیغی جماعت کا واقعہ
دوسرا واقعہ حکیم الامت حضرت تھانوی رحمہ اللہ نے لکھاہے۔حاجی امداد اللہ مہاجر مکی رحمہ اللہ علماء دیوبند کے بہت بڑے شیخ اور پیر طریقت ہیں۔ حضرت حاجی صاحب رحمہ اللہ کے ایک خلیفہ مجاز اور مرید تھے۔
خلیفہ مجاز اس شخص کو کہتے ہیں جس کو اپنے شیخ کی طرف سے اجازت ہو کہ میری طرف سے لوگوں کو بیعت کراؤ اور گناہوں کو چھڑاؤ۔ اصلاح کے لیےبیعت کرنا مرد پر بھی ہے اوراصلاح کے لیے بیعت کرنا عورت پر بھی ہے،آپ دین کو کوئی بھی شعبہ دیکھیں علماء دیوبند میں سے ایک بھی ایسا عالم نہ تھا جس کا کسی شیخ سے طریقت اور بیعت کا تعلق نہ ہو۔
مثلاً یہ دعوت و تبلیغ کا کام ہے جس کے لیے آپ خواتین جمع ہوئی ہیں، اس کام کے بانی حضرت مولانا الیاس رحمہ اللہ تھے جن کا بیعت کا تعلق حضرت مولانا خلیل احمد سہارنپوری رحمہ اللہ سے تھا۔ میں نےحضرت مولانا محمد الیاس رحمہ اللہ کے ملفوظات میں پڑھا، حضرت فرماتے ہیں: بازار میں جاتے ہیں،گشت کرتے ہیں،دعوت دیتے ہیں اور بازار کی ظلمت میں اپنے دل پر محسوس کرتاہوں تو واپس آکر اپنے شیخ کی خانقاہ میں وقت لگا کر اس قلب کی ظلمتوں کو دور کرتاہوں۔
یہ کون فرما رہے ہیں؟حضرت مولانا محمد الیاس صاحب۔ کتنے بڑے شخص ہیں !وہ بھی خانقاہ اور بیعت کی ضرورت کو محسوس کرتے ہیں۔ لیکن ہمارے ہاں اللہ محفوظ فرمائے اس کا کوئی احسا س نہیں ہے۔ حیران کن بات یہ ہے کہ جب ہمارے چھ نمبروں کی تعلیم ہوتی ہے توان میں ایک نمبر علم و ذکر ہے، اس میں یہ کہتے ہیں کہ جو کسی شیخ سے بیعت ہے تو شیخ کی طرف سے دی گئی تسبیحات کی پابندی کرے اور اگر کسی سے بیعت نہیں ہے توپھر یہ تسبیحات کرےمثلاً کلمہ طیبہ،تیسرا کلمہ، استغفار وغیرہ۔ تو ہمارے بزرگوں نے یہ جملہ کیوں دیا؟ کہ شیخ سے بیعت کرو، ہم زبان سے یہ جملہ تو کہتے ہیں لیکن پھر بھی بیعت نہیں کرتے، ہم اپنی مرضی سے تو اللہ اللہ کرتے ہیں لیکن کسی شیخ طریقت سے بیعت نہیں کرتے، یہ بات مناسب نہیں ہے، ہمیں جوسبق اپنے اکابر نے دیا ہے اس کو یاد بھی رکھیں اور اس کو سمجھیں بھی۔
خواتین کی بیعت کا ثبوت قرآن سے
ہمارے ہاں ایک مرتبہ خواتین میں بیان تھا، ایک خاتون نے مجھے چٹ دی کہ قرآن میں کہاں ہے کہ عورتیں بیعت کریں؟ میں نے کہا: قرآن میں سورۃ ممتحنہ میں لکھا ہے:
Īيَا أَيُّهَا النَّبِيُّ إِذَا جَاءَكَ الْمُؤْمِنَاتُ يُبَايِعْنَكَ عَلَى أَنْ لَا يُشْرِكْنَ بِاللَّهِ شَيْئًا وَلَا يَسْرِقْنَ وَلَا يَزْنِينَ وَلَا يَقْتُلْنَ أَوْلَادَهُنَّ وَلَا يَأْتِينَ بِبُهْتَانٍ يَفْتَرِينَهُ بَيْنَ أَيْدِيهِنَّ وَأَرْجُلِهِنَّ وَلَا يَعْصِينَكَ فِي مَعْرُوفٍ فَبَايِعْهُنَّ وَاسْتَغْفِرْ لَهُنَّ اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌĨ
سورۃ الممتحنۃ: 12
[اے نبی صلی اللہ علیہ و سلم! جب تمہارے پاس مومن عورتیں بیعت کرنے کے لیے آئیں اور اس بات کا عہد کریں کہ وہ اللہ کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ کریں گی، چوری نہ کریں گی ، زنا نہ کریں گی ، اپنی اولاد کو قتل نہ کریں گی ،اپنے ہاتھ پاؤں میں کوئی بہتان گھڑ کر نہ لائیں گی اور کسی امرِ معروف میں تمہاری نافرمانی نہ کریں گی، تو ان سے بیعت لے لو اور اُن کے حق میں اللہ سے دعائے مغفرت کرو ، یقینا اللہ درگزر فرمانے والا اور رحم کرنے والا ہے۔]
خاتون مجھے کہنے لگی: آپ نے استدلال غلط کیا ہے۔ میں نے کہا: کیسے غلط ہے؟ مجھے کہنے لگی: یہ حکم تو اللہ کے نبی کو تھا، یہ تو نہیں کہ کسی عالم سے بیعت کریں۔ میں نے کہا: بیٹی! یہ بتاؤ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں نکاح کس نے پڑھایا تھا؟ کہنے لگی:نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے۔ میں نے کہا:مسجد میں امامت کون کراتا تھا؟ کہنے لگی: نبی پاک صلی اللہ علیہ و سلم۔ میں نے کہا:جمعہ کا خطبہ کون دیتا تھا؟ کہنے لگی: نبی پاک صلی اللہ علیہ و سلم۔میں نے کہا: مصلے کہ امامت کون کرتا تھا؟ کہنے لگی: نبی پاک صلی اللہ علیہ و سلم۔میں نے کہا: جہاد میں قیادت کون کرتا تھا؟ کہنے لگی: نبی پاک صلی اللہ علیہ و سلم۔
میں نے کہا:حضور صلی اللہ علیہ و سلم دنیا سے چلے گئے ہیں، بتاؤ اب نکاح کون پڑھائے گا؟ کہنے لگی: مولانا صاحب پڑھائیں گے۔ میں نے کہا: مصلے کی امامت کون کرائے گا؟ کہنے لگی: مولانا صاحب۔
میں نے کہا:حضور صلی اللہ علیہ و سلم تو چلے گئے اب جمعہ کا خطبہ کون دے گا؟
کہنے لگی: مولانا صاحب۔میں نے کہا: اب جہاد میں قیادت کون کرے گا؟
کہنے لگی: مولانا صاحب۔
میں نے کہا: اب مسئلہ کون بتائے گا؟کہنے لگی: مولانا صاحب۔میں نے کہا:اب بیعت کون کرے گا؟کہنے لگی:نہیں۔میں نے کہا: نکاح مولانا صاحب پڑھے یہ مانتی ہو، خطبہ جمعہ مانتی ہو، مصلے کی امامت مانتی ہو، جہاد کی قیادت مولانا صاحب کی مانتی ہو تو بیعت ان کی کیوں نہیں مانتی؟
میں نے کہا:اللہ سے ڈرو، جب وارث ہوتا ہے تو مورث کی تمام چیزوں میں ہوتا ہے ، یہ نہیں کہ کسی چیز میں ہوتا ہے اور کسی چیز میں نہیں ہوتا۔ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ کے دور میں بعض لوگوں نے کہا کہ ہم زکوۃ نہیں دیتے۔ دلیل کیا تھی؟
خُذْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُم
سورۃ التوبۃ:103
مانعینِ زکوۃ کایہ کہنا تھا کہ اس آیت میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو فرمایا گیا ہے کہ آپ ان سے صدقہ وصول کریں، حضور صلی اللہ علیہ و سلم تو اس دنیا سے چلے گئے ہیں، ہم آپ کو کیوں زکوۃ دیں؟ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
وَاللَّهِ لَوْ مَنَعُونِي عِقَالًا كَانُوا يُؤَدُّونَهُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَقَاتَلْتُهُمْ عَلَى مَنْعِهِ
صحیح البخاری: رقم الحدیث7284
جوشخص بھی ایک رسی جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو دیتا تھا اگر مجھے نہیں دے گا تو میں اس کو قتل کر دوں گا، اس کی گردن اڑا دوں گا، کیوں کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم کا نائب ہوں، جو کام حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمائے تھے وہ سارے میں کروں گا۔لیکن ہمیں سمجھ نہیں آتی۔ اللہ ہمیں بات سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
حاجی امداداللہ رحمہ کے مرید کا واقعہ
تو میں بات عرض کر رہا تھا کہ حاجی امداد اللہ مہاجرمکی رحمہ اللہ کے ایک خلیفہ مجاز تھے، انھوں نے عرض کیا: حضرت میں ایک دفعہ نماز پڑھ رہا تھا،تو نماز کے بعد میں نے اللہ سے دعا کی اور مراقبہ کیا کہ یا اللہ! جو نماز میں نے آج پڑھی ہے، مجھے بتائیں کہ قبول ہوئی ہے کہ نہیں؟ وہ کہنے لگا:حضرت!مجھے اللہ نے دکھایا کہ ایک خوبصورت عورت ہے اور آنکھوں سے نابینی ہے۔
حاجی صاحب نے فرمایا:آپ نے نماز آنکھیں بند کر کے تو نہیں پڑھی ہے؟ انہوں نے کہا: جی ہاں، میں نے آنکھیں بند کر کے پڑھی ہے۔ حاجی صاحب فرمانے لگے: اللہ نے دکھایا ہے کہ آنکھیں بند کر کے نہ پڑھو۔ اس نے عرض کی: حضرت میں نے آنکھیں بند کر کے اس لیے پڑھی ہے کہ مجھےخیالات آتے رہتے ہیں، تو خشوع خضوع کے لیے آنکھیں بند کی ہیں۔
اب حضرت حاجی صاحب کا جملہ سنو: فرمانے لگے:جو نماز وسوسے والی ہو، خیالات والی ہو اس نماز سے بہتر ہے جو سنت والی نہ ہو۔کیوں؟ اس لیے کہ ہم وساوس کے پابند نہیں بلکہ ہم سنت کے پابند ہیں، ہم ادائے پیغمبر کے پابند ہیں، ہمیں جہالت کی وجہ سے باتیں سمجھ نہیں آتی۔ تو جب بندے کا رابطہ اورتعلق کسی شیخِ طریقت سے ہو گا، کسی صاحبِ نسبت سے ہو گا تو وہ ظلمات اور گمراہی سے دور ہو گا۔ اس کا نقصان کیا ہو گا؟ قرآن فرماتا ہے:
Īقُلْ هَلْ نُنَبِّئُكُمْ بِالْأَخْسَرِينَ أَعْمَالًا () الَّذِينَ ضَلَّ سَعْيُهُمْ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَهُمْ يَحْسَبُونَ أَنَّهُمْ يُحْسِنُونَ صُنْعًاĨ
الکھف:103، 104
[اے نبی صلی اللہ علیہ و سلم! ان سے کہو ، کیا ہم تمہیں بتائیں کہ اپنے اعمال میں سب سے زیادہ ناکام و نامراد لوگ کون ہیں؟ وہ کہ دنیا کی زندگی میں جن کی ساری سعی و جہد راہِ راست سے بھٹکی رہی اور وہ سمجھتے رہے کہ وہ سب کچھ ٹھیک کر رہے ہیں۔]
کبھی بندہ سمجھتا ہے کہ میں بہت نیک کام کررہا ہوں لیکن اس کی ساری نیکی اسی دنیا میں برباد ہو جاتی ہے۔
خلاصہ
میں نے جو بات آپ کو سمجھانے کی کوشش کی ہے وہ یہ ہے کہ اللہ نے ہمیں کیوں پیدا کیا ہے؟ ہمارے اشکالات تھے کہ انسان کے جسمانی تقاضے کیوں ہیں؟ تو اس کا جواب دیا:
Īلَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌĨ
سورۃ الاحزاب، 21
[درحقیقت تم لوگوں کے لیے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم میں ایک بہترین نمونہ ہے ، ہر اُس شخص کے لیے جو اللہ اور یومِ آخر کا امیدوار ہو اور کثرت سے اللہ کو یاد کرے۔]
بس ایسا جاگو جیسا میرا نبی جاگتا ہے، ایسا سوؤو جیسا میرا نبی سوتا ہے، نتیجہ یہ نکلے گا کہ آپ کا سونا بھی عبادت، آپ کا جاگنا بھی عبادت، آپ کا ہر عمل جو حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے طریقے کے مطابق ہو گا عبادت بن جائے گا۔میں اپنی ماؤں اور بہنوں کو ایک جملہ کہتا ہوں اس کو دل کی تختیوں پر نوٹ کریں:
" بیت الخلاء میں سنت کے مطابق جانا، بیت اللہ میں خلافِ سنت جانے سے بہتر ہے۔ "
اگر کوئی شخص جنابت کے ساتھ بیت اللہ جائے تو اسے ثواب ہو گا یا گناہ؟ یقیناً گناہ ہو گا۔ تو انسان کو سنت کے مطابق عمل کرنا چاہیے۔
ہمارا اہل السنت و الجماعت کا دعوت و تبلیغ کا کام دنیا میں ہو رہا ہے، اس کا مقصد یہ ہے کہ گھروں میں سنت قائم ہو جائے، بازاروں میں سنت قائم ہو جائے۔ دعا کریں کہ اللہ ہمارے گھروں کو سنت کے نور سے روشن کر دے، سنت کے مطابق ہمارا جینا ہو۔ اللہ رب العزت آپ کو اور ہمیں سنت کے مطابق زندگی گزارنے کی توفیق عطا فرمائے۔
و آخر دعوانا ان الحمد للہ رب العلمین