ختم نبوت اور خواتین کی ذمہ داریاں

User Rating: 3 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar InactiveStar Inactive
 
ختم نبوت اور خواتین کی ذمہ داریاں
سرگودھا شہر خطبہ مسنونہ
نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم امابعد:
لَقَدْ جَاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَءُوفٌ رَحِيمٌ
سورۃ التوبۃ، 128
میری نہایت واجب الاحترام ماؤو بہنو اور بیٹیو! آپ تمام خواتین کے علم میں ہے کہ ہمارا آج کا یہ جلسہ عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے زیر اہتمام ختم نبوت کے عنوان سے خواتین کے لیے منعقد کیا گیا ہے۔ اللہ رب العزت جزائے خیر عطا فرمائےہمارے قائدین کو کہ جو مردوں کی طرح خواتین کی بھی ضروریات کا خیال رکھتے ہیں اور یہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی مبارک سنت ہے۔
خواتین کے دینی اجتماعات سنت نبوی ہیں
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جس طرح مردوں میں اجتماعات کا اہتمام فرمایا کرتے تھے اسی طرح مدینہ منورہ میں بسا اوقات بطور خاص خواتین کے بیانات کا اہتمام بھی فرماتے تھے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بیان فرماتےخواتین جمع ہو تیں ان کے بیان کو سماعت کرتیں اور حضرت بلال رضی اللہ عنہ کے ذمہ تھا کہ جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بیان کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بعض ضروریات کے لیے خواتین سے مطالبہ فرماتے تو حضرت بلال رضی اللہ عنہ ان اموال کو جمع فرمایا کرتے تھے۔
تو مردوں کے لیے اہتمام کرنا اور خواتین کے لیے الگ اہتمام کرنا یہ دونوں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی مبارک سنت سے ثابت ہے بلکہ بعض مقامات میں خواتین کی خواہش کی وجہ سے قرآن کریم کی بعض آیات خالصتاً خواتین کو مخاطب کرتے ہوئے اللہ رب العزت نے نازل فرمائی ہیں صرف رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات امہات المومنین رضی اللہ عنھن کو خطاب فرمایا ،کسی مقام میں ایمان والی عورتوں کو خطاب فرمایا اور کسی جگہ پر مرد اور عورت دونوں کا تذکرہ کر کے ایسے الفاظ استعمال فرمائے کہ جس سے پتہ چلے کہ مرد اور عورت دونوں کو شریعت مخاطب کر رہی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ دنیا میں انسان کے زندہ رہنے اور دنیا کے نظام کو چلانے کے لیے جس طرح مردوں کا بڑا کردار ہے خواتین کا بھی بڑا کردار ہے۔
مسلمان ماں کی ذمہ داریاں
اگر خاتون کے ذمےاپنی اولاد کی تربیت ہے تو اس اولاد کوصرف دودھ پلانا صرف اس کو نہلانا صرف اس اولاد کے کپڑے بدلنے سےاس کے بدن کو صاف رکھنا اس کے بستر کو صاف رکھنا ماں کے ذمے صرف یہ ڈیوٹی نہیں۔ یہ اگر ماں صرف ماں ہوتی مسلمان نہ ہوتی تب بھی اس کے ذمے تھا۔ بعض ذمے داریاں بطور ماں ہونے کی حیثیت سے ماں کے ذمے ہے اپنے بچے کو صاف رکھنا اور اس کی خوراک کا خیال رکھنا یہ بطور ماں؛ماں کے ذمے ہے۔ لیکن بہت بڑے کمال کی بات نہیں ہے۔ یہ مادی انسان اور جانوروں کی ضرورتیں ہیں۔ اس لیے جس طرح آدمی جسم کی ضرورتیں پوری کرنا یہ ماں کے ذمے ہےاولاد کی روحانی ضروریات کا پورا کرنا یہ بھی ماں کے ذمے ہے۔
اللہ رب العزت نے حضرت آدم علیہ السلام کو پیدا فرمایا۔ حضرت آدم علیہ السلام سب سے پہلے انسان ہیں اللہ نے قرآن کریم میں تذکرہ فرمایا کہ میں نے آدم کو دو چیزوں سے پیدا کیا ہے:
وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنْسَانَ مِنْ صَلْصَالٍ مِنْ حَمَإٍ مَسْنُونٍ ……… فَإِذَا سَوَّيْتُهُ وَنَفَخْتُ فِيهِ مِنْ رُوحِي فَقَعُوا لَهُ سَاجِدِينَ
سورۃ الحجر، 28،26
مٹی کے وجود اور جسم سے اللہ تعالی نے آدم علیہ السلام کو بنایا۔ جب حضرت آدم علیہ السلام کے جسم کو ڈھانچے میں بنا دیا پھر خدا نے جسم میں روح پھونک دی ہے تو آدم چلتا پھرتا انسان بنا۔ پتہ چلا کہ انسان میں دو چیزیں ہیں ایک مٹی کا بنا وجود ہے اور انسان میں آسمانی روح ہے۔
طبیب جسمانی اور طبیب روحانی
تو جس طرح مٹی کے بنے وجود کا خیال رکھنا ضروری ہے اسی طرح انسان کی آسمان سے آنے والی روح کا بھی خیال رکھنا ضروری ہے۔ اور فرق یہ ہے کہ انسانی وجود چونکہ مٹی سے بنا ہے اس لیے انسان کی ضرورتیں بھی خدا مٹی سے پوری کرتے ہیں۔ اور انسان کی روح چونکہ آسمان سے آئی ہے اس لیے اللہ اس کی ضرورتیں بھی آسمان سے پیدا فرماتے ہیں۔ انسان کو مٹی سے بنایا اس کے وجود کو خوراک چاہیے اس کو اللہ نے مٹی سے پیدا کیا۔ ہماری خوارک آسمان سے نہیں آتی۔ ہمیں پانی چاہیے تو مٹی سے، دوا چاہیے تو مٹی سے، ہمیں جو چیزیں چاہییں وہ مٹی سے ہوتی ہیں۔
لیکن انسان کی روح کو آسمان سے نازل فرمایا تو اس کی ضرورتیں بھی آسمان سے نازل فرماتے ہیں۔ اگر یہ انسان بیمار ہو جائےتو علاج کے لیے دوا چاہیے اللہ تعالیٰ دوا بھی آسمان سے نہیں بلکہ زمین سے پیدا فرماتے ہیں۔ لیکن اگر انسان کی روح بیمار ہو جائے تو اس کے لیے جو دوا چاہیے اللہ اس کو آسمان سے نازل فرماتے ہیں۔ آسمانی دوا اور رزق کا نام اللہ نے وحی رکھا ہے۔ اگر انسان کا مٹی والا وجود بیمار ہو جائے تو اس کو بھی طبیب چاہیے آسمان والی روح بیمار ہو جائے اس کو بھی طبیب چاہیے۔ مٹی والے جسم کے طبیب کا نام ڈاکٹر اور حکیم ہے آسمانی روح والے طبیب کا نام رسول اور ولی ہےاسی لیے آدمی جسمانی علاج کے لیے آدمی ڈاکٹر یا حکیم کے پاس جاتا ہے اور روحانی امراض کے لیے آدمی ڈاکٹر یا یا حکیم نہیں بلکہ نبی یا نبی کے جا نشین عالم کے پاس جاتا ہے۔
جنت چاہیے تو روح کو ترجیح دیں
میں اس تمہید کے بعد یہ بات کہنے لگا ہوں۔ آدمی میں دو چیزیں موجود ہیں:

ایک اس کی ضرورت روحانی

اور ایک اس کی ضرورت جسمانی
جو آدمی جسمانی چیزوں پر توجہ زیادہ دیتا ہے اس کو زمین مقدر ملتی ہےاور جو روحانی چیزوں پر توجہ زیادہ دیتا ہےاس کا مقدر اللہ آسمانوں میں جنت میں رکھتا ہے۔ آپ کہیں گے کہ کیا مطلب؟ جو آدمی شریعت کے تقاضوں کو پورا کیے بغیر شہوات کو پورا کرتا ہےخدا اس کو جہنم دیتے ہیں اور جہنم زمین کے نیچے ہے اور اگر کوئی شخص جسمانی ضرورتوں کا بالائے طاق رکھتے ہوئے روحانیت کو ترجیح دیتا ہے۔ پھر اللہ اس کو جنت دیتا ہےاور جنت آسمان کے اوپر ہے۔ اگر آپ نے ترجیح بدن کو دی تو پھر بدن یعنی زمین کی جگہ اسے جہنم ملتی ہےاور اگر آپ نے ترجیح روحانیت کو دی تو پھر آپ کو جنت جو آسمانوں سے بالا ہے ملتی ہے۔
آپ نے پڑھا ہو گا قرآن کریم میں ہےکہ جب اللہ قیامت کے دن اللہ ایسی بکری کو دوبارہ پیدا فرمائیں گے جس کو خدا نے دنیا میں سینگ نہیں دیے ہوں گے پھر ایسی بکری کو بھی دوبارہ پیدا فرمائیں گے جس کو دنیا میں سینگ دیے تھے اور اس نے بلا سینگ والی بکری کو ٹکر ماری تھی۔ تو اللہ تعالی سینگ والی کے سینگ ختم کر کے بلا سینگ والی کو سینگ عطا فرمائیں گے پھر فرمائیں گے تم اس کو ٹکر مارو جب بدلہ مکمل ہو گا تو اللہ ان کو دوبارہ مٹی بنا دیں گے۔ قرآن کہتا ہے اس وقت کفار کہیں گے:
يَا لَيْتَنِي كُنْتُ تُرَابًا
سورۃ النبا، 40
اے کاش آج میں بھی مٹی میں مل جاتا۔
ہماری ذمہ داری
پتہ چلا کہ مٹی والے کام کر کے مٹی میں مل جانا یہ جانوروں کاکام ہے۔ انسان تو بالائی باتیں سوچتا ہے جن کا تعلق آسمانوں کے ساتھ ہے۔ اب ہمارے ذمہ کیا ہے؟ ہم نے کلمہ کیوں پڑھا ہے؟ اگر یہ بات سمجھ آجائے تو اگلی بات پر غور آسان ہے اور اگر سمجھ نہ آئے تو اگلی بات بڑی مشکل ہے۔
ہم نے کلمہ پڑھا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا، کیوں پڑھا؟ اس لیے اگر ایک طرف جسمانی تقاضا ہو اور ایک طرف روحانی تقاضا ہو ہم نے ترجیح کس کو دینی ہے؟اگر جسمانیت کو ترجیح دینی ہے تو کلمہ کی ضرورت ہی نہیں اور اگر ترجیح روحانیت کو دینی ہے تو پھر نبی کے حکم کی ضرورت ہے۔ اب اس اصول کو سامنے رکھتے ہوئے پوری زندگی، پوری دنیا کو سامنے رکھ لیں بچپن سے جوانی، جوانی سے بڑھاپااور بڑھاپے سے موت اس کو ذہن میں رکھیں تو پھر فیصلہ کرنا انسان کے لیے بہت آسان ہے۔ میں اس کی دو چار مثالیں دیتا ہوں تاکہ مسئلہ سمجھنا آسان ہو جائے۔
مثال نمبر 1:
ہم انسان کے ظاہر کو دیکھ لیتے ہیں ایک معاملہ مرد کا ہے ایک عورت کا۔ مرد کی خواہش ہوتی ہے میں ڈاڑھی کے بال نہ رکھوں عورت کی خواہش ہوتی ہےمیں سر کے بال نہ رکھوں۔ اب اس کا تعلق روحانیت سے نہیں بلکہ جسمانیت سے ہے۔ عورت سمجھتی ہے کہ میں نے سر کے بال کٹوائے تو خوبصورت لگوں گی اور مرد سمجھتا ہے میں نے ڈاڑھی کٹوائی تو خوبصورت لگوں گا۔ اب اس کے حیلے بہانے دونوں تلاش کرتے ہیں۔ دلائل کی بات نہیں کر رہا کہ یہ دلائل کیا دیتے ہیں۔
ابھی پرسوں کی بات ہے مجھے اسلام آباد سے ایک نوجوان نے فون کیا۔ کہنے لگا میری ہمشیرہ کہتی ہے کہ میں نے کٹنگ کروانی ہے۔ دلیل میرے پاس پاکستان کی معروف ڈاکٹر فرحت ہاشمی ہے اور آپ کے علم میں ہونا چاہیے یہ ڈاکٹر سرگودھا کی پیدا وارہے۔ یہ فتنہ بھی خدا نے ہمارے کھاتے ڈالا ہے اور اس کے علاج کی توفیق بھی خدا ہمیں عطا فرمائے۔ )آمین (جس شہر میں فرعون پیدا ہوتا ہے خدا اسی شہر میں موسیٰ علیہ السلام کو لاتے ہی۔ جہاں فتنوں کا وجود ہو اللہ فتنوں کے تعاقب کا بندوبست بھی فرما دیتے ہیں۔
اس نے مجھ سے پوچھا تو میں نے کہا!ناجائز و حرام ہے۔ کہنے لگا وہ دلیل دیتی ہے میں نے کہا دلیل میرے علم میں ہے۔ شام کے ایک ڈاکٹر کی بیٹی نے فون کیا۔ کہنے لگی کیا عورت عورت کے لیے بال کٹوانے کی گنجائش ہے؟میں نے کہا قطعا نہیں۔ کہنے لگی فلاں ڈاکٹر کہتے ہیں۔ میں نے کہا بیٹی بات سمجھا کرو، دین کا معاملہ ڈاکٹر کا نہیں ہے تمہارے جسم کی بیماریوں کا معاملہ ڈاکٹر کا ہے۔ اگر تمہارے بالوں میں بیماری آئی تو ڈاکٹر سے پوچھنا کہ کیسے ٹھیک ہوں گے؟ اگر بال کٹوانے کو دل چاہے تو پھر ہم سے پوچھنا کٹوانے ہیں یا نہیں؟یہ ہمارا مسئلہ ہے۔
عقل یا اتباع پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم؟
وہی دلیل اس نے دی، یہی دلیل اسلام آباد والوں نے دی۔ حق و باطل کی دلیلیں الگ الگ شہروں کی الگ الگ نہیں ہوتیں۔ جو حق کی دلیل سرگودھا میں ہے وہی پوری دنیا میں ہےاور جو باطل کی دلیل سرگودھا میں ہے وہی پوری دنیا میں ہو گی۔ میں نے کہا کہ دلیل کیا ہے؟کہنے لگا جب عورت عمرہ کے لیے جائے تو بال کٹواتی ہے؟ میں نے کہا بالکل۔ کہنے لگا اگر بال کٹوانا حرام ہوتا تو عمرہ میں کٹوانے کی اجازت کیوں ہوتی؟میں نے کہا کہ شریعت نام عقل کا نہیں شریعت نام پیغمبر کی ماننے کا ہے۔ نبی نے فرما دیا ، شریعت ہے۔ اگر منع کر دیا تو شریعت نہیں:
مَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوا
سورۃ الحشر، 7
میں نے کہا اگر حج کو دیکھ لیں تو پھر بندہ یوں بھی تو کہہ سکتا ہے کہ دیکھو بندہ نوے سال کا ہے بوڑھا ہے اس کے لیے تو چاہیے کہ حج کرواتے وقت پاجامہ شلوار پہنے کیونکہ یہ بوڑھا ستر کو نہیں سنبھال سکتا۔ لاکھوں کا مجمع ہے ستر کھلنے کا ڈر ہے۔ لیکن شریعت نے کہا کہ نوے سال کا بوڑھا بھی ہو تب بھی شلوار یا پاجامہ نہیں۔ آپ نے کھلا تہہ بند ہی استعمال کرنا ہے اور اوپر ازار بند باندھ دیں۔
میں نے کہا پتہ چلا اگر بات عقل کی ہوتی تو بوڑھے کے لیے بات پاجامہ کی کرتے۔ نوجوان کے لیے تہہ بند کی۔ شریعت نے کہا بات عقل کی نہیں عشق پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی ہے۔ میں نے کہا بیٹی،آپ نے حج پر نہیں دیکھا؟ آپ نے طواف کیا ہے، پھر صفا مروہ کے درمیان سعی کی ہے۔ لیکن صفا سے چلنے کے بعد مروہ پر چڑھنے سے پہلے ایک مخصوص جگہ ہے جہاں سبز نشان لگے ہوئے ہیں۔ اسے میلین اخضرین کہتے ہیں۔ ان دونوں جگہوں کے درمیان مردوں کو حکم ہے تھوڑا سا دوڑ کر چلیں لیکن عورت کو حکم نہیں ہے۔
میں نے کہا تم نے غور کیا؟ یہ سنت ابراہیم علیہ السلام کی نہیں سنت اماں ہاجرہ کی ہےتو پھر چاہیے یہ تھا کہ امی ہاجرہ کی سنت ہے عورتیں زندہ کریں، مردوں کے ذمہ کیوں ہے؟وجہ یہ ہے کہ اماں ہاجرہ جس دور میں دوڑی تھیں تب امی ہاجرہ کو دیکھنے والا کوئی نہیں تھا۔ اماں صفا پر چڑھیں اسماعیل علیہ السلام کے لیے پانی دیکھنے کے لیے، کوئی قافلہ نظر نہیں آیا۔ امی حاجرہ نیچے اتریں۔ جب تک بیٹا نظر آ رہا تھا آہستہ آہستہ چلیں جب اتنے نشیب میں چلی گئیں کہ کعبہ اوپر اور یہ نیچے بیٹا نظر نہیں آرہا تو دوڑ کر اس جگہ پہنچتیں جہاں سے بیٹا نظر آہا تھا۔ میں نے کہا کہ اس جگہ دوڑی تو اماں ہاجرہ تھیں ابراہیم علیہ السلام تو نہیں دوڑے۔ تو سنت عورت کو زندہ کرنی چاہیے تھی لیکن عورت کے لیے اس مقام پر دوڑنا جائز نہیں ہے یہ دوڑنے والی سنت مرد زندہ کرتا ہے۔
شریعت نے یہ انداز کیوں اختیار فرمایا؟کیوں کہ جب اماں دوڑیں تو اکیلی تھیں، پردہ کا مسئلہ ہی نہیں تھا۔ اب قیامت تک وہ کون سا دن آئے گا کہ حج و عمرہ کے لیے اکیلی عورت ہو؟ اب خلوت نہیں جلوت ہی جلوت ہے۔ اب اگر عورت دوڑے گی تو وجود چھلکے گا اور ساتھ والے وجود کو دیکھیں گے۔ حکم آیا کہ سنت تو عورت کی ہے زندہ مرد کریں گے۔ یہ ماں کی سنت ہے جو بیٹا لے کر چلے گا۔ اماں ہاجرہ ماں اور آگے سب انکی بیٹیاں ہیں لیکن اب یہ سنت بیٹیاں نہیں بیٹے پوری کریں گے۔
عاشقانہ عبادت
میں نے کہا اب عقل بالکل ساتھ چھوڑ جاتی ہے۔ کہنے لگا کیا مطلب؟میں نے کہا اگر آپ محض عقل کی بات کرتے ہیں تو حج و عمرہ کا معاملہ عقل سے بالاہے، یہ تو عاشقانہ عبادت ہے۔ پوری زندگی میں آپ ظہر و عصر کو جمع کریں تو گناہ ہے،مغرب و عشاء کو جمع کریں تو گناہ ہے، سفر میں کریں تب بھی،بارش ہو تب بھی جمع کرنا گناہ ہے۔ بعض لوگ جو کہتے ہیں کہ اوجی فلاں موقع پر آپ علیہ السلام نے ظہر اور عصر کو جمع کیا ہم نے کہا ایک اصول و ضابطہ ذہن میں رکھو قرآن میں ہے:
إِنَّ الصَّلَاةَ كَانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتَابًا مَوْقُوتًا
سورۃ النساء، 103
اللہ نے نماز کو اپنے اپنے وقت میں مقرر کیا ہے تو ہر نماز کا اپنا وقت ہے۔ جبرائیل امین آسمان سے اترے نماز کا اول وقت بھی بتلایا نماز کا آخر وقت بھی بتلایا۔ جب ظہر کا اپنا وقت ہے عصر کا اپنا وقت ہے تو نبی اس قرآنی آیت کے خلاف عمل کیسے کر سکتا ہے؟ نبی علیہ السلام نے کبھی نمازوں کو جمع نہیں کیا۔ جن کو تم سمجھتے ہو وہ یوں نہیں ہے کہ ظہر کو عصر اور عصر کو ظہر کے وقت میں پڑھا، ایسے کبھی جمع نہیں کیا۔
اس جمع کرنےکی صورت یہ ہوئی تھی مثلاً آج کے دور میں ظہر کا وقت ساڑھے چار بجے ختم ہوتا ہے اور عصر کا ساڑھے چار بجے شروع ہوتا ہے۔ آپ سفر میں جا رہے ہیں تو چلتے جائیں سفر کو جاری رکھیں جب چار بج کر بیس منٹ ہو جائیں تو گاڑی روک کر دو رکعت پڑھیں۔ ابھی پانچ منٹ ظہر کے باقی ہیں، بیٹھ کر دعا کریں، ذکر اذکار کریں جو چاہے عمل کریں پھر چار بج کر پینتیس منٹ پر عصر پڑھ لیں۔ اب آپ نے ظہر کوآخر وقت اور عصر کو مقدم کیا ہے۔ دیکھنے والا سمجھے گا کہ آپ نے ظہر اور عصر کو جمع کیا ہے حالانکہ جمع نہیں کیا بلکہ دونوں کا اپنے اپنے وقت میں ادا کیا ہے۔ اس جمع کو شریعت کی اصلاح میں جمع صوری کہتے ہیں۔لیکن حج میں دیکھو ظہر اور عصر بھی جمع ہے،مغرب و عشاء بھی جمع ہے۔ اب وہ کیوں جمع ہے؟ کیونکہ حج کا معاملہ عاشقانہ ہے عقل کا معاملہ ہے ہی نہیں۔ اس لیے اس کو عقل پر نہ رکھو۔
بال کٹوانے کا حکم
میں نے کہا پہلی بات یہ سمجھو شریعت نے جو اجازت دی ہے اس کی بنیاد پر حج و عمرہ کے علاوہ کوئی عورت بال کٹوائے یہ گناہ اور حرام ہے۔ اس کی کوئی گنجائش نہیں۔
میں نے کہا چلو!اپنی بہن سے کہہ دو کہ اگر تمہارے پاس عمرہ دلیل ہے تو پھر حجام اور بیوٹیشن کے پاس جا کر کٹنگ کی کیا ضرورت ہے؟ میں تمہارا بھائی ہوں میں عمرہ والی کٹنگ تمہاری یہاں کر دیتا ہوں۔ کہنے لگا وہ کیسے؟ میں نے کہا عمرہ کی کٹنگ کسے کہتے ہیں؟کہنے لگا بال جمع کر کے آخر سے تھوڑے سے کاٹ دو۔ میں نے کہا بہن اس کے لیے تیار ہے؟ کہنے لگا نہیں، میں نے کہا پھر عمرہ والی کٹنگ نہ ہوئی یہ فیشن والی کٹنگ ہے کیونکہ جس عمرہ والی کٹنگ کی اجازت ہے وہ تو خاوند اپنی بیوی کی کٹنگ کر سکتا ہے پارلر جا نے کی ضرورت ہی نہیں۔
مجھے شارجہ سے ایک عورت کہنے لگی کہ اماں عائشہ رضی اللہ عنہا کے بارے میں ہے کہ ان کے بال نسبتا چھوٹے تھے، وہ بال کٹواتی تھیں۔ میں نے کہا میں مانتا ہوں کہ چھوٹے تھے لیکن کیوں تھے؟میں نے کہا اماں کو عمروں کا شوق تھاجب عمرہ کرنے جاتیں تو ایک پورا بال کٹے دوسرے عمرہ پر دوسرا پورا تیسرے پر تیسرا پورا جب تین پورے بال کٹیں گے تو بال چھوٹے تو ہوں گے۔ لیکن اس کا تعلق حج وعمرہ کے ساتھ ہے مدینہ منورہ کے ساتھ نہیں۔ میں نے کہا بیٹی آپ بھی عمرہ پر جائیں اللہ آپ کو لے جائے۔ دس عمرے کرو اور ایک ایک پورا کاٹ لو میں منع نہیں کرتا لیکن اسے کٹنگ نہیں قصر کہتے ہیں۔
ہم کسے راضی کریں
میں عرض کررہا تھا اللہ ہمیں سمجھ کی تو فیق عطا فرمائے۔ ہم نے پیغمبر کو دیکھنا ہے کہ شریعت کیا کہتی ہے، یہ نہیں دیکھنا کہ ہمارا مردہ دل کیا کہتا ہے۔ لوگ کہیں گے کہ ڈاڑھی کٹوادے قطعاً ایسا نہیں کرنا۔۔۔ حدیث میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ستر ہزار فرشتے اللہ نے پیدا فرمائے جو روزانہ یہ تسبیح پڑھتے ہیں:
سبحان الله الذي زين الرجال باللحى والنساء بالذوائب
الفردوس بماثور الخطاب، 4 ص 157
فرشتے تسبیحات کرتے ہیں کہ پاک ہے وہ ذات جس نے مردوں کو ڈاڑھیوں اور عورتوں کو لمبے بالوں سے زینت بخشی۔ میں نے دلائل نہیں دینے صرف یہ بتلانا ہے کہ ہم نے جسم کو روح کے تابع رکھنا ہے کیونکہ جنت روحانی مقام کا نام ہے، جنت بالائی مقام کا نام ہے، جنت فرشتوں والے مقام کا نام ہے۔ جو بندہ روح کو چھوڑ کر جسم کو ترجیح دیتا ہے وہ جانوروں والی جگہ پر آجاتا ہے اور جو شخص جسمانی خواہشات کو ترک کر کے روح کو ترجیح دیتا ہے وہ نور والی جگہ اور فرشتوں والے مقام جنت پر جاتا ہے اللہ ہمیں جہنم سے بچائے۔ اللہ ہمیں جنت میں جگہ عطا فرمائے۔ )آمین (
میں بتانا یہ چاہتا ہوں کہ ہم نے جسمانی خواہشات کو روحانی خواہشات کے تابع رکھنا ہے۔ اپنی ضرورتوں کو پیغمبر کے فرمان کے تابع رکھنا ہےکون سی ضرورت کہاں کیسے پوری کرنی ہےاللہ کا نبی بتلائےگا۔ اللہ کا نبی نہ بتلائے ہم کبھی عمل نہیں کرسکتے۔ اس پر میں نےآپ کی خدمت میں دو تین مسئلے عرض کرنے ہیں۔ اس پر خواتین بھی سوچیں اور مرد بھی سوچیں۔ بوڑھے بھی سوچیں اور جوان بھی کہ ہم نے رحمان کو راضی کرنا ہے یا شیطان کو؟ ہم نے راضی کس کو کرنا ہے؟جس کے پاس جانا ہے یا جس کے پاس مستقل رہنا ہے۔ اسے راضی کرے جس کے بغیر کوئی چارہ نہیں۔ اسے راضی کرے۔
آج کہتے ہیں میرا فلاں تعلق ہے اگر یہ کام کیا تو تعلق والا روٹھ جائے گا میں نے کہاجو تعلق خدا کی ذات سے ہے وہ کسی سے نہیں ہےجو تعلق نبی کی ذات سے ہے وہ کسی سے نہیں ہے کبھی یہ سوچا ہے کہ میں نے پیغمبر کی بات نہ مانی میرا پیغمبر ناراض ہو جائے گا خدا ناراض ہو جائے گا۔ میں نے دو تین مسئلے بیان کرنے ہیں۔
ڈاڑھی اور بالوں کا مسئلہ
پہلا مسئلہ مرد کی ڈاڑھی اور عورتوں کے بالوں کا جس طرح مرد کا مٹھی سے کم ڈاڑھی کٹوانا یا بالکل منڈوانا حرام ہے بالکل اسی طرح عورت کے لیے بال کٹوانا یا منڈوانا حرام ہے۔
لباس کا مسئلہ
ایک لباس مرد کا ہے ایک لباس عورت کا ہے۔یہ ہمارے جسم کی ضرورتیں ہیں۔ مرد کا لباس اپنا ہے عورت کا لباس اپنا ہے۔ ہر ایک کی ضروتیں اپنی اپنی ہیں۔ آج مارکیٹوں میں جا کر دیکھو تو مردوں کے لباس عورتوں والے اور عورتوں کے لباس مردوں والے ہیں۔ یہ یورپ نے فیشن دیا ہے۔ مردوں کو دیکھو تو ان کو شلوار ٹخنوں سے اوپر کرتے ہوئے شرم آتی ہے اور عورتوں کو دیکھو تو ان کو ٹخنے ڈھانکنے سے شرم آتی ہے۔ میں خدا کی قسم اٹھا کر کہہ رہا ہوں جس طرح مردوں کے لیے ٹخنے ڈھانپنے حرام ہیں بالکل اسی طرح عورتوں کے لیے ٹخنے ننگے کرنا حرام ہے۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
مَا أَسْفَلَ مِنَ الْكَعْبَيْنِ مِنَ الإِزَارِ فِي النَّارِ
مصنف ابن ابی شیبۃ، رقم الحدیث 25321
جو حصہ جسم کا ٹخنوں کے نیچے جامہ یا شلوار میں چھپا ہو گا؛ مردوں کا؛ جہنم میں جائے گا۔ اس کا معنی ہر گز یہ نہیں تو جہ رکھنا کہ اللہ اس حصہ کو جہنم میں رکھیں گے اور باقی جنت میں جائے گا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ پورا وجود جہنم میں جائے گا۔ لیکن جہنم میں جانے کا سبب وہ حصہ بنے گا جو ٹخنوں سے نیچے پاجامہ میں چھپا ہو گا۔ بالکل اسی طرح جس طرح گانا سننا حرام ہے جہنم میں جائے گا۔ نامحرم عورت کو دیکھنا حرام ہے جہنم میں جائے گا۔ آدمی غیبت کرے حرام ہے جہنم میں جائے گا۔ اس کا معنی یہ نہیں کہ اگر کسی نے کان سے گانا سنا تو اللہ تعالیٰ کان کو کاٹ کر جہنم میں بھیج دے گا۔ اگر نا محرم عورت کو دیکھا تو آنکھ نکال کر جہنم میں بھیج دے گا۔ اس کا معنی ہر گز یہ نہیں بلکہ اس کا معنی یہ ہے کہ جہنم میں پورا بدن جائے گاجانے کاسبب کان بنے گا، آنکھ بنے گی، جانے کا سبب چوری کرنے والا ہاتھ بنے گا۔
ہم نے اپنی جسمانی ضرورتوں کو اپنی مرضی نہیں بلکہ پیغمبر علیہ الصلوۃ والسلام کی مرضی سے چلانا ہے۔ ڈاڑھی ایسے جیسے نبی فرمائے، پردہ ایسے جیسے نبی فرمائے۔ میں لباس کی بات کر رہا تھا۔ اللہ کی قسم بندہ کو دیکھ کر شرم آتی ہے۔ میں کہتا ہوں ہمیں نہیں شاید شیطان کو بھی شرم آتی ہو گی آپ مارکیٹ میں جاکر دیکھیں مرد ہوں گے کانوں میں بالیاں ہوں گی سر پر چٹیا ہو گی عورتوں کی طرح گھومیں گے مردوں کا کیا واسطہ عورتوں کے ساتھ؟ عورت علیحدہ وجود ہے مرد کا الگ وجود ہے؟ تو مردوں کو چاہیے کہ اپنے سر پر ٹوپی رکھیں اپنے سر پر پگڑی باندھیں عورت کو چاہیے اپنے سر پر بڑی چادر رکھیں۔
شرعی برقعہ
ہم ٹوپی والے برقعہ پر مجبور نہیں کرتے، ٹوپی والا نہیں کالا پہنیں آپ کی مرضی۔ پردہ ضروری ہے خودبھی اس بات کا خیال فرمائیں کہ میں بڑا بے باک ہو کر کہتا ہوں اگر عورت کالے برقعہ میں نکلتی ہے جس کا دل نہ کرے وہ بھی دیکھتا ہے۔ ہمارے برقعے فیشن ایبل ہیں ان برقعوں پر لمبے لمبےفیشن کڑھائیاں ہیں۔ عورت کو چاہیے پردہ کرے چادر سادہ ہو برقعہ سادہ ہو۔
ایسا برقع نہ ہو جس سے پتہ چلے کہ اندر نوجوان لڑکی جا رہی ہے۔ برقع ایسا پہنو کہ پتہ چلے کہ کوئی بوڑھی خاتون جا رہی ہےپردہ اسے کہتے ہیں۔ اس کا نام پردہ نہیں ہے کہ بسا اوقات برقعہ پہن لیا لیکن برقعہ پر کڑھائی فیشن اتنا ہے خود بندہ کی نظر کو اپنی طرف کھینچتا ہے۔ اللہ ایسے برقعہ سےمحفوظ فرمائے۔ عورت بڑی ہو یا چھوٹی پردہ اس کے لیے ضروری ہے۔ ہمارا مزاج ہے کہ جب بچی بلوغت کے قریب ہوپردہ نہیں کرایا جاتا۔ روزانہ اخبار میں خبریں لگتی ہیں فلاں سے زیادتی کر دی گئی پھر قتل کر دیا۔ پہلے بچی کو سنبھا ل لیتے تو کبھی یہ خبریں نہ لگتیں۔ بچی چھوٹی ہو یا بڑی عورت بوڑھی ہو یا جوان سب کے ذمہ پردہ ہے ہمارا عموما ماحول یہ ہے کہ شادی شدہ کا پردہ نہیں کرواتے۔ بچوں والی کا پردہ نہیں کرواتے۔ بھائی سب کا پردہ ہے۔
چہرے کا پردہ فرض ہے
ایک شخص مجھے کہنے لگا جسم کا پردہ تو سمجھ میں آتا چہرے کا پردہ تو نہیں ہے۔ میں نے کہا کیوں؟کہنے لگا قران میں ہے:
إِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا
سورۃ النور، 31
میں نے کہا تم نے آدھا قرآن پڑھا ہے قرآن کی شرح میں حدیث مبارکہ نہیں پڑھی۔ چہرہ کا پردہ ہے اور صرف اتنا پردہ نہیں کہ عورت اپنا چہرہ چھپائے جس طرح عورت کے لیے اپنا چہرہ چھپانا فرض ہےاسی طرح مرد کا چہرہ نہ دیکھنا بھی فرض ہے۔ بسا اوقات خواتین خود کو تو پردہ میں رکھ لیتی ہیں لیکن دوسروں کو دیکھتی رہتی ہیں۔ ہم نے کئی مقامات پر دیکھا، علماء ہوں گے بیان کریں گے خواتین پردہ میں ہوں گی دیواروں پر چڑھ جائیں گی جھانک جھانک کر علماء کو دیکھیں گی۔ بھائی بالکل حرام ہے۔
میں اس پر ایک روایت نقل کرتا ہوں آپ نے سنا ہو گا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی زوجہ مطہرہ ام المؤمنین حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا کے گھر میں ہیں دوسری زوجہ محترمہ غالبا حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا بھی گھر میں ہیں۔ حضرت عبداللہ ابن ام مکتوم نبی کے نابینا صحابی ہیں اور روحانی بیٹے ہیں اور اس ماں کا بیٹا ہے جس سے نکاح بھی جائز نہیں ایسا صحابی گھر میں آیا حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں آپ نے فرمایا:
احْتَجِبَا مِنْهُ
سنن ابی داود، رقم الحدیث 4114
اس سے پردہ کرو۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں کو اشکال ہوا۔ جب اشکال ہو تو اشکال کو دور کرنا چاہیے۔ ایک ہوتا ہے سوال الجھن کو ختم کرنے کے لیے اور ایک ہوتا ہے اعتراض عقیدہ کو خراب کرنے کے لیے۔ امہات المؤمنین نے عرض کی: الیسا ھواعمیٰ؟ یہ تو نابینا ہیں۔ اب نبی اکرم کا جواب سنیئے فرمایا: افعمیاوان انتما؟ کیا تم بھی اندھی ہو؟ الستما تبصرانہ؟ کیا تم اس کو نہیں دیکھ رہیں؟ پتہ چلا جس طرح عورت کا مرد سے چہرہ چھپانا ضروری ہے اسی طرح عورت کا مرد کے چہرے کو نہ دیکھنا بھی ضروری ہے۔
فرحت ہاشمی کی گمراہی
میں پنڈی اڈیالہ جیل میں تھا میرے ساتھ ایک نوجوان لڑکا تھا مالدار تھا، اپنی فیکٹری تھی لیکن اس کی بیوی فرحت ہاشمی کے پاس پڑھی ہوئی تھی۔ ان عورتوں سے بچو، اپنے عقائد خراب نہ کرو حکیم الامت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے کہ غیر عالم کی کتاب کو پڑھنا حرام ہے اس وقت پڑھو جب اپنے عالم سے پوچھ لو۔ تو کسی ڈاکٹر کی کتاب مت پڑھواپنے عالم سے پوچھے بغیر۔ لوگ کہتے ہیں مرزائیوں کی کتابیں رافضیوں کی کتابیں میں کہتا ہوں کہ وہ بہت بعد کی بات ہے وہ تو بدبو ہیں، غلا ظت ہیں،حرام ہیں، نجاست ہیں۔ میں عام ڈاکٹر کی بات کرتا ہوں عام پروفیسر کی کتاب نہ پڑھو جب تک عالم سے نہ پوچھو۔ ایمان بر باد کر بیٹھو گی ایمان کا جنازہ نکل جائے گا۔
حکیم الامت فرماتے ہیں کسی گمراہ کی کتاب عام عالم پڑھے وہ بھی متاثر ہوئے بغیر نہیں رہتا چہ جائیکہ غیر عالم پڑھے وہ کیسے متاثر نہ ہو گا؟ بعضوں کو شوق ہوتا ہے میں نے تو ویسے ہی پڑھا ہے، تحقیق کے لیے پڑھاہے۔ بھائی تحقیق وہ کرے گا جو تحقیق کا اہل ہو ہمارے لوگوں کا مزاج ہےکہ میں مرزائیوں سے نفرت کرتی ہوں میں تو سننے گئی تھی کہ وہ کیا کہتی ہے۔ نہ نہ آئندہ مت جانا سننے کے لیے یہ حکیم نورالدین بھیرہ والا یہ بے ایمان اس لیے گیا تھا کہ میں دیکھنا چاہتا ہوں کیا کہتا ہے۔ مرزائی ہو کر واپس آیا۔ صرف واپس نہیں آیا بلکہ مرزے قادیانی کا پہلا خلیفہ بن کر واپس آیا ہے۔ ہم جو کہتے ہیں کہ چناب نگر مت جاؤ کہتے ہیں کہ ہم تو صرف دیکھنے گئے تھے۔ تم دیکھنے جاؤگے وہ شکوک شبہات ڈال کر تمہیں جہنم کا ایندھن بن دیں گے۔ کیوں اپنا ایمان برباد کرتے ہو؟ خدا کے لیے اپنے ایمان کو بچاؤ۔ مت جاؤپروفیسر کے بیان میں، مت جاؤڈاکٹر کے بیان میں۔
ابھی آپ نے دیکھا رمضان المبارک میں پروفیسر ہے ڈاڑھی بھی پوری نہیں ناظرہ قرآن بھی نہیں پڑھ سکتا لوگ دوڑ رہے ہیں پروفیسر کا درس قرآن قرآن ہے۔ میں کہتا ہوں ناراض مت ہونا جب ان کے پاس جانا ہی حرام ہےکچھ ہماری کوتاہی ہے ہم اپنے دروس کا اہتمام نہیں کرتے اپنے دروس پر لوگ لے کر نہیں جاتےپھر باطل کو موقع ملتاہے قرآن کے نام پر دجل پھیلانے کا جھوٹ بولنے کا۔ مجھے وہ نوجوان کہنے لگا میری بیگم کہتی ہے میں کچھ بال کٹوا لوں؟ میں نے کہا کیوں؟کہنے لگی اس لیے کہ ہماری مسسز نے کہا ہے۔ مجھے ایک شخص کہنے لگا یہ فرحت ہاشمی کون ہے؟ میں نے کہا ملغوبہ ہےباپ دیکھو مودودی ہے خاوند غیر مقلد ہے تو اگلی نسل کون سی پیدا ہو گی؟ پاکستان کو چھوڑ کر آج بیرون ڈیرے لگا لیے۔ اللہ ہم سب کی حفاطت فرمائے۔
میں نے پوچھا کیوں؟ کہنے لگی ہماری مسسز کہتی ہے ویسے تو ناجائز ہے لیکن خاوند کی خاطر بال کٹوانا جائز ہے۔ میں نے کہا اگر خاوند کہہ دے ٹنڈ کروا دو مجھے تم اچھی لگتی ہو پھر ٹنڈ کروا دینا۔ کہتی ہے یہ تو نہیں کروا سکتی میں نے کہا پھر جھوٹ کیوں بولتی ہو؟ خاوند کی خواہش کے لیے! پھر کہو کہ شیطان کی خواہش کے لیے ہے۔ میں نے کہا تم اسے کہہ دو میرا دل نہیں چاہتا کہنے لگا میں نے کہا ہے۔ کہنے لگی بات تو ٹھیک ہے لیکن میں چاہتی ہوں۔ میں نے دیکھو اندر کی با ت نکل آئی نا بات تیرے چاہنے کی نہیں بات اپنے چاہنے کی ہے۔
مری کی سیر میں پردہ کیسا!
ایک دن مجھے کہنے لگا بڑی عجیب بات ہے، مجھ پر کچھ کیس تھے عدالت میں فیصلہ ہو گیا۔ کہنے لگا مولانا بڑا تعجب ہے ہماری جج صاحب سے بات طے ہو گئی تھی پیسے طے ہو گئے تھے اور میں حیران ہوا کہ صبح مجھے سزا ہو گئی۔ میں نے کہا یا ر ناراض نہ ہونا جب طے ہو گیا تھا کہ تمہیں سزا نہ ہو گی تو اگلے دن تم کہاں تھے؟ کہنے لگا اطمینان ہو گیا تھا کہ سزا تو ہونی نہیں جب تھوڑی سی خدا نے ڈھیل دی تو مری پہنچ گیا۔ کیسے گناہوں کے ماحول میں پہنچا!
میں نے پوچھا تیری بیوی تیرے ساتھ تھی؟ کہنے لگا جی ہاں، میں نے کہا وہ پردہ نہیں کرتی؟ کہنے لگا کرتی ہے۔ میں نے کہا مری کی سیر میں کیسے پردہ ہے؟کہنے لگا برقع پہن کر گئی تھی۔ میں نے کہا بابا برقع میں کیسے پردہ ہو گا۔ جب تیری بیوی نے برقع پہنا ہے اس کو کوئی نہیں دیکھے گا لیکن تیری بیگم تو دیکھے گی نا؟ کہنے لگا وہ تو دیکھ لیتی ہے۔ میں نے کہا مجھے بتا جب تو نا محرم کو دیکھے گاوہ تیرے دل میں اتر جائے گی خدا نے کہا دیکھنا حرام ہے۔ اگر تیری بیوی نا محرم کو دیکھے اور وہ اس کے دل میں اتر جائے اس کا کیا بنے گا؟ خدا نے نبی کی بیویوں کو فرمایا:
وَقَرْنَ فِي بُيُوتِكُنَّ
سورۃ الاحزاب، 33
کہ اپنے گھروں میں رہاکرو۔ ہاں دینی ضرورتیں دینی تقاضے وہ بالکل ماحول الگ ہے۔ گھر میں دینی ماحول نہیں بیان کا موقع نہیں خاتون بیان میں آئے کبھی بن کر نہ آئے۔ کبھی سرخی پاؤڈر لگا کر نہ آؤ کبھی خوشبو لگا کر نہ آؤ۔ بیان میں سادگی کے ساتھ پردے کے ساتھ آؤخدا ہمیں سمجھ عطا فرمائے۔
ذاکر نائیک کا دھوکہ
میں نے عرض کیا تھا کہ مردوں کو چاہیے کہ شریعت کے مطابق لباس پہنیں آج ذاکر نائک نے نیا رخ امت کو دیا ہے۔ اس سے کسی نے پوچھا شریعت میں مسنون لباس کیا ہے؟ کہنے لگا کسی علاقے کا جو رواج ہے وہی مسنون لباس ہے۔ یعنی اگر مرد ہو شلوار ٹخنوں سے نیچے نہ ہو لباس اتنا تنگ نہ ہو جس سے مرد کے جسم کی ساخت معلوم ہوتی ہو وہ کفا روفساق کے مشابہہ نہ ہوں یہ تین شرظطں پائی جاتی ہیں تو لباس مسنون بنتا ہے۔ میں نے کہا ذاکر نائک سے پوچھو جو تو نے لباس پہنا ہے یہ تو تیرے معاشرے کا بھی نہیں۔ تو انڈیا کا رہنے والا ہے تجھے چاہیے تھا تنگ پاجامہ لمبا کرتا پہنتا تیرے سر پر کشتی والی ٹوپی ہوتی کندھے پر رومال ہوتا۔ لوگ پوچھتے اتنا بڑا ڈاکٹر ہو کر یہ کون سا لباس ہے؟ تو کہتا میرے علاقے کا رواج ہے۔ ہم سمجھتے تو نے رواج کا خیال کیا ہے ظالم تو نے رواج کا بھی خیال نہیں کیا تو نے مدینے والے کا بھی خیال نہیں کیا کیا یورپ کا خیال ہے؟ یورپ کے خیال کرنے والے کو مسنون لباس نہیں کہتے میں اس لیے کہتا ہوں جب وہاں جاؤ گی اس کو سنو گی تمہارا عقیدہ برباد ہو گالوگ دین کے نام پر جاکر اپنے دین کو بیچ آتے ہیں۔
حلال حرام کے مسائل علماء سے پوچھیں
تیسرا اور آخری مسئلہ عرض کرتا ہوں۔ کھانا ہماری ضرورت ہے سانس کے بغیر بندہ زندہ نہیں رہتا لیکن یہ دیکھو ہم نے کیا کھانا ہے؟کیا پینا ہے؟ مشروب کون سا استعمال کرنا ہے؟ صابن کون سا استعمال کرنا ہے؟ گھی کونسا استعمال کرنا ہے؟ یہ ضرورت کی چیزیں ہیں شریعت منع نہیں کرتی۔ لیکن یہ عالم بتلائے گا کہ کون سا حلال ہے کون سا حرام۔ عالم حلال کہے استعمال کرو حرام کہے اس کو قطعاً استعمال نہ کرو۔ ایک بات اچھی طرح سمجھنا یہ اس لیے سمجھاتا ہوں کہ پھر لوگ ہمیں کہتے ہیں ہر بات پر اعتراض کرتا ہے۔
اگر کسی سے کہہ دو کے ڈاکٹر قادیانی ہے اس سے علاج نہ کروانا ہمیں لوگ کہتے ہیں کہ وہی ڈسپرین مسلمان نے دینی ہے وہی قادیانی نے دینی ہے کون سا قادیانی اس کے اندر گھسا ہوا ہے۔ مولوی صاحب کامیاب ڈاکٹر سے اس کا علاج کروانے میں کیا فرق پڑتا ہے؟ یہ کبھی نہیں سوچا کہ اگر تمہاراعلاج مسلمان ڈاکٹر نے کیا معاملہ اور ہو گااور اگر قادیانی نے کیا تو معاملہ بالکل الگ ہو گا تیرے پیسے اس کی جیب میں جائیں گے اس سے وہ پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی ختم نبوت پر حملہ آور ہو گا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت پر حملہ ہوگا دین کے باغی کو دولت ملے گی۔ بتا کتنا بڑا جرم ہو گا؟ قیامت کو خدا کو کیا جواب دے گا؟
میں نے وتر پڑھنے ہیں!
ہم نے سنا ہمیں استاد فرما رہے تھے ایک آدمی بوڑھا تھا بیمار ہو گیا۔ علم زیادہ نہیں رکھتا تھا۔ علاج کروایا مرض بڑھتا گیا۔ بچوں نے کہا بابا جی چناب نگر جا کر قادیانی سے علاج کروالیتے ہیں۔ کہنے لگا قادیانی سے علاج نہیں کرواؤں گا مر جاؤں گا۔ کہا بابا جی حرج کیا ہے؟ یہ بھی ڈاکٹر وہ بھی ڈاکٹر، پیسے بھی کم لیتے ہیں۔ میری ماؤو اور بہنو! بابے کا جواب سنو، پڑھا لکھا نہیں تھا لیکن دل میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کتنی ہے دین کی غیرت تھی دل میں۔ کہنے لگا رات میں نے وتر کی نماز پڑھی ہے میں نہیں جاسکتا۔ کہنے لگے وتر کا ڈاکٹر سے کیا تعلق؟
اس نے کہا نہیں بیٹا میں نے کل پھر وتر پڑھنے ہیں۔ اولاد کالج کی پڑھی ہے سمجھا رہی ہے کہ علاج کروانے میں کیا حرج ہے؟ قنوت کا وتر سے کیا تعلق؟ بابا کہنے لگا: میں نے رات خدا سے وعدہ کیا تھا ونخلع ونترک من یفجرک اللہ کریم میں تیرے نافرمان کے قریب نہ جاؤں گا۔ بے ایمان میرے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت پر ڈاکا ڈالتاہے، میں اس کے پاس چلا گیا کل مجھ سے خدا نے پوچھ لیا، کہ رات عبادت کرتا تھا کہ تیرے نافرمان کے پاس نہیں جاؤں گا اورظالم تو نبی کے دشمن کے پاس کیوں گیا تھا؟ بتاؤ میں خدا کو کیا جواب دوں گا؟ بیٹا میں مر جاؤں گا لیکن اس قادیانی سے علاج نہیں کرا سکتا مرنا تو ہے ہی۔
حکیم الامت اور مریض الامت
حکیم الامت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کتنے بڑے اللہ والے ہیں، انکا جگر مراد آبادی مرید بن گیا۔ بڑا شاعر ہے حضرت کی خانقاہ میں آیا، اور آتے ہی برا کام کیا لیکن نیت ٹھیک تھی۔ حضرت نے کچھ نہ کہا اس نے آتے ہی چھوٹی چھوٹی ڈاڑھی تھی اس کو مونڈ دیا اور حضرت کی خدمت میں پیش ہو گیا۔ حضرت نے پوچھا جگر یہ چھوٹی ڈاڑھی بھی تم نے منڈا دی ہے۔ اس نے کہا میرے بڑے بڑے عیوب بہت تھے لیکن یہ چھوٹی چھوٹی ڈاڑھی سے پتہ چلتا تھا کہ یہ میری نیکی ہے میں نے اس کو بھی منڈوا دیا تاکہ میرے سارے عیوب آپکے سامنے آجائیں۔ مجھے مریض الامت کہتے ہیں تجھے حکیم الامت کہتے ہیں۔ حکیم الامت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے دست شفقت رکھا، بیعت کیا، اذکار دیے خانقاہ میں رکھا۔جگر مراد آبادی بدل گیا۔
جگرشاعر تھا بلا کی شراب پیتا تھا شراب کو چھوڑا بیمار ہو گیا۔ ڈاکٹر کے پاس چلا گیا ڈاکٹر نے کہا جگر شراب پیو ورنہ مرجاؤگے، گردے ساتھ نہیں دیں گے۔ جگر کو اب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کی آگ لگ گئی تھی، خدا کا عشق کا اندر آگیا تھا کہنے لگا اگر میں شراب پیوں کتنے سال تک زندہ رہ سکتا ہوں؟ انہوں نے کہا مزید چھ سات سال تک زندہ رہ سکتے ہو جگر کہنے لگا میں خدا کی قسم اٹھا کر کہتا ہوں خدا کو ناراض کر کے میں چھ سال زندہ رہوں اس سے بہتر ہے کہ خدا راضی ہو اور جگر مرجائے۔
قادیانی مصنوعات کا بائیکاٹ
میری بہنو !
آج ہم بھی عہد کریں، ہارٹ اٹیک ہوا مرجائیں گی لیکن مرزائی ڈاکٹر کے پاس نہیں جائیں گی، دماغ پھٹ جائے،پیٹ پھٹ جائے لیکن ہم حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے عاشق ہیں ان سے پیار کرتے ہیں۔ ختم نبوت کا دشمن خدا کی قسم ایمان کا دشمن ہے ہمارا دشمن ہے ہم ان کے پاس نہ جائیں گی۔ آج علماء کہتے ہیں فلاں چیز قادیانیوں کی بنی ہوئی ہے بائیکاٹ کرو۔ میں مانتا ہوں آپ کے استعمال نہ کرنے سے فیکٹری بند نہ ہوگی؛ نہ بند ہو؛ کل قیامت میں خدا کو یہ تو کہہ سکتے ہو کہ اے اللہ میں نے حصہ ڈالا تھا اس کفر کو روکنے کےلیے۔ اللہ کی قسم مجھ اور آپ سے یہ سوال نہ ہوگا قادیانی ختم ہوگئے تھے؟ خدا پوچھے گا تم نے کتنا کام کیا تھا؟ ہم اپنے حصہ کے مکلف ہیں فیکٹریاں بند کرنے کے مکلف نہیں ہیں۔ ہم جلانے کے قائل نہیں ہیں مجھ ایک نوجوان کہنے لگا جلا دینی چاہیے؟ میں نے کہا نہیں نہیں بزرگوں نے نہیں فرمایا۔ ہم وہ کریں گے جو ہمارے مشائخ کرتے ہیں، جذبات کنٹرول میں رکھیں اور اپنے مشائخ کی بات مانیں۔
کرنے کے تین کام
میں نے تین باتیں عرض کی ہیں ان کو اپنے ذہن میں بٹھا لیں۔ اپنے گھر میں مردوں کی فضا بنائیں کہ ڈاڑھی رکھیں۔ اپنے گھر خواتین کی فضابنائیں۔ بالوں کا خیال رکھیں اپنے گھر میں لباس کے بارے میں احتیاط رکھیں کہ لباس سنت کے مطابق رکھیں۔ عورتیں پردہ کا خاص طور پر خیال رکھیں۔ تیسری بات جو میں نے عرض کی ہے اپنے گھر کھانے پکانے میں پورا اخیال کریں کسی مرزائی کا آئل ہمارے گھر میں نہ آئے کسی مرزائی کا گھی ہمارے گھر میں نہ آئے۔ اللہ جنت کا مشروب ہمیں دے گا اس بے ایمان سے جتنی نفرت ہم کرسکتے ہیں اتنی کریں۔ کل قیامت کے دن حضور علیہ السلام سے کہہ دیں گے اللہ کے نبی ہم نے فلاں مشروب آپ کے لیے چھوڑا۔ بتاؤ حضور علیہ السلام کتنےخوش ہوں گے کہ میرے لیے یہ چھوڑ دیاتھا۔ سیاست دان خوش ہوتا ہے اس نے میرے لیے جیل کاٹی ہے اللہ کے نبی خوش ہوں گے کہ اس نے میرے لیے کام کیا ہے۔ لوگوں کی پروانہ نہ کرو کہ لوگ کیا کہیں گے، لوگوں کے کہنے سے کیا ہوتا ہے ہمارا یہ مزاج ہونا چاہیے:
لوگ سمجھیں مجھے محروم وفا و تمکین

مگر وہ نہ سمجھیں کہ میری نظر کے قابل نہ رہا

 
اور یہ بھی کہ:
سارا جہاں ناراض ہو پروا نہ چاہیے

مد نظر تو مرضی جاناناں چاہیے

لوگ سمجھیں یہ کیسا ہے؟ اللہ کے نبی فرمائیں یہ میرا ہےہم کامیاب ہیں۔ اللہ ہم سب کو عمل کی توفیق عطا فرمائیں۔ ایک واقعہ سنا کر بات ختم کرتا ہوں۔ میں اپنے گھر کی بات کرتا ہوں پور ے معاشرہ کی بات کرتا ہوں۔ خاوند دین کا کام کرتا ہے اگر بیوی ساتھ دے۔ بھائی کام کرتا ہے جب بہن ساتھ دیتی ہے۔ باپ کام کرتا ہے جب بیٹی ساتھ دیتی ہے۔
میری ماؤو اور بہنو! ہم گھر کا ماحول بنائیں 27 کے جلسے میں اگر خواتین کا انتظام ہوتا توتمھیں ضرور دعوت ہوتی۔ اگر دعوت نہیں دل چھوٹا نہ کریں ابھی سے آپ محنت شروع کر دیں آپ کو پور ا پورا اجر ملے گا۔ آپ علیہ السلام کو ام حمید سعدیہ نے کہا یا رسول اللہ میرا دل چاہتا ہے میں آپ کے پیچھے نماز پڑھوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرمانے لگے:
قَدْ عَلِمْتُ أَنَّكِ تُحِبِّينَ الصَّلَاةَ مَعِي وَصَلَاتُكِ فِي بَيْتِكِ خَيْرٌ لَكِ مِنْ صَلَاتِكِ فِي حُجْرَتِكِ وَصَلَاتُكِ فِي حُجْرَتِكِ خَيْرٌ مِنْ صَلَاتِكِ فِي دَارِكِ وَصَلَاتُكِ فِي دَارِكِ خَيْرٌ لَكِ مِنْ صَلَاتِكِ فِي مَسْجِدِ قَوْمِكِ وَصَلَاتُكِ فِي مَسْجِدِ قَوْمِكِ خَيْرٌ لَكِ مِنْ صَلَاتِكِ فِي مَسْجِدِي
مسند احمد، رقم الحدیث 27090
کہ میں جانتا ہوں تیرا دل میرے ساتھ نماز پڑھنے کو چاہتا ہے لیکن تیرا گھر میں نماز پڑھنا مسجد میں نماز پڑھنے سے افضل ہے۔
عورت کا گھر میں رہ کر دین کا کام کرنا باہر نکلنے سے افضل ہے۔ آپ کو جمع کیا ہے ترغیب دینے کے لیے۔ آج ہر ایک محنت کرے 27 تاریخ کی محنت چلا دو۔ گھروں میں اسٹیکر لگاؤآواز کو عام کرو۔
گھر کے مردوں کو دین کے لیے نکالو
قادیانی عورت اپنے خاوند کو اجتماع میں بھیجتی ہے مسلمان عورت اپنے خاوند کو کیوں نہیں بھیجتی؟ مدینہ کی فضا کو تازہ کردو نبی اکر م صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں مستورات مردوں کو بھیجا کرتی تھیں۔ میں ایک واقعہ سناتا ہوں کئی مرتبہ آپ نے سنا ہوگا۔ مسیلمہ کذاب ختم نبوت کا اس امت میں سب سے پہلا دشمن تھا۔ جنگ ہوئی صحابہ مقابلے میں اترے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک جانباز صحابی رضی اللہ عنہ نوجوان تھا میدان جنگ میں گرفتار ہوگیا۔ آدمی میدان میں جائے تو گرفتاریاں اور شہادتیں اس راستہ کا حصہ ہوتی ہیں۔ حبیب ان کا نام تھا اس کو پیش کیا کہ یہ نوجوان مدینہ سے آیا ہے۔ مسیلمہ کذاب نے کہا مجھے قتل کرنے آئے ہو؟ حبیب فرمانےلگے با لکل میرا بس چلتا میں تجھے قتل کردیتا میں گرفتار ہوا ہوں مجھے کوئی ڈر نہیں۔
ویزہ کے لیے خود کو مرزائی کہنا
مسیلمہ کذاب نے کہا مجھے نبی مان لو، معاف کردوں گا اور آدھی سلطنت دوں گا۔ دیکھو! ظالم مسیلمہ کذاب نے پیش کش کی ہے۔ آج ہمیں تھوڑی سی پیش کش ہوتی ہے ویزہ دیں گے مرزائی بن جاؤ۔ مجھے بعض لوگ کہتے ہیں میں علماء کی بات نہیں کرتا فتویٰ علماء کرام پیش کریں گے میں کہتا ہو ں جو جرمنی کے ویزے کے لیے اوپر اوپر سے قادیانی بنے وہ اندر سے بھی قادیانی ہے۔ اس پر مرزائی ہونے کا فتویٰ لگاؤ یہ مت کہو کہ یہ مسلمان ہے اس کا جنازہ پڑھ دو تھوڑی سی گنجائش نکالو گے تو لوگ ویزوں کےلیے مرزائی ہونا شروع ہوجائیں گے۔
آج لوگ ہمیں سمجھاتے ہیں جی اندر سے مسلمان ہے وہ تو اوپر اوپر سے ویزے کے لیے مرزائی بنا ہے میں نے کہا کل یہ بے ایمان جہنم میں جائے گا اس کے دل میں مرزائیت اتر جائے گی، آج ویزے کے لیے گیا وہاں جاکر مرزائی چھوڑتا نہیں ہے اسے لٹریچر دیتا ہے ذہن سازی کرتا ہےیہ ویزے کے لیے گیا تھا پور ا جہنمی بن کر واپس آتا ہے۔ جو ویزے کے لیے مرزائی بنا پورا خاندان اس کا مسلمان ہے یہ پکا مرزائی ہےاس کو مرزائی قبر ستان میں دفن کر و اس کا جنازہ مت پڑھو۔ مجھے ساتھی کہتے ہیں کہاں سے دلیل نکا لی ہے؟ میں نے کہا ایک بندہ خود کشی کر لے وہ مسلمان ہوتا ہے علماء کہتے ہیں کہ مقتداء اس کا جنازہ نہ پڑھیں۔ حالانکہ وہ تو مسلمان ہے کیوں نہ پڑھیں؟ تاکہ حوصلہ شکنی ہوجائے تو جو جرمنی کے ویزے کےلیے مرزائی ہوجائے کوئی اس کا جنازہ نہ پڑھے تاکہ حوصلہ شکنی ہو۔
ایسی پیشکش کون کرتا ہے!
حضرت حبیب رضی اللہ عنہ گرفتار ہوگئے مسیلمہ کذاب نے پیش کش کی اتنی بڑی پیش کش کون کرتا ہے؟ توجہ رکھنا ! مسیلمہ کہنے لگا تم حضور کو نہ چھوڑو میری نبوت بھی مان لو آدھی سلطنت دے دوں گا۔ حبیب فرمانے لگے تیری سلطنت پر لعنت بھیجتا ہوں۔ ہم نے حضور کا کلمہ پڑھا ہے حضور کی نبوت میں رتی برابر بھی شریک نہیں کرسکتا۔ کہنے لگا مجھے مان لو اپنی بیٹی بھی تجھے دے دوں گا۔ کوئی شہزادی کا رشتہ چھوڑتاہے؟ آج تو گوری اور بے ایمان کےلیے لوگ کلمہ بدل دیتے ہیں۔ فرمانے لگے لعنت بھیجتا ہوں میں نے حضور کا کلمہ پڑھا ہے نہیں مان سکتا۔ کہنے لگا مار دوں گا۔ فرمانے لگے کہ یہ زندگی کی حسرت ہے ہم حضور کے نام پر کٹ جائیں تُو تو میرا محسن ہوگا کہ نبی کے نام پر کاٹ دے گا۔
کہنے لگا اس کا ہاتھ کاٹو۔ ہاتھ کٹا، کہا مانتے ہو؟ فرمایا نہیں۔ بایاں ہاتھ کاٹا، مانتے ہو؟ کہا نہیں۔ ذرا تصور تو کر و ہاتھ کٹا ہے ہاتھ ! ہم سولہ ایم پی او کے پرچے سے ڈر جاتے ہیں۔ میری مجبور ی ہے مجھ پر پرچہ کٹاہے۔ خدا کی قسم ! زندگی جیل میں گزر جائے نبی کی ختم نبوت کےلیے تیرا میرا اعزاز ہے۔ ہمارا خون نکل جائے ختم نبوت کےلیے ہمارا اعزاز ہے۔ کیوں گھبراتے ہو؟ ڈرو مت! جو فیصلہ قیادت کرے ثابت قدم ہوجاؤ بے غیرتوں کی طرح کام کرو گے پھس پھسی مدد آئی گی۔ غیرت مندوں کی طرح کام کرو خدا کی قسم ! اللہ کی مدد آسمان سے آتی ہے۔ حبیب فرمانےلگے یہ نہیں ہوسکتا۔ دایاں پاؤں کاٹا، بایاں پاؤں کاٹا، زبان کاٹ دی اشارے سے فرمایا نہیں مانتا۔ ایک وقت آیا مسیلمہ نے کہا کہ گردن کاٹ دو۔
یہ بھی ایک ماں ہے!
ادھر ماں انتظار کر رہی ہے مدینہ میں کہ میرا بیٹا آتا ہے یا اس کی خبر آتی ہے۔ ادھر صحابہ مدینہ پہنچے ہر ماں کا بیٹا آیا ام حبیب کا بیٹا نہ آیا۔ پوچھا میرے حبیب کا کیا بنا؟ بتایا تیرے بیٹے کا دایاں ہاتھ کٹا ہے ،بایاں ہاتھ کٹا ہے، دایاں پاؤں کٹا ہے، بایاں پاؤں کٹا ہے، زبان کٹی ہے تیرے بیٹے کی گردن کٹی ہے ختم نبوت کےلیے۔ ام حبیب کا میری ماؤو اور بہنو! جملہ اپنے سینے میں محفوظ کرو اور نیت کرو کہ ہم بھی یوں ہی کریں گی۔ ام حبیب کہنے لگیں:
لھذا الیوم ارضعتہ
میں نے آج کے دن کے لیے اے بیٹے تجھے دودھ پلایا تھا۔ بیٹا میں نے تجھے جوان کیا تھا میں نے جس مقصد کے لیے دودھ پلایا میرا مقصد پور ا ہوگیا۔
گھر کی مثال
خدا کی قسم ! خدا ماں ایسی دے تو بیٹے جری ہوتے ہیں بہن جری ہوتو بھائی بھی جری ہوتے ہیں۔ میں نے کہا کہ میں باہر کی بات نہیں کرتا میں بہت نالائق ہوں لیکن خدا نے ہمیں ماں دی، مثالی ماں، ہم تین بھائی جیل میں تھے میری ماں کو رشتہ داروں نے کہا کہ ایک کو روک لے۔ کہنے لگی نہیں روک سکتی فاطمہ کے بیٹے کربلا میں کٹے تھے میرے بیٹوں کو جیل میں مرنے دو میں فخر سے کہوں گی میں شہیدوں کی ماں ہوں۔
ہماری ماں نے نہیں روکا آج دل سے ان کے لیے دعائیں نکلتی ہیں۔ میں اپنی ماؤں سے کہتا ہوں دل بڑا کرو اپنی اولاد کو ختم نبوت کےلیے پیش کردو اپنی بہنوں سے کہتا ہوں اپنے بھائیوں کو رخصت کردو سب کو کہہ دو کہ تم یہ کام کرنا ہے۔ دعا کرو اللہ مجھ سے بھی کام لے، تم سے بھی۔ اللہ ہم سب کو ناموس رسالت کےلیے قبول فرمائے اللہ کا احسان ہوگا فضل ہوگا کرم ہوگا۔
اگر اللہ محروم کر دے تورونا چاہیے تو پھر 27 تاریخ کے لیے آواز لگائیں سب کوپتہ ہے لکڑ منڈی میں ختم نبوت کا دفتر ہے طوفانی صاحب وہاں بیٹھے ہیں ہمارے بزرگ ہیں اللہ ان کی عمر میں برکت عطا فرمائے ہمیں خوشی ہوتی ہے ہمیں بڑوں کا سایہ ملا ہے بڑوں کی شفقتیں ملی ہیں۔
میں اپنی ماؤں اور بہنوں سے کہتا ہوں آج ہی اپنے لڑکوں کو بھیجو دفتر میں اپنا نام لکھوائیں وہاں جا کر پوچھیں کیا چاہیے؟ وہاں سے اسٹیکر لے کر اپنے گھروں میں لگاؤ وہاں سے بینر لو اپنے گھروں میں لگاؤ گلیوں میں لگاؤ اشتہار مرزائیوں کے سامنے لگاؤ ان بے ایمانوں کو پتہ چلے کہ ابھی ختم نبوت کے جاں نثار باقی ہیں، نبی کے نام لیوا زندہ ہیں۔ اللہ ہمیں قبول فرمائے۔ ختم نبوت کے لیے اللہ ہماری جان ہمارا مال قبول فرمائے۔
آمین بحرمۃ النبی الکریم علیہ وآلہ الصلوۃ والتسلیم
وآخر دعوانا ان الحمد للہ رب العلمین