اولاد کی تربیت

User Rating: 5 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar ActiveStar Active
 
اولاد کی تربیت
مرکز اصلاح النساء، سرگودھا
خطبہ مسنونہ
الحمد للہ وکفی والصلوۃ والسلام علی عبادہ الذین اصطفی خصوصا علی سید الرسل و خاتم الانبیاء اما بعد:
فاعوذ باللہ من الشیطن الرجیم بسم اللہ الرحمن الرحیم لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِمَنْ كَانَ يَرْجُو اللَّهَ وَالْيَوْمَ الْآخِرَ وَذَكَرَ اللَّهَ كَثِيرًا
الاحزاب، 21
میں نے پارہ نمبر 21 سورۃ احزاب کی آیت نمبر 21 آپ کے سامنے تلاوت کی ہے اس آیت کریمہ میں اللہ رب العزت نے ایک اہم مسئلہ ارشادفرمایا۔ اوراس میں ساتھ ساتھ بات سمجھانے کے لیے یہ بات بھی کھول کر بیان کردی کہ یہ مسئلہ کن کے لیے ہے۔ مسئلہ کیا بیان فرمایا؟
لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ
میں نے اپنا پیغمبر آپ کے لیے نمونہ اور معیار بنا کر بھیجا ہے۔ یہ مسئلہ بیان فرمایا۔
اسوہ حسنہ سے مراد
اسوۃ حسنۃ یعنی کسوٹی۔ کسوٹی کا مطلب کیا ہے؟ جیسے آپ نے عید کے موقع پر کپڑے سینے کے لیے کسی درزن کو دیے تو ساتھ میں ماپ بھی دیا کہ بالکل اس جیسے سینا۔ اسی طرح معیا ر اور نمونے کا مطلب یہ ہے اللہ رب العزت نےہمیں بتایا زندگی تم نے اس طرح گزارنی ہے جس طرح حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے گزاری ہے۔جس طرح ہم ماپ دیتے ہیں کسی کپڑے کے لیے اسی طرح اللہ رب العزت نے حضورصلی اللہ علیہ وسلم دیے ہیں زندگی سنت طریقے کے مطابق گزارنے کے لیے۔ جس طرح درزی اس نمونے میں جو آپ نے دیا ہے نہ کمی کرسکتا ہے نہ زیادتی، اگر کمی کر ے تو غلط اگر زیادتی کر ے تو غلط۔ کمی کرنے پر بھی کپڑ ے سلوانے والا خوش نہیں ہوتا اور اضافہ کرنے پر بھی خوش نہیں ہوتا۔
اللہ نے ہمیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم عطافرمائے اسوہ حسنہ کسوٹی بنا کر۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جو دین نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں عطا فرمایا اس دین میں ہم کمی بھی نہیں کرسکتے اور اس دین میں ہم اضافہ بھی نہیں کرسکتے کمی کریں تو جرم ہے اضافہ کریں تو جرم ہے اور یہ زندگی ہماری وہ ہے جو ماں کے پیٹ سے باہر آنے سے لے کر قبر کے پیٹ میں جانے تک ہے۔ درمیان کی زندگی رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ اور طریقہ کے مطابق گزارنی ہے۔
جب تک ماں کے پیٹ سے بچہ اس دنیامیں نہ آئے اس وقت کی زندگی کو دنیوی زندگی نہیں کہتے اور جب کوئی قبر کےپیٹ میں چلا جائے تو اس زندگی کو دنیا کی زندگی نہیں کہتے۔دنیا کی زندگی ماں کےپیٹ سے نکلنے کے بعد شروع اور قبرکے پیٹ میں جانے سے ختم ہو جاتی ہے یہ وہ زندگی ہے جو ہم نے اورآپ نے اپنے طریقے کے مطابق گزاری ہے۔ اگر اس مختصر سی زندگی کو نبی کےطریقہ کے مطابق گزار لیا تونتیجہ یہ نکلے گا موت کے بعد زندگی جو ہمارے اختیارمیں نہیں اللہ ہمیں اس میں وہ نعمتیں اور وہ چیزیں عطافرمائیں گے جو پیارے حبیب کو عطافرمائیں گے۔
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ قیامت کا تذکرہ فرمایا تو ایک صحابی نے پوچھا یا رسول من الساعۃ قیامت کب آئے گی نبی نے فرمایا ما اعدت للساعۃ؟ توقیامت کے لیے کیا تیا رکیا ہے کہ قیامت کا سوال کرتا ہے۔ اس نے کہا یا رسول اللہ مااعد ت للساعۃالا انی احب اللہ و رسولہ میرے پاس قیامت کی تیاری کا اور کوئی سامان موجود نہیں ہے ہاں میں اللہ سےاوراس کے رسول سے محبت کرتا ہوں۔ تو آپ نے فرمایا المرءمع من احب
سنن الترمذی، رقم الحدیث 2385
آدمی قیامت کے دن اس کے ساتھ ہو گاجس سےاس نے دنیا میں محبت کی۔
حقیقی محبت
محبت کا مطلب یہ نہیں کہ کلمہ پڑھے۔ نبی سے عشق کے دعوے کرےحضور کی شان میں نعتیں پڑھے۔ محبت کا معنی یہ ہے کہ خوشی ہو یا غم ،دکھ ہو یا سکھ، برادری ہو یا خاندان، ہر حال میں اپنے نبی کے طریقےکو مقدم سمجھےاوربرادری کےطریقے کو مؤخر سمجھے۔ حضور کی سنت کو ترجیح دے رسم و رواج کو چھوڑ دے تو اس کا معنی یہ ہے کہ اس شخص نے اللہ سے محبت کی ہے اوراس کے رسول سے کی ہے۔ عرب میں ایک شاعر گزرا ہےاس نے اس محبت کے عنوان کو بیا ن کرنے کے لیے کہا:
تَعْصِي الْإِلَهَ وَأَنْتَ تُظْهِرُ حُبَّهُ
هَذَا مُحَالٌ فِي الْفِعَالِ بَدِيعُ
لَوْ كَانَ حُبُّكَ صَادِقًا لَأَطَعْتَهُ

إِنَّ الْمُحِبَّ لِمَنْ أَحَبَّ مُطِيعُ

شعب الایمان، ج 2 ص 44
تو اللہ سے محبت کے دعوے بھی کرتا ہے اور اللہ کی نافرمانی بھی کرتا ہے۔ یہ باب محبت کے اندر بالکل ناممکن اور محال ہے۔ کیونکہ اگرتو اللہ کے ساتھ محبت کے دعوی میں سچا ہوتا تو اللہ رب العزت کی بات بھی مانتا۔ اگر ہم حضور کی محبت میں سچے ہیں اس کا معنی کہ نبی کی بات بھی مانیں گے۔ پیدائش سے لے کروفات تک یہ زندگی رسول اکرم کے مبارک طریقے کے مطابق ہم نے گزارنی ہے۔
رسوم نہیں، سنت
ہمارے ہاں المیہ یہ ہے کہ کبھی شریعت کا علم نہیں ہوتا اور کبھی شریعت کا علم تو ہوتا ہے لیکن برادری کے رسم و رواج کو توڑنے کی ہمت نہیں ہوتی۔ یہ دعا کریں کہ اللہ ہمیں علم بھی عطا کرے اللہ برادری کے رسم و رواج کو توڑنے کی بھی توفیق عطا فرمائے اور سنت کے مطابق زندگی گزارنے کی توفیق عطا فرمائے۔ بچے کی پیدائش پر مسنون چیزیں صرف یہ ہیں کہ بچہ جب پیدا ہو بچے کو صاف کیاجائےبچہ کا بہترین سا نام رکھیں اور تحنیک جسے عربی میں کہتے ہیں اور ہم اپنی زبان میں کہتے ہیں گھٹی۔
گھٹی کسی نیک آدمی سے دلوانی چاہیے ہمارے ہاں جب بچہ کی پیدائش ہو تو گھٹی نیک آدمی سے ڈلوانے کی بجائے کبھی ہم کہتےہیں اس کی تائی سے گھٹی دلواؤ۔کبھی کہتے ہیں کہ خالہ سے کبھی کہتے ہیں دادا ابوسے دلواؤ۔دیکھو گھٹی کامعنی یہ ہے کہ یہ پہلی خوراک ہے جو بچے کے حلق میں اترنے لگی ہے اگر پہلی خوراک کسی صالح اور نیک آدمی کی حلق میں اترے گی تو کل کو یہ بچہ نیک ہوگا اور اگر کسی فاسق وفاجر آدمی کا جھوٹا منہ میں جائےگاتو بچہ براہوگا۔
اس کی وجہ یہ ہےکہ جس طرح کا رزق آدمی کے پیٹ میں جاتاہے اسی کے مطابق اللہ اعمال کی توفیق عطافرماتے ہیں۔ اگر رزق حلال کھائیں گے رزق پاکیزہ کھائیں گےاللہ اچھےاعمال کی توفیق عطا فرمائیں گے اور اگر رزق حلال نہیں ہو گاتو آدمی کو اچھےاعمال کی توفیق نہیں ملتی۔ اگر اچھی خوراک کھائے تو اللہ اس کے اعمال صالحہ کی برکت سے اس کی دعائیں بھی قبول فرماتے ہیں اگر رزق حلال پیٹ میں نہ ہو تو اعما ل سیئہ ہوتے ہیں تو آدمی کو اچھےاعمال کی توفیق نہیں ہوتی بلکہ آدمی کےاعمال بہت برے ہوتے ہیں۔
رزق حلال اور دعا کی قبولیت
اس پر ایک واقعہ ہے حجاج بن یوسف کا جو خلیفہ بغداد کی طرف سےکوفہ کاگورنر تھاوہ بہت ظالم انسان تھااس امت میں کلمہ گو مسلمانوں میں سےشاید ہی کوئی اس سے ظالم انسان گزرا ہو۔ سوالاکھ مسلمانوں کےخون سے اس نے اپنے ہاتھ رنگین کیےہیں لیکن جب یہ وہاں کوفہ کاگورنر بن کے گیا تو وہاں صلحاء اور علماء کی ایک ایسی جماعت تھی جو مستجاب الدعوات تھی اس کا مطلب یہ ہوتاہےکہ جو اللہ سےدعا کریں وہ اللہ قبول کریں۔ جب بھی کوئی ظالم حکمران آتا تو یہ نیک لوگ بددعاکرتے اللہ اس کی حکومت کو ختم فرمادیتے۔
یہ نیک لوگ تھے ان کی دعائیں قبول ہوتی تھیں۔تو جب حجاج بن یوسف سے انٹیلی جنس کے لوگوں نے کہا کہ یہاں کچھ لوگ ہیں جو مستجاب الدعوات ہیں ان کی دعائیں قبول ہوتی ہیں جب بھی وہ کسی ظالم حکمران کے خلاف بددعاء کرتے ہیں وہ قبول ہوتی ہےحجاج بن یوسف نے ظلم کرنے تھے اور ان کی بددعاؤں سےبھی بچنا تھا، اس مقصد کے لیے اس نے طریقہ یہ اختیار کیا کہ ان صلحاءلوگوں کو اپنےدربار میں دسترخوان پر بلایا اور کھاناکھلایا۔
جب کھاناکھاچکے تو ان سے حجاج بن یوسف نے کہااب مجھےتمہاری بددعاؤں کی کوئی فکر نہیں اس لیے کہ میں نے تمہارے حلق میں حرام غذا اتار د ی ہے۔ انسان کے پیٹ میں حرام جائے تو دعابھی قبول نہیں ہوتی۔
گھٹی کون دے؟
تو پہلا کام یہ کریں کہ جب گھٹی دینی ہے تو اس وقت اس بات کاخیال کریں نیک آدمی سے گھٹی دلوائیں۔ کھجور ہے شہد ہے جو چیز بھی ہے نیک آدمی سےدلوائیں عموماً آپ نےدیکھا بچہ کو جس نے گھٹی دی ہے بچہ پر اس آدمی کے اثرات و ثمرات نظر آتے ہیں۔ حضرت حسن رضی اللہ عنہ پیدا ہوئے ہیں حضرت علی رضی اللہ عنہ نے گھٹی دی ہے اور جب حضرت حسین رضی اللہ عنہ پیدا ہوئے ہیں تو ان کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے گھٹی دی۔ اب بتاؤجس کو گھٹی بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دی ہو اس کے اچھے اعمال کا تو انسان تصور بھی نہیں کرسکتا۔
ایک کام تو یہ کریں بچہ کو گھٹی کسی نیک آدمی سے دلوائیں یہ پھوپھی، چاچی، مامی ان رشتوں کا احترام کریں ،ہم یہ نہیں کہتے کہ رشتوں کا احترام نہ کریں لیکن گھٹی کے معاملے میں تقویٰ کا خیال کریں رشتہ داری کانہیں۔ اگر ایک آدمی رشتہ دار تو نہیں لیکن متقی اور پرہیزگار ہے تو اس سے گھٹی دلوائیں اور رشتہ دار نیک نہ ہو ں تو ان سے گھٹی نہ دلوائیں۔
بالوں کے برابر صدقہ دیں
ہمارے ہاں جب بچہ کا نام رکھنے کا وقت آتا ہے نام رکھتے ہیں اور بال بھی مونڈتے ہیں اس وقت بہت سے گناہ پھر شروع کرتے ہیں رسم ورواج کرتے ہیں سنت طریقہ یہ ہے کہ حجامت کریں اور ان بالوں کے برابر چاندی تول کر صدقہ کریں یہ چاندی اللہ کے راستے میں صدقہ کیوں کروائی ہے اس لیے کہ ایک حدیث میں ارشاد ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم صدقہ کیا کرو۔ کیوں؟
الصدقة تطفيء غضب الرب
شعب الایمان، رقم الحدیث 3351
صدقہ اللہ کے غصہ کو یوں ٹھنڈا کردیتاہے جیسے پانی آگ کو ٹھنڈا کردیتا ہے۔ جیسے پانی سے آگ بجھ جاتی ہے ایسے ہی اللہ کا غصہ ٹھنڈا ہو جاتا ہے۔ تو بچہ کی پیدائش پراس بچہ کی طرف سے صدقہ ہو جائےتاکہ آئندہ چل کر اللہ کی رحمت کا مستحق بنے اللہ کے غضب کامستحق نہ بنے۔
بچے کا نام کیسا ہو؟
اس کے بعد اس بچہ کا نام رکھیں۔ نام کیا رکھنا چاہیے؟نا م یوں رکھے اگر بچی ہے تو کسی ولیہ کا نام رکھے، کسی صحابیہ کا نام رکھے، کسی نیک عورت کا نام رکھے۔ اگر بیٹا ہے تو نبی کانام رکھے، کسی صحابی کانام رکھے، مجتہد، فقیہ کا نام رکھے، مفسر، محدث، عالم کانام رکھے۔اس بات کاخیال رکھے کہ نام اچھارکھے۔اس کی وجہ کیا ہے؟ نبی علیہ السلام نے ارشاد فرمایا:
إنكم تدعون يوم القيامة بأسمائكم و أسماء آبائكم فأحسنوا أسماءكم
شعب الایمان، رقم الحدیث 8633
کہ قیامت کے دن تمہیں تمہارے باپوں اور تمہارے ناموں کو ناموں سے پکارا جائے گا اس لیے اپنے بچوں کے نام اچھےرکھاکرو۔ جیسا بچہ کانام ہوتاہے اللہ اس شخصیت کےنام کے اثرات کو اس بچہ پر ڈال دیتے ہیں پس اگر کوئی نام اچھانہ رکھے تو نام بدل دینا چاہیے۔ خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے نام تبدیل فرمائےہیں۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ کا بیٹا پیدا ہو ا پوچھا نبی علیہ السلام نےکیا نام رکھا ہے؟ انہوں نے کہا میں نے حرب رکھاہے۔ نبی نےفرمایا حرب نہ رکھو حسن رکھو۔ اب حرب کا مطلب جنگ ہے اور حسن کا مطلب اچھا، صلح جو ہے۔ اس نام بدلنے کا نتیجہ کیا ہوا؟ جب حضرت علی اورحضرت معاویہ رضی اللہ عنہما یہ دونوں فوجیں مسلمانوں کی آپس میں لڑی ہیں اورجنگ وجدل شروع ہوا، حضرت علی رضی اللہ عنہ کے جانے کے بعد حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ اور مخالف مسلمانوں کی فوج کےدرمیان صلح کروانے والے حضرت حسن بن علی رضی اللہ عنہ ہیں۔ اس طرح کے واقعات ہمارے ہاں بھی بہت ملتے ہیں۔
انوکھا نام رکھنے کا شوق
بچے کانام بہت اچھا رکھیں اس سے بہت فرق پڑتا ہے لوگ نام ایسا رکھتے ہیں جو پہلے کبھی کسی نے نہ رکھا ہو۔ عموماًلوگ کہتے ہیں ایسا نام بتائیں جو پہلے کبھی کسی نے نہ رکھا ہو۔ میں کہتا ہوں اگر ایسانام رکھو گے جو پہلے کسی کانام نہیں تو یہ ایسا کام کرے گا جو پہلے کسی نے نہ کیا ہو انو کھے نام کےانوکھے کام ہوں گے۔ پھر تم نےپریشان ہونا ہے ماں بھی پریشان ہے بہن بھی پریشان ہے کہ ہمارا لڑکا دیکھو کیسا کام کرتا ہے جو ہمارےخاندان نے پہلے کسی نے نہیں کیا۔ ہمارےخاندان کو برباد کردیا ہے۔ تو تم نے اس وقت کیوں نہیں سوچا جس وقت نام رکھ رہےتھے؟ نام ایسا نہیں رکھتے جو خاندان میں اچھا نام ہوتا شریعت میں اچھا نام ہوتا۔ اس کانقصان کیا نکلا؟ اس نے برے کام شروع کردیے، اچھےنام رکھتے اللہ ان سے اچھے کام لے لیتے۔ تو نام اچھا رکھناچاہیے۔
بلا سوچے سمجھے قرآنی الفاظ پر نام رکھنا
ہمارے ہاں ایک اور مرض یہ ہے قرآن کھولیں آنکھیں بند کرکے حرف پر انگلی رکھیں جس حرف پر انگلی آئے وہ ہی نام رکھ دیں۔ اللہ کی بندی یہ تو دیکھو جس حرف اورلفظ پر آپ کی انگلی آئی ہے اس کا معنی کیا ہے؟ کبھی لفظ کامعنی گندا نہیں ہوتالیکن جس کا وہ نام ہوتا ہے وہ بندہ گندا ہوتا ہے۔ اگر آپ نے قرآن کھولا، آنکھ بند کرکے انگلی رکھی اور نیچے فرعون آگیا توکیا بچے کانا م فرعون رکھ دوگی؟ بچے کانام قارون رکھ دو گی؟ بچے کانام شیطان، ابلیس رکھ دوگی؟ کوئی بھی رکھنے کے لیے تیار نہیں تو ہم نے یہ گندی رسم کیوں اختیار کی؟
حضرت مفتی رشید احمد لدھیانوی مفتی اعظم پاکستان بہت بڑے عالم،فقیہ اور بہت نیک بزرگ تھے۔ حضرت فرمانےلگے ہمارےپاس ایک آدمی آیا پوچھا، بچی کانام ؟اس نےکہا اسریٰ۔حضرت نےپوچھا تم نے بچی کانام اسریٰ کیوں رکھا ہے ؟اس نے کہا ہم نے قرآن کھول کر انگلی رکھی آنکھ کھول کر دیکھا تو اسریٰ پر ہماری انگلی آئی ہم نے یہ نام رکھ لیا۔مفتی رشید احمد صاحب فرمانےلگے تم یہ بتاو اسریٰ کا معنی کیاہے؟ اس نےکہا ہمیں تو اسریٰ کامعنی معلوم نہیں۔ توانہوں نےکہا اس کامطلب ہے رات کو لے جانا
سُبْحَانَ الَّذِي أَسْرَى بِعَبْدِهِ لَيْلًا
سورة الإسراء، 1
اللہ وہ ذات پاک ہے جو اپنےنبی کو رات کو لے گئے تھے معراج پر۔ تو آپ نے اس کانام رکھا ہے اسریٰ تو جب بچی بڑی ہو گی معنی کاپتہ چلے گا تو یہ سوچے گی ناں میری ماں نے میرا نام یہ کیوں رکھا ہے؟ ایسا نام آپ نے اس کو کیوں دیا جس سےغلط خیال ذہن میں آنا شروع ہوئے۔
نام کس سے رکھوائیں
ہمارارواج ہے جب نام رکھ لیتے ہیں تو پوچھتے ہیں اس کامعنی کیاہے؟ ہم سے پوچھا جب بچی پیدا ہوئی تھی؟ اس کا نام رکھو عائشہ، اس کانام رکھو خدیجہ، اس کانام رکھو زینب۔ اب عائشہ خدیجہ زینب کامعنی کیا ہے؟ معنی پوچھیں گے۔ اللہ کے بندیو!ان کے معنی سےمطلب نہیں ہے۔ بعض الفاظ ایسے ہوتے ہیں ان کے معنی کو نہیں دیکھتے بلکہ جس شخصیت کانام ہے اس شخصیت کو دیکھتے ہیں۔ تو شخصیت کے حساب سے نام رکھیں گے اللہ اس شخصیت والے اعمال وآثار عطا فرمائیں گے۔اس با ت کاخیال رکھیں۔
پھر ہمارے ہاں بہت سی مستورات بھی ہیں اور پھر دوست احباب بھی ہیں وہ ہمیں فون کرکے پوچھتےہیں کہ مولانا صاحب یہ ہم نےنام رکھا ہے تو اس کامعنی بتائیں۔ میں ان سے پوچھتا ہوں یہ نام کس نے رکھا ہے ؟کہا یہ بچے کی خالہ نے نام رکھا ہے تو میں نے کہا جب نام خالہ نے رکھا ہے تو معنی خالہ سے پوچھیں۔ ماموں نے نام رکھا ہے تو معنی ماموں سے پوچھیں۔ کہتے ہیں نام ماموں نے رکھاہے معنی آپ بتائیں۔ میں نے کہا عجیب بات ہے بھئ تم نام بھی ہم سے پوچھ لیتے کہ نام کو ن سا رکھیں تو جس نے نام رکھا ہے معنی اس سے پوچھاکریں یا پھر نام بھی ہم سے پوچھا کریں اور معنی بھی ہم سے پوچھا کریں۔
اس لیے اپنے ماموں اور خالو سے نا م نہ رکھوائیں کسی عالم سے رابطہ کرکے ان سے نام پوچھاکریں۔ نیک عالم سے مراد یہ ہے کہ آپ کے پاس مدرسہ موجود ہے مدرسہ میں استانیا ں پڑھاتی ہیں، استانیوں سے پوچھیں کہ ہمارے ہاں بیٹی پیداہوئی ہے، بیٹا پیدا ہواہے کیا نام رکھیں؟ جو نام بتا دیں اس کا وہ نام رکھ لیاکریں۔
سب سے پہلے اللہ کا نام یاد کرائیں
بچے کانام رکھنے کے بعد کوشش کیاکریں کہ جب آغازکریں تو اللہ کے نام سے آغاز کریں کہ بچہ جب بھی بولے تو اللہ کا نام لے، دومرتبہ دس مرتبہ اس کے سامنےباربار اللہ اللہ کہیں۔ اس بچے کی زبان سے اللہ کا نام جاری ہو گا۔ ہمارے ہاں جو بچہ ہوتا ہے جب وہ تھوڑاسا چلنے کے قابل ہوتا ہے، جب وہ بولنےکے قابل ہوتا ہے یاتواس کو جو مہذب لوگ ہیں وہ امی ابو یا د کرائیں گے اور جو تھوڑے سے غیرمہذب ہیں وہ امی ابو کی بجائے ان کو دوسرے نام یاد کروانا شروع کرتے ہیں۔ ایسے الفاظ ہوتے ہیں کہ مجھے اپنی زبان سے کہتے ہوئے شرم آتی ہے۔
پہلے ہم اپنے بچوں کو شروع میں اللہ کانام یاد کروائیں۔ گھروالے یا تو امی ابو یاد کروائیں گے یا امی ابو کو یاد کروانے کی بجائے دائیں جانب اور بائیں جانب کے نام یاد کروائے جاتےہیں تو کوشش کریں کہ بچے کی زبان سے شروع سے ہی یہ کلمات جاری ہوں۔ یہ کلمات اللہ تعالی کےنام ہیں۔ بیٹے کی زبان سے اللہ تعالیٰ کے نام جاری کروائیں۔ بیٹا اللہ کدھر ہے؟ اللہ کتنےہیں؟ ہمارے اللہ کون ہیں؟ ہمارے نبی کون ہیں؟ ہمارے مذہب کانام کیاہے؟ وغیرہ بچوں کو شروع سے یہ چیزیں یاد کروائیں۔
ماں کانام تو اس کویاد ہوہی جاتاہے باپ کانام اس کویاد ہوہی جاتاہے۔ ہم یاد کروائیں تب بھی ہوگا نہ کروائیں تب بھی ہوگا تو اپنے بچوں کو اللہ کانام یاد کروائیں۔ اور جب بچہ ابھی بچہ ہے تو اس کے لیے گھر میں کھلونے لاتے ہیں کھیلنے کے لیے۔ کھیلناتو خیر بعد کی بات ہے پہلے ہم اس بچہ کےلیے کپڑے خریدتےہیں۔ کپڑے خریدنے میں چند باتوں کا بہت اہتمام فرمائیں۔
بازاری کپڑے نہ خریدیں
اس بات کاخیال کریں کہ بازار سے ریڈی میڈ کپڑے لانے کی بجائے اپنے گھر میں بچوں کو تیار کرکے کپڑےدیاکریں۔گرمی ہے تو ململ کا کپڑاہے کاٹن کے کپڑے مل جاتے ہیں۔ سردی ہے تو کپڑے مل جاتےہیں کوشش کریں کہ خود تیار کرکے بچوں کو کپڑے پہنائیں اس سے ماں کی محبت کا اندازہ ہوتا ہےبہنوں کی محبت کااندازہ ہوتاہے اور دوسرے رشتہ داروں کی محبت کا اندازہ ہوتاہے۔
ریڈی میڈ کپڑے پہنانے کی بجائے اپنی اولاد کو اپنے گھر کے تیار کردہ کپڑے پہنائیں اور یہ تب ہوگا جب آپ کو سلائی آئے گی، یہ تب ہو گا جب آپ کو کڑھائی آئے گی۔ اس کے لیے ہم پورا اس کا اہتمام کرتے ہیں ابھی ہم نےدو سالہ فاضلہ کورس شروع کیاہے تو بچیوں نے پڑھنا شروع کیا ہے فی الحال ہم نے ان کو سلائی شروع نہیں کرائ۔لیکن ان شاء اللہ ہمارے مدرسے کے نصاب کا حصہ ہے کہ ہم مستقبل میں آگے جا کر ششماہی امتحان کے بعد یا سالانہ امتحان کے بعدشعبان رمضان میں دو مہینے چھٹیاں ہوں گی ہم اس میں ان شاء اللہ بچیوں کو ضرور سلائی سکھائیں گے۔
کچھ مشین ہمارے پاس ہیں اور دس پندرہ مشین ان شاء اللہ اکتوبر کے مہینے میں نئی آجائیں گی۔ وہ آبھی گئیں تو آپ کو ملیں گی نہیں، ملیں گی تب جب آپ کا دو سالہ فاضلہ کورس مکمل ہو گا۔ مطلب یہ ہے کہ سلائی اور کڑھائی خود کریں اپنےگھر میں اگر عورت کو صحیح کڑ ھائی آتی ہو تو خاوند کی مالی حالت ٹھیک نہ ہو تو خاوند بیمار ہو گھر میں غربت ہو گھر میں دو چار کپڑے ایک آدھ جوڑا روزانہ سی کر اپنے گھر کا اچھی طرح گزارا کرسکتی ہیں۔ اور پردہ کے ساتھ عزت کے ساتھ چلیں۔ اگر یہ بھی نہ کرسکیں شرم آتی ہو تو کم از کم اپنے شوہر کو اپنے ہاتھ سے تیار کرکے دے سکتی ہو اپنی اولاد کو تیار کرکے خود دے سکتی ہو۔
کم خرچ بالا نشیں
اب پتہ ہے کہ عید کے موقع پر ایک لباس وہ ہے جو درزی تیار کرتاہے ایک لباس وہ ہے جوبیوی نے خود تیار کیا۔ اب اگر بیوی تیارکرکے شوہر کو کہتی ہے کہ یہ سوٹ میں نے آپ کے لیے بنایا ہے تو شوہر کے دل میں بیوی کی کتنی محبت ہو گی، بیوی کی قدر ہو گی، عظمت ہوگی کہ میری بیوی کتنی اچھی ہے۔ رمضان کے روزے میں میری خاطر کتنی محنت کی ہے اس سے شوہر کا دل بیوی کی طرف مائل ہوتا ہے محبتیں بڑھتی ہیں اور پیسے بچتے ہیں۔ آج کل تو درزیوں کی 6 سو، 8 سو، 15، 15 سو روپےتک سلائیاں شروع ہو گئی ہیں۔ اس قدر اخراجات اگرعورتیں چاہیں تو گھر میں بچاسکتی ہیں عید کے موقع پر، شادی کے موقع پر، سردی اور گرمی کے کپڑے خود سی لیں۔میرا مقصد یہ ہے کہ جو بچہ آپ کےگھر میں ہے اس کو ریڈی میڈ سوٹ کی بجائے گھر کے کپڑے پہنایا کریں، کیوں ؟
بازاری کپڑوں کی نحوست
ریڈی میڈ کا اگر کوئی بھی قصور نہ ہو تو بازار کے ماحول سے کپڑا گذر کے آتاہے اور بازار کی ہواؤں کے ثمرات کو لےکرآتا ہے۔ حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی رحمہ اللہ ہمارے مسلک دیوبند کے بہت بڑے عالم اور فقیہ تھےاور میں آپ کو بار بار سمجھاتا رہتا ہوں کہ اپنے علماء دیوبند کے نام یاد رکھا کریں۔ ہم سنی ہیں ہم حنفی ہیں ہم دیو بندی ہیں۔ آپ کےذہن میں ہونا چاہئے کہ کوئی بندہ پوچھے تم کون ہو؟ تم کہو ہم سنی حنفی دیوبندی ہیں۔ اپنا نام بتانے میں کبھی جھجک محسوس نہ کیا کرو پھر اپنے اکابر علماء دیوبند کے نام یاد رکھاکرو کہ ہمارے دیوبند کامدرسہ فلاں نے بنایا تھا۔ ہمارے سب سے بڑ ے پیر فلاں تھے۔ مولانا قاسم نانوتوی نے مدرسہ دارالعلوم دیوبند کی بنیاد رکھی ہے۔ مولاناحاجی امداد اللہ مہاجر مکی ہمارےسب سے بڑے پیر ہیں۔ حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی ہمارے بزرگ ہیں۔ یہ نام ذہن میں رکھاکرو۔
مولانارشید احمد گنگوہی رحمہ اللہ علیہ تشریف فرماتھے ان کے پاس ایک آدمی آیا اور اس نے ان کو رومال پیش کیا حج سے واپس آنے کے بعد۔ حضرت نے اس رومال کو چوما اور اس کو اپنے سر پر رکھا اور اس کے ہدیہ کو قبول کیاکسی بندے نے کہا کہ حضرت آپ نے رومال کا اتنا احترام کیوں کیا ؟فرمایا مدینے سے آیا ہ۔ے اس بندے نے کہا حضرت آپ کو پتا ہےمدینے میں بکا ہےاور آپ کے پاس آگیا ہے۔
حضرت فرمانے لگے مجھے پتا ہے کہ یہ چائنا کابنا ہوا ہے مدینے میں بکاہے۔ مدینہ منورہ پیغمبر کے شہر کی ہوا تو لگی ہےناں۔میں نے اس ہو ا کی وجہ سے اس کو چوم لیا ہے اور میں نے اس کو اپنے ماتھے پر رکھ لیا ہے۔ یہ ہمارے اکابر کامزاج ہے۔ اچھی ہوا لگ کے آئے تو اچھے اثرات ہیں اور جو بازار کی گرد لگی ہے تو وہ بازاری ثمرات لائے گی تو کوشش کریں کہ اپنی اولاد کو ایسے لباس نہ پہنائیں۔
تصویر والے لباس کا وبال
اگر کوئی ریڈی میڈ کپڑاآجائے کسی نے ہدیہ دےدیا ہے اور گفٹ دے دیا ہے باہر سے آگیا ہے میں یہ نہیں کہتا آپ اس کو پھینک دیں۔ یہ دیکھیں اس کے اوپر کوئی تصویر تو نہیں؟ اگر کوئی جاندار کی تصویر ہے تو اس تصویر کو اتار دیں۔ کتے بلی جاندار کی تصویر ہے ہٹائیں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
لَا تَدْخُلُ الْمَلَائِكَةُ بَيْتًا فِيهِ كَلْبٌ وَلَا تَصَاوِيرُ
صحیح البخاری، رقم الحدیث 5949
جس گھر میں کتا یا جاندار کی تصویر ہو رحمت کے فرشتے نہیں آتے۔ اگر وہاں پر کسی بندے کی موت آگئی ایک مرتبہ سیدھا اس کو جہنم کا غوطہ ضرور لگے گا چاہے وہ جتنا نیک کیوں نہ ہو رحمت کا فرشتہ آئے گا تو جنت کی طرف جائے گا۔ اگر رحمت کا فرشتہ نہیں تو دوسری طرف اس کولےکر جائے گا پھر اپنےاعمال کی وجہ بے شک اس کی مغفرت ہو اور جنت میں چلا جائے۔
بچپن سے تربیت کریں
ہمارے ہاں کیا روا ج ہے کہ بچہ ہے، بچہ ہے، ارے بابا بچے کو بات سمجھائیں گے تو بڑاہو کر بات سمجھےگا۔ اگر بچے کو یہ باتیں نہیں سمجھائی گئیں تو بڑےہو کر بچے کو سمجھ کیسے آئےگی؟ بچپن سے آپ نے اس کو گنا ہ کا عادی کردیا تصویر یں دکھا کر اس کا مزاج بنادیا تو بچے آگے چل کر یہی کام کرے گا۔ بچہ تھوڑا ساسیکھنے کے قابل ہو تو اس کو اور باتوں میں لگا دیں اگر نہ سکھایا تو مستقبل میں نقصان ہو گا ایمان برباد ہوگا۔
اس کے دل میں جو تصویر کی حرمت ہے وہ ختم ہوجائے گی اس کے دل میں جو تصویر کی لعنت ہے وہ ختم ہو جائے گی اس کے دل میں تصویر کے بارے میں وہ سبق ہوناچاہیےجو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے دیا ہے۔ ورنہ اس کاذہن بدل جائے گا تصویروں سے محبت کرے گا اور اس کا جرم اور گناہ والدین کے کھاتے میں ہوگا۔ بچہ تو معصوم ہے اس کو پتہ نہیں کسی رسم و رواج کا۔
کھلونے کیسے ہوں؟
ان کو ایسے کھلونے لاکے دو جن کے اوپر تصویر نہیں ہے بغیر تصویر کے ٹینک دے دو اس بچہ کو تانگہ دے دو، کار دے دو، یہ چیزیں اس کو دو۔اس کا بہت زیادہ ہمیں خیال کرنا چاہیے اور ایسا کھلونا بچہ کو نہ دے جس میں ساز آئے اس کی وجہ یہ ہے اگر بچہ کو بچپن سے ساز سنایا اس کے کانوں کی عادت بن جاتی ہے۔ساز سننا، گاناسنناتو نتیجہ کیانکلے گا ؟جب بڑا ہوگا اس کو چسکا پڑجائے گا اس چسکے کانتیجہ یہ ہوگا کہ بعد میں گناہوں کا عادی بنے گا۔ ابھی آپ کو بات سمجھ نہیں آرہی سمجھ تب آئے گی جب آپ نےاس کوگانے اور ساز کا عادی بنایا بڑا ہو کر گانے کی وجہ سے بے حیاِِِئی کا عادی بنےگا۔
اور جب یہ اپنےعلاقے، اپنے محلے میں کوئی گند کرے گا کسی لڑکی سے تعلق قائم کرے گااور والدین کی بدنامی کا ذریعہ بنے گا تو اسی ماں نے رونا ہے اسی باپ نے رونا ہے ہماری عزت خاک میں مل گئی۔یہ جو عز ت خاک میں ملی ہے آج نہیں سولہ سال کی محنت کا نتیجہ ہے۔ پہلے دن سے آپ نے عادت ڈالی تھی عزت خاک میں مل گئی۔ تو بچہ کوریڈی میڈ کپڑے نہ پہنائیں۔ اگر ریڈی میڈ کپڑے ہوں توان کے اوپر تصویر نہیں ہونی چاہیے۔بچہ کو کھلونادیں تو تصویر نہ ہو۔ تصویر والےکھلونوں سے گھر کو مکمل طور پر پاک رکھیں۔
اگر نماز پڑھنے لگیں تو بچہ کو ساتھ بٹھائیں۔ تلاوت کرنے لگیں تو ساتھ بٹھائیں ایک وقت آئے گا کہ قرآن کریم اور تلاوت، دعاسے بچہ مانوس ہوگا۔اس دعا سے بچہ کامزاج بن جائے گا۔اور کل کو یہ بچہ بڑاہوکر خود بخود دین پر چلتارہے گا اور اس کو دنیا داری کبھی متاثر نہیں کرے گی۔
پہلے مدرسہ پھر سکول
جب بچہ مزید چلنے پھرنے کےقابل ہو تو اس کوسب سے پہلے دین پڑھاؤ۔ ہم سکول کی مخالفت نہیں کرتے سکول کی ضرورت ہے۔لیکن سکول بعد میں پڑھاؤ۔ اب دیکھو اس نےسکول جا کر کیا سیکھنا ہے؟ " ا،ب، پ، ت" تو اس کو مدرسے بھیج دو یہاں سے "ا،ب، ت،ث" پڑھے گا وہ پٹی پڑھنےکی بجائے یہ پٹی پڑھ لے گا۔ پھر بچہ وہاں جائے گا تو ماحول اور ہو گا۔
ہمارے ہاں کہتےہیں پہلے بچہ کو پانچ جماعتیں پڑھا لیں پھر اس کو مدرسہ داخل کرادیں گے۔ ہم کہتے ہیں کہ پہلے بچہ کو قرآن کا حافظ بنالو پھر پانچ پڑھالو۔ اب تو حکومت نے ہمارے لیے بہت مسئلہ حل کردیاہے کہ میڑک تک کوئی امتحان ہی نہیں ہے جب چاہو میڑک کاامتحان دے کرپاس ہو جاؤ۔ یہ جو پانچ سا ل تم نے پرائمری پر لگانے ہیں تین سال پھر مڈل پر لگانے ہیں پھردو سال میڑک میں۔ یہ جو دس سال لگانےہیں اس کی جگہ اگر بچہ یا بچی کو مدرسہ میں داخل کراؤیہ وہاں ناظرہ پڑھے پھر قرآن کریم حفظ کرے اس کےبعد یہ تین سال میں میڑک کرے گا تو دیکھو یہ جو اس نے دس سال میں کرنا تھابغیر حفظ کے، یہ بچہ اگر مدرسہ میں بیٹھ جائے گا تو پانچ سال میں حفظ کرکے میڑک تک پہنچ جائے گا۔
تو کتنا آسان ہے! تھوڑی عمر میں میڑک بھی کر ے گا تھوڑی عمر میں حفظ بھی کرے گا اور اس کا حافظہ کھل جائے گا۔ اور اللہ کی شان یہ ہے کہ جو بچہ مدرسہ میں داخل ہے اس کے اخرجات بھی نہیں ہیں۔ نہ مدرسوں کی فیسیں ہیں نہ مدرسوں کے یونیفارم ہیں۔سب بچت ہے اس لیے میں اپنی طرف سے تمام ماؤں، بہنوں اور بیٹیوں کو مشورہ دیتا ہوں اپنی اولاد کو خواہ بیٹی ہو یا بیٹا، پہلے دین پڑھاؤ اور بعد میں اس کو سکول پڑھاؤ۔ اگر سکو ل میں چلی گئیں بچیاں تو ان کو اہتمام کروائیں کہ صبح شام مدرسہ میں آئیں۔قرآن پاک پڑھیں اور مسائل سیکھیں اور جب چھٹیاں ہو ں تو چھٹیوں کے اندر چالیس دن کا کورس مدرسہ میں ضرور کریں۔ اللہ سب کو توفیق عطافرمائے۔
اس بات کی ہم عادت ڈالیں کہ پیدائش سے لے کر موت تک سنت کے مطابق زندگی گزارنی ہے۔ بچہ کی دینی تربیت کریں، بچہ کانا م اچھارکھیں،کبھی بھی وہ بچہ اپنے والدین کا باغی نہیں بنے گا۔ اور جب بچہ کے ساتھ ایسا نہیں کریں گے تو بچہ اپنے والدین کاباغی بنے گا۔ اس پر لوگ پریشان ہوتے ہیں کہ ہمارا بیٹا ہمارا خیال نہیں کرتا، ہمارا بیٹا ہماری خدمت نہیں کرتا۔ اب اتنی مائیں ہمارے پاس آتی ہیں میرا بیٹا میراخیال نہیں کرتا۔ میرا بیٹا جوتی مارتا ہے۔ میرابیٹا بیوی کی خاطر مجھے گھر سے نکالتا ہے۔ جب تم نے حالات ایسے پیدا کیے تو اب ان کا نتیجہ یہی ہونا تھا۔
بری تربیت کا برا نتیجہ
میں اس پر ایک واقعہ عرض کرتا ہوں۔پہلے حق اولاد کا والدین پر ہے اور پھر والدین کا حق اپنی اولاد پرہے۔ والدین اپنی اولاد کاحق مانتے ہیں لیکن دینے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔ حضرت امیرالمومنین عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ؛ ان کی بیٹی حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر میں ہیں حضور کے دوسرے نمبر کے خلیفہ ہیں،آپ کے چار خلیفہ تھے۔ جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد جانشین بنے ہیں۔پہلے ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ، دوسرے حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ، تیسر ے حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ، چوتھے حضرت علی حیدرکرار رضی اللہ عنہ۔ جس کو ہم کہتے ہیں خلافت ِ راشدہ اس کامعنی یہ چار ہیں،خلفاء ہیں،اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بتائی ہوئی ترتیب کے مطابق ہیں۔ ان میں دوسرے خلیفہ حضرت عمر بن خطاب ہیں ان کاواقعہ ہے کہ جب امیر المومنین تھے اور خلیفہ وقت تھے، امیر المومنین کیوں کہتے ہیں؟
اصل میں ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو کہتے ہیں خلیفۃرسول اللہ۔ یہ حضور کے خلیفہ ہیں۔ جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ خلیفہ بنے۔ اب مسئلہ بنا ان کو کیا کہیں: خلیفۃ خلیفۃ الرسول، حضور کے خلیفہ کے خلیفہ۔ پھر ان کے بعد جو آئے گا ان کو خلیفہ کے خلیفہ کے خلیفہ، امت کو یہ تکلیف نہ کر نا پڑے۔ پھر یہ طے ہوا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو امیرالمومنین کہا جائے اس سے ہماری تاریخ میں پہلاوہ شخص جس کو امیرالمومنین کا لقب ملا ہے وہ حضرت عمررضی اللہ عنہ ہیں۔امت کا پہلا شخص جس کو قاضی القضا ۃ چیف جسٹس کا خطاب ملا ہےحضرت امام ابو یوسف رحمہ اللہ ہیں، ہمارے بہت بڑے امام ہیں۔ اس امت کا پہلا شخص جس کو امام اعظم کا لقب ملا ہے ہو حضرت امام اعظم ابو حنیفہ نعمان بن ثابت ہیں۔اس امت کا پہلا شخص جس کو شیخ الحدیث کا لقب ملا ہے شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا ہیں۔حضرت عمر پہلے وہ شخص ہیں جن کو امیر المومنین کا لقب ملا ہے۔
حضرت عمر کے پاس ایک باباجی آئے تو جوان بیٹاان کے پاس تھا۔ انہوں نے کہا جی! بیٹا میری بات نہیں مانتا میری خدمت نہیں کرتا میراخیال نہیں کرتا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس جوان سے پوچھا تیر اابو ٹھیک کہتا ہے ؟اس نے کہا جی ٹھیک کہتے ہیں۔ حضرت عمر نے فرما یا: دُرہ لاؤ۔ اس کو سزا دینے کے لیے مارنے لگے؛ حضرت عمر کے پاس ہاتھ میں ایک کوڑا ہوتا تھا جس سے وہ سزادیتے تھے؛ تو نوجوان بیٹا کہنے لگا: حضرت آپ پہلےمیری بات سنیں اور اس کے بعد مجھے سزادیں تو مجھے اعتراض نہیں۔ فرما یا تو کیا کہتاہے؟ اس نے کہا جی میرے ابو نے بالکل ٹھیک کہا، نہ میں ان کی خدمت کرتا ہوں نہ میں ان کی بات مانتاہوں اور نہ میں ان کے کسی کام آتا ہوں۔لیکن میرا سوال ہے وہ یہ کہ ابو کا میرے اوپر حق ضرور ہے لیکن پہلے میراحق میرے باپ کے اوپر ہے۔ میرے باپ سے پوچھو میراحق ادا کیا ہے ؟
Love نہیں Arrange Marriage
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا توکیاکہناچاہتا ہے؟ اس نے کہا جی میرا پہلا حق یہ تھا کہ ابا جی نیک عورت سے شادی کرتے تاکہ میری ماں نیک ہوتی۔ میرے باپ سے پوچھو اس نے نکاح کہاں کیاہے ؟ میں آج کی زبان میں یہ بات بڑی بے تکلفی سے اور کُھل کر سمجھانے کی کوشش کرتا ہوں۔ ہمارے ہاں جو Love Marriage کی لعنت آج کے دور میں چلی ہے اس میں کوئی نہیں دیکھتا کہ لڑکی نیک، اچھی ہے۔لڑکا اچھا یا نیک ہے۔ان کاتعلق بن گیا۔ پور ازور لگائیں گے اس لعنت کے اندر ڈوبنے کے لیے۔ اس لیے Love کے بجائےArrange Marriage رکھیں۔ ماں باپ کا انتخاب بہتر سمجھیں۔ بیٹا اپنے لیے اتنی اچھی بیوی منتخب نہیں کرسکتا جو ماں باپ اپنے بیٹے کے لیے منتخب کرسکتے ہیں۔ بالکل اسی طرح کوئی لڑکی اپنے لیے اچھا شوہر منتخب نہیں کر سکتی جس طرح ماں اور باپ اپنی بیٹی کے لیے اچھا خاوند ڈھونڈھ سکتے ہیں۔لڑکے لڑکی کے صرف اپنے جذبات ہوتے ہیں، ماں باپ کے جذبات نہیں ہوتے ان کی نظر میں۔ اللہ سمجھ عطا فرمائیں۔
خیر اس لڑکے نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے کہا ان سے پوچھیں؛ انہوں نے میرے لیے اچھی ماں کاانتخاب کیا ہے ؟ نمبر 2میر احق بنتا تھا جب میں پیدا ہو ا میراباپ میر انام اچھا رکھتا تاکہ اچھے نام کا میرےاوپراثر پڑتا۔ میرے باپ نے میرا نام 'جُعل ' رکھا ہے۔ 'جُعل 'کا معنی ہے گندی نالی کاکیڑا۔ نام یہ رکھاہےتو میں اچھے کام کیسے کروں گا؟ نمبر3میراحق یہ تھا کہ میراباپ مجھے دین کی تعلیم، تربیت، دین کاعلم دیتا تاکہ میں دین کے مطابق چلتا۔ میر ے باپ نے تو مجھے ایک دن بھی دین نہیں پڑھایا۔ نہ ماں اچھی لایا ہے، نہ نام اچھادیا ہے،نہ تعلیم اچھی دی ہے، اب میرا با پ کہتاہے میرے حقوق اداکیوں نہیں کرتا؟ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے پوچھا: ہاں بابا، بات ٹھیک ہے یا غلط ؟ اس نے کہا اس کی تینوں باتیں ٹھیک ہیں۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا اس بیٹے کو لے یہاں سے کر چلے جاؤ۔ پہلے اولاد کے حقوق ادا کر و اور پھر اولا د سے حقوق کے مطالبے کرو۔
میں یہ بچپن کے حوالے سے کہہ رہاتھا۔ اور زندگی تو بڑی ہے ان شاءاللہ آئند ہ بیا نا ت چلتے رہیں گے ، میں عر ض کرتا رہوں گا۔ ہاں اس حوالے سے وہ پہلا بیا ن سمجھیں کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے جو طریقے زندگی گزارنے کے دیے ہیں، اگر ہم ماں کےپیٹ سے لے کر قبر کے پیٹ تک سنت کے مطابق زندگی گزاریں گے اللہ کی قسم دنیا بھی ٹھیک ہو گی قبر بھی ٹھیک ہوگی، اور آخرت بھی ٹھیک ہو گی۔ تو پہلے اس کااہتما م کریں کہ بچہ کی دینی تربیت کا خیال کریں۔گھٹی اس کو نیک آدمی سے دلوائیں۔ نام اس کااچھارکھیں۔
اس کے کان میں اذان دلوائیں۔ دائیں کان میں اذان ہو تی ہے اور بائیں کان میں اقامت ہوتی ہے۔ دائیں کان میں اذان دیں اور بائیں میں اقامت۔ یہ ضرور ی نہیں کہ اذان اوراقامت کے لیے باہر سے کوئی مولوی لے کرآئیں۔ مولانا صاحب مل جائیں تو ٹھیک ہے ورنہ ابا خود اذان دے دے اس کے کان میں، اس کا بھائی اذان دے دے، کوئ رشتہ داراذان دے دے، کوئی بھی دے سکتاہے۔ ہاں کسی نیک آدمی سے اذان دلوائیں تو اس کافائدہ ہو گا۔ نیک سے دلوائیں۔دائیں کان میں اذان دلوادیں اور بائیں کان میں اقامت۔ پھر اس کانام رکھیں۔ تو ایسا نام رکھیں جو نبی کاصحابی یا ولی کا ہو یا اگر ایسانہ ہو تو کم ازکم اس کا معنی اچھاہو۔ کسی عالم سے کسی سمجھدار سے پوچھ کر اس کانام رکھیں اس کے بال اتروائیں اس کے برابر چاندی لے کر صدقہ کردیں اس بچہ کی تربیت کا خیال کریں۔
عقیقہ کا مسئلہ
ساتویں دن اس کانام بھی رکھیں۔ساتویں دن اگر ہو سکے تو اس بچہ کا ختنہ بھی کرادیں اگر ہو سکے تو اس بچہ کا عقیقہ بھی کروادیں۔ اگر بیٹاہے تو اس پر دو بکریاں دیں اگربیٹی ہے تو ایک دیں۔ یہ بکریاں اور بکرے کیوں دیتے ہیں ؟ جیسے کہتے ہیں کہ سرکا صدقہ ہے، کہ جان کے بدلے جان دیں گےتو اللہ اس کی جان کو محفوظ کردیں گے۔ اور مرد کواللہ نے بنسبت عورت کے فضیلت دی، اس لیے مرد کی طرف سے دو بکرے ہوتے ہیں اور عورت کی طرف سے ایک بکری ہوتی ہے، عورت بنسبت مرد کے کمزور ہے۔ اللہ نے پیدائش کے موقع پر مرد کی طرف سے عقیقہ میں دو بکرے ذبحہ کرواکے آئندہ کے لیے درس دیا ہےکہ عورت کی حیثیت وہ نہیں جو مرد کی ہے۔
مرد کی حیثیت دوہری ہے
مرد کی دوہری حیثیت ہے بنسبت عورت کے۔ عدالت میں کیس ہو اور مدعی گواہ پیش کریں مرد ہوں تو فیصلہ ہو جائے گا یادو مرد نہ ہوں تو ایک مرد اور دو عورتیں۔ دو عورتیں ایک مرد کی جگہ پر ہوتی ہیں۔وراثت کامسئلہ ہو تو بھی نسبت ایسی ہے عورت کو ایک گناملے گا مرد کو دوگنا ملے گا۔ اللہ نے پیدائش سے لے کر وفات تک بتایا ہے۔ جب پیداہوا عقیقہ میں دوبکرے یہ بتانے کے لیے مرد کی طرف سے دوگنا فرض ہے اور جب وفات کے بعد وراثت کامسئلہ ہو تومرد کاحصہ بھی دوگنا ملے گا۔
اس تحقیق پر دو چار باتیں ہونی چاہییں۔ عقیقہ میں آپ بکری بھی دے سکتے ہیں، بکر ابھی دےسکتے ہیں۔ایک سا ل تک، اور ایسا دنبہ جو دیکھنے میں ایک سال کالگے اور چھ ماہ کا ہو دے سکتے ہیں۔ اور گائے ہو جیسے عید کا دن ہوتا ہے، گائے کے اندر چھ حصے موجود ہیں تو ساتواں حصہ لڑکی کی طرف سے حصہ رکھنا چاہیں تو رکھ سکتے ہیں۔ آج بہت سارے لوگ پوچھتے ہیں ساتواں حصہ عقیقے میں کریں تو جائز ہے؟ ہم کہتے ہیں بالکل جائز ہے۔
بہت سے لوگ کہتے ہیں اس پر دلیل کیاہے؟ ابو داود میں ایک روایت موجود ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عقیقہ کو لفظ نسک سے تعبیر فرمایا ہے، اور نسک استعمال کرنا اس بات کی دلیل ہےکہ جس طرح قربانی میں اس کا حصہ رکھا جاسکتا ہے اسی طرح عقیقہ میں بھی اس کا حصہ رکھا جا سکتا ہے۔ خیر میں بتا رہا تھا عقیقہ دے کے جان کے بدلے اللہ کو جان دیں تاکہ اللہ تعالیٰ اس جان کی حفاظت فرمائیں۔
ساتوین دن عقیقہ نہ کرسکیں تو؟
اور یہ بات ذہن میں رکھیں کہ اگر ساتویں دن عقیقہ نہ کر سکیں، ساتویں دن عقیقہ کرنا سنت اور مستحب ہے۔ گھر میں جانور موجود نہیں کوئی مسئلہ نہیں مہینہ بعد سال بعد دوسال بعد جب بھی کریں۔ حکیم الامت مو لانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ کوشش کریں کہ ساتویں دن ہو۔ مثال کے طور پر اگر بچہ ہفتہ کو پیدا ہوا تو ساتواں دن جمعہ بنتا ہے۔ اگر سال بعد بھی کریں تو جمعہ کے دن کریں۔ اس کا گوشت خود بھی کھا سکتے ہیں۔ محلہ والے رشتے داروں کو بھی کھلا سکتے ہیں۔ اور جس کو دل چاہے اس کو کھلا سکتے ہیں۔ بس اس بات کا اہتمام کریں عقیقہ کریں۔
خلاصہ
بچے کے اچھے نام کا اہتمام کریں اور اس کے کپڑے سینے کا اہتمام کریں۔ بازاری کپڑوں سے بچیں، اس کے کھلونوں کو تصاویر سے بچائیں،ساز باز سے بچائیں، ایسی چیزیں اس کو نہ دیں۔اللہ تعالیٰ سب کی اولاد کو نیک بنائیں۔اور جب پڑھنے کے قابل ہوں تو پہلے اس کو دین پڑھائیں پھر دنیا پڑھائیں۔اللہ تعالیٰ اس کو دین بھی دے گا دنیا بھی دے گا۔ ماں کے پیٹ سے لے کر قبر کے پیٹ تک ساری زندگی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقوں پر گزارنی چاہیے۔
اللہ تعالی فرماتے ہیں:
لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نمونہ لے کر آئے ہیں۔ کن کے لیے؟ ان کے لیےجو لِمَنْ كَانَ يَرْجُو اللَّهَ وَالْيَوْمَ الْآخِرَ یہ اس بندے کے لیے ہے کہ جس کا ذہن ہے میں نے اللہ سے ملنا ہے۔ جس کا ذہن یہ ہے کہ میں نے قیامت کے دن خدا کو جواب دینا ہے او ر جس کا ذہن ہے:
وَذَكَرَ اللَّهَ كَثِيرًا
کہ وہ اللہ کو یاد کرناچاہتا ہے۔ اللہ کو یاد کرنے کا سب سے بہترین طریقہ کیا ہے؟ یہ کہ اللہ کے احکامات کے مطابق خود بھی چلیں اور اپنی اولاد کو بھی چلائیں، اپنے گھروں میں دین کی باتوں کو عام کریں۔
اللہ تعالیٰ مجھے اور آپ تمام ماؤو ں بہنوں کو بھی اپنے رستے پرچلنے کی توفیق عطافرمائیں۔ اللہ تعالی ٰ ہم سب کوسنت کے مطابق زندگی گزانے کی توفیق نصیب فرمائیں۔ آمین ثم آمین
واٰخر دعوٰنا ان الحمد للہ رب العالمین